“امی کتنی بار کہا ہے ٹینشن مت لیا کریں لیکن آپ میری سنتی ہی کہاں ہیں؟؟ آپ کے سوا میرا ہے ہی کون ؟؟” عالیہ بیگم کو گھر لا کر بسمہ نے اسے بیڈ پر بٹھایا اور انکے ساتھ بیٹھ کر انہیں بھرائی آواز میں شکوہ کیا
“بسمہ میں کوشش کرتی ہوں لیکن کیا کروں مجھے بار بار یہ بات کھائے جاتی ہے کہ میرے بعد تم کیسے رہو گی؟؟ اس بھری دنیا میں تنہا عورت کا اکیلا رہنا کتنا دشوار ہے یہ میں جانتی ہوں ۔۔۔ ہمارا محلہ اچھا ہے اس لیے تمہیں ان سب باتوں کا نہیں پتا ۔۔۔ کب کس کی نیت کیسی ہو جائے پتا ہی نہیں چلتا ۔۔۔ بس یہی فکر مجھے لگی رہتی ہے۔” عالیہ بیگم نے اپنی بیٹی کو ساتھ لگاتے کہا
“امی میں کوئی کمزور لڑکی نہیں ہوں ۔۔۔ میں اپنی حفاظت کرنا جانتی ہوں ۔۔۔ بسمہ آپکی بیٹی ہے اس کی تربیت آپ نے کی ہے تو بھلا بسمہ کمزور کیسے ہو سکتی ہے۔ میری طاقت اور میری کمزور صرف آپ ہیں امی ۔۔۔ آپ ہیں تو مجھ میں طاقت ہے اگر آپ کمزور پڑ جائیں گی تو میں کیسے مضبوط ہو سکتی ہوں۔” بسمہ نے انکا ہاتھ تھام کر کہا
“جانتی ہوں بسمہ کہ میرے کمزور ہونے سے تم کمزور پڑ جاتی ہو لیکن ایک ماں ہوں اگر میں تمہاری فکر نہیں کروں گی تو کون کرے گا۔” عالیہ بیگم نے محبت سے کہا
“بس امی اب آپ زیادہ پریشان نہ ہوں ۔۔۔ جو اللہ کو منظور ہو گا ہم جتنی بھی کوششیں کر لیں اسے ہونے سے ٹال نہیں سکتے ۔۔۔ اور بیشک اللہ ہمارے لیے ہماری سوچ سے بھی اچھا کرتا ہے ۔۔۔ آپ بھی سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیں ۔۔۔ جو ہمارے حق میں بہتر ہو گا اللہ وہی ہمارے لیے کرے گا۔” بسمہ کے لہجے میں اللہ پر مضبوط یقین تھا
“بیشک۔” عالیہ بیگم نے آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کی پیشانی چوم لی۔
____________
اویس گھر آ کر فریش ہوا ۔۔۔ اور عام کمفرٹیبل لباس پہن کر بیڈ پر آ گیا کچھ دیر آرام کی غرض سے لیٹ گیا ۔۔۔ لیکن جیسے ہی آنکھیں موندھی تو بسمہ کا اپنی ماں کے لیے فکرمند چہرہ اسکی آنکھوں کے پردے میں بسا ہوا تھا
“اففف کیا ہو گیا ہے مجھے ؟؟” اویس نے دو تین بار آنکھیں کھول کر دوبارہ بند کی لیکن بار بار وہی چہرہ پردے کے پیچھے آن ٹھہرتا ۔۔۔ وہ جھنجھلا کر اٹھ بیٹھا
“لالہ!!”
طُوبہ گھر آ چکی تھی اسے جیسے ہی اویس کی آمد کا پتا چلا وہ اسے پکارتی اس کے کمرے میں داخل ہوئی
“ارے گڑیا۔” اویس نے طُوبہ کو آتے دیکھا تو فوراً سیدھا ہو کر بیٹھ گیا
“لالہ اب آپ کیسے ہیں ؟؟ میڈیسن لی تھی ؟؟” طُوبہ اپنے بھائی کو چھو کر دیکھتی پوچھنے لگی ۔۔۔ اب بخار میں کافی کمی تھی
“گڑیا تم تین بار کال کر کے یہ بات پوچھ چکی ہو اور میں نے ہر بار کہا تھا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں اور اب بھی یہی کہوں گا زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے میں ٹھیک ہوں۔” اویس نے پیار سے اپنی بہن کو دیکھتے اسکا گال تھپتھپاتے کہا ۔۔۔ اویس طُوبہ سے پورے چھے سال بڑا تھا اس لیے اسے ہمیشہ سے گڑیا ہی کہتا تھا
“جی لالہ لیکن فکر تو ہوتی ہی ہے بہنوں کو ۔۔۔ آج میری بیسٹی کی مدر کی طبیعت بھی خراب تھی اس لیے وہ آج سکول سے جلدی چلی گئی تھی ۔” طُوبہ کا لہجہ افسردہ تھا
“اللہ انہیں صحت دے گا ۔۔۔ یہ وہی بیسٹی ہے جس کی تم کل بات کر رہی تھی۔” اویس نے یاد کرتے پوچھا
“آمین جی وہی ہے ۔۔۔ میری سب سے اچھی دوست ہے ۔۔۔ آج کافی پریشان تھی” طُوبہ نے بتایا
“ہممم تم اسکی مدر کے لیے دعا کرو ۔۔۔ ان شاءاللہ سب بہتر ہو جائے گا۔ ” اویس نے اسے دیکھتے کہا
“جی لالہ۔” طُوبہ نے سمجھداری سے سر اثبات میں ہلایا۔
_____________
“امی جلدی سے ناشتہ کریں پھر میڈیسن بھی لینی ہے۔” صبح بسمہ حسبِ معمول اٹھی اور نماز پڑھ کر ناشتہ بنانے لگی ۔۔۔ آج اسکا ارادہ ماں کو ناشتہ کروا کر میڈیسن خود دے کر سکول جانے کے تھا
عالیہ بیگم ناشتہ کرتے رات سے کشمکش میں تھیں کہ بسمہ کو اسکے تایا کا بتائے یا نہیں ۔۔۔ بہرحال اس نے اب فیصلہ بتانے کا کیا ۔۔۔ یہ بات بسمہ کی زندگی کی تھی تو اسے علم ہونا چاہیے تھا
“بسمہ کل تمہارے تایا اور تائی آئے تھے۔” عالیہ بیگم کی بات پر بسمہ کا منہ کی طرف جاتا نوالا ایکدم رکا تھا لیکن صرف ایک لمحے کے لیے اگلے لمحے وہ بالکل نارمل ناشتہ کر رہی تھی
“یہ تو خوشی کی بات ہے کہ ہم انہیں یاد آ گئے ہیں۔” بسمہ نے مسکرا کر ماں کو دیکھا ۔۔۔ لیکن اس مسکراہٹ میں پھیکا پن عالیہ بیگم نے فوراً نوٹ کیا تھا آخر ماں تھیں
“وہ تمہارا ہاتھ مانگنے آئے تھے۔” اب کی بار بسمہ کے لبوں سے وہ پھیکی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی اور وہ حیرت زدہ ماں کو دیکھنے لگی تھی
“لیکن!!”
“شازیہ ماں نہیں بن سکتی اس لیے وہ لوگ عباس کی دوسری شادی کروانا چاہتے ہیں اور اسکے لیے انہیں تم یاد آئی ہو ۔۔۔ میں نے انکار کر دیا ہے لیکن تمہارے تایا اور تائی سخت الفاظ میں میرے انکار کو رد کر کے دو دن کا وقت دے کر چلے گئے ہیں ۔۔۔ کل دوبارہ وہ لوگ آئیں گے ۔۔۔ لیکن تم فکر مت کرو میں کبھی بھی ہاں نہیں کروں گی ۔۔۔ میں اپنی بیٹی کو کبھی اس دلدل میں نہیں پھینکو گی ۔” عالیہ بیگم نے اسے تفصیل بتاتے حوصلہ دیا
بسمہ خاموش رہی ۔۔۔ لیکن اندر ہی اندر اسے غصہ آیا تھا کہ اب دوبارہ کیوں وہ لوگ چلے آئے اسکی ذات کو ٹھکرا کر اب پھر سے ۔۔۔ لیکن پھر سر جھٹک کر ناشتہ کرنے لگی۔
______________
“بسمہ اب آنٹی کیسی ہیں؟؟” سکول میں آتے طُوبہ نے سوال کیا
“وہ اب ٹھیک ہیں۔” بسمہ مسکرائی
“ماشاءاللہ اللہ انہیں لمبی عمر دے۔ آمین ۔۔۔ میں کل تک چکر لگاؤں گی آنٹی کے پاس ۔۔۔
خیر میں بتانا بھول ہی گئی پتا ہے میرے لالہ نے شادی کے لیے ہاں کر دی ہے ۔۔۔ اور اب انکے لیے پیاری سی بیوی اور اپنے لیے بھابھی ڈھونڈنے کی ذمہ داری میری ہے۔” طوبہ کو جیسے یاد آیا اس نے کچھ توقف کے بعد خوشی سے اسے بتایا
“آہاں یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔۔۔” بسمہ نوٹ بکس سامنے رکھ کر چیک کرتی بولی
“السلام علیکم سر!!” تبھی خضر صاحب کو کیبن میں داخل ہوتے دیکھ کر بسمہ نے سلام کیا
“وعلیکم السلام!! بسمہ بیٹا کیسی ہیں آپ اور آپکی والدہ کیسی ہیں ؟؟” طُوبہ بتا رہی تھی انکی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔” خضر صاحب نے شفقت بھرے لہجے میں پوچھا
“جی سر وہ اب کافی بہتر ہیں۔” بسمہ نے بتایا
“اللہ کرم ہی رکھے ۔۔۔ مائیں بہت بڑی نعمت ہوتی ہیں ۔۔۔ میری نیک تمنائیں آپکے ساتھ ہیں۔” خضر صاحب بسمہ اور طوبہ کی دوستی سے اچھی طرح واقف تھے ۔۔۔ اور وہ بسمہ کو بھی بالکل طُوبہ کی طرح سمجھتے تھے۔اس لیے عالیہ بیگم کا پوچھنے آئے تھے کل طُوبہ نے ہی انہیں بتایا تھا دعا دے کر وہ طُوبہ کی طرف مڑے۔
“طُوبہ بیٹا میں ذرا دیر سے گھر جاؤں گا اس لیے آپ اپنی گاڑی سے گھر چلی جائے گا۔ ” خضر صاحب کہہ کر وہاں سے چلے گئے جبکہ طُوبہ انہیں بتانا چاہتی تھی کہ اسکی گاڑی خراب تھی ۔۔۔ لیکن پھر ایک آئیڈیا آنے سے اطمینان سے چپ کر گئی۔
____________
“مجھے یقین نہیں آ رہا کہ آج کل جب اپنے ہم سے ہمارا حال نہیں پوچھتے وہاں غیر ہمارے لیے اتنا کچھ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے سے لگنے لگتے ہیں ۔۔۔ کل جب اس بچے سے میں نے مدد مانگی مجھے لگا وہ منع کر دے گا لیکن اس نے اپنا وقت ہم غیروں پر صرف کیا ۔۔۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دنیا میں اگر انسانیت پوری طرح زندہ نہیں ہے تو مری بھی نہیں ہے سچ میں اس بچے نے جو ہمارے لیے کیا ہے ہم اس کے ہمیشہ مشکور رہیں گے ۔۔۔ ہیں ناں باجی ” نغمہ کمرے کی صفائی کرتی اویس کی تعریف کر رہی تھی ساتھ میں عالیہ بیگم سے پوچھ بھی رہی تھی
“ہمم ۔۔۔ اصل بات پتا ہے کیا ہے نغمہ رشتے احساس سے بنتے ہیں خون سے نہیں ۔۔۔ خون جتنا بھی اپنا ہو جب تک احساس نہیں ہو گا اس سے ہمارا رشتہ محبت کا نہیں بن سکتا اور غیر چاہے کوئی بھی ہو اگر ان میں احساس ہے تو انہیں اپنا بننے میں وقت نہیں لگتا ۔۔۔ اللہ اس بچے کی ہر تمنا پوری کرے۔” عالیہ بیگم دل سے اسکے لیے دعا گو تھیں۔
“بیشک آمین۔” نغمہ مسکرا دی۔
____________
“اوہ شٹ۔۔” چھٹی ہونے والی تھی طُوبہ نے ایک ای میل سینڈ کرنی تھی لیکن کمپیوٹر میں کچھ پرابلم ہو گئی تھی
“اب کیا کروں ؟؟ ہاں لالہ ویسے بھی انہیں بلانا ہی تھا۔” طُوبہ نے موبائل پکڑا اور اویس کا نمبر ڈائل کیا
“لالہ آپ اس وقت کہاں ہیں؟؟” طُوبہ اویس کے دوسری بیل پر فون اٹھاتے بولی
“مطلب لالہ آپ نزدیک ہی ہیں میں سکول میں ہوں آپ مجھے پک کر لیں گے دراصل میری گاڑی میں کچھ مسئلہ ہے اور بابا لیٹ آئیں گے۔” طُوبہ نے دوسری طرف سے جواب سن کر کہا
“جی اوکے۔” طُوبہ نے کال ڈسکنیکٹ کر دی۔ دس منٹ بعد اسے اویس کا میسج موصول ہوا “گڑیا میں سکول کے باہر ہوں۔” طُوبہ نے کمپیوٹر پر نظر دوڑائی جہاں ابھی بھی سکرین پر ویب سائٹ ٹھیک سے نہیں چل رہی تھی اس نے اویس کو میسج کیا ۔۔۔
“لالہ آپ اندر آ جائیں ۔۔۔ میرے کمپیوٹر میں کچھ مسئلہ ہوا ہے آپ ٹھیک کر دیں بس کچھ وقت لگے گا۔” اویس نے میسج پڑھ کر گہرا سانس لیا اور سکول کے اندر کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔ سکیورٹی گارڈ اسے جانتا تھا اس لیے اس نے کچھ نہیں کہا ۔۔۔ سامنے کاؤنسلر روم کی پلیٹ دیکھ کر اویس اس روم میں داخل ہوا
“گڑیا کیا ہوا ؟؟” اویس نے داخل ہوتے پوچھا
“لالہ یہ ایک ویب سائیٹ نہیں چل رہی۔” طُوبہ نے کمپیوٹر کی سکرین اسکی طرف کی
“اچھا میں دیکھتا ہوں۔” اویس کمپیوٹر کو پروگرام کرنے لگا
بسمہ نے ٹائم دیکھا چھٹی ہو چکی تھی اس لیے وہ اٹھی اور طُوبہ کے کیبن کی طرف بڑھی اسکا ارادہ اس سے مل کر گھر جانے کا تھا ۔۔۔ لیکن جیسے ہی کیبن میں داخل ہوئی سامنے اویس کو کمپیوٹر کی سکرین پر جھکے دیکھ کر وہیں ٹھہر گئی ۔۔۔ آج وہ براؤن پینٹ کوٹ میں ملبوس پیارا لگ رہا تھا ۔۔۔ لیکن بسمہ کو تو اسے دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کہ وہ یہاں کیسے ۔۔۔ اور یہ کیسا اتفاق تھا دو دن میں یہ دوسری بار سامنا ہو رہا تھا ۔۔۔ وہ کل اسکا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی لیکن موقع نہیں ملا تھا اور آج وہ پھر سامنے تھا ۔۔۔ وہ وہیں حیرت میں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی جب طُوبہ کی آواز اسے سنائی دی
“ارے بسمہ آؤ ناں۔” طُوبہ نے اسے دروازے پر کھڑے دیکھ کر اسے اندر بلایا ۔۔۔ اویس نے سر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا اور وہ بسمہ سے بھی زیادہ حیران ہوا لیکن اسکی یہ حیرت کچھ پل میں خوشگوار حیرت میں بدل گئی تھی
“بسمہ یہ میرے لالہ ہیں جن کا میں ذکر کرتی ہوں تم سے اور لالہ یہ میری بیسٹ فرینڈ بسمہ ہے۔” طُوبہ نے تعارف کروایا
“السلام علیکم!” بسمہ نے ہلکا سا مسکرا کر دھیمی آواز میں سلام کیا
“وعلیکم السلام!” اویس کی خوشی اسکے چہرے سے عیاں تھی
“لالہ کمپیوٹر ٹھیک ہو گیا ؟؟” طُوبہ کمپیوٹر کی سکرین دیکھنے لگی ۔۔۔ بسمہ خاموش کھڑی تھی اسے اویس کی نگاہوں کی تپش خود پر محسوس ہو رہی تھی کچھ پل بعد اس نے ہمت کر کے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔۔ دونوں کی نظریں پل بھر کے لیے ملیں تھیں ۔۔۔ اویس کی نگاہوں میں جو دیپ جل رہے تھے انہوں نے فوراً بسمہ کو نگاہیں جھکانے پر مجبور کیا تھا ۔۔۔ اور اسکی لرزتی پلکیں خود بخود جھک گئیں تھی
اویس کے لبوں پر پر اسرار مسکراہٹ اسکی پلکوں کے لرزنے اور جھکنے کے رقص پر مزید گہری ہوئی تھی اور اس نے نظریں پھیر لیں تھیں ۔۔۔ وہ اپنے دل کی بات زبان سے نہیں تو آنکھوں سے اس پر کچھ عیاں کر گیا تھا ۔۔۔ اسے یقین تھا کہ زیادہ نہیں تو کم ہی سہی بسمہ کچھ تو سمجھی ہو گی
“گڑیا ای میل سینڈ ہو گئی ہے ؟؟” اویس نے بسمہ سے نظر ہٹا کر طُوبہ کو دیکھا جو کمپیوٹر پاور آف کر رہی تھی
“جی لالہ ہو گئی ہے ۔۔۔ اوکے بسمہ اب میں چلتی ہوں ۔۔۔ آنٹی کو میری طرف سے سلام کہنا اور بتانا کہ میں کل تک چکر لگاؤں گی۔” طُوبہ اپنا پرس پکڑ کر بسمہ کے پاس آئی اور اس سے کہا ۔۔۔ کل اتوار تھی اس لیے طُوبہ کا ارادہ کل بسمہ کے گھر جانے کا تھا
“ہمم اللہ حافظ اپنا خیال رکھنا ” بسمہ اور طُوبہ دونوں ایک ساتھ باہر آئیں ۔۔۔ طُوبہ بسمہ کو گلے لگا کر الوداع کہتی اویس کی گاڑی کی طرف بڑھ گئی
“شکریہ۔” بسمہ نے اپنے پیچھے دیکھا جہاں اویس اسکے کچھ فاصلے پر تھا اس نے دھیرے سے شکریہ کہا اور ایک سائیڈ سے ہو کر وہاں سے نکلتی چلی گئی جسے وہ کل کہنا چاہتی تھی لیکن کہہ نہیں پائی تھی
اویس سمجھ گیا تھا کہ کل والی بات پر شکریہ ادا کر رہی ہے وہ ایک مسکراتی نگاہ بسمہ کی پشت پر ڈال کر اپنی گاڑی کی طرف آ گیا۔
____________
“لالہ میں نے کل ہی ایک رشتے والی آنٹی کو کال کر دی تھی آج وہ کچھ تصویریں لے کر آئیں گی پھر ہم دونوں مل کر پیاری سی بھابھی پسند کریں گے۔” طُوبہ نے مسکراتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا
“اسکی ضرورت نہیں ہے۔” اویس نے سنجیدگی سے کہا
“کیا مطلب ؟؟ ابھی پرسوں ہی تو آپ نے کہا تھا ٹھیک ہے ۔۔” طُوبہ نے حیرانی سے اپنے بھائی کو دیکھا
“اس کا ذکر بعد میں کریں گے پہلے تم مجھے ایک بات بتاؤ”۔ اویس نے کہا
“اوکے لالہ (طُوبہ نے کندھے اچکا دیے) پوچھیں۔”
“گڑیا یہ تمہاری وہی بیسٹ فرینڈ تھی جس کی تم باتیں کرتی ہو ” اویس نے بات بدلی
“جی لالہ وہی تھی بہت پیاری ہے ۔۔. ہے ناں ؟؟” طُوبہ بسمہ کے ذکر پر مسکرا پڑی اور خوشی سے بتانے لگی
“آپکو پتا ہے لالہ بسمہ اور میں سکول لائف کی فرینڈز تھیں لیکن کالج میں آ کر بچھڑ گئیں ۔۔۔ جب میں کاؤنسلر کے طور پر ہمارے سکول میں آئی تو وہاں بسمہ پہلے سے ہی جاب کر رہی تھی ۔۔۔ ہماری دوستی تو پہلے ہی تھی لیکن اب ہم دونوں بیسٹیز ہیں ۔۔۔ لیکن سکول کی کچھ ٹیچرز کو ہماری دوستی اچھی نہیں لگتی اس لیے وہ بسمہ کو کچھ ناں کچھ کہتی رہتی ہیں جس وجہ سے وہ ہرٹ ہو جاتی ہے ۔۔۔ اس لیے کبھی کبھی وہ مجھے اگنور کرنے کی کوشش کرتی ہے تا کہ کوئی اس پر الزام نہ لگائے تب مجھے بہت غصہ آتا ہے ان ٹیچرز پر ۔۔۔ مطلب کیا امیر اور غریب دوست نہیں ہو سکتے ؟؟ یا انکی دوستی میں مطلب ہونا ضروری ہوتا ہے اور ہمیشہ غریب کو ہی کیوں کہا جاتا ہے ؟؟ بسمہ اور میری دوستی ہے تو وہ سب بسمہ کو الزام دیتیں کہ اس نے امیر لڑکی کو دیکھ کر اس سے مطلب کے لیے دوستی کی لیکن مجھے کیوں نہیں کہتی کچھ؟؟ میں بسمہ کو بہت چاہتی ہوں وہ میری سب سے اچھی دوست ہے ۔۔۔ میں اس سے کبھی دوستی نہیں توڑوں گی ۔۔۔ اور نہ اسے ایسا کرنے دوں گی ۔۔۔ جس نے جو کہنا ہے کہہ لے ۔۔۔ وہ میری دوست تھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔” طُوبہ شروع ہوئی تو رُکنے کا نام ہی نہیں لیا ۔۔۔ روانی سے بولتی چلی گئی ۔۔۔ اسکے لہجے اور انداز میں بسمہ کے لیے محبت تھی جسے دیکھ کر اویس خوش تھا اور اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اسکی گڑیا دوسرے لوگوں کی طرح مغرور نہیں ۔۔۔ وہ معصوم ہے ۔۔۔ ورنہ کچھ لڑکیاں جن کی مائیں نہ ہوں وہ باپ بھائی کا پیار پا کر مغرور ہو جاتی ہیں ۔۔۔ لیکن انکی طُوبہ ایسی نہیں تھی۔ پھر کچھ سوچ کر بولا
“کتنی محبت کرتی ہو تم اس سے ؟؟” اویس کے سوال پر طُوبہ نے اسے ناسمجھی سے دیکھا اسے اس سوال کی توقع نہیں تھی
“بہت زیادہ لالہ۔” طُوبہ نے بتایا
“کیا اتنا پیار کرتی ہو کہ تم اسے اپنی بھابھی بنا لو۔” اویس کے منہ سے نکلنے والا یہ بے اختیار سوال تھا ۔۔۔ جس پر طُوبہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچی کچھ پل تو وہ بول ہی نہیں سکی پھر جب بولی تو اسکے لہجے میں بے یقینی تھی
“کیا ؟؟ لالہ یہ ؟؟ اوہ مائی گاڈ ۔۔۔ لالہ آپ سچ کہہ رہے ہیں ؟؟ مجھے یقین نہیں آ رہا یہ میں نے کیوں نہیں سوچا ؟؟ سچ سچ بتائیں لالہ آپ مذاق تو نہیں کر رہے ؟؟” طُوبہ نے اتنے سوال ایک ساتھ کر دیے کہ اویس مسکرا دیا
“میں بالکل بھی مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں گڑیا۔” اویس نے سنجیدہ ہو کر کہا
“سچی۔؟؟” طُوبہ نے پھر سے تصدیق چاہی
“مچی” اویس مسکرایا
“لالہ آپ بہت چھپے رستم ہیں ۔۔۔ ایک ہی نظر میں میری بیسٹی کو آپ نے اپنا بنانے کا فیصلہ کر لیا ناٹ فئیر۔” طُوبہ نے مصنوعی ناراضی دیکھائی جبکہ وہ دل سے بہت زیادہ خوش تھی آخر خوش کیوں نہ ہوتی اگر اسکی بیسٹی اسکی بھابھی بنے تو اسے اور کیا چاہیے۔
“ویسے لالہ آپ پہلے بھی کیا بسمہ سے مل چکے ہیں؟؟” طُوبہ مشکوک ہوئی اور اسکے اس شک پر اویس کی ابھرنے والی مسکراہٹ نے یقین کی مہر لگا دی
“کہاں ملے ؟؟” طُوبہ نے فٹ سوال کیا
اویس نے ڈرائیونگ کرتے کل کا سارا واقع اسے سنا دیا ۔۔۔
“اوہ مطلب پہلی نظر والی محبت لیکن اگر میں اس میں دیوار بن جاؤں تو؟؟ ” طُوبہ نے ساری بات سن کر ہونٹوں کو گول کیا اور پھر شرارت سے بولی جس پر اویس نے اسے سخت گھوری سے نوازا اور اس پر طُوبہ کھِلکھلا کر ہنس دی۔ طُوبہ دل سے اپنے بھائی اور اپنی بیسٹ فرینڈ بسمہ کے لیے دعا گو تھی یہ تو طے تھا۔
____________