آج کا دن نین تارا اور احتشام کیلیئے یادگار تھا کیونکہ تقدیر نے ان پہ خاصی کرم نوازی کرتے انہیں رشتہ ازدواج میں جوڑا تھا۔۔۔ نین تارا کی زندگی کو احتشام کے حکم کے تابع کر دیا تھا مگر احتشام نے اسے اپنی ہتھیلی کا چھالا بنا کے رکھا تھا۔
حسین یادوں کے سفید گھوڑے پہ بیٹھتی وہ سوچ کی سنہری وادی میں کہیں دور نکل گئی تھی۔۔۔ کچن میں احتشام کے دائیں جانب بیٹھے اپنا دائیاں بازو ڈائننگ ٹیبل پہ ٹکائے اسنے ہاتھ پہ چہرہ جمایا تھا جسکا رخ احتشام کی جانب تھا۔ احتشام جو کافی دیر سے یہ نوٹ کر رہا تھا بالآخر نین تارا کے قریب ہوتے اسنے زبان کو حرکت دی۔
“نین تارا”۔ اسکے لبوں پہ مسلسل امڈتی مسکراہٹ میں ذرا بھی کمی نا ہوئی۔ “نین تارا میری جان کیا ہوا ہے؟؟”۔ ہاتھ بڑھاتے احتشام نے اسکا بائیاں رخسار سہلایا۔
“ج۔ ج۔ جی؟”۔ حقیقی دنیا میں دوبارہ سے وارد ہوتے ہی اسنے فورا سے اپنی پلکیں جھپکائیں۔
“کہاں گم ہو؟؟”۔
“کہیں نہیں احتشام یہیں ہوں آپ ناشتہ کر۔۔۔۔”۔ بولتے ہی اسنے احتشام کے سامنے رکھی پلیٹ کی جانب اشارہ کیا جو اب خالی پڑی تھی۔
“آئی ہیو ڈن مائی بریک فاسٹ۔۔۔۔ ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں”۔ نیپکن سے منہ صاف کرتے وہ چیئر سے اٹھتا دروازے کی جانب بڑھا۔
“مگر آپ کہاں جا رہے ہیں؟؟”۔ نین تارا بے ساختہ اسکے تعاقب میں اٹھی جس پہ وہ حیرانی سے اسکی جانب گھوما۔
“نین تارا میں ڈیوٹی پہ جا رہا ہوں اور ایسا پہلی بار تو ہوا نہیں ۔۔۔ کیا تمھاری طبیعت ناساز ہے؟؟”۔ بولتے ہی وہ اسکے قریب ہوا۔
“نہیں نہیں میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔ سو سوری خیال نہیں رہا”۔ بولتے ہی وہ مسکرا دی۔
“چلو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔۔ ٹیک کیئر بائے”۔ اسکی پیشانی پہ فریفتہ لمس چھوڑتے وہ کچن کی دہلیز پار کر گیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سادہ سرخ جوڑا زیب تن کرتے وہ واش روم سے نکلتے دائیں جانب ڈریسنگ کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔۔ لبوں کو لال لالی سے ڈھکتے چھوٹے جھمکے اٹھا کر کانوں میں انکی آرائش کی۔
“تیار تو میں ہو گئی ہوں مگر یہ بات ابھی بھی میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ انہیں تحفے میں کیا دوں ۔۔۔ میں چاہتی ہوں ایک ایسا تحفہ جو انہیں ہمیشہ یاد رہے”۔ آئینے میں اپنا عکس دیکھتے وہ سوچ میں ڈوبی ہی تھی کہ اسکا سر چکرایا۔ “یہ مجھے کیا ہو رہا ہے؟؟۔۔۔ آج تو میں نے ناشتہ بھی ٹھیک سے کیا ہے پھر یہ چکر؟؟”۔ وہ وارفتہ وہیں کھڑی رہ گئی۔
“ایسا کروں گی پہلے ڈاکٹر سے چیک اپ کروا لوں گی پھر مارکیٹ جاوں گی”۔ بولتے ہی وہ وارڈ روب کی جانب بڑھی۔۔۔ وارڈ روب سے کلچ نکالتے وہ روم سے نکل کر سیڑھیاں اترتے سیدھا ممتاز کے روم کے باہر پہنچی۔
“تائی جان وہ میں آپ سے پوچھنے آئی تھی کہ میں اک کام سے مارکیٹ جا رہی ہوں آپ کو کچھ منگوانا ہے؟؟”۔ دروازہ ناک کرتے ہی اسنے ہچکچاتے پوچھا۔
“کم بخت ماری تو بازار جا رہی ہے تو کام کون کرے گا؟؟”۔ وہ جو سکون سے بیڈ پہ بیٹھی تھی اب آگ بگولہ ہوئی۔
“تائی جان میں جلدی آ جاوں گی”۔ نین تارا نے مزید کہا۔
“ٹھیک ہے جلدی آ جانا وہیں مت دن گزار آنا۔۔۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی ہے نجانے کیا بنے گا؟؟”۔ ممتاز نے تلخی سے بولتے منہ پھیرا۔
“نازلی میں مارکیٹ جا رہی ہوں تم پلیز بی جان کا خیال کر لینا میں جلدی واپس آ جاوں گی”۔ جونہی اسنے اپنے قدم ممتاز کے روم سے الٹے لیئے متضاد سمت سے آتی نازلی کو دیکھتے وہ پل بھر کو رکی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“نین تارا پریشانی والی کوئی بھی بات نہیں ہے۔۔۔ ایسی کنڈیشن میں چکر آنا نارمل ہے”۔ نین تارا کی جانچ کے بعد ڈاکٹر اپنی مخصوص سیٹ پہ آ بیٹھی تھی۔
“کیا مطلب ڈاکٹر میں کچھ سمجھی نہیں؟”۔ ڈاکٹر کی بات پہ وہ بھچک کر رہ گئی۔
“رپورٹس آ جائیں میں آپکو کلیئر کر دوں گی ۔۔۔۔۔ کم ان”۔ دروازے پہ ناک ہوا تو ڈاکٹر نے با آواز بلند کہا۔
“میم یہ رپورٹس”۔ ایک نرس ہاتھ میں فائل پکڑے اس جانب آئی۔
“تھینک یو ریحانہ”۔ اسکے ہاتھ سے فائل پکڑتے ڈاکٹر نے سرسری نگاہ رپورٹس پہ ڈالی۔ “میرا اندازہ بالکل درست تھا”۔ نظریں اٹھاتے اسنے متبسم انداز میں نین تارا کو دیکھا جہاں اب مزید حیرت در آئی تھی۔
“کونگریجولیشنز یو آر ایسپیکٹنگ”۔ بولتے ہی اسنے رپورٹس نین تارا کی جانب بڑھائیں۔
نین تارا کے دل کے ویران چمن میں آس کا اک نیا کنول کھلا۔۔۔ احتشام کی ٹوٹی امید جیسے بر آئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“ٹھیک ہے تم لوگ تیار رہو۔۔۔۔ میں سر کے کیبن سے ہو کر ابھی آیا”۔ اپنے پیچھے سپاہیوں کو خبردار کرتے وہ عجلت میں قدم اٹھاتا احتشام کے کیبن کی جانب بڑھ رہا تھا۔
“ارے سر آپ یہاں بیٹھے ہیں؟؟”۔ جونہی اسنے کیبن کا دروازہ کھولا احتشام کو اپنی جگہ مطمئن بیٹھا دیکھ وہ متحیر ہوا۔
“وٹ ڈز اٹ مینز؟؟”۔ سعد کی آواز پہ فائل پہ اسکا جھکا سر اوپر کو ہوا۔
“سر میں نے آپکو کالز کیں مگر آپ نے رسپانس نہیں دیا پھر میں نے آپکے نمبر پہ ٹیکسٹ چھوڑا تھا”۔ قدم اٹھاتا وہ احتشام کے قریب آیا۔
“ڈیم اٹ میرا فون گھر ہی رہ گیا ہے”۔ سعد کی بات پہ اسنے فورا سے پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالا جو خالی لوٹ آیا تھا پھر چیئر سے اٹھتا وہ سعد کے قریب آیا۔
“سر پچھلے سال جو مخبری کی گئی تھی اسکا ٹھوس ثبوت ہا تھ لگا ہے۔۔۔۔ فحاشی کا بازار گرم تھا ریڈ مارنے کا اس سے بہتر موقع ہمیں نہیں ملنا سر ویسے بھی ہم برسوں سے اسی دن کے تو منتظر تھے۔۔۔۔ یہی میسج میں نے آپکو کیا تھا میرے حساب سے تو آپکو میسج مل جانا چاہیئے مگر آپکو تو کوئی معلومات ہی نہیں”۔ تفصیل دیتے اسنے احتشام کو باور کرایا۔
“تم گاڑی نکالو ہم فورا نکلیں گے۔۔۔ سپاہیوں کی تعداد گنی چنی ہو تو بہتر ۔۔۔ اور ہاں تم فورا اپنا یونیفارم بدل لو سادہ لباس میں تمھارا چلنا زیادہ کار آمد ہو گا۔۔۔۔۔ ناو لیو ہری اپ”۔ تحکم انداز میں بولتا وہ ایڑیوں کے بل مڑ گیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“نین تارا ۔۔۔۔ نین تارا”۔ نین تارا کو آوازیں لگاتی وہ اسکے روم کی دہلیز تک آ پہنچی۔
احتشام اور نین تارا کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے وہ روم میں داخل ہوتے وارڈ روب کی جانب بڑھی۔۔۔۔ وارڈ روب کا دروازہ کھولتے اسنے تیز فہمی سے ہر چیز دیکھنا شروع کی۔۔۔۔ اپنی تسلی کرتے اسنے وارڈ روب کا دروازہ بند کیا پھر سائیڈ ٹیبل کی جانب گھومی جہاں اسکی نظر احتشام کے فون پہ گئی۔
“ارے احتشام بھائی اپنا فون یہیں بھول گئے۔۔۔ احتشام بھائی بھی نا”۔ بے خیالی میں بولتے وہ ایڑیوں کے بل مڑی ہی تھی جب ایک تمسخرانہ سوچ نے اسکے دماغ پہ گھیرا تنگ کیا جس پہ وہ دوبارہ مڑی اور فون ہاتھوں کے شکنجے میں لیا۔
چھوٹی بہن ہونے کے ناطے فون کے پاسورڈ سے عارف کامل ہونے کا شرف اسے حاصل تھا جس سے مکمل فیض یاب ہوتے اسنے فون انلاک کیا جہاں سکرین پہ سعد کی جانب سے آئی کالز اور میسجز کی ڈیٹیلز تھیں۔
میسج اوپن کرتے جوں جوں اسنے میسج میں لکھا ایک ایک حرف نظر سے گزارہ ٹھیک ویسے ہی شیطانی منصوبے کا ایک جال اسکے ذہن کو اپنی حراست میں لے رہا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وہ قدسیہ بیگم کے روم کے باہر سے گزر رہی تھی جب اسکی حس سامعہ میں قدسیہ بیگم کی آواز پہنچی جس پہ وہ قدم اٹھاتی اسکے روم میں چلی گئی۔
“نازلی نین تارا کدھر ہے؟”۔
“جی وہ نین اپیا مارکیٹ گئی ہیں ۔۔۔ بول رہی تھیں تھوڑی دیر تک آ جاوں گی تب تک میں آپکا خیال رکھ لوں”۔ قدسیہ بیگم کے قریب آتے اسنے آگاہی دی۔
“مارکیٹ گئی ہے”۔ اسے تعجب ہوا۔ “آج سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نین تارا یوں گھر سے باہر گئی ہو۔۔۔ نجانے ایسا کونسا کام تھا جسکی بنا پہ وہ اکیلے مارکیٹ چلی گئی”۔ قدسیہ بیگم نے زیر لب کہا۔
“بی جان آپکو کچھ چاہیئے”۔
“ہاں نازلی پانی ختم ہو گیا ہے تو وہی چاہیئے تھا۔۔۔۔ ایسا کرو مجھے اس جگ میں نیم گرم پانی لا دو”۔ بولتے ہی اسنے سائیڈ ٹیبل سے جگ اٹھاتے نازلی کی جانب بڑھایا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“میں احتشام کیلیئے ایک ایسا تحفہ چاہ رہی تھی جو انہیں ہمیشہ یاد رہے۔۔۔ خدا نے یہ خوشخبری دے کر میری مشکل آسان کر دی۔۔۔ جتنی خوشی مجھے ہے میرا کامل یقین اس بات کی پختگی کرتا ہے کہ احتشام کو بالمضاعف ہوگی۔۔۔۔ مجھ سے مزید صبر نہیں ہو رہا دل کر رہا ہے کہ اڑ کے پہنچ جاوں اپنے احتشام کے پاس”۔ ہوسپٹل سے واپسی پر وہ ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھی ہزار سوچوں سے گھری تھی۔
اسی اثنا میں اسکا فون پوری ہمت سے دھاڑا ۔۔۔ اپنے تمام جذبات دل میں مقید کرتے اسنے گود میں رکھا فون اٹھاتے کال ریسیو کی۔
“ہیلو اسلام و علیکم”۔
“نین تارا سوری میں نے تمھیں ڈسٹرب کیا۔۔۔ وہ مجھے یہ پوچھنا تھا کہ تم اس وقت کہاں ہو؟”۔ دوسری جانب سے روہینہ کی آواز نین تارا کے کان کے گوشے سے آ ٹکڑائی۔
“روہینہ میں ابھی گھر ہی آ رہی ہوں ۔۔۔ سگنل کے پاس ہوں ۔۔۔ تم نے کال کیوں کی؟؟ خیریت تو ہے نا”۔ اسکے یوں اچانک کال کرنے پہ نین تارا کا وجود مکمل حیرت کی گرفت میں تھا۔
“ہاں وہ میری ایک فرینڈ ہے مجھے اس سے کچھ نوٹس لینے تھے مگر ابھی میں نہیں جا سکتی تم گھر سے نکلی ہو تمھی لے آنا اسکے گھر سے”۔
“لیکن روہینہ میں کیسے؟؟”۔
“پلیز نین تارا وہ نوٹس میرے لیئے بہت ضروری ہیں ورنہ میں تمھیں ہرگز نا بولتی”۔ روہینہ نے اصرار کرتے کہا۔
“اچھا ٹھیک ہے میں کوشش کرتی ہوں کہ تمھارا کام کر دوں”۔ نین تارا نے حامی بھری۔
“تھینک یو سو مچ نین تارا ۔۔ میں تمھیں ابھی ایڈریس سینڈ کرتی ہوں”۔ بات مکمل کرتے ہی روہینہ نے کال ڈسکنیکٹ کر دی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
معمول کے پیش نظر گیسٹ ہاؤس کا دروازہ کھلا تھا۔۔۔ احتشام موقع سے استفادہ حاصل کرتے دبے پاوں اندر کی جانب بڑھا۔
احتشام کے اشارے پہ اپنا حلیہ درست کرتے کان میں بلیو ٹوتھ سیٹ کرتے سعد نے احتشام کے برابر کھڑے سپاہی کے نمبر پہ کال کی جو پہلے ہی سائلینٹ پہ تھا۔۔۔ کال کی سانسیں برقرار رکھتے سعد نے اپنے گرد چادر لپیٹی اور احتیاط سے گیسٹ ہاؤس میں داخل ہو گیا۔
“اسلام و علیکم”۔ ناک کی سیدھ پہ چلتا وہ ریسپشن کے قریب گیا جہاں ایک وحشت ناک انسان کا سایہ تھا۔
طے شدہ معاملے کے پیش نظر سعد نے پیسوں کا ایک بنڈل نکال کر ریسپشن پہ رکھا جس سے وہ انسان لالچ میں آ گیا تھا۔
“زیادہ سے زیادہ کتنے گھنٹے؟؟”۔ اسکی جانب ہلکا سا جھکتے سعد نے کہا۔
“دیکھو ایک گھنٹے کے حساب سے دو ہزار لیتے ہیں ۔۔۔ باقی تم جتنے دو گے اوقات اتنے بڑھا دیئے جائیں گے”۔ اس آدمی نے دل آویزی سے کہا۔
“بات یہ ہے کہ میں اکیلا نہیں میرے دو دوست بھی ہیں اس حساب سے تو آج تمھارا دگنا نہیں تگنا منافع ہو گا ۔۔۔ اگر تم چاہا تو”۔ پیسوں کی جانب اشارہ کرتے اسنے کہا۔
“کہاں ہیں تمھارے دوست؟؟”۔ آنکھوں پہ پیسے کی چربی چڑھتے وہ آدمی تلملا اٹھا۔
“باہر کار میں پیسوں کے ساتھ بیٹھے ہیں”۔ سعد نے سرگوشی کی۔
“چلو میرے ساتھ”۔ وہ شخص بغیر کچھ سوچے سعد کے ہم قدم انٹرنس کی جانب بڑھنے لگا تھا جبکہ دروازے کی دوسری جانب احتشام سپاہیوں کے ہمراہ چوکنا کھڑا تھا۔
انٹرنس کا دروازہ کھلتے ہی احتشام نے ایک ہی وار میں اسے ڈھیر کیا ۔۔۔ سپاہی احتشام کی پیروی میں گیسٹ ہاؤس میں داخل ہوئے۔
گیسٹ ہاؤس میں وہ پہر،،، وہ عالم انسانی عزت و نفس کو ہلا گیا تھا۔۔۔ زنا جیسے گنہاہ میں ملوث جوان نسل اپنے خاندان اور ماں باپ کی عزت کو ملیا میٹ کر چکی تھی۔۔۔ سعد نے اپنے فون میں تمام شواہد،، ثبوت اور بیانات مقید کرنا شروع کیئے۔
وہاں موجود تمام تو کے فون ضبط کر لیئے گئے تھے۔
“تمھارا نام کیا ہے؟؟”۔ انسپکٹر راشد جو عمر میں چالیس برس کا تھا ،،، نے ایک لڑکے کو بالوں سے جکڑتے اسکا چہرہ اوپر کو کیا۔
“قاسم”۔ چہرے کے سامنے ہاتھ رکھتے اسنے دھیرے سے کہا۔
“خبیث انسان جب تجھے یہ گھٹیا حرکت کرتے شرم نا آئی تو اب کیوں آ رہی ہے”۔ بولتے ہی انسپکٹر نے اس لڑکے کے منہ پہ طمانچہ جڑا۔
“تو یہاں کب سے آ رہا ہے؟؟”۔ انسپکٹر نے آواز قدرے بلند کی۔
“دو سال سے”۔ تا ہنوز دھیمی آواز۔
“دو سال ہو گئے تجھے یہ گھناؤنی حرکت کرتے”۔ بولتے ہی انسپکٹر نے اسے ایک اور تھپڑ مارا جس سے اسکا چہرہ لال ہو گیا۔
انسپکٹر کی دائیں جانب تھوڑا فاصلے پہ احتشام کھڑا تھا اور احتشام کی دائیں جانب شیطانی کام میں ملوث لڑکیاں جو اپنی شناخت چھپانے کی کوشش میں سر جھکائے ہوئے تھیں۔
“تم یہاں کیوں آئی ہو؟؟”۔ لڑکیوں کی جانب رخ کرتے اسنے پہلی کو مخاطب کیا۔
“آپکو پتہ تو ہے سر پھر آپ کیوں پوچھ رہے ہیں”۔ اس لڑکی نے ڈھیٹائی سے کہا۔
“نہیں میں کچھ نہیں جانتا ۔۔۔۔ تم اپنے منہ سے خود اعتراف کرو کہ تم یہاں کیوں آئی ہو”۔
“غلط کام کرنے”۔ بولتے ہی اسنے سر جھکایا۔
“کیا تمھارے ماں باپ کو اس بات کا علم ہے؟؟”۔
“نہیں سر”۔
“تمھارا نام کیا ہے؟؟”۔ احتشام نے پے در پے سوال کرتے کہا۔
“پاکیزہ”۔
“اور نہیں تو کم از کم اپنے نام کی ہی لاج رکھ لیتی تم۔۔۔۔ عزت تو تمھاری بھری محفل میں ویسے کی نیلام ہو چکی ہے اب یہ ناقص پردے کا ڈھونگ کیوں کر رہی ہو؟؟۔۔۔۔ اپنے ماں باپ سے جھوٹ بول کر تم سب یہاں انکی عزت کو ان آوارہ دو ٹکے کے لڑکوں کی غلاظت اور شیطانی نفس کے سائے تلے روند رہی تھی۔۔۔۔ وہ بیچارے تم لڑکیوں کے اچھے نصیب کیلیئے دعا گو ہیں اور تم لوگ یہاں انکی عزت کا سودا کر رہی ہو۔۔۔۔ شرم آنی چاہیئے تم لوگوں کو ۔۔۔ ایسی گھٹیا اولاد ہونے سے بہتر تھا خدا تم سب کے والدین کو بے اولاد رکھتا”۔ احتشام کا غصہ فلک بوس ہو چکا تھا۔
“لے چلو انہیں ۔۔۔ اور ان سب کے گھر والوں کو بلاو”۔ احتشام کے حکم کے پیش نظر سپاہی اور انسپکٹر انہیں لے کر گاڑیوں کی جانب بڑھے۔
“رکو”۔ جہاں احتشام کی نظر آخر میں چلتی لڑکی پہ پڑی جو مکمل چادر سے لپٹی ہوئی تھی اور مسلسل کانپ رہی تھی احتشام کی آواز پہ وہیں اپنے قدم روک گئی۔
“تم نے یہ چادر کیوں لپیٹی ہے؟؟ ہٹاو اسے”۔ احتشام نے غصے سے کہا۔ “میں نے کہا ہٹاو اسے۔۔۔ تم نے سنا ن۔۔۔۔”۔ جونہی اس لڑکی نے کپکپاتے ہاتھوں سے چہرے کے نقوش واضح کیئے احتشام کو ایک زور دار جھٹکا لگا تھا،،،،، اسکا پورا وجود لرز کے رہ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اسکے ماتھے پہ ناگواری کی شکنیں ابھریں تھیں۔ کالی آنکھوں میں غصے کا لاوہ پھٹ رہا تھا جسکی تپش اور لپیٹ میں نین تارا کی زندگی آنے والی تھی۔ نین تارا کے سامنے کھڑا وہ اپنے یونیفارم میں زیب تن اسے قہر آلود نظروں سے گھور رہا تھا۔ اسکا دل شدت سے چاہا کہ وہ نین تارا کو زمین میں زندہ درگور کر دے مگر ایک دیوار تھی جو اسکی راہ میں رکاوٹ بنی تھی اور اسے ایسا کرنے سے روک رہی تھی۔ جسکی ہتھ کڑی اسکے ہاتھوں کے گرد لپٹی تھی۔۔۔ پیروں میں جسکے نام کی زنجیر ڈلی تھی اور وہ تھا عشق۔
بغیر کسی امتیاز، متضاد اور حد کے کیئے جانے والا عشق۔
سادہ سرخ جوڑے میں ملبوس وہ اسکے سامنے کھڑی بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر جیسے زبان اسکا ساتھ دینے سے قاصر تھی۔ آنکھ میں چھپے آنسو جیسے ہر بند توڑ کر امڈ آنے کو تیار تھے۔
“احتشام جیسا آپ سوچ رہے ہیں ویسا بالکل نہیں ہے آپ میری بات تو۔۔۔۔”۔ جونہی نین تارا نے اسکی جانب قدم اٹھایا احتشام نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک دیا تھا۔
“کیا ہوا ہے احتشام بیٹا؟ اس نگوری نے پھر کچھ کیا ہے؟؟”۔ ممتاز بیگم اسکے قریب آ کر پوچھنے لگیں۔
“احتشام بیٹا بتاو تو آخر نین تارا نے کیا کیا ہے؟؟ تم اس طرح اس پہ غصہ کیوں کر رہے ہو؟؟”۔ واجد نے خفگی کا اظہار کیا۔
“سن رہی ہو نین تارا؟؟ ماما پاپا جاننا چاہتے ہیں کہ آخر کونسی وجہ ہے؟؟ کونسا ایسا المیہ ہوا ہے جسکی وجہ سے میں تم پہ غصہ کر رہا ہوں”۔ چبا چبا کر بولتا وہ اسکے قدرے قریب ہوا۔
“آج ریسٹ ہاوس میں ریڈ کے دوران نین تارا مجھے وہاں ملی”۔ نین تارا کی جانب دیکھتے اسنے غصے سے کہا۔
“نین تارا وہاں تھی؟ مگر یہ وہاں کر کیا رہی تھی؟؟”۔ واجد کے چہرے پہ حیرت در آئی۔
وہی جو وہاں ہو رہا تھا”۔
“نہیں تایا جان یہ سب جھوٹ ہے میں وہاں گئی تھی مگر مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ۔۔۔”۔ جونہی وہ واجد کے قریب ہوئی احتشام غصے میں اسکی جانب گھوم گیا۔
“کیا معلوم نہیں تھا؟؟ بتاو”۔ یہ بات ابھی بھی نین تارا کی سمجھ سے بالا تر تھی کہ احتشام نے اس سے کیسا عشق کیا تھا جس میں بھروسے کا گمان کرنا تو دور نشان تک نہیں۔
“میرے پیار میں کیا کمی رہ گئی تھی؟ جو تمھیں وہاں کا رخ کرنا پڑا”۔ اب کی بار وہ قدرے اونچی آواز میں مخاطب ہوا۔
“احتشام آپ میرا یقین کریں میں وہاں نہیں گئی تھی بلکہ روہینہ۔۔۔”۔
“شاباش اب تم اس بات کا الزام میری بہن کو دو گی”۔ ہاتھ کے اشارے سے اسنے طنز کیا۔
“کلموئی اپنا کیا تو میری بچی پر تھوپ رہی ہے”۔ ممتاز بیگم غصے میں اسکی جانب بڑھیں۔
“رکو ممتاز لازمی نہیں نین تارا قصور وار ہو ایک بار اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع تو دو”۔ نین تارا کی حالت دیکھتے بی جان بھی ہمت کرتے آگے بڑھیں۔
“بی جان سچ وہ نہیں جو آپکو نظر آ رہا ہے بلکہ سچ تو وہ ہے جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آ رہا ہوں”۔ بی جان کو جواب دیتے وہ نین تارا سے منہ پھیر گیا۔ “آج سب ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ زندگی کے اوراق میں سنہرے حروف سے واضح لکھا جائے گا کہ۔۔۔۔۔۔ کہ ایس- پی احتشام شامیر کی بیوی جسم فروشوں کے اڈے سے ریڈ کے دوران اپنے ہی خاوند کے ہاتھوں بے نقاب ہوئی ہے”۔ کچھ پل وقفہ لیتے اسنے بات مکمل کرتے آہ بھری۔
“میں تمھارا وجود اس گھر میں اب قطعا برداشت نہیں کر سکتا۔ روہینہ جا کر اسکا سارا سامان لے آو یاد رہے ایک چیز بھی نا بچے”۔ اپنے دائیں جانب کھڑی روہینہ کو دیکھتے اسنے تحکم لہجہ اپنایا۔
نین تارا کے قریب جاتے اسنے اسکا بائیاں بازو جکڑ لیا تھا۔
“پلیز احتشام ایسا مت کریں میں کہاں جاوں گی”۔ اسکے دل کی آہ جیسے عرش تک جا پہنچی تھی۔
“جہنم میں جاو”۔ اسکی جانب پشت کیئے بغیر اسکی جانب دیکھے اسنے سرد مہری سے کہا پھر قدموں کی رفتار دروازے کی جانب تیز کر دی تھی۔
نین تارا کا معصوم وجود احتشام کے عقب میں گھسیٹتا چلا جا رہا تھا۔
“کاش کہ تمھارے ساتھ گزارا ہر وہ غلیظ پل میں یونہی تمھارے منہ پہ دے مارتا”۔ دروازے سے باہر نکلتے ہی اسنے نین تارا کو زمین بوس کر دیا۔ روہینہ بھی سامان لے کر آ گئی تھی جو احتشام نے اسکی جانب پوری طاقت سے اچھالا تھا۔
الفاظ تھے یا سیسہ جو اسکے کانوں میں پگھلا کر ڈالا گیا تھا۔ یہ وہ حقیقت تھی جو کسی ڈراونے خواب سے کئی بڑھ کر تھی جو اسے ہر حال میں تسلیم کرنی تھی۔
“دل ہے دکھوں سے آشنا منزل کا کیا کروں پتہ
ویران دل کی نگری میں راکھ ہے کچھ دھواں اٹھا
سمیٹ کر اپنے دامن میں وہ سب کچھ لے گئی
جو آگ لگائی تھی تو نے سب کچھ ہوا تباہ
کرچیاں جو اپنے دل کی سمیٹ رہی ہوں میں
پھر بھی اس کے ٹکڑے بکھرے ہیں جا بجا
دیتا ہے پھر بھی گر کے تجھ کو یہ دعائیں
نشیمن تیرا ہمیشہ سلامت رکھے خدا”
“اسلام و علیکم ممتاز بہن۔۔۔۔ دراصل میں نین تارا سے ملنے آئی ہوں آپ پلیز اسے بلا دیجیئے”۔ انٹرنس کی حدیں پھلانگتی کشور انصاری ہاوس کے صحن میں بیٹھی ممتاز کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
“لو بھئی وہ نیچ ذات ہماری زندگیوں میں زہر گھول گئی اب یہ محترمہ آئی ہیں اک نیا ڈرامہ رچانے”۔ ممتاز نے سرد مہری سے کام لیا۔
“میں کچھ سمجھی نہیں؟؟”۔ کشور سوالیہ متعجب نظریں ممتاز پہ لگائے ہوئے تھی۔
“تم تو ایسے آنکھیں پھاڑے کھڑی ہو جیسے کسی بات کا علم ہی نا ہو”۔ طنز کرتے اسنے نخوت سے کہا۔
“میں سچ میں اس معاملے سے باخبر نہیں آپ مجھے بتائیں آخر ماجرا کیا ہے؟؟”۔
“تمھاری وہ معصوم پارسا آج فحاشی کے اڈے سے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے وہ بھی اپنے شوہر کے ہاتھوں”۔ ہر لفظ پہ زور دیتے ممتاز نے نشست چھوڑ دی تھی۔
“کیا؟؟؟۔۔۔ ایسا ممکن نہیں میری نین ایسی بالکل بھی نہیں”۔ خود کو سنبھالنے میں اسے کچھ پل درکار تھے۔
“جو مائیں گھر سے راہ فرار اختیار کر لیں انکی اولاد کبھی بھی متقی یا پرہیز گار نہیں ہوتی۔۔۔۔ بالکل بھگوڑی ماں پہ گئی ہے بدچلن اور آوارہ۔۔۔۔ ارے اسے تو میرے بیٹے کا سنگ بھی راس نہیں آیا ۔۔۔۔ بے غیرت نے میرے بیٹے کی زندگی بھی اجیرن کر دی”۔ کشور کے قریب ہوتے اسنے دل کی بھڑاس نکالی۔
“خدا کیلیئے آپ ایسی باتیں نا کریں۔۔ آپ لوگوں کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ورنہ میری بھانجی ایسی نہیں ۔۔۔۔۔ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے منہ سے نکالے بڑے بول ہمیشہ انسان کیلیئے پچھتاوے کا سبب بنتے ہیں ۔۔۔۔۔ جن کے خود کے گھر رحمت ہو کم از کم انہیں ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں”۔ بے بسی کے عالم میں اسنے بمشکل بات مکمل کی پھر انٹرنس کی جانب الٹے قدم لینا شروع کیئے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ڈور بیل بجی تو وہ اپنے روم کی دہلیز چھوڑتا گیٹ کی جانب بڑھنے لگا۔
“ارے نین تارا تم؟؟”۔ برسوں بعد اسکی دلی مراد بر آئی تھی۔۔ نین تارا کو اپنے سامنے دیکھ اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نا رہا۔
“تم کس کے ساتھ آئی ہو؟؟؟”۔ گیٹ سے باہر جھانکتے اسنے ارد گرد ماحول کا جائزہ لیا پھر سیدھا ہوتے نین تارا کو دیکھنے لگا۔ ” اندر آ جاو۔۔۔۔۔ یہ مجھے دے دو”۔ مسلسل برستی آنکھوں کے ساتھ وہ گھر کے اندرونی جانب لڑکھڑاتے قدم اٹھانے لگی جب مبشر نے اسکے ہاتھ سے سامان لے لیا تھا۔
“نین تارا تم رو کیوں رہی ہو؟؟؟ کیا ہوا ہے؟؟۔۔۔۔ کس کے ساتھ آئی ہو؟؟”۔ ڈرائنگ روم میں نین تارا کو صوفے پہ بٹھاتے وہ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا تھا۔ ” نین تارا پلیز کچھ تو کہو۔۔۔۔ تم ایسے چپ رہو گی تو مجھے پتہ کیسے چلے گا کہ تمھیں کیا ہوا ہے؟”۔ نین تارا کا ہاتھ تھامے اسنے مزید کہا۔
احتشام کے الفاظ نین تارا کے دل پہ گہرا زخم دے چکے تھے جس کے باعث اسکے لب سل گئے تھے اور آنکھیں گہر باری پہ تلی تھیں۔
نین تارا کے آنسو اب مبشر کے ہاتھوں کی پشت پہ گرنے لگے تھے جنہیں دیکھتے اسے شاک لگ رہا تھا۔
“کچھ عشق کی بھی اب وہ نگاہ نہیں رہی
کچھ حسن کی بھی اب وہ ادا نہیں رہی
مجنوں نہیں رہا وہ لیلی نہیں نہیں
یوسف نہیں رہا وہ زلیخا نہیں رہی
حیران ہیں سبھی کریں تو کیا کریں روز
پرسکون اب کسی کی بھی پناہ نہیں رہی”
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“کیا؟؟ واقعی ایسا ہوا ہے؟؟ ۔۔۔ احتشام نے نین تارا کو گھر سے نکال دیا؟؟”۔ تقی کو سندس کی بات پہ تشفی نا ہوئی جس پہ وہ اسکی جانب سرعت سے پلٹا۔
“تم کیوں صدمے میں چلے گئے؟۔۔۔ آخر کو وہی ہوا جو میں چاہتی تھی پھر احتشام کرے یا کوئی اور کیا فرق پڑتا ہے؟”۔ سندس نے شانے اچکائے۔
“سندس یہ تم بھی اچھے سے جانتی ہو اور میں بھی کہ نین تارا ایسا نہیں کر سکتی۔۔۔۔ وہ بہت معصوم ہے یار”۔ قدم اٹھاتا وہ سندس کے قریب آیا۔
“بس کرو تقی یہ تم بول رہے ہو؟؟۔۔۔ تم تو خود اسے رسوا کرنے کی تگ و دو میں تھے۔۔۔۔ یہ مت بھولو تم دو تین بار احتشام کی عدم موجودگی میں اسکے روم میں بھی جا چکے ہو ۔۔۔ ایک بار احتشام آ گیا تھا اور دوسری بار وہ سیڑھیوں سے گر گئی تھی”۔ سندس نے چڑ کر کہا۔
“اسے میں نے جان کے نہیں گرایا تھا سندس وہ خود گری تھی۔۔۔ ویسے بھی یہ بات اور ہے فلحال تو مجھے اس ایس پی پہ حیرانی ہو رہی ہے وہ ایک سال سے نین تارا کے ساتھ تھا پھر وہ نین تارا کے کردار پہ کس طرح انگلی اٹھا سکتا ہے؟۔۔۔ دس تھنگ میکس نو سینس”۔ تقی نے کوفت کا اظہار کیا۔
“تم اتنے یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتے ہو؟؟ احتشام نین تارا پہ جان دیتا تھا وہ اتنا پاگل نہیں ہے کہ نین تارا کو کسی غلط فہمی کی بنا پہ گھر سے چلتا کرے آخر کچھ تو وجہ ٹھہری ہو گی نا”۔ سندس نے معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔
“سندس جو لڑکی تنہائی میں میرے ساتھ احتشام سے بے وفائی پہ آمادہ نہیں ہوئی وہ کثیر مجمع میں اپنی عزت قطعا نہیں اچھالنا چاہے گی۔۔۔ ہو نا ہو یہ یقینا اسکے خلاف ایک عمل تھا جسکا رد عمل بہت سنگین نکلا”۔ تقی کو تشویش ہوئی۔
“مہربانی کرو میری ذات پہ ۔۔۔ بڑی مشکلوں سے وہ اس گھر سے دفع ہوئی ہے اب تم کوئی مصیبت نا کھڑی کر دینا ۔۔۔ اپنے کام سے کام رکھو”۔ غصے میں اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے سندس وہاں سے چلی گئی تھی جبکہ تقی سوچ کی اسی کشتی میں سوار تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
روم سے منسلکہ بالکونی میں کھڑے اسنے اپنے سامنے لوہے سے بنی مضبوط گرل پہ ہاتھ رکھے تھے اور چہرہ آسمان کی جانب اٹھایا تھا جہاں چاند اپنی مدھم چاندنی چارسو بکھیرے ہوئے تھا۔۔۔۔ سیاہ آنکھوں میں ادھورا پن اپنی جیت کا جشن منا رہا تھا۔۔۔ چاند کی سفید برف مائل چاندنی بھی اسکی تکلیف کا ازالہ نا کر سکی۔۔۔ اسکا دل مسلسل اشک شفق گوں رو رہا تھا یہاں تک کہ اسکا روم بھی اسکے لیئے آسودہ مشفق ملاذ ثابت نا ہوا۔
“میں جانتا ہوں کہ اس وقت تم کس الم ناک دور سے گزر رہے ہو۔۔۔ میرے کلمات بھلے تمھارے بے تکان زخموں پہ مرہم نا رکھ سکیں مگر میرا کندھا تمھارے اس لہولہان دل کا بوجھ ہلکا کرنے کیلیئے میسر ہے”۔ واجد اسکے برابر آ کھڑا ہوا تھا تب اسنے اپنے چہرے کا رخ واجد کی جانب کیا۔
“پاپا”۔ واجد کے گلے لگتے ہی اسکی آنکھوں کے پردے میں پنہاں آنسو اب ایک کے بعد ایک آنکھوں کی باڑ توڑتے امڈ آ رہے تھے۔
“پاپا کیا یہی زمانے کا دستور ہے؟؟ کہ جسے ۔۔۔۔۔ سب سے زیادہ چاہو وہی آپکو دکھ میں مبتلا کر دیتا ہے ۔۔۔ میں نے تو اسے کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہونے دی یہاں تک کہ ۔۔۔۔ اسکے سر پہ ہمیشہ چھاوں کرکے رکھی کہ کہیں دنیاوی تپش اسکی عزت نفس مجروح نا کر دے مگر اس نے ۔۔۔۔۔۔ اسنے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا پاپا؟؟ کیوں اسنے مجھے اس راہ پہ اکیلا چھوڑ دیا جہاں ۔۔۔۔۔ رسوائی اور ذلت کے سوا کوئی ساتھی نہیں”۔ دل میں چھپا غبار نکالتے اسنے آنسوؤں کی تقلید میں بات کا آغاز کیا۔
“احتشام جو تم کہہ رہے ہو مجھے اس میں شبہات نہیں مگر میرے دل میں نین تارا کے کردار کو لے کر رتی برابر بھی گنجائش نہیں ۔۔۔۔۔ خدا کی اس میں ضرور کوئی نا کوئی حکمت ہوگی جسے انسانی عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔۔۔۔۔ تم اس ذات کے آگے جھک جاو مجھے یقین ہے وہ تمھاری مدد ہر حال میں کرے گی”۔ تمسکن آمیز انداز میں واجد نے اسے دلاسہ دیتے کہا۔
“لیکن پاپا میں خود اسے وہاں سے لے کر آیا ہوں اگر مجھے کوئی یہ خبر دیتا تو شاید میرے دل میں ایک امید کی کرن موجود ہوتی کہ نین تارا ایسی نہیں ممکن ہے اسکے خلاف سازش ہو مگر۔۔ اس بار ۔۔۔۔۔ پاپا میں اپنی آنکھیں بند تو نہیں کر سکتا”۔ واجد کی مخالفت کرتے اسنے کہا۔
“احتشام”۔ واجد نے آہ بھری۔ “تم تھک گئے ہو گے آرام کرو انشاءاللہ کل ملاقات ہوگی”۔ اسکے بائیں رخسار پہ تھپکی دیتے واجد وہاں سے چلا گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح کے سات بج رہے تھے ایسے میں وہ ہال میں ہاتھ پشت پہ باندھے پریشانی کے عالم میں ٹہل کر بمشکل وقت گزاری کر رہا تھا کہ ناموافق سمت سے آتے بلال کو دیکھتے اسنے قدموں کی حرکت کو روکتے زبان کو حرکت دی۔
“بلال تم پوری رات کہاں تھے؟؟”۔
“دوستوں کے ساتھ تھا”۔ بے پرواہی میں بولتے وہ قریب رکھے صوفے پہ ڈھے گیا تھا۔
“تمھاری سماعتوں تک تازہ ترین خبرنامہ تو پہنچ ہی گیا ہو گا؟؟”۔ اسنے کنفرم کیا۔
“کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟؟ ذرا کھل کر بتائیے”۔ بولتے ہی وہ سیدھا ہوا۔
“ایس پی نے کل شام ہمارے گیسٹ ہاؤس پہ ریڈ ماری ہے اب وہ گیسٹ ہاؤس سیل ہے”۔ رفیق کی آنکھیں غصے سے پھیل گئیں تھیں۔
“ڈیڈ آپکو ٹینشن کس بات کی ہے؟؟ ایس پی کے ریڈ مارنے پہ یا گیسٹ ہاؤس سیل ہونے پہ؟؟”۔ مطمئن لہجے میں بولتے اسنے چہرہ اٹھاتے رفیق کو دیکھا جہاں سوالوں کا طوفان برپا تھا۔
“میرے خیال سے بلال تمھیں یہ بات بتانے کی ضرورت درپیش نہیں کہ میں کس وجہ سے پریشان ہوں؟؟”۔ رفیق نے خفگی سے کہا۔
“مائی ڈیئر ڈیڈ”۔ بولتے ہی وہ صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ “ایس پی نے گیسٹ ہاؤس پہ ریڈ مار کے اپنے ہی پیروں پہ کلہاڑی ماری ہے اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں۔۔۔ بظاہر اسنے گیسٹ ہاؤس سیل کیا ہے یہ میں جانتا ہوں کہ اسنے اپنی زندگی میں آنے والی تمام تر خوشیوں کو سیل کیا ہے”۔ رفیق کے کندھوں پہ ہاتھ رکھتے اسنے بات مکمل کی پھر قہقہ لگا کر ہنس دیا۔
“کیا مطلب ہے تمھارا؟؟”۔ رفیق نے تجسس بھری نگاہ بلال پہ ڈالی۔
“وقت آنے پہ آپکو سب معلوم ہو جائے گا ابھی میرے پاس زیادہ وقت نہیں”۔ روم کی جانب بڑھنے کے باعث اسکی آواز اب مدھم ہو چکی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
اپنے کیبن میں بیٹھے اسنے سامنے دیوار پہ لگی ایل سی ڈی پہ نظریں منجمد کر رکھیں تھیں جہاں نیوز چینل لگا تھا۔
“اور ساتھ ہی آپکو اس بات سے بھی آگاہ کرتے چلیں کہ کل شام ایس پی احتشام شامیر نے گیسٹ ہاؤس پہ ریڈ مار کر زنا اور فحاشی جیسے جرائم کو بے نقاب کرتے اپنی شہرت اور نام کا پرچم مزید بلند کر دیا ہے”۔
وہ جو پر سکون چیئر کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا خیال آتے ہی سیدھا ہوا پھر ریموٹ کی مدد سے ایک سی ڈی کی سکرین غائب کی۔۔۔ یکایک سعد اسکے کیبن میں داخل ہوا۔
“گڈ مارننگ سر”۔ احتشام کے قریب آتے اسنے احتراما کہا۔
“مارننگ ۔۔۔۔ ایکچوئلی سعد میں تمھیں ہی کال کرنے والا تھا اچھا ہوا جو تم خود آ گئے”۔ نشست چھوڑتے وہ سعد کے مقابل جا کھڑا ہوا۔
“جی سر کہیئے؟”۔ سوالیہ نظریں احتشام پہ ٹکائے وہ الرٹ کھڑا تھا۔
“تم نے کل ریڈ کے دوران جتنی ویڈیوز بنائی تھیں کیا وہ سب تم نے وائرل کر دیں؟؟”۔ دل میں اٹھتے وہم کے پیش نظر اسنے ہچکچاتے کہا۔
“ویڈیو؟؟ نہیں سر ایک ویڈیو تھی جو میں نے وائرل نہیں کی”۔ سوچتے ہی سعد نے سنجیدہ مختصر جواب دیا۔
“ریزن؟؟”۔
“سر دراصل بات یہ ہے کہ اس ویڈیو کے لاسٹ میں آپکی وائف کی بھی ویڈیو تھی۔۔۔ مجھے ایسا کرنا مناسب نہیں لگا تو میں نے وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دی تھی”۔ سعد نے پرسکون لہجہ اپنایا۔
“تھینک یو سو مچ سعد”۔ احتشام کے دل کو قرار آیا۔
“اٹس اوکے سر یہ تو میرا فرض تھا ویسے بھی وہ ویڈیو لیک کرنے میں بدنامی تھی چاہے آپکی ہو یا میری بات تو ایک ہی ہے نا سر کیونکہ ہمارا مشن ایک ہے۔۔ راہ ایک ہے”۔ سعد نے متبسم انداز میں کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...