“اچھا موقع ہے آپا آپ اس نین تارا کی اچھی طرح کلاس لے لیں ۔۔۔۔ بھائی صاحب اور بی جان تو عمرے پہ گئے ہیں اور احتشام ٹریننگ پہ ۔۔۔۔۔ میں تو کہتی ہوں اسے اسکی اوقات بتا دیں ورنہ کل کو بڑی مصیبت ہو جائے گی”۔ اپنے روم میں بیڈ پہ بیٹھے فون کان کے ساتھ لگائے وہ ممتاز سے گفت و شنید میں محو تھی جب تقی اور سندس ہاتھوں میں شاپنگ بیگز پکڑے روم میں داخل ہوئے۔ “ٹھیک ہے آپا جیسے آپکو مناسب لگے۔۔ آپ زیادہ بہتر سمجھتی ہیں ۔۔۔ خدا حافظ”۔ بولتے ہی تبسم نے لائن ڈسکنیکٹ کر دی۔
“خالہ کی کال تھی۔۔۔ کیا بول رہیں تھیں؟”۔ شاپنگ بیگز تبسم کے سامنے بیڈ پہ رکھتے وہ بھی اسکے سامنے آ بیٹھی۔
“آپا بتا رہیں تھیں کہ احتشام تین دن کی ٹریننگ کے سلسلے میں اسلام آباد گیا ہے”۔ فون سائیڈ پہ رکھتے اسنے کہا۔
“کیا؟؟؟؟؟۔۔۔۔ مطلب احتشام یہاں نہیں ہے؟؟”۔ تبسم کے قریب آتے اسنے کنفرم کرتے پوچھا جس پہ پراسرار ہنسی نے اسکے ہونٹوں کا رخ کیا۔ “اچھا ماما یہ سامان آپ دیکھ لیں ۔۔۔۔ جو رہ گیا ہے اسکی لسٹ بنا لیں تاکہ خریدنے میں آسانی ہو”۔ ہا تھ میں پکڑے شاپنگ بیگز کو تبسم کی جانب بڑھاتے تقی نے مزید کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
ڈنر کے بعد وہ اپنے روم میں آئی ہی تھی کہ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا فون اپنی قوت سے دھاڑا جس پہ وہ تیز قدم اٹھاتی اسکے قریب آئی ۔۔۔ فون کی سکرین پہ احتشام کا نمبر آب و تاب سے چمک رہا تھا۔۔۔ نین تارا کے بے قرار دل کو قرار پہنچا۔۔۔۔ فورا سے کال ریسیو کرتے وہ بیڈ پہ بیٹھ گئی۔
“لگتا ہے اپنے اکلوتے شوہر کے بغیر بڑے سکون سے رہا جا رہا ہے؟”۔ دوسری جانب پر فاش گری کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔
“احتشام مجھے آپ سے یہ امید نا تھی۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں کہ میرا دل اس وقت کس اذیت سے گزر رہا ہے؟؟۔۔۔۔ کاش کہ دل کی کیفیت انسان کے چہرے پہ عیاں ہوتی”۔ نین تارا نے افسردگی سے چہرہ جھکا لیا۔
“جس دل پہ میرا راج ہے اسکی سلطنت میں رونما ہونے والی تبدیلی سے میں کس طرح بے خبر رہ سکتا ہوں؟؟؟۔۔۔۔۔ اچھا بتاو کھانا کھایا تم نے یا مجھے تنگ کرنے کا پلین ہے؟”۔ اندرونی کیفیت اس پہ اجاگر کرتے احتشام نے مزید کہا۔
“جی کھا لیا ہے اور آپ نے؟؟”۔ احتشام کی باتیں نین تارا لے لبوں پہ امڈتی شرمیلی مسکراہٹ کا سبب بنیں۔
“نہیں یار بس ابھی ہی ہوٹل پہنچا ہوں۔۔۔ آرڈر دیا ہے بس فریش ہو کر کھاوں گا۔۔۔ ایک اور بات نینی اکیلے ہرگز مت سونا ایسا کرو ماما کو بلوا لو یا میں خود انہیں کہہ دیتا ہوں”۔
“نہیں احتشام تائی جان کو کیا تکلیف دینی۔۔۔ میں آپ سے وہی پوچھنے والی تھی کہ میں نازلی کو اپنے پاس سلا لوں؟ جب تک آپ نہیں آ جاتے”۔ نفی کرتے اسنے مزید کہا۔
“جناب والا۔۔۔ میری اتنی حیثیت کہاں کہ آپکو انکار کر سکوں ۔۔۔ آپ کو جو مناسب لگے آپ کیجیئے”۔ ہنوز شریر پن سے کام لیا گیا۔
“احتشام”۔ نین تارا نے خفگی سے اسکا نام پکارا جس پہ احتشام کا بلند بانگ قہقہ ہوا میں تحلیل ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“ارے نازلی تم نے صفائی کیوں کر دی؟؟ میں کر لیتی”۔ نین تارا کے فریش ہونے تک نازلی نے ہر چیز اپنی مخصوص جگہ پہ رکھ دی تھی۔
“کوئی بات نہیں نین اپیا۔۔۔۔۔ اچھا آپ بیٹھیں میں آپ کیلیئے ناشتہ لے آتی ہوں”۔ بولتے ہی وہ روم سے نکل گئی تھی۔
نازلی ہلکے قدم اٹھاتی ۔۔۔ سیڑھیاں عبور کرتی کچن میں پہنچی جہاں سنبل ناشتہ بنا رہی تھی۔۔۔۔ کیبنٹ سے ٹرے نکالتے نازلی نے اس میں ناشتے کی اشیا رکھنا شروع کیں پھر ٹرے اٹھائے دروازے کی جانب بڑھی جب سنبل نے اسے ٹوکا۔
“تم یہ ٹرے لے کر کہاں جا رہی ہوں؟”۔
“نین اپیا کو ناشتہ دینے”۔ سنبل کی آواز پہ وہ اسکی جانب گھومی۔
“کوئی ضرورت نہیں ۔۔۔ خدا نے اسے دو ٹانگیں دی ہیں جو صحیح سلامت ہیں۔۔۔ اسکے باپ نے یہاں خادموں کی لائن نہیں لگائی جو اسکے آگے پیچھے گھومتے رہیں”۔ ناشتہ کرنے کی غرض سے ممتاز بھی کچن کی جانب آئی جب اسکی نظر نازلی کے ہاتھوں میں مختلف اشیا سے سجی ٹرے پر گئی۔ ” یہ ٹرے تم واپس رکھو اور اسے یہیں بلا کر لاو۔۔۔ اور خبردار جو اسے کھانا روم میں دینے گئی۔۔۔ سمجھ گئی؟؟”۔ ممتاز نے تلخی سے کام لیا جس پہ نازلی بمشکل سر ہی ہلا سکی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“بیٹا تم نے اپنے بارے میں نہیں بتایا”۔ ڈرائنگ روم میں وہ کشور کے مقابل بیٹھی تھی جب کشور نے اسے مخاطب کیا۔
“آنٹی میرا نام فریال ہے۔۔۔۔ میں بھی مبشر کے ساتھ قائداعظم انٹرنیشنل ہوسپٹل میں ڈاکٹر ہوں ۔۔۔۔ پاپا آرمی آفیسر ہیں اور ماما این جی او چلاتی ہیں ۔۔۔ ہم لوگ دو بہنیں اور ایک بھائی ہیں ۔۔۔ بھائی اور بہن بڑے ہیں انکی شادی ہو چکی ہے بس ایک میں ہی رہتی ہوں”۔ بولتے ہی اسنے شانوں پہ بکھرے بال پشت پہ کیئے۔
“تو کیا تمھاری منگنی ہو چکی ہے یا رشتہ؟؟”۔ کشور نے دلچسپی سے کہا۔
“نہیں آنٹی ابھی تک تو نہیں ۔۔۔ دراصل میرے ماما پاپا چاہتے ہیں کہ میں انکے بتائے لڑکے سے شادی کر لوں مگر میں اس میں انٹرسٹڈ نہیں”۔ فریال نے نزاکت سے الفاظ کو جوڑا۔
“کوئی پسند ہے؟؟”۔
“نہیں آنٹی بس وہ۔۔۔۔”۔
“فریال تم، تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟۔۔۔ میں نے تمھیں ہوسپٹل بات کرنے سے منع کیا تھا تو تم منہ اٹھائے گھر تک چلی آئی ۔۔۔۔ آخر تمھاری پرابلم کیا ہے؟؟”۔ مبشر بھی گھر پہنچ گیا تھا جب ڈائننگ روم سے آتی قہقہوں کی آواز اسکی توجہ کا مرکز بنی۔
“یہی تو میں تم سے پوچھنا چاہ رہی ہوں مبشر کہ تمھاری پرابلم کیا ہے؟؟ آخر تم مجھے اتنا اوائیڈ کیوں کرتے ہو؟؟”۔ غصے میں بولتی وہ صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
“اگر کوئی آپکو اوائیڈ کرے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔ لازمی نہیں کہ بارہا اسکے سامنے آ کر اسے طیش دلایا جائے”۔ مبشر کی آواز قدرے اونچی ہوئی۔
“یہ میری محبت ہے مبشر جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں اپنی انسلٹ بھولتے تمھارے پاس چلی آتی ہوں”۔ بولتے ہی وہ مبشر کے قریب ہوئی۔
“او پلیز اپنی یہ سستی شوٹنگ کہیں اور کرنا۔۔۔ ہر جگہ یہ ایکٹنگ کی دکان مت کھول کے بیٹھ جایا کرو”۔ مبشر نے تپ کر کہا جس پہ فریال غصے میں کلچ اٹھاتی ڈرائنگ روم سے نکل گئی تھی۔
“مبشر بیٹا تم فریال سے آرام سے بھی بات کر سکتے تھے۔۔۔ پتہ نہیں کیا گزر رہی ہو گی اس کے دل پہ”۔ مبشر کے قریب آتے کشور نے تاسف سے کہا۔
“لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ماما۔۔۔ اسے چھوڑیں آپ ۔۔۔۔ میرے لیئے کھانا لگا دیں پلیز میں فریش ہو کر آتا ہوں”۔ بولتے ہی وہ بھی ڈرائنگ روم سے نکل گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
سارا دن کام سے دوچار ہونے کے بعد اب اسکا بدن کسل مندی سے روبرو تھا۔۔۔ بیڈ پہ لیٹتے ہی وہ نیند کے حلقہ آغوش میں چلی گئی تھی۔
“ارے نین اپیا تو سو گئیں”۔ ہاتھ میں کھانا لیئے وہ جونہی روم میں داخل ہوئی اسکی نظریں نین تارا کے وجود پہ گئیں جو بیڈ پہ بے جان پڑا تھا۔
نین تارا کے قریب آتے ہی اسنے ٹرے تھوڑا فاصلے پہ پڑے میز پہ رکھا ہی تھا کہ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا نین تارا کا فون چنگاڑا جس پہ وہ اسکی جانب گھومی۔۔۔ سکرین پہ احتشام کا نام دیکھ وہ درجہ کشمکش میں تھی۔
نین تارا کے جسم میں حرکت محسوس نا کرتے نازلی نے بالآخر کال ریسیو کر لی۔
“ہیلو اسلام و علیکم”۔ نازلی کی ہچکچاہٹ بھری آواز احتشام کی حس سامعہ سے آویزش ہوئی۔
“کون؟؟”۔ ان بھول آواز پہ احتشام کے چہرے پہ استعجاب کی شکن ابھری۔
“احتشام بھائی میں نازلی”۔ آواز کو دھیما کرتے جواب دیا۔
“نین تارا کدھر ہے؟؟۔۔ میں کب سے کالز کر رہا ہوں وہ میری کال کیوں نہیں ریسیو کر رہی؟؟”۔ احتشام نے کوفت سے کہا۔
“وہ نین اپیا سو رہی ہیں”۔ نازلی نے مختصرا کہا۔
“سو رہی ہے۔۔۔ یہ کونسا ٹائم ہے سونے کا؟؟ کھانا کھایا کیا اسنے؟؟۔۔۔۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا اسکی؟؟۔۔۔۔ نازلی مجھے بتاو طبیعت تو ٹھیک ہے نا نین تارا کی؟”۔ وہ جو کہ پرسکون بیٹھا تھا اب بے آب ہوتے ہی نشست چھوڑ دی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آنکھوں سے نیند کا پردہ ہٹا تو وہ فورا اٹھ بیٹھی ۔۔۔ احتشام کا خیال آتے ہی سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر اسے کال ملائی۔
“دا نمبر یو ہیو ڈائلڈ از پاور آف”۔
“یہ احتشام کا فون کیوں بند ہے؟”۔ فون سائیڈ پہ رکھتے ہاتھوں میں چہرہ پکڑے وہ ملول بیٹھی تھی جب نازلی روم میں داخل ہوئی۔
“کیا ہوا نین اپیا آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں”۔
“ہاں وہ کل احتشام سے بات نا ہو سکی اور ابھی انکا فون آف ہے اس وجہ سے پریشان ہوں”۔ بولتے ہی وہ بیڈ سے اتر کر سلیپر پہننے لگی۔
“کل رات کو انکی کال آئی تھی ۔۔۔ آپ سو رہیں تھیں تو جگانا مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔ آپکا پوچھا پھر کال کاٹ دی”۔ نین تارا کے قریب آتے نازلی نے تفصیل دی۔
“ہو سکتا ہے وہ بزی ہوں بعد میں دوبارہ کوشش کروں گی۔۔۔ اچھا میں فریش ہو کر آتی ہوں پھر ناشتہ کرنے چلیں گے”۔ بولتے ہی وہ واش روم کی جانب بڑھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
دن کے بارہ بج رہے تھے جب وہ متوازن چال چلتا ہوٹل کے مقرر کردہ روم میں داخل ہوا۔۔۔ کوٹ اتارتے سائیڈ پہ رکھا،، کالر اور کف بٹنز کھولتے خود کو پرسکون کرتے صوفے پہ بیٹھ کر ٹانگیں سامنے پڑے ٹیبل پہ رکھتے سر پشت پہ رکھ کر ریلیکس ہو گیا۔
پینٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر سوئچڈ آن کیا جو میٹنگ کی وجہ سے آف کر رکھا تھا۔۔۔ سکرین پہ نظر پڑتے اسکے لبوں پہ مبہم مسکراہٹ رقصاں ہوئی جہاں نین تارا کی جانب سے کال آنے کا خاموش پیغام تھا۔
“نہیں کال نہیں کرتا۔۔۔۔ خود وہاں جا کر نین تارا کو سرپرائز دوں گا۔۔۔ وہ کتنا خوش ہوگی نا مجھے دیکھ کر”۔ کنٹیکٹس مینیو کلوز کرتے گیلری اوپن کرتے اسنے نین تارا کی تصاویر دیکھنا شروع کیں۔
“آئی لو یو نینی،،،، تھینک یو سو مچ فار میکنگ مائی لائف بیوٹیفل”۔ لبوں سے سکرین کا بوسہ لیتے اسنے فون سینے پہ الٹاتے آنکھیں موند لیں جیسے نین تارا کی موجودگی کو محسوس کر رہا ہو۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
شام ڈھل کر کالی رات میں بدل رہی تھی۔۔۔۔ روہینہ ،،، ممتاز اور نازلی کی رہنمائی میں فرحان کی شادی کی شاپنگ کے سلسلے میں بازار گئی تھی۔
اندھیرا اپنے جوبن پہ نین تارا کے دل میں ہزار وسوسے بننے لگا تھا۔۔۔ صحن میں مضطرب دل کے ساتھ چہل قدمی کرتے نین تارا کی نظریں انٹرنس کی جانب تھیں۔
“پتہ نہیں یہ تائی جان اور روہینہ کہاں رہ گئے؟؟ نازلی بھی نہیں ہے ۔۔۔ میرا فون؟؟ ۔۔۔ میرا فون تو روم میں رہ گیا”۔ خیال آتے ہی وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
روم میں داخل ہوتے اسنے بیڈ پہ رکھا فون اٹھا کر انلاک کیا ہی تھا کہ روم میں جلتی مصنوعی روشنی زندگی کی بازی ہار گئی۔
“اف خدایا یہ لائٹ کو بھی ابھی ہی جانا تھا۔۔۔ اب میں کیا کروں؟”۔ فون کی لائٹ آن کرتے وہ ڈریسنگ کی جانب گھومی۔۔۔ ڈریسنگ کے دراز ٹٹولتے اسنے ٹارچ ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر بے سود۔۔۔۔۔
“کون؟؟”۔ جونہی وہ ایڑیوں کے بل مڑی اسکا وجود راستے میں حائل شخص کے سینے سے جا ٹکرایا جس پہ وہ سہم کر دو قدم پیچھے کو ہوئی۔
“کیا ہوا نین تارا ۔۔۔ تم گھبرا کیوں رہی ہو؟؟۔۔ ڈرو مت میں ہوں،،، تمھارا عزیز”۔ نقاب سے ڈھکے اس شخص کی بے ہنگم آواز نین تارا کو مزید پریشان کر گئی۔
“ت۔ ت۔ تم کون ہو؟؟ ۔۔۔ کیا چاہتے ہو؟؟ ۔۔۔ ک۔ ک کیوں آئے ہو تم یہاں؟؟”۔ پسینے کے ننھے قطرے اسکی پیشانی پہ آ بسے۔
“تم سے اور تمھارے شوہر سے پرانا حساب برابر کرنا ہے”۔ نین تارا کے قریب ہوتے اسنے نین تارا کا ہاتھ اپنے ہاتھ کے شکنجے میں لیا جس پہ نین تارا کا فون زمین بوس ہو گیا تھا۔
اس شخص کے ہاتھ پہ اپنے دانتوں کے نشان ثبت کرتے نین تارا بد حواس مضطرب دروازے کی جانب دوڑی۔
بغیر کسی روشنی کے؛ اندھیرے کے چنگل میں وہ دیوانہ وار بھاگ رہی تھی۔۔۔ سناٹے کی بدولت اسکے قدموں کی آہٹ پورے گھر میں گونج رہی تھی۔
“آ”۔ ایک زوردار چیخ کے بعد نین تارا کی آواز اس خوفناک اندھیرے میں کہیں دب سی گئی تھی۔۔۔ بغیر کسی مشقت کے اسکا وجود زینے اتر گیا۔
چاروں اور پھیلتی تاریکی سے استفادہ حاصل کرتے وہ شخص بھی کہیں غائب ہو گیا تھا۔
انصاری ہاوس اس وقت تاریکی میں ڈوبا تھا۔۔۔ ہر سو خاموشی تھی۔۔۔ مکمل خاموشی۔ ایسی خاموشی جس نے نین تارا کے ساتھ ایک اور روح کو نوچ ڈالا تھا۔
اندھیرے کے باعث انٹرنس کھلنے کی آواز دور تک واشگاف سنائی دی تھی۔۔ تاریکی کے یوں استقبال پہ وہ بہت حیران ہوا پھر پینٹ کی پاکٹ سے فون نکال کر لائٹ آن کی جسکی روشنی مدہم تھی۔۔۔ ہلکے قدم اٹھاتا وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔
فرش پہ اسکے بے جان وجود نے احتشام کے پیروں کی حرکت کو روکا۔۔ پل بھر کو اسکا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔۔۔ اسکی مستقل چلتی سانسیں اکھڑیں تھیں۔۔۔ ہاتھ میں پکڑا بیگ اسنے وہیں پھینکا پھر پنجوں کے بل زمین پہ بیٹھ گیا۔۔۔ ہاتھ بڑھاتے احتشام نے اسکا سر اوپر کو کیا جو لال رنگ سے رنگ چکا تھا۔۔۔ ہاتھ پہ نمی محسوس کرتے اسنے اسکا سر دوبارہ سے زمین پہ رکھا پھر فون کی لائٹ کی مدد سے ہاتھ پہ نظر ثانی کی جس سے اسکی دل کی سلطنت پہ ناگہانی آفت برپا ہوئی۔
کپکپاتے ہاتھوں سے اسنے لائٹ کا رخ اسکے چہرے کی جانب کیا۔۔۔۔ نقوش واضح ہوتے احتشام کے بدن میں سنسنی خیز لہر دوڑ گئی تھی۔
جو ملبہ احتشام کے وجود پہ آ گرا تھا اسنے احتشام کا وجود مکمل توڑ کر جابجا بکھیر دیا تھا۔
“گھائل ہے میری روح شب دوام سے
نہیں کوئی غرض اب صبح و شام سے
اس طرح سے اب،،، تڑپ رہی ہے یہ
پرندہ تیر کھا کے کوئی گرے اڑان سے”
اوٹی کے باہر اپنے جسم کو دیوار سے لگائے اسنے دونوں بازو سینے پہ لپیٹ رکھے تھے۔۔۔ رات کی وجہ سے کوریڈور سنسان تھا۔۔۔ خاموشی کے باعث اسکے دل کی بالمضاعف چلتی دھڑکنیں واشگاف سنائی دے رہیں تھیں۔۔۔ گردن کو جنبش دیتے اسنے اوٹی کی لال بتی کو دیکھتے سرد آہ بھری۔۔۔ اسکا دل شدت سے نین تارا کی جھلک کا طلب گار تھا۔
“کاش کہ یہ جدائی طویل نا ہوتی۔۔۔ تمھاری روح اس درد ناک اذیت سے ہرگز دوچار نا ہوتی۔۔۔ میری حد بینائی صرف تمھاری ذات تک محدود رہتی تو آج تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ کے جو تیر میں نے چلائے تھے انکی تکمیل میں، میں ناکام ٹھہرا”۔
“ڈاکٹر کیا ہوا؟؟؟ مجھے بتائیے”۔ احتشام برق رفتاری سے اوٹی سے باہر آتی ڈاکٹر کی جانب لپکا۔
“آئی ایم سوری مسٹر شامیر”۔ چہرے سے ماسک اتارتے ڈاکٹر نے تاسف سے کہا جس پہ احتشام آہیں بھرتا رہ گیا۔ “بچے کو بچانا نا ممکن تھا۔۔۔ ہم تھوڑی دیر میں پیشنٹ کو روم میں شفٹ کر دیں گے پھر آپ ان سے مل سکیں گے۔۔۔ ایکس کیوز می”۔ احتشام کو آگاہ کرتے ڈاکٹر وہاں سے چلی گئی تھی۔
بظاہر جفاکش، مستحکم اور بلند ہمت شخص کے اندر بتدریج کچھ نا کچھ ٹوٹ کے بکھر رہا تھا۔۔۔ لبوں کو جبرا سی لینے میں اسنے عقلمندی گردانی۔
وجود میں کوئی حرکت نا تھی مگر روح دیوانہ وار چیخ رہی تھی۔۔۔ اسکی بے بسی پہ ماتم کر رہی تھی۔
وہ ایس پی جو اپنی قابلیت اور ذمہ داری کے نام سے مقبول تھا آج وہ شکستہ ہو کے حالات اور وقت کے آگے گھٹنے ٹیک چکا تھا۔۔۔ آج وہ ہار گیا تھا بحیثیت ایک مجاذی خدا اور والد کے۔۔۔۔ یہ ہار اسے توڑنے کیلیئے یکساں کافی تھی مگر اسنے اپنے آپکو جوڑ رکھا تھا صرف اور صرف نین تارا کیلیئے
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
طلوع آفتاب کی روشنی اپنے معمول پہ ہر دنیا دار پہ اپنی گہری ضربیں لگا کر اپنے ہونے کا خوبصورت احساس دلا رہی تھی۔۔۔ اسکے برعکس احتشام کی زندگی میں گزشتہ رات سے برپا اندھیرا اس روشنی سے فیض حاصل نا کر سکا۔
آٹھ گھنٹے کی لگاتار بے ہوشی کے بعد اب نین تارا نے آنکھیں کھول دیں تھیں۔۔۔ سر پہ گہری چوٹ کے باعث ڈاکٹر نے اسے کسی بھی قسم کا سٹریس لینے سے منع کیا تھا۔۔۔ اس دورانیے میں احتشام نے لمحہ بھر کیلئے بھی اس سے غفلت نہیں برتی تھی۔
بیڈ کے قریب رکھے سٹول پہ بیٹھے وہ نجانے کب سے نین تارا کے ہاتھ پہ سر رکھے سو گیا تھا۔۔۔ احتشام کو یوں سوتا دیکھ نین تارا نے اپنا ہاتھ یونہی ساکت رکھا تھا کہ کہیں وہ احتشام کی نیند میں مخل نا ہو جبکہ آنکھوں کے کناروں سے بے رنگ موتی مستقل رواں تھے۔
“ارے نین تارا ۔۔۔ شکر ہے تمھیں ہوش آ گیا۔۔۔ میں بہت پریشان تھا تمھارے لیئے”۔ چند ہی منٹوں میں احتشام کی آنکھ کھلی جب اسنے نین تارا کی آنکھیں خود پہ فکس پائیں۔ ” اب کیسی طبیعت ہے؟؟ کیسا فیل کر رہی ہو؟؟”۔ اس پہ ہلکا سا جھکتے احتشام نے اسکی پیشانی پہ ہاتھ رکھا جہاں بینڈیج تھی۔
احتشام کے جواب میں نین تارا کی خاموشی اور مسلسل روتی آنکھیں اسے مزید توڑنے پہ لگیں تھیں۔۔۔ نین تارا کے سامنے خود کو پرعزم اور مضبوط انسان ثابت کرنا اسکے لیئے دنیا کا مشکل ترین کام تھا اور یہ مرحلہ دشوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم جلدی سے ٹھیک ہو جاو۔۔۔ میری پہلے والی نین تارا بن جاو بس”۔ چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ لیئے اسنے کہا۔
“آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں؟؟”۔ رنجیدہ خاطر نین تارا نے دھیرے سے کہا۔
“ناراض؟؟”۔ احتشام پوری طرح چونکا۔ “نینی میں بھلا تم سے ناراض کیوں ہونے لگا؟؟ پاگل”۔ پنہاں کیفیت چھپانے کی غرض سے اسنے منہ پھیرا۔
“کیونکہ میں نے آپکی اولاد کا خون کر دیا۔۔۔ آپ نے مجھے۔۔۔۔ کہا تھا کہ اگر میں نے آپکے ۔۔۔ بچے کو کچھ بھی کہا تو آپ ۔۔۔ مجھ سے ۔۔۔۔۔۔۔”۔ تا ہنوز بہتے آنسوؤں کی وجہ سے اسکی آواز اب جیسے حلق میں پھنس گئی تھی۔۔۔ گلے میں خراش پیدا ہو گئی تھی۔
نین تارا کی بات نے احتشام کے دل پہ ضرب لگاتے اسکی دھڑکن روک دی تھی ۔۔۔۔ احتشام کی مسلسل لرزتی پلکیں ایک جگہ منجمد ہوئیں۔
احتشام کی حالت دل میں پیوست اس خنجر کی مانند تھی جو نا نکالنے پہ تکلیف دہ ثابت ہو رہا تھا اور نکالنے پہ جان لیوا
“یہ کیسا شورش برپا ہے دل کی اس وادی میں
کیوں حوصلہ ہار کے تو زخموں سے چکنا چور ہوا
کم ہمتی سے تو،،، تو نے کبھی سوچا بھی نا تھا
حالات کی چکی میں پھر کیوں پسنے پر مجبور ہوا
راستے تو کھلے ہیں تیرے چار سو ابھی بھی
خود ہی اپنے آپ میں اس طرح سے محصور ہوا”
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
نین تارا ڈسچارج ہو کر گھر آ گئی تھی۔۔۔ احتشام اسکو اپنے روم میں ہی لے آیا تھا۔
“ارے احتشام بیٹا میں بہت پریشان تھی تمھارے لیئے۔۔۔۔ جب سے مجھے خبر ملی ہے کہ نین تارا سیڑھیوں سے گر گئی میرا تو کلیجا جیسے منہ کو آ گیا”۔ ممتاز ہڑبڑاہٹ میں روم میں وارد ہوئی۔
“تمھیں کسی چیز کی ضرورت ہے؟؟”۔ ممتاز کی بات پہ کان نا دھرتے احتشام نین تارا کی جانب جھکا جس پہ نین تارا نے نفی میں سر ہلا دیا تھا۔
“نین تارا تمھاری طبیعت کیسی ہے؟؟”۔ نین تارا کے قریب آتے ممتاز نے کہا۔
“میں ٹھیک ہوں تائی جان”۔
“ڈاکٹر نے کیا کہا ہے احتشام بیٹا؟”۔ نین تارا کے بعد وارڈ روب کی جانب بڑھتے احتشام کو اسنے مخاطب کیا۔
“ٹھیک ہے نین تارا پریشانی والی کوئی بات نہیں”۔ وارڈ روب سے سوٹ نکالتے اسنے دروازہ بند کیا پھر واش روم کی جانب بڑھا۔
“اور بچہ؟؟”۔ دل آویزی سے احتشام کو دیکھتے ممتاز نے مزید کہا۔
“اتنا کچھ ہو جانے کے بعد بھی آپکے دل میں اس بات کی رمق بھر امید بھی باقی ہے کہ میرا بچہ ٹھیک ہو گا”۔ سرعت سے ممتاز کی جانب پلٹتے احتشام نے باطنی عداوت سے کہا۔ “میں نے آپ سے کچھ نہیں چاہا تھا ماما۔۔۔۔ صرف اور صرف اتنا کہ آپ میری بیوی اور ہونے والے بچے کا خیال رکھنا مگر آپ لوگ تو اپنی ہی دنیا میں مست تھے۔۔۔۔ میرا بچہ آپ لوگوں کی لاپرواہی کی وجہ سے اس دنیا میں نا آ سکا”۔ احتشام کی دل خراش آواز ممتاز کے کانوں میں پگھلے سیسے کی مانند پہنچی۔
رخسار پہ بہتے آنسوؤں کو نین تارا بارہا صاف کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
“احتشام تم اپنی ماں کی پاک نیتی پہ شک کر رہے ہو؟؟”۔ ممتاز نے تلخی سے کہا۔
“شک نہیں کر رہا۔۔۔۔ بیتے دنوں میں آپ سے کہے الفاظ آپکو یاد دلانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔ اینی وے جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔۔۔ سچ کہتے ہیں اپنے مرے سوا جنت نہیں ملتی۔۔۔ آئیندہ میں اپنی ذمہ داری کسی دوسرے کے کندھے پہ ہرگز نہیں ڈالوں گا”۔ اسکو باور کراتے احتشام واش روم کی جانب گھوما۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“سندس میرے سر میں بہت درد ہے پلیز میرے لیئے ایک کپ چائے بنا کے میرے روم میں لے آو”۔ تقی جو اسی وقت گھر میں داخل ہوا سیدھا سندس کے روم میں آیا تھا۔
“اوکے”۔ منہ کے زاویے بگاڑتے وہ بھی بالآخر کچن میں چلی گئی تھی۔
“یہ لو تقی تمھاری چائے”۔ چند منٹوں کی کوتاہی کے بعد سندس ہاتھ میں چائے کا مگ پکڑے تقی کے روم میں داخل ہوئی۔ ” یہ تمھارے ہاتھ پہ کیا ہوا ہے؟؟۔۔۔ کسی چیز کے کاٹنے کا نشان معلوم ہو رہا ہے؟”۔ مگ تقی کی جانب بڑھاتے اسکی نظر تقی کے بائیں ہاتھ کی پشت پہ پڑی جس سے اسنے تخمینہ کرتے کہا۔
“ہاں وہ بس ۔۔۔ اسے چھوڑو تم سناو تمھاری شادی کی شاپنگ ہو گئی ہے یا کچھ باقی ہے؟”۔ بات کو ٹالتے اسنے چائے کا سپ لیا۔
“نہیں تقی ابھی رہتی ہے۔۔۔ سچ پوچھو تو یوں معلوم ہو رہا ہے جیسے ابھی شاپنگ شروع ہی نہیں کی”۔ تقی کی مخاطبت پہ وہ اسکے سامنے بیٹھ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گزرتے وقت نے نین تارا اور احتشام کے زخم پہ خاصی مرہم رکھی تھی۔۔۔ ان دونوں کے چہروں پہ رونق اور خوشی بحال کرنے میں معاون ثابت ہوا تھا۔۔۔ واجد اور قدسیہ بیگم بھی بخیر و عافیت پاک سرزمین سے رخصت ہوتے اپنے وطن اہل و عیال کے پاس آ پہنچے تھے۔
“نین تارا میں تمھارے لیئے بہت فکر مند تھی۔۔۔۔ یہ صدمہ تمھارے اور شامیر کیلیئے بہت بڑا تھا میری زبان پل پل تم لوگوں کیلیئے دعا گو تھی۔۔۔۔ وہ ذات بہتر جانتی ہے ہم انسانوں کی کیا بساط؟۔۔۔۔ اب تو بس یہی دعا ہے جو ہو تم دونوں کے حق بہترین ہو”۔ قدسیہ بیگم کے روم میں نین تارا اسکے سامنے بیٹھی تھی جب قدسیہ بیگم نے اسے کہا۔
“آمین”۔ نین تارا نے متبسم کہا۔
“اچھا نینی یہ کھجوریں اور زم زم تمھارے اور احتشام کیلیئے”۔ بولتے ہی اسنے مخصوص شاپنگ بیگ نین تارا کی جانب بڑھایا۔
“واہ بھئی کیا مذاکرات چل رہے ہیں؟؟ جان من اور جان تمنا کے مابین”۔ روم میں داخل ہوتے احتشام نے بلند بانگ کہا۔
“کچھ خاص نہیں۔۔۔۔ یہ پندرہ دن پندرہ صدیوں کے برابر گزرے۔۔۔۔ بی جان کو بہت یاد کیا تو میں بی جان کے پاس چلی آئی۔۔۔ یہ دیکھیں بی جان نے کھجوریں اور زمزم بھی دیا ہے”۔ بولتے ہی اسنے ہاتھ میں پکڑے شاپنگ بیگ کی جانب اشارہ کیا۔
“ہہمم گریٹ۔۔۔۔ اچھا تو بی جان بتائیے آپ نے میرے اور نین تارا کیلیئے کون کون سی دعائیں مانگیں؟؟؟ ۔۔۔ مانگیں بھی ہیں یا نہیں؟؟”۔ بولتے ہی وہ قدسیہ بیگم کی جانب متوجہ ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“نین تارا چلو جلدی سے تیار ہو جاو”۔ عجلت میں وہ روم میں داخل ہوا۔
“مگر کیوں؟؟”۔ نین تارا جو وارڈ روب کے پاس کھڑی تھی متحیر احتشام کو دیکھنے لگی۔
“شاپنگ پہ جانا ہے”۔ نین تارا کے قریب آتے اسنے مختصرا کہا۔
“احتشام میرا دل نہیں چاہ رہا آپ کسی اور کو لے جائیں پلیز”۔ دبے تھکے لہجے میں بولتی وہ بیڈ کی جانب بڑھی۔
“اچھا تو پھر ٹھیک ہے میں ایسا کرتا ہوں کہ سندس کو لے جاتا ہوں”۔ ہنسی دباتے اسنے مصنوعی سنجیدگی ظاہر کی۔
“احتشام آپ اسکا نام میرے سامنے مت لیں ۔۔۔ وہ مجھے ذرا بھی اچھی نہیں لگتی”۔ نین تارا نے منہ بنایا۔
“ہاں لیکن اگر تم میرے ساتھ جانے کیلیئے رضا مند نہیں تو مجھے مجبورا یہ قدم اٹھانا پڑے گا”۔ احتشام ہنوز شریر انداز میں گویا ہوا۔
“آپ راستے سے کسی بھکارن کو لے جائیں میں برا نہیں مناوں گی مگر اسے بالکل بھی نہیں”۔ بولتے ہی وہ بیڈ پہ جھکتے کمفرٹر سیٹ کرنے لگی جبکہ احتشام ہلکے قدم اٹھاتا اسکے مقابل جا کھڑا ہوا جس پہ وہ سیدھی ہوئی۔
“جب اللہ رب العزت نے مجھے ملکہ دی ہے تو میں کیوں کسی بھکارن کے ساتھ جانے کی چاہ کروں ؟؟۔۔۔۔ بہتر ہے کہ تم اپنا حق استعمال کرتے میرے ساتھ چلنے کی خواہش خود ہی ظاہر کر دو ورنہ۔۔۔۔۔”۔ بولتے ہی اسنے دائیاں آبرو اچکاتے قدرے اوپر کو کیا۔
“ورنہ کیا؟؟”۔ کمر پہ ہاتھ رکھے نین تارا اسکے قریب ہوئی۔
“ورنہ جیسا آپ مناسب سمجھیں ۔۔۔ بندہ نا چیز کی کیا جرات اف بھی کر سکے”۔ دل موہ لینے والی مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا رخ کیا۔۔۔ اپنا چہرہ اسکے چہرے کے قریب کرتے احتشام نے اپنی ناک اسکی ناک کیساتھ دھیرے سے رگڑا۔ ” چلو اب جلدی سے تیار ہو کر نیچے آ جاو۔۔ میں تمھارا انتظار کر رہا ہوں”۔ بولتے ہی وہ دروازے کی جانب پلٹا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
آج فرحان کی مہندی کی تقریب تھی جو خاص طور پہ رات کو ہی منعقد کی جاتی ہے۔
بلیک شلوار قمیض پہ ڈارک محرون کوٹ پہنے وہ بہت منفرد، نفیس اور پیارا لگ رہا تھا۔
“نین تارا تم تیار ہو؟؟”۔ قدم اٹھاتا وہ ڈریسنگ ٹیبل کی طرف آیا جہاں نین تارا اسکی جانب پشت کیئے کھڑی تھی اور شیشے سے اسکا عکس دیکھتے اسکی جانب گھومی۔
“جی میں تیار ہوں”۔ اسنے نیوی بلیو نیٹ کے لہنگے پہ سلور شرٹ پہن رکھی تھی۔۔۔۔ لہنگے کا ہم رنگ دوپٹہ دائیں جانب سلیقے سے سیٹ کیا گیا تھا۔۔۔ سامنے کے بالوں کو بائیں جانب ٹویسٹ کیا تھا ساتھ ہی دائیں جانب جھومر لگایا تھا۔۔۔ گلے میں نفیس گلبند ۔۔۔ بقیہ بالوں کو کھلا چھوڑتے انکے کرلز بنائے تھے اور چہرے پہ میک اپ کا ہلکا ٹچ دیا تھا۔
“ایک کمی باقی ہے”۔ بولتے ہی احتشام اسکے مزید قریب ہوا۔ “اب تم محفوظ ہو۔۔۔ عشق کے حصار میں شامیر کی پناہ میں”۔ نین تارا کے دونوں رخساروں پہ ایک کے بعد ایک محبت کی مہریں ثبت کرتے اسنے پر اعتماد انداز میں کہا۔
“پاگل”۔ نین تارا ہنس دی۔
“عشق کی راہ پہ قدم انسان یہ سوچے سمجھے بنا رکھتا ہے کہ اسے منزل ملے گی یا نہیں۔۔۔۔ ایسے میں جنونیت،، پاگل پن،، آوارگی عام بات ہے”۔ احتشام نے کندھے اچکائے۔
“اگر انسان کو اس بات کا علم ہو کہ اسے منزل مل جائے گی پھر؟؟”۔ نین تارا نے دلچسپی سے پوچھا۔
“پھر شاید اتنی شدت، تکلیف برداشت کرنے کا مزہ اور اتنی کشش باقی نہیں رہتی۔۔۔ پتہ ہے جب مجھے تم سے عشق ہوا تھا مجھے اس بات کا قطعا علم نا تھا کہ تم مجھے ملو گی یا نہیں اور دیکھو تم میرے سامنے ہو ۔۔۔ میری دسترس میں”۔ احتشام نے فاتحانہ انداز میں کہا۔
“اب آپکو مجھ سے محبت نہیں رہی کیا؟؟”۔ اسنے پے در پے سوال کرتے کہا۔
“ہرگز نہیں بلکہ تمھارا احساس، وجود اور تمھاری قربت میرے عشق کی شدت کو دوبالا کر گئے”۔ احتشام نےمتبسم کہا۔
“عشق کی انتہا بعض اوقات انسان کے خود کیلیئے مہلک ثابت ہوتی ہے”۔ احتشام کے چہرے کی جانب دلربا نظر اچھالتے نین تارا نے کہا۔
“عشق کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ۔۔۔ چاہے عشق حقیقی ہو یا مجاذی دونوں صورتوں میں محبوب کی جدائی انسان کو ملنگ بناتی ہے ۔۔۔ اسکی دید کا،،،، اسکی قربت کا،،،، اسکے حصار کا”۔ احتشام نے خوبصورتی سے الفاظ کو یکجا کیا جس پہ نین تارا منجمد کھڑی اسے دیکھتی رہ گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...