اسکا وجود روم کے فرش پہ بے حس و حرکت پڑا تھا جب چڑیوں کے چہچہانے کی آواز سے اسکی آنکھیں کھلیں۔۔ اپنے ساتھ ہوئے سانحے کو یاد کرتی وہ تلملا اٹھی۔
بیڈ کی جانب پلٹتے اسنے بیڈ پہ رکھی شال اٹھا کر اپنے گرد کی پھر حلیہ درست کرتے روم سے نکل گئی۔۔۔ اردگرد ماحول پہ حدت نظر کرتے وہ اپنے قدم دھیرے سے رکھ رہی تھی۔
“نبیہا”۔ جونہی اسنے انٹرنس کا دروازہ اپنی جانب کھولا،، نصیر کی فلک بوس آواز اسکے کانوں تک پہنچی جس پہ وہ بوکھلا کر اسکی جانب گھومی۔
“کہاں جا رہی ہو؟؟”۔ قدم اٹھاتا وہ اسکے قریب آ کر تلخی سے گویا ہوا۔
“پولیس سٹیشن۔۔۔ رپورٹ درج کرانے”۔ وہ آنکھیں جو رونق سے خالی تھیں نصیر کی آنکھوں میں بے خوف جھانک رہی تھیں۔
“نا ہی تم پولیس سٹیشن جاو گی۔۔ نا ہی کوئی رپورٹ درج ہو گی”۔ نصیر نے تحکم انداز میں کہا۔
“کیوں پاپا؟؟ رپورٹ کیوں نہیں درج ہوگی؟؟۔۔ وہ وحشی انسان کھلے عام گھوم رہا ہے آج میری عزت پامال ہوئی ہے کل کو کسی اور کی ہو گی۔۔۔ پاپا کیا آپ چاہتے ہیں کہ پھر کوئی لڑکی اس درندے کی ہوس کا نشانہ بن کر ذلت و رسوائی کا مجسمہ بن کر رہ جائے؟ پھر کوئی فیملی رنجیدہ ہو جائے؟”۔ نصیر کے قریب آتے نبیہا نے جیسے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی مگر نصیر دل کی جگہ پتھر رکھ چکا تھا۔
“نبیہا میں مزید بحث کے موڈ میں نہیں ۔۔۔۔۔ تمھاری یہ تمام دلیلیں رائیگاں ہیں”۔ سنجیدہ لہجے میں بولتے اسنے نبیہا کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔
“پاپا یہ آپ مجھے کہاں لے کر جا رہے ہیں؟؟؟ پلیز چھوڑ دیں مجھے ۔۔۔ میں انصاف چاہتی ہوں”۔ نبیہا کا جسم بے جان گڑیا کی مانند اسکے عقب میں گھسیٹتا چلا جا رہا تھا۔
“پاپا پلیز مجھے نکالیں باہر۔۔۔ پاپا پلیز میری بات سنیں”۔ نبیہا کو اسکے روم میں بند کرتے اسنے دروازہ لاک کر دیا تھا۔
نبیہا کی آنکھیں خالی خالی اور بے کیف تھیں مگر انہی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جوش سے بہہ رہا تھا۔
نبیہا کے احتجاج کا نصیر پہ رتی برابر بھی اثر نا ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“زندگی ہاتھوں سے جا رہی ہے
شام سے پہلے رات آ رہی ہے
صاحب عالم کہاں رکے ہو؟
کلی تمھاری مرجھا رہی ہے”۔
کچن میں سنک کے پاس کھڑی وہ پورے جوش سے گلوکارہ کی کاپی کرتے گانا گنگنا رہی تھی جب ممتاز اسکے عقب میں آ کھڑی ہوئی۔
“بیگم صاحبہ آپکو کچھ چاہیئے؟”۔ جونہی وہ دروازے کی جانب گھومی ممتاز کو دیکھتے اسنے فورا سے کہا۔
“نہیں مگر مجھے تم سے ایک ضروری کام ہے اگر تم وہ کام پوری ایمانداری سے سر انجام دو گی تو میں تمھیں اسکی بڑی اجرت دوں گی”۔ دروازے کی طرف جھانکتے اسنے تسلی کی پھر آواز کو قدرے دھیما کیا۔
“کونسا کام بیگم صاحبہ؟؟ آپ بے فکر رہیں جو بھی کام ہو گا میں پوری ایمانداری سے سر انجام دوں گی۔۔۔ مجھے امید ہے آپکو میری جانب سے کوئی شکایت نہیں ہو گی”۔ انعام کے جھانسے میں آتے ہی اسنے جھٹ سے پیش کش قبول کر لی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“نازلی ادھر آو ۔۔۔ میرے پاس بیٹھو”۔ نازلی نین تارا کے روم میں اسے ناشتہ دینے کی غرض سے آئی تھی جب اسنے نازلی کو مخاطب کیا۔
“جی”۔ قدم اٹھاتی وہ بیڈ پہ نین تارا کے سامنے آ بیٹھی۔
پرانے لباس میں زیب تن وہ کوئی اٹھارہ سال کی لڑکی سادگی کا عنصر معلوم ہو رہی تھی،،، چہرے پہ بلا کی معصومیت،، آنکھوں میں بے نور چمک جیسے دنیا کی رنگینیوں سے مایوس ہو چکی ہو۔۔۔ امید کا چراغ بجھ چکا ہو،، جہان فانی سے بے نیاز روح۔
“تمھاری فیملی میں کون کون ہے؟؟”۔
“ج۔ جی؟؟”۔ نین تارا کے سوال پہ اسکی ساکت پلکوں میں ارتعاش پیدا ہوا۔
“کیا ہوا نازلی؟؟ تم پریشان کیوں ہو؟؟”۔ اسکا ہاتھ تھامتے نین تارا نے ہولے سے کہا۔
“میرا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ۔۔۔ میں تنہا ہوں”۔ نازلی کے یہ الفاظ نین تارا کے دل کو ایک سحر میں لے چکے تھے ۔۔۔ ایسا سحر جس نے اسکے دل کی دھڑکنوں کو ماضی کی ڈور سے الجھا دیا تھا۔
“یہ پرانی بات ہے نازلی۔۔۔۔ اب تم اس دنیا میں اکیلی نہیں ۔۔۔ میں ہوں نا تم مجھے اپنا سمجھو۔۔۔۔ بلکہ مجھے بے حد مسرت ہوگی اگر تم مجھے اپنا کہو۔۔۔۔ فکر مند ہونے کی قطعا ضرورت نہیں۔۔۔۔ تمھیں جب بھی کسی چیز کی حاجت ہو ۔۔۔ تم بلا جھجک مجھ سے کہہ سکتی ہو”۔ نازلی کے قریب ہوتے نین تارا نے اسے گلے لگا کر اپنائیت بھرے لہجے میں کہا۔
“آپ بہت اچھی ہیں ۔۔۔۔ نین اپیا”۔ برسوں بعد اسکی روح دور گزشتہ کی کرب ناک بیڑی کو توڑتی آج آسودہ ہوئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“کیا ہوا ماما؟۔۔۔ آپ اور پاپا کہاں سے آ رہے ہیں؟؟”۔ ممتاز اور واجد یکجا انٹرنس کی دہلیز پار کرتے صحن میں آمنے سامنے آ بیٹھے تھے جب روہینہ اس طرف آ کر پر مزہ انداز میں پوچھنے لگی۔
“تمھاری خالہ کی طرف گئے تھے”۔ تھکان کے باعث ممتاز نے مختصرا کہا۔
“روہینہ جاو بیٹا ۔۔۔ پانی لے آو”۔ اپنے آپکو ڈھیلا چھوڑتے وہ چیئر کی پشت سے ٹیک لگاتے پرسکون ہو گیا۔
چند منٹوں کے نقصان پہ روہینہ ممتاز اور واجد کیلیئے پانی لے آئی تھی۔
“اچھا ماما بتائیں فرحان بھائی کی شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی؟”۔ ممتاز کے برابر میں بیٹھتے روہینہ نے دل آویزی ظاہر کی۔
“ہاں ہو گئی اگلے ماہ کی یکم کو۔۔۔ تم اپنی تیاری ابھی سے شروع کر دو۔۔۔ شادی کے نزدیک مجھ سے بھاگ دوڑ نہیں ہوتی”۔ آزمودہ کاری کے بعد وہ اٹھ کر اپنے روم میں چلی گئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
رات کی روشنی ڈریسنگ کے شفاف آئینے کے پاس ہی جل رہی تھی۔۔۔ آئینے میں وہ اپنی ہی مصیبت زدگی دیکھ رہی تھی۔
اسکا تلخی بھرا چہرہ۔۔۔ اسکے چہرے کے عکس میں اسکی بے بسی،، رنج،، ملال اور ناامیدی کا عکس چھلک رہا تھا۔
وہ بغیر آنسو بہائے رو رہی تھی۔۔۔ اسکی آواز خشک تھی،، روح بے آواز رو رہی تھی جبکہ دل خون کے آنسوؤں سے لبریز تھا۔
نا چاہتے ہوئے بھی یہ ڈراونا خواب اب اسکے حال اور مستقبل سے منسلک ہو چکا تھا۔۔۔ یہ ایک ایسا زہریلا تیر تھا جسکا ہدف نبیہا کی بقیہ زندگی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
وارڈ روب کا دروازہ کھولے وہ کپڑوں کی سلیکشن دیکھ بھال کے کر رہا تھا جب نین تارا بیڈ سے اٹھتی اس طرف آئی۔
“احتشام فرحان بھائی کی شادی کی ڈیٹ رکھ دی گئی ہے”۔ ہاتھوں کی انگلیوں سے اٹکیلیوں کی وجہ سے کلائیوں میں پہنی کانچ کی چوڑیاں جھوم اٹھیں تھیں۔
“ہاں جی خبر ملی ہے”۔ نین تارا کی جانب پشت کیئے احتشام نے جواب دیا۔
“آپ تو بزی ہوتے ہیں اتنا وقت نہیں ہوتا آپ کے پاس۔۔۔۔ میں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ کیا میں روہینہ یا تائی جان کے ساتھ شاپنگ پہ چلی جاوں؟؟”۔ احتشام کی خصلت کے پیش نظر اسنے ہچکچاتے پوچھا۔
“ہرگز نہیں ۔۔۔۔ تمھیں اشیا چاہیئں وہ میں تمھیں فراہم کروں گا۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک چیز تمھارے قدموں میں رکھ دوں گا مگر میں تمھیں بازار جانے کی بالکل اجازت نہیں دے سکتا”۔ نین تارا کی جانب سرعت سے پلٹے احتشام دوبارہ سے وارڈ روب کی جانب گھوم گیا۔
“مگر احتشام میں اس بار اپنی پسند کی چیزیں لینا چاہتی ہوں”۔
“نین تارا تمھیں میری پسند پہ ذرہ برابر بھی شک نہیں ہونا چاہیئے۔۔۔ میری پسند کتنی لاجواب ہے تمھیں بتانے کی ضرورت درپیش نہیں ۔۔۔ جیتی جاگتی مثال تمھارے سامنے ہے”۔ نظروں کا اشارہ نین تارا کی جانب کرتے وہ سائیڈ ٹیبل کی جانب مڑا۔
“احتشام آپ میری بات سمجھ کیوں نہیں رہے؟۔۔۔ میں اس کمرے میں قید رہ کر بور ہو گئی ہوں۔۔۔ کچھ دیر باہر جانا چاہتی ہوں”۔ اب کی بار نین تارا کی آواز قدرے اونچی ہوئی۔
” نین تارا میری لگائی بندشوں میں قید رہ کر اگر تم نہیں رہنا چاہتی تو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔ میں جا رہا ہوں۔۔۔۔ میری عدم موجودگی میں تم جو کرنا چاہو کر سکتی ہو”۔ چہرے پہ تاہنوز سنجیدگی آراستہ کیئے اسنے وارڈ روب سے ایک بیگ نکال کر بیڈ پہ رکھا پھر اس میں اپنے حساب سے کپڑے رکھنا شروع کیئے۔
“کیا احتشام آپ اتنی سی بات پہ گھر چھوڑ کر چلے جائیں گے؟”۔ احتشام کی اس عجلت پہ وہ ہانپتی احتشام کے قریب آئی۔
” جو تم چاہتی ہو میں وہی تو کر رہا ہوں”۔ وارڈ روب کی جانب گھومتے اسنے نین تارا کی طرف پشت کی۔۔۔ شریر ہنسی نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا جسے اسنے جبرا ضبط کیا۔
“نہیں احتشام ایسا مت کریں پلیز۔۔۔۔ میں آپ سے بے پناہ محبت کرتی ہوں۔۔۔۔ میں بوسیدہ لباس اور سوکھی روٹی پہ گزارہ کر سکتی ہوں مگر آپکے بنا میرا ایک پل بھی دشوار ہے۔۔۔۔ آپ یوں مجھے چھوڑ کے۔۔”۔ بے رنگ موتی نین تارا کی پلکوں سے آ لپٹے تھے۔
“نین تارا ۔۔۔۔۔ نین تارا ۔۔۔۔۔ پاگل تو نہیں ہو گئی ہو؟؟ کیا سوچنے لگ گی؟۔۔ تم سے کس نے کہا کہ میں گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں۔۔۔ تمھیں بتایا تھا میں نے ٹریننگ کے سلسلے میں اسلام آباد جانا ہے”۔ نین تارا کے آنسوؤں اور سسکیوں نے اسکے دل کو آ جکڑا تھا۔۔۔ اسکے آنسوؤں کو انگلی کے پوروں کی مدد سے صاف کرتے نین تارا کو اپنے سینے سے لگا کر مطمئن کیا۔
“نینی میری جان تم کب بہادر ہو گی؟؟ یوں تو مجھے تمھاری فکر کبھی نا چھوڑے گی۔۔۔۔ تم اس قدر حساس اور معصوم ہو مجھے ڈر ہے کہیں مجھے تمھاری معصومیت کسی بڑی ناقابل پیمائش آزمائش میں نا ڈال دے”۔ نین تارا کی غیر ہوتی حالت نے اسے ایک اور خوف سے روبرو کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح کے نو بج رہے تھے۔۔ کار ہوسپٹل پارکنگ ایریا میں پارک کرتے وہ ہوسپٹل کے اندرونی جانب متوازن چال چلنے لگا تھا۔
راستے میں ملنے والا ہر خاص و عام اس پہ سلامتی بھیج رہا تھا جسے وہ ہلکا سا سر میں خم لاتے جواب دے رہا تھا۔
“ارے فریال تم؟؟”۔ اپنے کیبن میں فریال کی موجودگی اسے سخت شاق گزری۔
“مجھے دیکھ کر چونک کیوں گئے؟؟۔۔ تمھارے چہرے کے تاثرات تو یوں ہیں جیسے کوئی جن بھوت دیکھ لیا ہو”۔ بولتے ہی وہ مبشر کے قریب آئی۔
“بے وقت،، بلا ضرورت تمھاری یہاں موجودگی میرے لیئے قابل تسکین تو ہو گی نہیں”۔ فریال کو اگنور کرتا وہ اپنی چیئر پہ جا بیٹھا۔
“مبشر پھر تو یہ قیامت کا دن ہی ممکنہ ہے جب مجھے دیکھ کر تمھارے چہرے پہ مسکراہٹ آئے”۔ اس پہ طنز کرتے فریال اسکی جانب گھومی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
قدسیہ بیگم اور واجد کا سفر اللہ کی امان میں اس پاک اور بابرکت ذات کے گھر کی جانب شروع ہو چکا تھا۔۔۔ نین تارا اپنے روم میں اسی سوچ کے بھنور میں ڈوبی تھی جب احتشام روم میں داخل ہوا۔
“احتشام آپ بی جان اور تایا ابو کو چھوڑ آئے؟”۔ وہ جو بیڈ پہ پرسکون لیٹی تھی احتشام کے آتے ہی سیدھی ہو بیٹھی۔
“ہاں چھوڑ آیا ہوں ۔۔۔ اب تک تو جہاز ٹیک آف بھی کر چکا ہو گا”۔ بولتے ہی وہ واش روم کی جانب بڑھا۔
“اللہ انہیں اپنے تحفظ میں رکھے ۔۔۔ آمین”۔ بولتے ہی اسنے دعا میں ہاتھ اٹھائے۔
سادہ لباس کو اپنے مخصوص یونیفارم سے تبدیل کرتے احتشام بھی واش روم سے نکل آیا تھا۔۔ ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھتے اسنے پرفیوم کی شیشی اٹھا کر گلے کے دونوں اطراف چھڑکا پھر نین تارا کی جانب گھوما جو مسلسل اس پہ نظر کرم کیئے بیٹھی تھی۔
“اوکے نینی میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے”۔ احتشام کے قریب آتے ہی وہ بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ “پریشان ہونے کی بالکل ضرورت نہیں ۔۔۔ میں ویڈیو کال پہ تمھیں تنگ کر کے پل پل اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہوں گا اور ہاں ۔۔۔ تم نے اپنا اور میرے ہونے والے بچے کا خاص طور پہ خیال رکھنا ہے۔۔۔ یہ تو تمھیں بالکل تنگ نہیں کرے گا مجھے ہنڈرڈ پرسنٹ شورٹی ہے کیونکہ اسکا باپ نہایت ہی شریف،، مہذب،، اچھا،، کیئرنگ اور لونگ ہے رہی بات تمھاری تو۔۔۔۔ نین تارا خبر دار جو میرے بچے کو پریشان کرنے کی کوشش بھی کی تو۔۔۔۔ ورنہ میں تم سے ناراض ہو جاوں گا”۔ اسکا چہرہ ہاتھوں کی اوک میں لیتے احتشام نے الفاظ کا چناو وقت کی مناسبت سے کیا جس پہ نین تارا مسکرا دی تھی۔
“اسکا مطلب ہے احتشام باپ جتنا تنگ کرتا ہے ۔۔۔ بچہ اس سے ڈبل کرے گا؟”۔ آنکھوں میں آئی نمی چھپانے کی غرض سے نین تارا نے جبرا زبان کو حرکت دی۔
“یہ تو اب مجھے نہیں پتہ ۔۔۔۔ اوکے نین تارا اپنا بہت زیادہ خیال رکھنا۔۔۔۔۔ انشاءاللہ یہ تین دن چٹکی بجاتے گزر جائیں گے۔۔۔ فی امان اللہ”۔ کچھ لمحے کیلیئے اپنے لب نین تارا کی پیشانی پہ رکھتے احتشام نے خود کو پرسکون کیا پھر بمشکل خود کو نین تارا سے دور کرتے وارڈ روب کی جانب گھوما۔۔۔ وارڈ روب کے پاس رکھے بیگ کا ہینڈل پش کرتے اوپر کو کیا پھر نین تارا کی جانب دیکھے بغیر روم سے نکل گیا۔
نین تارا پہ الوداعی نظر نا ڈالنے کی بنیاد نین تارا کا حساس دل تھا جو احتشام کے دور ہونے کے خوف سے ہی کانپ اٹھا تھا،،،،، نین تارا کی وہ آنکھیں تھیں جن کی بصارت میں احتشام کی جدائی کا منظر اسے انمول موتی گنوانے پہ اکسا رہیں تھیں۔
خیال آتے ہی نین تارا نے کانپتے ہاتھوں سے سر پہ سلیقے سے دوپٹہ سیٹ کیا۔۔۔ آیت الکرسی پڑھ کر آنکھیں موند لیں جسکے باعث اسکے آنسو رخسار پہ بہہ نکلے۔۔۔۔ پھر احتشام کا تصور کرتے آیت الکرسی اس پہ پھونک دی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆