“ارے فریال تم وہاں کیوں کھڑی ہو؟؟؟ اندر آ جاو”۔ ہا تھ میں پکڑی فائل کے صفحات ٹٹولتے وہ لیپ ٹاپ پہ اسکے متعلق سرچ کرنے میں محو تھا کہ کیبن کا دروازہ کھلا۔
“بزی ہو؟؟”۔ اسکے قریب آتے فریال نے کہا۔
“نہیں کچھ خاص نہیں ۔۔۔۔ ایک پیشنٹ کی فائل ریڈ آوٹ کر رہا تھا۔۔۔۔ تم سناو؟ کوئی کام ہے؟”۔ فائل سائیڈ پہ رکھتے اسنے چیئر کی پشت سے ٹیک لگا لی۔
“کام تو نہیں تھا میں فری تھی تو سوچا تمھارے ساتھ کیفے ٹیریا کا چکر لگا آوں”۔ اسکے مزید قریب آتے فریال نے اپنے سامنے رکھی چیئر کی پشت تھامتے کہا۔
“سوری فریال میرا موڈ نہیں تم کسی اور کو ساتھ لے جاو”۔ معذرت کرتے وہ دوبارہ سے سیدھا ہوا۔
“مبشر میں اتنی آس لے کر تمھارے پاس آئی تھی۔۔۔۔۔ ہمارے مذہب میں کسی سوالی کو بھی ایسے مایوس اور خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جاتا۔۔۔۔ یہی سوچ کے آ جاو”۔ فریال نے التجا کی۔
“ڈرامہ کوئین۔۔۔۔ چلو۔۔۔ مگر میں زیادہ دیر وہاں نہیں رہنے والا”۔ فریال کے اصرار پہ وہ چیئر سے اٹھ کھڑا ہوا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“نین تارا تم پریشان کیوں ہو؟؟؟ اور یہ تمھارے ہاتھ پہ کیا ہوا ہے؟؟؟”۔ نین تارا کو صحن میں پریشان بیٹھا دیکھتے قدسیہ بیگم اس طرف آئیں ۔۔۔ اسی دوران انکی نظر نین تارا کے ہاتھ پہ پڑی۔
“بی جان کچھ نہیں وہ احتشام کے کپڑے پرس کرتے معمولی سا ہاتھ جل گیا ہے”۔ منہ لٹکائے اسنے وضاحت کی۔
“تو میری جان دھیان سے کام کرتے ہیں نا۔۔۔۔۔۔ اچھا فکر نا کرو ٹھیک ہو جائے گا”۔ اسکے دائیں شانے پہ ہاتھ رکھتے قدسیہ بیگم نے اسے دلاسہ دیا۔
“بی جان میں اس وجہ سے پریشان نہیں ہوں”۔ نفی کرتے وہ کھڑی ہوئی۔
“تو پھر کیا مسئلہ ہے؟؟”۔ قدسیہ بیگم کی آنکھوں میں سوال امڈ آیا۔
“بی جان احتشام نے مجھے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانے سے منع کیا ہے”۔ نین تارا نے تاسف سے کہا۔
“کیا واقعی؟؟”۔ قدسیہ بیگم کی آنکھوں میں حیرت کم خوشی در آئی۔
“جی۔۔۔۔ انہوں نے مجھے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر میں نے کسی کام کو ہاتھ بھی لگایا تو وہ مجھ سے بات نہیں کریں گے”۔ صبح سے اب تک فارغ رہنے کی وجہ سے وہ اکتا گئی تھی جو اسے بالکل گوارہ نا تھا۔
“یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔۔ شکر ہے احتشام کو تو اس بات کا احساس ہوا”۔ قدسیہ بیگم نے متبسم کہا۔
“بی جان”۔ نین تارا کو کوفت ہوئی۔
“نینی میری چندہ۔۔۔۔ احتشام کی بات بجا ہے تمھیں قطعا کام نہیں کرنا چاہیئے بالخصوص ابھی جب کہ تمھارا ہاتھ زخمی ہے”۔ قدسیہ بیگم نے احتشام کی تائید کی۔ “میں اپنے روم میں جا رہی ہوں تم بھی اپنے روم میں جا کر آرام کرو”۔ اسے تنبیہ کرتے قدسیہ بیگم اپنے روم میں چلی گئیں تھیں۔ مجبوری کے تحت نین تارا بھی اپنے قدم روم کی جانب بڑھانے لگی تھی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“اسلام و علیکم ۔۔۔۔۔ نین تارا بھابی”۔ احتشام کے روم میں جھانکتے وہ اس میں داخل ہوا۔
جونہی وہ واش روم کا دروازہ بند کرتے اس جانب گھومی روم میں اسکی موجودگی نین تارا کو دوسو بیس وولٹیج کا جھٹکا دے گئی تھی۔
“تم یہاں؟؟؟”۔ تقی مزید قدم اٹھاتا نین تارا کی جانب آیا جس پہ نین تارا بوکھلا اٹھی۔
“ہاں ۔۔۔ احتشام سے ملنے آیا تھا”۔ نین تارا کے مد مقابل کھڑے ہوتے اسنے کہا۔
“احتشام ابھی گھر پہ نہیں ہیں ۔۔۔ آفس گئے ہیں”۔ نین تارا نے سر سے اتارتے کہا پھر بیڈ کی جانب بڑھی۔
“خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو”۔ بلند آواز میں شعر پڑھتے اسنے خاص انداز میں بالوں کو سیٹ کیا۔
“جی؟؟؟”۔ نین تارا حیرت سے پلٹی۔
“تم اتنا گھبرا کیوں رہی ہو؟؟؟ تمھیں کھا تو نہیں جاوں گا۔۔۔ مجھ سے دو چار گھڑی مل بیٹھ کر باتیں ہی کر لو آخر تمھارے شوہر کا کزن ہوں”۔ بولتے ہی اسنے نین تارا کے قریب ہوتے اسکا ہاتھ پکڑا۔
“دور رہو مجھ سے ۔۔۔ ورنہ”۔ تقی کی آنکھوں میں جھانکتے اسنے اپنا ہاتھ چھڑا لیا تھا۔
“مینڈکی کو بھی زکام ہوا ہے۔۔۔۔۔ واہ بھئی ایس پی کی کمپنی میں آتے بڑی بہادر ہو گئی ہو۔۔۔۔۔ کمال ہے بھئی ماننا پڑے گا۔۔۔ ایسا کیا ہے اس ایس پی میں جو وہ تمھیں اتنا پسند ہے”۔ تالیاں بجاتے اسنے نین تارا کو سراہا پھر مزید اسکے قریب ہوا جس پہ نین تارا جھٹکے سے پیچھے ہوئی۔۔۔۔۔ اسی وقت احتشام روم کی دہلیز پہ آ رکا روم کے اندرونی جانب ماحول دیکھ کر اسکی آنکھوں میں طوفان برپا ہوا۔۔۔۔ دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو سخت مٹھی میں بھینچا۔
چہرے کے تاثرات دوبارہ سے نارمل کرتے وہ روم میں داخل ہوا۔
“احتشام”۔ احتشام کو دیکھتے جیسے نین تارا کی جان میں جان آئی۔
“نین تارا جاو ایک گلاس پانی لے آو”۔ گرچہ اسکا پانی پینے کا دل نا تھا مگر پھر بھی اسنے جان بوجھ کر اسے روم سے باہر بھیج دیا تھا۔۔۔۔۔ پھر آگے بڑھتے ہاتھ میں پکڑی ٹوپی اسنے بیڈ پہ رکھی۔
“اچھا ہوا احتشام تم آ گئے ۔۔۔ میں نین تارا ۔۔۔۔۔”۔ جونہی تقی احتشام کے قریب آیا احتشام نے اسکا دائیاں ہاتھ دبوچتے اسکی پشت پہ کیا جس سے اسکی پشت احتشام کے سینے سے آ لگی تھی۔ “نین تارا اب میری عزت ہے۔۔۔۔۔ میں ہر گز اس پہ کسی شر کا سایہ برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔ اس سے فاصلہ رکھنے میں تمھاری بھلائی ہے۔۔۔۔ آئیندہ تم مجھے اسکے گرد بھٹکتے نظر نا آو ورنہ تمھاری اس بھٹکتی روح کو چین احتشام شامیر کے دربار میں ہی آئے گا۔۔۔ یاد رکھنا”۔ جیسے ہی اسنے اپنی بات مکمل کی نین تارا پانی کا گلاس لیئے روم میں داخل ہوئی۔۔۔ احتشام کو تقی کے یوں قریب کھڑا دیکھ وہ تصویر حیرانی میں تھی۔
“ٹھیک ہے تقی پھر ملاقات ہو گی ۔۔۔ تم نیچے جاو چائے شائے پیو۔۔۔ ہمم”۔ نین تارا کی وجہ سے اسنے چہرے کے تنے نقوس ڈھیلے کیئے۔۔۔۔ تقی کو جھٹکے سے خود سے دور کیا۔۔۔ پھر نین تارا کے ہاتھ سے گلاس پکڑتے بیڈ کی جانب بڑھا۔
تقی غصے میں شرٹ ٹھیک کرتا وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔ نین تارا نے اسکا بدلہ رویہ نوٹ کیا تھا۔
“احتشام آپ نے تقی سے کیا کہا؟؟”۔ تقی کے وہاں سے جاتے وہ احتشام کے قریب ہوئی۔
کچھ نہیں ۔۔۔۔ اسکے دماغ کا کیڑا نکال رہا تھا”۔ گلاس نین تارا کو تھماتے وہ سپاٹ انداز میں بولتا فریش ہونے کی غرض سے واش روم چلا گیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“پتہ نہیں احتشام کدھر رہ گئے؟؟؟ آج سے پہلے تو احتشام نے ایسا کبھی نہیں کیا کہ بنا بتائے دیر تک باہر رہے ہوں ۔۔۔۔ اوپر سے فون بھی سوئچڈ آف ہے”۔ گھڑی کی سوئی رات کے پونے بارہ بجا رہی تھی ایسے میں وہ ہاتھ میں فون پکڑے مضطرب کیفیت میں روم میں خراماں خراماں ٹہل رہی تھی۔
“آنے دو میں بھی بات نہیں کروں گی”۔ بولتے ہی وہ بیڈ کی جانب بڑھی غصے میں فون سائیڈ ٹیبل پہ رکھا پھر بغیر کمفرٹر اوڑھے لیٹ گئی تھی۔
“اف اللہ ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟؟ باتیں کروا لو بس۔۔۔۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک ذمہ دار پولیس آفیسر ہیں؟؟ مجھ سے پوچھو تو ان سے بڑھ کر کوئی غیر ذمہ دار انسان ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔ اتنا لاابالی پن؟ حد ہے”۔ سونے کی ناکام کوشش کرتے وہ دوبارہ سے اٹھ بیٹھی تھی۔
“یا اللہ انکو بتا دے۔۔۔ ان کے کانوں میں اس لاچار اور ادنا سی بندی کی یہ بات ڈال دے کہ انکی اکلوتی اور جوان بیوی ان کے حجرے میں بے تابی سے انکی راہ میں پلکیں بچھائے بیٹھی ہے”۔ دروازے کی جانب بے زارگی سے دیکھتے وہ بڑبڑائی پھر تنگ آ کر دوبارہ لیٹ گئی۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گھڑی ایک کا ہندسہ عبور کر چکی تھی۔۔۔ رات نے اپنے کالے پر پھیلا دیئے تھے ہر کوئی عارضی نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔۔۔ چار سو خاموشی اور سکون نے اپنے ڈیرے جمائے تھے۔۔۔ ایسے میں اسکے قدموں کی چاپ واشگاف سنائی دے رہی تھی۔
اسنے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ وہ اپنے قدموں کو دھیرے سے رکھے تاکہ وہ کسی کی نیند میں بھی مخل نا ہو۔۔۔۔ سیڑھیاں چڑھتا وہ اپنے روم کی دہلیز پہ جا کھڑا ہوا جسکا دروازہ اپنی بانہیں کھولے جیسے اسی کا منتظر تھا اور اسے اس بات کا یقین دلا چکا تھا کہ کوئی شدت سے اسکی راہ دیکھتے کالی رات کے سحر انگیز حصار میں عارضی نیند سو چکا ہے۔
اپنے پیچھے دھیرے سے دروازہ بند کرتے وہ ہلکے قدم اٹھاتا نین تارا کی پائینتی پہ جا کھڑا ہوا۔۔۔۔ نرم ملائم بستر پہ نیند کی آغوش میں اسکا چہرہ بہت دلکش معلوم ہو رہا تھا۔۔۔ روم میں چلتے اے-سی کی بدولت روم میں از حد خنکی تھی کمفرٹر نا اوڑھنے کی وجہ سے اسنے اپنی دونوں ٹانگیں بچوں کی مانند دائیں جانب اوپر کو کرتے سینے سے لگا رکھیں تھیں جس پہ احتشام کی بانچھیں کھلیں۔
اس پہ جھکتے اسنے اسکی ٹانگیں دھیرے سے سیدھی کیں ۔۔۔۔۔ اسکے پیروں پہ اپنے لب رکھتے اپنے پیار کی مہر ثبت کی پھر سینے تک اسکے وجود کو کمفرٹر سے ڈھانپ دیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
جو پراٹھے احتشام آدھا گھنٹہ پہلے بازار سے لایا تھا نین تارا انہیں گرم کرنے میں لگی تھی۔
“نین تارا میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔۔۔۔ جلدی ناشتہ لے آو ورنہ میں یونہی چلا جاوں گا”۔ کچن میں ڈائننگ ٹیبل پہ بیٹھے وہ دائیں جانب منہ کا رخ کیئے دانستہ اونچی آواز میں مخاطب ہوا پھر زیر لب مسکرا دیا کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ نین تارا کا موڈ رات سے خراب ہے جبی وہ خاموشی سے اپنا کام کر رہی تھی۔
بغیر کچھ کہے وہ ایک پراٹھا لیئے احتشام کی جانب آئی ۔۔۔ اسکی پلیٹ میں پراٹھا رکھتے واپس چولہے کی جانب پلٹی۔
کچھ ہی منٹوں میں نین تارا دوسرا پراٹھا بھی لے آئی تھی مگر یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ احتشام نے ایک لقمہ تک نہیں لیا۔
“کیوں نہیں کھایا؟؟؟ آپ نے پراٹھا نہیں کھانا؟؟”۔ اسکے چہرے کی جانب دیکھتے اسنے دھیرے سے کہا۔
“بیٹھو”۔ اپنے دائیں جانب چیئر کی طرف اشارہ کرتے احتشام نے سنجیدگی سے کہا۔
“جی؟؟”۔
“نین تارا ۔۔۔ چاہے جو مرضی ہو جائے تم مجھ سے خفا مت ہونا بھلے مار لو۔۔۔۔ تمھیں پتہ ہے جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو میری سانسیں مجھ سے خفا ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔ جب سانسیں خفا ہو جائیں تو زندگی روٹھ جاتی ہے جسکا ازالہ ممکن نہیں کیونکہ ۔۔۔۔ زندگی تو ایک ہی بار ملتی ہے نا”۔ اسکی تھوڑی تلے ہاتھ رکھتے احتشام نے اسکا جھکا چہرہ اوپر کو کیا جہاں آنسوؤں کا سیلاب ہر بند توڑ کر بہہ جانے کو بے تاب تھا۔
“احتشام میں آپ سے ناراض تو نہیں تھی۔۔۔۔ بس دل خفا تھا۔۔۔۔ تھوڑا سا”۔ احتشام نے اسکے رخسار پہ بہتے آنسو انگلی کے پوروں کی مدد سے صاف کیئے تھے۔۔۔۔ نین تارا کی سسکیاں بھی آہ میں بدل گئیں تھیں۔
“میری ہی چیز مجھ سے کیسے خفا ہو سکتی ہے؟؟؟”۔ احتشام کے لبوں پہ فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں ہوئی۔ ” چلو اب اپنے آنسو صاف کرو۔۔۔۔ ان غزالی آنکھوں میں بے رنگ موتی نہیں انمول چمک جچتی ہے”۔
پوچھا گیا جو ہم سے کس گل کے عاشق ہو؟؟
ہم نے تیرا نام لے کر قصہ تمام کر ڈالا
احتشام کے پیار بھرے دو بول نین تارا کی خوشی کا کل اثاثہ تھے۔۔۔ اسکا خفا دل بھی احتشام کی باتوں کے حصار میں مکمل ڈوب چکا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
صبح کے نو بج رہے تھے۔۔۔ یونی کے باہر وہ کار سے پشت لگائے کھڑا تھا۔ ایک جوان قدم اٹھاتا اسکے قریب آیا جس نے ابھی ابھی ایک دوشیزہ کو سی آف کیا تھا۔
“ہائے بلال وٹس اپ؟؟”۔ اب وہ بلال کے نزدیک آ چکا تھا جس پہ بلال بھی سیدھا ہوا۔
“میں تو ٹھیک ہوں ۔۔۔ تو سنا؟؟ بڑی ہواوں میں ہے آجکل”۔ اسکے گلے لگتے بلال نے شیخی بگاڑی۔ “یہ لڑکی کون تھی؟؟”۔ کافی دیر سے دل میں اٹھتے وبال کو اسنے لبوں تک رسائی دی۔
“یہ نبیہا نصیر۔۔۔۔ ہائی کورٹ کے جانے مانے جج نصیر الدین کی اکلوتی صاحب زادی”۔ اسنے تفصیل دی۔
“وا بھئی بڑی جانکاری ہے تجھے ہاں”۔ بلال نے طنزا کہا پھر اسکا دائیاں شانہ تھپتھپایا۔
“نہیں یار ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔ دراصل میری جونئیر ہے اسے مجھ سے نوٹس چاہئے تھے تو بس اس وجہ سے جان پہچان ہو گئی”۔ شمون نے بے زارگی کا اظہار کیا۔
“اچھا تو تمھاری جونیئر ہے۔۔۔ مطلب اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے؟؟”۔ شمون کی بات کو دوہراتے اسنے کنفرم کیا۔
“ہاں ۔۔۔ مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو؟؟؟”۔ اسے حیرت ہوئی۔
“نہیں کچھ نہیں بس یونہی”۔ بلال نے بات کو ٹالتے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
گھر کے صحن میں سب مجمع لگائے محفل سجائے بیٹھے تھے جن کے لیئے نین تارا کچن میں کھانے پینے کا اہتمام کر رہی تھی۔
سندس، فرحان اور تبسم بھی آئے ہوئے تھے۔ سب کے ہنسنے کی آوازیں پورے گھر میں رقصاں کر رہیں تھیں۔
“اسلام و علیکم”۔ ہاتھ میں شاپنگ بیگ پکڑے احتشام انٹرنس کی دہلیز پار کرتا اس جانب آیا تھا۔
“وعلیکم السلام ۔۔۔ احتشام بیٹا کیسے ہو؟؟”۔ سلامتی بھیجتے ہی اسنے مزید پوچھا۔
“میں ٹھیک ہوں خالہ جان آپ سنائیں؟”۔
اسی اثنا میں نین تارا بھی چائے کے ہمراہ کھانے کی اشیا لیئے اس طرف آئی تھی۔۔۔۔ اشیاء وسط میں رکھے ٹیبل پہ رکھتے وہ احتشام کی جانب آئی تھی۔
“احتشام آپ کب آئے؟”۔ احتشام کی وہاں موجودگی اسکے لیئے باعث مسرت بنی۔
“بس تھوڑی دیر پہلے”۔
“کھانا لگا دوں؟؟”۔
“نہیں کھانے کا موڈ نہیں ایسا کرو ایک کپ چائے بنا لاو۔۔۔ میں فریش ہو کر آتا ہوں”۔
ان دونوں کے مابین بڑھتی نزدیکی اور پیار سندس کے تن بدن کو جلا گیا۔
احتشام کی بات مکمل ہوتے ہی نین تارا کچن کی جانب بڑھ گئی تھی۔
“احتشام یہ تمھارے ہاتھ میں کیا ہے؟؟”۔ ممتاز نے سیڑھیوں کی جانب بڑھتے احتشام کو ٹوکا۔
“ماما کچھ نہیں ۔۔۔۔ ضرورت کی چند چیزیں”۔ ممتاز کی آواز پہ وہ اسکی جانب پلٹا پھر ٹال مٹول سے کام لیتے سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
مبشر بیٹا مجھے تمھیں کچھ تصویریں دکھانی تھیں”۔ اسکے روم میں داخل ہوتے کشور نے کہا۔ وہ جو کہ بیڈ پہ لیٹا تھا کشور کی مداخلت پہ سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
“ماما کون سی تصویریں؟؟”۔ وہ چونکا۔
“بیٹا یہ چند تصاویر اچھے گھرانوں کی لڑکیوں کی ہیں ۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ تم ان میں سے دیکھ کر پسند کر لو تاکہ میں تمھاری شادی کروا کر پرسکون ہو جاوں”۔ کشور اسکے سامنے بیڈ پہ جا بیٹھی تھی۔
“ماما میں نے آپکو کتنی بار کہا ہے کہ میں شادی نہیں کروں گا”۔ بے زارگی میں بولتے اس نے ٹانگیں بیڈ سے نیچے لٹکا لیں تھیں۔
“مگر مبشر تم کب تک یوں رہو گے؟؟ کبھی تو اپنا گھر بسانا ہے نا؟؟”۔ کشور کے ماتھے پہ ناگواری کی لکیریں ابھریں۔
“اگر اتنی ہی فکر ہے آپکو میری تو آپ نین تارا کیلیئے میرا رشتہ کیوں نہیں لے جاتیں؟”۔ بیڈ سے اٹھتے اسنے کشور کی جانب پشت کرتے کہا۔
“تم جانتے ہو مبشر ایسا نہیں ہو سکتا”۔ کشور نے اسے ماضی کی تلخ حقیقت کی جانب دھکیلنا چاہا۔
“ماما ثمرین خالہ نے جو کچھ کیا وہ انکا عمل تھا۔۔۔ انکے کیئے کی سزا ہم لوگ کیوں بھگتیں؟؟؟ یہ کہاں کا انصاف ہے؟؟ ۔۔۔ ماما کہیں اس بات کو بنیاد بنا کر نین تارا کی تائی ، تایا اور دادو اس پہ ظلم نا کرتے ہوں؟”۔ اسے اندیشہ ہوا۔
“اللہ نا کرے ۔۔۔۔ میں خود نین تارا کیلیئے فکر مند رہتی ہوں مگر اس سے ملنے سے قاصر ہوں”۔ کشور نے تاسف سے کہا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...