ممالک متحدہ سوویت روس سے لال ڈاڑھی والوں کی آمد اُن قازق قبیلوں کی آمد سے بالکل مختلف تھی جو سوویت یونین سے اپنے خیمے اور سامان اونٹوں پر لاد کر قافلوں کی صورت میں نکلے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے بے شمار مویشی، بھیڑ بکریاں اور لمبے لمبے بالوں والے گھوڑے تھے اور وہ ایسی چراگاہوں کو تلاش کر رہے تھے جن پر کسی اور کا قبضہ نہ ہو، سرخ ڈاڑھی والے منظم اور تربیت یافتہ فوجی تھے۔ سوویت کی بنی ہوئی وردیاں پہنے اور سوویت قسم کی رائفلوں اور مشین گنوں سے لیس، اس پر بھی سالہا سال بعد مقامی آبادی نے سوویت حکومت سے ان کی موجودگی پر احتجاج کیا۔ سرخ ڈاڑھی والے بہر حال چینی تھے اور وہ اس صوبیدار کی ملازمت میں تھے جو خود چینی تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے روسی مشیر اس کے سارے کام کرتے تھے، لہذا ابتدا میں سرخ ڈاڑھی والوں سے قازق یہ سمجھ کر لڑتے رہے کہ ان بدترین قسم کے ڈاکوؤں کو چینی حکومت نے ان کے ملک میں بھیج دیا ہے، یہ وحشی جانور تھے جو بڑی بے رحمی سے نہ صرف مزاحمت کرنے والوں کو گولی سے اڑا دیتے بلکہ بے قصور لوگوں کو بھی گولی مار دیتے تاکہ انھیں مرتے دیکھ کر اپنا جی خوش کریں۔
ترکی میں جو قازق مہاجر تھے ان میں سے ایک نے بتایا کہ وہ ہمارے جانور چُرا لے جاتے اور قتل کرنے سے پہلے ہماری بیویوں اور بیٹیوں کی عصمت دری کرتے۔ مقامی چینی بھی نہیں سمجھ سکتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کیونکہ وہ منچوریا سے آئے تھے اور وہاں کے لوگ ایک اکھڑ غیر مہذب بولی بولتے ہیں۔ یہ لوگ چور تو تھے ہی، خونی اور قاتل بھی تھے۔ اگر وہ کسی کے مسکرانے میں ایک دانت پر بھی سونے کا پترا چڑھا ہوا دیکھ لیتے تو اتنے ذرا سے سونے کے لیے اسے قتل کر دیتے۔
اسمٰعیل حجی، جی جن اور باعی ملّا بیٹھے ملٹ کے سرے والے لمبے روسی سگریٹ پیتے رہتے اور چائے کے پیالے پر پیالے خالی کرتے رہتے اور بڑی گرم جوشی سے لال ڈاڑھی والوں کو ختم کرنے کے مسئلے پر طول طویل بحثیں کرتے رہتے۔ سارے ملک میں ان کے خلاف شورش برپا تھی، اس صورت حال سے صوبہ دار شنگ سخت پریشان تھا لیکن اس کے روسی مشیر دل ہی دل میں بہت خوش تھے۔ تینوں سردار نہایت افسوس کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچے کہ سرخ ڈاڑھی والوں کا مقابلہ میدانِ جنگ میں نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا ان سازش کرنے والوں نے کچھ اور منصوبے بنائے اور خفیہ طور پر انھیں الطائی، خلدزا، تار باغتائی، طرفان کے علاقوں میں بھیجا۔ ان کے علاوہ حسین تجی اور سلطان شریف کے پاس غزکل بھی انھیں بھیجا۔ غزکل پر سرخ ڈاڑھی والوں نے ابھی تاخت نہیں کی تھی۔ جب کبھی بھی سرخ ڈاڑھی والے اپنی بارکوں سے نکلتے تو باغی سرداروں کو اطلاع دی جاتی کہ کس کس راستے سے جائیں گے تاکہ ان پر چھاپہ مارا جا سکے۔ جب بھی کوئی سرخ ڈاڑھی والا اکیلا دُکیلا کسی آباد مقام سے گزرتا تو اس کا پیچھا کیا جاتا اور اس کے چھرا بھونک دیا جاتا یا اگر اس کا موقع نہ ملتا تو اوپر سے پتھر برسا کر اسے مار ڈالا جاتا۔
اس قسم کی چالیں کامیاب ہوئیں لیکن ان کا رد عمل بھی ہوا۔ خنجر زنی اور سنگ باری کی وبا سارے علاقے میں پھیل گئی اور تھوڑے ہی عرصے میں وہ پر امن چینی سوداگر اور کسان جو مدتوں سے مشرقی ترکستان کے باشندوں میں رہتے چلے آئے تھے، بلکہ پشتہا پشت سے وہ بھی سرخ ڈاڑھی والوں کے خلاف اس خونی معرکے میں اپنے آپ کو مبتلا پانے لگے۔
جس رفتار سے چینیوں اور مقامی قوموں کے تعلقات خراب ہو رہے تھے، اسی رفتار سے مشرقی ترکستان پر قبضہ ہو جانے کی امیدیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ ١٩٣٩ء میں روسیوں نے مختلف مقامات پر اپنی چھوٹی چھوٹی چھاؤنیاں بنا لی تھیں، خصوصاً نئی شاہراہ کے کنارے کنارے، مثلاً حامی میں جو لمبے تئین شان سلسلۂ کوہ کے جنوب میں ہے اور سوویت سرحد سے کوئی سات سو میل کوّے کی سیدھی پرواز۔ اسی سال مارچ میں عالمی جنگ کے شروع ہونے سے چند مہینے پہلے روسیوں نے چینی صوبائی حکومت کو ہدایت دی کہ مشرقی ترکستان سے پہلے تمام غیر ملکیوں کو سوائے روسیوں کے نکل جانے کا حکم جاری کرے۔ عملاً اس حکم کی زد یا تو انگریزوں پر پڑتی تھی یا ہندوستانیوں پر۔ ان میں نو عورتیں اور بارہ بچے ایسے بھی تھے جنھیں پامیر کے سولہ ہزار فٹ بلند درّوں میں سے سال کے سرد ترین موسم میں پا پیادہ گزرنا پڑا۔ ٹائمز اخبار کا بیان ہے کہ جب وہ گلگت پہنچے تو برف نے ان کے زخم ڈال دیے تھے اور ان کے چیتھڑے لگے ہوئے تھے۔
لیکن ١٩٣٦ء میں روسی یا سوویت ارادے مشرقی ترکستان میں راز ہی تھے اور قازق سرخ ڈاڑھی والوں کے عذاب سے نجات پانے کی تدبیروں میں کلیتاً منہمک تھے۔ مضافات میں جو قازق آباد تھے ان کی مخصوص ذمہ داری تھی کہ جب سرخ ڈاڑھی والے ادھر سے کوچ کریں تو ان پر چھاپہ ماریں، ان پر جو چھاپے مارے گئے ان میں سے کسی کی مفصل کیفیت ہمیں معلوم نہ ہو سکی لیکن حمزہ نے بتایا کہ اس کے بھائی یونس حجی نے اس قسم کی لڑائی کی تربیت اسے کیسے دی تھی۔ یونس نے اس فن کو بوکو بطور سے سیکھا تھا جس نے عثمان کو سکھایا تھا۔ عثمان کا بیٹا شیر درماں ١٩٥٣ء تک اس قسم کے چھاپے سوویت اور چینی اشتراکیوں پر مارتا رہا اور یہ باور کر لینے کے چند اسباب ہیں کہ اس وقت ١٩٥٥ء میں بھی جب ہم یہ واقعات لکھ رہے ہیں وہ ایسے ہی چھاپے مار رہا ہو گا۔
حمزہ کا بیان ہم نے ٹیپ رکارڈ کر لیا تھا آگے جو کچھ لکھا جائے گا اس کا خلاصہ ہو گا۔
“ہماری جنگی چالیں ہمیشہ زمین کے مطابق ہوتی تھیں۔ کھلے میدانوں میں ہم اپنی کمین گاہوں سے گھوڑوں پر سوار ہو کر دشمن کے عقب میں سرپٹ گھوڑے دوڑا کر پہنچ جاتے اور اسی دوران میں زمین کی سطح ہی سے گولیاں چلاتے رہتے۔ پہاڑوں میں ہم اپنے گھوڑے، عورتوں اور بچوں کے پاس چھوڑ جاتے اور چٹانوں اور جھاڑیوں کے پیچھے دبک کر بیٹھ رہتے۔ حملہ کرنے کے لیے میں آدمیوں کا انتخاب کرتا اور ان کے گھوڑوں کا بھی۔ ان سے کہہ دیا جاتا کہ گولی چلاؤ مار ڈالنے کے لیے۔ گھوڑوں کو نہیں بلکہ سواروں کو، اگر لاریاں ہوں تو ان میں جو سوار ہوں انھیں نہیں بلکہ لاریاں چلانے والوں کو۔ قیدی ہم کبھی نہ بناتے تھے کیونکہ ہمیشہ چلتے پھرتے رہنے کی وجہ سے قیدیوں کو اپنے ساتھ رکھنا ہمارے لیے مشکل تھا۔
پہاڑوں میں ہم اپنی رائفلوں میں دو لمبے سریے لگا لیا کرتے تھے۔ ان سے صحیح نشانہ لگانے میں بڑی مدد ملتی تھی۔ کھلے میدان میں ہم زمین کی سطح سے گولیاں چلاتے۔ ہم اگرچہ اپنا پہلا حملہ عقب سے کرتے لیکن اس حملے کے بعد ہم اس کا بھی انتظام رکھتے کہ جتنی بھی سمتوں سے حملے ہو سکیں، کیے جائیں۔ لڑنے والوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ دشمن کے قریب ہوتے چلے جائیں اور تلواروں سے دشمن کا صفایا کر دیں۔ بعد کے زمانے کی لڑائیوں میں تلواروں کی کمی ہو گئی تھی اس لیے ہم نے خار دار گرز استعمال کرنے شروع کر دیے تھے۔ ان کی ضرب لگانی جسے آ جاتی تھی تو وہ اسے تلوار کے برابر ہی مہلک بنا لیتا تھا۔
پہاڑوں میں ہمیشہ ہم اس کوشش میں رہتے تھے کہ دشمن پر وار اس وقت کریں جب وہ کسی تنگ وادی میں سے گزر رہا ہو۔ الطائی اور تئین شان میں ایسی وادیاں بہت ہیں۔ دشمن کے گزر جانے کے بعد ہم اس کے بچ نکلنے کے راستے کو پانچ چھ آدمیوں کے متحرک دستے سے ہی بند کر لیتے تھے۔ کھلے میدان میں ہم سواروں کا ایک چھوٹا دستہ ان ہدایات کے ساتھ بھیجتے تھے کہ جب دشمن ان کا پیچھا کرے تو پلٹ کر اس سمت میں فرار ہوں جہاں ہم گھات لگائے بیٹھے ہوں۔ اگر دشمن ان کی چال میں آ جاتا تو ہم اسے اپنے سامنے سے گزر جانے دیتے اور پھر عقب سے ان پر گولیاں چلاتے اور حملہ کر دیتے۔ ایک اور چال ہم اکثر یہ چلا کرتے کہ کسی چینی کھلیان میں آگ لگا دیتے اور جب ہمیں معلوم ہوتا کہ چینی فوجی دستہ ہمیں پکڑنے کے لیے آ رہا ہے تو ہم فوراً وہاں سے ٹل جاتے۔ جب وہ ہمیں گرفتار کرنے میں ناکام ہو کر لوٹتا تو ہم اس پر شب خون مار دیتے۔”
حمزہ کا یہ بیان تھا کہ “جب میں لاریوں پر چھاپہ مارتا تو ہر لاری کے لیے صرف ایک آدمی متعین کرتا۔ دستے کو سخت احکام دے دیے جاتے کہ جب تک میں گولی نہ چلاؤں کوئی گولی نہ چلائے اور جیسا کہ پہلے کہہ چکا ہوں ہم سواریوں کو نہیں مارتے تھے صرف ڈرائیوروں کو، ہم سڑک کے کنارے لیٹ جاتے تاکہ ہمارا نشانہ خطا نہ ہونے پائے۔ حالانکہ اس قسم کے حملے ہم صرف رات ہی کو کرتے تھے۔جب ڈرائیوروں کے گولی لگ جاتی تو ٹرک بے قابو ہو کر ڈگمگاتا چلا جاتا اور کچھ فاصلے کے بعد الٹ جاتا۔ ان میں جو لوگ سوار ہوتے ان میں کئی مر جاتے یا اپاہج ہو جاتے۔ جو صحیح سلامت بچ رہتے ہم انھیں ایک ایک کر کے چھانٹ لیتے اور جو باقی رہ جاتے انھیں چھوڑ دیتے۔ ایسے حملوں میں ہمارے آدمیوں میں سے شاذ ہی کوئی مارا جاتا۔ اگر اتنے زیادہ ہتھیار ہمارے ہاتھ آتے کہ ہم ان سب کو اٹھا کر نہ لے جا سکتے تو ہم انھیں گڑھے کھود کر دبا دیتے۔ اور جو چیزیں ہمارے کام کی نہ ہوتیں انھیں ہم کچل ڈالتے یا اُن میں آگ لگا دیتے۔ بڑی توپیں، بھاری سامان حرب جو بغیر گاڑیوں پر لادے ہوئے نہ لے جایا جا سکتا ہو وہ ہمارے کسی کام کا نہیں تھا۔ کیونکہ پہاڑوں میں ہم اسے نہیں لے جا سکتے تھے۔ حملے کے انتظامات بڑی احتیاط کے ساتھ کیے جاتے تھے۔ پہلے تو قازق دنوں دشمن کی نقل و حرکت کا مشاہدہ کرتے رہتے تاکہ اس کی عادتوں سے واقف ہو جائیں۔ اس کے بعد کبھی پچاس میل دور ایک چھوٹا سا چھاپہ مار دیتے اور ساری رات گھوڑوں پر سوار ہو کر جہاں اصلی چھاپہ مارنا ہوتا اس مقام پر آ جاتے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ قازق چھاپہ مار ایک ہی گھوڑے پر سوار ضرورت پڑنے پر چار ہفتے میں ایک ہزار میل طے کر لیتا تھا۔”
حمزہ کے بیان میں دشمن کی نقل و حرکت کی نگرانی رکھنے کو بہت اہمیت دی گئی تھی، اس کا کہنا یہ تھا کہ جب یہ معلوم کر لیا کہ دشمن کیا کارروائی کرے گا تو سمجھ لو آدھی لڑائی تم نے جیت لی۔
آخر میں اس نے کہا “جنگلی جانوروں کا شکار ہم اسی طرح کھیلتے ہیں اور ہم اپنے دشمنوں کو جنگلی جانور ہی سمجھتے ہیں، لیکن شاید دشمنوں سے نمٹنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ جنگلی جانوروں کا شکار کھیلنا ہر قازق کو پسند ہے۔ کبھی پہلے وہ جنگ کو بھی ایک کھیل ہی سمجھتا تھا جس میں افراد کی ذہانت اور چالاکی کی سنسنی خیز ٹکر ہوا کرتی تھی۔ لیکن چینیوں نے خصوصاً اشتراکیوں نے ایک اور قسم کی جنگ شروع کی جس کی بنیاد پروپیگنڈا اور اذیت رسانی پر تھی، وہ بے گناہوں کو یرغمال بطور پکڑ لے جاتے اور ان کے دباؤ میں بہادروں کو مجبور کرتے کہ شکست قبول کر لیں۔ کنوؤں میں زہر ڈال دیتے تاکہ جانور اور انسان جو بھی پانی پیے تکلیف سے مر جائے یا پھر پیاس سے سسک سسک کر مرے یا اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کر کے اپنا سر کٹوائے۔”
تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حمزہ اور علی بیگ اور یونس حجی اور عثمان اپنی لڑائیوں سے اسی قدر لطف اندوز ہوتے ہوں گے جتنے شکار کھیلنے سے۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکیوں کے لیے یہ لوگ زبردست حریف ثابت ہوتے تھے۔ حمزہ جب ١٩٥١ء میں ٢٩؍ سال کی عمر میں کشمیر پہنچا ہے تو اس وقت تک وہ ایک سو سولہ لڑائیاں لڑ چکا تھا، ان میں بیشتر لڑائیاں دست بدست مقابلوں پر ختم ہوئیں جن میں رائفلیں اور خودکار ہتھیار بے کار ہو جاتے ہیں اور صرف تلواریں ہی کام آتی ہیں۔
قازقوں کا سب سے مرغوب شوق شکرے سے شکار کھیلنا تھا مگر ان کے شکاری پرندے شکرے، بہری وغیرہ نہ تھے بلکہ شاہین جو دو دو تین تین فٹ اونچے ہوتے اور ان کے کھلے ہوئے پروں کی لمبان چھ فٹ سے بھی زیادہ ہوتی۔ آسودہ حال قازق اور بہت سے ایسے بھی جو زیادہ آسودہ نہ ہوتے شاہین کی آنکھوں پر ٹوپیاں چڑھائے، چمڑے کے لمبے دستانے پہنے، کلائی پر شاہین کو بٹھائے، گھوڑوں پر سوار، زین میں لگے ہوئے لکڑی کے اڈے پر کلائی ٹکائے، شکار کھیلنے نکلتے تھے۔
شاہین کا شکار ایسا شوق نہیں تھا جس سے تنہا کوئی لطف اندوز ہو لے۔ تماشا دیکھنے کے لیے اکثر دوستوں کو دعوت دی جاتی تھی۔ اگر شاہین سے شکار کھیلنے والوں کا ذکر نہ کیا جائے تو قازقوں کی یہ کہانی مکمل نہیں ہوگی۔ ایک تو اس وجہ سے کہ یہ ان کے طرزِ زندگی کا ایک نمایاں رخ ہے، دوسرے اس سے قازقوں کے چھاپہ ماری کے اصول بڑی حد تک مشابہت رکھنے کی وجہ سے سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ اچھا تو آئیے علی بیگ، یونس حجی اور نوجوان حمزہ کے ساتھ ہم بھی تئین شان میں شاہین کے شکار کا تماشا دیکھنے چلیں۔
سورج نکلا ہی تھا کہ گھڑ سواروں کا ایک دستہ ہنستا بولتا روانہ ہوا اور شاہین کے مالک کے پیچھے ایک ٹیڑھی میڑھی قطار بنا کر پہاڑی راستے پر چل پڑا۔ پہاڑ کی تین چوٹیاں جو “تین بہنیں” کہلاتی ہیں، کمر کمر سفید بادلوں میں چھپی ہوئی ہیں اور ان کے سروں پر برف کے تاج دھرے ہیں۔ یہ چوٹیاں اب بالکل گھڑ سواروں کے سروں پر ہیں۔ شاید آگے کسی وقت دن میں بارش ہو گی۔ تئین شان کے شمالی ڈھلانوں پر عموماً بارش ہوتی رہتی ہے۔ یہاں گرمیوں میں خوب گرج چمک کے ساتھ بارش ہوتی ہے اور جاڑوں میں خوب برف پڑتی ہے۔ اسی سلسلۂ کوہ کے دوسری طرف بمشکل ڈیڑھ سو میل جنوب کی طرف خوفناک “کوہ تشنہ” کا سلسلہ ہے جہاں بارش کی ایک بوند بھی نہیں پڑتی۔
بل کھائے ہوئے راستوں پر گھوڑے اپنے سواروں کو لیے چڑھے چلے جاتے ہیں اور کوئی من چلا گانے لگتا ہے۔ گانے کی آواز سنتے ہی شاہین اپنے آقا کی کلائی پر کچھ بے چین ہونے لگتا ہے لیکن اس کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھی ہوتی ہے اس لیے اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا کہ اڑ جائے۔ اس کے علاوہ اتنے دن سے مقید ہے کہ اسے اپنا آقا پر بھروسا کرنا آ گیا ہے اس لیے وہ صرف یہ کرتا ہے کہ جس چمڑے کی کلائی پر وہ بیٹھا ہوا ہے، اس پر اپنے پنچے ذرا اور زور سے جما دیتا ہے اور زیادہ توجہ سے اپنے جسم کو سنبھالے رہتا ہے تاکہ گھوڑے کی جنبش سے اس کا جھونک نہ بگڑنے پائے۔
چونکہ خوشی کا موقع ہے اس لیے گیت عموماً شگفتہ اور رومانی ہوتا ہے یا کوئی چھوٹی داستان نظم ہوتی ہے اور پھر ایک ایک کر کے گانے والے کے ساتھ سب اپنی اپنی آوازیں ملانے لگتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ گانے والا کوئی ایسا گیت گاتا ہے جو خود اس کا بنایا ہوا ہوتا ہے۔ دھن نہیں صرف الفاظ۔ اس صورت میں سب خاموشی سے اس ہنسی کی بات کے منتظر رہتے ہیں جس کا ہر بند میں آنا ناگزیر ہوتا ہے۔ جب یہ ٹیپ آتی ہے تو سب کے سب خوشدلی سے مل کر گانے لگتے ہیں:
کائی۔ لی۔ لی۔ لیھہ
دائی۔ دُن۔ یا۔ آ۔ آ۔ آ
ان کی یہ آواز تنگ ہوتی ہوئی وادی کے اس طرف کی بڑی بڑی چٹانوں اور جنگلوں میں گونجتی چلی جاتی ہے اور ٹکرا کر پھر واپس آتی ہے اور صدا اور عکس صدا کا یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوتا ہے جب دوسرا بند شروع ہو جاتا ہے۔ جب یہ ٹولی خوب جی بھر کے گا چکتی ہے تو ان میں سے کوئی ایک قطار کے آخر سے آواز دے کر پوچھتا ہے “ابھی اور کتنی دور ہمیں لے جاؤ گے۔ میرے گھوڑے کے نعل ایسے نہیں ہیں کہ وہ برف کے تودوں پر سواری دے، خاص کر سال کے اس حصے میں۔” کوئی اور کہتا ہے “دیکھتے نہیں اس کے شاہین کو اتنی ناکامیاں ہو چکی ہیں کہ اسے ہمیں اتنے اوپر لے جانا پڑے گا جہاں کے خرگوشوں اور لومڑیوں کو اس سے پہلے کبھی سابقہ نہ پڑا ہو ورنہ اس کا شاہین ہرگز نہیں جھپٹے گا۔”
تیسرا کہتا ہے “ارے تم سمجھے نہیں وہ ہمیں بادلوں کے اوپر لے جانا چاہتا ہے تاکہ ہم اس کے شاہین کی ناکامی کو نہ دیکھ سکیں”۔ شاہین کا مالک مسکراتا رہتا ہے مگر منہ سے کچھ نہیں کہتا کیونکہ پچھلے پورے ہفتے شاہین کے سدھانے والے پہاڑوں کی وادیوں کا اپنی تیز نظروں سے جائزہ لیتے رہے اور دل ہی دل میں ان مقامات کو یاد رکھتے رہے جہاں کوئی لومڑی یا شاید کوئی بھیڑیا دن کو اچھے وقت سے کھلے میں دکھائی دے جائے۔
جب وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا مقام ان کی نظر میں آ گیا ہے تو آ کر آقا کو اس کی اطلاع دیتے ہیں “چہکنے والی چڑیوں کی وادی میں کھلی چراگاہ کے پیچھے، نیلی چھوٹی جھیل کے کنارے روزانہ صبح کو سورج نکلنے کے دو گھنٹے بعد ایک لومڑی اپنے بچوں کو لے کر پانی کے کنارے جایا کرتی ہے”۔
“وادی زاغ میں جہاں ایک اونچا چیڑ کا درخت کھلی جگہ میں کھڑا ہے ایک بھیڑیا دوپہر سے ایک گھنٹہ پہلے تک اکیلا دھوپ میں پڑا رہتا ہے”۔
شاہین کا مالک پوچھتا ہے “بھیڑیا کتنا بڑا ہے؟”
“ناک کی پھننگ سے دم کے سرے تک آٹھ بالشت کا ہے۔ اچھا تیار جانور ہے اور اس کھال کھردری اور داغدار ہے”۔
آقا خفگی سے کہتا ہے “تم یہ سمجھتے ہو کہ میں ایسے گھٹیا جانور یا بچدار لومڑی پر اپنا شاہین چھوڑوں گا؟ شرم نہیں آتی تم دونوں کو؟ کوئی اور بہتر شکار تلاش کرو۔ ورنہ تم دونوں کے حق میں اچھا نہیں ہو گا”۔
لہذا سدھانے والے پھر تلاش شروع کرتے ہیں۔ اب کے ان میں سے ایک یہ خبر لاتا ہے کہ ایک پورا اونچا بھیڑیا جس کے ساتھ اس کا جوڑا نہیں ہوتا روزانہ صبح کو وادی کی تہ میں جو سبزہ زار ہے اس میں سے گزرتا ہے اور جہاں وادی تنگ ہو جاتی ہے اور اس پر چٹانیں اور جھاڑیاں آ جاتی ہیں وہاں جا کر غائب ہو جاتا ہے”۔ شاہین کا مالک کہتا ہے “یہ اچھا شکار ہے میں جا کر اسے خود دیکھوں گا”۔
اور اس موقع پر پہنچ کر احتیاط سے وہ وقت یاد کر لیتا جب بھیڑیا دکھائی دیتا ہے اور یہ بھی ذہن میں رکھتا ہے کہ وہ کہاں سے آتا ہے اور کہاں جاتا ہے۔ اس کےبعد وہ سبزہ زار کے اوپر ایک چٹان کی دراڑ تلاش کر لیتا ہے جہاں سے وہ شاہین کو ٹھیک اس وقت چھوڑ سکے جب بھیڑیا پہاڑی کے پیچھے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ آخر میں وہ اس جگہ کا تعین بھی کر لیتا ہے جہاں اسے گھوڑا چھوڑنا ہوگا تاکہ بھیڑیا نہ تو اسے دیکھ سکے اور نہ اس کی بو پا سکے۔ اس وقفے کا بھی صحیح اندازہ کر لیتا ہے جس میں گھوڑے باندھے جائیں گے اور مقررہ چٹان پر بھی پہنچ جانا ہو گا۔ ان سب باتوں سے فارغ ہو کر وہ گھر واپس آتا ہے اور دن اور وقت مقرر کر کے اپنے دوستوں کو دعوت دیتا ہے۔ جیسے ہی یہ ٹولی شاہین والے کے منتخب مقام پر پہنچتی ہے اور وہ اپنے گھوڑے پر سے اترتا ہے تو گانا وانا سب بند کر دیا جاتا ہے اور سب اس کی دیکھا دیکھی گھوڑوں پر سے اتر پڑتے ہیں۔ وہ انگلی کے اشارے سے وہ مقام دکھاتا ہے جہاں سے شاہین کو چھوڑنا ہوتا ہے اور سب کے سب پہاڑی پر اتر چڑھ کر بغیر کسی آواز کے اس چٹان پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سے جائے شکارصاف دکھائی دیتی ہے۔
کچھ دیر بالکل خاموشی رہتی ہے۔ صرف کبھی کبھی اونچی اڑتی ہوئی کسی چڑیا کی چہکار یا پہاڑی بکرے کی آواز یا جنگلی گلہری کی کرخت تیز سیٹی سنائی دیتی ہے۔ پھر یکایک ایک لمبا سایہ ہری ہری گھاس پر آہستہ آہستہ سرکتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور دور سے بل کھاتے ہوئے راستے پر وادی کے سرے سے آتا ہوا نظر آتا ہے۔ تماشائی دل میں کہتے ہیں “یا اللہ بھیڑیا ہے بچہ نہیں ہے۔ پورا بڑا نر ہے۔ جوان، رفتار میں کوئی جلدی نہیں ہے۔ دس بالشت سے ایک انگل بھی کم نہیں ہے۔ واقعی زبردست جانور ہے۔ کیا ایسے صید پر شاہین چھوڑا جائے گا، اگر چھوڑا گیا تو دونوں میں سے کون جیتے گا؟”
انھیں زیادہ دیر تک تذبذب میں نہیں رہنا پڑتا، آنکھوں پر سے ٹوپی ہٹتے ہی شاہین ایک دم سے ہوا میں بلند ہو جاتا ہے اور فوراً چاروں طرف نظر دوڑا کر بھیڑیے کو دیکھ لیتا ہے۔ یہ بڑا پرندہ دو دن کے فاقے سے ہے اور بھوک سے اس کا برا حال ہے، ذرا توقف نہیں کرتا اور نیچے ہی نیچے جھپٹا چلا جاتا ہے۔ پتھر یا گولی کی طرح نہیں بلکہ خاموشی سے پر مارتا بے رحمی سے، بغیر کوئی غلطی کیے، پردار دشمن، نڈر، پر اعتماد، فریب نہ کھانے والا، خطرے سے بے خطر۔ بھیڑیا جب آگے بڑھتا ہے تو شاہین اپنے بڑے بڑے پنجے اس کے سر کے نیچے اتار دیتا ہے۔ شاہین کی جھپیٹ میں آ کر بھیڑیا گر کر لڑھک جاتا ہے، منہ مارتا ہے اور دانت چباتا ہے، اپنے پنجے اور دانت حملہ آور پر جمانے کی کوشش کرتا ہے مگر اتنے ہی میں شاہین اپنی مڑی ہوئی چونچ سے بھیڑیے کی آنکھیں پھوڑ ڈالتا ہے۔ چند لمحوں میں لڑائی ختم ہو جاتی ہے اور بھیڑیا مر جاتا ہے۔
تماشائی دیوانہ وار دوڑ پڑتے ہیں اور اپنے گھوڑوں کا رخ کرتے ہیں، ڈھلان پر بھاگنے کے باوجود بعض کے سانس پھول جاتے ہیں کیونکہ قازق اپنے پیروں سے زیادہ گھوڑوں پر زیادہ آرام محسوس کرتے ہیں، بہر حال چٹکی بجاتے میں وہ اپنے گھوڑوں پر سوار ہو کر لڑائی کے منظر پر پہنچ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ شاہین کا مالک وہاں پہنچ کر شاہین کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھا چکا ہے اور بھیڑیے کی کھال اتارنے میں مصروف ہے۔ جب وہ اس سے فارغ ہو جاتا ہے تو شاہین کی آنکھیں دوبارہ کھول دیتا ہے تاکہ خوب سیر ہو کر بھیڑیے کی لاش کو کھا لے۔
ایک تماشائی کہتا ہے “خوب پرند ہے۔ دائی یا پرامائی، بھیڑیا تین منٹ میں مر گیا اور شاہین نے تنہا ہی اسے ہلاک کر دیا۔ شکاری کتوں کی مدد کے بغیر ہی!”
کوئی اور تائید کرتے ہوئے کہتا ہے “بے شک پرند کے ساتھ اس کے سدھانے والے کی بھی تعریف کرنی چاہیے مگر ذرا بھیڑیے کا قد و قامت تو دیکھو کھال کا ناپ تھوتھنی سے دم کی نوک ساڑھے نو بالشت ہے”۔
ایک اور نے حاسدانہ طور پر کہا “شاہین تک کے پر بھی تو ناپ میں اس سے کچھ کم نہیں ہیں”۔ مگر دل میں قائل تھا کہ اگر میرا پرند ہوتا تو لومڑی سے بڑے جانور پر اسے نہ چھوڑتا۔
کسی نے ہنس کر جواب دیا “تمھارے پھیلے ہوئے ہاتھوں سے تو زیادہ ہی ہے اگر یہ جانور تم پر چھوڑا جاتا تو میں خوب جانتا ہوں کہ کس کی جیت ہوتی۔ چاہے تمھارے ہاتھ میں تلوار ہی کیوں نہ ہوتی؟”
اس کے جواب میں ایک اور بولا “جو شخص اپنی انگلی کی ایک پور شاہین کی چونچ کی نظر کر چکا ہو اس کے منہ سے ایسی بات بھلی نہیں لگتی”۔
ایسے سانحے تو بہت کم ہوتے ہیں لیکن بے احتیاطی کی وجہ سے ہوتے ضرور ہیں۔ نوگرفتہ شاہین صرف ایک ایسے مالک کا لحاظ کرتا ہے جو پہلے جان بوجھ کر اس سے بے رحمی سے پیش آئے اور پھر جب اسے سدھا لیا جائے تو بہت احتیاط اور توجہ سے رکھے۔ اس طرح دونوں میں ایک طرح کی مفاہمت ہو جاتی ہے اور کم از کم انسان کی طرف سے یہ مفاہمت محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے لیکن پرند اپنے آقا کو قبول کر لینے پر بھی اور سب سے بھڑکتا رہتا ہے، دوسروں کے لیے یہ شاہین اب بھی جنگلی، بے قابو، وحشی اور خطر ناک ہی ہوتا ہے۔
شاہین جاڑوں میں پکڑے جاتے ہیں، شکاری سفید ڈوریوں کا جال اس طرح بناتا ہے کہ بیس ڈوریوں میں بیس اور ڈوریوں کے پھسلنے والے پھندے لگاتا ہے۔ اس جال کو وہ زمین پر ڈال دیتا ہے اور جب اس پر پہلی برف پڑ جاتی ہے اور اسے پوری طرح چھپا لیتی ہے تو ایک زندہ چوزہ اس کے قریب باندھ دیتا ہے۔ یہ چوزہ چیختا ہے۔ شاہین جھپٹ کر آتا ہے مگر جب وہ مرے ہوئے چوزے کو پنجوں میں دبا کر اوپر اڑتا ہے تو پھندے اس کی ٹانگوں میں الجھ جاتے ہیں اور وہ مجبور ہو جاتا ہے۔ جال لگانے والا دوڑ کر آتا ہے، پھڑپھڑاتے ہوئے پرند پر ایک کپڑا ڈال دیتا ہے اور چمڑے کے دستانے پہنے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اسے دبوچ کر آنکھوں پر ٹوپی چڑھا دیتا ہے تاکہ جب اسے کپڑے اور جال سے نکالے تو دکھائی نہ دینے کی وجہ سے وہ اڑنے سے معذور رہے۔
اس کے بعد یہ کیا جاتا ہے کہ زمین میں دو لکڑیاں گاڑ دی جاتی ہیں اور ان کے درمیان ایک رسی تان دی جاتی ہے، ایک اور چھوٹی رسی کا ایک سرا شاہین کے پاؤں میں بندھا ہوتا ہے اور دوسرا سرا دونوں میں سے کسی لکڑی میں باندھ دیا جاتا ہے۔ پاؤں کی رسی اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ بدنصیب پرند زمین پر اتر نہیں سکتا اس لیے مجبور ہوتا ہے کہ پہلی رسی پر اپنا توازن قائم کیے بیٹھا رہے ورنہ سر نیچے اور ٹانگیں اوپر لٹکتا رہے گا۔
ٹوپی چڑھی ہوتی ہے اور ایسی حالت میں اسے مسلسل کئی دن رات تک رکھا جاتا ہے، کوئی دس دن، پھر سدھانے والے کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب یہ اڑنے کے قابل نہیں رہا۔ اب کبھی کبھی اس کا سدھانے والا اس کی آنکھیں کھولتا ہے اور اسے چوہیا یا خرگوش کھانے کو اور تھوڑا سا پانی پینے کو دیتا ہے، اتنا کھانا اور پانی نہیں دیا جاتا کہ وہ سیر ہو جائے بلکہ صرف اتنا کہ وہ زندہ رہے اور اسے زیادہ بھوک لگنے لگے۔
جب اس کا سدھانے والا سمجھ لیتا ہے کہ اب کوئی اندیشہ نہیں رہا تو وہ اسے پھر ٹوپی پہنا دیتا ہے اور اس کی رسی پکڑ کر اپنے چمڑے کی کلائی پر بٹھا لیتا ہے اور اپنے پڑاؤ میں سوار ہو کر گھومتا پھرتا رہتا ہے۔ اگر پرند تمیز سے بیٹھا رہتا ہے تو گھر جانے پر اسے ذرا موٹی رسی بیٹھنے کو ملتی ہے اس کے بعد لکڑی پر اسے بٹھایا جاتا ہے اور آخر میں کسی درخت کی ٹہنی پر۔ لیکن وہ شاہین کو ہمیشہ بندھا رکھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ سوائے سدھانے والے کے وہ ہر ایک پر جھپٹ پڑے گا اور یہ عموماً وہ چاہتا بھی ہے کیونکہ اس کی اس خو کی وجہ سے اسے کوئی چرا بھی نہیں سکتا، اس کے علاوہ اس کی وحشت باقی رہنی چاہیے ورنہ وہ کسی کو بھی شکار نہیں کرے گا۔
وہ دن بھی بالآخر آ پہنچتا ہے جب شاہین کا مالک اسے پہلا شکار کھلانے پہاڑوں میں لے جاتا ہے۔ اسے پورے دو دن تک بھوکا رکھا جاتا ہے اور اسے کسی ایسے شکار پر چھوڑا جاتا ہے جو بہت فاصلے پر نہ ہو، اس طرح مالک اس مقام پر شاہین کے پیٹ بھر کے کھا لینے سے پہلے جا پہنچتا ہے۔ جب تک وہ پہنچتا ہے شاہین اپنے شکار کو نوچ نوچ کر اس کا کچا گوشت بھوک بجھانے کے لیے نگلتا رہتا ہے لیکن چونکہ وہ اپنے مالک کو پہچانتا ہے اور خود کھانے میں مصروف ہوتا ہے اس لیے اسے قریب آ جانے دیتا ہے۔ مالک جلدی سے اس کی آنکھوں پر ٹوپی چڑھا دیتا ہے۔ جانور کی کھال جلدی سے اتارتا ہے کیونکہ اسے استر کے لیے اس کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر شکار کی لاش شاہین کو کھانے کے لیے دے دیتا ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ شاہین اس بات کو جلدی سمجھ جاتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ شکار کرے گا اسے کھانے کو مل جایا کرے گا اور اسی وقت سے انسان اور پرند میں ایک معاہدہ ہو جاتا ہے جو کسی ایک کے مرنے ہی پر ختم ہوتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...