مما ۔۔۔۔ مما ۔۔۔ کنزیٰ نے آنکھیں کھولنےپر ماں کو قریب دیکھا تو انھیں پکارا
ہاں میری بچی بولو ۔۔۔ نسیم بیگم نے کنزیٰ کے ماتھے کو چومتے ہوئے کہا
مما ۔۔۔۔۔۔ وہ ماں کےچومنے پر خود پر قابو نہیں رکھ پائی اور پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی
کنزیٰ میری بچی ۔۔۔۔ نسیم بیگم بیٹی کے اس طرح رونے پر قابو نہیں رکھ پائیں اور خود بھی رو دیں
ممانی پلیز اس طرح تو کنزیٰ کی طبیعت اور خراب ہو جائے گی ۔۔۔۔۔ عمر نے نسیم بیگم کو سمجھاتے ہوئے کہا
اور ہوا بھی ایسا ہی کنزیٰ کی حالت بگڑ گئی ۔۔۔۔۔ اسے سانس لینے میں دشواری ہونے لگی
اسکی بگڑتی حالت دیکھ کر تینوں کے ھاتھ پیر پھول گئے
عمر جلدی سے ڈاکٹر فرح کو بلا لایا
ڈاکٹر فرح نے اسے جلدی سے سکون کا انجکشن دیا ۔۔۔۔۔ کنزیٰ پھر نیند کی آغوش میں چلی گئی
یہ بہت کمزور ہو گئی ہے ۔۔۔۔ اسے آپ لوگ جتنا خوش رکھ سکتے ہیں رکھیں پلیز ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے سوئی ہوئی کنزیٰ کو دیکھتےہوئے کہا جس نے ابھی تک اپنی ماں کا ھاتھ تھاما ہوا تھا
دیکھیں اگر آپ بھی اسکے ساتھ روئیں گی تو یہ خود کو کیسے سنبھالے گی ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے آنسو صاف کرتی ہوئی نسیم بیگم سے کہا
اللہ اسے برباد کرے جس نے میری بیٹی کو اس حال میں پہنچایا ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے جھولی پھیلاتے ہوئے انجانے میں اپنے بیٹے کو بدعا دی ۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحبہ آپکو ڈاکٹر رزاق بلا رہے ہیں ۔۔۔۔ فیمل نرس نے آکر ڈاکٹر فرح کو سینئر ڈاکٹر کا پیغام دیا
ڈاکٹر فرح پیغام سنتے ہی باہر چلیں گئیں
اسلام وعلیکم خواتین اور ایک عدد حضرت ۔۔۔۔ تیمور نے اسی وقت ھسپتال کے کمرے میں داخل ہو کر خوشدلی سے کہا
کمرے میں داخل ہوکر تیمور کو ماحول کی سنجیدگی کا احساس ہوا ۔۔۔۔
کیا ہوا آپ سب کو ۔۔۔۔ تیمور نے نسیم بیگم کے روئے ہوئے چہرے کو دیکھتےہوئے پوچھا
میری بچی ۔۔۔۔ نسیم بیگم سسکیاں لیکر تیمور سے کہا
ممانی ۔۔۔ ممانی ۔۔۔۔ تیمور نے نسیم بیگم کو کاندھے سے پکڑ کر کرسی پر بیٹھاتے ہوئے کہا اور خود انکے قدموں میں پنجوں کے بل بیٹھ گیا
آپ بھول رہی ہیں ممانی یہ آپکی بیٹی کے ساتھ ساتھ میری ہونے والی بیوی بھی ہے ۔۔۔۔ تیمور نے اپنے ھاتھوں سے انکے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
تیمور ۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے حیرت اور خوشی سے تیمور سے کہا
جی ممانی ۔۔۔۔ تیمور نے انکے ھاتھ تھام کر یقین دلایا
خوش کر دیا یار تو نے تو ۔۔۔۔۔ عمر نے حقیقت میں خوش ہو کر کہا
شاباش میرے بچے ۔۔۔۔ ذکیہ بیگم نے بھی خوشی کا اظہار کیا
اب آپ سب لوگ گھر جائیں اور کنزیٰ کے ویلکم کی تیاریاں کریں کل میں صبح ہی ڈاکٹر سے بات کرکے کنزیٰ کو گھر لے کر آرہا ہوں اسے ھسپتال کی نہیں ھم سب کی ضرورت ہے ۔۔۔۔ تیمور نے مسکراتے ہوئے کہا
نسیم بیگم نے خوشی سے تیمور کو گلے لگا لیا
تیمور ۔۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے تیمور کو کمرے میں دیکھ کر پکارا
بولو کنزیٰ ۔۔۔۔ کیا بات ہے ۔۔۔۔ تیمور نے کنزیٰ کے پکارنے پر اس کے قریب آکر پوچھا
آپ یہاں کب آئے ۔۔۔۔ کنزیٰ نے حیرانگی سے پوچھا
مما کہاں ہیں؟ ؟؟ کنزیٰ نے ساتھ ہی دوسرا سوال کیا
سب ادھر ہی موجود ہیں تم پریشان مت ہو ۔۔۔۔ کنزیٰ نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا
آپ مما کو بلا دیں پلیز ۔۔۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے منت بھرے لہجے میں کہا
اسی وقت کمرے کا دروازہ کھولا اور نسیم بیگم اور ذکیہ بیگم کھانے کے برتن لے کر کمرے میں داخل ہوئی
مما آپ کہاں چلی گئیں تھیں؟ ؟؟؟؟؟ کنزیٰ نے ماں سے پوچھا
بیٹا تیمور کھانا لے کر آیا تھا ٹھنڈا ہوگیا تھا تو میں اور ذکیہ ھسپتال کے کچن سے گرم کرنے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے کنزیٰ کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا
میں اپنی بیٹی کو کھانا اپنے ہاتھوں سے کھلاونگی ۔۔۔۔۔ نسیم بیگم نے پیار سے نوالہ بنا کر کنزیٰ کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا
ذکیہ بیگم نے کنزیٰ کو بیڈ پر بیٹھا دیا تھا
اسی وقت ڈاکٹر فرح کمرے میں داخل ہوئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے کا منظر دیکھ کر ڈاکٹر فرح کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ آگئی
کیا میں آپ سے کچھ بات کر سکتی ہوں؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے تیمور سے پوچھا
جی کیوں نہیں ۔۔۔۔۔۔ تیمور نے مختصر جواب دیا
پلیز یہاں نہیں آپ میرے آفس آجائیں کھانا کھا کر پھر ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے تیمور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔ تیمور نے جواب دیا
میں ڈاکٹر صاحبہ سے بات کرکے آتا ہوں ۔۔۔۔ تیمور نے نسیم بیگم اور ذکیہ بیگم سے کہا
میں بھی چلتا ہوں ساتھ ۔۔۔۔ عمر نے کہا
جی ٹھیک ہے آجائیں ۔۔۔۔ تیمور نے ادب سے کہا
دونوں بھائی ڈاکٹر فرح کے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔
دستک دینے کے بعد دونوں اندر بلانے کے لیے ڈاکٹر فرح کی اجازت کا انتظار کرنے لگے ۔۔۔۔۔
آجائیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح کی اندر سے آواز آئی ۔۔۔۔۔
دونوں آفس میں داخل ہونے ۔۔۔
پلیز بیٹھیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے سامنے رکھی کرسیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا
میں آپ سے بات صرف اس لئے کرنا چاہتی ہوں کیونکہ آپ کنزیٰ کے منگیتر ہیں ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہا
اس وقت کنزیٰ کو سب سے زیادہ آپکی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے تیمور کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
تیمور سر جھکائے ڈاکٹر فرح کی بات سن رھاتھا
مجھے نہیں پتا کہ اب آپکا فیصلہ کیا ہوگا لیکن انسانیت کے ناطے پلیز آپ جو بھی فیصلہ کریں وہ اس کے نارمل ہونے کے بعد کریں ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے تیمور کے خاموش رہنے کے بعد کہا
میں کنزیٰ کو نہیں چھوڑوں گا میں اسی سے شادی کروں گا ۔۔۔ اس سارے حادثے میں اسکا کیا قصور اسکو سزا کیوں دوں ؟؟؟ انکو سزا نہ دوں جو اس حادثے کے ذمہ دار ہیں؟ ؟؟؟ میں جب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک وہ لوگ بے نقاب نہیں ہو جاتے جنہوں نے کنزیٰ کے ساتھ یہ سب کیا ہے ۔۔۔۔ تیمور نے خود پر کنٹرول کرتے ہوئے کہا
پلیز آپ کو بھی جو کچھ پتا ہو مجھے بتائیے گا ۔۔۔ کون لایا تھا کنزیٰ کو یہاں؟ ؟؟؟؟
یہاں کے کچھ مقامی لوگ لائے تھے ۔۔۔ کہہ رہے تھے کہ یہ کہیں سے بھاگتی ہوئی آئی تھی اور انکے گھر کے سامنے بیہوش ہوکر گر گئی تھی ۔۔۔۔۔
ڈاکٹر فرح نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
اچھا ۔۔۔۔ تیمور نے سوچتے ہوئے کہا
مجھے اجازت ہے اب ۔۔۔۔۔ تیمور نے ایک دم چونکتے ہوئے کہا
جی ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے جواب دیا
عمر اور تیمور باہر آگئے
کیا کرو گے تم؟ ؟؟؟؟عمر نے تیمور سے پوچھا
بھائی میں انکو سزا دلائے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گا ۔۔۔۔۔ تیمور نے خود پر قابو رکھتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا
کیسے دلاو گے تم سزا؟ ؟؟؟؟؟؟ عمر نے تیمور سے پوچھا
کنزیٰ کی مدد سے ۔۔۔۔۔ تیمور نے سوچتے ہوئے کہا
کیا مطلب؟ ؟؟؟عمر نے چونک کر اسے دیکھا
میرا مطلب ہے بھائی کہ جب کنزیٰ نارمل ہو جائے گی اور کچھ بتانے کے قابل ہو جائے گی تو میں اسکی مدد سے ہی ان کو پکڑواں گا ۔۔۔ تاکہ وہ پھر کسی اور لڑکی کے ساتھ ایسا نہیں کرسکیں ۔۔۔۔ تیمور نے جواب دیا
میرے خیال سے بڑے ماموں سے اجازت لے لینا کچھ بھی کرنے سے پہلے ۔۔۔۔۔۔۔ عمر نے اسے مشورہ دیا
جی بھائی ضرور ۔۔۔۔ تیمور نے سعادت مندی سے کہا
ایک منٹ بھائی آپ چلیں میں ڈاکٹر صاحبہ سے کنزیٰ کو کل گھر لے جانے کے بارے میں بات کرکے آتا ہوں ۔۔۔۔۔ تیمور نے عمر سے کہا
میں بھی چلتا ہوں ساتھ ۔۔۔۔ عمر نے جواب دیا
ایکسکیوز می ۔۔۔ کیا میں اندر آسکتا ہوں؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔ تیمور نے ڈاکٹر فرح کے آفس میں داخل ہونے سے پہلے پوچھا
جی پلیز ۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے مسکراتے ہوئے کہا
ڈاکٹر صاحبہ میں کل کنزیٰ کو گھر لے جانا چاہتا ہوں ۔۔۔ میرے خیال سے کنزیٰ کو اس وقت اپنوں کی ضرورت ہے ۔۔۔ وہ وہاں جلدی ٹھیک ہوجائے گی ۔۔۔۔ تیمور نے ڈاکٹر فرح کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
ھم اسکا چیک اپ کرانے آتے رہیں گے ۔۔۔۔ عمر نے جلدی تیمور کی حمایت میں کہا
کیوں نہیں ۔۔۔ یقین کریں مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ لوگ ایسا سوچ رہے ہیں ۔۔۔ ورنہ عام طور پر
ایسی سچویشن میں لڑکی کے گھر والے تو لے جانے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔ اور بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ لڑکی کے گھر والے اسے پہچانے سے بھی انکار کر دیتے ہیں ۔۔۔۔۔ اکیلا چھوڑ دیتے ہیں زمانے کی ٹھوکریں کھانے کے لئے ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے دکھی لہجے میں کہا
تیمور اور عمر نے کوئی جواب نہیں دیا
ٹھیک ہے کل صبح آپ لوگ لے جائیے گا ۔۔۔ مگر اسکا علاج جاری رکھئے گا ۔۔۔۔ ڈاکٹر فرح نے انہیں دیکھتےہوئے کہا
جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔ تیمور کے بجائے عمر نے جواب دیا
مبارک ہو ۔۔۔۔ کل تم گھر جا رہی ہو ۔۔۔۔ تیمور نے لہجے میں شوخی بھرتے ہوئے کہا
کیا کہہ رہی تھی ڈاکٹر فرح ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے پوچھا
کچھ نہیں ممانی جان پوچھ رہی تھی کہ آپ کا کوئی اور بھائی نہیں جو آپ جیسا ہی ھینڈسم ہو ۔۔۔۔ تیمور نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
تیمور کی بات سن کر کنزیٰ ایک دم کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔۔۔۔ اسے ایسے ہنستا دیکھ کر سب کے لبوں پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ آگئی
نسیم بیگم اور ذکیہ بیگم نے جھٹ سے اسکی بلائیں لے لیں
ذکیہ بیگم عمر کے ساتھ واپس گھر آگئیں ۔۔۔ اور گھر میں سب کو کنزیٰ کے گھر آنے کی خوشخبری سنائی
بشری کے سوا سب نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کیا
عدیل ۔۔ عدیل ۔۔ مبارک ہو کنزیٰ کل گھر آرہی ہے ۔۔۔۔۔ مثال نے خوشی خوشی یہ خبر عدیل کو سنائی
عدیل کنزیٰ کا نام سن کر چلانے لگا
یہ میری بہن کنزیٰ ہے ۔۔۔۔ یہ میری بہن کنزیٰ ہے
چلانے کی آواز سن کر سب گھر والے دوڑ کر عدیل کے کمرے میں آئے
کیا ہوا مثال بیٹا ۔۔۔۔ منور صاحب نے گھبرا کر پوچھا
پتا نہیں بڑے پاپا میں تو سمجھی تھی کہ عدیل کنزیٰ کے ملنے اور گھر آنے کی خبر سن کر خوش ہو گا اور نارمل ہو جائے گا مگر یہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثال نے حیرانگی سے جواب دیتے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑا
عدیل ۔۔۔ عدیل ۔۔۔ بیٹا ۔۔۔ کیا ہوا بیٹا ۔۔۔۔ منور صاحب کو عدیل کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا
عمر نے اسکی بگڑتی ہوئی حالت کے پیش نظر جلدی سے عدیل کے ڈاکٹر کو کال کی اور انھیں جلدی آنے کا کہا
تھوڑی دیر میں ڈاکٹر صاحب گھر پہنچ گئے اور انھوں نے آتے ہی عدیل کو سکون کا انجکشن لگایا
بیٹیاں، تتلیاں
پھول ہیں، چاند ہیں
دیکھو تو پیار سے
رکھو تو گلزار سے
روپہلی صبح کی طرح
ساون کی بوندوں کی طرح
بیٹیاں ، تتلیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنزیٰ آج ھسپتال سے گھر واپس آرھی تھی ۔۔۔۔۔ منور صاحب نے اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے تیمور جیسے لڑکے کا انتخاب کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
کنزیٰ نے گھر میں قدم رکھا تو سب نے خوش دلی سے اسکا استقبال کیا
بابا جان ۔۔۔۔ کنزیٰ نے باپ کو پکارا
جی بابا کی جان ۔۔۔۔ منور صاحب نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگایا
نسیم بیگم نے بھیگی آنکھوں سے باپ اور بیٹی کا ملاپ دیکھا
کنزیٰ اپنے گھر کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے صدیوں کے بعد آئی ہو اپنے گھر
بیٹھ جاو بیٹی ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے اسے اسکے کمرے میں بیڈ پر بیٹھا تے ہوئے کہا
کیا دیکھ رہی ہو بیٹا ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے کنزیٰ کے بالوں کو پیار سے سہلاتے ہوئے پوچھا
کچھ بھی نہیں ۔۔۔ کنزیٰ نے ایک دم چونکتے ہوئے کہا اور ایک سرد آہ بھر کر بیڈ پر بیٹھ گئی
کیا کھائے گی میری بچی ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے کنزیٰ کو پیار سے دیکھتے ہوئے پوچھا
ابھی کچھ بھی کھانے کا دل نہیں کر رہا ۔۔۔۔ کنزیٰ نے جواب دیا
مما۔۔۔ کنزیٰ نے ماں کو پکارا
بولو بیٹا ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے پوچھا
کچھ نہیں ۔۔۔ کنزیٰ نے دھیمے سے کہا
کیا بات ہے کنزیٰ تم کچھ پوچھنا چاہتی ہو ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے اسکے اسطرح پوچھنے پر کہا
نہیں ۔۔۔ میں تھوڑی دیر سونا چاہتی ہوں ۔۔۔ کنزیٰ نے جواب دیا
ٹھیک ہے تم آرام کرو۔۔۔۔ نسیم بیگم نے اسے بیڈ پر لیٹا دیا ۔
مثال تم کنزیٰ کے پاس بیٹھو میں ذرا عدیل کو دیکھ کر آتی ہوں ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے مثال سے کہا
جی ٹھیک ہے بڑی مما ۔۔۔۔ مثال نے جواب دیا
عدیل ۔۔۔ کنزیٰ عدیل کے نام پر چونک گئی مگر آنکھیں بند کر کے لیٹی رہی کچھ بولا نہیں
کنزیٰ ۔۔۔ نسیم بیگم کے کمرے سے جانے کے بعد مثال نے کنزیٰ کو پکارا
کنزیٰ نے کوئی جواب نہیں دیا اور آنکھیں بند کئے لیٹی رہی
کنزیٰ کیا کر رہی ہے ۔۔۔۔ منور صاحب نے بیوی سے پوچھا
تھک گئی تھی آرام کر رہی ہے ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے جواب دیا
اسی وقت منور صاحب کے موبائل بجا
اسلام وعلیکم ہمدانی میں ابھی تم کو ہی کال کرنے کا سوچ رہا تھا ۔۔۔۔ منور صاحب نے آئ ۔جی پولیس ہمدانی کا نمبر دیکھ کر کہا
مبارک ہو یار کنزیٰ مل گئی ۔۔۔۔ ہمدانی صاحب نے منور صاحب کو سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا
جواب میں منور صاحب نے انھیں ساری تفصیل بتادی ۔۔۔
اوہ یہ تو بہت برا ہوا ۔۔۔۔ ہمدانی صاحب نے ساری تفصیل سن کر جواب دیا
جواب میں منور صاحب سرد آہ کھینچی کر رہ گئے
اوکے کل میرا ایک تفتیشی افسر آئے گا کنزیٰ بیٹی سے پوچھ گچھ کرے گا ۔۔۔۔ ہمدانی صاحب نے کہا
ٹھیک ہے ۔۔۔ منور صاحب نے مختصر جواب دیا اور کال بند کر کے موبائل سامنے میز پر رکھ دیا
چائے پیے نگے آپ بھائی صاحب ۔۔۔۔۔ ملیحہ نے سوچ میں ڈوبے بھائی کو دیکھتےہوئے پوچھا
آں نہیں ۔۔۔۔۔ منور صاحب نے چونکتے ہوئے کہا
کیا بات ہے بھائی صاحب ۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے بھائی سے پوچھا
تیمور کہاں ہے؟ ؟؟؟ منور صاحب نے بہن سے پوچھا
اپنے کمرے میں ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے جواب دیا
اسکو بلاو مجھے بات کرنی ہے کچھ ۔۔۔۔ منور صاحب نے سوچتے ہوئے کہا
جی اچھا ۔۔۔۔ رشیدا ۔۔۔ رشیدا ۔۔۔ ملیحہ نے بھائی کو جواب دے کر ملازمہ کو آواز دی
جی بیگم صاحبہ ۔۔۔ ملازمہ نے کمرے میں آکر پوچھا
جاو تیمور صاحب کو بلا کر لاو ۔۔۔۔ ملیحہ بیگم نے اسے ہدایت دیتے ہوئے کہا
جی اچھا ۔۔۔۔ ملازمہ نے جواب دیا اور تیمور کو بلانے چلی گئی
جی ماموں جان ۔۔۔۔تیمور نے سعادت مندی سے کہا
بیٹا ہمدانی کی کال آئی تھی میں نے اسے کنزیٰ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے اب وہ کل اپنے کسی افسر کو بھیجے گا کنزیٰ سے سوال جواب کرنے میں چاہتا ہوں کہ تم بھی ہو اس وقت کنزیٰ کے ساتھ ۔۔۔۔
منور صاحب نے تیمور کو سمجھاتے ہوئے کہا
جی ٹھیک ہے ماموں جان آپ بے فکر رہیں میں کنزیٰ کے پاس ہی رہونگا ۔۔۔۔ تیمور نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا
نسیم آپ کنزیٰ کو بھی سمجھا دیئے گا کہ وہ سب بتا دے انہیں ۔۔۔۔ منور صاحب نے نسیم بیگم کو سمجھاتے ہوئے کہا
جی اچھا ۔۔۔۔ انہوں نے شوہر کو اطمینان دلاتے ہوئے کہا
کنزیٰ بیٹا دوا کھا لی تم نے ۔۔۔ نسیم بیگم نے بیٹی کو دیکھتےہوئے پوچھا
جی۔۔۔ کنزیٰ نے جواب دیا
بیٹا تم سے ایک بات کرنی ہے ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے کنزیٰ کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا
جی مما ؟؟؟؟؟؟۔۔۔ کنزیٰ نے انہیں دیکھتےہوئے پوچھا
بیٹا جب تم ہمیں نہیں مل رہی تھی تو تمھارے بابا جان نے ہمدانی انکل سے کہہ کر تمہیں ڈھونڈوایا تھا
اب جب کہ تم ہمیں مل گئی ہو تو ہمدانی صاحب کل اپنے ایک افسر کو بھیجے گے تاکہ تمھارا بیان لیا جاسکے ۔۔۔۔ نسیم بیگم نے کنزیٰ کو سمجھاتے ہوئے کہا
مما کیا یہ ضروری ہے؟ ؟؟؟ کنزیٰ نے ماں سے پوچھا
ہاں بیٹا ۔۔۔ نسیم بیگم نے کہا
ٹھیک ہے مما ۔۔۔۔ کنزیٰ نے مختصر جواب دیا
شاباش میری بچی ۔۔۔ نسیم بیگم نے کنزیٰ کا ماتھا چومتے ہوئے کہا
کہتے ہیں کہ ہر اذیت کی ایک معینہ مدت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جسکے گزر جانے کے بعد نہ تو درد کی شدت پہلے جیسی رہتی ہے، اور نہ اسے سہنے والا انسان ۔۔۔۔
لیکن کنزیٰ کے درد کی شدت کی کوئی مدت نہیں تھی ۔۔۔۔ کیوں کہ اسے درد دینے والا اسکا اپنا سگا خون تھا ۔۔۔۔ مگر وہ یہ بات کسکو بتائے اور کیسے؟
کنزیٰ تم عدیل سے نہیں ملو گی ؟؟؟؟؟تم کو پتا ہے تمہارے گم ہونے کی خبر سن کر اسکا نروس بریک ڈاؤن ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ مثال نے کنزیٰ کو عدیل کی حالت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا
نروس بریک ڈاؤن ۔۔۔۔ کنزیٰ نے آہستہ سے زیرلب کہا
کنزیٰ ۔۔۔کنزیٰ ۔۔۔ مثال نے دوبارہ پکارا
ہاں ۔۔۔ کنزیٰ نے چونک کر مثال کو دیکھتےہوئے کہا
عدیل سے نہیں ملو گی؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔ مثال نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا
نہیں ابھی نہیں پلیز ۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے جواب دیا
لیکن کیوں ؟؟؟؟؟ مثال نے حیرانگی سے پوچھا
کس سے ملنا ہے کنزیٰ کو؟ ؟؟؟ تیمور نے پوچھا
عدیل سے ۔۔۔ مثال نے جواب دیا
ابھی ہمدانی انکل نے افسر بھیجا ہے کنزیٰ ابھی صرف اس سے ملے گی ۔۔۔۔ عدیل سے تھوڑی دیر کے بعد مل لینا تم ٹھیک ہے ؟؟؟؟ تیمور نے کنزیٰ کو دیکھتےہوئے کہا
جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔ کنزیٰ نے جلدی سے جواب دیا اور سکون کا سانس لیا وہ ابھی عدیل کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی
تم بالکل آرام سے انکے سوالوں کے جوابات دینا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تیمور نے کنزیٰ کو سمجھایا
جی ٹھیک ہے ۔۔۔ کنزیٰ نے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ کہآ
دیکھو کنزیٰ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں سزا ملنی چاہیے جنہوں نے تمہارے ساتھ یہ سب کیا ہے تاکہ اور کسی مظلوم لڑکی کے ساتھ ایسا نہیں کرسکیں ۔۔۔۔
اگر تم میرا ساتھ دو تو ھم ملکر انہیں سزا دیں جنہوں نے تمہارے ساتھ ایسا کیا ہے ۔۔۔۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تم پولیس کے سارے سوالات کا جواب دینا ۔۔۔۔
میں تمہارے ساتھ ہوں ہمیشہ ۔۔۔۔۔۔ تیمور نے کنزیٰ کے ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ کا یقین دلایا
************
عمر ہم ہنی مون پر کب تک جائیں گے ؟؟؟؟؟۔۔۔۔ بشری نے بالوں میں برش پھرتے ہوئے عمر سے پوچھا
بشرئ خدا کے واسطے کچھ تو خیال کرو ۔۔۔۔ عمر نے بشری کو حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا
گھر کا ماحول ۔۔۔۔۔۔۔ عمر نے کچھ کہنا چاہا
کیا ہوا گھر کے ماحول کو ؟؟؟؟؟ بشری نے غصے سے برش کو ڈریسنگ ٹیبل پر پٹختے ہوئے چلا کر پوچھا
تم کو نظر نہیں آ رہا کیا کچھ؟ ؟؟؟؟ عمر نے دانت پیس کر غراتے ہوئے پوچھا
نہیں مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا ۔۔۔۔ بشری نے اسکے غصے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا
عمر غصے سے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔
بشری نے غصے سے دروازے کو گھورا جہاں سے ابھی ابھی عمر نکل کر گیا تھا
*****************
آپ کا پریکٹیکل کتنے بجے ختم ہوا تھا؟ ؟؟؟ تفتیشی افسر نے کنزیٰ سے پہلا سوال کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔ 11:45تک ۔۔۔۔ کنزیٰ نے جواب دیا
اور آپ نے اپنے ڈرائیور کو کتنے بجے آنے کا کہا تھا؟ ؟؟؟ آفیسر نے کنزیٰ کو دیکھتےہوئے پوچھا
جی 12 بجے تک کا ۔۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے جواب دیا
تو وہ کتنے بجے آیا تھا ۔۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے پوچھا
جی وہ آیا ہی نہیں تھا۔۔۔۔ کنزیٰ نے جواب دیا
مگر اس کا کہنا ہے کہ وہ آیا تھا مگر آپ کے کالج کے چوکیدار نے اسے کہا کہ آپ اپنی کسی دوست کے ساتھ چلی گئیں ہیں ۔۔۔ تفتیشی افسر نے کنزیٰ کو بتایا
نہیں وہ جھوٹ بول رہا ہے ۔۔۔ آپ چوکیدار سے پوچھ لیں میں اسکا انتظار کرتی رہی ہوں اور جب بھی چوکیدار سے پوچھا تو اس نے یہ ہی کہا کہ ابھی میرا ڈرائیور نہیں آیا ۔۔۔۔ کنزیٰ نے جواب دیا
کیا آپکو روز یہ ہی لینے جاتا ہے؟ ؟؟؟ تفتیشی افسر نے کنزیٰ کی جانب دیکھتے ہوئے ایک اور سوال کیا
نہیں جی روز تو ھم اپنے بھائی کے ساتھ جاتے تھے اور واپسی پر بھی وہ ہی لینے آتے تھے یہ کبھی کبھی لینے جاتا تھا جب عدیل بھائی نہیں ہوتے تھے تو ۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے جواب دیا
اچھا پھر کیا ہوا؟ ؟؟؟ کیا آپ کو کالج کے باہر سے اغوا کیا گیا تھا؟ ؟؟؟؟ تفتیشی افسر نے پوچھا
جی نہیں ۔۔ کالج کے اندر سے ہی ۔۔۔۔ کنزیٰ نے انکشاف کیا
کالج کے اندر سے ؟؟؟؟؟ تفتیشی افسر نے حیرانگی سے پوچھا
جی کالج کے اندر سے ۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے دوہرایا
کالج میں اس وقت اور کتنے لوگ تھے ۔۔۔۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے کنزیٰ کو دیکھتےہوئے پوچھا
کالج پورا خالی ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے پر سوچ انداز میں جواب دیا
اور چوکیدار کہاں تھا اس وقت؟ ؟؟؟ افسر نے اگلا سوال کیا ۔۔۔
پتا نہیں ۔۔۔۔ کنزیٰ نے خالی نظروں سے دیکھتے ہوئے جواب دیا
کتنے لوگ تھے وہ ؟؟؟؟؟ تفتیشی افسر نے پوچھا
پتا نہیں میں دیکھ نہیں سکی کیونکہ میں کالج سے باہر جانے کے لئے بیگ اٹھانے کے لیے مڑی تو ایک دم سے کسی نے پیچھے سے پکڑ کر میرے منہ پر رومال رکھ کر مجھے بیہوش کردیا تھا ۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا
اوہ ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے جواب دیا
بہت بہت شکریہ بس ہمیں آپ سے یہ ہی پوچھنا تھا ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے کنزیٰ کو دیکھتےہوئے کہا
اچھا جی میں اب چلتا ہوں ۔۔۔ افسر نے منور صاحب اور دانیال صاحب کو دیکھتےہوئے کہا اور صوفے سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا
بیٹھیں پلیز چائے آرہی ہے ۔۔۔۔ منور صاحب نے جلدی سے کہا
نہیں سر مجھے دیر ہو جائے گی میں پہلے کالج کے چوکیدار کی خیر خبر لے لوں ۔۔۔۔ افسر نے انھیں جواب دیا
آپ کے خیال سے کالج کے چوکیدار کا کام ہے؟ ؟؟؟؟ تیمور نے پوچھا
اگر نہیں ہے تو ان لوگوں سے ملاہوا ضرور ہے ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے یقین سے جواب دیا
وہ جو کوئی بھی ہے بس میں چاہتا ہوں کہ اسے سزا ملے ۔۔۔۔۔ منور صاحب نے تفتیشی افسر سے کہا
ضرور سر سزا ضرور ملے گی اسے ۔۔۔ افسر نے انھیں یقین دلاتے ہوئے کہااور ان سے اجازت لے کر چلے گئے
پولیس اسٹیشن پہنچ کر تفتیشی افسر نے ساری رپورٹ آئی ۔جی صاحب کو دی اور ان سے کنزیٰ کے کالج کے چوکیدار کو گرفتار کرنے کی اجازت مانگی ۔۔۔۔۔
تو کرو اسے گرفتار ۔۔۔۔ آئ۔ جی ہمدانی نے کہا
سر ایک بار آپ لڑکی کے گھر والوں سے بھی اجازت لے لیں ۔۔۔ کیونکہ اگر چوکیدار کو گرفتار کیا گیا تو یہ بات میڈیا تک بھی جا سکتی ہے ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے کہا
اوہ ۔۔۔۔ آئ۔جی ہمدانی نے جواب دیا
ٹھیک ہے تم میرے آڈر کا انتظار کرو اور جب تک میں نہیں کہتا کوئی کاروائی مت کرنا ۔۔۔۔ آئ ۔جی ہمدانی نے کہا
یس سر ۔۔۔۔ تفتیشی افسر نے انہیں سلیوٹ مارتے ہوئے کہا اور آفس کا دروازہ کھول کر باہر نکل گیا
کچھ سوچ کر آئی جی ہمدانی نے منور صاحب کا موبائل نمبر پریس کیا اور انھیں آفس میں آنے کا کہا
خیریت تو ہے نا ہمدانی ۔۔۔۔ منور صاحب نے انکی بات سن کر پریشانی سے پوچھا
ہاں یار سب خیریت ہے بس تھوڑا سا مشورہ کرنا ہے تم سے اور ساتھ بیٹھ کر چائے پی لیں گے ۔۔۔۔ ہمدانی صاحب نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا
ٹھیک ہے کل آجانا ہوں میں تیمور کو لے کر ۔۔۔ منور صاحب نے پوچھنے والے انداز میں جواب دیا
ہاں ہاں یہ ٹھیک رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔ ہمدانی صاحب نے کہا اور کال بند کر دی
***************
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...