گهر میں داخل ہوتے ہی کنزیٰ اوز مثال نے بهوک لگی ہے کا شور مچا دیا۔۔۔۔۔
کبهی تو گهر میں سکون سے داخل ہوجایا کرو۔۔۔ بشری نے شور مچاتی ہوئی کنزیٰ اور مثال کو کہا۔۔۔۔
اللہ قسم سے اتنی بهوک لگی ہے ۔۔۔۔ کنزیٰ نے معصومیت سے کہا۔۔۔ اور چولهے پر رکهی ہوئ پتیلی کو دیکهتے ہوئے
پوچها۔۔۔
کیا پکا ہے آج ۔۔۔۔
آلو گوشت۔۔۔ بشری کی جگہ ملیحہ بیگم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔
ہائے پهوپهو جلدی سے منہ میں ڈال دیں قسم سے سخت بهوک لگی ہے۔۔۔ کنزیٰ نے لاڈ سے کہا
اچها اچها میں ملازمہ سے کہ کر کهانا لگواتی ہوں تم دونوں جلدی سے فریش ہوکر آو۔۔۔ ملیحہ بیگم نے ہنستے ہوئے جواب دیا
ان دونوں کو کمرے میں بهیج کر ملیحہ بگیم نے ملازمہ کو کهانا لگوا کر سب کو بلانے کا بول کر خود نسم بیگم کے پاس انکو بلانے چلی آئیں۔۔۔۔
اگلے دن عدیل کنزیٰ اور مثال کو لینے کالج پہنچا اور چوکیدار سے اپنی بہن کو بولانے کا بول کر واپس گاڑی میں آکر بیٹه کر انکا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔
تهوڑی دیر میں کنزیٰ اور مثال کے ساته وہ ہی لڑکی باہر آئی جسکو اسنے کل بهی دیکها تها۔۔۔
تینوں لڑکیاں آپس میں کسی بات پر ہنستی ہوئی کالج سے باہر آرہی تهیں۔۔۔۔ عدیل تهوڑی دیر کے لیئے اسکی ہنسی میں کهو گیا تها ۔۔۔۔
مطلب کنزیٰ اس کو جانتی ہے۔۔۔ یہ سوچ کر عدیل دل ہی دل میں خوش ہوا۔۔۔۔
دونوں کو گهر پر چهوڑ کر ابهی آیا کا پیغام کنزیٰ کے ہاته ماں کو پیغام بهجوا کر اپنے دوست احسن کے پاس چلا آیا۔۔۔
احسن کا تعلق بهی اچهے گهرانے سے تها مگر اسکے اور
عدیل کے شوق ایک جیسے تهے جسکی وجہ سے عدیل کی
اس سے بنتی بہت تهی۔۔۔ دونوں ایک دوسرے کے رازدار تهے۔۔۔۔
عدیل ابهی تک اس لڑکی کی ہنسی میں کهویا ہوا تها۔۔۔
کہاں گم ہے میرا یار۔۔۔ احسن نے عدیل کا کاندها ہلا پوچها۔۔۔
یار ایک لڑکی ہے۔۔۔۔ عدیل نے بظاہر احسن کو دیکهتے ہوئے
اس لڑکی کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا
اچها تو پهر کیا ہوا اس لڑکی کو۔۔۔۔ احسن نے پوچها
یار بڑی حسین ہے ۔۔۔ عدیل کے سامنے اسکا سراپا لہرا گیا
تجهے پسند آگئی ہے کیا۔۔ احسن نے حیرت سے کہا
کیو کہ وہ جانتا تها کہ عدیل کی منگنی اسکی کزن سے ہو چکی ہے ۔۔۔
نہیں یار بس اچهی لگی ہے ۔۔۔ عدیل نے کمینگی سے آنکه مارتے ہوئے کہا
احسن اس کے انداز پر ہنس پڑا ۔۔۔
پهر مسئلہ کیا ہے ۔۔۔۔
احسن نے عدیل سے پوجها۔۔۔
یار ایک تو وہ میری بہن کے کالج میں پڑهتی ہے دوسرے وہ دونوں ایک دوسرے کو جانتیں ہیں۔۔ عدیل نے اصل بات بتائی تو چهو ڑ پهر اسے یار ۔۔۔ احسن نے اسے مشورہ دیا۔۔۔۔
یہ ہی تو نہیں کر سکتا یار تو کچه سوچ یار۔۔ کہ گهر میں کسی کو خبر بهی نہ ہو اور ہمارا نام بهی نہ آئے اور کام بهی ہو جائے۔۔۔۔۔ عدیل نے احسن سے کہا
چل تو فکر نہ کر سوچتے ہیں کچه۔۔۔ احسن نے عدیل کو تسلی دیتے ہوئے سوچتے ہوئے بولا
تو کسی طرح اپنی بہن سے نام معلوم کر اسکا۔۔۔
اور یہ کہ وہ اسی کی کلاس میں پڑهتی هے یا صرف اس روز ہی اتفاق سے ملی تهی۔۔۔ احسن نے کچه سوچتے ہوئے عدیل کو بولا
عدیل نے اسکی بات سمجه کر سر ہلایا ۔۔۔۔
جل میں چلتا ہوں کل ملتے ہیں پهر۔۔۔
ٹهیک ہے۔۔۔ احسن سے ہاته ملا کر وہ گهر کی طرف آنے کے لیئے گاڑی میں بیٹه گیا۔۔۔۔
گهر میں تیمور اور کنزیٰ کے رشتے کی بات چل رہی تهی۔۔۔
اب تمہیں تیمور بهائی سے پردہ کرنا چاہئے ۔۔۔ مثال نے دادی اماوں کی طرح کہا
کیوں میں کیوں کروں پردہ ہاں تم کون سا پردہ عدیل سے پردہ کرتی ہو۔۔۔ کنزیٰ نے ادے یاد دلایا
ہاں تو عدیل کو پسند نہیں ہے کہ میں ان سے پردہ کروں مثال نے شرمانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔۔۔
مثال۔۔۔۔
دروازے پر کهڑے ہو کر تیمور نے مثال کو پکارا۔۔۔
اور مثال کو جواب دیتی ہوئ کنزیٰ جلدی سے رخ موڑ کر کهڑی ہو گئی۔۔۔۔
آپ اندر نہیں آسکتے آپکا پردہ ہے۔۔۔۔ مثال نے بڑوں کی طرح تیمور سے کہا اور خود کنزیٰ کے سامنے کمر پر ہاته رکه کر کهڑی ہو گئی تاکہ تیمور کنزیٰ کو نہ دیکه سکے۔۔۔
ارے میں تو تم کو بولنے آیا تها چهوٹی مامی بولا رہی ہیں تم کو۔۔۔ تیمور نے ذکیہ بیگم کا پیغام دیا۔۔۔
ارے مارے گئے امی بولا رہی ہیں۔۔۔۔
مثال دکیہ بیگم کا نام سن کر بهاگ گئی۔۔۔
تیمور ہنستے ہوئے کمرے میں داخل ہوا اور کنزیٰ کے قریب آکر آہستہ سے بولا مبارک ہو کنزیٰ۔۔۔۔
تم خوش ہو نا۔۔۔۔ تیمور نے کنزیٰ کی جانب دیکه کر پوچها
کنزیٰ اب بهی رخ موڑ ے کهڑی تهی۔۔۔
وہ جو تیرگی سی چہار سو وہ سمٹ گئی
وہ جو برف ٹهری تهی روبرو
وہ جو بے دلی تهی ہر طرف
وہ زندہ دلی میں بدل گئی
تیری اک ہاں سے جل اٹهے
جو چراغ جاں تهے پجهے ہوئے
تیمور کو جانے کہاں سے پڑهی ہوئی کسی کی نظم اچانک
یاد آگئ تجی جو اس وقت کنزیٰ کے سامنے اس کے حال
دل کی ترجمانی کر رہی تهی۔۔۔۔
آپ کو شاعری سے کب سے دلچسپی ہوگئی۔۔۔۔
کنزی نے نظم سن کر رخ موڑے شرماتے ہوئے کہا۔۔
پتا نہیں میں بے یقین کیوں ہونے لگتا ہوب۔۔جیسے یہ کوئ خواب ہو آنکه کهولی تو بکهر جائے گا۔۔۔۔۔۔تیمور نے کنزیٰ کے سامنے آکر اسکو دیکهتے ہوئے کہا۔۔۔۔
تیمور کے اس طرح سامنے آکر یہ سب کہنے سے کنزیٰ کے جہرے پر حیاء کے رنگ بکهر گئے جو اسے اور بهی حسین بنا رہے تهے۔۔۔۔
تیمور بهائی ۔۔۔۔ مثال کی آواز پر دونوں ایک دم چونک اٹهے
کیا ہوا۔۔۔ تیمور نے مصنوعی غصے سے گهور کر کہا
امی نے تو نہیں بلایا تها مچهے ۔۔۔۔ مثال نے تفتیشی انداز سے تیمور سے پوجها۔۔۔
اجها تو نہیں بلایا ہو گا۔۔۔۔ تیمور آرام سے کہتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔۔
اللہ تیمور بهائی آپ کتنے جهوٹ ہیں۔۔۔ مثال نے اسے جاتا
دیکه کر زور سے چلا کر کہا
مگر جانے والا جا چکا تها
مثال نے کنزیٰ کو گهور کر دیکها۔۔۔
کنزیٰ ۔۔مثال کر گهورنے پر کهلکهلاکر ہنس پڑی
تم لوگ آئسکریم کهانے چلو گی۔۔۔۔ عدیل نے جهانک کر دونوں کو مخاطب کیا۔۔۔۔
نیکی اور پوچه پوچه ۔۔۔۔۔کنزیٰ نے بهائی کو مسکراتے ہوئے
جواب دیا
ویسے کس خوشی میں کهلا رہے ہو۔۔۔ مٹال نے دونوں بہن اور بهائ کو مسکراتا دیکه کر پوچها
مابدولت کا دل چاہ رها هے کہ آج تم کنیزوں پر اپنی دولت
لٹاو۔۔۔ عدیل نے شاہانہ انداز میں جواب دیا
کنیزیں حاضر ہیں عالم پناہ ۔۔۔ دونوں نے ایک آواز میں سر کو
جهکاتے ہوئے جواب دیا
اور کمرہ تینوں کے قہقہوں سے گونج اٹها۔۔۔۔
ہائے کنزیٰ میری نوٹس والا رجسٹر کنزیٰ امتیاز کے پاس
رہ گیا۔۔۔ آسکریم کهاتے ہوئے مثال کو ایکدم سے یاد آیا
اوہو تو کل لیے لینا۔۔۔ کنزیٰ نے آسکریم سے انصاف کرتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
مگر کل تو ٹیسٹ ہے ۔۔۔۔ مثال اب رونے کو تهی تم میرے نوٹس سے تیاری کر لینا۔ ۔۔ کنزیٰ نے اپنی جان سے پیاری دوست کو مشکل کا حل بتایا ہاں یہ ٹهیک ہے۔۔۔ اور دونوں پهر آئسکریم کهانے میں مصروف ہوگئیں۔۔۔۔
کون کنزیٰ امتیاز ۔۔۔ عدیل نے انکی باتوں میں حصہ لیا وہ ہماری کلاس فیلو ہے۔۔۔۔ آج دیکها ہوگا آپ نے چهٹی میں ہمارے ساته جو لڑکی نکلی تهی وہ والی۔۔۔ کنزی نے عدیل کو تفصیل بتائ
مجهے یاد نہیں میں نے دهیان نہیں دیا تها ۔۔۔۔ عدیل نے دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے بظاہر لاپرواہی سے کنزیٰ کو جواب دیا۔۔
ہاں جی آپکا سارا دهیان تو ان کی طرف ہوتا ہے ان سے ہٹے تو کوئی اور نظر آئے۔۔۔۔ کنزیٰ نے خالی پیالہ آگے سرکاتے ہوئے جواب دیا
مثال نے کنزیٰ کی بات پر مسکراتے ہوئے عدیل کی جانب دیکها تو جونک گئ عدیل بظاہر تو مثال کو دیکه کر مسکرا رہا تها مگر اسکی مسکراتی آنکهوں میں اسکے لیے پیار نہیں تها کچه اور تها ۔۔۔ کیا تها یہ وہ سمجه نہیں پائی کیا ہوا شرم ہی کر لو کیسے دیدے پهاڑ کر اپنے ہونے والے دولها کو دیکه رہی ہو ۔۔۔۔ کنزیٰ نے مثال کے ایک ٹک عدیل کو دیکهنے پر کہا۔۔۔
عدیل نے چونک کر مثال کر کو دیکها ۔۔۔
مثال نے منہ نیچے کر لیا۔۔۔
کنزیٰ دونوں کو دیکه کر ہنس پڑی عدیل بهی ساته ہنس پڑا
عدیل کا مقصد پورا ہو گیا تها۔۔۔ اسے اس لڑکی کا نام معلوم ہو گیا تها
اچها تو کنزیٰ نام ہے اس کا۔۔۔ عدیل دل ہی دل میں خود سےمخاطب ہوا
تمہیں کیا ہوا ہے, اتنی چپ کیوں ہوگئ ہو۔۔۔ کنزیٰ نے گهر
واپس جاتے ہوئے گاڑی کی پچهلی سیٹ پر خاموش بہٹهی
مٹال کو پیچهے مڑ کر دیکهتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کنزیٰ کے اسطرح کہنے پر عدیل نے بهی چونک کر مثال کو
گاڑی کے شیشے سے مثال کو دیکها
کچه نہیں مجهے کیا ہونا ہے۔۔۔۔ مثال آہستہ سے بولی
گچه تو ہوا ہے تم کبهی اتنا چپ نہیں رہتیں ۔۔۔۔ کنزیٰ کے بجائے عدیل نے پریشان ہوکر پوچها
عدیل کو اپنے لئے پریشان دیکه کر مثال کو ایک انجانی سی خوشی ہوئی۔۔۔
کچه نہیں هوا ۔۔۔۔ مثال مسکرائی
سچ کہ رہی ہو نا ۔۔۔۔ عدیل نے پهر پوچها۔۔۔۔
ہاں ہاں بالکل سج۔۔۔۔ عدیل کے ادطرح بار بار پوچجنے پر مثال ایک دم کهل گئ اسکے سارے خدشات دور ہو گئے
تهے۔۔۔۔۔ کنزیٰ نے مسکراتے ہوئے اسکو اور مثال کو دیکها
مثال اور کنزیٰ کو گهر ڈراپ کر کے عدیل سیدها اپنے دوست احسن کے پاس پہنچا۔۔۔۔
یار ہوگیا لڑکی کا نام معلوم۔۔۔عدیل نے بے صبری سے احسن کو کہا
اچها گڈ یار ۔۔۔ کیا نام ہے ۔۔۔ احسن نے عدیل کی طرف دیکهتے ہوئے پوچها
کنزیٰ ۔۔۔۔ عدیل نے احسن کو بتایا
کنزیٰ ۔۔۔ واہ نام تو زبردست ہے ۔۔۔ احسن نے نام دوہراتے ہوئے کہا
وہ نام سے بهی زیادہ زبردست ہے یار۔۔۔ عدیل نے کمینگی سے کہا
احسن عدیل کا بہت پورانا دوست تها مگر وہ عدیل کے گهر کی خواتین سے لاعلم تها۔۔۔ منور صاحب کے گهر کا ایسا ماحول نہیں تها کہ گهر کے لڑکے اپنے دوستوں کو گهر کے اندر لائیں۔۔
عدیل نے احسن کو اپنا سارا پلان سمجها دیا کہ کس طرح اس لڑکی کو اٹهنا ہے۔۔۔۔
احسن نے سارا پلان سنے کے بعد کمینگی سے مسکرا کر عدیل کو دیکها۔۔۔
کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چائیے سمجها نا۔۔۔۔ عدیل نے احسن سے کہا ۔۔۔
پہلے ہوئ ہے یار جو اب ہوگی۔۔۔ احسن نے جواب دیا
ہاں مگر یار اب احتیاط سے وہاں میری بہن اور منگیتر پڑهتی هیں میرا نام بالکل استعمال نہ ہو سمجهے نا تم ۔۔۔ عدیل نے ایک دفعہ پهر یاد دهانی کروئی تو فکر نہ کر یار ۔۔۔ احسن نے عدیل کی کمر پر ہلکے سے ہاته مار کر جواب دیا
گهر میں بشرئ اور عمر کی شادی کی تیاریاں عروج پر تهیں۔۔۔ شادی کے سارے فنکشن گهر کے لان میں رکهے گئے تهے ۔۔۔ بس ولیمہ کے لیے منور صاحب نے مقامی ہوٹل میں انتظام کروا دیا تها۔۔۔
مہندی کے فنکشن کا انهوں نے منع کرنا چاہا مگر ۔۔ گهر کی خواتین کے آگے انکی ایک نہ چلی۔۔۔
شادی کے فنکشن میں پہنے کے مثال کے سارے جوڑے نسیم بیگم نے بنوائے تهے ۔۔۔ کیونکہ کنزیٰ کے سارے جوڑےملیحہ بنوا رہی تهیں میری دونوں بہویں ایک جیسے کپڑے پہنیں گی ۔۔۔ ملیحہ نے کنزیٰ اور بشرئ کو نثار ہونے والی نظروں سے دیکهتے ہوئے کہا۔۔۔۔
گو کہ بشر ئ کو ساس کی یہ بات کوئی خاص پسند نہیں آئی مگر اسنے اظہار نہیں کیا۔۔ کیونکہ وہ جانتی تهی کہ اسکی اپنی ماں ہی سب سے پہلے پهوپهو کی حما یت میں بولیں گی۔۔۔
لال دهاگوں سے نفیس کام والا شیفون کا گلابی سوٹ زیب تن کئے کنزیٰ چاد نما لمبا چوڑا شیفون کا لال رنگ دوپٹہ پہنے اپنے کمرے سے نکل کر لان کی جانب بڑه رهی تهی
کہ تیمور کی اس پر نگاہ پڑی ۔۔۔
نکهری نکهری مہندی سے سجی ہتهلیاں اور خوبصورت میک اپ سجا چہرہ ۔۔۔تیمور اس پر سے نگاہ ہٹانا بهول گیا۔۔۔۔
گهر میں آج عمر اور بشرئ کی شادی کی ڈهولکی تهی۔۔۔
عمر اور بشرئ کے ولیمہ والے روز ہی کنزیٰ اوز تیمور کی منگنی کا فکنشن تها۔۔۔
عدیل اپنے کمرے سے تیار ہوکر نکلا اسی وقت ہی اس کے دوست احسن کی کال آگئ۔۔۔ اور اس نے اسے اپنے گهر آنے کا بولا۔۔۔
یار آج ممکن مہیں ہے آج میری منگنی کی رسم اور کزن کی شادی کی ڈهولکی ہے۔۔۔۔ عدیل نے جواب دیا
ٹهیک ہے یار تو کل آجانا اور منگنی مبارک ہو۔۔۔ دوسری جانب سے احسن نے جواب دیا
شکریہ یار۔۔ کل ملتے ہیں ۔۔۔ اور کال بند کرکے موبائل واپس اپنے کرتے کی جیب میں رکه لیا۔۔۔
تمیور بهائ کیسا لگ رہا ہوں ۔۔۔ عدیل نے تیمور سے پوچها
زبردست لگ رہے ہو یار۔۔۔۔ تیمور نے پیار سے دہیکهتے ہوئے جواب دیا
یہ کیا پہن لیا تم نے عدیل۔۔۔ ارسلان نے آکر اس کے کرتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مذاق اڑانے والے انداز سے بولا
ادب کرو ارسلان اب تم اسکا یہ تمهارا بہنوئ بن رها هے۔۔۔
تیمور نے ارسلان کو مصنوعی غصے سے ڈانٹ کر جواب دیا۔۔۔۔
ماشاءاللہ میرا بیٹا تو بہت ہی پیارا لگ رها هے ۔۔۔ نسیم بیگم نے پیار سے عدیل کا ماتها چوم کر کہا
تیمور بیٹا تهوڑی دیر میں مثال کے نے کے بعد تم اور ارسلان عدیل کو باهر لے آنا۔۔۔
جی ٹهیک ہے ممانی جان تیمور نے ادب سے جواب دیا
باهر لان میں دو اسٹیج سجے تهے ایک پر فیروزی سوٹ میں بشرئ اور عمر بیٹهے تهے دوسرے اسٹیج پر عدیل کو گولڈن براون چوڑی دار پاجامہ اور خوب گهیر والی فراک میں شرمائی سی مثال بیٹهے تهے۔۔۔
نسیم بیگم نے ہیرے کی انگهوٹهی عدیل کو دی۔۔۔
عدیل نے وہ مثال کی انهلی میں پہنا دی۔۔۔۔
پهر ذکیہ بیگم نے ہاته میں پکڑے انگوٹهی کے ڈبے سے
انگوٹهی مثال کو نکال کر دی اور مثال نے وہ انگوٹهی عدیل کی انگلی میں پہنا دی۔۔۔
ہر طرف مبارک سلامت کا شور ہونے لگا۔۔۔
اور رات گئے تک ڈهولکی کا ہنگامہ رها۔۔۔۔
اگلے روز مہندی کا فنکشن تها۔۔۔ صبح سے ہی گهر میں هنگامہ برپا تها۔۔۔۔
کیونکہ انکا جوائنٹ فیملی سسٹم تها اسلے گهر میں ایک هی فنکشن دونوں پارٹیوں کی جانب سے رکها جارها تها۔۔۔
عدیل بیٹا کہاں جارهے هو ۔۔۔نسیم بیگم نے بیٹے کو عجلت
میں جاتا دیکه کر پوچها۔۔۔
تهوڑی دیر میں آتا ہوں ۔۔۔ عدیل نے جواب دیا اور تیزی سے نکل گیا۔۔۔
احسن کے گهر کے پاس پہنچ کر اس نے میسج کیا کہ باهر آجا میں آگیا ہوں ۔۔۔۔
تهوڑی دیر میں احسن بهی اسکے ساته آکر گاڑی میں بیٹه گیا۔۔۔۔
اور کسی کو کال کرنے لگا۔۔۔ کہاں ہو تم جلدی آو
آ رها هے بس وہ۔۔۔ کال پر بات کرنے کے بعد احسن نےعدیل کی طرف دیکه کر بولا۔۔۔
اعتبار والا تو ہے نا یار۔۔۔ عدیل نے پوچها
ہاں ہاں یار تو فکر نہ کر۔۔۔ احسن نے عدیل کو یقین دلایا
تهوڑی دیر میں احسن اور عدیل کی عمر کا ملازم ٹاپ لڑکا
انکی کار کے پاس آکر رکا۔۔۔
سلام صاحب۔۔۔ اسنے احسن کو دیکه کر سلام کیا۔۔۔
وعلیکم اسلام۔۔ احسن نے جواب دیا
عدیل یہ ریاض ہے۔۔۔ احسن نے عدیل سے اسکا تعارف کروایا
سمجه گئے ہو نا سب کہ کیا کرنا ہے ۔۔۔ عدیل نے ریاض سے پوچها
جی صاحب۔۔ ریاض نے جواب دیا
کنزیٰ نام ہے اسکا۔۔۔ عدیل نے اسکی جانب دیکه کر بولا
سب سمجھ گئے ہو نا۔۔۔ عدیل نے ریاض کی طرف دیکھر کہا
جی صاحب مجھے احسن صاحب نے سب سمجھا دیا ہے۔۔۔۔
ٹھیک ہے تم جاؤ اور کل سے اپنا کام شروع کردو۔۔۔
احسن نے اسے دیکھکر کہا اور کچھ پیسے جیب
سے نکال کر اسکی طرف بڑھا دیئے۔۔۔۔
شکریہ صاحب۔۔۔۔ ریاض نے وہ پیسے لیکر جیب میں
رکھ لیے اور احسن اور عدیل کو سلام کرکے چلا گیا۔۔۔
یار کوئی گڑبڑ تو نہیں کردے گا یہ۔۔۔۔ عدیل کے لہجے میں خدشات تھے۔۔۔۔
فکر نہ کر یار تو وہ سب سنبھال لے گا۔۔۔ احسن نے اس کے کاندھے پر ہاتھ مار کر کہا۔۔۔
مہندی کے فنکشن میں جیسے خوشیوں کی بارات
اتر آئی تھی۔۔۔۔
ملیحہ بیگم کی طرف سے جو مہندی بشری کے لیے آی
اس کے لوازمات بے حد اسپیشل تھے۔۔۔
محبتوں کی۔۔ تجدید۔۔ خلوص کا برتاؤ۔۔ نئے سرے سے
جیسے تعلق مضبوط ھونے جا رھا تھا۔۔۔
ملیحہ بیگم نے ان محبتوں میں جیسے اپنا حصہ ڈالنا ضروری سمجھا۔۔۔
مہندی۔۔ میٹھائی۔۔ گیندے کے پھول کے گجرے۔۔۔
ہار سب گھر کی خواتین کے لئے کانچ کی ہری چوڑیاں
بشری کی رسم کا دوپٹہ۔۔۔
سب نہال تھے نسیم بیگم اور منور صاحب کونے کے صوفے پر بیٹھے سب کے خوشیوں سے چمکتے چہروں
کو دیکھ کر بے انتہا خوش ہو رہے تھے۔۔۔
پھر سب کزن کے جھرمٹ میں عمر کو مہندی کے
اسٹیج پر لایا گیا تھا۔۔۔۔
سب ھلے گلے میں مصروف تھے۔۔۔
سب لڑکوں نے میرون کلر اسکیم کے کرتے زیب تن
کے ہوے تھے
جب کہ لڑکیوں نے ہری گھیر والی فراکیں اور
میرون کلر کے چوڑی دار پاجامے پہنے ہوئے تھے
تھوڑی دیر بعد دلہن کو لایا گیا
اور مہندی کی رسم شروع ہو گئی۔۔۔
ڈھولک کی تھاپ پر مہندی کے گیت کانوں میں رس گھول رہے تھے۔۔۔
عمر بہت خوش تھا
اگلے روز منصوبے کے تحت ریاض کنزی کے کالج پہنچ گیا اور چوکیدار کو دیکھ کر سلام کرتا ہے۔۔۔
سلام جی۔۔۔ ریاض نے مسکین صورت بنا کر چوکیدار سے کہا
وعلیکم اسلام۔۔۔ چوکیدار نے اسے جواب دیا
خان صاحب ذرا یہ پتا تو سمجھا دیں۔۔۔۔
ریاض نے ایک پرچی جس ہر کوئی پتا درج تھا چوکیدار کے سامنے کرکے پوچھا۔۔۔
یارا یہ پتہ تو ھم کو نہیں معلوم۔۔۔ کالج کے چوکیدار پرچی پر لکھا پتہ دیکھ کر کہا۔۔۔۔
اچھا ریاض نے مایوسی سے کہا۔۔۔۔
تم ایسا کرو کہ سامنے والی دکان سے پوچھ لو کیا خبر اسے معلوم ہو۔۔۔۔
اچھا خان صاحب پانی ملے گا۔۔۔ ریاض نے بات بڑھانے کی غرض سے پوچھا
ہاں ہاں تم ادھر ہی ٹھرو ھم پانی لاتا ہوں۔۔۔ چوکیدار
نے کالج کے باہر سیمنٹ کی بنی ہوئی بینچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
پانی پی کر ریاض نے چوکیدار کو بتایا کہ وہ قریب ہی رھتا بے اور گاوں سے نوکری کی تلاش میں آیا ہے۔۔۔
تھوڑی دیر میں دونوں کی اچھی خاصی دوستی ہوگئی۔۔۔۔
اچھا خان صاحب میں چلتا ہوں۔۔۔ ریاض نے کہا
کل پھر آنا۔۔۔ چوکیدار نے ہاتھ ملاتے ہوے کہا
ضرور خان صاحب۔۔۔ ریاض نے کہا اور وہاں سے واپس آکر احسن کو موبائل پر ساری رپورٹ دی۔۔۔
احسن نے اسے شاباشی دی اور عدیل کو کال کرنے لکَا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...