پری ہو یا انسان، کسی کی کیا جان جو اس کے شاہد و حمد و ثنا کے حسن و جمال پر کر سکے نگاہ۔ كلام معجز نظام احمد مجتبیٰ محمد مصطفىٰ صلى اللہ علیہ و سلم کو اس پر ہی گواہ کیا، وہ جلوہ تھا جسے دیکھ موسی آپ میں نہ رہا۔ عشق ہے اس کے حسن کا کہ کوئی تو دیوانہ ہوا اور کسی نے اپنا جی ہی دیا۔ کون ہے ایسا جس کے دل کو اس کی نہیں ہے لاگ؟ اسی کا سوز و محبت رکھتی ہے آگ! رباعی:
بزم حیرت میں مثال شمع ہر اہل نیاز
اے جواں رکھتا ہے کیا کیا دل میں اپنے سوز و ساز
لب پہ مہر خامشی بہتر ہے سوز عشق سے
ہو نہ از خود رفتہ بس آگے نہ کر افشائے راز
اب یہ ہیچ مدان ہر صغیر و کبیر کی دریافت کے لیے اس روزگار کے سر رشتے سے کہ سرکار میں کمپنی بہادر دام اقبالہ کی مقرر ہوا، بیان کرتا ہے۔
کرنیل اسکاٹ صاحب جو لکھنؤ کے بڑے صاحب ییں، انھوں نے حسب الطلب گورنر جنرل بہادر دام ملکہ کے 1800ء میں کتنے شاعروں کو سرکار عالی کے ملازموں میں سرفراز فرما کر اشرف البلاد کلکتے کو روانہ کیا۔ انھوں میں احقر بھی یہاں وارد ہوا اور موافق حكم حضور خدمت میں مدرسہ ہندی کے جو صاحب والا مناقب گلکرسٹ صاحب بہادر دام ظلہ ہیں، شرف اندوز ہوا۔
دوسرے ہی دن انھوں نے نہایت مہربانی و الطاف سے ارشاد فرمایا کہ سکنتلا ناٹک کا ترجمہ اپنی زبان کے موافق کرو اور للو جی لال کب کو حکم کیا کہ بلا ناغہ لكھایا کرے۔ اگرچہ کبھی سوائے نظم کے نثر کی مشق نہ تھی لیکن خدا کے فضل سے بخوبی انصرام ہوا کہ جس نے سنا پسند کیا اور اچھا کہا۔ بہت سا پڑھنے لکھنے میں آیا اور کچھ چھپ کر اتفاقات سے رہ گیا۔
ان دنوں میں کہ 1800 عیسوی ہیں اور احقر قرآن شریف کے ہندی ترجمے کا محاورہ درست کرتا ہے، صاحب ممدوح نے فرمایا: ہم چاہتے ہیں کہ اب اس کتاب کو سر نو چھپواوں، نظر ثانی لازم ہے۔ اور اس کب کو فرمایا کہ تم بھی اسی کتاب سے مقابلہ کرو کہ اگر کہیں مطلب کی کمی بیشی ہوئی ہو، نہ رہے؛ چنانچہ ہم ان کا فرمانا بجا لائے؛ پھر موافق حكم صاحب کے بندے نے تھوڑا سا دیباچہ اور بھی لکھا ولأنہ اگلا یہی ہے۔
خدا کا نام لے پہلے زبان پر
لگا پھر دل کو اپنے داستان پر
یہ قصہ فرخ سیر بادشاہ کی سلطنت میں سنسکرت سے برج بھاکا میں ترجمہ ہوا تھا۔ اب شاہ عالم بادشاہ کے عہد میں اور زبدۂ نوئینان عظيم الشان مشیر خاص شاہ کیوان بارگاہ انگلستان اشرف الاشراف ماركويس ولزلی گورنر جنرل بہادر دام دولتہ کی حکومت میں 1801ء مطابق 1215 ہجری کے جناب جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام ظلہ کے حسب الحكم كاظم على جوان نے اسے زبان ریختہ میں بیان کیا۔
اس داستان کے لکھنے والے نے یوں لکھا ہے کہ فرخ سیر بادشاہ کے فدویوں میں سے مولی خاں فدائی خاں کے بیٹے نے جب ایک لڑائی ماری، تب حضور پر نور سے اس کا خطاب عظيم خاں ہوا۔ انھیں ایام میں اس نے نواز کشور کو حکم کیا کہ سںکنتلا ناٹک جو سنسکرت میں ہے، برج کی بولی میں کہہ۔ اس کبیشر نے یہ کہانی کبت دوھرے میں کہی کہ جس کا ترجمہ یہ ہے، اور جو انگریزی میں ہے وہ سنسکرت سے ہوا ہے۔ اگر اس میں اور اس میں کچھ فرق ہو تو ممکن ہے۔
اب صاحبان دانش و بینش کی خدمت میں التماس میرا یہ ہے کہ چشم و گوش انصاف کھولیں اور ٹک منصفی سے بولیں کہ کبت اور دوھرے کا ترجمہ جیسے چاہیے ویسا زبان ریختہ میں کب ہو سکتا ہے۔ اس کے اور اس کے مضمون کی بندش کا فرق کھلا ہوا ہے، بیان کی احتیاج کیا:
طرز اس کی ہے جدا اس کا نرالا طور ہے
اس کا عالم اور ہے اور اس کا عالم اور ہے
قطع نظر اس سے کہ کبت ہو یا دوھرا، نظم کا ترجمہ نثر میں طبیعت کو منتشر کرتا ہے، کیا کیا جائے؟
لکھے یہ اس لیے دو چار فقرے
اگر جائے تامل ہو کسی جا
گرفت اس میں نہ ہو اہل خرد کو
کہ اس مضمون کا یاں طور یہ تھا
وگر دیکھیں خطا تو بھی سمجھ کر
معاف اس کو کریں ہو لطف فرما
کہ خالی ہے بشر کوئی خطا سے؟
کسی کو اس میں طعنے کوئی دے کیا
جواں بس دل لگا تو داستان پر
یہاں سے یوں ہے اب آغاز اس کا