’’تونے دیوانہ بنایا، تو میں دیوانہ بنا، اب مجھے ہوش کی دنیا میں تماشا نہ بنا۔۔۔‘‘عابدہ پروین کے صوفیانہ کلام نے پوری محفل میں ایک سماں باندھ ررکھا تھا۔عائشہ آج بہت عرصے کے بعد موحد کے ساتھ ایسی کسی محفل میں شریک ہوئی تھی۔اس سے پہلے شہر میں ہونے والی ہر محفل موسیقی میں ان تینوں کی تکون ہوتی تھی ،لیکن آج صرف وہ دونوں ہی تھے۔
’’السلام علیکم موحد بھائی،اور آپ کیسی ہیں اچھی لڑکی۔۔۔‘‘ رامس ایک دم سے ہی اس منظر کا حصّہ بنا۔ دونوں بہن بھائی چونک گئے،موحد بڑی گرم جوشی کے ساتھ رامس سے مل رہا تھا۔ عائشہ کو اُسے یہاں بھی دیکھ کر ہلکی سی جھنجھلاہٹ تو ہوئی لیکن اُس نے اظہار کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
’’بھئی تم کہاں۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے سوالیہ نظروں سے پوچھا۔
’’بھائی کے ساتھ آیا تھا،وہ ایسی کوئی محفل نہیں چھوڑتے،انہیں عابدہ پروین کا عارفانہ کلام بہت پسند ہے۔۔۔‘‘ رامس نے ان کے ساتھ بے تکلفی سے بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔ اس وقت کوئی نو آموز گلوگارہ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی ۔اس لیے سبھی کی توجہ وقتی طور پر دائیں بائیں ہو گئی تھی۔
’’تم اچھااُس دن میرے ساتھ وعدہ کر کے گئے،دوبارہ آئے ہی نہیں ۔۔۔‘‘ موحد نے اُس سے فوراً شکوہ کیا۔
’’میں انشاء اللہ بہت جلد آؤں گا اور لنچ بھی کر کے جاؤں گا۔۔۔‘‘اُس نے ہنستے ہنستے وعدہ کیا۔ ان دونوں کو آپس میں گفتگو کرتا چھوڑ کر عائشہ دوسری جانب آ گئی ۔رات کی خوبصورتی اپنے عروج پر تھی۔آسمان کسی دلہن کے آنچل کی طرح لگ رہا تھا جس پر کسی نے ننھے ننھے بے شمار ستارے ٹانک دیے ہوں۔
وہ جس طر ف آئی تھی ،وہ جگہ اسٹیج سے کچھ فاصلے پر تھی اور یہاں اکّا دکّا لوگ ہی تھے،اس لیے خاصا سکون تھا۔البتہ اسپیکر چاروں طرف لگے ہونے کی وجہ سے اسٹیج پر پرفارم کرنے والوں کی آواز بالکل صاف آ رہی تھی۔ آج عائشہ کے دل پر اداسی پنجے گاڑ کر بیٹھ گئی تھی۔ اس لیے عارفانہ کلام کا ایک ایک لفظ اُسے اپنے دل میں اترتا محسوس ہو رہا تھا۔
’’یار کو میں نے جا بجا دیکھا،کہیں ظاہر ،کہیں چھپا دیکھا۔۔۔‘‘ عابدہ پروین نے اپنے مخصوص دلکش آواز میں لے اٹھائی توعائشہ کو اپنا دل ڈوبتا سا محسوس ہوا۔گھٹنوں میں منہ دیے وہ اس آواز کے حسن میں مکمل طور پر گرفتار ہوئی۔ اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ کون اس کے پاس آن بیٹھا ہے۔ ایک مخصوص پرفیوم کی دلفریب خوشبو نے شور مچایا تو عائشہ نے سر اٹھا کر دیکھا اور اپنے سے ایک سیڑھی نیچے بیٹھے شخص کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ پر ساکت ہو گئی۔اُس کے ہاتھ میں کوئی پھول تھا جس کی پتیاں وہ ایک ایک کر کے اضطرابی انداز میں توڑ کر نیچے پھینک رہا تھا۔
’’جب انسان کسی پر کوئی فردجرم عائد کرتا ہے تو اسے صفائی کا موقع بھی دیتا ہے۔۔۔‘‘ اُس نے بڑے گلہ آمیز لہجے میں عائشہ کو ہی مخاطب کیا تھا۔
’’میں نے کسی پر کوئی فرد جرم عائد نہیں کی۔۔۔‘‘ اُس کا لہجہ بھرپور خفگی کا گواہ تھا۔
’’دنیا کی ظالم سے ظالم عدالت بھی ایسا نہیں کرتی۔۔۔‘‘ علی نے رنج بھرے انداز سے کہا۔عائشہ چپ رہی۔’’ اپنا جرم پوچھ سکتا ہوں میں۔۔۔‘‘وہ اب مڑ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا تھا۔عائشہ کو اپنا دل اپنے ہاتھوں سے نکلتا ہوا محسوس ہوا۔
’’اپنے دل سے پوچھیں۔۔۔‘‘وہ نروٹھے پن سے بولی۔
’’دل تو اُس دن سے بالکل چپ ہو گیا ہے،جب سے آپ خفا ہوئیں ہیں۔۔۔‘‘ علی کے لہجے سے زیادہ اس کی آنکھیں بول رہی تھیں۔عائشہ کو لگا کہ وہ بُری طرح سے پھنس چکی ہے۔اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح سے اپنے دل میں چھپے شکوے کا اظہار کرئے۔وہ شکوہ جس نے پچھلے ایک ماہ سے اس کی راتوں کی نیندیں حرام کر رکھی تھیں۔اب اُس کا اظہار اُسے بالکل بچگانہ سا لگ رہا تھا۔
’’مجھے نہیں معلوم ،کب کہاں ،کیا چیز آپ کو بُری لگی،آپ کم از کم بتاتی تو سہی۔۔۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں ایک شکوہ مچلا۔
’’مجھے آپ کی کوئی بات بُری کیوں لگے گی،ہمارے درمیان کون سا ایسا ریلشن شپ تھا،جس کے حوالے سے میں مائنڈ کرتی۔‘‘عائشہ نے دل پر کڑا ضبط کر کے کافی سخت جملے بول ہی دیے تھے۔اُسے بیٹھے بیٹھے شاک سا لگا۔
’’ہمارے درمیان کچھ نہیں تھا عائشہ۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘اُس کے لہجے میں دکھ،بے یقینی اورگہرا صدمہ تھا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے دل پر پہلا قدم بڑی مضبوطی سے رکھا۔
’’ادھر میری طرف دیکھ کر بات کریں۔۔۔‘‘ علی نے اس کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر متوجہ کرنا چاہا۔عائشہ کو کرنٹ لگا۔وہ اُسی سیڑھی پر تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی۔
’’آپ نئے نئے راستوں کے مسافر ہیں ،کسی ایک جگہ پر پڑاؤ آپ کو زنگ لگا دے گا۔۔۔‘‘ عائشہ نے تلخ لہجے میں طنز کیا۔
’’میں نئے راستوں کا مسافر ہوں یا آپ خود اپنا راستہ بدل چکی ہیں۔۔۔‘‘ دل پر جبرکر کے اُس نے بھی ایک حساب برابر کرنے کی کوشش کی۔
’’جو بھی سمجھ لیں۔۔۔‘‘عائشہ اپنی جگہ سے اٹھی اور تیزی سے چلتے ہوئے پارکنگ کی طرف بڑھ گئی ۔اُس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں تھیں ۔وہ اب گاڑی میں سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے بڑی بیدردی سے رو رہی تھی۔اُسے لگا تھا کہ وہ کچھ غلط کر آئی ہے۔
* * *
آج صبح سے نابیہ اور ثنائیلہ نے پورے گھر کو چمکا کر رکھ دیا تھا۔صحن،برآمدہ،کمرے،کچن ہر جگہ لش لش کر رہی تھی۔ ثنائیلہ نے تو کئی قسم کے کباب اور رول بھی فریز کر کے فریج میں رکھ دیے تھے۔ اس کی امّی ان دونوں کے اس قدر متحرک ہونے پر حیران تو تھیں اور کئی دفعہ پوچھ بھی چکی تھیں لیکن دونوں ہی ہر دفعہ ٹال جاتی تھیں۔تنگ آ کر وہ پڑوس میں نابیہ کے گھر میں چلی گئیں اس کی والدہ ان کی بہن بنی ہوئیں تھیں۔
’’یار بہت لشکارے مار رہی ہو ،خیر ہے ناں۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے معنی خیز نگاہوں سے نابیہ کو دیکھا ،جو بھاگ کر اپنے گھر سے نہا دھو کر بھی آگئی تھی اور اس وقت پنک اور پرپل کلر کے کمبینیشن کے سوٹ میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔
’’یار بہت ہی حلیہ رف ہو گیا تھا۔۔۔‘‘ نابیہ نے بوکھلا کر صفائی دی تو وہ شرارت سے گلا صاف کرنے لگی۔
’’کیا تکلیف ہے،ایسے کیوں گھور گھور کر دیکھ رہی ہو۔۔۔‘‘نابیہ اُس کے ساتھ کچن میں فرش پر چوکی رکھ کر بیٹھ گئی۔
’’دیکھ رہی ہوں کہ رخساروں پر آج ویسے ہی گلابیاں بکھری ہوئی ہیں یا کوئی ہار سنگھار کر کے آئی ہو۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے رول میں آمیزہ بھرتے ہوئے اُسے چھیڑا تو وہ مزید بلش کر گئی۔
’’توبہ کرو یار،امّی کا پتا ہے ناں،سخت ناپسند ہے انہیں کنواری لڑکیوں کا میک اپ۔۔۔‘‘نابیہ نے گھبرا کر وضاحت دی ۔
’’پھر یہ لالیاں کس خوشی میں بکھری ہوئی ہیں۔۔۔‘‘ثنائیلہ کو اُس کا یہ روپ بہت اچھا لگ رہا تھا اس لیے وہ اسے جان جان کر چھیڑ رہی تھی۔
’’کہاں لالیاں یا سرخیاں،یہ پنک دوپٹے کا عکس پڑ رہا ہے۔۔۔‘‘نابیہ آج نہ جانے کیوں بار بار گھبرا رہی تھی۔اتنے میں باہر کی بیل ہوئی۔نابیہ بوکھلا کر کھڑی ہوئی ۔اُس کے چہرے پر اس سمے اتنے رنگ تھے کہ ثنائیلہ کے لیے اس پر سے نظر ہٹانا دشوار ہو گیا۔
’’میں دیکھوں ،کون ہے۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ نابیہ نے بے تاب نظروں سے ثنائیلہ کو دیکھاتو اُس نے اثبات میں سر ہلایا۔ نابیہ کسی میزائل کی طرح اڑتی ہوئی باہر کے دروازے تک پہنچی تھی۔ثنائیلہ کو احساس ہوا کہ نابیہ پر کیوپڈ کا تیر چل چکا ہے۔
’’نابیہ کون ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے کچن میں بیٹھے بیٹھے آواز لگا کر پوچھا۔
’’ڈاکیاہے یار۔۔۔‘‘نابیہ کی مایوسی میں ڈوبی آواز اس کی سماعتوں تک پہنچی تو وہ زیرلب مسکرا دی۔’’تمہارے ڈائجسٹ والوں نے اعزازی پرچے بھیجے ہیں ‘‘اُس نے افسردگی سے رسالوں کا پیکٹ آٹے والی ڈرمی کے اوپر رکھ دیا۔
’’ویسے یار شام کے چار تو بج چکے ہیں ،ماموں لوگ ابھی تک آئے نہیں۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے کچن میں لگے وال کلاک سے ٹائم دیکھا۔
’’پتا نہیں یار۔۔۔‘‘نابیہ تھوڑا سا بیزار ہو چکی تھی۔وہ دونوں کچن کا کام نبٹا کر باہر صحن میں آن بیٹھیں،جیسے جیسے وقت گذر رہا تھا۔دونوں کے چہروں پر مایوسی کی تہہ گہری ہوتی جا رہی تھی۔
’’تم نے دھیان سے سنا تھا ناں کہ اُس نے آج ہی آنے کا کہا تھا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے کوئی تیسری دفعہ پوچھا تو وہ چڑ سی گئی۔
’’بہری تھوڑی ہوں میں ۔اُس نے یہی کہا تھا اور میں نے بھی یہی سنا تھا۔۔۔‘‘ اُس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
’’ظاہر ہے تم نے یہی سنا ہوگا تبھی تو صبح سے کبھی گھر کو کبھی خود کو لشکانے کا پروگرام جاری تھا۔‘‘ثنائیلہ نے اُسے چھیڑا تو وہ ہلکی سی خفگی کے ساتھ رخ موڑ کر بیٹھ گئی۔
’’ان لوگوں کے وکیل صاحب نے بھی تو خالہ کی فون پر بات کروائی تھی،تو کیا نمبر نہیں دیا تھا۔۔۔‘‘ نابیہ کو اچانک یاد آیا۔
’’نہیں،انہوں نے اپنے سیل سے بات کروائی تھی،اور مجھے ان کا بھی نمبر لینے کا دھیان نہیں رہا۔‘‘ ثنائیلہ نے بھی صفائی دی۔
’’کبھی بھی وقت پر کوئی ڈھنگ کا کام نہ کرنا۔۔۔‘‘نابیہ کو اس کی لاپرواہی پر غصّہ آیا۔
’’چلو،مجھے تو دھیان نہیں رہا،جو خود کل میرے کزن کے ساتھ خوش گپیاں مارتی رہی ہو،تب تم یہ عقلمندانہ کام کر لیتیں ۔‘‘ ثنائیلہ نے ہلکے پھلکے لہجے میں کہا۔
’’مجھے کیا پتا تھا کہ اتنا وعدہ خلاف ہوگا،وہ بندہ۔۔۔‘‘نابیہ کو اب اس کے کزن پر غصّہ آنے لگا۔
’’دفع کرو،کسی نہ کسی دن آ ہی جائیں گے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے اُسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
’’ہاں تب تک بندہ انتظار کی سولی پر لٹکا رہے۔۔۔‘‘نابیہ کے منہ سے پھسلا تو اُس نے چونک کر اپنی دوست کا چہرہ دیکھا۔جس پر ایک داستان رقم ہو چکی تھی۔
* * *
’’کہاں گم ہو گئے تھے آپ،نمبر بھی اکثر بز ی مل رہا تھا اور آفس سے بھی غیر حاضر تھے۔۔۔‘‘ثنائیلہ آج کافی دن کے بعد موحد کے آفس میں تھی۔دونوں کا کئی دن سے رابطہ منقطع تھا۔
’’بس یار،عائشہ کی وجہ سے اپ سیٹ تھا۔۔۔‘‘ موحد نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر اُس سادہ سی لڑکی کو دیکھا۔
’’کیا ہوا عائشہ کو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ کو علم تھا کہ عائشہ اس کی چھوٹی بہن ہے اور موحد کی ہرتیسری بات میں اس کا ذکر ضرور ہوتا۔
’’پتا نہیں یار،وہ کس الجھن میں ہے،نہ شئیر کر رہی ہے اور نہ ہی خود سیٹ ہو پا رہی ہے۔۔۔‘‘موحد حقیقتاً اس کے لیے پریشان تھا۔
’’اس کی کوئی دوست نہیں ہے کیا۔۔۔؟؟؟؟اُس سے پوچھیں ذرا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے اپنی طرف سے اچھا مشورہ دیا۔
’’میری بہن بہت سادہ،مخلص اور انسانیت سے محبت کرنے والی ہے۔مروت اتنی زیادہ ہے کہ خود جان بوجھ کر دھوکے کھاتی ہے۔‘‘ موحد کے لہجے میں اپنی بہن کے لیے پیار ہی پیار تھا جسے محسوس کر کے ثنائیلہ مسکرا دی۔
’’کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’اُس کی دنیا میں ایک ہی دوست ہے ،جو سارے جہاں کی خود غرض اورخود پسند لڑکی ہے۔۔۔‘‘موحد نے انتہائی بیزاری سے اپنی بہن کی دوست کا ذکر کیا۔
’’خود غرض اور خود پسند لوگ تو کسی کے دوست نہیں ہوتے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے سنجیدگی سے سامنے بیٹھے شخص کا چہرہ دیکھا جو اُسے بہت پیارا لگتا تھا۔
’’یہی بات میں اُس بے وقوف کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ،لیکن وہ سمجھ کر بھی اسے سمجھنا نہیں چاہتی۔۔۔‘‘ موحد نے افسردگی سے کہا۔وہ پہلی دفعہ اس سے اپنے گھر سے وابستہ کسی شخص کی پریشانی کا تذکرہ کر رہا تھا ۔ورنہ عموماً وہ اُس سے عام اور ہلکی پھلکی سی ہی باتیں کرتا تھا۔
’’مزے کی بات بتاؤں کہ اُسے شک نہیں یقین ہے کہ میں کسی لڑکی سے باتیں کرتا ہوں۔۔۔‘‘موحد کی بات پر ثنائیلہ کے چہرے پر دھنک پھیلی۔
’’میں اسے ملواؤں گا تم سے،وہ بہت خوش ہو گی۔۔۔‘‘موحد کی بات پر وہ ہلکا سا گھبرا گئی۔
’’اُسے میں پسند آ جاؤں گی کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ کو نئی فکر نے گھیر لیا۔
’’عائشہ کی طرف سے بے فکر رہو،اُس کے سامنے میں کسی بھی اندھی کانی،لولی ،لنگڑی لڑکی کو بھی کھڑا کر دوں گا۔وہ بہت پیار سے ملے گی۔وہ لوگوں کے ظاہری حلیوں میں نقص نہیں نکالتی۔‘‘موحد کی بات اُسے کچھ تسلی ہوئی۔
’’لیکن پچھلے دنوں وہ کافی زیادہ بیمار رہی ہے،ساری ساری رات لان چئیر پر بیٹھے گذار دیتی تھی۔‘‘موحد کو اچانک یاد آیا۔’’پتا نہیں کون سی ایسی بات ہے جو وہ مجھ سے شئیر نہیں کر پارہی ،حالانکہ وہ مجھ سے کبھی کوئی بات نہیں چھپاتی تھی۔‘‘
’’کیا مسئلہ ہو سکتا ہے اسے۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ بھی اس کے ساتھ ہی پریشان ہوئی۔
’’مجھے لگتا ہے کہ کوئی ذہنی الجھن ہے،جس کا سرا اُسے چاہنے کے باوجود نہیں مل رہا۔۔۔‘‘موحد نے انٹر کام پر اس کے لیے چائے کا آرڈر دیتے ہوئے کہا۔
’’ذہنی الجھن۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ چونکی ۔’’میں ایک مشورہ دوں اگر آپ مائنڈ نہ کریں۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے کچھ جھجکتے ہوئے کہا۔
’’ہاں،شیور۔۔۔‘‘موحد نے دلچسپی سے اس کا گھبرایا ہوا انداز دیکھا۔
’’آپ مائنڈ تو نہیں کریں گے ناں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ ابھی بھی تذبذب کا شکار تھی۔
’’کم آن یار،میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر مائنڈ نہیں کرتا۔۔۔‘‘موحد نے اُسے تسلی دی۔
’’آپ اُسے کسی سائیکلوجسٹ کو کیوں نہیں دِکھاتے۔۔۔‘‘ اُس نے روانی سے کہا اور اگلے ہی لمحے موحد کے چہرے پر بڑی سرعت سے پھیلی سنجیدگی کو دیکھ کر فوراً وضاحت کی۔
’’پلیز غلط مطلب مت لیجئے گا،جن دنوں میں بھی بہت زیادہ الجھنوں کا شکار تھی تو ایک سائیکلوجسٹ کے پاس جایا کرتی تھی۔‘‘
’’پھر۔۔۔؟؟؟؟‘‘ موحد نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
’’الحمد اللہ،اللہ نے بہت کرم کیا اور کچھ وہ سائیکلوجسٹ اتنی زبردست اور شاندار تھی کہ اُس نے میرے ذہن کی تمام گھتیاں ایک ایک کر کے سلجھا دیں،میں تو سخت امپریس ہوں ،ان سے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کی وضاحت پر موحد نے ایک لمبی سانس فضا میں خارج کی۔
’’اچھا۔۔۔؟؟؟کس سائیکلوجسٹ کے پاس جاتی تھیں ۔۔۔؟؟؟‘‘
’’ماہم منصور‘‘کے پاس۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے کمرے میں بم ہی تو پھوڑا تھا۔
موحد کے چہرے کے تاثرات میں واضح تبدیلی آئی۔اُس کا چہر ہ کسی چٹان کی مانند سخت،کھدرا اور سپاٹ سا نظر آنے لگا۔’’ماہم منصور جن کا کلینک ایف ٹین مرکز میں ہے۔۔۔‘‘ موحد نے عجیب سے لہجے میں دریافت کیا۔
’’جی ۔۔۔جی،وہ ہی،کیا آپ جانتے ہیں انہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ثنائیلہ کے لہجے بچوں کا سا اشتیاق تھا۔
’’جی ہاں۔۔۔‘‘ موحد کے ماتھے کی تیوری کے بلوں میں ایک دم ہی اضافہ ہوا۔اس کے ساتھ ہی ثنائیلہ کی چھٹی حس نے اُسے کچھ غلط ہونے کا احساس دلایا۔’’کیسے۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس کے منہ سے پھسلا۔
’’دنیا میں اگر مجھے کسی سے بے پناہ نفرت ہے تو وہ یہی لڑکی ہے،جو میری بہن عائشہ کی بہترین دوست ہونے کا دعوی کرتی تھی۔جس کے خوبصورت چہرے کے پیچھے ایک مکروہ اور بدصورت چہرہ ہے۔وہ چہرہ جس کسی کو بھی نظر آ جائے،اُسے خوبصورتی کے احساس سے ہی نفرت ہو جاتی ہے۔۔۔‘‘ موحد کے لفظوں سے نکلتا زہر اور چہرے پر ٹپکتا تنفر ثنائیلہ کو اپنی جگہ پر منجمد کر گیا۔اُس کے دماغ میں دھماکے سے ہونے لگے۔اُسے لگا جیسے موحد جھوٹ بول رہا ہو۔
* * *
’’آپ کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟؟؟آپ شئیر کیوں نہیں کرتیں۔‘‘عائشہ کافی دنوں کے بعد فاطمہ جناح پارک میں موجود تھی اور رامس نے اُس کی مخصوص جگہ پر بڑا کامیاب چھاپہ مارا تھا۔وہ جو بڑی بے دلی کے ساتھ پینٹینگ پر کام کررہی تھی ۔اُس کو اپنے پیچھے کھڑا دیکھ کر خود بھی سامنے بینچ پر آن بیٹھی۔یہ تو طے تھا کہ اس کی موجودگی میں کوئی کام نہیں ہوسکتا۔
’’آپ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے جو ہر جگہ میرا پیچھا کرتے ہوئے پہنچ جاتے ہیں۔۔۔‘‘وہ تھوڑا سا چڑی۔
’’مجھے لگتا ہے کہ آپ کو کسی اچھے دوست کی ضرورت ہے۔۔۔‘‘وہ اُس بڑے سے مخصوص پتھر پر بیٹھ چکا تھا جس پر کسی زمانے میں وہ دشمن جاں بیٹھ کر اُسے کام کرتا دیکھتا تھا۔
’’یہ الہام ،خیر سے آپ کو کیوں ہوا۔۔۔؟؟؟؟‘‘عائشہ نے طنزیہ نگاہوں سے اس کا بے ضرر سا چہرہ دیکھا۔
’’میری چھٹی حس کہتی ہے۔۔۔‘‘دوسری جانب اس نے غیر سنجیدگی سے کہا۔
’’پہلے اپنی پانچ حسّوں کا تو علاج کروا لیں۔۔۔‘‘عائشہ کے لہجے میں طنز کی آمیزش شامل ہوئی ۔آج نہ جانے کیوں اُسے اپنی تنہائی میں اس کا مخل ہونا بالکل اچھا نہیں لگا ۔
’’علاج کروانے ہی تو گیا تھاہیلن آف ٹرائے کے پاس۔۔۔‘‘اُس کے ذومعنی انداز پر چونکی۔
’’بھئی آپ کی بیسٹ فرینڈ کو ہیلن آف ٹرائے کہہ رہا ہوں۔۔۔‘‘اُس نے فورا ہی وضاحت کی۔’’ایسا علاج کیا انہوں نے،کہ ابھی تک دماغ کی ساری چولیں ہل رہی ہیں۔‘‘اُس نے اتنے مزے سے کہا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی عائشہ کو ہنسی آ گئی۔
’’دیٹس گڈ،ایسے ہی ہنستی رہا کریں ،یقین کریں بہت اچھی لگتی ہیں۔۔۔‘‘وہ کھلے دل سے کہہ رہا تھا۔
’’یہ مکھن والی فیکٹری اپنی گھر ہی چھوڑ کر آیا کریں۔۔۔‘‘ عائشہ نے بھی اُسے چھیڑا۔
’’آجکل تو سارا ہی کام ٹھپ ہوا پڑا ہے،اللہ میرے بزنس پارٹنر کے ضمیر کو جگائے رکھے،ورنہ میں نے تو اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔‘‘ اُس نے کھلے دل سے اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا۔
’’تو ادھر اُدھر مٹر گشت کرنے کی بجائے ذرا اپنے کام کاج پر توجہ دو،کس نے مشورہ دیا ہے کہ سارا دن سڑکیں ناپتے رہو۔‘‘ عائشہ نے بھی اس کی ٹھیک ٹھاک کلاس لی۔
’’بھئی غم جاناں سے نکلوں تو غم دوراں کی طرف توجہ دوں ناں۔۔۔‘‘ وہ ابھی بھی غیر سنجیدہ تھا۔
’’ویسے اچھی لڑکی،میں سوچ رہا ہوں کہ ایک آدھ محبت اور کر ہی لوں۔۔۔‘‘ رامس کی آنکھوں میں شرارت کے سبھی رنگ تھے۔
’’پہلی ہی فرصت میں کر لو،کم از کم میرا تو پیچھا نہیں کرو گے ناں۔۔۔‘‘عائشہ نے جل کر کہا۔
’’ آپ کا پیچھا تو ساری زندگی کروں گا،یہ آج لکھ لیں آپ۔۔۔‘‘اُس کے لہجے میں کچھ تھا جو عائشہ بُری طرح الجھن کا شکار ہوئی۔
’’وہ کس خوشی میں۔۔۔‘‘اُس نے سپاٹ انداز سے پوچھا،اُسے اب اس باتونی شخص سے گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی۔
خوشی کا کیا ہے،کوئی بھی بنا لیں ۔۔۔‘‘وہ ہاتھ جھاڑ کر کھڑا ہوا اور دونوں بازو سینے پر باندھ کر بڑے اطمینان سے بولا۔
’’میرا خیال ہے کہ مجھے اب چلنا چاہیے،بہت تنگ کر لیا آپ کو۔۔۔‘‘ اُس کی بات پر عائشہ نے سکون کا سانس لیا۔
’’ویسے میری ماما آپ سے ملنا چاہتی ہیں وہ دیکھنا چاہ رہی ہیں کہ آخر وہ کون سے دو بہن بھائی ہیں جن کا میں سارا دن ذکر کرتا ہوں۔۔۔‘‘رامس کی آخری بات نے اُسے پھر بے سکون سا کیا۔
’’مجھ سے مل کر انہیں مایوسی ہی ہوگی۔۔۔‘‘عائشہ پر قنوطیت سوار تھی۔
’’اس کا فیصلہ تو بعد میں ہوگا،یہ بتائیں کہ ماما کو کب لے کر آؤں ،آپ کے گھر،پھر اس کے بعد آپکو ایک خاص شخصیت سے بھی ملواؤں گا۔۔۔‘‘رامس کی گول مول باتوں نے حقیقت میں اس کا سر گھما دیا تھا۔
’’جب مرضی لے آنا ہمارے گھر،اور کس خاص شخصیت سے ملوانا ہے مجھے۔۔۔‘‘اُس کے چہرے پر تجسس دیکھ کر وہ شوخی سے بولا
’’پکچر ابھی باقی ہے میرے دوست۔۔۔‘‘ وہ جاتے جاتے ایک دفعہ پھر شرارت کر گیا عائشہ کو سچ مچ غصّہ آگیا۔
’’یہ دیکھو،جان چھوڑو،مجھے اس پینٹنگ پر کام کرناہے۔‘‘عائشہ نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے تو وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔
’’پہلے اپنی زندگی کے کینوس کے رنگ توبہتر کر لیں جو روکھے پھیکے ہو رہے ہیں پھرکسی نئی پینٹنگ پر بھی کام کر لیجیے گا۔۔۔‘‘اُس کے شوخی بھرے انداز پر وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام کر اُسی بینچ پر دوبارہ بیٹھ گئی۔
* * *
’’کیسی طبیعت ہے بیٹا ،آپ کی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ڈاکٹر نجم انصاری جو کچھ دن پہلے ہی ٹرانسفر ہو کر اس وارڈ میں آئے تھے ۔خاصے سنئیر تھے اور آجکل راؤنڈ بھی وہ ہی لے رہے تھے۔ ڈاکٹر خاور کچھ دن کی چھٹی پر تھے ۔ڈاکٹر نجم انصاری کو بھی سکینہ کے ساتھ کچھ ہی دنوں میں خصوصی لگاؤ ہو گیا تھا۔آج ان کے ساتھ ڈاکٹر زویا بھی تھیں جو خاصی کینہ توز نگاہوں سے اُسے دیکھ رہی تھیں۔
’’بہتر ہوں ڈاکٹر صاحب۔۔۔‘‘سکینہ نے اٹھنے کی کوشش کی تو انہوں نے اُسے لیٹے رہنے کا اشارہ کیا۔
’’کمر کا دردکیسا ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ انہوں نے اگلا سوال کیا ۔
’’وہ تو دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے صاف گوئی سے بتایا۔
’’ڈاکٹر صیب،یہ نمانی تو ساری ساری رات کروٹیں بدلتی ہے،درد کی وجہ سے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے ذرا تفصیل سے سکینہ کا احوال دیا۔
’’اللہ کرم کرئے گا،میں نے کچھ انجکشن لکھ دیے ہیں ،رات والی ڈرپ میں لگا دیے جائیں گے۔اُس کے بعد نیند بہتر طریقے سے آ جائے گی۔‘‘ ڈاکٹر نجم نے جمیلہ مائی کی تسلی کروانے کی بھرپور کوشش کی۔
’’انصاری صاحب ذرا اور تسلی کروا دیں ،یہ ڈاکٹر خاور کی بہت خاص پیشنٹ ہیں۔۔۔‘‘ زویا کے طنزیہ لہجے پر جمیلہ مائی کے چہرے پر ایک تاریک سا سایہ دوڑا۔
’’بھئی ڈاکٹرز کے لیے تو سارے ہی مریض اہم ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ڈاکٹر نجم نے سکینہ کی فائل پر ایک نوٹ لکھتے ہوئے لاپرواہی سے کہا۔
’’لیکن کچھ سب سے اہم بھی ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ زویا کا لہجہ تنفر میں ڈوبا ہوا اور آنکھوں سے شعلے سے نکل رہے تھے۔
’’ایسی بات ہے تو آج سے سکینہ ہماری بھی خاص پیشنٹ ہوئیں،کیوں بیٹا۔۔۔‘‘ڈاکٹر نجم کے محبت بھرے انداز پر سکینہ کا دل بھر آیا۔اُس نے فورا آنکھیں جھکا لیں۔
’’ڈاکٹر زویا کی باتوں کو دل پر لینے کی ضرورت نہیں ،یہ توحسد کی آگ میں جل کر پاگل ہو رہی ہے۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ نے ان دونوں ڈاکٹرز کے باہر نکلتے ہی سکینہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔اُس کی بات جمیلہ مائی نے بھی سن لی تھی۔
’’اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔وہ جائے نماز بچھا کر نماز حاجت کے لیے کھڑی ہوگئیں۔جب کہ سکینہ نے بھی قرآن پاک کھول لیا۔دو نفل پڑھ کر امّاں جائے نماز پر ہی بیٹھی رہی ۔اُن کے ہاتھ میں تسبیح لیکن دھیان کہیں اور تھا۔
’’امّاں خیر ہے ناں،تو کل سے کچھ چپ چپ سی ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے قرآن پاک پڑھتے ہوئے امّاں کا اداس چہرہ دیکھا۔وہ محسوس کر رہی تھی کہ امّاں کل سے بالکل خاموش ہے۔
’’ٹھیک ہوں پتّر،اللہ خیر سکھ کا ویلا لائے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اپنا مخصوص جملہ بولا اور تسبیح میں مگن ہو گئی
’’امّاں کوئی پریشانی ہے کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘سکینہ نے قرآن پاک بند کر کے غلاف چڑھاتے ہوئے پوچھا۔
’’دوسروں کی خوشیوں کی خبریں پریشانی والی تھوڑی ہوتی ہیں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے بہت عجیب سی بات کی،سکینہ چونک گئی۔
’’کون سی خوشی کی خبر۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ نے امّاں کا سنجیدہ چہرہ غور سے دیکھا۔
’’کوئی نہیں پتر۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے نہ جانے کیوں اُسے ٹالنے کی کوشش کی۔
’’بتا دے ناں امّاں،آج نہ سہی ،کل تو بتائے گی ناں۔۔۔‘‘سکینہ نے اُس سے اگلوانے کے لیے اصرار کیا۔
’’جاجی کی بے بے نے اُس کی گل بات اپنی بہن کے گھر طے کر دی ہے،مجھے تیرے ابّے کا فون آیا تھا۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے بلی تھیلے سے باہر نکال ہی دی۔
’’جاجی کی گل بات۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘سکینہ چونکی،اُس کے اندر سکون کا ایک دل آویز سا احساس دُور تک اترتا گیا۔’’اماّں یہ تو واقعی اچھی بات ہے،تونے بے بے کو فورا مبارک باد دینی تھی ناں۔۔۔‘‘اُ س کے انداز میں لاپرواہی کا عنصر نمایاں تھا۔جمیلہ مائی تسبیح کرنا بھول کر اس کا چہرہ غور سے دیکھنے لگی۔
’’پتّر،تجھے دکھ تو نہیں ہوا۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے محبت اور شفقت سے بھرپور لہجے میں کہا۔
’’دکھ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ کیوں امّاں۔۔۔؟؟؟؟ سکینہ کے لہجے میں آہستہ آہستہ توازن آتا جا رہا تھا۔جمیلہ مائی تھوڑا سا تذبذب کا شکار ہوئی۔
’’تو اُس کی بچپن کی منگ جو تھی۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے تھوڑا سا جھجک کر کہاتو سکینہ کھلکھلا کر ہنسی۔
’’دفع کر امّاں ایسی باتوں کو،میں تو شروع دن سے خار کھاتی تھی،تجھے پتا تو تھا۔۔۔‘‘سکینہ کے لہجے میں حقیقی خوشی کی کھنک تھی۔ہنستے ہوئے اُسے اچانک یاد آیا۔
’’کہیں امّاں تجھے اس بات کا رنج تو نہیں ہو رہا۔۔۔‘‘ سکینہ نے بغور اپنی ماں کا چہرہ دیکھا۔
’’تھوڑا سا دکھ تو ہوا تھاپتّر،پھر خیال آیا کہ اللہ سوہنے کو یہی منظور ہوگا۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے کمال ضبط سے آنکھیں بند کرکے اور تیزی سے تسبیح کے دانے گرانے شروع کر دیے۔سکینہ کو پتا چل گیا تھا کہ امّاں کے لیے یہ مرحلہ سخت دشوار اور صبر آزما ہے۔اس لیے اُس نے بھی اُسے مزید نہیں چھیڑا۔
*
ماہم ،علی کے ساتھ ایک بھرپور لنچ کر کے ابھی ابھی گھر پہنچی تھی۔خوشی کا احساس اس کے انگ انگ سے نمایاں تھا۔ اُس نے علی کو آج متاثر کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیا تھا۔اتنا تو اسے بھی احساس ہو گیا تھا کہ علی کو ظاہری خوبصورتی کی بجائے باطن کی خوبصورتی زیادہ اپنی طرف مائل کرتی ہے۔یہی وجہ تھی اُس نے اپنا ہوم ورک مکمل کر کے اُس پر کام شروع کیا تھا۔اتنا تو ماہم منصور کو بھی پتا تھا کہ اُسے اپنے کسی بھی قسم کے پراجیکٹ میں کبھی بھی ناکامی کا سامنا نہیں ہوا تھا۔وہ جو دل میں ٹھان لیتی تھی۔اُس کے بعد اُس کو پایہ تکمیل پر پہنچا کرہی دم لیتی تھی۔
’’ہائے آپی،آپ کے چہرے پر کیوں بارہ بجے ہوئے ہیں۔۔‘‘ٹی وی لاؤنج میں آتے ہی ماہم نے انتہائی بیزار بیٹھی ثمن آپی کو مخاطب کیا۔
’’دیکھو کتنی گھٹیا نکلی انصر کی فیملی۔۔۔‘‘وہ پھٹ ہی تو پڑیں۔’’ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے نہیں،اور اس کے رشتے کی تلاش بھی شروع کر دی۔۔۔‘‘ ثمن آپی کو نہ جانے کیوں غصّہ آرہا تھا۔ماہم نے حیرت سے ان کاغصّے کی زیادتی سے بگڑا چہرہ دیکھا۔
’’تو آپی ،کرنے دیں،آپ کو کیا مسئلہ ہے۔۔۔‘‘ اُس نے ہلکے پھلکے انداز سے کہا۔
’’بھئی مجھے مسئلہ ہے،میرا بیٹا ہے ان جاہل لوگوں کے گھر۔۔۔‘‘ ثمن آپی کو پہلی دفعہ احیان کی یاد آئی تھی۔
’’تو آپ کورٹ کے ذریعے اپنا بیٹا واپس لے لیں۔۔۔‘‘ماہم نے سادہ ساحل بتاکر ٹی وی آن کیا،جس پر ثمن کا ہی پرائم ٹائم میں شو دوبارہ ٹیلی کاسٹ ہو رہا تھا۔
’’واہ آپی،آفت لگ رہی ہیں آپ۔۔۔‘‘ماہم کی تعریف پر ان کا چہرہ کھل کر انار بن گیا۔ایک لمحے کو تو احیان اور انصر کی فیملی کا دکھ بھی انہیں بھول گیا۔
’’وہاں سیٹ پر بھی سب کی نظریں مجھ پر سے نہیں ہٹ رہیں تھیں۔۔۔‘‘انہیں یاد آیا۔
’’ہٹ بھی کیسے سکتی تھیں،اتنا آفت فگر،دلکش نقوش اور اوپر سے ظالم میک اپ،قسم سے پورے سیٹ پر صرف آپ ہی ہیں ،جس پر سے نظر ہٹانا دشوار ہو رہا ہے۔‘‘ ماہم کے توصیفی لہجے نے ان کی ساری کوفت کا مداوا کر دیا ۔
’’اب تو ایک اور چینل والے بھی مجھے اپروچ کر رہے ہیں۔۔۔‘‘ثمن آپی کو اپنا بیٹا بالکل ہی بھول گیا تھا۔ ’’اتنی گلیمرس لائف اور آدھی دنیا آپ کے پیچھے پاگل ہوتو کس کافر کا گھر بیٹھنے کو دل کرتا ہے۔‘‘وہ بھی کھل کر میدان میں اتر آئیں،مگر ان کے سیل فون پر آنے والی کال نے ان کی گفتگو میں تعطل ڈال دیا۔ ان کی لمبی کال سے تنگ آ کر ماہم اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گئی۔ فریش ہو کر اُس نے کھڑکی سے پردے ہٹائے،سامنے پہاڑیوں پر ایک خوبصورت شام اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اتر رہی تھی۔
وہ ٹیرس کا درواز ہ کھول کر باہر نکل آئی،ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں نے طبیعت کو طمانیت کا احساس بخشا تھا۔ آج کا لنچ اُس کی زندگی کا ایک خوبصورت ترین لنچ تھا۔ اُس نے علی کے ساتھ ڈھیروں باتیں کیں۔
’’وہ وقت دُور نہیں ،جب میں جیسا چاہوں گی،ویسا ہی ہوگا۔۔۔‘‘اُس نے ایک دفعہ پھر خود کو یاد دلایا۔ سامنے پہاڑیوں پر لگے سبزے کو دیکھتے ہوئے اچانک اُس کی نظر سڑک کے دوسری جانب عائشہ کے بنگلے پر پڑی۔جس کا گیٹ کھل رہا تھا۔
’’رامس اور اُس کی ماما،عائشہ کے گھر۔۔۔‘‘ درمیانی فاصلہ زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے اُس نے ایک نظر میں گھر سے نکلنے والی گاڑی میں بیٹھے رامس اور اس کی ماما کو پہچان لیا تھا۔
’’یہ لوگ،ان کے گھر کیسے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم کے دماغ میں دھماکہ سا ہوا۔وہ سخت بے یقینی سے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے رامس کو دیکھ رہی تھی جو اپنی ماما کی کسی بات پر کھل کر ہنس رہا تھا۔
’’یہ عائشہ اور رامس میرے ساتھ کیا کھیل ،کھیل رہے ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس کا دماغ بھک کر کے اڑا۔ماہم کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا تھا جو اپنی پسندیدہ چیز سے دل بھر جانے کے بعد بھی کسی اور کے حوالے کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے۔ایک دم سے ماہم کی نظر کھلے گیٹ سے پورچ کی جانب بڑھتی ہوئی گھر کے داخلی دروازے پر ٹھہر گئی،جہاں موحد،عائشہ اور اس کی ماما شاید نہیں یقیناًمہمانوں کو سی آف کرنے کے لیے گیٹ تک آئے تھے۔
’’اتنا اسپیشل پروٹوکول،آخر کس سلسلے میں۔۔۔‘‘ماہم نے بڑی سرعت سے سوچا،لیکن کوئی بھی سرا ہاتھ نہیں لگا۔ اُس کے ذہن میں آندھیاں سی چل رہی تھیں۔اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ عائشہ کو جا کر کھری کھری سنا آئے،دماغ میں ایک لاواسا کھول رہا تھا۔۔۔
* * *
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...