’’تم دنیا کی انتہائی بے مروت لڑکی ہو۔۔۔‘‘ ماہم کی بے تکلفانہ آواز سن کر عائشہ کو دھچکا سا لگا۔رائل بلیو سوٹ میں اس کی شہابی رنگت دمک رہی تھی ۔وہ بے تکلفی سے اُس کے کمرے کے پردے ہٹا رہی تھی۔
’’کیا ہوا،ایسے کیوں گھور رہی ہو،جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔۔۔‘‘ ماہم نے شوخی سے لبریز لہجے میں کہا۔وہ اب اُس کے بیڈ پر بیٹھ چکی تھی۔
’’بھوت تم سے زیادہ خوفناک نہیں ہو سکتا۔۔۔‘‘ماہم چاہتے ہوئے بھی اس پر یہ طنز نہیں کر سکی۔
’’سوری یار،تم اتنا بیمار رہی ،میں عیادت کے لیے نہیں آ سکی۔‘‘وہ بڑے دوستانہ انداز میں پہلے کی طرح شروع ہو چکی تھی۔’’بس ثمن آپی والے مسئلے نے سب کو اپ سیٹ کر رکھا تھا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ بمشکل اتنا ہی بول سکی۔
’’بس یار انصر بھائی طلاق دینا نہیں چاہتے تھے اور ثمن آپی ان کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی تھیں۔۔۔‘‘اُس نے ہلکے پھلکے انداز میں سنگین مسئلے پر روشنی ڈالی۔
’’چلیں اب تو ثمن آپی کی خواہش پوری ہو گئی۔۔۔‘‘اُس نے ٹانگیں پھیلاتے ہوئے کہا۔
’’تھینکس گاڈ۔۔۔‘‘وہ قہقہہ لگا کر ہنسی۔’’ویسے یہ طلاق تو ان کے حق میں بڑی فائدہ مند ہوئی۔۔۔‘‘ اُس نے خوشگوار انداز میں اطلاع دی۔
’’وہ کیسے۔۔۔؟؟؟‘‘عائشہ جبراً بولی ،ورنہ اس کا بات کرنے کو بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔
’’بھئی انہیں تو فورا ہی الیکٹرانک میڈیا سے بڑے بڑے پراجیکٹ ملنے لگے۔آجکل بہت خوش ہیں وہ۔۔۔‘‘ماہم نے بڑی خوشدلی سے اُسے بتایا۔
’’کوئی بات نہیں یہ علیحدگی تو انصر بھائی کے حق میں بھی بڑی فائدہ مند ہوئی۔۔۔‘‘عائشہ اپنی طبیعت کے برخلاف طنز کر ہی گئی۔
’’وہ کیسے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے عجلت بھرے انداز میں پوچھا۔
’’بھئی انصر بھائی کو یواین او سے بہت زبردست آفر آئی اور انہوں نے فوراً قبول کر لی۔‘‘ عائشہ نے ماہم کے چہرے کا اڑتا رنگ فورا محسوس کیا۔
’’یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔‘‘ عائشہ کو پتا تھا کہ اس نے بہت دل پر جبر کر کے یہ فقرہ کہا تھا۔
’’اس کے علاوہ،انصر بھائی کے بہت زبردست پرپوزل بھی آنا شروع ہو گئے ہیں۔۔۔‘‘اس اطلاع پر ماہم کے چہرے پر ابھرنے والا تاثر بڑا عجیب تھا۔
’’وہ دوسری شادی کریں گے کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم کا سوال کم از کم عائشہ کو بہت بچگانہ لگا لیکن بہت عرصے کے بعد اس نے اپنے اندر کچھ ٹھنڈک اترتے محسوس کی تھی۔
’’یس ،آف کورس،ان کا حق ہے یار۔۔۔‘‘ عائشہ نے کھلے دل سے اپنے کزن کی حمایت کی۔
’’چلو دفع کرو،ہمیں کیا،یہ بتاؤ کہاں گم تھی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم کا چہرہ بے سکون ہو چکا تھا لیکن اب ایک دم اٹھ کر جانا نامناسب تھا ۔اس لیے وہ مروتاً بیٹھی رہی۔
’’کہیں نہیں،بس ایسے ہی بیماری بھگتا رہی تھی۔۔۔‘‘ عائشہ اب کھل کر مسکرا رہی تھی۔
’’ہاں بھئی کیا حال ہے تمہارے ہیرو کا۔۔۔‘‘ ماہم کے منہ سے پھسلا۔عائشہ نے چونک کر اسے دیکھا۔’’کون سا ہیرو۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ عائشہ کے سپاٹ لہجے پر ماہم نے الجھ کر اسے دیکھا۔جیسے یقین نہ آ رہا ہو۔
’’بھئی علی کی بات کر رہی ہوں۔۔۔‘‘
اُس نے چبا چبا کر کہاتو وہ فورا بولی۔’’پتا نہیں میرا اُس سے کوئی رابطہ نہیں۔‘‘کچھ تو قف کے بعد وہ مزید گویا ہوئی۔’’ویسے ہر تیسرے دن کسی نہ کسی نئی لڑکی کے ساتھ کہیں نہ کہیں نظر آ جاتا ہے۔‘‘عائشہ نے بھی اس کا سکون درہم برہم کیا۔
’’اچھا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم کو دھچکا سا لگا۔
’’تم نے خود بھی تو دیکھا تھا اُسے گولف کلب میں۔۔۔‘‘عائشہ نے اُسے یاد دلایا تو ماہم پھیکے سے انداز سے مسکرا دی۔
’’تم سناؤ آجکل کیا ہو رہا ہے۔؟؟؟؟؟‘‘ عائشہ کا لاپرواہ انداز ماہم کے اندر بے چینی سی بھر گیا۔
’’کچھ خاص نہیں ،بس کلینک ،گھر یا پھر جم۔۔۔‘‘ ماہم نے بے دلی سے جواب دیا اور جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟‘‘عائشہ نے اپنے چہرے پر آنے والی بے ساختہ مسکراہٹ کا بمشکل گلہ گھونٹا۔
’’یار چلتی ہوں اب،ثمن آپی کے ساتھ مارکیٹ کا پروگرام تھا ۔‘‘ ماہم نے صاف بہانہ بنایا تھا اور عائشہ نے بھی اُسے جتایا نہیں۔وہ بس اسے اضطرابی انداز سے باہر نکلتے ہوئے دیکھنے لگی
* * *
’’ہاں بھئی سکینہ اس دفعہ گاؤں سے واپس آنے کے بعد کچھ چپ چپ سی ہو۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے پہلی ہی ملاقات میں بھانپ لیا تھا کہ سکینہ میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔انہیں دیکھ کر اس کی آنکھوں میں جگنو تو چمکتے تھے لیکن طبیعت میں ایک ٹہراؤ سا آ گیا تھا۔
’’پتا نہیں ڈاکٹر صاحب لیکن اس دفعہ گاؤں جا کر طبیعت بہت اُداس ہوئی۔‘‘اُس نے بھی بے تکلفی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
’’کیوں سکینہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ڈاکٹر خاور نے بڑے نرم لہجے میں پوچھا اور اس کی فائل پر تازہ کیے گئے ٹیسٹ کی رپورٹس دیکھنے لگے۔
’’پہلی دفعہ احسا س ہوا کہ خنجر کی دھار ہی بندے کو زخمی نہیں کرتی زبان اور نظروں کے تیر زیادہ دل دکھاتے ہیں۔‘‘ سکینہ تھوڑا سا افسردہ ہوئی۔
’’ٹھیک کہتی ہیں آپ ،جسم کا زخم تو بھر جاتا ہے لفظوں کے گھاؤ تو کبھی نہیں بھرتے،ہر دفعہ یاد آنے پر پہلے سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔‘‘وہ بھی کسی گہری سوچ کے زیر اثر بولے تھے۔
’’آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔‘‘سکینہ نے چونک کر پوچھا۔اس وقت جمیلہ مائی کمرے میں نہیں تھی اس لیے اُسے کھل کر بولنے کا موقع ملا ہوا تھا۔
’’آپ کو کیسا لگ رہا ہوں۔۔۔‘‘ وہ زبردستی مسکرائے۔
’’کچھ کچھ الجھے الجھے اور پریشان سے۔۔۔‘‘سکینہ کی بات پر وہ تعجب کا شکار ہوئے۔
’’آپ کو کیسے پتا چل جاتا ہے سکینہ۔۔۔‘‘ ؟؟؟؟؟ ان کے سوال پر سکینہ اللہ دتّا کے لبوں پر ابھرنے والی مسکراہٹ اتنی بامعنی تھی کہ ڈاکٹر خاور کو اپنے سوال کا جواب مل گیا۔
’’پتا نہیں۔۔۔‘‘ سکینہ نے بھی انہیں صاف ٹالا ۔’’پتا ہے ڈاکٹر صاحب جب میں ٹھیک ہو جاؤں گی ناں تو پہلے قرآن پاک حفظ کروں گی۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور اس کے منہ سے بالکل غیر متوقع بات سن کر حیران ہوئے۔
’’پھر اس کے بعد ایک مدرسہ بناؤں گی،اس میں بچیوں کو قرآن پڑھاؤں گی۔۔۔‘‘ سکینہ کی آخری دو باتیں کمرے میں آتی جمیلہ مائی نے بڑی دھیان سے سنی تھیں۔
’’پتّر پہلے والا کام تو ،تو ابھی بھی کر سکتی ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی بالکل سامنے آ کر بولی۔
’’اللہ کے ساتھ ’’جب‘‘اور’’تب‘‘والے رشتے نہیں بناتے،اُس پر پکایقین کرتے ہیں۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی بات پر سکینہ فورا حیرت سے بولی۔
’’کیا مطلب ہے امّاں۔۔۔؟؟؟؟
’’پتر ،تو جو کہہ رہی ہے کہ ’’جب‘‘میں ٹھیک ہو جاؤں گی ’’تب ‘‘قرآن پاک حفظ کروں گی،اس کا مطلب ہے کہ تو اللہ سے اپنی شرطوں پر سودا کرنا چاہتی ہے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کی سادہ سی بات سے ڈاکٹر خاور سخت متاثر ہوئے۔
’’اللہ کو یہ شرطوں والے تعلق اچھے نہیں لگتے ،ہر حال میں اس کا دم بھرتے ہیں پتّر،پھر وہ بھی اپنے بندے کو آسانی دیتا ہے۔‘‘ جمیلہ مائی کا پرسکون لہجہ سکینہ کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر خاور کو بھی سوچ میں مبتلا کر گیا تھا۔تینوں اب اپنی اپنی جگہ پر مختلف سوچوں کے زیر اثر کھڑے تھے۔
* * *
’’بھائی اگر آپ کا کوئی دوست آپ کے ساتھ مخلص نہ ہوتو کیا کرنا چاہیے۔۔۔‘‘ موحد کے ساتھ شام کو لان میں واک کرتے ہوئے عائشہ نے اچانک پوچھا۔وہ اس کی وہیل چئیر کو سائیڈ پر کر کے اب اس کے سامنے لان چئیر پر بیٹھ گئی۔
’سب سے پہلے تو اُسے ’’دوست‘‘ہر گز نہیں کہنا چاہیے،کیونکہ اگر اس نے بھی دشمنوں والا کام ہی کرنا ہے تو اسے دوستوں کی لسٹ میں کیوں شامل کیا جائے۔‘‘موحد نے ہلکے پھلکے لہجے میں جواب دیا۔وہ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر گویا ہوئی۔
’’ بھائی لوگ دھوکا کیوں دیتے ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘وہ بُری طرح الجھی ہوئی تھی ۔موحد نے بھی اسے ٹوکا نہیں ۔وہ چاہ رہا تھا کہ اس کی یہ سادہ سی بہن آج کھل کر اپنے ذہن کی تمام گرہیں سلجھا ہی لے۔
’’بعض لوگ اس لیے دھوکا دیتے ہیں کیونکہ وہ فطرتاً ایسے ہوتے ہیں ،ان سے کسی کو بھی فیض نہیں ملتا۔بعض حد درجہ خود غرض ہوتے ہیں ،ویسے تو ٹھیک چلتے ہیں لیکن جہاں اپنے مفادات کی پتنگ کو ڈولتے دیکھتے ہیں وہیں داؤ پیچ لڑا کر اپنی ڈور تیز کر لیتے ہیں۔پھر ان کے راستے میں جو بھی آئے ،اُس کی پرواہ نہیں کرتے۔جب کہ بعض بُرے نہیں ہوتے بس کبھی کبھار کمزور لمحوں کی زد میں آجاتے ہیں اور اپنے پیاروں کو ہرٹ کر جاتے ہیں لیکن انہیں اس چیز کا کبھی نہ کبھی احسا س ضرور ہوتا ہے۔‘‘ موحد کے تفصیلی جواب پر اس نے سنجیدگی سے سر ہلایا۔
’’اچھا ،یہ بتاؤ کہ اپ سیٹ کیوں ہو۔۔۔؟؟؟؟‘‘ موحد نے محبت سے لبریز لہجے میں پوچھا۔
’’ایسے ہی آج ماہم کے ساتھ میں کچھ غلط باتیں کر گئی ،اب افسوس ہو رہا ہے۔۔۔‘‘ وہ شرمندگی سے بولی۔
’’تم اور غلط،ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔‘‘موحد کے لہجے کا یقین اسے مزید خفت میں مبتلا کر گیا۔اُس نے فورا صفائی دیتے ہوئے کہا۔
’’کچھ ایسا بھی غلط نہیں ،لیکن کچھ باتیں اور چیزیں صرف اسے ’’جتانے‘‘کے خیال میں کہہ دی،اب افسوس ہو رہا ہے کہ نہ ہی کہتی۔‘‘
’’کوئی بات نہیں ،اُس پر کون سا اثر ہوگا۔۔۔‘‘موحد نے دونوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے خوشدلی سے کہا تو وہ بھی ہنس دی۔
’’ویسے بھی جو لوگ دوسروں کے جذبات سے کھیلنا اپنا حق سمجھتے ہوں تو ان کو بھی کبھی کبھی اس احساس سے گذارنا چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو کہ درد کا ذائقہ ہر زبان میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے‘‘ موحد کی بات پر وہ چونکی۔
’’تو بھائی پھر ان میں اور ہم میں کیا فرق رہ جائے گا۔۔۔‘‘ عائشہ کو اس کی فلاسفی پسند نہیں آئی۔
’’بھئی ہم نے کوئی درد سہنے کا ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا یا دوسروں کو یہ پرمٹ تو نہیں دیا ہوا کہ وہ جب چاہیں ہمیں بے وقوف بنا جائیں۔۔۔‘‘موحد تھوڑا سا تلخ ہوا۔
’’پھر بھی۔۔۔‘‘ عائشہ نے بوگن ویلیا کی بیل کو تھوڑا سا ہلاتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
’’تمہیں پتا ہے کہ ہم اپنے آدھے سے زیادہ غم اچھا بننے کی کوشش میں خود خریدتے ہیں۔لوگوں کو خود موقع دیتے ہیں کہ وہ ہمیں بار بار ہرٹ کریں۔‘‘موحد نے ہاتھ میں پکڑے بوگن ویلیا کے کاسنی پھول کو فضا میں اڑایا۔
’’ پھر کیا کرنا چاہیے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے بے دھیانی میں پوچھا۔
’’ان کو فورا شٹ اپ کال دینی چاہیے۔۔۔‘‘موحد کی بات پر وہ ہکا بکا رہ گئی۔جب کہ وہ اپنی وہیل چئیر اب پھولوں کی باڑ ھ کے پاس لے گیا ۔’’یہ پھول میری دنیا کی سب سے اچھی بہن کے لیے جواکثر دھوکے اپنی مروت پسند طبیعت کے ہاتھوں خود کھاتی ہے۔۔۔‘‘ موحد کے شرارتی لہجے پر وہ ایک دم شرمندہ سی ہوئی۔اُس نے جھجکتے ہوئے وہ گلابی پھول پکڑ لیا تھا۔
’’بھئی جب لوگ ہزاروں دھوکے دے کر بھی شرمندہ نہیں ہوتے ،تو تم کیوں دھوکے کھاتے ہوئے خفت کا شکار ہو رہی ہو۔۔۔‘‘ موحد نے اُسے چھیڑا۔
’’بھائی اب آپ زیادتی کر رہے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے احتجاج کیا۔
’’ہاں بالکل ایسے ہی اپنے خلاف ہونے والی زیادتی پر فورا احتجاج کرتے ہیں۔یہی چیز تو میں تمہیں سمجھانا چاہ رہا ہوں۔۔۔‘‘موحد کے ہلکے پھلکے انداز پر وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس دی۔
* * *
’’کون تھا وہ،کہاں رہتا تھا اور ماموں ممانی ساتھ کیوں نہیں آئے،تم نے کچھ تو پوچھا ہوتا۔‘‘ثنائیلہ کے لہجے میں ہلکی سی جھنجھلاہٹ تھی۔وہ ابھی ابھی ماہم کے کلینک سے گھرلوٹی تھی ۔آتے ہی نابیہ نے اُسے،اس کے کزن کے آنے کی اطلاع دے دی۔سارا قصّہ سننے نے کے بعد اُسے ایک دم غصّہ ہی آگیا۔
’’میں کیا کرتی،وہ خود ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا۔۔۔‘‘ نابیہ نے اپنی طرف سے صفائی دینے کی کوشش کی۔
’’چلو،امّی کو ہی اٹھا دیتیں،اب ان کو پتا چلے گا تو پتا ہے کتنا خفا ہو نگی۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے اپنا بیگ چارپائی پر رکھا اور اُس پر دراز ہو گئی۔جہاں کچھ دیر پہلے نابیہ بڑے سکون سے لیٹی ناول پڑھنے میں مصروف تھی۔
’’تم خالہ کو ابھی مت بتانا، وہ کل اپنے والدین کے ساتھ خود آئے گا ناں۔۔۔‘‘نابیہ نے اُسے ٹھنڈا کرنے کے لیے ایک گلاس پانی بڑھایا۔
’’سخت نامعقول لڑکی ہو تم۔۔۔‘‘ اُس نے گلاس پکڑتے ہوئے اُسے جھاڑا۔
’’میں کیا کرتی،وہ تم لوگوں کے بارے میں ہی سوال جواب کیے جا رہا تھا۔۔۔‘‘نابیہ نے ہلکی سی خفگی سے کہا۔
’’ہونہہ،چاہے کوئی چور اچکّا ہی ہو،نیا نیا گھر بنا دیکھ کر جائزہ لینے آیا ہو۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کو ایک اور خدشے نے گھیرا۔
’’خیر اب ایسا بھی کوئی محل نہیں تم نے کھڑا کر لیا کہ اچھے خاصے ہینڈسم لوگ چور بننے کے لیے مچل جائیں۔‘‘نابیہ کو بھی غصّہ آ گیا تھا۔
’’اچھا ہینڈسم تھا۔۔۔؟؟؟؟ویسے ماموںِ خود بھی جوانی میں بالکل کسی فلمی ہیرو کی طرح تھے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ اپنی خفگی بھول کر ایک دم اشتیاق بھرے لہجے میں بولی۔
’’ہینڈسم نہیں بلکہ ٹھیک ٹھاک ظالم پرسنالٹی تھی۔۔۔‘‘نابیہ کا موڈ بھی خوشگوار ہوا۔
’’چلو،پھر تمہارا کام تو بن گیا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ بڑے اطمینان سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
’’خیر اب اتنی بھی اس کی مت نہیں ماری گئی کہ مجھ جیسی لڑکی کے ساتھ اپنے کام بنانے لگے۔۔۔‘‘نابیہ خطرناک حد تک صاف گو تھی۔
’’کیوں تمہیں کیا ہوا،اچھی خاصی ہو،نازک سی ،اسمارٹ سی، دراز قد،گورا رنگ اور یہ ناگن کی طرح لہراتی تمہاری چوٹی، بنی بنائی کسی پاکستانی فلم کی ہیروئین۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے اُسے چھیڑا
’’اوہ بہن معاف کرو مجھے۔۔۔‘‘نابیہ نے سچ مچ اُس کے سامنے ہاتھ جوڑے۔’’لگتا ہے تم نے کبھی پاکستانی فلمیں دیکھی نہیں،وہاں لڑکیوں کا نہیں آنٹیوں کا راج ہے۔۔۔‘‘
’’کہاں یار،اب تو ساری فلم انڈسٹری کو ہی زوال آگیا۔۔۔‘‘ثنائیلہ تھوڑا سا افسردہ ہوئی۔
’’یہاں تو آہستہ آہستہ سارے ہی شعبوں کو زوال آتا جا رہا ہے،کہاں ریلوے،کہاں پی آئی اے اور تم فلم انڈسٹری کو رو رہی ہو۔۔۔‘‘نابیہ نے تلخی سے یاد دلایا۔
’’چلو چھوڑو۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔’’بس تم ابھی امّی سے ذکر نہ کرنا،کہیں خدانخوستہ کل وہ لوگ نہ آئیں تو والدہ صاحبہ تو گلی میں جا کر بیٹھ جائیں گی۔‘‘
’’ہاں یار،مجھ سے بھی بڑی غلطی ہو گئی،مجھے کم از کم اس سے فون نمبر تو لینا چاہیے تھا ناں۔۔۔‘‘ نابیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
’’اور کیا،اُس کا نہ سہی کم از کم اپنا سیل نمبر تو دے دیتیں اُسے۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے اُس کا تاسف کم کرنے کے لیے بات کو ہلکا پھلکا سا رنگ دیا۔
’’یہ تو اس سے بھی بڑی غلطی ہوگئی۔۔۔‘‘نابیہ اس کی شرارت سمجھ کر کھلکھلا کرہنسی پھر کچھ یاد آنے پر بولی۔’’تم بتاؤ کہ ماہم منصور کے ساتھ تمہاری آخری میٹنگ کیسی رہی؟؟؟‘‘
’’بہت زبردست،یار وہ بہت لاجواب لڑکی ہے،اُس کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اللہ نے اُسے کتنے پیار سے بنایا ہوگا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے توصیفی لہجے میں کہا۔
’’کیا بہت خوبصورت ہے وہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ نابیہ کو تجسس ہوا۔
’’اتنی خوبصورت کہ اُسے دیکھ کر لگتا ہے کہ خوبصورتی کی اگر کوئی مجسم تعریف ہوتی تو وہ اس کا بہترین نمونہ ہوتی۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے اُس کے تجسس کو ہوا دی۔
’’سب سے بڑی بات کہ وہ ایک بہترین سائیکلوجسٹ ہے۔انسان کے زخموں پر اتنی نرمی سے مرہم لگاتی ہے کہ درد کا احساس ہی نہیں ہوتا۔‘‘ ثنائیلہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ماہم کی شان میں ایک آدھ کتاب لکھ دیتی۔
’’لیکن ایسے لوگ جب خودکسی کو زخم دیتے ہیں تو ان کو پھر پوری دنیا میں کہیں شفاء نہیں ملتی۔۔۔‘‘نابیہ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ماہم جیسے لوگ کسی کو دکھ دے ہی نہیں سکتے۔۔۔‘‘ثنائیلہ کے لہجے میں کوئی اندھا یقین بولا تھا۔
’’کیوں،وہ انسان نہیں ہوتے کیا۔۔۔؟؟؟؟؟یا تم خوبصورت لوگوں کو انسانوں کی کیٹگری میں رکھتی ہی نہیں۔۔۔‘‘نابیہ کا لہجہ عجیب سا ہوا۔
’’پتا نہیں ،لیکن مجھے ماہم ایسی نہیں لگتی۔‘‘ اُس نے صاف گوئی سے کہا۔
’’اللہ کرئے وہ ویسی ہی ہو جیسا تم سوچتی ہو۔‘‘نابیہ نے نرم انداز اختیا ر کیا۔’’لیکن لوگوں کے بارے میں بڑے بڑے بت مت بنایا کرو،کیونکہ جب وہ ٹوٹتے ہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘‘نابیہ کے لہجے میں چھپا دکھ اُس کے چہرے پر لہرایا تو وہ اپنی سب سے پیاری دوست کو دیکھتی ہی رہ گئی۔
* * *
’’یہ رامس کیسا لڑکا ہے عائشہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ جو ماما کے ساتھ کچن کے کاموں میں ہاتھ بٹا رہی تھی ۔ان کی بات پر چونک اٹھی۔ ماما کو آج کافی دنوں کے بعد اپنے ہاتھ سے کوکنگ کرنے کا شوق اٹھا تھا۔انہوں نے اپنے ساتھ فارغ بیٹھی عائشہ کو بھی لگا لیا۔
’’رامس اچھا ہے امّی،لیکن میں اسے بہت زیادہ نہیں جانتی۔۔۔‘‘ عائشہ نے چاول دھوتے ہوئے سادگی سے جواب دیا۔
’’پھر تمہیں کہاں مل گیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماما نے بون لیس چکن فریج سے نکالتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا۔
’’یہ ماہم کا پیشنٹ تھاناں۔۔۔‘‘ اُس کی بات پر ماما اپنی جگہ پر ٹھٹک کر رک گئیں۔’’ماہم کا پیشنٹ۔۔۔؟؟؟؟لیکن اسے کیا ہوا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماما حیرت کے عالم میں اپنا اگلا کام کرنا ہی بھول کر عائشہ کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔
’’کچھ نہیں ماما ،بس کچھ ڈیپریشن وغیرہ کا مسئلہ تھا۔۔۔‘‘اُس نے سرسری انداز میں بتایا تو ماما نے سکون کا سانس لیا۔وہ اب گوشت کاپیکٹ شیلف پر رکھ کر دوبارا اس کی طرف متوجہ ہوئیں۔
’’فیملی بیک گراؤنڈ کیسا ہے اُس کا۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘ ماما کے سوال نے عائشہ کو الجھن میں مبتلا کیا۔
’’ماما،آپ کو اچھی طرح سے پتا ہے کہ میں لوگوں سے ایسے سوال نہیں کرتی،اور نہ ہی مجھے پسند ہے کہ کوئی مجھ سے کرئے۔۔۔‘‘
’’افوہ،اتنی بے وقوف لڑکی میں نے دنیا میں آج تک نہیں دیکھی۔۔۔‘‘ ماما نے غصّے میں فریج کھولی۔’’تمہاری جگہ پر ماہم ہوتی تو پہلی ملاقات میں گڑے مردے تک اکھاڑ لیتی۔‘‘ساتھ ہی انہوں نے فریج کا دروازہ زور سے بند کیا۔
’’سوری میں ماہم کبھی نہیں بن سکتی۔۔۔‘‘ اُس نے ہلکی سی ناگواری سے کہا اور ساتھ ہی ایپرن باندھنے لگی۔’’یہ چکن ڈیپ فرائی کرنا ہے ناں۔۔۔؟؟؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ماما نے ایک نظر ڈال کر کہا تو وہ آئل نکالنے لگی۔
’’ویسے لڑکا تو مجھے بہت اچھا لگا ہے،سلجھا ہوا،کسی اچھے خاندان کالگتا ہے۔۔۔‘‘ماما کی سوئی رامس پر آ کر اٹک سی گئی تھی۔
’’جی ہاں،ماہم بتا رہی تھی کہ اس کی والدہ بھی ایجوکیٹڈ اور خاصی ڈیسنٹ خاتون ہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے برنر چلاتے ہوئے کہا۔
’’ماہم اس کی والدہ سے بھی مل چکی ہے،کہیں۔۔۔‘‘ ماما کے چہرے پر پریشانی کی لہر نمودار ہوئی۔’’کوئی پرپوزل وغیرہ کا چکر تو نہیں۔۔‘‘
’’ہاں،رامس کی والدہ تو انٹرسٹڈ تھیں لیکن ماہم نے انکار کر دیا۔۔۔‘‘اُس نے گول مول انداز میں جواب دیا۔
’’ماہم نے انکار کر دیا۔۔۔؟؟؟‘‘ماما کو دھچکا سا لگا۔’’اچھا خاصا پڑھا لکھا اور اسٹیبلش لڑکا ہے،انکار کیوں کر دیا۔۔۔‘‘ انہوں نے ادرک کا پیسٹ پلیٹ میں نکالتے ہوئے سخت حیرت کا اظہار کیا۔
’’ایسے ہی الٹے دماغ کی تو ہے،کوئی چیز نہیں پسند آئی ہو گی۔۔۔‘‘عائشہ نے لاپرواہی سے جواب دیا۔
’’پھر بھی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوگی۔۔۔‘‘ماما کی تسلی نہیں ہو پارہی تھی۔
’’ماما کوئی وجہ نہیں تھی،بس محترمہ کی ناک کے نیچے کوئی چھوٹی موٹی چیز تو آتی نہیں ۔پھروہ ابھی شادی ہی کرنا نہیں چاہتی۔‘‘ عائشہ نے ان کو مطمئن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہو گئی۔
’’ویسے مجھے یہ لڑکا بہت اچھا لگا ہے۔۔۔‘‘ماما نے کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیا تو عائشہ کا ماتھا ٹھنکا۔
’’آپ کیا سمجھ رہی ہیں ماما۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ ان کی طرف دیکھ کر بڑے پر اعتماد انداز میں بولی تو ماما تھوڑا سا گڑبڑا سی گئیں۔
’’بھئی میں تو بس جنرل سی بات کر رہی تھی،مجھے لگا کہ اس کا جھکاؤ تمہاری طرف ہے۔۔۔‘‘ماما نے بھی کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔
’’کم آن ماما،ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘ عائشہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔’’اول تو ایسا کچھ نہیں اگر ہو بھی تو مجھے اس لحاظ سے بالکل پسند نہیں۔۔۔‘‘
’’کیوں ،کیا برائی ہے اُس میں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماما نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔
’’بات بُرائی کی نہیں ،پسند یا ناپسند کی ہے ما ما،اور جب مجھے پتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں،پھر اس موضوع پر بحث کا فائدہ۔‘‘ اُس نے سنجیدگی سے کہا تو ماما چپ کر گئیں ،لیکن ان کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ ان کا مزاج برہم ہو چکا ہے۔وہ اب خاموشی سے کوکنگ میں مصروف ہو گئیں۔
* * *
’’اوہ مائی گاڈ،آپ یہاں کیسے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم اپنے کلینک میں علی کو دیکھ کر تقریبا حواس باختہ سی ہو گئی۔وہ تو اپنے روٹین کے کاموں میں مصروف تھی ،جب انٹر کام پر اس کی اسسٹنٹ نے ایک گیسٹ کے آنے کی اطلاع دی،آج صبح سے کوئی خاص اپائنمنٹ بھی نہیں تھی اس لیے وہ تقریبا فارغ تھی۔
’’کیوں مجھے یہاں نہیں آنا چاہیے تھا کیا۔۔۔‘‘ ماہم کی حیرانگی پرانہوں نے متانت بھرے انداز سے پوچھا اور سامنے سنگل صوفے پر بیٹھ گئے۔
’’نو،نو ایٹ آل،میں نے تو یونہی کہا،ورنہ آپ کو اپنے کلینک میں دیکھ کر یقین کریں بہت خوشی ہو رہی ہے۔‘‘ماہم کے چہرے کے ہر نقش سے مسرت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔وہ بے اختیار اٹھ کر ان کے سامنے رکھے صوفے پر آن بیٹھی۔وہ اس کی بات پر مسکرا دیے۔
’’بہت اچھا سیٹ اپ بنایا ہے آپ نے۔۔۔‘‘انہوں نے کھلے دل سے سراہا۔
’’بس جی گذارا چل رہا ہے۔۔۔‘‘ ماہم کے منہ سے نکلنے والے انکساری سے بھرپور الفاظ نے انہیں چونکا دیا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ یہ لڑکی کبھی عاجزی یا انکساری کا بھی اظہار کر سکتی ہے۔اُس کے بارے میں ان کا ایک اندازہ غلط ہوا۔
’’فنٹاسٹک ہے سب کچھ۔۔۔‘‘وہ کھڑے ہو کر اُس کے کلینک کا بغور جائزہ لینے لگے۔’’کلر اسکیم بہت کول رکھی ہے آپ نے،یہ مریضوں کو اچھا تاثر بخشتی ہوگی۔‘‘وہ چلتے چلتے دیوار کے پاس رک گئے اور بے اختیار وہاں لگی پینٹنگ کو دیکھنے لگے۔ماہم نے بے چینی سے پہلو بدلا،اُسے معلوم تھا کہ یہ پینٹنگ عائشہ نے اُسے گفٹ کی تھی۔
’’کیا لیں گے آپ ،چائے یا کافی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم نے اس پینٹنگ سے اُس کا دھیان بٹانے کے لیے کہا لیکن علی کی نظریں تو گویا اس پینٹنگ پر چپک سی گئیں تھیں۔
’’بلیک کافی۔۔۔‘‘انہوں نے مڑے بغیر بے تکلفی سے جواب دیا۔
’’اور ساتھ میں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے مزید پوچھا۔
’’سینڈوچ۔۔۔‘‘ ایک اور بے تکلفی کا مظاہرہ ہوا۔
’’کیسی چل رہی ہے آپ کی یہ جاب۔۔۔‘‘؟؟؟ وہ بمشکل اپنی نگاہیں اُس تصویر سے ہٹانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔
’’جاب الحمد اللہ بہترین چل رہی ہے،آپ سنائیں کیسا چل رہا ہے آپ کا کام۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے اپنے دھڑکتے دل پر قابو پاکر بمشکل پوچھا۔
’’بس اوپر والی ذات کا کرم ہے۔۔۔‘‘ ان کے لفظوں سے زیادہ لہجے میں انکساری تھی۔
’’میں اور میری آپی ایک چئیریٹی شو کرنا چاہ رہے تھے،اگر آپ بھی اس میں شرکت کریں۔۔۔‘‘ ماہم نے اپنی طر ف سے بڑا سوچ سمجھ کر پتّا پھینکا۔
’’چئیریٹی شو۔۔۔؟؟؟؟‘‘وہ بھرپور انداز سے چونکے۔ ’’آپ کو ان چیزوں سے دلچسپی ہے کیا۔۔۔؟؟؟‘‘ ان کے منہ سے بے اختیار پھسلا۔
’’کیوں میں انسان نہیں ہوں،مجھ پر اپنے اردگرد کے حالات کا اثر نہیں ہو سکتا کیا۔‘‘ اُس کی صاف گوئی نے انہیں شرمندہ سا کیا۔
’’اصل میں ،آپ کو دیکھ کر لگتا نہیں ہے کہ آپ اس قسم کے کاموں میں دلچسپی لیتی ہوں گی۔۔۔‘‘علی نے بھی بلاجھک اپنی رائے کا اظہار کیا۔
’’ایک بات کہوں بُرا نہ مانیے گا۔۔۔‘‘ماہم کی بات پر وہ ذرا سنبھل کر بیٹھے۔
’’نیکی کا احساس ہر دل میں ہوتا ہے،کچھ لوگ اپنے چھوٹے سے اچھے کام کا بھی ڈھنڈورا پیٹتے ہیں ،لوگوں کو پکڑ پکڑ کر بتاتے ہیں کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں ،لیکن میری فلاسفی تھوڑا مختلف ہے۔‘‘ ماہم کی باتیں آج انہیں سخت حیران کر رہی تھیں انہیں اپنی گذشتہ سوچوں پر شرمندگی ہوئی۔
’’میرا نظریہ ہے کہ اگلے بندے کی عزت نفس کا بھرپور احساس کیا جائے اور ایسے مدد کی جائے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو،ایسے ہی تو نہیں کہا گیا کہ اس طرح سے دو کہ آپ کہ بائیں ہا تھ کو بھی خبر نہ ہو۔۔۔‘‘ ماہم آج فل فارم میں تھی۔
علی نے توصیفی نگاہوں سے اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا اور لاپرواہی سے بولے۔’’یہ تو آپ نے بالکل ٹھیک کہا،لیکن اگر آپ کو چئیریٹی کا کام کرتے دیکھ کر کوئی اور بھی انسپائر ہوتا ہے تو اسکا ثواب بھی تو آپ کے کھاتے میں جائے گا۔‘‘
’’ہاں ،ہو سکتا ہے ،لیکن اپنا اپنانظریہ ہے۔۔۔‘‘ ماہم نے بھی کندھے اچکائے۔وہ اب بلیک کافی کا کپ ان کی جانب بڑھا رہی تھی۔
’’بھئی آپ کی مدر ٹریسا دوست آجکل کہاں گم ہیں۔۔۔‘‘علی نے آخر وہ سوال کر ہی لیا،جس کے لیے وہ خصوصی طور پر یہاں آئے تھے۔
’’کون،عائشہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم کو بلیک کافی آج سے پہلے اتنی کڑوی کبھی نہیں لگی۔
’’جی،کافی عرصے سے نظر نہیں آئیں وہ۔۔۔‘‘علی کا لہجہ سرسری سا تھا۔
’’اُس کی ماما آجکل اُس کے دھڑ ادھڑ پرپوزل دیکھ رہی ہیں ،بس ایک آدھ ہفتے میں فائنل ہو جائے گا۔اس لیے بزی ہے۔‘‘ ماہم کی بات نے علی کا سارا سکون درہم برہم کیا۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ انہوں نے گرما گرم کافی کا کپ لبوں سے لگا لیا، جس نے ایک دم سے جلن کا احساس بھر دیا۔
’’اُف ۔۔۔‘‘ انہوں نے فورا کپ ٹرے میں رکھا۔ماہم کی کھوجتی نگاہیں ان کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں ۔
’’بھئی دھیان سے،ٹیک اٹ ایزی۔۔۔‘‘ماہم نے فوراً اٹھ کر ٹھنڈے پانی کا گلاس ان کی جانب بڑھایا۔
’’بہت گرم کافی تھی،پتا ہی نہیں چلا۔۔۔‘‘ وہ زبردستی مسکرائے۔
’’کوئی بات نہیں،شروع شروع میں جلن کا احساس زیادہ ہوتا ہے،پھر سکون آ جاتا ہے۔‘‘ ماہم کے ذومعنی انداز پر وہ چونکے،اور پھر سنبھل کر دوبارا کافی کا کپ اٹھا لیا۔
’’امّاں پتا نہیں کیوں،کچھ دنوں سے دنیا اچھی نہیں لگ رہی۔۔۔‘‘ سکینہ نے چڑیوں کے لیے باجرہ نکالتی امّاں کو مخاطب کیا۔
’’کوئی بات نہیں پتّر،اللہ جس کو اپنی طرف راغب کرنا چاہتا ہے،اُسے دنیا سے بیزار کر دیتا ہے۔۔۔‘‘ امّاں کا چہرے پر ازلی سکون تھا۔وہ اب کھڑکی کی سلاخوں سے ہاتھ نکال کر باجرہ باہر لان میں بیٹھی چڑیوں کو ڈال رہی تھی۔
’’لیکن مجھے تو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا،نہ کتابیں،نہ کپڑے،نہ جوتے،نہ ٹی وی کے ڈرامے۔۔۔‘‘ سکینہ نے اپنا ایک اور مسئلہ بیان کیا۔
’’قرآن کی پڑھائی کیا کر۔۔۔‘‘امّاں کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود تھا۔
’’میرا دل کرتا ہے کہ کہیں جنگلوں میں چلی جاؤں،جہاں سکون ہو۔۔۔‘‘اُس کے بیزار لہجے پر اب مکمل طور پر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
’’پتر دلوں کا سکون بس ایک ہی ذات کے ذکر سے ملتا ہے اور دل کے سکون سے بڑی کوئی دولت نہیں۔بس اُسی دولت کی دعا کیا کر۔‘‘ جمیلہ مائی اب اٹھ کر اُس کے پاس آ بیٹھی۔
’’ادھر لا،تیرے بالوں میں تیل لگا دوں ،کیسے جھاڑ جھنکاڑ کی طرح ہو رہے ہیں۔‘‘ جمیلہ مائی الماری سے سرسوں کے تیل کی شیشی اٹھا لائی۔
’’امّاں تجھے ٹینشن نہیں ہوتی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ نے اماّں کا پرسکون چہرہ دیکھتے ہوئے عجیب سے لہجے میں پوچھا۔
’’وہ کیا ہوتی ہے پتّر۔۔۔؟؟؟؟‘‘امّاں نے سادگی سے پوچھا۔
’’بھئی پریشانی،فکر،رنج وغیرہ۔۔۔‘‘سکینہ ہلکا سا جھنجھلائی۔
’’دیکھ پتّر جو پریشانی،غم اور رنج اللہ نے قسمت میں لکھ دیا ہے ،وہ تو مل کے ہی رہنا ہے۔اُس پر ’’رولا‘‘(شور) ڈالنے کا فائدہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ جمیلہ مائی نے اپنی نرم پوروں سے اس کے سر کا مساج شروع کر دیا۔سکینہ کو تھوڑا سا سکون کا احساس ہوا۔
’’لیکن امّاں دل کو پریشانی تو ہوتی ہے ناں۔۔۔‘‘ سکینہ کا لہجہ کچھ نرم ہوا۔
’’مجھے نہیں ہوتی۔۔۔‘‘امّاں کے لاپرواہ انداز پر سکینہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ’’بھئی جس نے پریشانی میں ڈالا ہے،وہ نکالے گا بھی ناں،پھر میں کیوں خود کو بے سکون کروں۔‘‘وہ امّاں کے یقین کے جذبے پر جی بھر کر حیران ہوئی۔
’’کیا ہوا،ایسے کیوں دیکھ رہی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ جمیلہ مائی نے اپنی انگلیوں کی رفتار تیز کی تو سکینہ کے اندر سکون کی لہریں بیدار ہونے لگیں۔
’’امّاں تو میرے لیے بس آج سے ایک دعا کیا کر۔۔۔‘‘
’’وہ کیا پترّ۔۔۔؟؟؟؟‘‘امّاں کے متحرک ہاتھوں کی گردش ساکت ہوئی۔
’’تو دعا کیا کر،کہ اللہ مجھے بھی تیری طرح سکون اور یقین کی دولت دے دے۔۔۔‘‘ سکینہ کے منہ سے بالکل ایک غیر متوقع خواہش سن کر جمیلہ مائی اتنا حیران ہوئی کہ کئی لمحوں تک بول ہی نہ سکی۔بس پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی لاڈو رانی بیٹی کا چہرہ دیکھتی رہی۔
* * *
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...