’’ماہم تم اسلام آباد واپس آگئی ہو اور تم نے مجھے بتانا تک مناسب نہیں سمجھا۔۔۔‘‘ رامس کی استعجاب، رنج اور بے یقینی میں ڈوبی کال ماہم نے اٹینڈ تو کر لی تھی لیکن یہ وہ ہی جانتی تھی کہ کس دل اور ناگواری سے کی تھی۔ کوفت کا ایک بڑا بھرپور سا حملہ ہوا تھا اُس پر۔۔۔
’’میں نے تمہیں سیل پر ٹیکسٹ توکیا تھا کہ ثمن آپی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے اس لیے میں ایمرجنسی میں واپس جا رہی ہوں۔۔۔‘‘ ماہم کے لہجے میں رکھائی کا عنصر غالب تھا اور یہی چیز رامس کے لیے پریشان کا باعث بن رہی تھی۔
’’ماہم تم نے خود مجھے شام کی چائے پر انوائیٹ کیا تھا۔تم کم از کم مجھے انفارم تو کر دیتیں ۔میں دو گھنٹے تک مطلوبہ جگہ پر بیٹھا تمہارا انتظار کرتا رہا۔۔۔‘‘ رامس کے لہجے میں ہلکی سی جھنجھلاہٹ نے دوسری جانب اُسے مزید کوفت میں مبتلا کیا۔
’’ہزار دفعہ بتا چکی ہوں کہ آپی کی طبیعت خراب ہو گئی تھی اب کیا میں پورے ہوٹل میں اعلان کر کے نکلتی۔۔۔‘‘ماہم کے تلخ انداز پر وہ کچھ لمحوں کے لیے بالکل گنگ ہو گیا۔
’’مجھے ایک کال کر لیتیں تو چلو میں بھی تم لوگوں کے ساتھ ہی نکل آتا۔۔۔‘‘اُس نے کچھ سنبھل کر کہا تو وہ خاموش رہی۔’’اب کیسی طبیعت ہے ان کی۔۔۔؟؟؟‘‘
’’بہتر ہیں۔۔۔‘‘ ماہم نے مختصراً جواب دیا۔وہ دل ہی دل میں اُس لمحے کوکوس رہی تھی جب اُس نے دسویں بار آنے والی رامس کی کال کو اٹینڈ کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’تم خفا ہو مجھ سے۔۔۔‘‘؟؟؟؟ وہ بُری طرح الجھا ۔ماہم کے روئیے میں اچانک آنے والی تبدیلی کوسمجھنے سے وہ قاصر تھااور یہی چیز اسے الجھن میں مبتلا کر رہی تھی۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ اُس کا لہجہ سپاٹ تھا۔’’میں کیوں خفا ہونے لگی۔۔۔‘‘ اُس کا لہجہ ہنوز سرد تھا۔
’’اچھا ۔۔۔‘‘ وہ کچھ چپ ہوا۔’’کیا میں ثمن آپی کی عیادت کے لیے آ جاؤں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس نے ملنے کا ایک بہانہ تلاش کر ہی لیا۔
’’ہر گز نہیں۔۔۔‘‘ماہم نے تیزی سے بات قطع کی تو وہ گڑبڑا سا گیا اس قدر بے مروّتی کی اُسے توقع ہی کہاں تھا۔جب کہ دوسری جانب وہ کہہ رہی تھی۔’’اصل میں وہ ذہنی طور پر کچھ ٹینس ہیں اس لیے کسی سے بھی نہیں مل رہیں۔۔۔‘‘
’’اوہ۔۔۔‘‘رامس نے ایک لمبی سانس فضا میں خارج کی۔ ’’اُن کا مسئلہ حل نہیں ہوا کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُس نے سنبھل کر پوچھا ۔
’’نہیں ،انہوں نے خلع کے لیے عدالت میں دعوی دائر کر دیا ہے۔۔۔‘‘ماہم کی اطلاع پر اُسے اچنبھا ہوا۔اس لیے وہ خود کو بولنے سے روک نہیں پایا۔’’یہ تو اچھا نہیں کیا انہوں نے،کوئی مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکال لیتیں۔۔۔‘‘
’’مسئلوں کے حل وہاں نکلتے ہیں ،جہاں لوگ انہیں سلجھانا چاہتے ہیں۔جب کہ انصر بھائی حد درجہ دقیانوسی سوچ کے حامل روایتی مرد ہیں۔۔۔‘‘ ماہم کا لہجہ زہر میں ڈوبا ہوا تھا جو رامس کو بہت عجیب لگا ۔
’’ہوں ۔۔۔تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔‘‘وہ زبردستی متفق ہوا اور کچھ توقف کے بعد بولا۔’’تم نے اُس دن مجھ سے کیا خاص بات کرنی تھی۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’کس دن۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ جان بوجھ کر انجان بنی۔
’’اُس دن بھوربھن میں ،جب تم نے مجھے شام کو چائے پر انوائیٹ کیا تھا۔۔۔‘‘رامس نے اُسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
’’اُس دن۔۔۔‘‘ اُس نے کچھ سوچتے ہوئے فقرہ لمبا کھینچا۔ رامس کی تمام تر حسیّں اُس کی جانب متوجہ ہوئیں جب کہ دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش برپا ہوا۔
’’کیا میں نے ایسا کچھ کہا تھا۔۔۔‘‘؟؟؟اُس نے شان استغناء سے پوچھا تو دوسری جانب رامس کے ارمانوں پر ڈھیروں اوس گر گئی۔
’’ہاں ناں۔۔۔تم نے اُس دن کہا تھا کہ کوئی خاص بات کرنی ہے۔۔۔‘‘رامس نے خود ہی ڈھیٹ بن کر یاد دلانے کی کوشش کی جب کہ دوسری جانب ماہم پھر سخت بیزار ہوئی۔
’’مجھے تو ایسا کچھ یاد نہیں۔۔۔‘‘وہ صاف مکر گئی۔اُس کے سپاٹ انداز پر رامس کو صدمہ ہوا۔وہ مارے حیرت اور رنج کے کافی دیر تک کچھ بول ہی نہ پایا۔
* * *
وہ دریائے کنہار کے ٹھنڈے یخ پانی میں دونوں پاؤں ڈالے بڑ ی افسردہ سی بیٹھی تھی۔ نم آ لود ہوا کے جھونکے اس کے بالوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ خوبصورت سر سبز پہاڑ،دلکش وادیاں،سحر انگیز نظارے کوئی بھی چیز عائشہ کے دل کو خوشی کا احساس نہیں بخش رہی تھی۔ وہ بڑے سے پتھر پر بے زاری سے بیٹھی سامنے کچھ بچوں کو جنگلی پھول اکھٹے کرتے دیکھ رہی تھی۔اُسے ماما اور بابا کے ساتھ ناران ،کاغان آئے ہوئے پورے تین دن ہو چکے تھے۔اُس کے انگ انگ سے افسردگی کا احساس نمایاں تھا۔
’’عاشو،ابھی میرے سیل پر ماہم کی کال آئی تھی وہ پوچھ رہی ہے کہ تمہارا نمبر کیوں بند ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماما نے اچانک ہی اس کی پشت سے آ کر کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ چونک گئی۔
’’ویسے ہی ماما۔۔۔‘‘وہ تتلیوں کے ایک غول پر نظریں جمائے سپاٹ سے انداز سے بولی ۔
’’عائشہ تم ٹھیک تو ہو بیٹا،میں پچھلے کچھ دن سے نوٹ کر رہی ہوں کہ تم کچھ الجھی الجھی سی ہو۔۔۔‘‘ماما نے شال اپنے گرد لپیٹتے ہوئے غور سے اس کا مرجھایا ہوا چہر ہ دیکھا۔
’’ایسے ہی تھک گئی ہوں ماما۔۔۔‘‘اُس نے زبردستی مسکراتے ہوئے انہیں مطمئن کرنے کی کو شش کی۔’’اسی لیے تو جب آپ کا اور بابا کا ناران کا پروگرام بنا تو میں بھی زبردستی ساتھ چلی آئی۔‘‘اُس نے ہاتھ میں پکڑا چھوٹا سا پتھر پانی کی طرف اُچھالا۔
’’وہ تو تم نے اچھا کیا،لیکن نہ جانے کیوں میری چھٹی حسّ کہہ رہی ہے کہ تم کچھ ڈسٹرب ہو۔۔۔‘‘ ماما اس کے ساتھ بیٹھیں۔وہ اب کھوجتی نظروں سے اُس پر نگاہ جمائے ہوئے تھیں۔
’’ماما ،چھٹی حسّ اُس وقت کام کرتی ہے جب آپ کی باقی پانچ حسیں بھی بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘وہ دانستہ خوشگوار لہجے میں گویا ہوئی اُسے ماما کی پوسٹ مارٹم کرتی نظروں سے الجھن ہو رہی تھی لیکن اس معاملے میں کچھ مزید کہہ کر انہیں پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی۔
’’میری پانچویں ،چھٹی کیا سب ہی حسیّں تم بہن بھائیوں نے خراب کر دی ہیں۔ ایک تھوڑا سا بہتر ہوتا ہے تو دوسرے کے منہ کے زاوئیے بگڑ جاتے ہیں۔‘‘ماما تھوڑا سا چڑ کر بولیں تو عائشہ ہنس پڑی۔ اُس نے اب ایک بڑا پتھر پانی میں پھینکا اور پھر دلچسپی سے لہروں کا کھیل دیکھتے ہوئے بولی۔
’’ڈونٹ ووری ماما،میں بالکل ٹھیک ہوں،پچھلے دنوں ایگزیبیشن، بلڈ ڈونیشن پھر بیت المال والوں کے فنکشنز وغیرہ نے تھکا دیا ۔اس لیے آپکو ایسا لگ رہا ہے۔۔۔‘‘اُس نے اپنے بال کیچر میں جکڑتے ہوئے انہیں ایک دفعہ پھر تسلّی دینے کی کوشش کی۔
’’ہاں تو اسی لیے تو میں تمہیں منع کرتی ہوں کہ ایسے اوٹ پٹانگ کام کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔‘‘ماما کو بھی کھل کر بولنے کا موقع مل گیا اور انہوں نے ضائع بھی نہیں کیا۔وہ قدرے خفا خفا انداز سے کہہ رہی تھیں۔’’آجکل موحد نے بھی اپنی فیکٹری کو حواسوں پر سوار کر رکھا ہے لیکن شکر ہے کہ وہ مصروف ہوا ورنہ اس کی وجہ سے مجھے سخت پریشانی تھی۔‘‘ان کا دھیان تھورا سا بٹا تو عائشہ نے سکون کا سانس لیا ۔اُسے پتا تھا کہ ماما اب دوسرے چینل پر چلنا شروع ہو جائیں گی اور ایسا ہی ہوا۔
’’عائشہ ذرا پتا تو کرواؤ کہ یہ موحد آخر بات کس سے کرتاہے۔۔۔‘‘ انہیں اچانک یاد آیا تو وہ بے صبری سے گویا ہوئیں۔
’’ماما،جس سے بھی بات کرتا ہو،آپ تو شکر ادا کریں کہ آپ کے بیٹے کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آئی۔۔۔‘‘عائشہ نے لاپرواہی سے کہاتو وہ مسکرا دیں۔
’’کہتی تو تم بالکل ٹھیک ہو۔۔۔‘‘وہ فوراً متفق ہوئیں۔ ’’لیکن پھر بھی کچھ اندازہ تو ہو،کہیں اُسے بھی تمہاری طرح ہمدردی کا بخار نہ چڑھ جائے،اللہ جانے کون ہو؟؟؟۔۔۔‘‘ ان کے لہجے میں چھپے ہزاروں اندیشے محسوس کر کے وہ زبردستی مسکرائی۔
’’کمال کرتی ہیں ماما،آپ کو اس کی عادت کا نہیں پتا کہ کتنا چوزی ہے وہ۔۔۔‘‘ عائشہ کو تھوڑا سا غصّہ آیا۔’’بلکہ آپ یہ سوچیں کہ اُس لڑکی کو جو ہمدردی کا بخار چڑھا ہے وہ چڑھا ہی رہے،ورنہ موحد کی زندگی بہت مشکل ہو جائے گی۔‘‘اُس کی بات پر ماما نے دہل کر اُسے دیکھا۔
’’کیسی خوفناک باتیں کرتی ہوعائشہ،اللہ نہ کرئے کہ میرے بیٹے کی زندگی میں ایسا فیز دوبارہ آئے۔۔۔‘‘انہوں نے تیزی سے اس کی بات قطع کی تو عائشہ خاموش رہی۔ دور کسی جھرنے کے بہنے کی آواز ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھی۔
’’بابا کہاں ہیں ۔؟؟؟؟ان کو یہاں بھی اپنے دوست مل گئے۔۔۔‘‘عائشہ نے یونہی ان کو مخاطب کرنے کو کہا۔
’’اُن کو کہاں دوست نہیں ملتے۔۔۔‘‘ماما نے بیزاری سے کہا۔’’کہنے کو میرے ساتھ وقت گذارنے آئے ہیں اور صبح سے کمال صاحب کے ساتھ شطرنج کی بازی بچھائے بیٹھے ہیں۔‘‘ماما کو بھی روایتی بیویوں کی طرح اپنے شوہر سے ٹائم نہ دینے کا شکوہ رہتا۔
’’آپ بھی شطرنج کھیلنا سیکھ لیں ناں۔۔۔‘‘عائشہ نے اُن کو چھیڑا۔
’’دفع کرو۔۔۔‘‘ ان کے ماتھے کا بل گہرا ہوا۔’’یہاں زندگی ہی شطرنج کا کھیل بنی ہوئی ہے۔ہر روز ایک نئی مات اور نئی چال۔۔۔‘‘اُن کا موڈ ٹھیک ٹھاک خراب ہوچکا تھا۔’’تم بیٹھو یہاں ،میں ذرا ریسٹ ہاؤس کا چکر لگا کر آتی ہوں۔۔۔‘‘وہ ایک دم ہی کھڑیں ہوئیں تو عائشہ نے سکون کا سانس لیا۔وہ آجکل خود سخت مردم بیزار ہو رہی تھی اور اپنی تنہائی میں کسی کی بھی موجودگی اُس کے لیے کوفت سے لبریز جھنجھلاہٹ کا باعث بنتی تھی اور اپنی اس عادت پر وہ چاہتے ہوئے بھی قابو پانے میں ناکام تھی۔یہی وجہ تھی کہ جب بابا نے شمالی علاقہ جات کا پروگرام بنایا تو وہ زبردستی ان کے ساتھ چل دی کہ شاید وہاں جا کر دل ناداں سنبھل جائے۔
’’اپنا سیل فون آن کر لینا۔ماہم کال کرئے گی تمہیں۔۔۔‘‘مامانے تھوڑا سا آگے جاتے ہی پلٹ کر کہا تو اُس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔وہ خاموشی سے اپنے ارد گرد کے دلکش مناظر کو دیکھتے ہوئے سوچنے لگی۔
’’انسانی زندگی میں محبت کا کتنا مضبوط کردار ہے ۔جس کی وجہ سے انسان کے اندر کا موسم باہر کے موسم پر غالب آ جاتا ہے ۔جب محبت کے مواصلاتی نظام میں کوئی رکاوٹ آ جائے تو جان لیوا افسردگی دل میں ڈیرہ ڈال لیتی ہے۔ساری خواہشیں بنجر اور اداسی نما وحشت کسی مکڑی کی طرح آپ کے وجود کے گرد جالا بن کر بے بس کر دیتی ہے۔ایسے میں باہر کا کوئی بھی خوبصورت نظارہ انسان کو خوش نہیں کر سکتا۔‘‘
اُس نے اچانک بیٹھے بیٹھے اپنا سیل فون آن کیا تو ٹیکسٹ میسجز کی بھرمار نے اُس کا استقبال کیا۔ وہ بے دلی سے سکرین پر نظر دوڑا رہی تھی۔ اُس دشمن جان کے ڈھیروں پیغامات اُس کی نظر کرم کے منتظر تھے۔پچھلے ایک ہفتے سے اس کا فون بند تھا۔
’’تم اپنا فون آن کیوں نہیں کر رہی ہو۔تمہاری خاموشی میرے لیے کتنی اذیت ناک ہے تم اس چیز کا تصوّربھی نہیں کر سکتیں۔‘‘ بالکل سپاٹ انداز سے اُس نے علی کا ایک میسج پڑھا۔
’’اور جس اذیت سے میں گذر رہی ہوں، تم صرف اس کا تصور ہی کر لو تو پاگل ہو جاؤ۔۔۔‘‘اُس نے بہت تلخی سے سوچا اور اُس کا اگلا ٹیکسٹ پڑھنے لگی۔
’’تم نے کبھی کسی جنگل میں خوشنما پھولوں کی زمین کے اندر چھپی دلدل کو دیکھا ہے ۔اُس کے اندر دھنس جانے کا تصور کتنا خوفناک ہوتا ہے۔تمہاری خاموشی اور ناراضگی اس دلدل سے بھی زیادہ ہولناک ہے میرے لیے۔۔۔‘‘ اُس کا ایک اور میسج عائشہ کا منتظر تھا۔ اُس کے دل کی ایک دھڑکن مس ہوئی اور آنکھیں پانیوں سے لبریز ہو گئیں۔ دریائے کنہار کے پانی میں اُس کے پاؤں فریز ہو چکے تھے لیکن وہ ان تمام چیزوں سے بے نیاز تھی۔دوسری جانب شاید اُس کو ڈلیوری رپورٹس موصول ہو گئیں تھیں اس لیے اب سام سنگ کی خوبصورت سکرین پر اُس کانمبر جگمگا رہا تھا۔
عائشہ جس جگہ پر براجمان تھی وہاں چاروں طرف خاموشی تھی دور کہیں کوئی جھرنا بہہ رہا تھا۔ اس خاموشی میں جھرنے کی آواز اور سیل فون کی مترنم سی گھنٹی اس کے اعصاب کے لیے ایک کڑاامتحان بن گئی ۔وہ اس کی آواز سننا نہیں چاہتی تھی ۔اس لیے تیسری دفعہ آنے والی کال پر اس نے فون کی آواز ہی بند کر دی۔وہ اب بے آواز رو رہی تھی۔
’’ میرے دل کی طرف آنے والے تمہارے سارے سگنل مجھے یہی پیغام دے رہے ہیں کہ تم مجھ سے ناراض ہو۔خفگی تمہارا حق ہے اور تمہیں منانا میری زندگی کی سب سے بڑی مجبوری ،کیوں کہ مجھے زندہ رہنے کے لیے اُس ہوا کی ضرورت ہے جو تمہاری جانب سے آتی ہے۔۔۔‘‘اُس کا ایک اور ٹیکسٹ عائشہ کے لیے سکرین پر نمودار ہوا۔
’’لیکن مجھے آپ کی ضرورت نہیں اس لیے مجھے کوئی کال یا ٹیکسٹ نہ کریں۔۔۔‘‘اُس نے دل پر جبر کر کے یہ لائن لکھی اور اگلے بندے کو بھیج دی۔دوسری جانب اس ٹیکسٹ کے بعد بالکل خاموشی چھا گئی۔ اب یہ خاموشی عائشہ کے دل پر کسی بلڈوزر کی طرح چلنے لگی ۔اُس نے کافی دیر تک تو برداشت کیا اور پھر ہچکیاں لے کر رونے لگی۔ناران کے پہاڑ بھی اس لڑکی کے رنج میں افسردہ افسردہ سے نظرآنے لگے۔
* * *
وہ اماوس کی ایک اور سیاہ رات تھی۔فضا میں حبس کا عنصر نمایاں تھا۔ہوا کی غیر موجودگی کی وجہ سے پورے ماحول پر عجیب سی کیفیت طاری تھی۔شہتوت اور پیپل کے درختوں کے پتّے اپنی اپنی جگہ ساکت تھے۔سکینہ لان کی سیڑھیوں کے پاس برآمدے میں وہیل چئیر پر بالکل خاموش بیٹھی تھی۔آج پورے ایک مہینے کے بیڈ ریسٹ کے بعد اُس نے سسٹر ماریہ سے درخواست کی تو وہ اُسے باہر لے آئیں۔امّاں گہری نیند میں تھیں اس لیے انہوں نے اُن کو اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔
’’سسٹر ماریہ،یہ ڈاکٹر خاور آجکل راؤنڈ پر کیوں نہیں آتے۔۔۔؟؟؟؟‘‘سکینہ نے اپنا لہجہ حتی الامکان سادہ رکھتے ہوئے وہ سوال کر ہی لیا جو وہ امّاں سے نہیں کر سکتی تھی۔
’’پتا نہیں ،آجکل کچھ الجھے الجھے سے ہیں۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ کی بات پر وہ چونکی۔’’اور ڈاکٹر زویا۔۔۔؟؟؟‘‘
’’ڈاکٹر زویا بھی منہ پھلائے پھرتی ہیں۔سارے راؤنڈز آجکل جونئیرز ڈاکٹرز اور پوسٹ گریجویٹ ٹرینرہی کر رہے ہیں۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ جو آج کال پر تھی اُس کے سامنے رکھے سنگ مرمر کے بینچ پر بیٹھ گئی۔
’’کیا ڈاکٹر خاور ،ڈاکٹر زویا سے محبت کرتے ہیں۔۔۔‘‘ سکینہ نے دل پر جبر کر کے یہ سوال پوچھ ہی لیا۔ جو وہ کافی دنوں سے پوچھنا چاہ رہی تھی۔سسٹر ماریہ اس ہسپتال میں کئی سالوں سے تھیں اور کافی ’’باخبر‘‘قسم کی نرس تھیں۔
’’پتا نہیں سکینہ،لیکن ڈاکٹر زویا تو ان کے پیچھے پاگل ہے ،سارا وارڈ جانتا ہے کہ وہ ڈاکٹر خاور کے پیچھے ہی پاکستان میں آئی ہے۔‘‘ سسٹر ماریہ نے ناک سے مکھّی اڑاتے ہوئے بیزاری سے کہا۔’’مجھے تو سخت زہر لگتی ہیں۔نک چڑھی سی۔۔۔‘‘
’’ہیں تو خوبصورت،کسی اجلی کرن کی طرح۔۔۔‘‘سکینہ اُداس ہوئی۔
’’آگ لگے ایسے حسن کو،جو صرف دوسروں کا دل جلانا ہی جانتا ہو۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ نے جل کر کہا ۔انہیں نہ جانے کیوں ڈاکٹر زویا سے سخت خار تھی ۔
’’خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔۔۔‘‘وہ استہزائیہ انداز میں ہنسی۔
’’یہ نزاکت نہیں،غرور ہے جس کا سر ہمیشہ نیچاہی ہوتا ہے۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ نے فوراً ہی تصحیح کی تو ایک پھیکی سی مسکراہٹ سکینہ کے لبوں پر ٹھہر گئی۔
’’ابھی تو ہم جیسے بدصورت لوگوں کے سر جھکے ہوئے ہیں۔خوبصورت لوگ بھی بلند میناروں کی طرح ہوتے ہیں ہمیشہ ان کو گردن اٹھا کر ہی دیکھنا پڑتا ہے۔۔۔‘‘سکینہ کی رنج میں ڈوبی آواز پر سسٹر چونک گئی۔’’سکینہ تمہیں کیا ہوا؟ ‘‘
’’مجھے کیا ہونا ہے۔۔۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں ہزاروں شکوے مچلے۔
’’سکینہ کہیں تجھے محبت کا روگ تو نہیں لگ گیا۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ نے خوفزدہ نظروں سے اپنے سامنے بیٹھی اُس لڑکی کو دیکھا جو اُسے بہت اچھی لگتی تھی۔
’’محبت بھی تو کسی دیوی کی طرح ہے وہ اپنے چرنوں میں ہر خاص و عام کو کہاں بیٹھنے دیتی ہے۔ہم جیسے لوگ جن پر کوئی دوسری نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا۔وہ تواس محبت کی تلاش میں من مندروں کے باہر بیٹھ کر گھنٹیاں ہی بجاتے رہتے ہیں ،لیکن ان کی آواز نہ کسی کے کانوں تک پہنچتی ہے اور نہ کسی کے دل کے دروازے ان کے لیے کھلتے ہیں‘‘ سکینہ کے فلسفیانہ اندازپرسسٹر ماریہ لاجواب ہو ئی۔
’’واہ سکینہ ،تجھے بھی اپنی امّاں اور ابّے کی طرح بڑی بڑی باتیں کرنا آ گئیں ہیں۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ نے اپنے دوپٹے کو جھلتے ہوئے گرمی کے احساس کو کم کیا۔
’’میری امّاں اور ابّا تو کسی اور ہی سیّارے کے لوگ ہیں۔صبر کے گھونٹ پیتے ہیں شکر کا لباس اوڑھتے ہیں ۔ان کی درویشانہ زندگی میں کسی بھی چیز کی گنجائش نہیں نکلتی۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اتنے سادہ لوگوں کی اولاد کو تخلیق کرتے ہوئے اللہ نے اتنا بے صبرا پن کیوں ڈال دیا۔‘‘ ماریہ نے تعجب سے سسٹر ماریہ کا حیرانگی میں ڈوباچہرہ دیکھا ۔
’’لوگ کہتے ہیں کہ اولاد اپنے والدین پر جاتی ہے ۔میں نے تو کوئی چیز بھی اپنے امّاں ابّا سے نہیں لی۔۔۔‘‘ سکینہ کو آج سچ بولنے کا دورہ پڑا ہوا تھا۔
’’بھئی یہ تو اللہ کی حکمتیں ہیں وہ ہی بہتر جانتا ہے،تم اپنے ذہن پر اتنا زور نہ ڈالا کرو۔‘‘ سسٹر ماریہ نے سستی سے جمائی لی۔پورے وارڈ میں اس وقت خاموشی کا راج تھا۔
’’میں نے سنا ہے سکینہ تجھے اس مقابلے والے سوہنے لڑکے نے پھول بھیجے ہیں۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ کو بیٹھے بیٹھائے اچانک ہی یاد آیا تو سکینہ چونک اُٹھی۔
’’آپ کو کس نے بتایا۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’مجھے کس نے بتانا تھا۔۔۔‘‘وہ ہنسیں۔’’جس دن وہ کورئیر والا آیا تھا میں بالکل پیچھے کوریڈور میں ہی توکھڑی تھی۔۔۔‘‘اُس نے فخر سے اپنا کارنامہ بتایا۔
’’لیکن آپ کوکیسے پتا چلا کہ یہ پھول اُسی لڑکے نے بھیجے ہیں۔۔۔‘‘سکینہ تعجب کا شکار ہوئی۔
’’لو یہ کون سا مشکل کام تھا۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ کھلکھلا کر ہنسی۔’’اُس دن مقابلے والے روز میں تمہارے ساتھ ہی تو تھی ۔ اُس کی بہن نے کئی دفعہ تو اُس کا نام لیا تھا۔پھر نام اتنا پیارا اور منفرد تھا اس لیے یاد رہ گیا۔‘‘
’’لیکن میں حیران ہوں کہ اُسے کیسے پتا چلا، میں یہاں ایڈمٹ ہوں۔۔۔‘‘سکینہ خود کلامی کے انداز میں بولی۔
’’بھئی وہ ڈاکٹر خاور کے پرائیوٹ والے کلینک میں آتا ہے ناں علاج کے لیے۔دوہفتے پہلے یہاں ہسپتال آیا ہوا تھا مجھ سے ملاقات ہوئی تو اُس نے تمہارا پوچھ لیا،میں نے کہا کہ یہیں کمرہ نمبر آٹھ میں ہے۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ نے فخریہ اپنا کارنامہ بتایا تو سکینہ نے بُرا سا منہ بنا کر اطمینان بھرا سانس لیا۔
’’اب یہ بات غلطی سے بھی میری امّاں کے سامنے نہ کر دیناوہ طبیعت سیٹ کردیں گی۔۔۔‘‘سکینہ نے اُسے ڈرایا تو وہ ایک دفعہ پھر ہنس دیں۔’’میرا دماغ تھوڑی خراب ہے ،خالہ کو تو اُس دن اُس کورئیر والے پر اتنا غصّہ آ رہا تھا کہ مجھے لگا کہ دوچار ہاتھ لگا ہی نہ دیں۔‘‘
’’خیر امّاں اب اتنا بھی آپے سے باہر نہیں ہوتی۔۔۔‘‘سکینہ نے نہ محسوس انداز سے اپنی ماں کی طرفداری کی۔
’’تمہیں پتا ہے کہ وہ لڑکا مصنوعی ٹانگیں لگوانے امریکہ جا رہا ہے۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ کی اطلاع پر وہ حیران ہوئی۔’’کیا واقعی۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’ہاں ناں،بہت پیسے والے لوگ ہیں ،اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا اور دو بہنوں کا ایک ہی بھائی ہے۔باپ اُس کا آرمی میں بہت بڑے عہدے پر ہے۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ کی معلومات اپ ٹو ڈیٹ تھیں سکینہ حیران ہوئی۔
’’امّاں کہتی ہے کہ پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا ،لیکن میں کہتی ہوں کہ پیسہ ایک ایسی چابی ہے جس سے کئی دروازے کھل سکتے ہیں ۔ایسے دروازے جن کے باہر ہم جیسے لوگ غریب حسرت بھری نگاہوں سے کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔‘‘ اُس کے لہجے میں تلخی در آئی۔
’’سکینہ ایک بات کہوں۔۔۔؟؟؟؟‘‘سسٹر ماریہ کے چہرے پر تذبذب کے آثار سکینہ کے لیے اچھنبے کاباعث بنے لیکن اس نے حبس بھری فضا میں سانس لیتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔
’’غصّہ تو نہیں کرئے گی۔۔۔؟؟؟‘‘ سسٹر ماریہ شش و پنچ کا شکار ہوئی۔
’’نہیں ناں۔۔۔‘‘سکینہ نے عجلت میں کہا۔
’’تم اُس لڑکے سے کہو کہ وہ تمہیں بھی علاج کے لیے باہر لے جائے اتنا تو ان کے پاس پیسہ ہے۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ کی بات پر سکینہ کو دھچکا سا لگا۔’’وہ مجھے کیوں لے جانے لگا۔۔؟‘‘ اُس نے سخت ناگواری سے سسٹر ماریہ کا پرجوش چہرہ دیکھا۔اُسے یہ بات بالکل پسند نہیں آئی۔
’’مجھے لگتا ہے کہ وہ تجھے پسند کرنے لگا ہے ورنہ اُسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ تجھے پھول بھیجتا ۔۔۔‘‘
’’سسٹر مجھے ایسی کوئی خوش فہمی نہیں ۔۔۔‘‘ سکینہ نے کاٹ دار لہجے میں اس کی بات قطع کی۔’’ہم جیسے لوگوں سے ایسے لوگ ہمدردی ضرور کر سکتے ہیں محبت نہیں۔۔۔’’ سکینہ نے تلخی سے کہا تو سسٹر ماریہ ذرا تیز لہجے میں گویا ہوئی۔
’’بھئی کوئی ہمدردی میں اتنا فکرمند کیوں ہونے لگا،میں نے اُسے تمہارے گرنے کا بتایا توہ سخت بے چین ہو گیا تھا ۔وہ بار بار مجھ سے تمہارا پوچھ رہا تھا۔‘‘ سسٹر ماریہ نے عجلت میں ایک اور راز افشا کیا تو سکینہ کی ساری الجھن دُور ہو گئی۔
’’ایک بات یاد رکھنا سسٹر،یہ دکھ اور تکلیف کا رشتہ بہت عجیب ہے ۔ہم لاکھ طبقاتی تضادات کا شکار ہوں جہاں ہمیں اپنے دکھ سے ملتا جلتا کوئی اور غم نظر آتا ہے تو ہم بے تاب ہو جاتے ہیں تب ہمیں کچھ لمحوں کے لیے شکل وصورت، اسٹیٹس اور ساری چیزیں بھول جاتی ہیں۔صرف اتنا یاد رہ جاتا ہے کہ یہ بھی اُسی تکلیف سے گذر رہا ہے جس سے میں دوچار ہوں ۔ایسا چاہے وقتی طور پر ہو،لیکن ہوتا ضرور ہے۔۔۔‘‘ سکینہ کے لہجے میں کوئی گہرا تجربہ بول رہا تھا۔
’’میں اگر اُس دن وہیل چئیر پر نہ بیٹھی ہوتی تو وہ مجھ پر ایک نظر ڈالنا بھی پسند نہ کرتا ۔یہ مشترکہ دکھ کا رشتہ بھی کبھی کبھی انسان کو ایک ڈور سے باندھ دیتا ہے۔۔۔‘‘ وہ شہتوت کے پتوّں کو اب آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے دیکھنے لگی۔
’’ہوا چل پڑی ہے ناں۔۔۔‘‘سسٹر ماریہ نے اُس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو بات بدلی۔’’بہت حبس والا موسم ہے۔ہے ناں۔۔۔؟‘‘
’’میری امّاں کہتی ہے کہ جب ہوا ٹھہر جائے اور ہر طرف حبس اور بے چینی ہو تو ایسے موسم میں کوئی اپنا کسی سے خفا ہوتا ہے ۔اُس کا دل دکھاتا ہے تو موسم بھی احتجاجاً سانس روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔جس سے فضا میں گھٹن کا احساس بڑھ جاتا ہے۔‘‘ سکینہ کی بات پر سسٹر ماریہ سخت حیران ہوئی۔
’’سکینہ تجھے کیا ہوگیاہے۔؟کیسی عجیب باتیں کرنے لگی ہے۔۔۔؟؟؟؟؟
’’مجھے محبت ہو گئی ہے سسٹر ماریہ۔۔۔‘‘ سکینہ نے ایک لمبا سانس لے کر انکشاف کیا تو سسٹر ماریہ کا سانس گلے میں ہی اٹک گیا۔وہ ششدر نگاہوں سے اُسے دیکھنے لگی ،جس کا چہرہ رات کی سیاہی میں اور زیادہ سانولا لگ رہا تھا لیکن اُس پر محبت کی سرخی جھلک رہی تھی۔
’’مرن جوگیے،یہ کیا،کیا تو نے۔۔۔‘‘ سسٹر ماریہ کے محبت بھرے لہجے میں فکرمندی چھلکی۔
’’میں نے تھوڑا کیا ہے،خود بخود ہو گیا۔۔۔‘‘ سکینہ نے وہیل چئیر کی پشت سے ٹیک لگا کر بے بسی سے کہا۔’’لیکن کس سے محبت ہوئی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘سسٹر ماریہ کا سانس اٹکا۔
’’سورج سے،جس کی طرف جانے والی ہر چیز جل جاتی ہے۔۔۔‘‘سکینہ جیسے نیند میں بولی اور سسٹر ماریہ کو یقین ہو گیا کہ رات کو ان درختوں کے نیچے بیٹھنے سے لڑکی پر سایہ ہو گیا ہے۔
’’اُف ۔۔۔!!!!کتنا پیارا لگ رہا ہے ناں ہمارا گھر۔۔۔‘‘ثنائیلہ کے لہجے میں خوشی اور بے یقینی کے سارے رنگ محسوس کر کے نابیہ مسکرا دی۔
’’یقین مانو،مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔۔۔‘‘وہ سچی مچی اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے بولی۔
’’بس بھی کرو یار،اب ایسا بھی کیا خوش ہونا کہ بندہ احمق ہی لگنے لگے۔۔۔‘‘نابیہ نے توصیفی نظروں سے پورے گھر کو دیکھتے ہوئے اُسے چھیڑا۔
’’یار میں کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ ہم مڈل کلاس طبقے کے لوگ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں ،چھوٹی چھوٹی خوشیاں اور چھوٹے چھوٹے خواب پورے ہوتا دیکھ کر کم از کم خوشی کے سچّے جذبے سے روشناس تو ہو جاتے ہیں ناں۔۔۔‘‘وہ بالکل بچوں کی طرح گول گول دائرے میں گھوم رہی تھی۔
’’میرا گھر میری جنت۔۔۔‘‘ثنائیلہ کے لہجے کی کھنک پر نابیہ نے معنی خیز نظروں سے اُسے دیکھا اور موڑھا سنبھال کر بیٹھ گئی۔’’محترمہ یہ آپ کی عارضی جنت ہے۔اصل گھر تو آپ کا وہ ہو گا جہاں آپ کے پیا جی آپکو بینڈ باجوں کے ساتھ لے کر جائیں گے۔۔۔‘‘
’’یار پیا گھر جب جانا ہوگا تب جانا ہوگا ناں،مجھے اپنا ’’آج ‘‘تو انجوائے کرنے دو۔۔۔‘‘ ثنائیلہ نے خوشگوار انداز سے کہتے ہوئے کھڑکی سے پردہ ہٹایا تو سامنے ہی گیلری میں بہت سے گملے ایک ترتیب سے رکھے ہوئے بڑا خوبصورت تاثر دے رہے تھے۔
’’کب آ رہے ہیں تمہارے ماموں اور ممانی ۔۔۔؟؟؟؟‘‘نابیہ نے تجسّس بھرے اندازسے پوچھا۔
’’اگلے مہینے کی دس تاریخ کو۔۔۔‘‘ثنائیلہ کا چہرہ سچی خوشی کے احساس سے چمکا۔ بہت عرصے کے بعد وہ کھل کر مسکرا رہی تھی۔
’’کوئی بچّے ہیں ان کے۔۔۔؟؟؟؟‘‘
’’ہاں شاید دو یا پھر تین ۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے بیڈ کی چادر ٹھیک کرتے ہوئے سادگی سے کہا ۔
’’کوئی بیٹا بھی ہے ان کا ہینڈسم سا کہ نہیں۔۔۔‘‘ نابیہ کے شرارت بھرے انداز پر وہ چونک گئی۔’’بھئی ہو بھی تو میری طرف کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔۔۔‘‘اُس نے بھی شوخی سے جواب دیا اور کشن گود میں رکھ کر اس کے بالکل سامنے صوفہ کم بیڈ پر بیٹھ گئی۔ گھر میں کافی نئی چیزوں کا اضافہ ہو چکا تھا جن میں سے ایک یہ صوفہ بھی تھا۔
’’ہمیشہ جب بھی سوچنا،اپنے بارے میں ہی سوچنا۔۔۔‘‘ نابیہ نے جل کر اُس کا ہنستا چہرہ دیکھا۔
’’کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ثنائیلہ کو ابھی ابھی اُس کی بات سمجھ میں آئی۔
’’بھئی اب کب تک تمہارے بے وفا بھائی کا سوگ مناؤں ،جو مجھے دن دیہاڑے خواب دِکھا کر خود اپنے سے اتنی بڑی عمر کی لڑکی سے شادی رچا کر بیٹھ گیا ہے۔۔۔‘‘ نابیہ کا انداز خوشگوار لیکن لہجہ درد میں ڈوبا ہوا تھا۔ ثنائیلہ کے چہرے پر ایک تاریک سایہ دوڑا۔
’’وہ تمہارے قابل ہی کہاں تھا۔خود غرض لوگوں کی زندگی کی ترجیحات میں محبت کا نمبر سب سے آخری ہوتا ہے۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے بھی آج اُس سے کھل کر بات کرنے کی ٹھان ہی لی۔ وہ اس محبت کی داستان کا ایک خاموش کردار تھی۔
’’ہوں ۔۔۔‘‘وہ زبردستی مسکرائی۔’’مجھے نہ جانے کیوں لگتا تھا کہ میں اسے اپنی محبت سے بدل دوں گی۔۔۔‘‘نابیہ کا لہجہ تھکن گزیدہ تھا۔اُس کی آنکھوں میں نمی لہرائی۔
’’محبت تو بہت حساس جذبہ ہے ۔یہ اُسی دل پر اثر کرتا ہے جو اُس کے راگ سمجھتا ہو۔جب کہ شہیرکی زندگی میں ایسی چیزوں کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔جس کو جنم دینے والی ماں اور بے غرض محبت کرنے والی بہن کا احساس نہیں وہ کسی اور شخص کے نازک جذبوں کی کہاں حفاظت کرتا۔‘‘ثنائیلہ اٹھ کر بالکل اس کے پاس آن بیٹھی۔
’’تم بہت اچھی لڑکی ہو۔اور بعض لوگ بہت بد قسمت ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اچھی چیزیں راس نہیں آتیں۔وہ اپنی بے وقوفی میں ان چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جو ان کے حق میں بہتر نہیں ہوتیں۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے اس کا نرم ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے محبت سے کہا۔
’’بس اچھے لوگوں کی بھی ایک خامی ہوتی ہے کہ انہیں بہت سادہ اور آسان باتیں اپنے دل کو سمجھانا نہیں آتیں۔۔۔‘‘نابیہ نے ہاتھ کی پشت سے اپنی نم آنکھوں کو صاف کیا۔
’’خبردار ،رونا نہیں،میں جان نکال دوں گی۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے انگلی اٹھا کر اُسے وارننگ دی تو وہ روتے روتے مسکرا دی۔
’’یار تم تو میری طاقت ہو۔مجھے حوصلہ دیتی ہو اور خود اندر سے چڑیا کی طرح تمہارا دل ہے۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے اُسے چھیڑا تو وہ ایک دم خفت کا شکار ہوئی ۔
’’اچھا چھوڑو،یہ بتاؤ کہ تم اپنے سکندر شاہ سے کب ملواؤ گی مجھے۔۔۔‘‘ اُس نے فوراً ہی موضوع بدلا تو سکندر شاہ کے نام کے ساتھ ہی ثنائیلہ کے چہرے پر اترنے والی دھنک نے اُسے مبہوت کر دیا۔
’’بہت جلد،میں نے اُسے بتایا تھا تمہارے بارے میں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کی اطلاع پر وہ پرجوش ہوئی۔’’اچھا۔۔؟؟؟واقعی۔۔۔؟؟؟‘‘
’’ہاں ناں،لیکن وہ کچھ عرصے کے لیے امریکہ جا رہا ہے۔وہاں سے آ جائے تب ملوانے لے کر جاؤں گی۔‘‘ثنائیلہ کی بات پر وہ تھوڑا سا مایوس ہوئی۔
’’دھیان سے ،ایسا نہ ہو کہ کوئی امریکن میم بھی ساتھ ہی لے آئے۔۔۔‘‘نابیہ نے ہنستے ہوئے اُسے چھیڑا۔
’’خیر اب ایسے بھی کوئی حالات نہیں۔۔۔‘‘ وہ حد درجہ پر اعتماد انداز سے گویا ہوئی تو نابیہ نے رشک بھری نگاہوں سے اُس کا چہرہ دیکھا جو دن بہ دن نکھرتا ہی جا رہا تھا۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...