’’لگتا ہے کہ اللہ نے بھی چن چن کر سارے نمونے میرے ہی گھر میں بھیج دیے ہیں۔۔۔‘‘عائشہ جیسے ہی گلاس وال کو دھکیل کر اندر داخل ہوئی تو ماما کی سرد اور غصّے سے لبریز آواز نے اُس کا استقبال کیا تھا۔اُس کے قدم وہیں تھم گئے ۔
’’ناکوں چنے چبوا دیے ہیں ان بچوں نے مجھے،سخت بے زار ہو گئی ہوں میں۔۔۔‘‘ماما کے لہجے میں باہر کے تپتے موسم سے زیادہ حرارت تھی اس کا اندازہ تو عائشہ کو ایک لمحے کو ہو گیا تھا۔ سامنے لاؤنج کے بڑے صوفے پر بریزے چکن لان کے سوٹ میں ماما اور ان کے مدمقابل ماہم کے ساتھ ساتھ ثمن آپی کو دیکھ کر اُسے خوشگوار سی حیرت ہوئی۔ ٹی وی لاؤنج کے دوسرے حصّے میں موحد ان کی طرف پشت کیے لاتعلق سے انداز میں بیٹھا تھا۔
’’السلام علیکم۔۔۔‘‘اُس نے ہلکا سا اندر جھانکا تو وہ تینوں خواتین چونک گئیں۔’’یہاں کا ماحول تو باہر کی نسبتاً زیادہ گرم ہے،اے سی تیز کردوں کیا۔۔۔‘‘اُس کے شرارت بھرے انداز پر ماما کے ماتھے کی شکنوں میں بڑی سرعت سے اضافہ ہوا ۔
’’وعلیکم سلام لڑکی،تم کہاں اتنی سخت گرمی میں دورے کرتی پھر رہی ہو۔۔۔؟؟‘‘ثمن آپی نے فوراً اُسے محبت سے گلے لگایا۔’’ذرا آئینے میں چہرہ دیکھو اپنا، ساری اسکن رف کر لی ہے تم نے۔‘‘ثمن آپی کو ویسے ہی اس سے بے تحاشا محبت تھی لیکن اس وقت تازہ تازہ ماما کی دکھ بھری داستان کے زیر اثر انہوں نے اُسے گھور کر دیکھا جو لاپرواہی سے ٹرالی سے جگ اٹھا کر لیمن اسکوائش گلاس میں انڈیل رہی تھی۔
’’مجھے چھوڑیں آپ تو اتنی گرمی میں بھی لشکارے مار رہی ہیں،کل ٹی وی پر آپ کا مارننگ شو دیکھا تھا میں نے،آفت لگ رہی تھیں۔۔۔‘‘اُس نے کنکھیوں سے ماما کا بیزار چہرہ دیکھتے ہوئے ماہم کے ساتھ والی سیٹ سنبھالی۔
’’عائشہ میں تمہارے سارے مسکے سمجھتی ہوں۔۔۔‘‘ثمن آپی کھلکھلا کر ہنسیں ۔ماہم کی بڑی بہن ہونے کے ناطے وہ اپنی تعریف اپنا حق سمجھ کر وصول کرتی تھیں۔ویسے بھی دونوں بہنوں کی عادات میں کافی مماثلت تھی اور دونوں ہی حسن کی دولت سے مالا مال تھیں۔
’’واقعی ثمن آپی یہ میرون کلر آپ پر بہت سوٹ کر رہا ہے اور آپ تو دن بہ دن نکھرتی جا رہی ہیں۔‘‘عائشہ نے کھلے دل سے انہیں سراہا ۔
’’ظاہر ہے اپنا خیال رکھتی ہیں وہ،تمہاری طرح نہیں کہ سر جھاڑ منہ پھاڑ بن کر اپنی ماں کو ہر جگہ شرمندہ کرواتی پھرو۔۔۔‘‘ماما کے سلگ کر بولنے پر ماہم اور ثمن آپی بے ساختہ ہنس پڑیں۔ جب کہ عائشہ نے آنکھ کے اشارے سے ماما کی مشیر خاص ماہم سے ان کی برہمی کا سبب پوچھا۔اُس کی بد قسمتی کہ اس کا اشارہ ماما کی زیرک نگاہوں سے چھپ نہیں سکا تھا۔’’یہ ماہم سے کیوں ،آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھتی پھر رہی ہو،مجھ سے براہ راست پوچھ لو۔۔۔‘‘ماما کا لہجہ سخت اور ہنوز خفگی لیے ہوئے تھا۔
’’میں تو آنکھوں ہی آنکھوں میں اس لیے پوچھ رہی تھی تاکہ آپ کو کانوں کان خبر نہ ہو۔۔۔‘‘عائشہ کے اندازمیں بے ساختہ سی شوخی چھلکی۔
’’بیٹا اتنی بے وقوف نہیں ہوں میں،ساری زندگی تمہارے فوجی باپ کے ساتھ گذاری ہے جو گھر میں بھی ہر وقت کرفیو لگائے رکھتے تھے۔‘‘ ماما نے ابرو چڑھا کر اُسے دیکھا ،ہلکے انگوری رنگ کے لان کے سوٹ کے ساتھ اتنی گرمی میں بھی وہ جوگرز پہنے ہوئے تھی۔چہرہ میک اپ سے مبّرا اور دھوپ کی زیادتی سے مرجھا سا گیا تھا۔وہ ابھی تک سمجھنے سے قاصر تھی کہ یہ آج توپوں کا رخ اسکی جانب کس خوشی میں ہوا ہے۔
’’توبہ کریں ماما ،کیوں میرے اتنے سویٹ بابا کو بد نام کرتی ہیں۔۔۔‘‘عائشہ نے خالی گلاس میز پر رکھتے ہوئے ایک دفعہ پھر شوخی سے لبریز لہجے میں انہیں چھیڑا۔’’ویسے یہ کابینہ کا اجلاس خیر سے بلوایا تھا آپ نے ۔۔۔‘‘‘؟؟؟ اُس کی شرارت پر ماہم اور ثمن آپی ایک دفعہ پھر ہنس
’’فکر نہ کرو،سینیٹ کا یہ اجلاس آنٹی نے نہیں بلوایا،ہم لوگ خود سے انہیں ملنے آئے تھے ۔یہاں آ کر معلوم ہوا کہ تم انہیں ’’لارا‘‘لگا کر حسب عادت غائب ہو۔‘‘ ماہم کی بات پر اُس کے ذہن میں جھپاکا سا ہوا۔اُسے ماما کی ناراضگی کی وجہ اچانک ہی سمجھ میں آ گئی ۔
’’اوہ شٹ۔۔۔‘‘اُ س نے دونوں ہاتھوں سے سر تھاما’’آج تو ماما کے ساتھ مسز ہمدانی کے ہاں لنچ پر جانا تھا۔سو سوری ماما،مصروفیت میں ذہن سے نکل گیا۔‘‘اُس کے شرمندہ انداز پر بھی ماما کی برہمی کم نہیں ہوئی تھی۔
’’تم بہت عجیب و غریب لڑکی ہو عائشہ۔۔۔‘‘ اپنے جوگرز کے تسمے کھولتے ہوئے وہ ثمن آپی کی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’پہلے فیصلہ کر لیں کہ میں ’’عجیب‘‘زیادہ ہوں یا ’’غریب‘‘۔۔۔‘‘ عائشہ کے ہلکے پھلکے انداز پر ماہم نے اپنی ستواں ناک چڑھا کر اُسے دیکھا۔
’’محترمہ آپ ثمن آپی سے کیوں پوچھتی ہیں،ہم بتا دیتے ہیں۔‘‘ ماہم کے لہجے میں طنز کی کاٹ تھی۔’’آپ پہلے مدر ٹریسا کے روپ میں صرف ’’عجیب‘‘لگتی تھیں لیکن اب اپنے حلیے سے دن بہ دن ’’غریب ‘‘لگتی ہیں،بندہ پوچھے اتنی گرمی میں جوگرز پہننے کی تک کیا بنتی ہے۔‘‘ماہم نے استہزائیہ انداز سے اُسے اوپر سے لے کر نیچے تک دیکھا ۔
’’یار ماما کو بتا کر گئی تھی کہ آج یونیورسٹی میں تھیلسمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے لیے کیمپ لگایا ہے اور یونیورسٹی میں پتا ہے ناں کہ کتنا چلنا پڑتا ہے۔‘‘اُس کا لہجہ سادگی اور نرمی کا امتزاج لیے ہوا تھا۔
’’خیر سے یہ تھیلسمیا کے بچوں کی خدمت خلق کا خیال میم عائشہ کو کیسے آ گیا،روشنی ڈالنا پسند کریں گی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم کے طنزیہ انداز پر وہ تھوڑا سا خجل ہوئی۔
’’ایسے مشورے لینے کے لیے اسے باہر جانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ماما کے انداز میں بھی آج ضرورت سے زیادہ کڑواہٹ تھی ۔’’خیر سے باپ اور بیٹی کو ایسے دورے وقتا فوقتا پڑتے ہی رہتے ہیں۔بندہ کم از کم اپنا اسٹیٹس تودیکھتا ہے ۔‘‘ ماما کو سخت غصّہ تھا کہ اُس نے ان کے کینیڈا جانے کے بعد چپ چپاتے ایک فلاحی تنظیم جوائن کر لی تھی۔
’’کم آن ماما،ہمارے سوشل سرکل میں ساری خواتین کسی نہ کسی این جی او سے وابستہ ہیں اور اس بات کا تذکرہ بھی وہ بڑے فخر سے کرتی ہیں۔‘‘ عائشہ کے ہونٹوں پر آج لگتا تھا کہ مسکراہٹ منجمد ہو گئی
’’وہ فضول کاموں کے لیے سخت گرمی میں صبح و شام سڑکوں پرمٹر گشت نہیں کرتیں۔کلب کی میٹنگ میں ہی سارے کام نبٹا لیتی ہیں۔اللہ جانے یہ ساری دنیا سے نرالی اولاد مجھے ہی کیوں ملی ہے۔‘‘مسز رحیم کا تو آج غصّے والاپیمانہ چھلکا ہی پڑا تھا۔انہوں نے کھاجانے والی نظروں سے عائشہ کو دیکھا جو ریموٹ کنٹرول سے کھیل رہی تھی۔
’’مجھے لگتا ہے آنٹی ، عائشہ میں مدر ٹریسا کی روح تحلیل ہو گئی ہے۔۔۔‘‘ماہم طنز کرنے میں ماہر تھی اس بات کا اندازہ اُسے تھا تو سہی لیکن آج اس کا یہ فن عروج پر تھا۔۔’’پہلے یونیورسٹی میں اس کے یہ ڈرامے ہوتے تھے۔میں نے سوچا کہ دوچار دن کا بخار ہے اتر جائے گا،لیکن یہاں تو لگتا ہے کہ بخار خاصا بگڑ چکا ہے۔‘‘
’’پتا نہیں ،اسے گندے مندے بچوں کو پیار کرتے ہوئے الجھن کیوں نہیں ہوتی،پچھلے ہفتے چوکیدار کی نواسی کو خسرہ نکلا ہوا تھا اور عائشہ رحیم صاحبہ اسے گود میں اٹھائے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے جا رہی تھیں۔مجھے ٹینشن ہو رہی تھی لیکن اسے کوئی پرواہ ہی نہیں تھی ۔‘‘ مسز رحیم کو اچانک ہی کچھ دن پہلے کا منظر یاد آیا تو انہوں نے بیٹھے بیٹھے ناگواری سے پہلو بدلا۔
’’آنٹی یہ تو صرف خسرے کی مریضہ بچی تھی یہ محترمہ تو ایک دن میری گاڑی کے نیچے آنے والی ایک غلیظ سی بلی کو اٹھا کر جانوروں کے ہسپتال لے گئیں تھیں۔یقین کریں کہ مجھے تو دیکھ کر ہی وومٹنگ کا احساس ہو رہا تھا اورگھر جا کر میں نے ساری گاڑی واش کروائی۔‘‘ ماہم کے لہجے کی تلخی سے عائشہ کو پہلی دفعہ احساس ہوا کہ آج واقعی اُس کے ستارے گردش میں تھے۔
’’مائی گاڈ۔۔۔!!!!عائشہ کیا چیز ہو تم۔۔۔‘‘ ثمن آپی نے ٹشو پیپر سے ہونٹوں کے کونوں کو نزاکت سے صاف کیا وہ اب تعجب سے اُسے مسلسل مسکراتے دیکھ رہی تھیں۔
’’مائی گاڈ،ذرا سا لنچ بھول جانے پر آپ لوگ اس طرح سے پرانے کھاتے کھول کر بیٹھ جائیں گے، مجھے اس چیز کا اندازہ ہوتا تو یہ غلطی کبھی نہ کرتی۔‘‘عائشہ کے لہجے میں بھی ہلکی سی ناگواری در آئی تھی۔
’’بُری بات عائشہ ۔۔۔!!!!ایسی باتوں کا خیال رکھتے ہیں۔لڑکیوں کو اتنی لاپرواہی سوٹ نہیں کرتی۔۔۔‘‘ثمن آپی نے بھی نصیحت کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔
’’ثمن کیوں بھینس کے آگے بین بجا رہی ہیں،میں اس سے سخت مایوس ہو چکی ہوں۔۔۔‘‘ماما نے ایک سرد اور لاتعلق سی نگاہ عائشہ پر ڈالتے ہوئے زہر خند لہجے میں کہاتھا۔وہ اب کچن میں جانے کے لیے کھڑی ہوئیں۔
’’ماماکون سا ایسا گناہ کر دیا ہے عائشہ نے ،جو آپ اس طرح عدالت سجا کر بیٹھ گئی ہیں ۔۔۔‘‘بالکل خاموش بیٹھا موحد ایک دم ہی چیخا،اُس کے ماتھے کی رگیں ابھر سی گئیں تھیں۔اُس کے اس طرح اچانک چیخنے پر کمرے میں سناٹا سا چھا گیا ۔
’’کون سا دنیا سے انوکھا کام کر دیا ہے اُس نے،شکر ادا کیا کریں کہ آپ کی بیٹی میں انسانیت ہے ،بے حّس نہیں ہے وہ ‘‘موحدنے قدرے خشونت سے سب کو دیکھتے ہوئے تلخی سے کہا۔وہ اب ان سب کے بالکل سامنے وہیل چئیر پر بیٹھا تھا ۔اس کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔
’’بیٹا میرا مطلب یہ نہیں تھا۔۔۔‘‘ماما بوکھلا کر صوفے پر بیٹھ گئیں مہمانوں کی موجودگی میں موحد کے مشتعل ہونے سے وہ سخت گھبرا گئیں۔اُن کے اعصاب تن سے گئے ۔
’’میں بچّہ نہیں ہوں مجھے سب چیزوں کے مطلب سمجھ میں آتے ہیں۔‘‘اُس نے غصّے سے ہاتھ میں پکڑا انگلش میگزین گھما کر دیوار میں دے ڈالا تو سبھی دم بخود رہ گئے ۔’’فارگاڈ سیک ماما ،اپنی اولاد کی جن چیزوں پر آپ کو فخر کرنا چاہیے آپ اُن پر شرمندہ ہوتی پھرتی ہیں،کیسی ماں ہیں آپ۔۔۔‘‘ وہ پتھریلے لہجے اور بیگانگی سے بھرپور آنکھوں سے ان چاروں کو دیکھ رہا تھا جو شدید اعصابی تناؤ کا شکار نظر آرہی تھیں۔انہوں نے اس سے پہلے موحد کا یہ روپ کب دیکھا تھا بھلا۔
’’ عائشہ کو اس کی زندگی جینے دیں،کیوں اُسے مصنوعی چیزیں سیکھاتی ہیں۔اُسے بے حّس ہونے کے سبق دیتی ہیں۔چہرے پر لیپا پوتی کرنے سے انسانی روح صاف شفاف نہیں ہو جاتی۔چہرے کی رنگت کو سنوارنے کی بجائے اُسے لوگوں کی زندگیوں کو سنوارنے دیں،یہ خوبصورت جسم چار دن کی چاندنی ہے ۔یہ کاغذی پھول جیسے چہرے کسی کو زیادہ دیر تک اچھے نہیں لگتے ‘‘موحد سبھی کے کانوں میں پگھلا سیسہ انڈیل رہا تھا۔
’’اُس دن وہ بیٹ مین کی بہن کی شادی پر گئی اور آپ نے ہنگامہ کھڑا کر دیا،وہ یتیم خانے کے بچوں کو پڑھانے کے لیے جانے لگی تو آپ کو وہ ناگوار گذرا۔سارا سارا دن وہ کسی بیوٹی سیلون میں ہزاروں روپے بربادکر دے یہ آپ کو قبول ہے وہ پیسے کسی غریب کے کام آ جائیں یہ بات آپ کو پسند نہیں۔‘‘ موحد کے اس غیر معمولی انداز نے عائشہ کو بھی مخمصے میں ڈال دیا۔وہ نہ جانے کہاں کا غصّہ کہاں نکال رہا تھا۔
’’بیٹا یہ مالی،چوکیدار اور ملازموں کی مدد کرنے سے میں نے کبھی نہیں روکا ،لیکن اس طرح ان کے گھروں میں جاکر ان کے بچوں کو پڑھانا ہمارا اسٹیٹس نہیں۔‘‘ماما نے بوکھلا کر وضاحت دینے کی کوشش کی جو ان کے گلے ہی پڑ گئی۔
’’یہ اسٹیٹس ،وٹیٹس کی بات کم از کم میرے سامنے نہ کیا کریں،کیا ہے آ پ کا اسٹیٹس۔۔۔؟؟؟ذرا آج بتا ہی دیں۔۔۔‘‘اُس نے ایک دم بھڑ ک کر انگلی کے اشارے سے پوچھا ’’یہ بدبو دار،بے حسی اور خودغرضی کی اینٹوں سے بنا آپ کا اسٹیٹس،جس میں انسانیت نام کی کسی چیز کی کوئی گنجائش نہیں۔یہ روپے پیسے کی چمک دمک سے بنا اسٹیٹس جس کی ہر چیز سے مصنوعی پن ٹپکتا ہے۔جہاں انسان کے وزن کا اندازہ اس کی مالی حیثیت سے لگایا جاتا ہے تو آپ بھی آج یہ اپنی غلط فہمی دور کر لیں اگر آپ کے گلے میں لیفٹینٹ جنرل عبدالرحیم کی مسز ہونے کا ٹیگ نہ ہوتو کوئی آپ پر ایک نظر ڈالنا بھی پسند نہ کرئے۔‘‘وہ کسی ٹوٹتی چٹان کی طرح تڑخا تھا۔ماما کو اس کی بات پر دھچکا سا لگا ۔
’’اس اسٹیٹس میں آپ کی اپنی ذاتی حیثیت کہاں ہے۔کبھی سوچا ہے آپ نے۔۔۔؟؟؟؟؟ ‘‘اُس کی آنکھوں سے شرارے نکلے۔
’’کم آن بھائی،کیا ہو گیا ہے۔دفع کریں ان باتوں کو۔‘‘ عائشہ بوکھلا کر کھڑی ہوئی ’’ماما ٹھیک کہہ رہی ہیں ،میری غلطی تھی مجھے بھول گیا تھا کہ لنچ پر جانا ہے اس لیے ماما خفا ہو رہی تھیں۔‘‘ عائشہ نے فورا اٹھ کر اس کے کندھوں کو ہلکا سا دبا کر اُسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تھی جو کچھ کامیاب رہی تھی۔اس لیے وہ اب بولا تو لہجے میں قدرے نرمی تھی۔
’’تمہیں تو ذرا سا لنچ بھولا ہے جب کہ لوگ تو دوسروں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔۔۔‘‘موحد کا چہرہ شدید نوعیت کی اعصابی شکست و ریخت کا غماز نظر آ رہا تھا۔اُس کی بات پر ماہم نے بے چینی سے پہلو بدلا ۔
’’ماما کوخود خیال کرنا چاہیے،کیوں ہر تیسرے دن یوں عدالت کا کٹہراسجا کر بیٹھ جاتی ہیں۔لوگوں کے سامنے اپنے دکھڑے روتی ہیں۔عائشہ ایسی کیوں ہے۔۔۔؟موحد ویسا کیوں ہے۔۔۔؟خدارا معاف کردیں ہمیں۔‘‘ اُس نے باقا عدہ ہاتھ جوڑ کرتلخی سے کہا تھا۔اُس کے متنفّرانداز پر ماما کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔
’’کیا ہو گیا ہے موحد،کیوں اتنے ٹچی ہو رہے ہو۔آنٹی تو شروع ہی سے تم لوگوں کی ایسے ہی کئیر کرتی ہیں۔‘‘ثمن آپی نے محتاط انداز سے کہتے ہوئے اُس کی سرخ آنکھوں سے نظریں چرائی۔ثمن آپی کی بات پر ایک زہریلی سی مسکراہٹ اُس کے چہرے پر ٹھہر گئی لیکن وہ خاموش رہا ۔
’’موحد پلیز یہ آنٹی کو اذیت دینابند کرو۔وہ کوئی ایسی غلط باتیں بھی نہیں کر رہی ہیں تم خوا مخواہ جذباتیت کا شکار ہو رہے ہو۔۔۔‘‘ماہم نے ناگواریت سے اُسے ٹوکاجو اُس کی بات پر دل جلانے والے انداز سے ہنس رہا تھا۔۔
’’تمہیں تو ماما کی ساری باتیں ہی ٹھیک لگیں گی کیونکہ وہ کچھ باتوں میں بالکل تمہاری طرح سخت دل ہیں۔‘‘موحد کی بات پر ماہم کا چہرہ سرخ ہوا۔’’جہاں تک جذباتی ہونے کی بات ہے تو دنیا ہم جیسے جذباتی لوگوں کی وجہ سے ہی چل رہی ہے جنہوں نے انسانیت کے جذبے کو بچا رکھا ہے ورنہ بے حسی کی ردا اوڑھ لینا کون سا مشکل کا م ہے بس ایک لمحہ لگتا ہے۔‘‘ اپنی بات مکمل کر کے وہ جا چکا تھا لیکن اس کی باتوں کی تلخی کا دھواں اے سی کی ٹھنڈک کے ساتھ پورے کمرے میں پھیل چکا تھا۔
* * *
’’ڈاکٹر خاور آپ کو پتا ہے کہ زندگی سب سے زیادہ بُری کب لگتی ہے ۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویا نے ہسپتال کی لمبی شاہراہ پر پیدل چلتے ہوئے ایک دم رک کر کہا۔دونوں اطراف سے درختوں میں گھری یہ سڑک بہت خوبصورت تاثر چھوڑتی تھی اور آج تو موسم ویسے ہی غضب کا تھا۔وہ دونوں فارغ تھے اس لیے لمبی واک کرتے ہوئے رہائشی علاقے کی طرف نکل آئے تھے۔
’’نہیں زویا ،مجھے ایسا کوئی تجربہ نہیں۔۔۔‘‘ وہ بھی چلتے چلتے رکے اور انہوں نے ایک درخت کی ٹہنی کو ہلکا سا شرارت سے ہلایا تو بہت سے سفید پھول ڈاکٹر زویا کے اوپرآن گرے انہوں نے چونک کر اپنے سے کچھ فاصلے پر مردانہ وجاہت سے مالا مال شخص کو دیکھا جن کو دیکھتے ہی اُس کے دل کی دھڑ کنیں بے ترتیب ہو جاتی تھیں۔
’’ڈاکٹر خاور،زندگی سب سے زیادہ بُری اس وقت لگتی ہے جب آپ کا کوئی بہت پیارا دوست آپ سے روٹھ جائے ۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویاکی آنکھوں سے جھلکتے منہ زور جذبے پر وہ بُری طرح چونکے ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے سامنے کھڑی دلکش سی لڑکی کو دیکھا جو گلابی لان کے سوٹ میں بہار کا ہی کوئی خوبصورت رنگ لگ رہی تھی۔
’’آپ میری اس دن والی بات کے پس منظر کی وجہ سے کہہ رہی ہیں تو میں وضاحت کر دوں کہ میں آپ سے خفا نہیں تھا،بس ہلکا سا گلہ تھا۔‘‘انہوں نے صاف گوئی سے کہا۔وہ دونوں پھر چلنے لگے ۔
’’دیکھیں ڈاکٹر خاور آپ کی اور میری دوستی کو ئی آج کی نہیں ہے ۔۔۔‘‘وہ چلتے چلتے رکیں۔ ’’ہم نے اپنی ساری میڈیکل لائف اکھٹے گذاری ہے۔میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جو آپ اس طرح مجھ سے ناراض ہوئے۔یقین کریں میں پوری دو راتیں سلیپنگ پلز لینے کے باوجود نہیں سو سکی۔۔۔‘‘ڈاکٹر زویا کی آنکھوں میں ایک خاموش سا شکوہ تھا۔
’’آئی ایم سوری زویا،میرا مقصد آپ کو تکلیف دینا نہیں تھا۔۔۔‘‘ وہ دونوں بازو سینے پر باندھے اب اپنی سحر انگیز آنکھوں کو ان پر ٹکائے کھڑے تھے۔ڈاکٹر زویا کے دماغ سے سارے لفظ بھک کر کے اڑ گئے۔
’’آ پ کو پتا ہے ناں مجھے اپنے پروفیشن سے محبت نہیں عشق ہے اور میں اس چیز پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔مجھے لگا کہ آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں ،بس ا سی وجہ سے میں تھوڑا تلخ ہو گیاتھا۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے سیاہ تارکول کی سڑک پر پھیلے سفید پھولوں کو دلچسپی سے دیکھتے ہوئے وضاحت دی۔
’’ڈاکٹر خاور۔۔۔میں بھلاآپ کو کیوں غلط سمجھوں گی۔۔۔‘‘ وہ اپنی بڑی بڑی سنہری آنکھیں پھیلائے سخت حیرت سے اُس دشمن جاں کو دیکھ رہی تھیں۔’’آپ کا اور میرا ساتھ کوئی آج کا نہیں سات آٹھ سالوں پر محیط ہے اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے آپ کی وجہ سے پاکستان آنے کا ارادہ کیا اور اس بات کی وجہ سے ماما،پاپا ابھی تک مجھ سے ناراض ہیں۔ڈاکٹر زویا کے لہجے میں ہلکی سی افسردگی در آئی۔
’’حالانکہ ان کو معلوم ہے کہ ایسے بے وقوفانہ فیصلے آپ ہمیشہ سے کرتی آئی ہو۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کا شریر انداز اُسے اچھا لگا ۔
’’ہاں صرف ،آپ کے لیے۔۔۔‘‘۔ڈاکٹر زویا کی گھنی پلکوں میں ایک ارتعاش سا برپا ہوا۔اُس کے چہرے پر اس سمے اتنے رنگ تھے کہ ڈاکٹر خاور نے بمشکل اپنی نظریں ان پر سے ہٹائیں۔وہ اب ایک درخت کی کھوہ میں دبکے گلہری کے بچے کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔انہوں نے ڈاکٹر زویا کی اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ۔
’’آپ بہت ظالم انسان ہیں ڈاکٹر خاور،کیا آپ کی زندگی میں محبت نام کی کسی چیز کی کوئی گنجائش نہیں۔۔۔‘‘ ان کی خاموشی سے اکتا کر اُس نے رنجیدگی سے کہاتو وہ متانت بھرے انداز سے مسکرا دیے۔
’’میں ظالم انسان نہیں ہوں زویا،تھوڑا سا مختلف ہوں۔۔۔‘‘وہ اب گہری نظروں سے اپنے سامنے کھڑی جھنجھلائی سی لڑکی کو دیکھ رہے تھے ۔جس کے دل کے نہاں خانوں میں چھپے جذبوں نے اُس کے رخساروں میں گلابیاں بھر دی تھیں۔
’’میری زندگی میں محبت نام کا کوئی پڑاؤ نہیں۔میں محبت نہیں عشق کے جذبے کی طاقت پر یقین رکھتا ہوں اور عشق بھی جو کسی ارفع مقصد سے ہو ۔جو انسان کی مردہ رگوں میں زندگی کا گرم لہو دوڑا دے۔‘‘وہ گل لالہ کے پھولوں کی کیاری کے پاس رکے بڑی سنجیدگی سے کہہ رہے تھے لیکن ان کا انداز ٹالنے والا تھا۔
’’ہاں وہ ہی عشق جو آپ کو صرف اور صرف اپنے پروفیشن سے ہے۔۔۔‘‘زویا کے جل کر بولنے پر وہ بے ساختہ ہنس پڑے ۔
’’ہاں کہہ سکتی ہیں آپ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ شرارتی نظروں سے زویا کا جھنجھلایا ہوا سرخ چہرہ دیکھ رہے تھے۔
’’ٹھیک کہا ہے مومن خان مومن نے کیوں سنے عرض، مضطرب مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
وہ زویا کی برجستگی پر کافی محظوظ ہوئے۔دونوں چلتے چلتے کافی دُور نکل آئے تھے۔ان دونوں کے درمیان خاموشی چپکے سے آکر ساتھ چلنے لگی تھی۔
’’ ایک بات تو بتائیں خاور۔۔۔؟؟؟؟‘‘ وہ کسی غیر مرئی نقطے کو گھورتے ہوئے گویا تھی ،وہ چونک سے گئے ۔’’آپ کو اپنی پیشنٹ سکینہ کیا بہت عزیزہے۔۔۔‘‘ اُس کے تھمے تھمے لہجے پر خاور نے بغور اُسے دیکھا۔
’’مجھے سکینہ ہی نہیں اپنا ہر مریض بہت عزیز ہے۔ ۔۔۔‘‘ انہوں نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔’’میں اللہ سے بس ایک ہی دعا مانگتا ہوں کہ جو بھی شخص میرے پاس آئے اللہ اُس پر کرم کر کے اُسے میرے ہاتھوں شفاء دے ۔میں اپنی میسحائی انسانیت کے لیے وقف کر چکا ہوں۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کے لفظوں میں چھپی سچائی اور خلوص ڈاکٹر زویاکے لیے نیا نہیں تھا لیکن آج وہ ان کی باتوں پر کوفت کا شکار ہو رہی تھی۔
’’سکینہ بہت پیاری لڑکی ہے۔ اللہ سے محبت نے اس لڑکی کی شخصیت میں خاص رنگ بھر دیے ہیں۔اُسے اللہ نے بہت خوبصورت آواز سے نوازا ہے آپ کبھی اُس سے حمد یا نعت سن کر دیکھیے گا۔‘‘ ڈاکٹر خاور کا اُس کبڑی لڑکی کو سراہنا اُسے سخت ناگوار گذرا تھا لیکن وہ مصلحتا خاموش رہی۔
’’وہ کہاں سے پیاری ہے ڈاکٹر خاور۔۔۔‘‘نہ چاہتے ہوئے بھی زویا کے منہ سے پھسل گیا ۔
’’اگر آپ کے نزدیک حسن کا پیمانہ صرف ظاہری اور جسمانی خدوخال پر مشتمل ہے تو پھر واقعی وہ آپ کے پیمانے پر پورا نہیں اترتی،لیکن اگر آپ دل اور نیتّ کی سچائی کو دیکھیں اور اس کی مثبت اپروچ کے ساتھ زندگی کے بارے میں رویّہ دیکھیں تو وہ اس لحاظ سے بہت خاص ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے بھی آج شاید ان کو جلانے کی قسم کھا رکھی تھی۔
’’وہ ٹی وی کے ایک نعتیہ مقابلے میں شرکت کرئے گی،آپ بھی چلیے گا۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کی آفر پر وہ تھوڑا سا چونکیں۔
’’آپ اُسے کن کاموں میں لگا رہے ہیں ڈاکٹر صاحب۔۔۔‘‘زویا کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ پھیلی۔
’’اصل میں زویا وہ جس مرض میں مبتلا ہے اس کا علاج بہت طویل اور صبر آزما ہے۔ایسے مریض اکثر اپنی ساری زندگی ایسے ہی گذار دیتے ہیں اس لیے میں چاہتا ہوں کہ وہ خود کو کسی مثبت مشغلے میں مصروف رکھے۔۔۔‘‘وہ حد درجہ سنجیدگی سے کہہ کر وارڈ کی طرف چلنا شروع ہو گئے۔
’’خاور جہاں تک میرا محدود علم ہے تو ایسے مریضوں میں تو ریکوری کے چانسز بہت کم ہوتے ہیں اور سو میں سے دوتین مریض ہی صحت یاب ہوتے ہیں پھر آپ کیوں ان کو خوامخواہ امید دلا رہے ہیں۔؟؟؟؟‘‘ اُس کا عجیب سا انداز ان کو بُرا تو لگا تھا لیکن وہ تحمل بھرے انداز سے گویا ہوئے۔
’’کیا کوئی مسیحا اپنے مریض کو مایوسی اور ناامیدی کی بھٹّی میں دھکیل سکتا ہے۔۔۔‘؟؟؟؟‘انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔
’’انسان کو پریکٹیکل ہونا چاہیے۔۔۔‘‘زویا کا یہ لاتعلق سا انداز انہوں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا اس لیے انہیں رنج سا ہوا۔
’’مائی ڈئیر زویا،کسی اور شخص کو پریکٹیکل ہونے کا مشورہ دینا دنیا کا سب سے آسان کام ہے،آپ ایک ڈاکٹر ہیں،خدانخواستہ یہی مرض آپ کے کسی بہن بھائی یا والدین میں سے کسی کو ہوتا تو کیا آپ انہیں صاف صاف کہہ سکتی ہیں کہ اسی تکلیف کے ساتھ اس وقت تک زندگی گذارو جب تک عمر کے خیمے اکھڑ نہیں جاتے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی تلخ بات پر وہ لاجواب ہوئیں۔
’’ہم انسان کون ہوتے ہیں کسی کو یہ فتوی دینے والے کہ اس کے مرض کا دنیا میں کوئی علاج نہیں،جب کہ ہمارا دین کہتا ہے کہ موت کے علاوہ دنیا کی ہر بیماری کا علاج موجود ہے۔ ‘‘انہوں نے سنجیدگی سے ڈاکٹر ضویا کا خفت زدہ چہرہ دیکھا۔
’’وہ جو سات آسمانوں کے اوپر ہم سب کا رب ہے ناں ،وہ بہت رحیم و کریم ہے۔وہ اپنے بندوں کو مختلف چیزوں سے آزماتا ہے جن میں سے ایک بیماری بھی ہے۔وہ جب چاہے،جس کو شفاء دے۔‘‘ڈاکٹر خاور کی باتوں سے اُسے بالکل چپ لگ گئی تھی۔وہ اب خاموشی سے لمبی سڑک پر چلنے لگیں جس کا اختتام دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا۔
* * *
’’اٹس امیزنگ،سو بیوٹی فل۔۔۔!!!!‘‘ کوئی اس کے بالکل پیچھے کھڑا توصیفی انداز کے ساتھ بولا تو وہ چونک گئی۔ اپنی پینٹینگ کو آخری ٹچ دیتے ہوئے اُس نے بے ساختہ مڑ کر اپنے بالکل پیچھے تھوڑے سے فاصلے پر سفید ٹریک سوٹ میں ملبوس شخص کو دیکھا۔جس کی ستائشی نظریں اس کے کینوس پر جمی ہوئیں تھیں۔وہ اپنے کام میں اتنی محو تھی کہ اُسے احساس تک نہیں ہو سکا کہ وہ کسی کی گہری آنکھوں کے حصار میں ہے۔
’’تھینکس۔۔۔‘‘ عائشہ نے اُس اجنبی شخص کا شکریہ ادا کر تے ہوئے اپنا برش صاف کیا۔وہ اس وقت فاطمہ پارک میں صبح سویرے کی دلکشی اور خوبصورتی سے محظوظ ہوتے ہوئے اپنے کام میں مصروف تھی۔
’’میں پچھلے دو دن سے آپ کی اس پینٹنگ کو فالو کر رہا تھا مجھے بہت تجسّس تھا کہ اسے مکمل ہوتا ہوا دیکھوں۔۔۔‘‘وہ اب اپنے ٹراؤزر کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے بڑی بے تکلفی سے کہہ رہا تھا۔اُس کی بات پر عائشہ کو جھٹکا سا لگاکیونکہ پارک میں بے شمار جوگنگ کرنے والے افراد کی وجہ سے اسے بالکل اندازہ نہیں ہو سکا تھا۔
’’ آپ نے زمین پربے دردی سے گرے گھوڑے کو جس ہمت اور عزم سے دوبارہ اٹھتے ہوئے دکھایا ہے۔یہ قابل رشک ہے۔ایسا لگتا ہے کہ یہ سفید گھوڑا زندگی کی دوڑ میں بھاگتے بھاگتے اچانک ہی گر گیا ہو۔گرنے کی تکلیف اپنی جگہ لیکن اس کے اندر دوبارہ اٹھنے کا عزم جو اس کی آنکھوں سے جھلک رہا ہے اُس نے اس پیٹنگ کو انمول کر دیا ہے۔۔۔‘‘وہ بڑے بے تکلف اور بے لاگ انداز سے اس تصویر کا بالکل ٹھیک تجزیہ کر رہا تھا۔عائشہ سخت حیران ہوئی۔
’’کیا اتنے بُرے طریقے سے زندگی کی دوڑ میں گرنے والا بندہ اُسی توانائی کے ساتھ دوبارہ کھڑا ہو سکتا ہے۔۔۔‘‘وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ پوچھ رہا
’’کیا آپ کو انسانی عزم و ہمت پر کوئی شک و شبہ ہے،کیا آپ کو پتا نہیں کہ انسان اللہ کی انتہائی حیران کن تخلیق ہے۔۔۔‘‘عائشہ نے اب تفصیل سے اپنے سامنے کھڑے درازقد انسان کو دیکھا ۔وہ اپنی مقناطیسی کشش کی حامل بادامی آنکھیں سامنے کینوس پر ٹکائے کھڑا تھا۔کھڑی مغرور ناک ،کشادہ پیشانی اور بے نیازی نے اُس کی شخصیت کو ایک متاثر کن سا وقار بخش دیا تھا۔
’’مجھے انسانی عزم پر شبہ نہیں لیکن انسان تقدیر اور تدبیر کی بھول بھلیّوں میں الجھ گیا ہے۔وہ ہر چیز کو قسمت کے کھاتے میں ڈال کر ہاتھ جھاڑ کر بڑی فرصت سے اللہ سے شکوے کرنے لگتا ہے۔۔۔‘‘ اُس شخص نے پیپل کے درخت کے پاس گرے چڑیا کے گھونسلے کو دیکھا۔
’ہاں انسان اس معاملے میں بہت ناشکرا ہے۔جو چیز اُس کے اختیار میں ہو وہ بعض دفعہ اپنی ازلی سستی اور کاہلی کی وجہ سے وہ بھی نہیں کرتا ۔‘‘وہ اُس کی بات سے متفق ہوتے ہوئے اُسے تعجب سے دیکھ رہی تھی۔جس نے گھونسلے کو اٹھا کر ایک مضبوط تنے پر رکھ دیا ۔
’’کیا آپ یہ پینٹنگ مجھے فروخت کر سکتی ہیں۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘وہ ایک دم سے مڑا اور انتہائی پر اعتماد اندازسے عائشہ کو مخاطب کیا جواس حیران کن بات پر اپنے بیگ سے سیل فون نکالنا بھول گئی تھی۔
’’آئی ایم سوری،میں یہ سیل نہیں کر سکتی۔۔۔‘‘عائشہ نے سامنے کھڑے شخص کی سحر انگیز نگاہوں میں ایک لمحے کو جھانکا اور گڑبڑا سی گئی۔اس شخص کی وجاہت میں عجیب سی بے نیازی تھی
’’اٹس ۔اوکے۔۔۔!!!!‘‘ اُس نے کندھے اچکائے۔ ’’لیکن کیا آپ ایسی ہی پینٹنگ مجھے بنا کر دے سکتی ہیں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس کی فرمائش پر عائشہ نے جھنجھلا کر اُسے دیکھا جس کے ساتھ یہ پہلی ملاقات تھی اور وہ مان نہ مان ،میں تیرا مہمان کی تصویر بناجم کے کھڑا تھا۔
’’سوری،ایسا بھی ممکن نہیں،اس سے ملتی جلتی پینٹنگ بن تو سکتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ اس کے اسٹروک بھی اتنے ہی جاندار ہوں۔۔۔‘‘عائشہ نے صاف گوئی سے کہتے ہوئے ڈرائیور کا نمبر ملایا جو پارکنگ میں گاڑی لیے اُس کا منتظر تھا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ وہ تھوڑا سا مایوس ہوا۔ ’’تو کیا یہ آپ نے کسی ایگز یبشن کے لیے بنائی ہے۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس نے کسی خیال کے زیر اثر پوچھا۔
’’نہیں یہ پینٹینگ مجھے اپنے بھائی کو تحفے میں دینی ہے۔۔۔‘‘اُس نے بغیر کسی لگی لپٹی کے صاف گوئی سے کہا ۔
’’اوہ۔۔۔اٹس آل رائٹ ۔۔۔‘‘اُس نے کندھے اچکائے ’’مجھے معلوم نہیں تھا،سوری۔۔۔‘‘ وہ اپنی بے اختیاری پر کچھ خفت زدہ ہوا۔
’’ویسے اس مہینے کی اٹھائیس تاریخ کو میریٹ میں ایگزیبشن ہے میری،آپ وہاں وزٹ کر لیں ،ہو سکتا ہے کہ آپ کو کوئی اور اچھی چیز مل جائے۔۔۔‘‘عائشہ سے اُس کے چہرے پر پھیلی مایوسی دیکھی نہیں گئی تو اُس نے نہ چاہتے ہوئے بھی اُسے دعوت دے دی۔
’’یس شیور،وائے ناٹ۔۔۔‘‘وہ ابھی بھی ٹراؤزر کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سامنے کینوس کو توصیفی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔
’’کیا آپ کسی کی فرمائش پر کسی آئیڈیے کو رنگوں کی زبان میں بیان کر سکتی ہیں۔۔۔‘‘ اُس اجنبی نے بھی شاید آج عائشہ کو جی بھر کر حیران کھانے کا تہیہّ کر رکھا تھا۔
’’ کسی کے خیال کو کینوس پر منتقل کرنا آسان کام نہیں،اس میں ضروری نہیں کہ آپ کو ویسا ہی کام ملے جیسا آپ کے ذہن میں ہو۔۔۔‘‘عائشہ کو اب اُس سے گفتگو میں لطف آنے لگا تھا۔
’’مجھے ایسی پینٹنگ چاہیے جس کہ ہر اسٹروک سے عزم،ہمت ،اور حوصلے کے رنگ نمایاں ہوں،تصویر چاہے کوئی بھی ہو۔۔۔‘‘اُس کی بے ریا آنکھیں عائشہ کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔
’’ہوں۔۔۔!!!!‘‘ یہ عائشہ کے لیے کوئی مشکل ٹارگٹ نہیں تھا۔’’میں کوشش کروں گی۔۔۔ ‘‘ وہ فوراً ہی رضامند ہوگئی اور پھر اگلے کئی گھنٹوں تک وہ یہ سوچ کر پریشان ہوتی رہی کہ آخر حامی بھرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔
’’جزاک اللہ۔۔۔‘‘ اُس نے گردن کو ہلکا سا خم دے کر اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر اپنا نام ،پتا بتائے بغیر ٹریک کی طرف دوڑنے لگا۔
’’یار بہت عجیب شخص تھا وہ،مجھے تو حیران کر گیا ۔۔۔‘‘ شام کو وہ ماہم کو سارے دن کی روداد سناتے سناتے یہ قصّہ بھی سنا بیٹھی ۔
’’پرسنالٹی کیسی تھی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ماہم نے اپنے مطلب کی بات سب سے پہلے پوچھی ۔
’’اپالو کا مجسمہ۔۔۔‘‘ عائشہ کی زبان پھسلی تو ماہم کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ ’’تھینکس گاڈ ،خوبصورت چیز کو سراہنے والی حسّ تم میں بھی موجود ہے۔۔۔‘‘
’’بائے گاڈ میں نے اُسے غور سے نہیں دیکھا،بس اسکو ذہن میں لاتے ہی جو پہلا نام ابھرا ،وہ تمہیں بتا دیا۔۔۔‘‘اُسے ماہم کی معنی خیز نظروں سے الجھن ہو ئی۔
’’ہوں تبھی میں کہوں کہ محترمہ بھاگ بھاگ کر پارکوں میں ہی اپنا کام کرنے کیوں جاتی ہیں اور وہ بھی منہ اندھیرے۔۔۔‘‘ماہم کو اسکا گھبرایا ہوا چہرہ لطف دے رہا تھا۔
’’کچھ خدا کا خوف کرو ماہم،تمہیں پتا تو ہے کہ مجھے بھیڑ بھاڑ سے کتنی الجھن ہوتی ہے اور میرا تو ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ میں اکثر صبح سویرے ہی کسی پارک میں اپنے کام کو نبٹاتی ہوں۔‘‘عائشہ نے جھنجھلا کر اُسے صفائی دی جو شوخی سے آنکھیں گھما گھما کر اُسے بغوردیکھ رہی تھی۔
’’ہوں ،مجھے تو آج پتا چلا ہے کہ صبح سویرے اتنے ہینڈسم لوگ بھی جوگنگ کے لیے آتے ہیں،جن کو دیکھ کر سارا دن فریش گذرتا ہے۔۔۔‘‘وہ تھوڑا سا مزیدشریر ہوئی۔
’’زیادہ ہی فریش ہونے کا شوق ہے تو بسم اللہ کرو،صبح تمہیں بھی پک کر لوں گی۔۔۔‘‘عائشہ جل کر بولی اُسے علم تھا کہ صبح جلدی اٹھنے سے اُس کی جان جاتی تھی۔
’’تو بہ کرو یار،کون صبح سویرے اٹھے،میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘ماہم نے فوراً کانوں کو ہاتھ لگائے۔
’’یہ عشق نہیں ہے آساں مائی ڈئیر۔۔۔‘‘اب کہ تنگ کرنے کی باری عائشہ کی تھی۔ماہم اُس کی بات پر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...