’’اچھا تو کیا آپ واقعی نعت کمپیٹیشن میں حصّہ لے رہی ہیں۔۔۔؟؟؟؟ ڈاکٹر خاور اگلے دن کچھ جونئیرز ڈاکٹرز کے ساتھ راؤنڈ پر تھے۔ جب اُس کے کمرے میں آتے ہی انہوں نے ممتاز مفتی کی کتاب پڑھتی سکینہ کو مخاطب کیا۔
’’جی ڈاکٹر صاحب،اب میں آپ کو ناراض بھی تو نہیں کر سکتی ناں۔۔۔‘‘اُس کی آنکھوں میں چمکتے جگنوؤں سے ڈاکٹر خاور نے بمشکل نظریں چرائیں۔ یہ لڑکی اب انہیں چونکانے لگ پڑی تھی۔انہیں ڈاکٹر ضویا کے اندازوں کی دُرستگی پر یقین آتا جا رہا تھا۔
وہ باقی لوگوں کی موجودگی کو خاطر میں نہ لائے بغیر ٹکٹکی باندھے انتہائی عقیدت سے انہیں دیکھنے میں محو تھی۔ اُس کی محویت کو جونئیر ڈاکٹرز نے بطور خاص نوٹ کیا اور دانستہ گلہ کھنکھار کر ایک دوسرے کو بڑا با معنی سا اشارہ بھی کیا تھا۔ اُن کی آپس کی اس آنکھوں کی گفتگو کو جمیلہ مائی نے بڑی سرعت سے محسوس کر کے بڑی پریشانی اور کوفت سے پہلو بدلا ۔
’’پھر میں آپ کا نام لکھوا دوں ناں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کی ساری توجہ اس کی فائل کی طرف تھی جس میں کچھ تازہ ترین کیے ٹیسٹ کی رپورٹس موجود تھیں۔
’’رہنے دیں ڈاکٹرصاحب یہ کملی کہاں ٹی وی ،شی وی میں نعتیں پڑھے گی ۔وہاں جا کر اس کے ہاتھ پیر پھول جائیں گے اور ایویں اپنا تماشا بنوا لے گی۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے فوراً کہا اوردبے دبے انداز کے ساتھ سکینہ کو بھی مقابلے میں حصّہ نہ لینے کااشارہ کیا تھا۔جسے سکینہ نے صاف نظر انداز کر کے خفگی سے پہلو بدلا تھا۔ اُسے امّاں کی یہ بات بالکل پسند نہیں آئی ۔
’’کیوں بھئی۔۔۔یہ کیوں کنفیوژ ہو گی۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے فائل سائیڈ میز پر رکھتے ہوئے حیرانگی سے جمیلہ مائی کا پریشانی میں ڈوبا چہرہ دیکھا ۔
’’ڈاکٹر صیب اس کو اتنی عقل کہاں۔؟اس نے اپنے پنڈ اور ہسپتالوں کے علاوہ کون سی دنیا دیکھی ہے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اپنا موقف کس طرح سے بیان کرئے۔
’’خیر ایسی بات تو نہ کریں ۔ماشاء اللہ سکینہ خاصی پر اعتماد لڑکی ہے۔پھر میں خود ساتھ لے کر جاؤں گا اور پروگرام میں بھی شامل ہوں گا تو کیا مسئلہ ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کی بات پر سکینہ کے چہرے پر خوشی کے بڑے بے ساختہ رنگ جھلکے ۔
جمیلہ مائی نے سخت پریشانی سے ڈاکٹر خاور کا سنجیدہ چہرہ دیکھا تھا وہ کوشش کے باوجود بھی ایک لفظ بھی نہیں بول پائی ۔انہیں کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کس طرح اپنی نادان بیٹی کے ہاتھوں سے نکلتے دل کو سنبھالیں۔
’’اپنی اچھی سی تیاری رکھو،میں پروگرام کی باقی تفصیل پوچھ کر آپ کو بتا دوں گا۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور اپنی بات مکمل کر کے باہر نکلے تو جمیلہ مائی نے سخت ناراضگی سے اپنی بیٹی کا پر جوش چہرہ دیکھا تھا۔ جو اس کی ناراضگی سے بے خبر کہہ رہی تھی۔
’’امّاں مجھے ایک نیا جوڑا بنوا دیں نا۔وہاں ٹی وی کا پروگرام تو سارے پنڈ والے دیکھیں گے۔میرے پاس تو ایک بھی ڈھنگ کا سوٹ نہیں۔‘‘
’’نی سکینہ کیوں میرا کلیجہ جلاتی ہے۔ ناں میں پوچھتی ہوں کہ کیا ضرورت تھی اس پاکھنڈ بازی کی۔۔۔‘‘
’’امّاں تو نعت پڑھنے کو پاکھنڈ بازی کہہ رہی ہے۔۔۔‘‘ سکینہ کو سخت صدمہ ہوا ۔
’’میں نعت پڑھنے کو نہیں تیرے اس شیطانی چرخے میں جا کر سارے جہاں کے سامنے اللہ کے رسول کی شان میں کچھ پڑھنے کو کہہ رہی ہوں۔ دیکھ سکینہ اب تو بیماری کی وجہ سے ہم اپنا گھر بار چھوڑ کر سارے جہاں کے سامنے بیٹھنا ہماری مجبوری ہے۔ اللہ ایسی مجبوری کسی دشمن کو بھی نہ ڈالے۔ اب تو اتنا نیک کام اتنے سارے نا محرموں کے سامنے کرنے جائے گی۔تجھے پتا ہے اللہ اور اس کے رسول نے تو عورت کی آواز کے پردے کا بھی حکم دیا ہے۔‘‘جمیلہ مائی نے انتہائی رنجیدہ لہجے میں اپنی نادان بیٹی کو یا دلایا ۔
’’کیا ہے امّاں دنیا چاند پر چلی گئی ہے اور تو پتا نہیں کون سے زمانے کی باتیں کر رہی ہے۔۔۔‘‘سکینہ کے چہرے اور لہجے میں بیزاری ہی بیزاری تھی۔ جمیلہ مائی نے تاسف بھری نظروں سے اپنی اکلوتی اولاد کو دیکھا۔
’’پتّر انسانوں کو اللہ کی بنائی زمین پر تو ڈھنگ سے رہنا نہ آیا۔ہر طرف فساد برپا کر کے اب وہ چاند پر بھی تباہی پھیلانے چلا گیا ہے۔پہلے زمین پر تو رہنا سیکھ لے۔پھر اوپر کی طرف دیکھے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کے تلخ انداز پر سکینہ نے شکوہ کناں نظروں سے ماں کو دیکھا۔
’’ امّاں تو نے کیا قسم کھا رکھی ہے کہ ہر وہ بات جو مجھے خوشی دے گی تو نے اُس میں زہر ضرور ملانا ہوتا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘
’’زہر کا تو مجھے پتا نئیں ،لیکن ماں ہونے کے ناطے تجھے سمجھانا مجھ پر فرض ہے۔۔۔‘‘ امّاں کا اطمینان قابل دید تھا۔
’’کیوں میں کوئی بے عقلی ہوں،میرا دماغ نہیں ہے کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اُسے نہ جانے کیوں غصّہ آگیا۔
’’اتنی عقل ہوتی تو ایسے کام ہی کیوں کرتی۔اچھی خاصی سمجھدار میری دھی تھی۔اللہ جانے کس نحوست مارے کی نظر لگ گئی۔۔۔‘‘امّاں نے غصّے میں اپنا کڑھائی والا فریم اٹھا لیا ۔
’’اب اس رومال پر کیا پھول بوٹے کاڑھنے لگی ہے۔ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے بے زاری سے امّاں کے ہاتھ میں پکڑے فریم میں لگے آتشی گلابی کپڑے کو دیکھا۔جو پچھلی دفعہ اماں نے سکھر سے منگوایا تھا۔اب فراغت میں اُس پر پھول بوٹیاں کاڑھتی رہتی تھیں۔
’’یہ تیرے جہیز کے تکیے کاڑھ رہی ہوں۔‘‘امّاں کی خوشگوار انداز سے دی گئی اطلاع پر سکینہ کا ماتھا ٹھنکا ۔
’’میرے جہیز کے۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ کو دھچکا سا لگا اُس نے سخت حیرت سے امّاں کو دیکھا۔
’’میری کون سا باہر بارات کھڑی ہے اور مجھ سے کون شادی کرئے گا۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس نے بُرا سا منہ بناکر واضح بے زاری کا اظہار کیا۔
’’اب نہیں ہو رہی تو کبھی نہ کبھی تو ہو گی نہ پتّر۔۔۔‘‘امّاں کو اُس کا بے تکا پن بُرا تو لگا تھا لیکن ماتھے پر ہلکا سا بل ڈالے وہ انتہائی متحمل انداز سے بولی۔
’’جانے دے امّاں،مجھ کبڑی سے کون شادی کرئے گا۔۔۔‘‘وہ منہ پھاڑ کر ہنسی تھی۔اُس کی ہنسی امّاں کو اپنا اور اُس کا مذاق اڑاتی ہوئی محسوس ہوئی تھی لیکن اُس نے پھر بھی ضبط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔
’’تو ،توکون سا ساری زندگی ایسی رہے گی،مولا تجھے بہت جلد ٹھیک کر دے گا۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی کے لہجے میں بھرپور یقین تھا۔
’’اوراگر ٹھیک نہ کیا تو تب امّاں۔۔۔‘‘ سکینہ نے ویسے ہی کسی خیال کے زیر اثر پوچھا۔ اس کی بات پر جمیلہ مائی کے چہرے پر ایک تاریک سا سایہ بڑی تیزی سے دوڑا ۔
’’پھر بھی میرے سوہنے رب دی مرضی ،بندہ تے اپنی مرضی نال ایک پتّا نئیں ہلا سکدا۔‘‘ جمیلہ مائی کے لہجے میں عاجزی ہی عاجزی تھی۔وہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنے والی عورت تھی۔ بعض دفعہ تو سکینہ کو امّاں پر رشک آتا تھا۔ اُس کا دل قناعت کے خزانے سے مالا مال تھا۔
’’پھر امّاں تیری دھی سے کون ویاہ کرئے گا۔۔۔؟؟؟‘‘سکینہ نے یونہی امّاں کو چھیڑا۔
’’بھئی تیرا رشتہ جتھے طے ہے ان کو تیری بیماری سے کوئی مسئلہ نہیں۔۔۔‘‘امّاں کے سادہ سے انداز نے اُسے جھٹکا دے کر منہ کے بل گرا دیا ۔سکینہ کی ہنسی نے حلق میں ہی دم توڑ دیا ۔
’’میرا رشتہ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ ششدر سی رہ گئی ۔اُس کے ہکاّ بکا انداز پر اب ہنسنے کی باری امّاں کی تھی۔
’’ہاں تیرا رشتہ ،جو ہم نے تیرے پیدا ہونے سے پہلے ہی کر دیا تھا۔۔۔‘‘
’’امّاں کیسی باتیں کر رہی ہے ۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ بالکل ہی بوکھلا گئی ۔اُس کے لیے یہ بالکل انوکھی بات تھی۔
’’ہاں ناں جا جی کے ساتھ ۔۔۔‘‘امّاں منہ پھاڑ کر ہنسیں۔
’’وہ ایویں تھوڑی بھاگ بھاگ کر تیرے ابّا کے ساتھ یہاں آتا ہے۔۔۔‘‘اامّاں نے اُس کے سر پر بم ہی تو پھوڑا تھا۔ اُس کا پورا وجود سنّاٹے میں آگیا تھا ۔سکینہ کو لگا تھا کہ کوئی تیز رفتار ٹرین پوری قوت سے اُس کے وجود کے پرخچے اڑا تی گذر گئی ہو یا پورے ہسپتا ل کی چھت ایک دم اُس کے سر پر آن گری ہو۔ اُس نے پہلی دفعہ امّاں کے منہ سے ایسی عجیب و غریب بات سنی تھی۔اس لیے پھٹی پھٹی نگاہوں سے انہیں دیکھتی رہ گئی۔
* * *
’’آپ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ میں کس اذیت کے سمندر میں ہوں۔میرے اندر تخلیق کا آتش فشاں سا ہے لیکن میرے لفظ مجھ سے روٹھ گئے ہیں ۔میں ایک لفظ بھی نہیں لکھ سکتی۔‘‘اُس کی آواز پست ہوتے ہوتے بالکل مدھم ہو گئی تھی۔اُس کی آنکھوں سے ٹپکتی وحشت سے ماہم نے بمشکل نظریں چرائیں۔۔۔
’’میں قلم اٹھا کر بس بے معنی سی لکیریں کھینچتی رہتی ہوں،مجھے لکھنا بھول گیا ہے۔۔۔‘‘ اس کی آواز میں نمی کی آمیزش بڑھی۔
’’آپ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کسی ادیب کے لیے کتنا کرب ناک مرحلہ ہوتا ہے جب سوچیں اور خیال دماغ میں اُودھم مچا رہے ہو ں اور قلم لکھنے سے انکار ی ہو جائے۔۔۔‘‘ وہ بہت اچھی طرح اس کی تکلیف کو سمجھ سکتی تھی اس لیے خاموشی سے اُسے سن رہی تھی ۔اس کے چپ کرنے پر وہ بولی۔
’’لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے ثنائیلہ۔۔۔؟؟؟؟ ماہم کے انداز میں محبت ہی محبت تھی۔
’’اُسی ایک شخص کی وجہ سے۔۔۔‘‘ ماہم نے ثنائیلہ کی بات کے جواب میں اس کی طرف دیکھاتو اُسے محسوس ہوا کہ جیسے اُس کے سامنے کسی وہم کے جال میں الجھی پریشان حال فاختہ بیٹھی ہو۔
’’وہ میرے دل و دما غ میں دھرنا ڈال کے بیٹھ گیا ہے۔مجھے لگتا ہے کہ جیسے وہ میرے خون میں شامل ہو کر شریا نوں میں دوڑنے لگاہے۔وہ میری آنکھ کی بستی میں کوئی نیا موسم اترنے نہیں دیتا۔۔۔‘‘ماہم نے کافی سے لبریز کپ کی اوپری سطح سے سر اٹھا کر اُسے دیکھاوہ اپنی آنکھیں ہتھیلی کی پشت سے صاف کر رہی تھی۔
’’میں اُس کی قربت کے سنہرے موسموں کو محسوس کر سکتی ہوں۔اس کی نرم انگلیوں کی پوروں کا لمس ابھی بھی میرے بالوں میں ہے۔اُس کی آنکھ میں لرزتے ہوئے اقرار کی لو کو میں دیکھ سکتی ہوں۔وہ کہیں نہیں ہے لیکن ہر جگہ ہے۔۔۔‘‘ماہم کو لگا جیسے وہ نیند میں بول رہی ہو۔
’’اُسے خبر ہی نہیں ہوگی کہ کوئی اس کی فرقت کے جھلستے موسموں کی شدتوں کو سہہ رہا ہے۔ہجر کا عذاب اوڑھے اُس کی راہ تک رہاہے۔۔۔‘‘اُس نے بمشکل گلے کو تر کیا اور اب اس کی آواز لرز رہی تھی۔وہ کئی ثانیے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو پلکیں جھپکائے بنا گھورتی رہی۔
’’کہیں آپ کو بھی تو نہیں لگتا کہ میں پاگل ہو رہی ہوں۔۔۔‘‘اُس نے سر اٹھا کر بڑا عجیب سا سوال کیا ۔
’’مجھے ایسا کیوں لگے گا،اور اس سے پہلے کس کو لگا ہے ایسا۔۔۔؟؟؟‘‘ ماہم کا انداز دوستانہ تھا۔
’’میری بیسٹ فرینڈ نابیہ کو،وہ کہتی ہے کہ تمہارا تخیل تمہیں بے وقوف بنا رہا ہے۔۔۔‘‘وہ غائب دماغی سے بولی ۔
’’لیکن مجھے تو ایک بھی لمحے کو ایسا نہیں لگا ثنائیلہ۔۔۔‘‘ماہم نے میز پر رکھے اس کے سرد ہاتھوں کو اپنے گرم ہاتھوں کی حدت بخشی تو وہ چونک کر دیکھنے لگی۔
’’پتا ہے ثنائیلہ یہ شاعر،ادیب لوگ ہمارے معاشرے کا وہ حساس طبقہ ہوتے ہیں کہ جن کو جتنی پذیرائی ملتی ہے اتنے ہی تنقید کے پتھر بھی لگتے ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو لفظوں سے بے وقوف بناتا ہے اور کچھ توایسے بیدردی سے آپ کے نظریات کی نفی کرتے ہیں کہ انسان خود بلندیوں سے گرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ہے ناں ۔۔۔؟؟؟‘‘ اُس نے ماہم کی بات کے جواب میں بس اثبات میں سر ہلایا تھا۔
’’آج کے دور میں حسّا سیت سب سے بڑی سزا ہے۔حساس دل کے ساتھ زندگی بسر کرنا ننگے پاؤں شعلوں پر چلنے کے مترادف ہے۔۔۔‘‘ ماہم کے لہجے کی سنجیدگی ثنائیلہ کے لیے اطمینان بخش تھی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بالکل اُسے ویسے ہی لے رہی ہے جیسے کہ حقیقت میں وہ ہے۔
’’آپ محبت پر یقین رکھتی ہیں۔۔۔؟؟؟‘‘ ثنائیلہ باوجود کوشش کہ اسے تم نہیں کہہ پا رہی تھی۔
’’ہاں میں محبت کے جذبے پر ایمان کی حد تک یقین رکھتی ہوں۔مجھے اس جذبے کی سچائی پر اتنا ہی یقین ہے جتنا اپنی ذات کے ہونے کا۔۔۔‘‘ماہم کا لہجہ پختہ اور آنکھوں میں سچائی کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔
’’کیا تمہیں لگتا ہے کہ تم اپنے اس فرضی کردار سے محبت کرنے لگی ہو۔۔۔‘‘
’’وہ فرضی کردار نہیں ہے۔ وہ میرے ذہن کی اختراع ضرور ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ حقیقت میں یہیں کہیں ہے۔۔۔‘‘اُس نے بڑی بے ساختگی میں اس کی بات کاٹ کر کہا تھا۔ماہم اس کی بات مسکرائی ۔
’’تمہارا وجدان کیا کہتا ہے کہ کیا تم اُسے پا لو گی۔۔۔‘‘ ماہم کی اس کیس میں دلچسپی ایک دم ہی بڑھی ۔
’’ہاں ۔۔۔‘‘ثنائیلہ نے اس کی آنکھوں میں براہ راست جھانکتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ کہا تھا۔ایک لمحے کو تو اس کے پختہ یقین پر ماہم بھی گڑبڑا گئی ۔
’’ہوں۔۔۔!!! تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو۔۔۔‘‘؟
’’اس لیے کہ مجھے اپنے جذبے کی سچائی پر یقین ہے۔ہروہ چیز جس کی بنیاد سچائی پر ہو،اور آپ کے اندر اُسے حاصل کرنے کی ہمت موجود ہو۔آپ اُس حاصل کر ہی لیتے ہیں۔‘‘وہ اب مسکرا رہی تھی۔
ماہم نے بہت دلچسپی سے اپنے سامنے بیٹھی لڑکی کو دیکھا جو اُسے تخیلاتی کہانیوں کا ہی ایک کردار لگ رہی تھی۔اُس نے پچھلے ایک گھنٹے میں اُس کے کئی روپ دیکھے تھے۔اُسے مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے دیکھا تھا اسے یقین کا جھنڈا تھامے بلندیوں پر چڑھتے دیکھا تھا۔اس کے لہجے کی سچائی کو بھانپا تھا اور اس کی آنکھوں سے جھلکتی محبت کو محسوس کیا تھا۔
’’وش یو بیسٹ آف لک ثنائیلہ زبیر۔۔۔‘‘ ماہم نے اُس کے سرد ہاتھ کو اپنی گرفت میں دباتے ہوئے دل کی گہرائیوں سے کہا ۔
’’تھینک یو۔۔۔‘‘ وہ کھل کر مسکرائی۔
’’آپ جتنی اچھی ہیں اس سے زیادہ خوبصورت ہیں۔۔۔‘‘ ثنائیلہ کی بات پر وہ حیران ہوئی۔
’’اچھا ہونا اہم ہے یا خوبصورت ہونا۔۔۔؟؟؟‘‘ ماہم نے گہری نظروں سے اُسے جانچتے ہوئے یونہی پوچھا ۔
’’خوبصورتی سے آپ اہم تو لگتے ہیں لیکن اچھے ہونے سے آپ خود بخودخوبصورت لگنے لگتے ہیں،یہ میری فلاسفی ہے اسلیے ہو سکتا ہے کہ آپ اس سے متفق نہ ہوں۔۔۔‘‘ وہ جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
’’ہوں اس کا مطلب ہے کہ میں صرف خوبصورت ہونے کی وجہ سے آپ کو اچھی لگی ہوں۔۔۔‘‘اُس نے خو د ساختہ مایوسی اوڑھتے ہوئے شرارت سے اُسے دیکھا تھا جو اب کافی ریلکس تھی ۔اس کے پاس آنے والے مریض اکثر واپسی پر مسکراتے ہوئے ہی جاتے تھے اور ان کی مسکراہٹ کو ہی وہ اپنی کامیابی تسلیم کرتی تھی۔
’’نہیں۔۔۔آپ اچھی ہیں ،اسی لیے مجھے زیادہ خوبصورت لگتی ہیں۔۔۔‘‘ثنائیلہ اب کھل کر مسکرا ئی۔
’’تھینک یو۔۔۔‘‘ماہم کے چہرے پر جھلکتی نرمی نے اس کا تاثر اور گہرا کر دیا ۔وہ اب مسکراتے ہوئے اس کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔یہ اُس کا ثنائیلہ کے ساتھ تیسرا سیشن تھا لیکن اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ ابھی بہت سی گرہیں کھلنا باقی ہیں۔وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ انسان کا تخیل آخر کتنا طاقتور ہوتا ہے کہ اُسے اپنے ذہن میں تخلیق کی ہوئی چیزیں مجسم صورت میں نظر آنے لگیں۔
اُس نے کافی کا خالی کپ میز پر رکھ کر رامس علی کی فائل کو اٹھایا۔اُس کے ساتھ اس کا اگلا سیشن اگلے ہفتے تھا۔وہ انٹرویو دے کر آچکا تھا اور ماہم کو آخری فون پر ہونے والی گفتگو میں وہ کچھ الجھا سا لگا تھا۔اُس کے ڈراؤنے خوابوں کا سلسلہ ایک دفعہ پھر شروع ہو گیا تھا جس کی وجہ سے وہ کافی پریشان تھا اور ماہم کو اندازہ تھا کہ اُسے ابھی کافی سارے سیشنز کی ضرورت ہے۔
’’میں تمہیں بہت زیادہ مس کرتا ہوں۔۔۔‘‘اُس کے آخری ٹیکسٹ پر ماہم کے دل کی دھڑکن نہ جانے کیوں بے ربط ہوئی ۔
’’لگتا ہے کہ مجھے بھی عائشہ رحیم کے ساتھ ایک کڑاکے دار سیشن کی ضرورت ہے۔۔۔‘‘ اس سوچ کے ابھرتے ہی وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔اسی لمحے اس کے سیل فون پر آنے والی کال نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا دی ۔اس ے سرجھٹک کر ثنائیلہ زبیر کی کا ل اٹینڈ کرنے کے لیے سبز بٹن دبایا۔
’’ماہم میں نے ابھی ابھی اُسے دیکھا ہے۔۔۔‘‘ دوسری جانب اس کی آواز میں خوشی کی وجہ سے کپکپاہٹ نمایاں تھی۔
’’کسے دیکھا ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ وہ حقیقتاً کچھ لمحوں کے لیے اس کی بات بالکل بھی نہیں سمجھ پائی ۔
’’سکند ر شاہ کو۔۔۔‘‘وہ شاید کسی مارکیٹ میں تھی اس لیے بلند آواز میں بول رہی تھی۔
’’کیا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم کا دماغ بھک کر کے اڑا ۔
’’جی وہ بالکل وہی تھا۔جناح سپر میں ہنڈا سوک گاڑی پر،گاڑی ایک منٹ کے لیے سگنل پر رکی ،میں فٹ پاتھ پر تھی او ر وہ مجھ سے صرف چند گز کے فاصلے پر تھا۔وہ بھی مجھے دیکھ کر چونکا تھا۔۔۔‘‘وہ اُسے نہ جانے کون سی داستان امیر حمزہ سنا رہی تھی۔ ماہم اس کی آخری بات پر بُری طرح چونکی۔اُس کے لہجے کی سچائی گواہ تھی کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہی۔وہ اتنی دور بیٹھے ہوئے بھی اس کی حالت کا اندازہ لگا سکتی تھی۔ثنائیلہ کی سانسیں غیر ہموار تھیں اور وہ دائیں بائیں موجود لوگوں سے بے نیاز جوش جذبات سے چیخ رہی تھی۔
’’بائے گاڈ ،میں نے اُسے ابھی ابھی یہاں دیکھا ہے۔۔۔‘‘ اُس کا انداز ابھی بھی بے ربط سا تھا۔
’’اب کہاں ہے وہ۔۔۔؟؟؟‘‘ ماہم نے اس کی بات کاٹ کر روانی سے پوچھا لیکن دوسری جانب شاید نیٹ ورک کی خرابی کی وجہ سے کال کٹ گئی تھی۔اُس میں سے آنے والی ٹوں ٹوں کی آواز اس کے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح برسی تھی
’’آپ میرا یقین کریں ماہم ۔۔۔!!!!‘‘ اُس نے ناخنوں سے میز کی سطح کوکھرچتے ہوئے عجیب سا اصرار کیا۔
’’میں نے سکندر شاہ کوخود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا،وہ سو فیصد وہ ہی تھا۔۔۔‘‘ ثنائیلہ زبیر ایک گھنٹے کے بعد ہی ماہم کے کلینک میں تھی۔اُس کے چہرے پر جہاں کچھ پا لینے کی چمک تھی وہیں کچھ کھو دینے کا دُکھ بھی ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔کال کٹ جانے کے بعد اس نے دوبارہ فون پر بات کرنے کی بجائے کلینک میں جانا زیادہ مناسب سمجھا تھا۔
’’ہو سکتا ہے ثنائیلہ وہ آپ کا وہم ہو۔۔۔‘‘ ماہم نے اُس کے اضطراری انداز میں کی جانے والی حرکت کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’ناممکن،ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔‘‘ اُس نے سر کو جھٹک کر سختی سے ماہم کی بات کو رد کیا۔ ’’وہ میرا وہم نہیں تھا،وہ ایک بھرپور یقین کی طرح میرے سامنے تھا،مجھ سے چند فٹ کے فاصلے پر وہ سیاہ رنگ کی ہنڈا سوک میں تھا۔گاڑی سگنل پر رکی تھی اور روڈ کراس کرتے ہوئے میں نے اُسے دیکھا۔وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ٹیک لگائے تھکے ہارے انداز سے براجمان تھا۔اُس کی آنکھوں میں عجیب سی وحشت اور چہرے پر پھیکا پن تھا۔‘‘اُس نے پورے منظر کی جزئیات بتائی تھیں۔
’’تم کیسے کہہ سکتی ہو،کہ وہ وہی تھا۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ماہم نے جھینپ کر استفسار کیا۔
’’کمال کرتی ہیں آپ۔۔۔‘‘وہ تھوڑا سا بُرا منا گئی۔ ’’ میں نے اُس کردار کو خود تخلیق کیا تھا۔وہ پورے تین سال تک میرے قلم کی نوک کے نیچے رہا ہے،میں اس کے سبھی چہرے پہچانتی ہوں۔۔۔‘‘ اس کی بات پر ماہم کی آنکھوں کی حیرانی میں یک لخت کمی ہوئی وہ جیسے اس کی بات سمجھ گئی تھی۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ماہم نے سر اثبات میں ہلایا۔’’اگر وہ وہی تھا تو یقین رکھو،اس چھوٹے سے شہر میں وہ تمہیں پھر کہیں ناں کہیں نظر آ جائے گا۔۔۔‘‘ماہم کی تسلّی پر وہ بمشکل مسکرائی لیکن اُس کا سارا وجود اُداسی اور مایوسی کی قبا اوڑھے ہوئے تھا۔
’’آپ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ اس ایک بات نے میری ساری زندگی کو ڈسٹرب کر کے رکھ دیا ہے،میں کچھ بھی نہیں کر پا رہی،میں نے ایک سلسلے وار ناول درمیان میں ادھورا ہی چھوڑ دیا ہے۔۔۔‘‘بے بسی اُس کے ہر انداز سے عیاں تھی۔وہ ہونٹوں کو کچلتے ہوئے اپنی آنکھوں کے آگے تنی چادر کو بمشکل دھکیلنے لگی۔
’’ادھورے پن کا کرب وہ ہی شخص محسوس کر سکتا ہے جس نے دنیا کے میلے میں اپنے کسی بہت پیارے کو کھو دیا ہو۔میرے زندگی کے کیلنڈر میں ہر تاریخ پرمایوسی کا سیاہ حاشیہ سا لگتا جا رہا ہے ایسے لگتا ہے جیسے جدائی نے میری انگلی پکڑ کر مجھے تنہائیوں کے سمندر میں دھکیل دیا ہو۔‘‘
’’میں تمہارے احساسات و جذبات کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں ثنائیلہ۔۔۔‘‘ماہم کو اپنا دل بے نام سے تاسف میں مبتلا ہوتا محسوس ہوا ’’لیکن تم میری یہ بات آج کہیں لکھ لو،تمہارے حصّے کی خوشیوں کے جگنو تمہیں ڈھونڈتے ہوئے خود تمہارے پاس آ جائیں گے ۔تمہارے آنچل میں اتنے ستارے ہوں گے کہ جب تم اس آنچل کو اوڑھو گی تو زندگی ہر لمحہ تمہیں رقص کرتی ہوئی محسوس ہوگی۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ناں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اُس کی بات پر ثنائیلہ کی آنکھوں میں ایک الوہی سی روشنی بھر گئی۔’’ویسے ایک بات تو بتاؤ لڑکی۔۔۔؟؟؟‘‘ماہم کے چہرے پر ایک پراسرار سی مسکراہٹ نے احاطہ کیا تو وہ بے اختیار چونک گئی ۔
’’دیکھوسکندر شاہ تمہیں نہیں جانتا ،اس لیے کہ وہ تمہاری زندگی کی کہانی کا ایک کردار ہے،تم اس کی زندگی میں کہیں نہیں ہو۔۔۔‘‘اس کی بات پر اُس کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی۔
’’آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔۔۔‘‘ اس کے چہرے پر خوف کا ایک سایہ سا ابھرا۔
’’میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ جب کبھی وہ تم سے ملے گا تو تم اُسے آخر کہو گی کیا۔۔۔‘‘ ؟؟؟ اُس نے گہری نظروں سے اپنے سامنے بیٹی مشہور و معروف مصنفہ کو دیکھا جو اس سوال پر بالکل ہکّا بکّا سی ہو گئی تھی۔
’’ میم یہ بات تو میں نے کبھی سوچی ہی نہیں۔۔۔‘‘اُس کے جواب پر اب ہکاّ بکاّ ہونے کی باری ماہم کی تھی۔جوسخت تعجب سے اپنے سامنے بیٹھی سادہ سی لڑکی کو دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر حد درجہ معصومیت تھی۔ایسی معصومیت جو فی زمانہ ناپید تھی۔
* * *
’’میری پتّری دی طبیعت تے ٹھیک ہے ناں۔۔۔؟؟؟؟‘‘اللہ دتّا کمہار نے انتہائی محبت سے اپنی لاڈلی بیٹی کا مضطرب انداز دیکھا وہ ہاتھ کی پشت سے کنپٹی کو سہلا رہی تھی۔۔ اُس نے اس دفعہ ابّے کی آمد پر بے ساختہ خوشی کا اظہار بھی نہیں کیا تھا۔جمیلہ مائی جیسے ہی اعجاز کو لے کر قریبی میڈیکل اسٹور پر گئی تو ابّے نے فوراً سکینہ کو مخاطب کیاتھا۔
’’ابّا طبیعت تو اب اللہ چاہے گا تو ہی ٹھیک ہو گی ۔۔۔‘‘اُس نے بے بسی سے کندھے اچکاتے ہوئے مزید کہا۔’’ویسے مجھے تو کوئی امید نہیں۔۔۔‘‘ وہ اب بے زاری سے چھت پر لگے پنکھے کو چلتے دیکھ رہی تھی ۔آج فضا میں تپش کا احساس کافی تھا۔
’’وہ کیوں پتّر۔۔۔؟؟؟؟‘‘ اللہ دتاّ چونک گیا اُس نے جانچتی نظروں سے اپنی لاڈو کا خفا خفا سا انداز دیکھا۔
’’کبھی کبھی میں سوچتی ہوں ابّا،یہ اللہ کا بس بھی ہم جیسے غریبوں پر ہی چلتا ہے۔۔۔‘‘اُس کے بچگانہ سے شکوے پر اللہ دتا دہل سا گیا۔
’’ناں پتّری ،ایسی باتیں نہیں کرتے ،اللہ سوہنا ناراض ہوتا ہے۔۔۔‘‘ اُس نے اپنی بیٹی کی کم عقلی پر کڑھتے ہوئے اُسے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’کیا فائدہ ابّا،ہم کیسی بھی باتیں کر لیں،اللہ نے کرنی تو اپنی ہی مرضی ہوتی ہے۔۔۔‘‘اُس کی ناراضگی میں محسوس کی جانے والی بدگمانی تھی۔
’’اچھا تو پھر جو چیزیں تیری مرضی سے ہوتی ہیں تو اللہ وہ کیوں کرتا ہے؟ یاد نہیں جب بھوری مج (بھینس)بیمار ہوئی تھی ،تو نے کتنی دعائیں کی تھیں اور وہ ٹھیک ہو گئی تھی اور جب سیلاب میں ہمارا پنڈ بہنے سے بچ گیا تھا،تب بھی تو نے کہا تھا ناں کہ تیری دعا قبول ہو ئی ہے۔۔۔‘‘ابّے کی بات پر وہ لاجواب ہوئی۔
’’ہاں ابّا،اللہ کبھی کبھی میری کچھ دعائیں پوری کر دیتا ہے،لیکن وہ ہمیشہ ایسا نہیں کرتا۔‘‘اُس نے اعتراض کا ایک اور نکتہ نکال ہی لیا تھا۔
’’اُس کی مصلحتیں ہیں پتر،وہ ہی جانتا ہے۔بس تو دعا مانگنا نہ چھوڑا کر۔۔۔‘‘
’’چاہے وہ دعاپوری کرئے یا نہ کرئے۔۔۔‘‘ اُس نے سخت حیرت سے ابّے کا پرسکون چہرہ دیکھا۔
’’اللہ خیر سکھ رکھے پتّری،سوہنا رب ضرور اپنا کرم کرئے گا۔۔۔‘‘ابّے کے لہجے کا یقین بھی سکینہ کے چہرے پر مسکراہٹ لانے میں ناکام رہا تھا۔
’’چل چھوڑ ساری باتوں کووہاں پنڈ میں سارے لوگ تیرابڑا پوچھتے ہیں۔شیدے حلوائی نے میری دھی کے لیے خالص دیسی گھی کے پیڑے بھیجے ہیں اور زینب مائی نے اپنے گھر کے دیسی بیر۔۔۔‘‘ابّے نے اس کادھیان بٹانے کو کہا جب کہ سکینہ جو اپنی سوچوں میں محوتھی۔اُس نے اللہ دتے کی بات کہاں دھیان سے سنی تھی۔
’’ابّا،اک گل تو بتا۔۔۔‘‘کچھ توقف کے بعد وہ ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم پھنسائے ان کے پٹاخے نکالتے ہوئے بولی۔ اُس کے لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی۔
’’دیکھ ناں ابّا۔۔۔!!!تجھے اپنے کام سے عشق ہے،تو پوری محنت اور لگن سے پانڈے(برتن) بناتا ہے،فیر وی کسی نہ کسی میں کوئی خرابی تورہ جاتی ہو گی،ابّا میں بڑا سوچتی ہوں کہ کیا ان نقص والے پانڈوں کا بھی کوئی خریدار ہو گا ۔۔۔؟؟؟؟‘‘ سکینہ کے متجسس انداز پر اللہ دتا مسکرایا۔اُسے علم تھا کہ وہ یہ سوال کس پس منظر میں کر رہی ہے۔
’’میری دھی وی جھلّی ای اے۔۔۔‘‘ اللہ دتے نے ناک سے مکھی اڑاتے ہوئے انتہائی محبت سے سکینہ کو دیکھا۔
’’پُتری ،اس دنیا کے میلے میں ہر پانڈے (برتن )کا کوئی نہ کوئی خریدار تو ضرور ہوتا ہے۔اُس سوہنے مالک کی ذات نے کوئی بھی چیز بغیر مقصد کے نہیں بنائی۔‘‘اللہ دتّا کمہار کو سمجھ نہیں آرہاتھا کہ وہ اُسے کس طرح سمجھائے۔
’’فیر وی ابّا،تو سوچ کے بتا ناں،تیرا کوئی پانڈا تو(برتن) ایسا ہو گا ،جس میں کوئی ایسا نقص ہوجو دیکھنے والی آنکھ کو اچھا نہیں لگتا ہو گا۔۔۔‘‘سکینہ کے بے تحاشا اصرار پر وہ کچھ لمحوں کے لیے سوچ میں ڈوب گیا
’’ہاں پتر بس ایک چھوٹی سی گاگرہے جس کا منہ تھوڑا ساٹیڑھا ہو گیا تھا۔اُسے ابھی تک کسی نے نہیں خریدا،لیکن مجھے اس کا بھی کوئی دکھ نہیں۔‘‘اللہ دتا کے لہجے میں قناعت کا ایک سمندر آباد تھا۔
’’ابّا تو اُس گاگر کو پھینک کیوں نہیں دیتا۔۔۔‘‘سکینہ نے اپنے ہونٹوں کو پھیلا کر عجیب سے استہزائیہ انداز میں مشورہ دیا ۔
’’پتّری ،میں اپنی بنائی چیز کو کیوں پھینکوں۔۔۔‘‘۔اللہ دتا کو اپنی بیٹی کی بات ناگوار تو گذری لیکن اُس نے تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ۔
’’سکینہ دیکھ،میرے محنت کش ہاتھوں نے اُسے پوری محبت ،لگن اور محنت سے تخلیق کیا تھا۔میں اپنی بنائی ہوئی چیز کو کسی اور کی نظر سے نہیں دیکھتا،وہ ہزار بد شکلی ہو ،لیکن مجھے تو اچھی لگتی ہے۔اس لیے مجھے کسی اور سے کیا لینا دینا۔‘‘ اللہ دتاّ ،جمیلہ مائی کی طرح شکر اور قناعت کی نعمت سے مالا مال تھا۔
’’ابّا،فیر اس کا مطلب ہے کہ جب تجھے اپنے ہاتھ سے بنائی ایک چھوٹی سی گاگر سے اتنا پیارہے تو میں تو ایک جیتی جاگتی انسان ہوں۔اس لیے اس کی مخلوق کومیں کتنی ہی عجیب یا مضحکہ خیز کیوں نہ لگوں لیکن اُس رب کو تو سکینہ کبڑی سے پیار ہو گا ناں۔۔؟؟؟؟‘‘اُس کے لہجے میں دل کو دکھانے والی سادگی اور معصومیت تھی۔ نمی کی پتلی سی لکیر اس کے آنکھ کے کونے سے کان کی سمت رینگ رہی تھی
’’سکینہ ایسی باتیں نہ کیا کر۔۔۔‘‘۔اللہ دتیّ کا دل دکھ کے گہرے احساس سے بھر گیا ۔
’’اللہ کو اپنی ساری مخلوق سے پیار ہے۔وہ بندے کی شکل سے نہیں اس کے اعمال سے پیا ر کرتا ہے۔بس اپنا ایمان پختہ رکھ اور اللہ کی ذات پر کبھی شک نہ کرنا۔‘‘اللہ دتے نے اُسے سمجھانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔وہ اور جمیلہ مائی اکثر ایسا ہی کرتے تھے۔
’’ابّااس سوہنے رب کی محبت پر مجھے کوئی شبہ نہیں لیکن آجکل پتا نہیں کیوں دل میں اوکھے ،اوکھے سے خیال آتے ہیں،کہ آخر یہ سب میرے ساتھ ہی کیوں ہوا؟۔۔۔‘‘سکینہ کو امّاں سے زیادہ ابّے سے بات کرنے میں مزا آتا تھا کیونکہ وہ اسے کبھی بھی جھڑکتا نہیں تھا۔
’’پتّر بس یہ سوچ اپنے دل میں بیٹھا لے کہ اللہ سوہنا کسی کے ساتھ بُرا نہیں کرتا،کبھی اُس ذات سے بدگمان نہیں ہونا،یہ بدگمانی دل کو کالا شاہ کر دیتی ہے اورجس بندے کو اللہ سے سچاّ پیا ر ہو اُس کے دل میں فیر کسی اور وہم یا بدگمانی کی گنجائش ہی کہاں بچتی ہے۔۔۔‘‘ اُس نے کھوجتی نگاہوں سے اُس کااداس چہرہ پڑھا ۔
’’وہ ساری باتیں ٹھیک سہی پر ابّا لوگ دل بہت دکھاتے ہیں۔۔۔‘‘سکینہ کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں تھیں۔وہ مرتعش ہاتھوں سے اپنی گردن کو چھو رہی تھی۔
’’پتا ہے ابّا،یہ لوگ جو اللہ کی زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں،جن کو اُس نے صحت و تندرستی سے نوازا ہے،وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اللہ کا اُن پر احسان نہیں بلکہ ان کا کمال ہے۔ہم جیسوں کو اگر اُس نے کسی بیماری کی آزمائش میں ڈالا ہے تو اس میں ہماری کوئی خامی یا گناہ ہو گا ۔اس لیے وہ ہمیں عجیب عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہیں،کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کرتے ہیں۔‘‘وہ آج پہلی دفعہ اپنے باپ کے سامنے اس طرح سے جذباتی ہوئی تھی۔
’’پتر لوگ جتنا بھی دل دکھائیں یہ یاد رکھا کر کہ جب اللہ کے بندے ہمیں ’’توڑتے ‘‘ہیں تو اُن کا’’توڑنا‘‘ہی ہمیں اللہ سے ’’جوڑتا‘‘ہے۔۔۔‘‘اللہ دتا کمہار نے مسکراتے ہوئے اُسے ایک اور مشکل سبق پڑھایا ۔
’’ابا تو بڑی اوکھی اوکھی باتیں کرتا ہے۔۔۔‘‘اُس کے منہ بنانے پر ابا بے ساختہ ہنس پڑا تھا۔اسی لمحے ڈاکٹر خاور نے کمرے میں قدم رکھا اور سکینہ کے دل کی دھڑکنوں میں ایک ارتعاش سا برپا ہوگیا۔وہ اللہ دتّا کمہار کو دیکھ کر چونکے۔اس سے پہلے بھی ان کی سکینہ کے ابّے سے دوتین ملاقاتیں ہو چکی تھیں ۔ سبز رنگ کے بڑے بڑے خانوں والی تہبند باندھے سفید کرتے میں ملبوس یہ محنت کش بندہ ڈاکٹر خاور کوہمیشہ ہی اچھا لگا تھا۔اس لیے وہ انتہائی محبت سے ملے ۔
’’واہ ۔۔۔!!!کمرے میں تو آموں کی مہک پھیلی ہوئی ہے۔۔۔‘‘انہوں نے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے بڑی خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
’’ڈاکٹر صاحب آپ کے لیے خاص طور پر لنگڑے آموں کی پیٹی ملتان سے لایا ہوں۔۔۔‘‘اللہ دتّا کمہار کو ڈاکٹر خاور کا بے غرض سا انداز اچھا لگتا تھا۔
’’سر کیوں ایسی زحمت کرتے ہیں یقین مانیں مجھے بہت شرمندگی ہوتی ہے۔آخری دفعہ بھی آپ دیسی گھی اور شکر لے آئے تھے اور میں نے منع کیا تھا۔‘‘ڈاکٹر خاور جو کہ اپنے ایک جو نئیر ڈاکٹر کے ساتھ راؤنڈ پر تھے۔ایک دم ہی ان کی محبت پر شرمندہ ہوئے ۔
’’ڈاکٹر صاحب یہ تو تحفہ ہے اور محبت بھرے تحفوں سے کون شرمندہ ہوتا ہے ۔۔۔‘‘اللہ دتّا کمہار کی آنکھوں میں خلوص کی فراوانی تھی۔
’’کسی اور کا تو پتا نہیں لیکن یقین کریں مجھے شرمندگی ہوتی ہے ایک تو آپ اتنا لمبا سفر کر کے آتے ہیں اور ساتھ میں اتنا سامان بھی لے آتے ہیں۔۔۔‘‘انہوں نے تازہ ایکسرے کی رپورٹ کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’بھئی ڈاکٹر صاحب میں تھوڑی اٹھا کر لاتا ہوں،اپنا کام تو بس لاری پر رکھنا ہوتا ہے۔ آگے لاری والے جانیں۔‘‘اللہ دتے نے اپنا صافہ ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر منتقل کرتے ہوئے خو شگوار لہجے میں کہا ’’فیر آپ بھی تو ہم غریبوں کا اتنا خیال رکھتے ہیں۔‘‘اللہ دتاّکی بات پر وہ ہلکا سا ہنس پڑے۔سکینہ کو دل کی دھڑکنوں کو سنبھالنا دشوار ہو گیا تھا۔
’’بھئی وہ تو میری ڈیوٹی ہے اور ڈیوٹی کوئی کسی پر احسان تھوڑی ہوتی ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور کے انداز میں متانت نمایاں تھی۔
’’پتّر احسان کر کے کسی پر احسان نہ جتانا بھی بڑا افضل کام ہے اور یہ احسان کرنے سے زیادہ اوکھا ہے۔‘‘ اللہ دتّے کی بات پر ڈاکٹر خاور نے بے یقینی سے انہیں دیکھا۔
’’ایک بات تو بتائیں، آپ نے کبھی سکول ،کالج کی شکل تک نہیں دیکھی پھر آپ اور امّاں جی اتنی گہری باتیں کر کیسے لیتے ہیں۔‘‘ڈاکٹر خاور نے سخت تعجب سے دریافت کیا۔
’’پتر پڑھائی صرف مدرسوں میں تھوڑی ہوتی ہے۔ایک پڑھائی وہ ہوتی ہے جو آپ کو زمانہ سِکھاتا ہے۔ایک پڑھائی وہ ہوتی ہے جو اللہ خود بخود آپ کے دل میں اتار دیتا ہے۔ہم ان پڑھ جاہل لوگ ہیں۔لفظوں کی گھمن گھیریاں ہمیں نہیں آتیں۔بس نیّت صاف ہے اور یہ بھی مولا کریم کا احسان ہے ہمارا کوئی کمال نہیں۔‘‘ابّے نے ہاتھ جھاڑ کر سادگی سے کہا تھا جب کہ ڈاکٹر خاور کو اپنے سامنے کھڑے بندے پر سخت رشک آیا جس کے دل میں سب کے لیے خیر اور بھلائی تھی جو شکر گذاری کی نعمت سے مالا مال تھا۔
’’بھئی یہ سکینہ کو بھی سمجھایا کریں یہ آجکل بڑی مایوسی والی باتیں کرتی ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور نے اس کی فائل کو میز پر رکھتے ہوئے ہلکے پھلکے لہجے میں اس کی شکایت کی تو سکینہ کا مجسم سماعت بنا دل باغی ہونے لگا۔دل کی بے ربط دھڑکنوں کو سنبھالنا آسان کام تھوڑی تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب سوچنے والی بات ہے ناں کہ اگر بندے کے مزاج میں اتار چڑھاؤ نہ ہوتو وہ بندہ تھوڑی ہواناں،فیر تے او لکڑی کا گڈا ہو گیا ناں۔۔۔‘‘ اللہ دتاّ کی بات پر وہ چونکے ’’اللہ سوہنا دل کو غمزدہ کرتا ہے تو بندہ اس کی طرف لپکتا ہے ناں۔میری سکینہ تو بہت بہادر ہے بس اللہ نے اپنی محبت اور آزمائش کا ذرا اوکھا پرچا اس کے ہاتھ میں تھما دیا ہے اس لیے کملی دھی پریشان ہو جاتی ہے۔‘‘اللہ دتّے نے اپنی لاڈو رانی کی بھرپور حمایت کی تھی۔
’’ لیں سکینہ ،آپ کے ابّا جی نے تو ہمیں پہلی ہی بال پر آؤٹ کر دیا،مان گئے ہم بھی،آپ کی امّاں ٹھیک کہتی تھیں کہ سکینہ کے ابّے کو اس سے بہت پیار ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاور بے ساختہ ہنسے تھے ان کی ہنسی نے سکینہ کے دل میں پھول ہی پھول کھلا دیے تھے ۔
’’واہ۔۔۔!!! اندر تو بڑی رونقیں لگی ہوئیں ہیں۔۔۔‘‘سفید کیٹی کی شلوار قمیض میں اندر داخل ہوتا اعجاز سکینہ کو آج سے پہلے کبھی اتنا برا نہیں لگا تھا۔ اعجاز اندر کھڑے ڈاکٹروں کو دیکھ کر تھوڑا سا جھجک کا شکار ہوا ۔ اس کے چہرے پر پھیلی خفت سکینہ کو اور زیادہ کوفت کا شکار کر رہی تھی۔ ڈاکٹر خاور کے ساتھ کھڑا درمیانے قد کا دبلا پتلا جاجی،جس نے میٹرک کا امتحان پاس کر کے اللہ دتّے کمہار کی شاگردی اختیار کر رکھی تھی۔وہ سکینہ کو ویسے ہی اچھا نہیں لگتا تھاجب کہ ڈاکٹر خاور کے ساتھ کھڑا تو وہ اُسے اور بھی عجیب لگ رہا تھا۔
’’اباّ ،اس لیچڑ کو ہر دفعہ پتا نہیں کیوں لے آتا ہے۔جسے بات کرنے کی بھی تمیز نہیں۔‘‘ سکینہ نے ڈاکٹر خاور کے ساتھ اپنے آپریشن کی تفصیلات کو ڈسکس کرتے اعجاز کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اعجاز کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے باہر نکال دے۔
’’ڈاکٹر صاحب میری دھی کو فٹافٹ ٹھیک کر دیں،فیر یہ جاجی آپ کو اپنی شادی کے میٹھے چاول کھلائے گا۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی بات پر سکینہ نے سخت خوفزدہ نظروں سے امّاں کو دیکھا جن کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔
’’اچھا ،کب ہے شادی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ ڈاکٹر خاور کے چہرے پر خوشگوار سی حیرت پھیلی۔
’’اللہ سائیں، جلدی جلدی وہ ویلا (وقت )لائے۔بس ذرا سکینہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائے،تو ہم نے فوراً دیگیں کھڑکا دینی ہے۔ اپنے جاجی کی منگ ہے ناں سکینہ۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے ہاتھ میں پکڑا دوئیوں کا شاپر میز پر رکھتے ہوئے ایک جتلاتی سی نظر سکینہ کے بیزار چہرے پر ڈالی تھی۔جہاں لاتعلقی اور خفگی نے اچانک ہی خیمہ لگا لیا ۔
’’اللہ کرئے کہ میں کبھی اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو سکوں۔۔۔‘‘جاجی کے چہرے پر پھیلی مسرت دیکھ کرسکینہ کے دل نے بڑی عجیب سی دعا کی تھی۔وہ دل ہی دل میں امّاں سے سخت خفا ہو گئی تھی۔
* * *
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...