آسمان پر بادل تھے کہ تہہ در تہہ جھکتے ہی آرہے تھے۔۔۔گہرے سرمئی اندھیرے میں ڈوبتی شام خاصی خاموش تھی لیکن آسمان پر چھائے بادلوں نے خوب اودھم مچا رکھا تھا۔ ڈاکٹر خاور نے فضا میں مہکتی کچی مٹّی کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی تھی۔ آج اتوار کی چھٹی ہونے کی وجہ سے ہسپتال میں رش نہ ہونے کے برابر تھا۔۔۔
وہ جیسے ہی گاڑی پارک کرکے باہر نکلے،ایک تیز بوچھاڑ نے ان کا سارا چہرہ بھگو دیا تھا۔موسلا دھار برش سے بچتے ہوئے انہوں نے شارٹ کٹ رستہ اختیا ر کیا تھا۔وہ پرائیوٹ وارڈ کے کمروں کی پشت پر بنے شیڈز کے نیچے سے گذر رہے تھے۔بھیگی ہوئی ہوا میں برسات کی ایک مخصوص سی مہک تھی یہ بے وقت کی برسات دل کو کافی اداس کر رہی تھی۔ بارش کی شدت میں کمی آگئی۔
ایک شیڈ کے پاس سے گذرتے ہوئے ایک آواز نے اُن کے پاؤں جکڑ لیے ۔آوازمیں سوز کی کیفیت سننے والے کے دل پر کتنا اثر کرتی ہے اس کا اندازہ انہیں پہلی دفعہ ہوا تھا۔آواز نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ لہجے کا اتار چڑھاؤ،درد کی فراوانی،اور لے پر دسترس نے انہیں مبہوت سا کر دیا ۔اُس کی آواز میں سبک ندی کا سا بہاؤ تھا۔وہ ’’منقبت‘‘کا شعر
مجھے عشق ہے تو خدا سے ہے
مجھے عشق ہے تو رسول سے
ڈاکٹر خاور نے اس آواز کے سوز کے حصار سے بمشکل نکلتے ہوئے اندازہ لگا یا کہ وہ کمرہ نمبر آٹھ کی کھڑکی کے آگے کھڑے تھے اور یہ مسحور کن آواز شاید نہیں یقیناسکینہ کی تھی انہوں نے غیر ارادی طور پر تھوڑا سا جھک کر کمرے کی کھڑکی سے جھانکا تو سامنے ہی وہ آنکھیں بند کیے بڑے جذب کے عالم میں کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوئی تھی۔انہیں سخت شاک لگا تھا وہ انتہائی بے یقینی سے سکینہ کو دیکھ رہے تھے انہیں کبھی گماں تک نہیں ہوا تھا کہ اس کی آواز اتنی مسحور کن ہو سکتی ہے۔کمرے کی لائیٹ بند تھی لیکن باہر لگے بلب کی روشنی کی ایک لکیر اندر جا رہی تھی۔ وہ کھڑکی سے تھوڑا سا ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔
اُس کی آواز رات کے سناٹے اور خاموشی میں دُور تک ایک سحر سا طاری کرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ ڈاکٹر خاور نے بمشکل اپنے قدموں کو چلنے پر راضی کیا تھا۔اُس کی شفاف ندی کی مانند آواز کسی جھرنے کی صورت اپنا راستہ خود بناتی جا رہی تھی۔وہ جو ویسے ہی وارڈ کا راؤنڈ لگانے آئے تھے اس آواز نے ان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی تھیں۔ایک دم وہ چپ ہوئی اور ایسا لگا جیسے فضا کا طلسم ٹوٹ گیا ہو۔
’’کیا ہو گیا سکینہ۔۔۔؟؟؟آگے پڑھ ناں۔۔۔‘‘ امّاں جو تسبیح ہاتھ میں پکڑے آنکھیں بند کیے اس کے ساتھ کسی اور دنیا میں پہنچی ہوئیں تھیں اس کے ایک دم چپ کر جانے پر جھنجھلا کر بلند آواز میں بولیں ۔
’’امّاں مجھے لگتا ہے کہ باہر کھڑکی کے پاس کوئی ہے۔۔۔‘‘ سکینہ کا دل عجیب سی لے میں دھڑکا ۔ڈاکٹر خاورپر شرمندگی کا بڑا بھرپور حملہ ہوا تھا۔وہ فوراً کھڑکی سے مزیدہٹ گئے تھے۔ انہوں نے زندگی میں کبھی ایسی حرکت نہیں کی تھی لیکن اس آواز کا جادو ایسا تھا جو ان پر سر چڑھ کر بولا تھا۔ان کا خود بھی دل چاہا کہ وہ آگے مز ید پڑھے۔
’’لے دسّو، بھلا کسی کی مت ماری گئی ہے جو اتنی بارش میں باہر کھڑا ہوگا،کملی تو نہیں ہو گی میری دھی،چل شاباش آگے پڑھ۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کو اپنی بیٹی کی آواز میں نعتیں،حمد اور منقبت کے اشعار سننا بہت پسند تھا اور اس کا فرمائشی پروگرام اکثر ہی جاری رہتا۔
’’پڑھ دے ناں سکینہ،دل کو اتنا سکون مل رہا تھا۔۔۔‘‘ امّاں کے لہجے میں اتنی التجا تھی کہ اس نے فوراً ہی آنکھیں بند کرکے لے اٹھائی ۔اس کی آواز نے ڈاکٹر خاور کو ایک دفعہ پھر جکڑ لیا تھا۔وہ وہیں کہ وہیں جم کر رہ گئے تھے۔
ہوا کیسے ،تن سے وہ سر جدا۔۔۔
جہاں عشق ہو،وہیں کربلا۔۔۔
میری بات ،انہی کی بات ہے۔۔۔
میرے سامنے ،وہی ذات ہے۔۔۔
وہ ایک دفعہ پھر اپنی دنیا میں مگن ہو چکی تھی اس سے زیادہ وہاں کھڑے ہونا انہیں زیب نہیں دے رہا تھا۔ اس لیے وہ پاؤں گھسیٹتے ہوئے بمشکل چل پڑے تھے۔سکینہ کی آواز نے کافی دور تک ان کا تعاقب کیا تھا۔وارڈ میں داخل ہوتے ہی انہوں نے سر جھٹک کر خود کو اس سحر سے آزاد کیا۔ رات کو وارڈسے فراغت ملی تو دس بج رہے تھے۔ سکینہ کے کمرے کے آگے سے گذرتے ہوئے اندر لائیٹ جلتی دیکھ کر وہ رک گئے اوربے اختیا ر ہی ہلکا سا دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوکر انہیں سخت شرمندگی کا احساس ہوا تھا کیونکہ سامنے سنگل بیڈ پر تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کر ’’عشق کا عین‘‘پڑھتی سکینہ بوکھلا سی گئی جب کے اُس کے بالمقابل صوفہ کم بیڈ پر بڑی عقیدت کے ساتھ قرآن پاک پڑھتی جمیلہ مائی بھی چونک گئی تھی۔
’’آئی ایم سوری ،میں یہاں سے گذر رہا تھا تو سوچا کہ سکینہ کا حال پوچھ لوں۔۔۔‘‘ وہ نہ جانے کیوں خفتّ کا شکار ہوئے ۔
’’اللہ تسّاں نوں اس دا اجر دے بیٹا ،ورنہ سانوں غریباں نوں اس ہسپتال وچ اللہ دے سوا بس تواڈا(آپ کا) آسرا ہے۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے قرآن پاک بند کر کے انتہائی ممنونیت سے ڈاکٹر خاور کو دیکھا تھا جو اُن کے لیے آخری امید تھے ۔اس سے پہلے والے سبھی ڈاکٹرز نے سکینہ کی بیماری کو لاعلاج قرار دے کر انہیں مایوسی کی بھٹّی میں دھکیل دیا تھا لیکن اُن کے حوصلے پھر بھی جوان رہے تھے۔
’’ہاں بھئی سکینہ ،ٹانگوں میں آج تو کوئی درد نہیں ہوا ناں۔۔۔؟؟؟‘‘ انہیں اپنے پروفیشن سے بے پناہ عشق تھا اور سکینہ کا کیس تو انہوں نے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا تھا۔ان کے اس قدر توجہ سے پوچھنے پر سکینہ کے چہرے پر بڑی تیزی سے فینسی لائیٹس چمکیں ۔
’’نہیں ڈاکٹر صاحب،’’اب‘‘ درد نہیں ہو رہا ۔۔۔‘‘اُس کے معنی خیز لہجے پر جمیلہ مائی نے اُلجھ کر اپنی اکلوتی بیٹی کو دیکھا۔جو آجکل اُسے قدم قدم پر حیران کر رہی تھی۔
’’ہوں،عشق کا عین ،اس کا مطلب ہے کہ ہماری سکینہ کو مطالعے سے بھی خاصا شغف ہے۔۔۔‘‘ڈاکٹر خاورکے جملے میں ’’ہماری‘‘لفظ نے سکینہ کے اندر توانائی کا ایک سمندر بھر دیا تھا اور وہ بغیر پروں کے ہی فضاؤں میں تھی۔
’’بس ڈاکٹر صاحب یہ سب تو زندگی کو گذارنے کے ہتھیار ہیں اگر یہ ساتھ نہ ہوں تو سکینہ تو وقت سے پہلے ہی نہ مر جائے۔۔۔‘‘اس کا انداز اگرچہ شگفتہ تھا پھر بھی جمیلہ مائی نے دہل کر اپنی اکلوتی بیٹی کا چہرہ دیکھا ۔
’’اللہ نہ کرئے سکینہ ،کیسی باتیں کرتی ہیں آپ۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور کے لہجے سے بھی ہلکی سی خفگی جھلکی ۔ انہوں نے پہلی دفعہ اس کے کمرے کا جائزہ لیا سامنے لوہے کی الماری پر بہت سی کتابیں سلیقے کے ساتھ رکھی ہوئیں تھیں۔کمرے میں موجود واحد میز پر چائے کے برتن دھلے ہوئے ،ساتھ ایک فائل اور کچھ ادویات رکھی ہوئیں تھیں۔الماری کے اوپر والے خانے میں چھوٹا سا قرآن پاک،ایک تسبیح ،جائے نماز،روم اسپرے اور کافی ساری چھوٹی چھوٹی چیزیں رکھی ہوئیں تھیں۔ڈاکٹر خاور کو اندازہ تھا کہ یہ کمرہ انہیں بیت المال والوں کی بھرپور کوششو ں سے ملا ہے اور وہ پچھلے بیس دن سے یہاں مقیم تھیں۔
’’ڈاکٹر صاحب کیا میں واقعی اپنے پیروں پر چلنے لگوں گی ناں۔۔۔‘‘اُس کے لہجے میں بچوں کا سا اشتیاق جھلک رہا تھا۔وہ اُس کی بات پر ہلکا سا مسکرائے۔
’’انشاء اللہ۔۔۔‘‘ ان کے انداز میں بھرپور اعتماد تھا۔
’’پتا ہے ڈاکٹر صاحب ،میں ٹھیک ہونے کے بعد پھر سے اپنا پڑھائی کا سلسلہ شروع کروں گی،مجھے بھی آپ کی طرح ایک اچھا ڈاکٹر بننا ہے۔۔۔‘‘سکینہ کا پر عزم انداز ڈاکٹر خاور کے ساتھ ساتھ امّاں کو بھی اچھا لگا تھا۔
’’انشاء اللہ ،میرا سوہنا رب او ویلا(وقت)ضرور لائے گا جی۔ ۔۔۔‘‘ جمیلہ مائی نے بھی گفتگو میں حصّہ لیا۔
’’آپ کی بس ایک ہی فلاسفر بیٹی ہے۔۔۔؟؟؟‘‘ ڈاکٹر خاور کی بات میں لفظ فلاسفر تو امّاں کو سمجھ نہیں آیا تھا لیکن ان کے اس قدر اہمیت دینے پر وہ خاصی مسرور تھیں۔
’’جی اکوّں اک دھی اے ۔تے اسّی اپنی دھی سکینہ نوں شادی دے پورے ستارا وریاں(سترہ سال) دیا دواوں (دعاؤں) نال حاصل کیتا اے ۔ اس نمانی دا پیو (باپ) تے اپنی دھی دا دیوانہ اے۔اونہے اپنی کاکی دی پیدا ہون دی خوشی وچ پورے پنڈ نوں موتی چور دے لڈو کھلائے سن۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی بات پر ڈاکٹر خاور کھل کر مسکرائے ’’واقعی۔۔۔؟؟؟‘‘ انہیں بڑی خوشگوار حیرت ہوئی۔
’’پھر تو وہ بہت پریشان ہوں گے سکینہ کی بیماری کی وجہ سے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے اُس کی تازہ رپورٹس اور ریڈنگ کو دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے پوچھا ۔
’’پریشان تے ہے،پر سانوں(ہمیں)سوہنے رب دے نال کوئی گلہ نئی۔اس دھی رانی نے پورے چودہ ورے (سال)ساڈی پھیکی زندگی وچ پھل وی تے کھلائے سن۔ایدھا پیو(باپ) آکھدا اے کہ جمیلہ اللہ توں کدی شکوہ نہ کری تے میں اے گّل اپنے پلوّ نال بندھ لیتی۔‘‘ ڈاکٹر خاور نے سخت حیرت سے اپنے سامنے مودب انداز میں کھڑی خاتون کو دیکھا جو مجسم صبر و شکر کا نمونہ تھی۔انہیں بے ساختہ اُس پر رشک آیا ۔وہ آج بڑی فرصت سے ان کے سامنے کھڑے تھے اور سکینہ کا دل بُری طرح بغاوت پر اترا ہوا تھا۔
’’بس امّاں ،اللہ آپ کو استقامت دے اور سکینہ کو اس استقامت کے بدلے صحّت دے۔۔۔‘‘ انہوں نے خلوص دل سے دعا کی تھی۔ ’’ویسے سکینہ آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے آج شام منقبت کے کچھ اشعار میرے کانوں میں پڑے تو مجھے اندازہ ہوا۔۔۔‘‘ اپنی تعریف پر اس کے چہرے کی رنگت میں سرخی سی پھیلی جس نے اس کے چہرے کا رنگ اور سانولا کر دیا تھا۔اُسے یقین ہو گیا تھا کہ شام میں کھڑکی کے پاس ڈاکٹر خاور ہی تھے۔اُس کے دل نے جھوٹی گواہی نہیں دی تھی۔اُس کے دل کی دھڑکنیں ایسے ہی بے ربط نہیں ہوئیں تھیں۔
****************
’’محبت۔۔۔؟؟؟ مجھے۔۔۔؟؟اور رامس علی سے۔۔۔؟؟؟
اوہ شٹ یار۔۔۔!!!اُس نے چونک کر دہرایااور پھر اپنے سامنے بیٹھی عائشہ رحیم کو بے یقینی سے دیکھا جو یہ پھلجھڑی چھوڑ کر بڑی بے تکلفی سے سیب کھانے میں مگن تھی۔۔۔گلاس وال سے باہر بارش گارڈینیا اورزینیا کی کیاریوں پر مسلسل برس رہی تھی۔
اگلے ہی لمحے وہ بیزاری سے سر جھٹک کر انتہائی تعجب سے کہہ رہی تھی۔ ’’یار کسی کے متعلق بات کرنے کا مطلب یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ آپ کو اس سے محبت ہو گئی ہے،تم بھی بعض دفعہ کمال کر جاتی ہو عائش۔۔۔‘‘ ماہم بہت احتیاط سے اپنے لمبے ناخنوں پر بڑی نفاست سے نیل پالش لگا رہی تھی۔سیاہ رنگ کے سوٹ میں اس کی شہابی رنگت دمک رہی تھی۔
’’کبھی کبھار کسی کے متعلق بات کرنا تو علیحدہ بات ہے لیکن جب آپ صبح و شام ایک ہی شخص کی شان میں قصیدے پڑھیں گے تو اچھا خاصا میرے جیسا عقلمند بندہ بھی مشکوک ہو گا ناں۔‘‘ عائشہ نے سر جھٹک کر بے زاری سے اپنی اکلوتی بہترین دوست کو دیکھا جو انتہائی محویت سے نیل پالش لگا کر اب پھونکیں مار مار کر اُسے خشک کر رہی تھی۔وہ اب گلاس وال کے پاس آ کر بڑی دلچسپی سے بارش کی بوندوں کو ایک تسلسل سے بہتا دیکھ رہی تھی۔
’’یار میرا پیشنٹ ہے وہ،اور میں اس کا علاج کر رہی ہوں۔۔۔‘‘ ماہم نے نیل پالش کا ایک اور کوٹ لگاتے ہوئے اُسے یاد دلایا۔
’’پہلی دفعہ علاج تھوڑی کر رہی ہو اور جیسے میں نے تمہیں علاج کرتے ہوئے دیکھا نہ ہو۔،تمہاری ایک ایک رگ سے واقف ہوں میں ۔اس مریض کو ضرورت سے زیا دہ تم نے سر پر سوار کر لیا ہے۔‘‘ عائشہ اب ہاتھ میں سیب لیے کاؤ چ پر بیٹھ گئی لیکن اس کی نظریں شیشے کی دیوار کے اُس پار برستی بارش پر تھیں۔ بریگیڈیر منصور نے یہ گھر بڑے آرٹسٹک انداز میں بنوایا تھا۔ہر کمرے سے خوبصورت لان کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔
’’یار وہ انکل جواد کے ریفرنس سے میرے پاس آیا ہے اور ان کا تو تمہیں پتا ہے کہ مجھ سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں،ہر سیشن پر اپ ڈیٹس لینے کے لیے امریکہ سے اتنی لمبی کال کرتے ہیں۔‘‘ ماہم نے ہنوز اپنے کام میں مصروف ہوتے ہوئے بھی اُسے وضاحت دی۔
’’گناہ گار سمجھے گی دنیا تجھے،اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے۔۔۔‘‘عائشہ کے لہجے میں چھپی شرارت پر اُس نے سر اٹھا کر اُسے دیکھا اسی لمحے گیلی نیل پالش پر اس کا اپنا ہاتھ لگنے سے ایک ناخن کی سطح اچھی خاصی خراب ہو گئی تھی ۔وہ اب ریموور سے اُسے صاف کر رہی تھی۔
’’اُف ۔۔۔!!!کتنا فضول کام تم کتنی توجہ سے کر رہی ہو۔۔۔‘‘ عائشہ نے اُسے دوبارہ نیل پالش لگاتے دیکھ کر طنزیہ انداز سے کہا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔عائشہ نے توصیفی نگاہ سے اس کی انگلیوں کو دیکھا جنہیں دیکھ کر گماں ہوتا تھا کہ کسی سنگ تراش نے اُسے بڑی محنت سے تراشا ہو گا۔
’’ویسے یار تمہیں بھلا ان مصنوعی ہتھیاروں کی کیاضروت ہے ۔خوامخواہ خود کو ہلکا ن کرتی ہو۔‘‘ عائشہ نے رشک بھری نظروں سے اُسے دیکھا پانچ فٹ پانچ انچ قد،سُرخ و سفید رنگت جیسے کسی نے دودھ میں روح افزاء ملا دیا ہو۔شہد رنگ آنکھیں،ستواں ناک اور گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ ،اُسے اپنی دلکشی کا بھرپور احساس تھا۔
’’یار کیا کروں ،دل چاہتا ہے کہ بس ہر لحاظ سے پرفیکشن نظر آئے۔آنکھوں کو ذرا سی کمی یا بھدا پن بھی بُری طرح کھٹکتا ہے۔۔۔‘‘اُس کی ذات میں عجیب سی تمکنت اور بے نیازی تھی۔کوئی عام سی چیز تو اس کی نگاہ کے سامنے ٹھہرتی ہی نہیں تھی۔
’’تمہارے اندر کہاں سے کمی ہے یار۔۔۔؟؟؟‘‘ عائشہ نے جھنجھلا کر اپنی بے تحاشا حسن پرست دوست کو دیکھا جس کی آنکھوں میں روشنیوں کے سوتے سے پھوٹتے ہوئے دِکھائی دیتے تھے اور فخر و انبساط کی لہریں اُس کے وجود کا احاطہ کیے رکھتی تھیں۔
’’یار مجھے معلوم ہے کہ کو ئی کمی نہیں،لیکن عجیب بے چین طبیعت پائی ہے مابدولت نے۔۔‘‘اُسے خود بھی اپنی اس بے تحاشا خوبصورتی کی دلدادہ فطرت کا پتا تھا اور بعض دفعہ وہ خود بھی اس عادت کے ہاتھوں تنگ ہوتی تھی لیکن ایک سائیکلوجسٹ ہونے کی حیثیت سے بھی وہ اپنی اس خامی پر قابو پانے سے قاصر تھی۔
’’تمہارا وہ رامس علی بھی اچھا خاصا ہینڈ سم بندہ ہے اور میرے خیال میں اسی وجہ سے تم اُسے دن رات لفٹ کروا رہی ہو۔۔۔‘‘ عائشہ کو اچانک یاد آیا کہ گفتگو کا آغازکہاں سے ہوا تھا تب ہی وہ سیب کھانے کے بعد اب بڑی فرصت سے ٹشو سے ہاتھ صاف کر رہی تھی۔ دونوں اس وقت ماہم کے بیڈ روم کے کارپٹ پر بے تکلفی سے بیٹھی ہوئیں تھیں۔
’’کچھ خدا کا خوف کرو یار،کیوں مجھے بدنام کر رہی ہو،مجھے خوبصورتی اٹریکٹ ضرور کرتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ میں اپنے پروفیشن میں بھی اس چیز کو حاوی کر لوں۔‘‘ ماہم نے نیل پالش لگا کر ٹانگیں پھیلاتے ہوئے اپنی دوست کو گھورا جو اُس کے بارے میںآج خاصے غلط اندازے لگا رہی تھی۔اُس کے اس طرح تپ کر بولنے پر وہ مسکرائی۔
’’تمہاری حرکتیں ہی ایسی ہیں ،میں کیا کروں۔۔۔‘‘اُس نے کندھے اچکا کر شرارت سے اُسے دیکھاجو اس الزام تراشی پر اب اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔
’’لو میں نے کیا،کیا ہے۔۔۔؟؟‘‘
’’پہلے محترمہ اپنے مریضوں کے ساتھ پارکوں میں گھومتی دِکھائی دیتی تھیں ،چلو وہ قابل قبول تھا۔اب یہ موویز دیکھنے کا ڈرامہ شروع کر رکھا ہے۔۔۔‘‘ عائشہ کو ابھی تک یہ بات ہضم نہیں ہوئی تھی جب اُسے ماہم نے بتایا کہ وہ رامس کے ساتھ بول مووی دیکھ کر آئی ہے۔
’’یار تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ میرا کام کرنے کا اپنا ایک اسٹائل ہے اور میں اُسی اسٹائل میں زیادہ ایزی محسوس کرتی ہوں۔میرے پاس ایسے لوگ آتے ہیں جو کلینک کے ماحول میں گھبرا جاتے ہیں ان کو لگتا ہے جیسے یہاں کوئی خفیہ کیمرے لگے ہونگے اور ان کی ریکارڈنگ ہو رہی ہوگی اس لیے وہ خاصے محتاط انداز سے گفت و شنید کرتے ہیں۔اس لیے میں ان کو باہر لے جاتی ہوں کھلی فضا میں وہ اچھا رسپانس دیتے ہیں۔۔۔‘‘ ماہم نے خلاف توقع خاصی تفصیل سے جواب دیا تھا۔
’’اور سینما کی رومینٹک فضا میں۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے شوخی بھرے انداز سے اپنی دوست کا چہرہ دیکھا جو اسٹابری کی طرح سرخ ہو ا۔
’’وہاں تو ان کے رزلٹس سو فیصد عمدہ ہوتے ہیں یار۔۔۔‘‘ ماہم نے شرارت سے ایک آنکھ دبائی۔
’’شیم آن یو،بہت فضول لڑکی ہو تم،پتا نہیں کیسے جواد انکل نے تمہیں اپنے کلینک میں بیٹھا رکھا ہے۔۔۔‘‘عائشہ اس کی اس کمینگی پر تپ کر کھڑی ہوئی تھی۔ اُس کا اور ماہم کا بائیس سال کا ساتھ تھا۔دونوں کے والد آرمی سے تھے لیکن اپنی پوسٹنگ کے دوران انہوں نے بچوں کو ہمیشہ ایک ہی جگہ پر رکھا تھا۔وہ ماہم کے پڑوس میں مقیم تھی اور ماہم کی بڑی بہن کی شادی عائشہ کے خالہ زاد بھائی انصر جمیل کے ساتھ ہونے کی وجہ سے دونوں خاندان ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے۔دونوں کی سکولنگ سے لے کر یونیورسٹی لائف ایک ساتھ گذری تھی فرق بس اتنا تھاکہ عائشہ نے فائن آرٹس میں جبکہ ماہم نے سائیکلوجی میں ایم ایس سی کی تھی۔عائشہ کے والد لیفٹیننٹ جنرل تھے لیکن اس کے مزاج میں ضرورت سے زیادہ سادگی تھی ۔
’’اؤے بیٹھ جا،زیادہ اٹھارویں صدی کی ہیروئن بننے کی ضرورت نہیں۔تجھے معلوم تو ہے کہ جب تک میں پورے د ن کی روداد تمہیں سنا نہ لوں ،مجھے چین نہیں آتا ،میرا دل بے قرار ہو جاتا ہے اور طبیعت میں عجیب سی بے زاری بھر جاتی ہے۔تمہیں کیا پتاکہ تم میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون ہو۔۔۔‘‘ ماہم کی اداکا ری عروج پر تھی۔ عائشہ نے کڑے تیوروں کے ساتھ کمر پر ہاتھ رکھ کر اُسے گھورا۔
’’بند ہو گئی تمہاری بکواس۔۔۔؟؟؟؟؟‘‘
’’ہاں اب تم شروع کر دو۔۔۔‘‘ ماہم نے جان بوجھ کر اُسے چڑایا تھا۔جو اپنے گھر جانے کے لیے پر تول رہی تھی۔جب کہ ماہم نے ابھی بہت سی باتیں اُسے سنانی تھیں۔اپنی بڑی بہن کی شادی کے بعد اُس کا اب کلینک سے آنے کے بعد زیادہ وقت عائشہ کے ساتھ ہی گذرتا تھا ۔بریگیڈیر منصورکی صرف دو ہی بیٹیاں تھیں جن میں ماہم چھوٹی تھی۔
’’میں تمہارے لیول کی فضول گفتگو نہیں کر سکتی اور نہ ہی میرے پاس اتنا فالتو وقت ہے کہ میں تمہارا ’’رامس نامہ ‘‘سنوں۔مجھے اپنی سولو ایگز یبیشن کی تیاری بھی کرنی ہے۔‘‘ماہم نے بغور اس کے تاثرات جانچے وہ اب بالکل بھی رکنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
’’ویسے یار منڈا وہ واقعی ہی رج کے سوہنا ہے۔۔۔‘‘ماہم نے اُسے ایک دفعہ پھر چھیڑا تھا وہ جاتے جاتے تپ کر پلٹی تھی۔ ’’کیوں انکل منصور کا نام ڈبو رہی ہو،کتنے شریف انسان ہیں وہ اور اولاد دیکھو۔۔۔‘‘ عائشہ نے ٹھیک ٹھاک اُس کی کلاس لی ۔
’’لو میں کون سا لوگوں کے گھروں میں ڈاکے ڈالتی پھر رہی ہوں۔یا پھر میں نے بینک سے قرضہ لے کر الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔کچھ تو خوف خدا کیا کرو یار،کیوں مجھ معصوم کے پیچھے پڑ گئی ہو۔‘‘ماہم کے چہرے کی دبی دبی مسکراہٹ عائشہ کے ضبط کا امتحان لے رہی تھی۔
’’تم کسی دن میرے ہاتھوں قتل ہو جاؤ گی یہ بات آج کہیں لکھ لو۔۔۔‘‘عائشہ نے انگلی اٹھا کر اُسے وارننگ دی تو ماہم ایک دفعہ پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی ۔
’’اگلی دفعہ جب مووی دیکھنے جاؤں گی تو تم بھی میرے ساتھ چلنا،یقین مانو،جب وہ رامس کسی سین کو دیکھ کر بلش کرتا ہے تو بہت مزے کا سین ہوتا ہے۔میں تو مووی کم اور اُسے زیادہ دیکھتی ہوں۔‘‘ ماہم کی آنکھوں میں مچلتی شرارت کو سمجھتے ہوئے بھی عائشہ نے اُسے گھورا۔
’’سوری ۔۔۔!!!میرے پاس ایسی فضولیات کے لیے کوئی ٹائم نہیں۔یہ پھیرے ٹورے تمہیں ہی مبارک ہوں۔ ایک دم فلرٹ لڑکی ہو تم ،اور تمہیں خود ایک اچھے سائیکاٹرسٹ کی ضرورت ہے۔پہلی فرصت میں کسی سے اپائنٹمنٹ لو،سمجھی۔۔۔؟؟؟؟‘‘ عائشہ نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’اور اگر وہ بندہ بھی پہلے سیشن میں ہی مجھے مووی دِکھانے لے گیا تو۔۔۔؟؟؟‘‘ ماہم اچھل کر اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی ۔
’’تو ایسے واہیات بندے سے فوراً سے پہلے شادی کر لینا،کیونکہ تمہیں ایسا ہی پاگل بندہ سوٹ کرتا ہے۔ ۔۔۔‘‘ عائشہ نے بازو سے پکڑ کر اُسے جل کر کہا اور فورا کمرے سے نکل گئی جاتے ہوئے اُس نے اتنی قوت سے دروازہ کھینچ کر مارا تھا کہ ایک لمحے کوتو ماہم کو لگا جیسے کوئی بھونچال آگیا ہو۔اگلے ہی لمحے وہ اُسے منانے کے لیے اُس کے پیچھے لپکی
آج پھر بہت عجیب بات ہوئی۔۔۔
سکینہ عصر کی نماز پڑھ کر جو مدہوش ہو کر سوئی تو مغرب کی اذان نے بھی اُسے نہیں اٹھایا۔حالانکہ اس کا دعوی تھا کہ اذان کی ہلکی سی آواز پر بھی وہ گہری نیند سے جاگ جاتی ہے لیکن آج کل سب کچھ ہی الٹ ہو رہا تھا۔
’’نی سکینہ اٹھ جا۔۔۔نماز پڑھ لے۔۔یہ کون سا ٹیم ہے تیرا سونے کا۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی آواز نے بھی اس کی نیند میں خلل نہیں ڈالا تھا۔
’’او پتّر ۔۔۔اٹھ جا۔۔ویلا(وقت) نکلتا جا رہا ہے۔مغرب دا ٹیم ہی کناّ ہوندا اے۔‘‘ اُس کی آواز میں فکرمندی کے ساتھ ہلکی سی خفگی تھی لیکن سکینہ نے بھی شاید آج کوئی قسم کھا رکھی تھی کہ جمیلہ مائی کی کسی آواز پر کان نہیں دھرنا جو جائے نماز پر بیٹھی اُسے آوازیں دے رہی تھی۔کمرے میں پیلے بلب کی روشنی گندھک کے غبار کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔
’’اٹھ جا نہ کڑئیّے ،تجھے وضو کرنے میں بھی ٹیم لگے گا۔۔۔‘‘سکینہ کو واش روم میں لے کر جانا بھی ایک دشوارکن مرحلہ تھا جو جمیلہ مائی ماتھے پر ایک بھی شکن لائے بغیر مکمل خوش اسلوبی سے سرانجام دیتی تھی۔اس کمرے میں اٹیچ باتھ روم کی وجہ سے انہیں کافی آسانی تھی۔
’’نی سکینہ بتا۔۔۔اج تیرے کی ارادے نے۔۔۔؟؟؟جمیلہ مائی نے اٹھ کر خاصے جارحانہ انداز کے ساتھ اس کے کندھے کو جھنجھوڑا تو سکینہ نے بمشکل نیند بھری آنکھیں کھول کر ناگواری سے امّاں کو دیکھا۔ ’’کیا ہے امّاں۔۔۔؟؟؟‘‘
’’اٹھتی ہے یا تیرے اک ہتھ (ہاتھ)جماؤں۔اتنی دیر سے رولا ڈال رہی ہوں کہ نماز دا ویلا نکلا جا رہا ہے بلکہ اب تک تو نکل ہی گیا ہے۔۔۔‘‘ امّاں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر پھیلے گھپ اندھیرے کو دیکھا اس سے زیادہ مایوسی اور دکھ کا اندھیرا اس کے اپنے اندر اترا تھا۔امّاں کے غضب ناک انداز نے سکینہ کی ساری نیند اڑا دی تھی۔اُس نے فوراً اٹھ کر وال کلاک دیکھا اور یک لخت شرمندہ ہو گئی۔
’’تجھے کیا ہو گیا ہے سکینہ۔۔۔؟؟؟‘‘ امّاں نے سخت صدمے سے اپنی لاڈلی بیٹی کا خفت زدہ چہرہ دیکھا۔ ’’نماز کی سستی تو ،تو نے زندگی میں کبھی نہ کی،پہلے پرسوں فجر کی نماز ،کل عصر کا ویلا اور اج مغرب دی نماز نکال دی،تیرے ابّے کو پتا چلے تو وہ کتنا دکھی ہو۔تو نے تو پتّر اس وقت بھی اشارے سے نمازیں پڑھی جب تیرا آپریشن ہوئے چند گھنٹے ہی ہوئے تھے۔‘‘جمیلہ مائی کی اردو کافی بہتر ہو گئی تھی اور وہ بغیر اٹکے آرام سے بات کر لیتی تھی اس وقت اُس کے لہجے میں دکھ،تاسف اور رنج ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
’’پتر مینوں لگدا اے کہ سوہنے رب نوں تیری کوئی گّل بُری لگ گئی اے۔سکینہ توبہ کر توبہ۔ اللہ ناراض ہو گیا تے میری دھی تو رُل جائیں گی،اُس ویلے تو ڈر،جب سوہنا رب تیرے دل تے کوئی مہر ہی نہ لگا دے۔۔۔‘‘جمیلہ مائی نے اُسے اللہ کے غضب سے ڈرایا اور وہ ڈر بھی گئی۔آنسوؤں کے پر حدّت قطرے اُس کے رخساروں پر پھیل رہے تھے۔
’’یااللہ میری کملی دھی تے رحم کر۔۔۔اس نمانی کے کسی لفظ کی پکڑ نہ کرنا،یہ نادان اے،پاگل اے،کملی اے۔شوہدی نوں گل کرنا دا سلیقہ نئیں۔۔۔‘‘جمیلہ مائی کی اونچی آواز میں مانگی گئی دعا اُسے اور بھی شرمندہ کر رہی تھی۔اُسے حقیقتاً یہ سوچ کر تکلیف ہو رہی تھی کہ وہ اپنے رب سے غافل کیوں ہو رہی ہے۔بہت دیر تک رونے اور اللہ سے معافیاں مانگنے کے بعد اس کے اعصاب کچھ پرسکون ہوئے اور اس نے عشاء کی نماز اذان کے ساتھ ہی پڑھ لی تھی۔
’’امّاں چل،اب ناراضگی چھوڑ دے ناں،بس کر،آج تو میں نے اللہ سے غافل کر دینے والی نیند کی بھی پناہ مانگی ہے۔۔۔‘‘سکینہ نے خفا خفا سی جمیلہ مائی کو دیکھتے ہوئے معذرت کی تھی ۔ امّاں بھلا اس سے ناراض بھی کب ہوتی تھی۔ہمیشہ وہ ہی امّاں کو ادائیں دِکھاتی تھی لیکن آج تو وہ بھی جلالی موڈ میں تھیں۔اس وقت بھی وہ بچ جانے والی روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر رہی تھی تاکہ صبح چڑیوں کو ڈال سکے۔
’’سوہنے رب سے سیدھے رستے پر چلنے کی دعا بھی کر لینی تھی۔۔۔‘‘امّاں کے جل کر بولنے پر اُسے ہنسی آگئی ۔
’’امّاں قسم سے بالکل کسی ڈاڈی اور کپتی ساس کی طرح طعنے دیتی ہے تو۔۔۔‘‘ سکینہ کے شکوے پر جمیلہ مائی مبہم سے انداز میں مسکرائی تو سکینہ کے حوصلے بھی جوان ہو گئے۔’’امّاں میرے سر میں تیل ڈال کے مالش کر دے ناں ،بال کتنی روکھے ہوتے جا رہے ہیں۔۔۔‘‘اُس کا فرمائشی پروگرام شروع ہوگیا تھا اور امّاں بھی بھلا کب اس سے اتنی دیر خفا رہ سکتی تھیں ۔اس لیے فورا سرسوں کے تیل کی بوتل اٹھا کر اس کے سر کا مساج کرنے لگیں،سکینہ کو سرور سا آنے لگا اور آنکھوں میں نیند نے ایک دفعہ پھر ڈیرے ڈال لیے۔
ڈاکٹر خاور کسی میڈیکل کانفرنس میں شرکت کرنے لاہور چلے گئے تھے۔دو دن کے بعد وہ راؤنڈ پر آئے تو سکینہ کے ساتھ ساتھ امّاں کی متورمّ آنکھیں اور خاموشی انہیں کسی انہونی کا احساس دلا گئیں ورنہ دونوں ماں بیٹیاں اُن سے ہر راؤنڈ میں چھوٹے چھوٹے کئی سوال ضرور کرتی تھیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...