پہلی حکایت مِتر لابھ کی یعنی فائدہ جو یاروں سے یاروں کو حاصل ہو
بشن سرما پنڈت کہنے لگا کہ اب دوستوں کے ملاپ کی باتیں کہتا ہوں۔ جو لوگ بے مقدور، دانا، مفلس اور دوست ہیں، سو وے اپنا کام ان چار جانوروں کی طرح کرتے ہیں۔ راجا کے بیٹوں نے پوچھا: ‘‘وہ کیوں کر ہے؟ اُس کا بیان جدا جدا کرو”۔
لگ پتنگ کوے اور چڑی مار کی داستان
پھر پنڈت بولا کہ گوداوری ندی کے کنارے بڑا سا ایک سینبھل کا درخت تھا۔ اُس گرد نواح کے تمام پرندے رات کو اُس پر بسیرا لیا کرتے۔ ایک روز منہ اندھیرے لگ پتنگ کوے کی آنکھ کھلی۔ دیکھتا کیا ہے کہ ایک چڑی مار کاندھے پر جال دھرے ملک الموت کی صورت بنائے چلا آتا ہے۔ یہ اپنے دل میں اندیشہ کرنے لگا کہ آج بڑی فجر کے وقت صورت منحوس نظر آئی ہے، دیکھا چاہیے کیا ہو۔ یہی کہہ کر اس شکاری کے پیچھے لگ لیا۔ آخرش کچھ ایک آگے بڑھ کر تھوڑے چاول جھولی سے نکال کر ایک جگہ پر درخت کے نیچے چِھٹکائے اور اپنے کاندھے کا جال اُس پر بچھا کر آپ ایک گوشے میں چھپ رہا۔ اس عرصے میں چتر گریو نام کبوتروں کا بادشاہ اپنی فوج کے ساتھ ہوا پر سے اس میدان میں آ پہنچا اور اُن میں سے بعضے کبوتروں کی نظر بکھرے ہوئے دانوں پر پڑی تو ہر ایک کو اُن دانوں کے چگنے کی خواہش ہوئی۔ چتر گریو اُن نادانوں کی خام طمعی کو دیکھ کر کہنے لگا: ‘‘اے یارو! بھلا ٹک غور تو کرو، اس جنگل میں دانے کہاں سے آئے؟ اگر یہاں آدمی ہوں تو کہہ سکیے کہ اُن کے کھانے کھلانے سے دانے زمین میں گرے ہوں گے، سو تو نہیں۔ اور یہ چاول جو اس درخت کے نیچے پڑے نظر آتے ہیں، سو اس میں کچھ فریب ہے۔ اگر تم دانہ کھانے کے لیے نیچے اُترو گے تو تمھارا احوال اُس مسافر کا سا ہوگا جو سونے کی پایل کے لیے چہلے میں پھنس کر بوڑھے شیر کا لقمہ ہوا”۔ کبوتروں نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” چتر گریو نے کہا۔
حکایت بوڑھے باگھ اور مسافر کی
ایک دن میں دکھن کی طرف کسی جنگل میں چرائی کو گیا تھا۔ وہاں دیکھا کہ ایک بوڑھا باگھ منہ کعبے کی طرف کیے مؤدب ہو کر تالاب کے کنارے بیٹھا ہے۔ جو کوئی راہی مسافر اُس طرف کو ہو کر نکلتا، وہ کہتا کہ میرے پاس سونے کی پایل ہے، اُس کو میں خدا کی راہ پر دیا چاہتا ہوں۔ جو کوئی لے، میں اُسے دوں۔ لیکن مارے ڈر کے اس کے نزدیک کوئی نہ آتا۔
قضا کار ایک روز کسی مسافر اجل گرفتہ کو یہ ہوس ہوئی کہ اُس زیور کو شیر سے لیا چاہیے۔ دل میں خیال کیا ایسا مال مفت پھر کہاں ہاتھ آوے گا۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرے بخت نے یاوری کی اور طالعوں نے مدد۔ یہ سمجھ کر چاہا کہ باگھ کے پاس جاوے، پھر جان کی دہشت سے اندیشہ کرنے لگا کہ یکایک دشمن کی میٹھی بات پر بھروسا نہ کیا چاہیے۔ اگرچہ اُس کے نزدیک پایل ہے پر اُسے کیوں کر لوں۔ چنانچہ زہر کے ساتھ ہر چند شہد ملا ہو، تاہم اُس میں خطرہ جان کا ہے اور جس برائی میں بھلائی شامل ہو وہ بھی خوب نہیں۔ پھر من میں سوچا جہاں گنج تہاں مار، جہاں پھول تہاں خار۔ اور زر کے محتاج کو ہر جگہ خوف ہے۔ اب جو میں ڈر کر رہ جاؤں تو دولت میرے ہاتھ نہ آوے گی۔ آدمی اُس کے واسطے کیسی کیسی محنتیں کرتے ہیں اور کیا کیا اذیتیں اٹھاتے ہیں، تب وہ ہاتھ آتی ہے۔
آخر یہ سب سوچ بچار کر بولا: ‘‘اے شیر! وہ چیز جو للہ دیا چاہتا ہے سو کہاں ہے؟ دکھا”۔ تب اُس نے وہ پایل ہاتھ پسار کے دکھلائی۔ بٹوہی بولا: ‘‘تو باگھ میں مانُس، میرا مانْس تیرا ادھار، مجھے تیرا بھروسا نہیں، میں تیرے پاس کیوں کر آؤں؟” شیر بولا: ‘‘تو نہیں جانتا ہے کہ میں نے مانس کھانا چھوڑ دیا ہے۔ اگر گوشت کی مجھے خواہش ہو تو میں جنگل سے ہرن مار کر کیوں نہ کھاؤں اور تجھے پکڑ کر کیوں نہ کھا جاؤں؟ لیکن میں نے زہد اختیار کیا۔ اب یہ پایل میرے کس کام آوے گی۔ تجھے فقیر دیکھ کر دیتا ہوں تاکہ مجھے ثواب ہو۔ تم ہرگز خوف اپنے دل میں مت لاؤ، نِسَنگ چلے آؤ۔ جیسی میں اپنی جان جانتا ہوں ویسی ہی دوسرے کی”۔ راہی نے کہا: ‘‘اتنے آدمی اس راہ سے آئے گئے، ان کو کیوں نہ دی؟” کہا: ‘‘غنی کو دینا کیا فائدہ؟ جو زحمتی ہو اُسی کو دارو دیتے ہیں، بھلے چنگے کو دوا کھلانی لا حاصل، بھوکھے کو کھلانا موجب ثواب کا ہے”۔
اس گفتگو پر مسافر نے فریب کھایا اور کہا: ‘‘اے نیک خصال! وہ پایل مجھے دے”۔ شیر نے کہا: ‘‘پہلے تم اس تالاب میں نہا کر میرے پاس آؤ تو میں تمھیں دوں”۔ تب وہ غریب زیور کی خوشی سے جلد چشمے میں آیا۔ آتے ہی دونوں پاؤں چہلے میں پھنس گئے۔ شیر نے دیکھا اب تو یہ دلدل میں پھنس چکا، اُٹھ کر آہستہ آہستہ پکڑنے کے واسطے چلا۔ اُس نے پوچھا: ‘‘شیر! تم کہاں آتے ہو؟” شیر نے کہا: ‘‘تجھے دلدل سے نکالنے کو”۔ یہ کہتے ہی گردن جا پکڑ لی۔ بے چارے بٹوہی نے پکڑتے وقت اپنی عقل پر ہزاروں ملامتیں کیں اور کہنے لگا کہ اگر کوئی کڑوے کدو کی جڑ میں پانی کی جگہ شربت دیوے تو بھی پھل اس کا کڑوا ہی ہووے ؎
جو جا کو پڑیو سبھاؤ جاینا جیو سوں
نیم نہ میٹھو ہوے سیج گڑ گھیو سوں
اگرچہ اُس نے کتنی ایک باتیں میٹھی میٹھی مجھ غریب کے دل للچانے کے واسطے کیں لیکن جو کچھ اُس کی ذات میں تھا سو نمودار ہوا۔ اگر وہ نیک ہوتا تو بدی ہرگز ظاہر نہ ہوتی اور ایسا کام کبھی نہ ہوتا۔ چنانچہ گاے سوکھی گھاس کھاتی ہے اور دودھ میٹھا دیتی ہے لیکن دودھ اس کا بہ سبب گھاس کھانے کے میٹھا نہیں بلکہ وہ اس کی ذات سے میٹھا ہے۔ اتنا کہہ کر وہ تو مر گیا۔
چتر گریو کبوتروں کے بادشاہ نے کہا: ‘‘اے بھائیو! اگر دانہ کھانے کو درخت کے نیچے اُترو گے، جیسا کہ اُس مسافر لالچی نے اندیشہ نہ کیا، پایل کے لالچ میں اپنی جان مفت برباد دی، ویسا ہی تم بھی ان دانوں کی طمع سے گرفتار ہو کے قدر عافیت معلوم کرو گے۔ اے یارو! میں نے کبھی اس درخت کے تلے دانہ پڑا نہیں دیکھا۔ بزرگوں نے کہا ہے کہ تھوڑے کھانے سے اور پڑھے بیٹے سے، اور سیانی عورت سے جو اپنے خصم کے کہنے میں ہو اور اُس آقا سے جس کو اپنی خدمت کی قوت سے اپنا کیا ہو اور سوچی ہوئی بات سے، اور جو کام عاقلوں کی صلاح سے ہوا ہو، ان چھ چیزوں سے کبھی زبونی پیدا نہ ہوگی۔ اگر اپنی بھلائی چاہتے ہو تو ان دانوں سے ہاتھ اُٹھاؤ۔
جو کبوتر اُن میں نادان تھا، اس نے کہا: ‘‘اے بھائیو! اگر ایسی بات چیت سے ہم ڈریں گے تو دانہ کہیں کھانے نہ پاویں گے۔ جہاں کہیں چرائی کو جائیں گے اگر ایسا ہی دغدغہ دل میں لاویں گے تو گویا اپنی روزی کا دروازہ اپنے ہی ہاتھوں سے بند کریں گے۔ میں تو ان دانوں کو ہرگز نہ چھوڑوں گا”۔ خیر جب سب کبوتر اس کے کہنے سے درخت کے نیچے آئے، چتر گریو بڑا عاقل تھا، اس کے نزدیک کوئی مشکل نہ رہتی اور ہر ایک کو نصیحت کیا کرتا۔ جب سب یار نیچے جا چکے، تب یہ کہا: ‘‘اب تنہا رہنا میرا بے لطف ہے۔ مرگ انبوہ جشنے دارد۔ ساتھ ان کے جو ہو سو ہو”۔ آخر وہ بھی اُتر کر جلد شریک ہوا۔ چڑی مار نے دیکھا، اب تو سب آ چکے، جھٹ سے جال کھینچ لیا، تمام کبوتر جال میں پھنس گئے۔ تب وے اُس نادان کو لعنت و ملامت کرنے لگے کہ ہم اس بے وقوف کے کہنے سے نیچے آئے تو دام میں پھنسے۔
کبوتر نادان اُن کے طعن و تشنیع سے ایسا شرمندہ ہوا جو اُس کو منہ دکھانے کی جگہ نہ رہی۔ کہا: ‘‘بزرگوں کا قول سچ ہے، اگر دس آدمی کو ایک مشکل پیش آوے تو ایک آدمی کو نہ چاہیے کہ مخالف بن کر اس میں سبقت کرے، جو بھلا ہو تو سب کہیں کہ ہم بھی اس میں مددگار تھے۔ خدا نخواستہ اگر کچھ اور صورت ہو تو ہر ایک اُسی پر گناہ ثابت کرے”۔ چتر گریو نے کہا: ‘‘اس وقت ملامت کرنی کیا فائدہ؟
ملامت روا ہے سلامت کی جا
جو وہ جا چکی ہے ملامت خطا
اے بھائیو! گناہ اور خطا کسو کی نہیں، جو کچھ خواہش الٰہی ہے وہی ہوتی ہے ؎
قضا کے ہاتھ ہیں پانچ انگلیاں وو
اگر چاہے کرے بے جاں کسی کو
رکہے آنکھوں پہ دو اور کان پر دو
اور اک رکھ لب پہ وہ بولے کہ چپ ہو
یارو! اگر دن برا آتا ہے تو نیک کام بھی بد ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ماں باپ سے زیادہ مہربان اپنے بیٹے بیٹی کے حق میں کوئی نہیں لیکن بعضے وقت ایسا ہوتا ہے کہ وہی ماں باپ اپنے فرزندوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ مثل ہے ‘‘گوالا جب گائے کا دودھ دوہتا ہے، تب بچھڑے کے گلے کو گائے کے پاؤں سے باندھتا ہے۔ اُس وقت وہی پاؤں بچھڑوں کی بیڑی ہوتا ہے اور وہ گوالا اپنا مطلب حاصل کر لیتا ہے”۔ سنو دوستو! اب شور مت کرو، کچھ ایسا اندیشہ کرو کہ موجب ہر ایک کی مخلصی کا ہو۔ یار وہی جو برے وقت میں کام آوے۔ فراغت میں ہر کوئی کہتا ہے کہ میں تمھارا دوست ہوں۔ اگر کسی کو کچھ ضرور کام در پیش ہو اور اُس کے سبب مغموم ہووے تو اُس کو لوگ مرد نہیں کہتے بلکہ نامرد مشہور کرتے ہیں۔ مرد وہ ہے کہ جو حادثہ اُس پر پڑے تو دل اپنا مضبوط رکھے اور سوچ بچار اس بات کا کرے کہ اُس سے اپنا کام سر انجام ہووے۔ قول بزرگوں کا ہے ؎
اضطرابی ہے عبث، کلک قضا نے تیرے
لکھ دیا ہے جو نصیبوں میں وہی ہووے گا
اب ایسی فکر کیا چاہیے کہ ہر ایک اس بند سے نجات پاوے کیوں کہ عقل مندوں نے کہا ہے کہ چھ چیزیں آدمیوں کو چاہئیں: پہلی اُن میں سے یہ ہے کہ اگر کسی بلاے ناگہانی میں گرفتار ہو جاوے تو اُس سے ہرگز نہ گھبراوے۔ دوسری یہ، جو کوئی کسی کے یہاں بڑا آدمی آوے تو اس کی تواضع کرے۔ تیسری یہ، جو بات مجلس میں کہے سو بر محل کہے۔ چوتھی یہ کہ لڑائی میں دل چلاوے۔ پانچویں یہ کہ اپنے تئیں خلق کی زبان سے بچاوے اور نیک کہلاوے۔ چھٹی یہ ہے کہ علم کی تحصیل میں دل لگاوے۔
اور چھ چیزیں مرد کو نہ چاہئیں: پہلے بہت سونا، دوسرے عبادت میں کاہلی کرنی، تیسرے ہر ایک کام میں ڈرتے رہنا، چوتھے غصہ کرنا، پانچویں برا کہنا پڑوسیوں کو، چھٹے غیبت کرنی لوگوں کی اور ہنسنا اُن پر۔ اب اے بھائیو! میرے اتفاق سے کام کرو اور میری بات کو سنو تو تمھاری مخلصی ہووے”۔
کبوتروں نے کہا: ‘‘اے بادشاہ! جو پہلے تمھارا کہا ہم سنتے، ایسے فضیحت اور رسوا نہ ہوتے۔ اب جو کچھ فرماؤ سو بجا لاویں”۔ بادشاہ نے کہا: ‘‘یارو! جو دس شخص پر ایک مشکل آ پڑے، اُن میں سے ایک کو نہ چاہیے کہ مختار ہو کر اپنے تئیں نمود کرے، کیوں کہ اگر وہ کام خوب ہو تو سب کہیں کہ اُس میں ہم شریک تھے، جو بد ہو تو سب کہیں کہ فلانے نے یہ کام کیا ہے۔ اب جو کچھ ہوا سو ہوا لیکن بالفعل سب کبوتر ایک دل ہو کر ایک بارگی جال سمیت اڑو۔ چنانچہ ایک گھاس کے تنکے سے جو ایک پرند کو باندھیں تو زور سے اس طائر کے وہ تنکا ٹوٹ جاوے۔ اگر ویسے ہی بہت سے تنکے ایک جگہ کرکے رسا بانٹیں تو اس سے ہاتھی بندھا رہے، ہر چند ہاتھی زور کرے پر ہرگز نہ توڑ سکے”۔
غرض جو اس نے کہا، سو انھوں نے کیا یعنی سب زور سے جال لے اُڑے اور چڑی مار نے کئی کوس تک پیچھا اُن کا کیا۔ جب وے نظر سے غائب ہوئے، تب وہ نا اُمید ہو کر پھر گیا۔ کبوتروں نے کہا: ‘‘اے بادشاہ! شکاری نے ہمارے گوشت کھانے سے ہاتھ دھوئے، اب کیا کیا چاہیے؟” چتر گریو بولا: ‘‘یارو! دنیا میں ماں باپ درد کے شریک ہیں کیوں کہ وے اپنے دل سے دوست ہیں اور لوگ کسو سبب سے ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت وے کہاں ملیں؟ پر ایک میرا دوست ہرنک نام چوہا گندک ندی کے کنارے بچتر بن میں رہتا ہے، جو وہاں پہنچیں گے تو وہ تمھارے جال کے ڈورے کاٹے گا”۔ یہ سن کر سب کبوتر اُس چوہے کے بل پاس جا پہنچے اور وہ دور اندیشی سے اپنے رہنے کی جگہ میں سو بل بنا کر رہتا تھا۔ کبوتروں کو دیکھ کر چھپ رہا۔ پھر اپنے دوست کو پہچان کر کہنے لگا: ‘‘آہ ہو! میں بڑا نیک بخت ہوں جو میرے گھر پر میرا یار چتر گریو آیا”۔ پھر دیکھا کہ سب کبوتر ایک جال میں پھنسے پڑے ہیں۔ ایک لحظہ چپ رہ کر کہنے لگا: ‘‘یار! یہ کیا حال ہے؟” چتر گریو بولا: ‘‘میں کیا کہوں؟ ہمارے گناہوں کا یہ نتیجہ ہے۔ تم دانا ہو کر یہ کیا پوچھتے ہو؟” چوہا کہنے لگا: ‘‘جس شخص کو جہاں کسی سبب سے جو کچھ ہوا چاہے سو ہوتا ہے؛ چنانچہ دکھ سکھ، خوشی نا خوشی، ہر ایک کو اپنے اپنے گناہ اور نیکی کے موافق ملتی ہے”۔ یہ کہہ کر چوہا چتر گریو کی طرف کا پھندا کاٹنے کو دوڑا۔ وہ بولا: ‘‘ایسا نہ چاہیے، پہلے میرے رفیقوں کی گرہ کاٹو تس پیچھے میری”۔ چوہا بولا: ‘‘دانتوں میں قوت کم ہے، کیوں کر سب کے پھندے کاٹ کر تمھارا پھندا کاٹوں گا”۔ پھر چتر گریو نے کہا: ‘‘پہلے اُنھیں کا جال کاٹو”۔ ہرنک بولا: ‘‘اپنے تئیں ہلاکت میں رکھ کر دوستوں کو بچانا خوب نہیں۔ بزرگوں نے کہا ہے مال کو اور دوستوں کو واسطے دفع بلیات کے رکھتے ہیں، یعنی جان کو دولت اور لواحقوں سے بچاتے ہیں۔ اپنی جان کی محافظت ہر ایک شے پر مقدم جاننا چاہیے کیوں کہ اس کے سبب دین و دنیا کا کام انجام پاتا ہے”۔ چتر گریو بولا: ‘‘اے دوست! تو جو کہتا ہے سو دنیا کا یہی دستور ہے لیکن میں اپنے لواحقوں کا دکھ دیکھ نہیں سکتا۔ آگے بھی لوگ کہہ گئے ہیں کہ دانا غیر کے واسطے جان اور دولت دیتا ہے۔ پس غیر کے لیے اپنی دولت اور زندگی سے ہاتھ اٹھانا مناسب ہے اور یے سب ذات اور زور میں میرے برابر ہیں۔ پس میری بزرگی سے فائدہ ان کو کیا ہوگا؟ بغیر اُجرت کے میری رفاقت میں رہتے ہیں؛ اس میں اگر میری جان جاوے اور ان کی مخلصی ہووے تو مجھے قبول ہے، کیوں کہ اس جسم فانی کا کچھ اعتبار نہیں۔ جو اس سے دنیا میں بھلائی رہے تو بہتر ہے، کس واسطے کہ وہ تو ایک دم میں فنا پذیر ہے اور یہ ہزاروں برس رہتی ہے”۔
یہ بات ہرنک سن کر بہت خوش ہوا اور کہا: ‘‘صد آفریں تم کو کہ اپنے رفیقوں پر تمھارا یہاں تک دل ہے”۔ خیر ہرنک چوہے نے ہر ایک کبوتر کے پاؤں کے پھندے کاٹ کر تعظیم و تکریم سب کی کی۔ پھر چتر گریو کی طرف متوجہ ہو کر کہا: ‘‘سن یار! جال میں گرفتار ہونے کا افسوس نہ کرنا کیوں کہ ہرج مرج سب پر یوں ہیں ہوتا چلا آتا ہے”۔ بولا: ‘‘اگر ہم دانا ہوتے تو جال میں چڑی مار کے نہ پھنستے”۔ ہرنک کہنے لگا: ‘‘دیکھو کرگس نزدیک آسمان کے اُڑتا ہے اور تکا گوشت کا جو دیکھے تو اُسی وقت نیچے آتا ہے۔ اگر کسو نے وہاں جال بچھایا ہو تو کیا جانے؟ کیوں کہ خدا کے کام میں عقل ضعیف کا کیا مقدور جو دخل کر سکے۔ روز بد کی تاثیر ایسی ہے جو چاند سورج چاہیں کہ اپنے تئیں گہن سے بچاویں تو بچا نہیں سکتے”۔ ہرنک نے دو چار باتیں نصیحت اور دلاسے کی کر کے مہمانی کھلا پلا اُسے وداع کیا اور دونوں یار آپس میں بغل گیر ہو کر آنکھیں بھر لائے اور چوہے نے مخدوم شیخ سعدی کا یہ شعر پڑھا ؎
چشم و دل سعدی کے تیرے ساتھ ہیں
جانیو تو مت کہ تنہا ہوں چلا
چتر گریو بادشاہ کبوتروں کا لشکر سمیت اپنے ملک کی طرف چلا اور ہرنک اپنے بل میں گھسا۔
پھر وہی لگ پتنگ کوا کہ جس کا مذکور پہلے ہوا اور اُس چڑی مار کا منہ، منہ اندھیرے دیکھ کر ساتھ لگ لیا تھا۔ اُس نے تمام احوال (جو کبوتروں پر گذرا تھا) دیکھا تو حیران ہو کر کہا: ‘‘سبحان اللہ! دیکھو تو محبت اور دوستی میں کتنا بڑا فائدہ ہے کہ کس برے وقت میں یار کام آیا ؎
بیل کیچڑ میں پھنسے کو چاہیے ہاتھی قوی
یار درماندے کی کرتا ہے مدد یارِ دلی
وہ کوا چوہے کے بل کے پاس آیا اور نرم نرم آواز سے کہنے لگا: ‘‘اے ہرنک! میں نے اتنا سفر کیا ہے لیکن تم سا یار وفادار دنیا میں کہیں نہیں دیکھا۔ میری ایک عرض ہے جو قبول کرو تو کہوں؟” جب چوہے نے آواز کوے کی سنی تو سوراخ سے بولا: ‘‘تو کون ہے اور کہاں سے آتا ہے؟” کہا: ‘‘میں لگ پتنگ نام کوا ہوں۔ اب یہ چاہتا ہوں کہ تم سے دوستی کروں”۔ چوہا بولا: ‘‘میں چوہا تُو کوا، میں تیری خوراک، تو میرا کھانے والا۔ پس ہماری تمھاری دوستی کیوں کر بن پڑے؟ جاؤ کسی کوے یا اور کسی پنچھی سے دوستی کرو۔ اگر میں تم سے دوستی کروں تو وہ مثل ہو جیسا کہ گیدڑ اور ہرن میں بہ سبب یاری کے ہوئی”۔ کوے نے پوچھا کہ اُن کا قصہ کیوں کر ہے؟ چوہے نے کہا۔
حکایت سبدھ کوے اور ہرن اور چھدر بُدھ گیدڑ کی
میں نے سنا ہے کہ پورب کی طرف گنگا کے کنارے چنپاوتی نام ایک نگری ہے۔ اس کے نزدیک ایک جنگل ہے۔ اُس میں ایک کوا اور ہرن دو یار جانی رہا کرتے تھے۔ ہرن خوب تازہ توانا تھا۔ ایک گیدڑ اُس کے مٹاپے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور دل میں اپنے ٹھہرایا کہ پہلے اس ہرن سے روباہ بازی کیا چاہیے، تس کے پیچھے اس کے گوشت سے اپنی ڈاڑھ کو گرم کیجیے۔ یہ نیت کر کے ہولے ہولے ہرن کے پاس آیا اور کہا: ‘‘السلام علیکم اے ہرن! خیر و عافیت؟”، ہرن بولا: ‘‘تو کون ہے؟” کہا: ‘‘میں گیدڑ ہوں، نام میرا چھدر بدھ ہے، اس جنگل میں بغیر دوست کے جیوں مردہ پڑا رہتا ہوں۔ اب تم سے جو ملاقات ہوئی ہے تو اپنے تئیں میں نے جیتوں کی دفعہ میں شمار کیا اور جانا کہ اب میرے قالب میں جان آئی”۔
اسی گفتگو میں تھے کہ سورج کے قاز نے دریاے نیل سے اُڑ کر کنارے میں جا غوطہ مارا اور پیچھے سے باز کالی رات کا نمودار ہوا۔ ہرن جہاں رات کو رہتا تھا وہاں گیا۔ گیدڑ بھی اُس کے پیچھے لگا ہوا اُس کے ڈیرے لگ چلا گیا۔ وہاں ایک درخت چنپا کا تھا اور ایک سبدھ نام کوا ہرن کا قدیم دوست تھا۔ دیکھتے ہی بولا: ‘‘اے یار! یہ دوسرا کون ہے جو تم اپنے ساتھ کر لائے ہو؟” کہا: ‘‘یہ گیدڑ ہے اور نیک ذات معلوم ہوتا ہے اور مجھ سے دوستی کیا چاہتا ہے”۔ کوے نے کہا کہ جس سے کہ آشنائی نہ ہو اُس کی بات کو یک بیک نہ سنا چاہیے اور اپنی جگہ میں رہنے نہ دیجیے۔ مگر تُو نے بات اُس کرگس اور بلی کی نہیں سنی؟ اُس نے پوچھا: ‘‘وہ کیوں کر ہے؟” کوے نے کہا۔
نقل ایک گدھ اور بلی کی
میں نے یوں سنا ہے کہ بھاگ رتھی ندی کے کنارے ایک پہاڑ ہے، اُسے گرد کوٹ کہتے ہیں اور اُس پر ایک بڑا درخت سینبل کا تھا۔ اس کے کھولڑ میں ایک بوڑھا ضعیف گدھ برسوں سے رہا کرتا تھا۔ اس کے پر و بال میں اتنی طاقت نہ تھی جو کہیں اِدھر اُدھر کھانے پینے کے واسطے جایا کرے۔ لیکن اکثر پرندے جو اس درخت پر رہا کرتے تھے، ہر ایک جانور کھانے کی چیز اس کے لیے اپنی چونچ میں لایا کرتا۔ اسی صورت سے کرگس اپنی گزران ہمیشہ کیا کرتا۔
ایک دن ایک بلی اُس تاک پر وہاں آئی کہ اُن جانوروں کے بچے کھایا چاہیے۔ بچوں نے اسے دیکھ کر شور ڈالا۔ گدھ کو بڑھاپے کے سبب آنکھوں سے نہ سوجھتا تھا۔ بچوں کا غوغا سن کر اُس جوف سے سر نکالا اور کہا کہ تُو کون ہے جو یہاں چلا آتا ہے؟ بلی نے جو کرگس کو دیکھا تو ڈری کہ یہ جانور بڑا ہیبت ناک ہے۔ اپنے دل میں کہا کہ اب میں ماری گئی کیوں کہ جگہ بھاگنے کی نہ رہی۔ پس یہی بہتر ہے کہ اُس کے نزدیک جا کر کچھ بات بنائیے کہ دل اس کا فریفتہ ہو۔ آہستہ آہستہ کرگس کے پاس آ کر سلام کیا۔ اُس نے پوچھا: ”تو کون ہے؟” اُس نے غریبی سے کہا: ‘‘میں غریب بلی ہوں”۔ کہا: ‘‘اگر تو بلی ہے تو یہاں سے جلد بھاگ، نہیں تو میں ہوں بھوکھا، تیرا لہو پی جاؤں گا”۔ اُن نے کہا: ‘‘میں ایک بات تم سے کہتی ہوں۔ جو مارنے کے قابل ہوں تو مجھے مار ڈالیو اور نہیں تو چھوڑ دیجیو”۔ وہ بولا: ‘‘جو تیرے دل میں ہو سو ظاہر کر”۔ بولی کہ سنو صاحب! آدمی بد ذات اور نیک ذات قول و فعل سے پہچانا جاتا ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے جو سب کہتے ہیں کہ بلی جانور کی مارنے والی اور مانسادھاری ہے۔ اگر یہ بات دل میں لا کر مجھے مار ڈالو تو تمھاری بزرگی معلوم ہوئی؛ پر شاید تم نے میرے زہد کا احوال کسو سے نہیں سنا کہ میں بغیر اشنان کچھ کام نہیں کرتی ہوں اور گوشت کھانا بالکل جانوروں کا چھوڑ دیا ہے کہ اپنی اور دوسرے کی جان برابر جانتی ہوں، خدا کی بندگی میں رہتی ہوں۔ اب یہ عاجزہ تمھاری خدمت میں آئی ہے۔ جب یہاں سے اکثر جانور دانہ چگنے کے واسطے گنگا کے کنارے جاتے تھے، اُن کی زبانی آپ کے اوصاف سن کر دل اس عاصی کا نہایت راغب ہوا کہ ایسے بزرگ کے قدم دیکھا چاہیے، کہ جتنے گناہ اپنے میں ہوں سو دور ہو جاویں۔ اس نیت سے آپ کے قدم آ دیکھے ہیں اور تم میرے مارنے کا قصد رکھتے ہو۔ ایسا کسو نے نہیں کیا جیسا تم کیا چاہتے ہو۔ اگر کوئی کلہاڑی ہاتھ میں لے کر درخت کاٹنے کے واسطے آتا ہے اور وہ اُس کی چھاؤں میں بیٹھتا ہے، درخت اپنی بڑائی سے چھاؤں اُس کے سر سے دور نہیں کرتا۔ میں تیری ملاقات کے واسطے اتنی راہ طے کر کے آئی ہوں اور تو چاہتا ہے کہ مجھے مار ڈالے؟ اگر مہمان کسی کے گھر جاتا ہے، جو صاحبِ خانہ مہمانی نہیں کرتا تو تیری طرح کڑوی بات بھی نہیں کہتا۔ اگر بہت مدارات نہیں کرتا بھلا تھوڑا ٹھنڈا پانی پلاتا ہے اور میٹھی بات تو کہتا ہے۔ جہاں کہیں صاحب درد ہے، اگر اُس کے پاس کوئی ہنر مند یا بے ہنر جاتا ہے تو دونوں پر برابر نظر رکھتا ہے۔ جیسا کہ آفتاب اپنی شعاع سے کسی کو محروم نہیں رکھتا۔ یہ نہیں کرتا کہ بڑے آدمی کے گھر پر اجالا کرے اور چھوٹے آدمی کے گھر پر اندھیرا۔
جب دل کرگس کا اس کی باتوں سے نرم ہوا، تب کہا: ‘‘اس درخت پر جانوروں کے بچے ہیں، واسطے احتیاط کے اتنی تجھے باتیں کہیں، اپنے دل میں کچھ نہ لانا”۔ بلی دونوں ہاتھ اپنے کان پر رکھ کے کہنے لگی: ‘‘استغفر اللہ! یہ بات تو نے کہی، اگر کوئی اور کہتا تو میں اس پر زہر کھاتی کیونکہ میں نے بہت علم کی کتابیں پڑھی ہیں اور خدا کی راہ خوب معلوم کی ہے اور عالموں، فاضلوں اور دین داروں سے سنا ہے کہ کسی کا دل آزردہ کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ جو کوئی جانور کو مار کر اس کا گوشت کھاوے، جب لگ وہ اس کی زبان پر ہے تب ہی تک مزہ پاوے۔ جب حلق کے نیچے اترا تو کچھ نہیں۔ اور یہ نہیں جانتا کہ وہ غریب اپنی جان سے جاتا ہے اور جان اس کی کس مشکل سے نکلتی ہے۔ بھلا اس میں کیا لطف ہے؟ یہ نہیں جانتا کہ کل کو حساب دینا ہوگا اور اس کے جواب سے کیونکر عہدہ برا ہوگا؟ حیوان کو اذیت دینے کی اور چیونٹی کی جان مارنے کی سزا اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ پس چاہیے کہ اپنی جان سے چیونٹی کی جان کو بہتر جانے کیونکہ مرنا برحق ہے۔ جب لگ ہو سکے بدی نہ کرے”۔
بلی کی پر فریب باتوں نے دل گدھ کا ملائم اور نرم کیا۔ خیر بعد اس جواب و سوال کے وہ بلی وہاں رہنے لگی۔ دو ایک دن رہ کر یہ مکار ہولے ہولے جا کر دو تین بچوں کو پکڑ لائی۔ کرگس بچوں کی آواز سن کر بولا: ‘‘ان بچوں کو تو کیوں لائی؟” کہا: ‘‘میرے بھی دو تین ایک لڑکے ہیں۔ بہت دن ہوئے میں نے انھیں نہیں دیکھا۔ میرا دل ان میں لگ رہا ہے۔ اکثر ان کو یاد کر کر کے روتی ہوں۔ اس واسطے انھیں لائی ہوں کہ جو ان کی جگہ ان کو دیکھ کر مرا دل پیچھے پڑے”۔ گدھ نے جانا کہ بلی سچ کہتی ہے اور بلی نے ان بچوں کو لا کر کھا لیا۔ پھر اسی طرح سے ایک ایک دو دو لاتی تھی اور کھاتی تھی، یہاں تک کہ سب کو تمام کیا اور اپنی راہ لی۔
جب سب پرندے اس درخت کے رہنے والے اپنے اپنے گھونسلے میں آئے تو بچوں کو تلاش کرنے لگے کہ ہمارے بچوں کو کون لے گیا؟ جب بہت سی جستجو کی تو بچوں کی کچھ ہڈیاں درخت کے نیچے اور کچھ گدھ کے کھنڈھلے میں پائیں، تب تو سب کو یہی یقین ہوا کہ بچوں کو اسی گدھ نے کھا لیا یے۔ اپنی کوکھ کی آگ سے ہر ایک جانور بے تاب ہو کر اس گدھ کو مارنے لگا، یہاں تک چونچیں ماریں کہ اس بے چارے کو مار ہی ڈالا۔
یہ کہہ کر کوے نے کہا: ‘‘اے ہرن! غیر آشنا کو اپنے گھر میں راہ دینے سے یہ فائدہ ہوتا ہے”۔ گیدڑ یہ بات سن کر غصے ہوا اور بولا: ‘‘اے کوے! ترا سبدھ نام ہے پر تجھ میں کچھ عقل نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص دوستی ماں کے پیٹ سے نہیں لے نکلتا۔ پہلے جب تجھ سے اور اس ہرن سے ملاقات ہوئی تھی، نہ تو اسے پہچانتا تھا نہ وہ تجھے۔ جب تم دونوں ایک جگہ رہنے لگے تو روز بہ روز دوستی زیادہ ہوئی۔ جو اچھے لوگ ہیں وے سب کو دوست جانتے ہیں۔ یہ کام منافقوں کا ہے جو کسی کو دوست اور کسی کو دشمن جانے۔ ہم ایک ہی گھر کے غلام ہیں، جیسا کہ ہرن میرا دوست ہے ویسا ہی تو بھی بلکہ اس سے بہتر”۔ پھر ہرن بولا: ‘‘اے سبدھ! فی الحقیقت ہم سب آپس میں بھائی ہیں، جیسا کہ کلام مجید میں بھی آیا ہے۔ اس کا حاصل یہی ہے کہ ‘‘سب مومن آپس میں بھائی ہیں”۔ اگر یہ گیدڑ چاہتا ہے کہ ہماری صحبت میں رہے تو اس میں ہمارا کیا نقصان ہے؟ جتنے یار آشنا کسی کے زیادہ ہوں تو گویا اس کی دولت زیادہ ہوئی”۔ یہ سن کر کوے نے یہ مصرع پڑھا ؏
یار جانی کی خوشی گر اس میں ہے تو خوب ہے
اسی گفتگو میں رات کٹ گئی، چاند چھپ گیا اور سورج نکل آیا۔ تینوں یار کوا، گیدڑ، ہرن اپنی اپنی چرائی کی جگہ جاتے۔ ہر روز اسی طرح ایک طرف سے چر چگ آتے اور ایک جگہ میں آ کر سو رہتے۔ یوں اوقات بسری کیا کرتے۔ ایک روز شغال بد باطن (جو ہرن کے گوشت پر دانت لگا رہا تھا) ایک جَو کا کھیت تر و تازہ (کہ جس میں کسان نے ہرن پکڑنے کے واسطے کَل لگائی تھی) دیکھ کر دوڑا آیا۔ ہرن کو ایک طرف لے کے کہا: ‘‘سن یار! تو سوکھی گھاس کھاتا ہے، مجھ سے دیکھا نہیں جاتا، مجھے کمال قلق رہتا ہے۔ آج ایک جو کا ہرا کھیت تمھارے لائق دیکھ آیا ہوں اور خاطر جمع سے بے کھٹکے چرو تو دل میرا ٹھنڈا ہو اور آنکھیں روشن”۔
فجر ہوتے ہی دونوں چلے۔ جب کھیت کے نزدیک پہنچے، گیدڑ بولا: ‘‘جاؤ، جی بھر کے کھاؤ”۔ ہرن ہیے کا اندھا، کھیت کی ہریاول کو دیکھ بے تامل دوڑا اور بے اندیشے کھانے لگا، اسی وقت پھندے میں پھنس گیا۔ گیدڑ بد ذات دل کی خوشی سے لگا ناچنے اور اپنے ہاتھ پاؤں کو لگا دے دے مارنے۔ آہو نے جانا کہ میرے گرفتار ہونے کے سبب اپنی جان کھوتا ہے۔ یہ نہ جانا کہ ‘‘صوفی دستر خوان کو دیکھ کر کودتا ہے”۔ ہرن بولا: ‘‘اے یار! میرے واسطے کیوں اپنے تئیں ہلاک کرتا ہے؟ کیا تمھیں معلوم نہیں جو تمھارے دانت فضل الہی سے تلوار کی دھار سے بھی تیز ہیں؟ اس پھندے کی رسی کو کیوں نہیں کاٹ ڈالتے ہو؟” گیدڑ بولا: ‘‘اے میری آنکھوں کے تارے! میں بسر و چشم حاضر ہوں لیکن آج میں نے روزہ رکھا ہے اور یہ دام چمڑے کا، جو دانت لگاؤں تو روزہ مکروہ ہوگا۔ شب درمیان ہے، کل صبح کو جو کچھ اپنی نجابت ذاتی کے موافق ہوگا، سو آپ کی خدمت سے قصور نہ کروں گا۔ ”
رات تو یوں گذری۔ جب فجر ہوئی، اُس سبدھ کوے نے اپنے یار قدیم ہرن کو نہ دیکھا۔ دل میں اندیشہ کیا کہ آج رات میرا یار مکان پر نہیں آیا، مجھے یے آثار بھلائی کے نہیں نظر آتے۔ دیکھیں تو کیا صورت ہے؟ یہ کہہ کر ہر طرف ڈھونڈنے لگا۔ دیکھتا کیا ہے کہ ایک جگہ دام میں ہرن گرفتار ہے۔ اپنا سر زمین سے دے مارا اور آہ مار کر کہنے لگا کہ میں نے تمھیں نہیں کہا تھا کہ یہ گیدڑ بدبخت شریر ہے۔ جو کوئی اپنے یار کا کہا نہ کرے، یہی خرابی کا دن اس کے آگے آتا ہے۔ اب وہ تیرا یار گیدڑ کہاں ہے؟ کہا: ‘‘میرے گوشت کا بھوکھا یہاں کہیں بیٹھا ہوگا”۔ بولا: ‘‘خیر جو کچھ ہونی تھی سو ہوئی، اب تیں اپنے تئیں مردہ بنا کر دم سادھ جا۔ جب میں بولوں، تب تو اٹھ بھاگیو”۔ ہرن نے وہی کیا جو کوے نے کہا۔ اتنے میں کھیت والا جب اس کے پاس آیا اور دیکھا کہ ایک موا ہوا ہرنا موٹا سا دام میں پھنسا ہے، بہت افسوس کیا۔ جو میں اسے زندہ پاتا تو کیا خوب ہوتا۔ ہولے ہولے اس کے گلے کا بند کاٹ کر اسے تفاوت کر دیا اور آپ جال اٹھانے کی فکر میں لگا۔ اس نے چھٹکارا پایا۔ اس میں کوا بولا تو یہ اٹھ کر بھاگا۔
اس نے دیکھا کہ ہرنا چلا گیا۔ ایک ختکا اس کے ہاتھ میں تھا، بھاگتے کے پیچھے پھینکا۔ گیدڑ جو وہاں اس کے لہو کا پیاسا دبکا ہوا بیٹھا تھا، اس کے سر میں جا لگا؛ لگتے ہی یہ تو کھیت میں رہا، وہ سلامت نکل گیا۔ بزرگوں نے کہا ہے: ‘‘جو کوئی کسی کے واسطے کوا کھودتا ہے تو وہی گرتا ہے” ؎
جس نے اوروں کے لیے کھودا کوا
ہے یقیں اس میں وہی جا کے گرا
غرض آہو اور کوا ایک جگہ ہو کر بہت خوش ہوئے۔ کوا ہرن سے کہنے لگا کہ دشمن کی چال اور مچھر کی ایک جانو۔ اکثر پہلے تو پاؤں پر آ بیٹھتا ہے، پھر پیٹھ پر، تس پیچھے کان کے پاس آ کر بولتا ہے۔ اگر کھلا بدن پاوے یا کپڑے میں کہیں سوراخ نظر آوے تو وہیں گھس کر لہو پینے کے لیے کاٹتا ہے۔ ایسا ہی دشمن بھی جو سختی نہ کر سکے تو نرمی سے پیش آوے اور پاؤں پر گرے، اور کان میں بات ملائم کہے اور دل میں اپنی جگہ کرے۔ جب رخنہ کہیں پاوے تو اپنا کام کر گذرے۔
الغرض چوہے نے جب قصہ تمام کیا تو یہ بات کہی: ‘‘اے زاغ! میں جانتا ہوں تو میرے خون کا پیاسا ہوا ہے”۔ کوا بولا: ‘‘تمھارے گوشت کھانے سے میری حیات ابدی نہ ہوگی اور دولت بے زوال کچھ میرے ہاتھ نہ آوے گی۔ اس بات کو تم سچ ہی جانو کہ میں اپنے دل و جان سے تمھاری دوستی کا خواہاں ہوں، جیسی کہ چتر گریو کے اور تمھارے درمیان محبت تھی، کیوں کہ میں نے تم سا یار وفادار کہیں نہیں دیکھا۔ بھلے آدمیوں سے دوستی کرنی بہتر ہے، اس واسطے کہ وے خاصیت دریا کی رکھتے ہیں۔ جیسا کہ وہ عمیق ہے، ایسے ہی یے بھی گمبھیر ہیں۔ اگر کوئی آگ دریا میں ڈالے تو وہ ہرگز گرم نہیں ہوتا اور نیک مرد بھی کسی کی بری بات سے ہرگز خفا نہیں ہوتے۔ میں نے تمھارا احوال خوب دریافت کیا۔ تم نیک بخت ہو، تمھاری نیک خصلت پر میں عاشق ہوا ہوں”۔ چوہا بولا: ‘‘میں نے تجھے کئی بار کہا کہ میں دوستی تجھ سے کیوں کر کروں؟ میری تیری دوستی گویا آگ پانی کی سی ہے۔ ہر چند آگ پانی کو ہانڈی میں لے کے اپنے سر پر رکھ کر گرم کرتی ہے لیکن وہ اس کی عداوت سے ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ جب دونوں اکٹھے ہوئے تو وہ اسے بجھا ہی دیتا ہے۔ اے زاغ! تیرا کیا اعتماد؟ جیسا تو باہر سے کالا ہے ویسا ہی اندر سے۔ میں تیری غذا ہوں، تو جہاں مجھے پاوے کھاوے۔ تجھ سے محبت کا لگاؤ کیوں کر ہو سکے؟” کوا بولا: “جو تو نے کہا سو میں نے سنا۔ اب میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ تیری ہی رفاقت میں رہوں۔ اگر تیں قبول نہیں کرے گا تو تیرے دروازے پر اتنے فاقے کھینچوں گا کہ میری جان کی طوطی اس خاک کے پنجرے سے پرواز کرے گی۔ تو بھلا مانس ہے۔ اگر تیرے ساتھ میری دوستی ہوگی تو کبھو تفاوت نہ پڑے گا، کیوں کہ مصاحبت رزالے کی کیسی ہے جیسے مٹی کا برتن۔ ذرا سی ٹھیس میں ٹوٹ جاوے۔ اور رفاقت اشراف کی مثل ظرف مسی کے ہے؛ کیسا ہی صدمہ پہنچے تو بھی نہ ٹوٹے؛ اگر کہیں چوٹ کھاوے تو وہیں درست ہو سکے۔ اے چوہے! اکثر چار پاے جانور کچھ کھلانے سے اپنے ہوتے ہیں اور نادان کم عقل طمع اور حرص سے دوستی اختیار کرتے ہیں۔ لیکن جہاں کہیں مرد عاقل اور زیرک ہیں، سو وے بہ سبب نرم دلی کے ملاقات کرتے ہیں اور مہربان ہوتے ہیں۔ اور تو ایسی خوبی رکھتا ہے کہ میں تمام ملک میں پھرا پر تجھ سا یار وفادار میرے دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس واسطے میں چاہتا ہوں کہ تجھ سے ربط دوستی کا اور رشتہ محبت کا پیدا کروں”۔
چوہے کا دل ان باتوں سے نہایت ملائم ہوا اور اپنے سوراخ سےباہر آیا۔ ملاقات کر کے کہا: ”اے عزیز! تو نے میری جان کے سوکھے درخت میں گویا میٹھا پانی دیا اور میرے دل کو نہایت خوش کیا۔ اب تو میرا یار جانی ہوا، آ تجھ سے بغل گیر ہوں۔ دونوں آپس میں مل کر بہت خوش ہوئے۔ چوہے نے مہمانی اس کی تکلف سے کی۔ جب کھا پی کے فارغ ہوئے تو یہ اپنے بل میں آیا، وہ اپنی جگہ پر کیا۔ پھر وے دونوں یار دن کو آپس میں ہر روز ایک جگہ ہوا کرتے اور چرنے چگنے کے لیے ہر ایک طرف جایا کرتے، پر رات کو ایک مقام میں رہا کرتے۔ اگر کوا کچھ اچھی چیز کھانے کی پاتا تو چوہے کے واسطے اکثر لاتا۔ اسی طرح اس میدان میں اوقات بسری کیا کرتے۔
بعد ایک مدت کے کوا کہنے لگا کہ یار! اب تو کچھ کھانے پینے کی چیزیں اس اطراف میں نہیں ملتیں، جو ملتی بھی ہیں تو بڑی محنت اور دوڑ سے۔ میں اب یہ چاہتا ہوں کہ یہاں سے دوسری جگہ چلیے اور وہاں چل کر فراغت سے گزران کیجیے۔ ہرنک چوہے نے اسے جواب دیا کہ سن یار! بغیر دیکھے سنے دوسری جگہ کیوں کر جاویں؟ اقتضا دانائی کا یہ ہے کہ پہلے اپنے واسطے مکان تلاش کیجیے، جو خاطر خواہ جگہ ملے تو قدیم مکان کو چھوڑ دیجیے، نہیں تو اسی جگہ میں بھلی بری طرح سے دن کاٹیے۔ کوا بولا: ‘‘ایک مکان میرا دیکھا ہوا ہے، اسی کو میں نے ٹھہرایا ہے”۔ چوے نے کہا: ‘‘وہ کہاں ہے؟” کوا کہنے لگا کہ دنڈ کارن ایک جنگل ہے۔ اس میں کاویری ندی اتر سے دکھن کو بہتی ہے۔ متھرک کچھوا میرا قدم یار وہاں بارہ برس سے رہتا ہے۔ وہاں پہنچ کر جو غذا درکار ہوا کرے گی سو اس سے طلب کیا کریں گے۔ یقین ہے کہ اس کے وسیلے سے خدا ہم کو روزی پہنچایا کرے گا۔ تب چوہا بولا کہ اگر تمھارا ارادہ مصمم ہے کہ یہاں کی سکونت سے ہاتھ اٹھاؤ تو میں تنہا یہاں کیوں کر رہوں گا، مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ اس واسطے کہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جس ملک میں خاوند بینا، اور چرچا علم کا، اور عاقل دور اندیش، اور حاکم عادل و طبیب کامل اور دوست جانی نہ ہو وہان بود باش اختیار نہ کیا چاہیے۔ چنانچہ اس کے آگے میرا پرانا یار چتر گریو کبوتروں کا بادشاہ چلا گیا اور میں یہاں اکیلا رہ گیا۔ اور تس پیچھے تو میرا یار ہوا، اب تیں بھی یہاں سے جایا چاہتا ہے؛ پس ایسے تنہائی کے دن میں کیوں کر کاٹوں گا؟ بار! اگر تو جاتا ہے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چل۔
زاغ نے جب چوہے سے یہ احوال سنا، تب آپس میں متفق ہو کر اس ندی پر گئے۔ کچھوا ان دونوں کو دور سے آتے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ آگے بڑھ کر ملاقات کی اور خیر و عافیت پوچھی۔ کوے نے بھی جواب دیا۔ کچھوے نے کہا: ‘‘یہ دوسرا تمھارے ساتھ کون ہے؟” زاغ بولا: ‘‘یہ وہ چوہا ہے کہ جو میرے ہزار زبان ہو تاہم اس کی تعریف نہ کر سکوں اور نام اس کا ہرنک ہے”۔ پھر سنگ پشت دوبارہ گرم جوشی سے بغل گیر ہوا۔ مثل ہے کہ بڈھا، جوان، لڑکا کوئی ہو، جو اپنے گھر آوے تو اس کی تعظیم و تکریم کرنی ضرور ہے، کیوں کہ مہمان کی بزرگی ہر ایک متنفس کے نزدیک ثابت ہے۔ اور یہ کہاوت ہے کہ اگر چھوٹا آدمی بڑے کے گھر آوے تو اس کی بھی تواضع لازم ہے اور چتر گریو کا تمام قصہ کہہ سنایا۔ تب کچھوے نے خوب سی ضیافت کی اور بعد کھلانے پلانے کے پوچھا کہ حضرت سلامت! تم نے اپنی جگہ کو کیوں چھوڑا اور اس بڑے جنگل میں۔کیوں آئے؟ اس کا سبب بیان کیجیے۔ چوہا کہنے لگا کہ سن اے ندی کے راجا! چندر نام ایک پہاڑ ہے۔ اس کے نیچے ایک بستی ہے۔ اس کا نام چنپا پور، اکثر جوگی وہاں رہتے ہیں۔ ان میں سے ایک چورا کرن نام جوگی کے گھر میں میں اپنا بل بنا کر رہتا تھا۔ وہ جوگی ہر روز اس شہر میں بھیک مانگ کر کچا پکا اناج لایا کرتا۔ کھا پی کر جو بچتا تو کوٹھری کے اونچے طاق پر رکھتا اور میں اپنے بل سے سر نکال کر جھانکتا رہتا۔ جب وہ سوتا تو میں سوراخ سے باہر آتا اور اچھل کر طاق پر جا رہتا۔ اچھی طرح خاطر جمع سے کھاتا اور باقی جو رہتا سو اسے ضائع کرتا اور کہیں نہ جاتا، وہیں اپنی زندگی بسر کیا کرتا۔
ایک دن چورا کرن جوگی لاٹھی ہاتھ میں لے کر میرے بل کے پاس آیا، اس کے منہ کو کھٹکھٹانے لگا۔ اس وقت ایک بنیا کرن نام دوست دار قدیم اس کا اس کے گھر آیا اور یہ اس ٹھک ٹھکانے کی فکر میں ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ تب وہ بولا کہ میں تمھاری ملاقات کے واسطے آیا ہوں اور اختلاط کیا چاہتا ہوں اور تم میرے ڈرانے کے لیے ہاتھ میں لکڑی لیے بیٹھے ہو۔ تب جورو چورا کرن کی یہ صورت دیکھ کر کہنے لگی کہ آج بنیا کرن مدت کے بعد آیا ہے۔ اس کی تعظیم کر، اس کا احوال پوچھ اور اپنی حقیقت اس سے کہہ۔ چورا کرن بولا: ‘‘میری یہ حرکت بے جا نہیں۔ اس بل میں ایک چوہا ہے۔ جو چیز کھانے کی طاق پر رکھتا ہوں، وہاں وہ اچھل کر جاتا ہے، جو کھاتا ہے سو کھاتا ہے اور باقی کو رائگاں کرتا ہے”۔ بنیا کرن بولا کہ وہ جگہ ذرا مجھے دکھاؤ۔ کہا: ‘‘دیکھو یہی ہے وہ طاق”۔ اس نے دیکھ کر کہا کہ یہ اتنا اونچا ہے کہ اس پر بلی بھی زغند نہ مار سکے اور چوہے کی تو کیا تاب و طاقت کہ اس طاق پر جست کرے۔ یہ ہرگز بے سبب نہیں۔ شاید اس کے نیچے جہاں وہ رہتا ہے، کچھ نہ کچھ مال ہوگا۔ یہ قوت بغیر مال کے نہیں ہوتی۔ چنانچہ ایک بوڑھے بنیے کی جوان جورو نے اپنے خصم کے لگا تار کئی بوسے لیے۔ یہ حرکت اس کی حکمت سے خالی نہ تھی۔ چورا کرن نے پوچھا: ‘‘وہ بات کیوں کر ہے؟” بنیا کرن کہنے لگا۔
نقل چندرسین بنیا اور کیلاوتی بنیے کی بیٹی اور منوہر بقال کی
ہندوستان کی کسی سر زمین میں ایک شہر ہے۔ اس میں چندر سین ایک بنیا بڑا دولت مند (کہ برس سو ایک کی عمر اس کی تھی) رہتا تھا اور ایک نوجوان عورت کسو بنیے کی بیٹی بھی (کہ نام اس کا کیلاوتی تھا) اسی شہر میں رہتی تھی؛ ایسی خوب صورت کہ اس کے دیکھنے سے چاند سورج بے تاب ہوتے اور بالوں کی سیاہی سے اس کے بھنورا شرمندہ ہوتا اور چشم نرگس شہلا اپنی سے خلقت کو فریفتہ کرتی اور جادو فریب کمان ابرو اپنی سے لوگوں کو دیوانہ بناتی اور اپنے دانتوں کی چمک سے بادشاہی جواہرات کو جلا بخشتی۔ یہ بقال مال کی مستی سے اسے اپنے نکاح میں لایا لیکن یہ نہایت بوڑھا تھا اور وہ نوجوان نوخیز تھی۔ اس واسطے بوڑھے خاوند کی صحبت سے خوش نہ رہتی۔
ایک دن اس نے ایک جوان خوب صورت بقال بچے کو (جو نام اس کا منوہر تھا) دیکھا، دیکھتے ہی عاشق ہو گئی۔ کہنے لگی کہ سن منوہر! میں جوبن کے دریا میں ڈوبتی ہوں، میرا ہاتھ پکڑ، اپنے عشق کی کشتی میں اٹھا سکتا ہے کہ نہیں؟ تعشق سے بولا کہ ہاں میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم سے کسی طرح آشنائی پیدا کروں۔ کیوں کہ میرا دل بھی بہت دنوں سے تمھاری محبت کی کمند میں گرفتار ہوا ہے۔ جب منوہر اور کیلاوتی کا عشق غالب ہوا، تب دونوں خلوت میں آئے اور شہوت کی پیاس مواصلت کے پانی سے دونوں کی بجھی۔ اسی ذوق و شوق میں یوں ہیں ایک مدت گذری۔
ایک دن چندرسین بے وقت اپنے گھر میں آیا۔ اس وقت منوہر اس کے گھر میں تھا۔ کیلاوتی نے دیکھا کہ اب میرا بھیدظاہر ہوتا ہے؛ وہیں چار پائی سے اٹھ کر اپنے گھر کی دہلیز تک دوڑی آئی اور اپنے خصم کے سر کے بال پکڑ کر پانچ چار چومے پیہم اس کے منہ کے لیے اور ہاتھ پکڑ کر ایک گوشے میں لے گئی۔ منوہر اتنی فرصت میں اس کے خاوند کی آنکھ بچا کر گھر سے باہر نکل گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ جا چکا، تب اپنے شوہر کو دو چار لاتیں مار کر کہنے لگی کہ اے بوڑھے خبیث! شہوت نے مجھے اتنی مدت میں آج نہایت بے کل کیا تھا، سو تجھ سے کچھ بھی میرا مطلب حاصل نہ ہوا۔ غصہ کر کے پلنگ پر آئی اور سر سے پاؤں لگ چادر تان کے سو رہی۔ تب چورا کرن بولا: “چنانچہ چومنا جوان عورت کا بوڑھے کے منہ کو بے علت نہیں، اسی طرح زغند چوہے کی بے سبب نہیں”۔ الغرض دونوں جوگیوں نے اپنی جیب سے سفید مٹی نکال کے زمین پر لکیریں نجومیوں کی طرح کھینچ کر معلوم کیا کہ اس چوہے کے سوراخ میں خواہ مخواہ مال ہے، نہیں تو اتنی قوت چوہے میں کہاں سے آئی؟ جس کے پاس دولت ہے اسی کو بہت زور ہے ؎
نخشبی ہے مرد دولت مند خوب
مفلسوں کا دل شکستہ ہے سدا
آدمی کی قدر و قیمت زر سے ہے
مرد جو بے مال ہے کس کام کا
جوگیوں نے کدالی سے اس بل کو کھودا اور سارا ڈھیر روپیوں کا وہاں سے نکال لیا۔ وہ مال میرے بزرگوں کا اور میرا جمع کیا ہوا تھا، انھوں نے وہ سب کا سب اپنے قبضے میں کر لیا۔ میں نے دیکھا کہ جب میری ساری دولت اپنی کر لی، تب تو مجھے کچھ تاب و طاقت نہ رہی، وہیں مبہوت سا ہو گیا۔ لیکن چند روز میری زندگی کے باقی تھے، اس واسطے جان عزیز قالب سے جدی نہ ہوئی۔ اے بادشاہ! ایک تو میرا مال گیا، دوسرے جوگی طعنے مارنے لگے؛ اس دکھ اور بری باتوں سے میرا دل جل بل کے خاک ہو گیا۔ سو اسی واسطے اپنی جاے جگہ چھوڑ، اب آپ کے قدموں تلے آ پہنچا ہوں”۔ کچھوے نے پوچھا: ‘‘کہو یار! تم کو کیا بات زبوں کہی تھی؟”، کہا: ‘‘اگر یہ مال کسی معتبر پاس ہوتا تو اتنی کفایت اور جز رسی نہ کرتا، سر حساب رہتا۔ یہ چوہا سخت نادان اور احمق تھا جس نے اپنے زور کو ظاہر کیا۔ مثلاً بزرگ کہہ گئے ہیں: جو کسی کو مال مفت ہاتھ آوے یا اپنے زور بازو سے کماوے اور وہ اسے نہ کھاوے، نہ کسی کو دے، نہ دلاوے تو اس کے جمع کرنے کی محنت ناحق اٹھاوے اور مفت کی اذیت پاوے اور عالم میں شوم بد بخت کہلاوے۔ بڑی فجر اٹھ اس کا کوئی نام نہ لیوے، بلکہ اس کے نام پر نت اٹھ لوگ جوتیاں ماریں اور وہاں کی زمین کو سب کے سب بد کہیں”۔ ایسی ایسی گفتگو سے اور طعن تشنیع سے مجھ غریب کو ہر روز جلاتے تھے؛ سو یہ بری باتیں مجھے برداشت نہ ہوئیں”۔
کچھوا بولا: ‘‘یار! تو اپنے دل کو رنجیدہ مت کر۔ جیسا وے تجھے کہتے تھے کہ شوم کی موت اور حیات دونوں برابر ہیں۔عقل مندوں نے بھی ایسا ہی کہا ہے ؎
کھانے کے واسطے زر ہے گا اے طفل خوشتر
رکھنے کو سنگ اور زر ہی دونوں ہیں برابر
اے بھائی! خوب ہوا جو تمھارے ہاتھ سے مال جاتا رہا، نہیں تو تمھیں کوئی روپوں کے واسطے مار ڈالتا۔ بارے شکر خدا کاتم سلامت رہے، مال بہتیرا پھر ہو رے گا۔ جس کے یہاں دولت جمع ہو اور وہ اس کے موافق خرچ نہ کرے، یہی اس کے در پیش آوے جو تیرے آگے آیا”۔ چوہے نے کہا: ‘‘کیا تو بھی طعنے دیتا ہے جوگیوں کی طرح؟ لیکن بدون مال کے آدمی ناچیز ہے۔ اگر مال دار نا آشنا کسی کے گھر مہمانی میں جاوے تو لوگ اس کی مدارات حد سے زیادہ کریں۔ جو غریب مفلس دوستوں کے یہاں جاوے تو اسے خاطر میں نہ لاویں۔ دولت بہت اچھی چیز ہے۔ مرد بے زر ہمیشہ رنڈی کا زیر دست ہے۔ جب تک آدمی اپنا ہاتھ خرچ کی طرف سے نہ سمیٹے اور پیسوں کی تھیلی پر مضبوط گانٹھ نہ دیوے، ہرگز دولت نہیں رہتی۔ اے عزیز! جو دیکھا کہ میرا مال و اسباب ظلم سے بد بخت جوگیوں کے جاتا رہا، گھر خالی ہوگیا، ہر کسی طرح وہیں گزران کرنے لگا۔ دنیا میں دولت کے برابر کوئی دوست نہیں، بہ منزلہ ماں باپ کے ہے بلکہ زیادہ۔ کیوں کہ وہ ہر طرح سے حاجت روا ہے، یعنی بدون اس کے دنیا میں کوئی کام انجام نہیں پاتا۔ میں نےاپنے دل میں کہا اب مجھے یہاں رہنا صلاح نہیں اور یہ بات غیر سے کہنی بھی مناسب نہیں؛ جیسا کہ کہا ہے اگر عقل مندہو، ان تین چیزوں کو حتی المقدور چھپاوے: ایک تو اپنے مال کا نقصان، دوسرے زبونی اپنی عورت کی، تیسرے دل کادکھ۔ تم جو میرے دوست ہو، اس واسطے اپنا احوال کہا۔ جب کودنے کی قوت نہ رہی ناچار اپنے قدیم مکان کو چھوڑ دیا اور جنگل میں گنگا کنارے رہنے لگا۔ بارے میں نےخدا کا شکر کیا کہ بالفعل آپ کے دامن دولت کے ساے میں آ پہنچا ہوں۔ سچ ہے جو کہہ گئے ہیں کہ دنیا زہر کا درخت ہے۔ جس پر حق تعالی کا رحم ہوتا ہے اس کو پانچ چیزیں میسر ہوتی ہیں: اول ہر روز ترقی علم کی، دوسرے بندگی خدا کی، تیسرے شناسائی دل کی، چوتھے سچائی بات کی، پانچویں محبت بھلے آدمی کی۔ اے سنگ پشت! میں بد بخت جوگیوں کے ظلم سے دل گیر نہیں ہوا ہوں۔ جو جان سلامت رہی اور تم سے مربی کی ملاقات ہوئی تو مال کیا بلا ہے، سب شے مہیا ہو سکتی ہے۔ دنیا کی دولت کا کچھ اعتبار نہیں، کبھی آتی ہے کبھی جاتی ہے”۔
کچھوے نے کہا: ‘‘بھائی! جو اپنے مال کی زکوۃ دیوے تو اس کے خزانے میں کمی نہیں ہوتی اور کوئی اس میں حرکت نہیں کر سکتا۔ جیسا کہ بزرگوں نے کہا ہے: جو کوئی پانی کو بند کرے اور اس کے نکلنے کی تھوڑی بھی راہ نہ رکھے تو جمع ہو کر باندھ کیسا ہی مضبوط ہو، توڑ کر کے سب پانی نکل جاوے۔ مال کی بھی یہی حالت ہے؛ جو کوئی محنت سے مال جمع کرے اور اسے نہ کھاوے اور نہ کسو کو خدا کی راہ میں دیوے تو اس کی قسمت میں یہی ہے کہ اس کا مال اور کوئی کھاوے ؎
آپ کھا، اوروں کو دے کچھ ہاتھ اپنے سے عزیز
واسطے اوروں کے بھی کچھ رکھ لے اے صاحب تمیز
اے دوست! دولت مند شوم نگاہ بان مال کا ہے، نہ مالک اس کا ہے۔ بلکہ فقیر اس سے ہزار درجے بہتر ہے کہ جو کچھ تھوڑا بہت اس کے ہاتھ آوے، سو بے تامل خرچ کرے۔ رات کو بہ فراغت اپنے لڑکے بالوں میں سووے اور کسی طرح کا غم و غصہ دل میں نہ لاوے۔ غنی اور بخیل کے تئیں ہر ایک رات کو مال و جان کا ڈر ہی رہتا ہے؛ مبادا کوئی روپیوں کی طمع سے جان نہ مار جاوے۔ مگر تم نے کیا اس گیدڑ کی حکایت نہیں سنی؟” چوہا بولا: ‘‘کہو تو یار! اس کا قصہ کیوں کر ہے؟” کچھوا کہنے لگا۔
نقل پرمان نام حاکم اور ارتھ لوبھی گیدڑ کی
کلیان پور نام ایک شہر ہے۔ اس میں ایک شخص حاکم تھا۔ نام اس کا پرمان۔ اتفاقاً ایک دن سوار ہو کر شکار کے واسطےکسو جنگل میں گیا؛ جاتے ہی وہاں ایک ہرن خوب صورت سا نظر آیا۔ جلد گھوڑے سے اتر کر اس نے اسے تیر مارا۔ وہ اس کے ہاتھ کا تیر کھاتے ہی تھرتھرا کر گرا۔ اس نے اس کو اپنے کاندھے پر اٹھایا اور گھوڑے کی طرف چلا، وہیں ایک بڑا ساخوک اپنے سامھنے آتے دیکھا۔ آہو تو اس نے مارے حرص کے کاندھے سے زمین پر رکھ دیا اور ٹک ایک سامھنے سے اس کے کترا کر اور آنکھ اس کی بچا کر پیچھے اس کے لگ گیا۔ آخرش قابو پا کے اسے بھی تیر سے مارا۔ سور کے جب تیر لگا تو جھنجھلا کر اپنے دانتوں سے اس کو بھی مار رکھا اور آپ بھی وہاں مر رہا۔
غرض پرمان شکاری، ہرن اور خوک تینوں ایک ہی جگہ پر مر کر رہ گئے۔ گھڑی دو ایک کے پیچھے اس میدان میں ارتھ لوبھی نام ایک گیدڑ وہاں آن پہنچا۔ خوشی بہت سی کی اور خدا کا شکر بجا لایا اور کہا: ‘‘ایسی غذاے لطیف مجھے کبھی میسر نہیں ہوئی تھی جیسی آج ہوئی۔ اب چند روز اچھی طرح فراغت سے کھاؤں اور کبابوں کے واسطے اچھا اچھا گوشت سکھا کر رکھوں گا”۔ خیر وہ حریص یہ خیال اپنے دل میں باندھ کے پہلے کمان کے چلے کو لگا چبانے۔ کمان تو چڑھی ہوئی تھی؛ جب زہ کٹ گئی تب کمان کا گوشہ ایسا زور سے سینے میں اس لالچی کے لگا کہ پانی نہ مانگا۔ جب اس حریص نے وہ شکار نہ کھایا اور اسے ذخیرہ کر رکھا اور کمان کی زہ چبانے لگا، یہی اس کی قسمت کا بدا تھا جو اس کے آگے آیا۔ جو کوئی زر پیدا کرے، لازم ہے کہ اس میں سے کچھ کھاوے، کچھ رکھے، کچھ خدا کی راہ میں دیوے۔ سو تو تو نے نہ کیا، مفت برباد دیا، اب اس کا افسوس بھی مت کر”۔ چوہا بولا: ‘‘بھائی! بات یہی ہے جو تو کہتا ہے”۔ پھر باخے نے کہا: ‘‘اے یار! اگر مال کے واسطے کڑھے گا تو اس کڑھن سے تصدیع اٹھاوے گا اور اسی کوفت میں مر جاوے گا، اور لوگ ٹھٹھے مار کر یہ کہیں گے کہ کیا عقل مند تھا جس نے مال کے لیے اپنے تئیں ہلاک کیا۔ اگر جان سلامت ہے تو مال بہتیرا ہو رہے گا”۔ باخا پھر کہنے لگا: ‘‘اے چوہے! جو گیدڑ اتنا گوشت کھاتا تو اس کی نوبت یہاں لگ نہ پہنچتی۔ حاصل یہ ہے جو تو نے مال نہ کھایا تو غم بھی نہ کھا، کیوں کہ کہا ہے: جب ہاتھ پاؤں کے ناخن اور دانت اور سر کے بال اپنی جگہ سے جدے ہوئے تو محض ناچیز ہیں۔ جو زر کے واسطے غم ناک رہے گا تو گوشت تیرا گل جاوے گا اور ہڈیاں چونا ہو جاویں گی۔ خدا کی بندگی میں اتنا متوجہ رہ کہ دنیا تیری لونڈی ہو رہے۔ دیکھا نہیں جب عورت کو پیٹ رہتا ہے، لڑکا ہونے کے آگے خوراک اس کی حق تعالیٰ اس کی ماں کی چھاتیوں میں پیدا کرتا ہے۔ ہمارا تمھارا روزی کا دینے والا وہی داتا ہے۔ اے یار! اس مکان کو اپنا گھر جان اور تو میرے پاس رہ”۔
جب اتنی فروتنی لگ پتنگ کوے نے سنی تو زبان اپنی کچھوے کی تعریف میں کھولی اور کہا: ‘‘اگر ہاتھی ندی کی دلدل میں پھنسے تو ہاتھی سوا کوئی اسے نہیں نکال سکتا ہے۔ اسی طرح اس عالی خاندان چوہے پر جو اب ایسا برا وقت پڑا ہے، تجھ لگ آ پہنچا کہ تم بھی بڑے گھرانے سے ہو”۔ بعد اس گفتگو کے چوہے، کوے اور کچھوے میں دوستی دلی ہوئی اور تینوں ایک جگہ میں رہنے لگے۔
ایک دن دیکھتے کیا ہیں کہ چتر لگھ نام ایک ہرن ان کی طرف بھاگا چلا آتا ہے۔ اس کو دیکھ کر تینوں یار بھاگے۔ باخا ندی میں جا رہا، چوہا بل میں گھس گیا اور کوا درخت پر اڑ گیا۔ اور چاروں طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا جو ہرن کے پیچھے کوئی نہیں آتا۔ خیر جب وہ ان کی جگہ پہنچا تب کوا بولا۔ کوے کے بولتے ہی تینوں یار آ اکٹھے ہوئے۔ ان میں سے باخے نے آہو سے پوچھا: ‘‘تیرے پیچھے تو کوئی نہیں، تیں کس واسطے اتنا ہربڑا کر دوڑا آیا، خیر تو ہے؟” وہ بولا کہ میں شکاریوں کے ڈر سے ایسا گھبرا کے بھاگا آیا ہوں اور اب اپنا یہ ارادہ ہے کہ اس باقی عمر کو تمھاری رفاقت میں کاٹوں۔ کچھوے نے چوہے کی طرف دیکھا۔ چوہے نے کہا: ‘‘اب جو تو ڈر کر یہاں آیا ہے، خاطر جمع رکھ، دل میں کچھ اندیشہ نہ کر، تیں ہمارا ساتھی ہوا۔ اے یارو! ہرن اور ہم آپس میں شریک نیک و بد کے ہوئے”۔
یہ بات سن کر وہ بہت خوش ہوا اور درخت کے تلے نزدیک یاروں کے بیٹھا۔ کچھوے نے اس سے پوچھا: ‘‘یار! شکاری کون ہے اور انھیں تو نے کہاں دیکھا ہے؟” یہ بولا: ‘‘راجا کے بیٹے حاکم ملک کٹک کے اپنے لشکر سمیت کنارے بھاگ رتھی ندی کے آ اترے ہیں۔ میں نے یوں سنا ہے کہ وے کل جھیل میں مچھلیوں کا شکار کھیلیں گے”۔ یہ سنتے ہی باخے کے دل میں شکاریوں کا ڈر پیدا ہوا۔ وہ کہنے لگا: ‘‘جو میں آج اس جھیل میں رہوں گا تو کل بھوک کی آگ میں جلوں گا؛ یعنی وے مچھلیاں پکڑ لیں گے، میں بھوکا مروں گا۔ بہتر یہ ہے کہ میں کسو اور تالاب میں جاؤں”۔ کوے اور آہو نے کہا: ‘‘بہت اچھا”۔ ہرنک چوہا متامل ہو کر بولا کہ باخے کو خشکی میں چلنا مشکل ہے۔ جو تری کی راہ ملے تو سلامت پہنچے۔ جیسا کہ کہا ہے: پانی کے رہنے والوں کو پانی کی قوت ہے اور آدمیوں کو پناہ کوٹ سے ہے۔ یارو! جو اس کو زمین پر چلنے دو گے، چنانچہ بقال اپنے کیے سے پشیمان ہوا تھا، تم بھی اپنے کیے کی ندامت کھینچو گے”۔ یاروں نے پوچھا: ‘‘وہ قصہ بنیے کا کیوں کر تھا؟” چوہا بولا۔
نقل تنکبیر نام ایک شخص اور نوجوبنا بقال کی بیٹی کی
شہر قنوج میں بیرسین نامی ایک راجا تھا۔ اس نے اپنے نام کا ایک شہر بسایا اور نام اس کا بیرپور رکھا۔ اس شہر کی حکومت تنکبیر نام ایک اس کا ملازم تھا، اسے دی۔ ایک مہینے کے پیچھے وہ شہر دیکھنے کو نکلا۔ ایک بقال کی بیٹی نوجوبنا نام اپنے کوٹھے پر کھڑی تھی، اسے دیکھا۔ وہیں اس کی زلف ناگن نے اس کو ڈسا۔ گھوڑے سے زمین پر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ لوگوں نے پالکی میں ڈال اس کے گھر پر لا پہنچایا۔ دائی نے پوچھا: ‘‘اے فرزند! تجھے کیا ہوا؟” کہا: ‘‘میری نظر ایک نازنین پر پڑی ہے۔ میں نہیں جانتا وہ پری تھی یا آدمی۔ اس کے گل بن کا کانٹا میری آنکھ میں چبھ گیا۔ اسی درد سے میں بے قرار ہوں”۔ دائی نے معلوم کیا کہ یہ لڑکا نوجوبنا کے حسن کے تیر سے زخمی ہوا ہے۔ وہ اس فکر میں ہوئی کہ اس کا اور اس کا کسی طرح ملاپ ہو۔ کسی بہانے سے نوجوبنا کے یہاں آ کر دیکھتی کیا ہے کہ اس کے جمال کی کٹاری کی ماری ہوئی یہ بھی ایسی لوٹ پوٹ ہو رہی ہے جو ہلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ آہستے آہستے اس کے کان میں کہا: ‘‘اے نوجوبنا! تیرے واسطے میرا تنکبیر روتا ہے اور مدہوش پڑا ہے۔ اگر تجھ سے اس کی دست گیری ایک بوسے سے ہو سکے اور سچیت کرے تو میں تجھے سونے کا ٹکا دوں”۔ نوجوبنا بولی: ‘‘اے نادان دائی! یہ سودا اور دکان سے جا کر خرید کر”۔ دائی نے پھر عذر کیا کہ پھول میرا تیری محبت کے آفتاب سے مرجھایا ہے۔ جو تیرے ہی جمال کا سایہ پڑے تو تر و تازہ ہووے۔ نوجوبنا بولی: ‘‘اے دائی! اس میرے باغ کا نگہبان میرا خاوند ہے”۔یہ اس کے منہ کی بات سن کر دائی چپکے پھر آئی۔ تب تنکبیر دیکھ کر کہنے لگا: ‘‘اے دائی! ‘کفچہ زدی حلوا کو؟’ یعنی محنت کی مزدوری کہاں؟” دائی نے کہا: ‘‘میں اپنے کام کو پختہ کر آئی ہوں لیکن چند روز صبر کیا چاہیے۔ وہ اپنے شوہر سے ڈرتی ہے۔ اس کا میں ایک علاج کرتی ہوں، جو اس کا خاوند از خود تمھارے پاس لا پہنچاوے۔ سن لڑکے! کام حکمت اور عقل سے نکلتا اور زبردستی سے ہرگز نہیں بن پڑتا ہے۔ کیا تو نے قصہ گیدڑوں کا نہیں سنا کہ عقل کے زور سے جیتے ہی ہاتھی کو کھا گئے؟” تنکبیر نے کہا: ‘‘وہ قصہ کیوں کر ہے؟” دائی بولی۔
نقل دھول تلک ہاتھی اور آتما نام گیدڑ کی
یوں کہتے ہیں کہ ڈنڈ کارن نام ایک جنگل ہے۔ اس میں دھول تلک نام اک مست ہاتھی تھا۔ گیدڑ اس کی فکر میں ہوئے کہ کسی طرح دو تین مہینے تک اس کا گوشت کھاویں۔ ان میں ایک آتما نام گیدڑ تھا۔ اس نے کہا: ‘‘یارو! اس ہاتھی کو میں دانائی کی زنجیر سے باندھ کر حکمت کے تیروں سے ماروں گا”۔ یہ کہہ کر جلد چلا۔ جب ہاتھی کے پاس پہنچا، سلام کر کے ادب سے تفاوت کھڑا ہوا۔ اس نے پوچھا: ‘‘تو کون ہے، کہاں سے آیا؟” بولا: ‘‘مجھے سب جانوروں کے اور گیدڑوں کے راجاؤں نے تمھاری خدمت میں بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تمھیں اس جنگل کا بادشاہ کریں۔ اگر قبول ہو تو آپ اس میں ایک دم توقف نہ کیجیے، جلد چلیے۔ دونوں بادشاہ سارے جانوروں سمیت تمھارے منتظر ہیں”۔
ہاتھی مارے خوشی کے جلد جلد چلا۔ گیدڑ فریبی جھیل کی راہ سے (جس میں چور بالو تھی) لے چلا۔ وہ تو ہلکا تھا، دبے پاؤں جھیل کے پار جا کھڑا ہوا اور اس کو بلانے لگا کہ ناک کی سیدھ چلے آؤ، پانی بہت تھوڑا ہے۔ ہاتھی بوجھل تھا، پاؤں رکھتے ہی دلدل میں پھنس گیا۔ کہا: ‘‘یار! کیا کیا چاہیے؟” گیدڑ بولا کہ میری دم پکڑ لے تو میں تجھے ندی سے نکال لوں۔ اس نے کہا: ‘‘اے نادان! تیرے زور سے میں کیوں کر نکلوں گا”۔ تب گیدڑ بولا: ‘‘اگر تم کہو تو میں اپنی قوم کو بلا لوں جو تمھیں اس دلدل سے کھینچ نکالے؟” ہاتھی اُس چہلے میں پھنسنے سے ایسا عاجز ہو کے ہاتھ پاؤں مارتا تھا کہ جیسے کوئی دریا میں بہتے ہوئے بہتا تنکا دیکھ کر ہاتھ بڑھا وے کہ شاید اسی کے آسرے سے بچ جاؤں، پر اُس کو وہ تنکا ناچیز کیا فائدہ کرے۔ مارے بدحواسی کے کہنے لگا کہ اچھا تو جا، اپنے یاروں کو بلا لا کہ وے مجھے اس مصیبت سے چھڑاویں۔ گیدڑ دوڑا اور اپنی تمام برادری کو بلا لایا اور آپ اس کے سامھنے آ کھڑا ہوا اور وے پیچھے سے ہاتھی کا گوشت کاٹ کاٹ کھانے لگے۔ تب ہاتھی نے کہا ؎
باغ دل میں تو نے میرے تخم الفت بو دیا
آخرش تو نے کیا ووہی ترے دل میں جو تھا
دل مرا لے کر ہوا افسوس ظالم سنگ دل
تھا ترے دل میں یہ کب میں جانتا تھا دل جلا
پھر دائی نے کہا: ‘‘اے تنکبیر! تو نے دیکھا کہ اپنی عقل کے زور سے گیدڑ نے ہاتھی کا کام تمام کیا۔ کیا مجھ سے اتنا بھی نہ ہوگا کہ میں اپنی عقل کی رسائی سے تیرا کام بہ خوبی انجام دوں۔ وہ کون سا کام ہے جو عقل سے نہیں ہو سکتا”۔تنکبیر نے کہا: ‘‘اے دائی! میرے دل کی شاہین نوجوبنا کے مرغ حسن کے درپے ہے۔ اس سبب سے نہ چہرے پر رنگ ہے نہ دل میں قرار”۔ آخرش دائی تنکبیر کے کان میں کچھ ایسی باتیں کر کے اپنے گھر چلی گئی کہ جس سے طالب اپنے مطلب کو پہنچے۔ تب تنکبیر نے نوجوبنا کے خاوند کو بلا کر نوکر رکھا اور بہت سا سرفراز کیا اور اچھے اچھے کام اس کو سونپے۔
ایک دن تنکبیر نے اس سے کہا کہ اے یار! میں نے آج رات کو ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک عورت شیر پر سوار ہے اور مجھ سے کہتی ہے کہ اگر تو ایک مہینے تک ہر روز ایک عورت کو اپنے گھر بلواوے اور تاش بادلا پہناوے اور پٹکا اپنے گلے میں ڈال کر اس کے پاؤں پڑے اور رخصت کر دیا کرے تو تیری عمر و دولت دن بہ دن بڑھے گی اور جو عورت تیرے پاس سے زری پوش ہو کر جاوے گی، اس کے بیٹا بے شبہ پیدا ہووے اور اس کے خاوند کی عمر دراز۔ اگر یہ کام تجھ سے نہ ہو سکے گا تو شوہر نوجوبنا کا (جو تیرے پاس رہتا ہے) مر جائے گا اور اس کے بعد تو بھی نہ بچے گا۔ بھلا کہہ تو اب کیا کیا چاہیے؟اُس بقال نے کہا: ‘‘جو کچھ حکم ہو، موافق اُس کے کروں”۔تنکبیر نے کہا کہ عورت لانا تمھارا کام ہے اور تاش بادلا پہنانا میرا ذمہ۔جب رات ہوئی، بقال نے ایک رنڈی اس کے یہاں لا پہنچائی۔ اسے وہ اپنی خلوت میں لے گیا۔ تب بنیا چھپ کر دیکھنے لگا کہ دیکھوں تو اس عورت پر وہ ہاتھ ڈالتا ہے کہ نہیں۔ دیکھا کہ اس نے ایک جوڑا زری کا پہنا کر پٹکا اپنے گلے میں ڈال، اُس کے پاؤں پڑ رخصت کیا۔ بقال نے یہ سب احوال دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ تنکبیر بڑا بے وقوف ہے جو اتنا لباس زربفت کا مفت اسے دیا۔ جب بقال اور وہ عورت دونوں باہر آئے، اس نے عورت کو کہا کہ آدھے کپڑے اس میں سے مجھے دے۔ وہ بولی: ‘‘مجھے تو تنکبیر نے دیے ہیں، تجھے کیوں دوں؟” غرض وے دونوں آپس میں یہاں تک جھگڑے کہ کپڑے عورت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور آدھی ڈاڑھی بقال کی اس عورت نے کھسوٹ لی۔ تنکبیر کو جو یہ خبر پہنچی تو بہت سا ہنسا اور جانا کہ آج کل مطلب میرا حاصل ہوگا۔
بقال نے اپنی جورو سے سب احوال مفصل رات کا کہا۔ اس نے جواب دیا کہ تو کسی اوچھی کم ظرف کو لے گیا ہوگا۔ اگر کسی معتبر کو لے جاتا تو ایسا فضیحت نہ ہوتا۔ دوسری رات ایک عمدہ رنڈی کو لے گیا۔ تنکبیر نے ویسا ہی سلوک اس کے ساتھ بھی کیا جیسا پہلی کے ساتھ کیا تھا۔بقال یہ دیکھ کر اپنے دل میں حسرت کرنے لگا۔ تیسرے دن اپنی عورت سے کہا: ‘‘اے نوجوبنا! اتنی دولت بے فائدہ جاتی ہے۔ اگر ایک رات تو میرے ساتھ چلے تو سب دولت تیرے ہاتھ آوے”۔ وہ بولی کہ میں نامحرم مرد کے گھر کیوں کر جاؤں۔ بقال کو اپنی عورت پر نہایت اعتماد ہوا اور کہنے لگا کہ تنکبیر پہنچتے ہی لباس زری کا دیتا ہے اور پاؤں پڑ کے رخصت کرتا ہے۔ نوجوبنا نے کہا: ‘‘جو عورت اپنے خاوند کے حکم میں نہ ہو، قیامت کے دن اس کو عذاب میں گرفتار کریں گے۔ میں تیری رضامندی چاہتی ہوں، جو کچھ کہے گا بہ سر و چشم قبول کروں گی”۔ بقال نہایت خوش ہوا اور کہنے لگا: ‘‘رحمت خدا کی تیرے ماں باپ پر”۔
جب آفتاب سیاح آسمان کے میدان کو طے کر کے مغرب کے گوشے میں پہنچا، تخمیناً پہر رات گئی ہوگی جو بنیا کم عقل بہ دستور سابق اپنی جورو کو بھی دولت کی طمع سے تنکبیر کے پاس لے گیا۔ وہ اسے دیکھتے ہی باغ باغ ہو کر اپنے خلوت خانے میں لایا اور کہنے لگا: ‘‘اے نوجوبنا! تیرے کافر عشق کے لشکر نے میرے ملک دل خراب کیا تھا۔ تیرے آنے سے بارے آباد ہوا”۔ بنیا جو وہاں چھپا ہوا کھڑا تھا، اس بات کے سنتے ہی شرمندہ ہوا، اپنا سر پیٹتے گھر کی راہ لی۔
اے یارو! اگر کچھوا خشکی کی راہ چلے گا تو جیسا بقال اپنے کیے سے پشیمان ہوا تھا، یہ بھی ہوگا۔ کچھوے کا دل ہرن کے خبر دینے سے شکاریوں کے ڈر کے مارے تو گھبرا ہی رہا تھا، چوہے کے کہنے پر عمل نہ کیا۔ ہرن اور کوے کی صلاح سے معاً تالاب کو چھوڑ چل نکلا۔ کوے، چوہے اور ہرن کو بھی اس کے ساتھ جانا ضرور پڑا، کچھوے کے پیچھے لگ چلے۔ بہ ہزار خرابی کوس بھر گئے ہوں گے؛ چاہا کہ کسی درخت کی چھاؤں میں ٹھہریں، یکایک دیکھتے کیا ہیں کہ ایک مرد شکاری تیر کمان لیے چلا آتا ہے۔ ہر ایک یار نے اپنی اپنی راہ پکڑی۔ کوا تو درخت پر جا بیٹھا اور چوہا کسی بل میں گھس گیا اور ہرن جنگل کی طرف بھاگ گیا۔
کچھوا تری کا جانور تھا۔ خشکی میں بھاگ نہ سکا، وہیں رہ گیا؛ تب شکاری نے اسے پکڑ کر چاروں ہاتھ پاؤں باندھ، کمان کے گوشے میں لٹکا، اپنے گھر کی راہ لی۔ جب تینوں یاروں نے دیکھا کہ کچھوا پکڑا گیا، وے رونے لگے۔ چوہا بولا: ‘‘اے بھائیو! میں تم سے نہ کہتا تھا کہ کچھوا اگر خشکی سے جائے گا تو نہایت رنج اٹھائے گا۔ اب یہ تمھاری آہ و زاری کچھ کام نہیں کرتی۔ اب ایسی تدبیر کرو جس سے کچھوے کی مخلصی ہووے”۔
کوے اور ہرن نے کہا: ‘‘اے ہرنک! بغیر تیری عقل و تدبیر کے اس کا چھٹکارا معلوم”۔ چوہا بولا: ‘‘اے ہرن! یہاں سے آگو چل کر جہاں کہیں پانی کا ڈبرا نظر آوے تو لنگڑا کر کھڑا رہنا۔ جب وہ تیر انداز نزدیک آوے تو آہستے آہستے لنگڑاتا ہوا بھاگیو”۔ ہرن نے وہی کیا۔ جب وہ مرد کچھوے سمیت پانی کے کنارے پہنچا، دیکھا کہ ہرن لنگڑاتا جاتا ہے۔ کچھوے کا وزن بھاری تھا، اس کو زمین پر رکھ دیا اور ہرن کے پیچھے چلا۔ جب قریب تیر کے فاصلے پر گیا، چوہے نے پیچھے سے کچھوے کی پھانسی کاٹ کر ہرن کو پکارا اور کہا: ‘‘اے ہرن! کچھوا صحیح سلامت پانی میں آ پہنچا، تو بھی جنگل کو بھاگ جا”۔ وہ یہ بات سنتے ہی بھاگا۔ جس وقت تیر انداز ہرن کے پیچھے سے پھر آیا، دیکھتا کیا ہے کہ کچھوا نہیں۔ پشیمان ہو کر بولا: ‘‘بزرگ یوں کہہ گئے ہیں: جو کوئی آدھی کو چھوڑ ساری کو دھاوے وہ آدھی بھی ہاتھ نہ آوے۔ اگر میں ہرن کے پیچھے نہ جاتا تو کچھوا میرے ہاتھ سے نہ بھاگتا”۔ شکاری افسوس کرتا چلا گیا۔ تب ان چاروں یاروں نے اکٹھے ہو کر خوشی کی اور کہا: یہ مکان ہم کو سزاوار ہے، اسی جگہ ہم رہیں گے۔ چوہا، کوا، ہرن کچھوا چاروں اسی جگہ گھر بنا کر رہنے لگے۔
جب برہمن نے بات مترلاتھ کی تمام کی، راجا کے بیٹوں کو کمال خوشی ہوئی اور کہنے لگے کہ محبت و دوستی کرنی ایسا فائدہ رکھتی ہے۔ مہاراج! اس قصے کے سننے سے ہم کو نصیحت و فائدہ ہوا۔