ہزاروں شکر اس خدا کے کہ جس نے اپنی تمام خلقت میں انسان کو فضیلت عطا فرمائی اور عقل کے تاجِ مرصع سے دین و دنیا میں اس کے سر کو زیب و زینت بخشی اور طبیعت کے چالاک گھوڑے پر سوار کر کے دانائی کی لگام ہاتھ میں دی اور علم کی تلوار مُلکِ دل کے نظم و نسق کے واسطے سپرد کی کہ شیطان دشمن کے ہاتھ سے ہوش و حواس کی زیست پامال نہ ہو۔ اور درود بے شمار اس کے نبی احمدؐ مختار اور اس کے آل اطہار پر۔
اے دانا! آگاہ ہو۔ اس کتاب کو ہند میں ‘‘ہتوپدیس” یعنی نصیحت مفیدہ کہتے ہیں اور اس میں چار باب مندرج ہیں۔ ایک میں ذکر دوستی کا، دوسرے میں دوستوں کی جدائی کا، تیسرے میں لڑائی کی ایسی باتوں کا جو اپنی فتح ہو اور مخالف کی شکست، چوتھے میں کیفیت ملاپ کی خواہ لڑائی کے آگے ہو یا پیچھے۔
غرض ایسے عجیب و غریب قصوں میں قصے لپٹے ہوئے ہیں جن کے دیکھنے اور سننے سے آدمی دنیا کے کاروبار میں بہت ہوشیار، نہایت چالاک ہو جاوے؛ علاوہ اس کے بھلی بری حرکتیں ہر ایک کی نظر آویں۔ چنانچہ یہ کتاب سرکار دولت مدار میں ملک الملوک شاہ نصیر الدین کی (جس کی تخت گاہ صوبہ بہار تھی) پہنچی۔
جب انھوں نے سنا، اس میں قصے از بس کہ دلچسپ ہیں اور نصیحتیں نہایت مرغوب اور باتیں بہت خوب اور حکایتیں اکثر مفید، اپنے ملازموں سے ایک کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اس کو ترجمہ سلیس فارسی میں کرو تو میں اپنے مطالعے میں رکھوں اور اس کے مضمون سے مستفید ہوؤں۔ تب ان میں سے ایک شخص حکم بجا لایا اور نام اس کا ‘‘مفرح القلوب” رکھا۔ بالفعل اس عاصی میر بہادر علی حسینی نے سنہ اٹھارہ سو دو عیسوی میں مطابق سنہ بارہ سو سترہ ہجری کے فرمانے سے صاحب خداوند نعمت جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام اقبالہ کے زبان فارسی سے ترجمہ سلیس رواجی ریختے میں (جسے خاص و عام بولتے ہیں) کیا اور نام اس کا ‘‘اخلاق ہندی” رکھا۔ جو کوئی اس پر عمل کرے گا تو دل و دماغ اس کا عقل کی بو سے ہر دم تازہ ہوگا اور اکثر دانائی کی باتوں سے واقف ہو کر ہمیشہ خوش و خرم رہے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...