وہ لڑکی تیرے پاس کب سے ہے۔۔۔ اور تیری مردانگی یہی ہے کہ تو ابھی تک اسے اپنی بیوی نہیں بنا پایا۔۔۔۔
بابا جی کی با رعب آواز پر شام کا چہرہ سرخ پڑ گیا۔۔۔۔ آپکو کیسے پتا۔۔۔۔
یہ سوال کر کہ وہ خود ہی گڑبڑا گیا۔۔۔۔
اسنے شانی اور کاشی کی طرف دیکھا۔۔۔۔ وہ دونوں منہ چھپاۓ کھی کھی کرنے میں لگے ہوئے تھے۔۔۔۔
نا چاھتے ہوئے بھی اسکے چہرے پر مسکراہٹ آ ٹھہری۔۔۔ شرمندگی سے بھر پور
۔۔۔!
زیادہ سوال مت کر۔۔۔ بابا دھاڑا۔۔۔
وو۔ وہ بابا۔۔۔ بب۔۔۔ بس
۔۔
وہ شرمندگی کے مارے کچھ کہ ہی نہیں پا رہا تھا۔۔۔ بابا جی نے پوائنٹ بھی تو ایسا مارا تھا۔۔۔
مرد ہے کہ نہیں۔۔۔۔؟
بابا جی نے نہایت اطمینان سے سوال کیا۔۔۔۔
کاشی اور شانی کے چھت پھاڑ قہقہہ پر بابا اور شام دونوں نے انہیں گھورا۔۔۔
جو شام کی ایسی دھلائ پر اپنے دانتوں کو باہر نکلنے سے روک نہیں پا رہے تھے۔۔۔
نکلو تم دونوں یہاں سے۔۔۔
بابا جی نے اپنی لاٹھی اٹھائی۔۔۔۔
اور ایک ایک بار دونوں کے سر پر ٹھوکی۔۔۔
آا۔۔۔بابا۔۔۔۔ وہ دونوں سر پکڑے منہ بناتے ہوے بولے۔۔۔۔
اب کی بار شام کے قہقہہ سے درو دیوار ہل گئے تھے۔۔۔
وہ دونوں منہ بناتے اسے گھورتے ہوئے وارن کرتے وہاں سے چلے گئے۔۔۔
“اپنے دانتوں کو انکے اصلی مقام پر رکھ۔۔۔!!”
بابا جی کے کہنے پر شام مؤدب سا سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔
بچپن میں تیری بیوی پر یا تجھ پر کسی بری چیز کا سایہ پڑا تھا۔۔۔۔؟
بابا جی کے اس سوال پر شام چونک گیا۔۔۔
ایک دھندلا سا منظر ہر جگہ پر حاوی ہوگیا۔۔۔۔
“عالم بیٹا پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔!”
اسے یاد آیا۔۔۔ مما اسے پیچھے ہٹنے کا بول رہی تھیں۔۔۔۔
اور وہ بری بری آوازیں۔۔۔وہ عجیب شکل والا بابا۔۔۔
اور ہاں گڑیا بھی تو اسی رات غائب ہوئی تھی۔۔۔۔”
ہاں بابا۔۔۔۔!
وہ وہیں کھویا کھویا بولا۔۔۔۔
مم۔۔۔ میری بیوی پر سایہ تھا۔۔۔
مگر۔۔۔۔۔!
مگر بابا جی۔۔۔اسکو جلا کر بھسم کر دیا گیا تھا۔۔۔
۔۔۔
اور۔
۔۔!
وہ اتنا کہ کر خاموش ہوگیا۔۔۔!
اور ۔۔۔۔۔؟
بابا جی نے اسے خاموش دیکھ کر بلایا۔۔۔۔
اور۔۔۔۔پپ۔۔پھر اسی رات میری بیوی کو غائب کر دیا گیا۔۔۔۔
اتنا کہ کر وہ خاموش ہوگیا۔۔۔
ان دونوں کے بیچ گہری خاموشی چھا گئی۔۔۔
میں سمجھ گیا ہوں۔۔۔۔!
تھوڑی دیر بعد بابا کی آواز گونجی۔۔۔
شام سر اٹھا کر بے چینی سے انہیں دیکھنے لگا۔۔۔۔
“جس چڑیل کو مارا گیا۔۔۔ اسی خاندان کا ایک فرد تم سے انتقام کی خاطر تمہاری بیوی کو لے گیا۔۔۔۔تا کہ اس رات جس میں اس چڑیل کو ختم کیا گیا۔۔۔ تیری بیوی کا خون شیطان کو پیش کر کہ اپنی بہن کو واپس لا سکے۔۔۔۔ اور یہ جوان کنوارہ خون انہیں ساری شیطانی طاقتیں پانے میں مدد دے گا۔۔۔۔۔”
بابا جی سانس لینے کو رکے۔۔۔۔
شام سانس روکے انکو باتیں سن رہا تھا۔۔۔۔اتنی خوفناک باتیں وہ زندگی میں دوسری بار سن رہا تھا۔۔۔۔
ایک بار سحر کے منہ سے۔۔۔ اور دوسری بار اب۔۔۔۔!
وہ شاید ان باتوں پر یقین بھی نا کر پاتا۔۔۔۔
اگر اسے سحر کے ساتھ ہونے والا بچپن کا واقعہ یاد نا آتا۔۔۔۔
اب سب سے اہم اور آخری بات سن۔۔۔
بابا نے خبر دار کرنے والے لہجے میں کہا۔۔۔۔
شام نے سر ہلایا۔۔۔۔
اس جن کو چاہئے کنوارہ خون۔۔۔۔۔!
اور تو اسے کامیاب کرنے میں پورا ساتھ دے رہا ہے۔۔۔۔
میری بات سمجھ تو رہا ہے نا۔۔۔۔۔؟
بابا جی کے گھورنے پر شام ایک بار پھر سے شرمندہ ہوگیا۔۔۔۔
اگر تو اسے اپنی بیوی بنا لے۔۔۔۔ تو وہ جن تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔۔۔
وہ خود اس آگ میں جل کر مر جائے گا۔۔۔۔
سمجھ گیا نا۔۔۔۔
بابا کی بات غور سے سنتے شام نے بے اختیار اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
ہم۔۔۔۔!
یہ زخم کیسا۔۔۔؟
بابا نے اسکے چہرے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔
وہ۔۔۔ بابا جی۔۔۔ سس۔۔۔سحر کی وجہ سے۔۔۔۔ وہ کہتی ہے کہ اسکی مورے کو میں نے مارا ہے۔۔۔۔
شام کو جیسے ہی یاد آیا۔۔۔ اس نے اپنی پریشانی بابا سے شئیر کی۔۔۔۔
مورے کا ذکر آتے ہی بابا کے چہرےپر کرب امڈ آیا۔۔۔۔
وہ بھی شیطانیت کی ہی تو بھینت چڑھ گئی تھیں۔۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔۔سمجھ جائے گی۔۔۔۔
اب تم جا سکتے۔۔۔۔ میں تمھیں بلوا لوں گا۔۔۔ میری نصیحت یاد رکھنا۔۔۔۔
جی بابا۔۔۔۔ شام نے عقیدت سے انکے ہاتھ چومے۔۔۔۔ اوروہاں سے باہرنکل گیا۔۔۔۔
آہن۔۔۔۔!
انہوں نے اپنی مٹھیاں بھینچیں۔۔۔۔۔
مورے کے وجود سے نکلنے والی اس غلاظت سے وہ پہچان گئے تھے۔۔۔ کہ انہیں مارا گیا تھا۔۔۔۔۔
اور کس نے ۔۔۔۔؟ یہ پتا لگانا انکے کے لئے مشکل نا تھا۔۔۔
وہ جیسی ہی گاڑی کے پاس آیا۔۔۔۔
وہ دونوں اپنے بتیس کے بتیس دانت نکالے اسکے منتظر تھے۔۔۔۔
وہ انہیں اگنور کرتا ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھا۔۔۔۔
ہیلو سر۔۔۔۔!
کیسے ہیں آپ۔۔۔؟
کاشی نے ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔۔
شام نے ایک نظراسکے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا۔۔۔۔ اور دوسری نظر اسکے چہرے پر۔۔جہاں اسے سواۓ شرارت کے کچھ نہیں ملا۔۔۔۔
سر جھٹک کر وہ آگے بڑھنے ہی لگا تھا۔۔۔۔
کہ پیچھے سے شانی کی آواز پر وہ اپنی مسکراہٹ نا چھپا سکا۔۔۔۔
فکرمت کریں اگر آپ کنوارے ہیں تو ہم بھی کنورارے ہیں۔۔۔۔۔
اور پھر وہ دونوں لہک لہک کر گانے لگے۔۔۔
اس پرچم کے ساۓ تلے ہم ایک ہیں۔۔۔ ہم ایک ہیں۔۔۔۔۔!
انکے گانے پر شام اپنے قہقہے کو کنٹرول نہیں کر پایا۔۔۔۔
رکو تم دونوں۔۔۔!
وہ انکے پیچھے بھاگا۔۔۔۔
یہ لو میں نے اپنی بیٹی کے لئے بنائی ہے رس ملائی۔۔۔۔!
کھا کر دیکھو تمھیں بہت اچھی لگے گی۔۔۔۔
سدرہ بیگم نے سویٹ ڈش کا باؤل سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے سحر کو دیکھا۔۔۔
جو عافیہ بیگم کی چادر کا کونہ پکڑے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔
وہ اتنی معصوم تھی کہ انہیں ٹوٹ کر اس پر پیار آیا۔۔۔۔حقیقت پتا چلنے کے بعد تو وہ اسکے صدقے واری ہوئے جا رہے تھے۔۔۔۔
خوشی سے سب کے پیر زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔۔۔۔
علی صاحب صدقے کے طور پر کئ دیگیں غریبوں میں بنٹوائیں تھیں۔۔۔۔
ہاں میں خود اپنی بیٹی کو کھلاؤں گی۔۔۔
عافیہ بیگم نے محبّت سے اسکے چہرے پر جھولتی آوارہ لٹوں کو ہٹایا۔۔۔۔
سحر بغیر کسی تاثر کے انہیں دیکھتی رہی۔۔۔
بس اسے یہ اطمینان تھا۔۔۔ کہ یہ لوگ اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے۔۔۔
اور اسکے بعد میری بٹیا پہنے گی یہ سوٹ۔۔۔
سدرہ نے وائٹ کلر کی نہایت نفیس میکسی اسکے سامنے کی۔۔۔۔
سحر کی آنکھوں میں ستائش ابھری۔۔۔۔
لیکن مورے کا خیال آتے ہی دل اچاٹ ہوگیا۔۔۔۔
اس نے بے دلی سے باؤل کھسکا دیا۔۔۔۔
کیا ہوا ۔۔۔۔؟
پسند نہیں آئ۔۔۔؟
وہ پریشان ہو گئیں۔۔۔
ارے سدرہ ابھی میری بیٹی آرام کرے گی۔۔۔ پھر شام کے آنے پر پہنے گی نا۔۔۔
عافیہ نے سدرہ کو آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔
شام کے ذکر پر سحر کے چہرے پر خوف کے ساتھ نفرت امڈ آئ۔۔۔
وہ بے اختیار رخ موڑے لیٹ گئی۔۔۔
اسکی اس قدر لاتعلقی پر وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئیں۔۔۔۔
رات کا وقت تھا
۔ہر طرف سنّاٹا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔
وقفے وقفے سے کتوں کے بھونکنے کی آواز ماحول کو ہیبت ناک بنا رہی تھی۔۔۔۔
اسی وقت گھر میں ایک وجود سیاہ لباس میں لپٹا ہوا داخل ہوا۔۔۔۔
اسکا لباس اسکے دل کا ہم رنگ تھا۔۔۔
کالک لگا ۔۔۔۔سیاہ۔۔۔!
وہ گھر میں کچھ تلاش کر رہا تھا۔۔۔
کئ اندیشے اسکے اندر سر اٹھا رہے تھے۔۔۔
ناکام ہو کر وہ دھاڑا۔۔۔
شاااااااام۔۔۔ میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔ تو نے میرا شکار مجھ سے چھین لیا۔۔۔
وہ غصے سے پاگل ہونے کو تھا۔۔۔۔
اسنے اپنے میں جھانکا۔۔۔۔
کمرہ خالی پڑا تھا۔۔۔وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔
وہ کھٹ پٹ کی آواز سن کر کچن کی طرف بڑھا۔۔۔
جہاں سدرہ بیگم بھاپ اڑاتی کافی مگوں میں انڈیل رہی تھیں۔۔۔
سحر کہاں ہے مما۔۔۔؟
شام نے ان سے پوچھا۔۔۔
وہ عافیہ بھابی کے پاس ہے۔۔۔
وہ آواز سن کر چونکیں ۔۔۔اور پھر اسے سامنے دیکھ کر بے اختیار سکون کا سانس لیتے ہوئے انہوں نے جواب دیا۔۔۔۔
وہ تیز قدم اٹھاتا عافیہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھا۔۔۔
دروازہ ناک کر کہ اس نے اندر جھانکا۔۔۔
جہاں وہ سفید میکسی زیب تن کئے عافیہ بیگم کا پاس سوئ ہوئی تھی۔۔۔
آجاؤ بیٹے۔۔۔!
انہوں نے اسے پکارا۔۔۔
وہ نرم سی مسکراہٹ انکی طرف اچھالتا ہوا قریب آ ٹھہرا۔۔۔
اسے اتنا ہیوی سوٹ کیوں پہنا رکھا ہے۔۔۔
اس نے سوئ ہوئی سحر کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔
بیٹا سدرہ کا شوق تھا اپنی بہو کو سجا سنورا ہوا دیکھنے کا۔۔۔۔
بڑی منت کرنے کے بعد اس نے پہنا۔۔۔
اور اب اسی کو پہنے سو گئی ہے۔۔۔
انہوں نے سحر کے گال سہلاتےہوئے مسکرا کر شام کو بتایا۔۔۔
اچھا تائ جان اب میں اسے لے جاؤں۔۔۔؟
وہ ذرا جھجھک کر بولا۔۔۔
بھلا کہاں۔۔۔؟
وہ اسکے چہرے کے تاثرات سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔۔۔
تائ جان کمرے میں اور کہاں۔۔۔۔؟
وہ جھنجھلا کر بولا۔۔۔۔
اسکے انداز پر وہ ہنس پڑیں۔۔۔
سحر۔۔۔! اٹھو۔۔۔
انہوں نے اسے اٹھانا چاہا۔۔۔۔
مگر شام نے اشارے سے انہیں منع کر دیا۔۔۔
احتیاط سے اس نے سحر کو اٹھایا۔۔۔
اور کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔
پیچھے عافیہ بیگم مسکراتی رہ گئیں۔۔۔
اپنے بازوؤں پر کسی کا لمس محسوس کر کہ اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔۔
جہاں شام اسے بیڈ پر لٹا کر اب اس پر کمبل درست کر رہا تھا۔۔۔
بے اختیار اس کے منہ سے چیخ نکلی۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ سارے گھر والوں تک پہنچتی ۔۔۔۔ شام نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔
شش۔۔۔۔۔اسنے نفی میں سر ہلاتے ہوئے اسے آنکھوں سے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ سحر کا سانس اٹک کر رہ گیا۔۔۔۔
وہ ساکن پتلیوں سے اسے اپنے اتنا قریب دیکھے گئی۔۔۔۔
شام گہری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
اسکا حسن اور مصومیت اسے اپنے حواسوں پر طاری ہوتا محسوس ہوا۔۔۔۔
مدہوش ہو کر وہ اسکی طرف جھکنے لگا۔۔۔
مگر سحر کے رونے پر وہ ہوش میں آیا۔۔۔
جو رونے کے ساتھ خوف زدہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
وہ گہری سانس لیتا پیچھے ہٹ گیا۔۔۔۔
سحر تیزی سے اٹھ بیٹھی۔۔ اور اپنا دوپٹا سنبھالتے ہوئے تیزی سے وہاں سے جانے لگی۔۔۔
مگر شام نے اسکی کلائ تھام کر اسے روک لیا ۔۔
چھ۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔۔
تم میری مورے قاتل ہو۔۔۔۔اور اب۔۔۔۔!
وہ وحشت زدہ ہو کر چلّاتی اپنا ہاتھ چھڑانے لگی۔۔۔
اسکی ایک ہی بات سن کر شام جو ضبط کئے بیٹھا تھا۔۔۔
پھٹ پڑا۔۔۔
اپنی بکواس بند کرو۔۔۔۔!
میں نے کسی کو نہیں مارا۔۔۔۔
وہ اسکے مقابل کھڑا ہوتا اسے وارن کرتا بولا۔۔۔۔۔
اسکے چیخنے پر سحر کی زبان کو بریک لگی۔۔۔۔
دوبارہ میں یہ بات نہ سنوں۔۔۔
چلو سو جاؤ اب۔۔۔۔ وہ اسکو کلائ سے پکڑتا ہوا بولا۔۔۔۔
سحر نے جھٹکے سے ہاتھ چھڑا لیا ۔۔
شام نے سخت نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔
اور اسے بازو سے کھینچ کر بیڈ پر بٹھایا۔۔۔۔ اور اپنی سائیڈ پر آ کر اسکی طرف پشت کئے لیٹ گیا۔۔۔۔
اسکی پریشانی مزید بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔
سحر اسکی پشت کو گھورتی رہ گئی۔۔۔۔
وہاں سے ہلنے کی ہمّت اس میں نہیں تھی۔۔۔ اسلئے بیڈ کے کونے میں سکڑ سمٹ کر وہ لیٹ گئی۔۔۔
اب نیند کا آنا ویسے بھی مشکل تھا۔۔۔۔
ناشتے کی ٹیبل پر سارے بیٹھے انکا ویٹ کر رہے تھے۔۔۔
ارے سدرہ بچوں کا آنے کا ارادہ ہے بھی یا وہ کمرے میں ناشتہ کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔؟
عافیہ بیگم نے سدرہ سے پوچھا۔۔۔۔
نہیں بھابی وہ سحر فریش ہو رہی ہے ابھی آ جائیں گے۔۔۔۔
انہوں نے عافیہ کو مطمئن کروایا۔۔۔۔
*
میری بات غور سے سنو۔۔۔ مما تائ جان اور بابا کے سامنے کوئی ڈرامہ کرئیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔
شام نے سختی سے سر جھکاۓ کھڑی سحر کو وارن کیا۔۔۔۔
جوابا وہ خاموش رہی۔۔۔۔
سمجھ آئ کہ نہیں۔۔۔؟
اب کی بار وہ دھاڑا
۔۔
جج۔۔۔جی۔۔۔۔ وہ جلدی جلدی اثبات میں سر ہلانے لگی۔۔۔۔
گڈ چلو اب۔۔۔۔
وہ اسکا ہاتھ تھامے اسے کھینچتا ہوا آگے بڑھ گیا۔۔۔
آہن پریشان کیوں ہو رہا ہے۔۔۔۔
یہ انسان بڑے غیرت مند بنتے ہیں۔۔۔ بیوی کی اجازت کے بغیر اسکو ہاتھ نہیں لگانا۔۔۔۔
جسی بیوی نا ہوئی بہن ہوگئی۔۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔ اپنی گھٹیا بات پر وہ خود ہی قہقہے لگانے لگا۔۔۔ تو فکر نہ کر بس۔۔۔
پر آقا وہ ایک مرد ہے۔۔۔ اور سحر کا حسن دیکھ کر کون خود پر کنٹرول کر سکتا ہے۔۔۔۔
آہن پریشان تھا۔۔۔۔
فکر نا کر۔۔۔ ابھی رات ہے۔۔۔۔ صبح ہوتے ہی انکی تلاش میں نکل پڑیں گے۔۔۔
مل جائیں گے۔۔۔ بس تو ٹینشن نہ لے اور مزے کر۔۔۔۔
شیطان سے ایک مشروب اسکو دیا۔۔۔۔
جسکو وہ خاموشی سے تھام کر ایک ایک گھونٹ کرتا حلق سے اتارنے لگا۔۔۔۔
اوکے مما۔۔۔ اب میں چلتا ہوں۔۔۔۔
شام ٹیبل سے اٹھتا ہوا بولا۔۔۔۔
سحر خاموشی سے سر جھکاۓ کھا رہی تھی۔۔۔۔
کدھر چلے برخودار۔۔۔؟
سوال سدرہ بیگم کی بجاۓ علی صاحب کی طرف سے آیا۔۔۔
کچھ ضروری کام ہے بابا۔۔۔۔
اب کونسا ضروری کام۔۔۔۔؟ اب سحر بیٹی گھر آ گئی ہے۔۔ میرا خیال ہے اب تمھیں میرے ساتھ آفس چلنا چاہیے
۔۔۔۔۔
پر میرا خیالات کے حالات ابھی اتنے برے نہیں ہوے۔۔۔۔
وہ مطمئن انداز میں سینے پر ہاتھ باندھتا ہوا بولا۔۔۔۔
کیا مطلب۔۔۔؟
انہوں نے اسے گھورا۔۔۔
“مطلب یہ کہ آپکی سحر بیٹی واپس آ جانے کے ساتھ ساتھ مصیبتوں کے انبار بھی اپنے ساتھ لائی ہے۔۔۔”
شام ایک نظر سحر پر ڈالتے ہوئے طنزیہ لہجے میں بولا۔۔۔
سحر بے اختیار کانٹا پلیٹ میں گرا گئی۔۔۔۔
۔
علی صاحب سمیت سب نے شام کو گھورا۔۔۔
وہ جوابا ڈھٹائ سے انہیں دیکھتا رہا۔۔۔۔
محترم ۔۔۔ ہم اس ہفتے آپ دونوں کے ولیمے کا فنکشن ارّینج کر رہے ہیں۔۔۔ اسلئے بہتر ہے۔۔۔ اپنے مزاج کو اسکی لمٹ میں رکھیں۔۔۔۔
وہ سخت لہجے میں اسے وارن کرتے ہوئے بولے۔۔۔۔
جوابا وہ کندھے اچکاتا لاپرواہی سے کیز گهماتا وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
سحر کا دماغ فنکشن والی بات پر اڑا ہوا تھا۔۔۔
شام بےبی اپنی شکل جسے گانا مت لگاؤ۔۔۔۔
کوئی کام کا گانا لگاؤ۔۔۔
شانی نے بے زاری سے راحت فتح کا گانا بڑے جذب کے عالم میں سنتے ہوئے شام کو گھورا۔۔۔۔
جس کی انگلیاں مستی کے عالم میں سٹیرنگ پر بج رہی تھیں۔۔۔۔
یار اللّه کا واسطہ ہے۔۔۔ بند کر اس دکھی راگ کو۔۔۔ اب کی بار کاشی نے بھی ہاتھ جوڑ دئے۔۔۔۔ انکو راحت سے خدا واسطے کا بیر تھا۔۔
تنگ آ کر شانی خود ہی چینج کرنے کے لئے بڑھا۔۔۔
کہ اچانک ڈرائیونگ کرتے شام کا دماغ جسے سن ہوگیا۔۔۔
اسکے ہاتھ خود با خود سٹیرنگ کو غلط ڈائریکشن میں موڑنے لگے۔۔۔۔
ابے شام خیر ہے۔۔۔۔
شامی اور کاشی چیخے۔۔۔۔
مگر اب دیر ہو چکی تھی۔۔ ۔
گاڑی پوری قوت کے ساتھ سامنے درخت سے ٹکرائ۔۔۔
شیشہ کچرنے کے ساتھ
شام اور شانی کے سر زور سے ڈیش بورڈ سے ٹکراۓ۔۔۔۔
خون کی ایک لکیر شام کو اپنے ماتھے سے بہتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔
اور پھر اسے ہوش نا رہا۔۔۔۔
لوگوں کا شور بڑھ رہا تھا۔۔۔ سب گاڑی کے گرد جمع ہو رہے تھے۔۔۔۔
آوازیں تھیں۔۔۔ بھیڑ تھی۔۔۔۔
کہیں آہن مسکراتی نظروں سے کھڑا سارا تماشادیکھ رہا تھا۔۔۔۔
جتنے زخم اسے شام نے دئے تھے۔۔۔ وہ اسکا کچھ حساب لینے میں کامیاب ہو چکا تھا۔۔۔۔۔