سحر دروازہ بند کر کہ اپنی پشت اس پر ٹکاۓ آنکھیں بند کرتی اپنی دھڑکنوں کو محسوس کرنے لگی۔۔۔
پھر ایک نظر ہاتھ میں پکڑے سوٹ پر ڈالی۔۔۔
بےبی پنک کلر کی شارٹ شرٹ اور وائٹ کیپری۔۔۔
اسکو دیکھ کر سحر کے تاثرات عجیب سے ہوئے۔۔ وہ ایسے لباس کو پہننے کی عادی نہیں تھی۔۔۔۔
مورے اسے ہمیشہ کھلے اور گاؤن ٹائپ کے لباس پہناتی تھیں۔۔۔
مورے کی یاد آتے ہی اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔
کپڑوں کو سینے سے لگاے وہ ہونٹ کاٹتی آنسو روکنے لگی۔۔۔
رو رو کر وہ تھک چکی تھی۔۔۔۔
ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے اس نے واشروم میں نظر دوڑائ۔۔۔
اسکی سمجھ سے باہر تھا کہ یہاں شاور لوں تو کیسے۔۔۔
مگر یہاں رہنا تھا تو سمجھنا بھی ضروری تھا۔۔۔ اپنی سوچوں کو جھٹکتی وہ آگے بڑھ گئی۔۔۔۔
مورے چپ کر جائیں۔۔۔ مجھے کہ رہی تھیں۔۔۔
کہ صبر کروں بھول جاؤں اسے۔۔۔۔
اور خود روۓ جا رہی ہیں۔۔۔
آہن مورے کو تھپتھپاتا ہوا بولا۔۔۔۔
جو اسکے سینے لگیں تب سے رو رہی تھیں۔۔۔۔
جب سے وہ سحر سے مل کر آئیں تھیں۔۔۔
میری بچی بہت رو رہی تھی۔۔۔ آہن۔۔۔!
وہ بہت تکلیف میں تھی۔۔۔۔
انکا درد کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
بس چپ کر جائیں مورے۔۔۔!
وہ انکا ماتھا چومتا ہوا بولا۔۔۔
مورے سر جھکاۓ سسکیاں بھرتی آنسو صاف کرنے لگیں۔۔۔
“روۓ گی تو اب وہ۔۔۔!”
وہ دور خلا میں دیکھتا سوچ رہا تھا۔۔۔
مگر کون جانے قدرت کے فیصلے۔۔۔ !
کہ کس نے رونا تھا اور کس نے ہنسنا۔۔۔۔!!
بول میں کیا کروں۔۔۔ میں اس وقت بہت بے بسی محسوس کر رہا ہوں۔۔۔
اگر اس لڑکے نے سحر کو چھو لیا۔۔۔
تو میری اتنے سالوں کی محنت خاک میں مل جائے گی۔۔۔
میری بہن۔۔۔ اسکی آتما آج بھی بھٹک رہی ہے۔۔۔ وہ واپس آنا چاہتی ہے۔۔۔ اور میں اسے واپس لانا چاہتا ہوں۔۔۔
اور اسکا واحد ذریعہ ہے تو۔۔۔ تو مجھے حل بتاۓ گا اسکا۔۔۔
بتا مجھے۔۔۔آہن اس ساۓ پر چیختا ہوا بولا۔۔۔
“شااااانت”
“تممم تب تک کوئ میداااان کامیابی سے پااار نہیں کر سکتے جب تک تمہارے قدم مضبوط نہ ہوں۔۔۔ اور دماغ پر سکون۔۔۔۔””
وہ اپنے مخصوص لب و لہجے میں بولتا اسکا دماغ ٹھکانے لگا گیا۔۔
“اچھا ٹھیک ہے۔۔۔”
آہن گہری سانس بھرتا ہوا بولا۔۔۔
عمل کچھ کڑوا سہی مگررر کرنا پڑے گا۔۔۔
اگر چاہو توووو۔۔۔
ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔۔۔۔
آہن نے خود کو کہتے سنا تھا۔۔۔
شاور لے کر اسے اپنا آپ ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔۔۔
یہ احساس اسکے دل کو فرحت بخش رہا تھا۔۔۔ کہ وہ مورے سے ملنے جاۓ گی۔۔۔ اسنے سوچ لیا تھا کہ وہ یہاں واپس نہیں آے گی ۔۔ اور مورے کو منانا کونسا مشکل کام تھا۔۔
مطمئن سی وہ باہر نکل آئی۔۔۔
مگر سامنے بیڈ پر بیٹھے شام کو دیکھ کر اسکا حلق کڑوا ہوگیا۔۔۔
وہ آنکھوں پر بازو رکھے لیٹا ہوا تھا۔۔۔
دروازہ کھلنے پر سحر کی طرف دیکھا۔۔
مگر دوبارہ اپنی پہلی والی حالت میں لیٹ گیا۔۔۔
سحر نے ذرا حیرانی سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔ اور خاموشی سے دوسری سائیڈ پر آ کر بیٹھ گئی۔۔۔
کچھ لمحے خاموشی کی نذر ہوگئے۔۔۔
“بتانے کو لئے تیار ہو۔۔ تو میں انتظار میں ہوں”
تھوڑی دیر بعد شام کی آواز سن کر اسکو کرنٹ لگا۔۔۔۔
آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے ہی لگی تھیں۔۔۔
کہ شام کی آواز پر انھیں واپس دھکیلنا پڑا۔۔۔
“اور ہاں یاد رہے اب تمھارے آنسو بھی مجھے سچ جاننے سے نہیں روک سکتے۔۔۔’
وہ خاموش رہی۔۔۔
شام اٹھ کر اسکے برابر بیٹھ گیا۔۔۔
سحر نے اٹھنے کی کوشش کی۔۔۔ مگر شام نے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ سختی سے جما کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔
میں نہیں بتاؤں گی۔۔۔
وہ اٹل لہجے میں بولی۔۔۔
شام کی رگیں تن گئیں۔۔۔ غصّے کا شدید ابال اسے اپنے اندر اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
تمہیں پتا ہے تمہارا مسلہ کیا ہے۔۔۔ تمہیں پیار کی بات سمجھ نہیں آتی۔۔۔۔
وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر بھڑک اٹھا۔۔۔
انکار سننے کی اسے عادت کہاں تھی۔۔۔ اور پھر یہ چھٹانک بھر کی لڑکی اس سے سیدھے منہ بات کرنے کو تیار نہیں تھی۔۔۔
لگتا ہے ایسے نہیں مانو گی۔۔۔
اسنے اسے سر سے پکڑ کر آگے کرتے ہوئے اسکی سنہری آنکھوں میں دیکھا۔۔۔
نن۔۔۔ نہیں بتاتی ہوں۔۔۔وہ ہکلائ۔۔
گڈ گرل۔۔۔!
وہ جاندار انداز میں مسکرایا ۔۔۔۔
کھڑکی کے پاس کچھ کھٹکا سا ہوا۔۔۔
پردے زور سے پھڑپھڑانے لگے۔۔۔
کمرے کی لائٹس جلنے بجھنے لگیں۔۔۔
شام حیرانی سے ادھر ادھر دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
کھڑکی کے پاس مسلسل کھٹکا ہو رہا تھا۔۔۔
شام چوکنا سا چلتا ہوا کھڑکی کے پاس گیا۔ ۔۔
اور ایک جھٹکے سے اسے کھولا۔۔۔
اسی ٹائم ایک نہایت خوف ناک چیخ سنائی دی۔۔۔
اسکی آواز ایسی تھی کہ مرد ہو کر بھی اسکا دل کانپ گیا۔۔۔
تیزی سے کھڑکی بند کرتا وہ سحر کے پاس آیا۔۔۔
جسکا کانپ کانپ کر برا حال تھا۔۔
شام نے اسکے چہرے پر نگاہ ڈالی۔۔۔
اسکا چہرہ لٹھے کی مانند سفید تھا۔۔۔
گڑیا۔۔۔ ریلیکس۔۔۔!!
وہ اسکے پاس آ کر اسکا سر تھتھپانے لگا تھا۔۔۔
مم۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔ وو۔۔۔وہ کک کون تھا۔۔۔
سحر انجانے میں روتے ہوئے اسکا بازو تھامے ہوئی تھی۔۔۔
ڈونٹ وری۔۔۔!!
جب تک میں تمھارے ساتھ ہوں تمہیں کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔
وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔۔
سحر بس اسے دیکھ کر شوں شوں کرتی اپنا شغل جاری رکھے ہوئے تھی۔۔۔
تم بیٹھو میں ابھی اتا ہوں۔۔۔
وہ ایک ضروری کال کرنا چاہتا تھا۔۔۔
نن۔۔۔ نہیں۔۔۔ پپ۔۔ پلیز مت جاؤ۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔
وہ سختی سے اسکا بازو پکڑے التجا کرنے لگی.۔۔۔
اسے اس شخص کے ساتھ رہتے ہوئے یہ خوف تو ختم ہوگیا تھا۔۔ کہ یہ کوئی غیر نہیں۔۔ مورے کے آنے پر وہ اتنا تو یقین کر بیٹھی تھی کہ یہ اسکا شوھر تھا۔۔۔ مگر کیسے۔۔۔۔؟
وہ ابھی اسکے بارے میں سوچنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔
اوکے اوکے۔۔۔!
رونا نہیں ہے۔۔ میں تمھارے ساتھ ہوں۔۔۔ اسنے اسکا سر سینے سے لگاۓ تھپکتے ہوئے کہا۔۔۔
سحر اسکی شرٹ کو جکڑے آنکھیں موند گئی۔۔۔
ڈر ختم ہوا تو نیند غالب ہونے لگی۔۔۔۔
اسکی نرم گرم سانسیں خود پر محسوس کر کہ شام نے اسکے سو جانے کا اندازہ لگایا۔۔۔
نرمی سے اسے بستر پر لٹا کر اسنے کمبل اسکو اوڑھایا۔۔۔۔
ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے وہ اسی کھڑکی کے پاس کھڑا ہو کر فون نکالنے لگا۔۔۔۔
ایک نظر باہر دوڑاتے ہوئے اسکی نظرایک جگہ پر پڑی۔۔۔
دو لال آنکھیں اسے دیکھتے ہی وہاں سے غائب ہو گئی تھیں۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔! ہے شیطان آج تو تو نے مجھے مروا ڈالا۔۔۔۔
وہ کراہتا ہوا چل رہا تھا۔۔۔ ساتھ ہی اسکے منہ سے شیطانی قوتوں کے لئے بھی کڑوے الفاظ نکل رہے تھے۔۔۔
جنکو استعمال کرنے کے چکّر میں وہ اس قدر تکلیف سے دو چار ہوا تھا۔۔۔
یہ کیا ہوا میرے ساتھ مالک۔ ؟
اسنے اپنے زخموں سے رستے ہوئے سیاہ خون کو صاف کرتے ہوئے آگ سے جھانکتے اس سیاہ ہیولے سے سوال کیا۔۔۔۔۔
اس بڑھیا کے کرتوت۔۔۔۔!
وہ شیطان غرایا۔۔۔۔
کک۔۔۔ کون۔۔۔؟
وہ ہلکلایا۔۔
زیادہ بھولا مت بن آہن۔۔۔۔!!
اگر شیطانی طاقتوں کو پانا چاہتا تو سب کچھ پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا ہوگا۔۔۔
وہ شیطان اسکے دل و دماغ میں زہر بھر رہا تھا۔۔۔
کیا چاھتے ہو آقا۔۔۔؟
وہ آخر پوچھ بیٹھا۔۔۔
اس بات کو سن۔۔۔ اور ہاں اپنا دماغ ٹھنڈا رکھنا۔۔۔!
وہ شیطان خود شیطانیت کی آگ میں بھڑکتا اسے ٹھنڈا رہنے کی تلقین کر رہا تھا۔۔۔
جی آقا جو حکم۔۔!
وہ مؤدب سا سر جھکاۓ بولا۔۔۔
قرییییب۔۔۔۔۔!! آ جاؤ۔۔
اسکو سوتا چھوڑ کر وہ باہر نکلا۔۔۔ فون نکال کر اسنے شانی اور کاشی کی ٹائم لائن چیک کی۔۔۔ دونوں آن لائن تھے۔۔
گروپ میں جا کر اس نے انہیں ویڈیو کال کی ۔۔
کیا ہے یار۔۔۔۔؟ تھوڑی دیر جینے نہیں دے سکتا تو۔۔۔؟
جمائیوں پہ جمائیاں لیتے وہ شام سے سخت بے زار لگ رہے تھے۔۔۔
دیکھو یار اس وقت بہت عجیب اور سیریس سا معاملہ پیش آیا ہے۔۔۔ ویری سٹرینج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسنے ذرا سا سسپنس کرئیٹ کیا۔۔۔
شانی کا تجسس کے مارے برا حال ہوگیا۔۔۔
جج۔۔ جلدی بتا۔۔۔وہ بے تاب ہوا۔۔۔
یار آج میں نے دو آنکھیں دیکھی ہیں۔۔۔ لال رنگ کی ۔۔۔۔ اپنی کھڑکی سے باہر۔۔۔ جو مجھے دیکھتے ہی غائب ہو گئیں ۔۔۔
وہ پریشانی سے بولا۔۔۔
ہاں تو تو کیا چاہتا تھا۔۔۔کہ وہ آنکھیں تیرے عشق میں ڈوب کر وہیں ٹھہر جاتی۔۔۔؟
شانی بے زاری سے بولا۔۔۔
شایان بی سیریس یار۔۔۔ !
شام اکتا کر بولا۔۔۔
اوکے میں چپ ہوں۔۔۔
وہ خاموش ہوگیا۔۔۔
ایک ہی حل ہے۔۔۔
ابھی کہ ابھی بھابی سے حقیقت پوچھ.۔۔۔
کاشی کے بولنے پر شام چونکا۔۔۔
پر وہ سو رہی ہے۔۔۔۔۔
ہاں تو جگا دے نا ۔۔ یہ نا ہو انکے سونے کے چکّر میں ہم ابدی نیند سو جائیں۔۔۔
شانی کی زبان میں پھر سے کھجلی ہوئی۔۔۔
کیا تھوڑی دیر کے لئے تیری بکواس کو لگام مل سکتی ہے۔۔۔؟
انکی بات سن کر شانی نے سکرین کی طرف دیکھا۔۔۔ وہ دونوں اسے گھور رہے تھے۔۔۔۔
وہ خاموش ہوگیا۔۔۔
ہاں تو کیا کہ رہا تھا۔۔۔۔؟
شام نے کاشی کو بلایا.۔۔۔۔
بس میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اسی وقت جا اور بھابی سے سچ پوچھ.۔۔۔۔
میں نہیں جانتا وہ چیخ کی آواز وہ سرخ آنکھیں یہ سب کیا تھا۔۔
بس میں اس بات سے پر سکون ہوں کہ تو ٹھیک ہے۔۔۔۔
لیکن کب تک۔۔۔؟ یہ میں نہیں جانتا۔۔
اسلئے بھابی سے حقیقت پوچھ۔۔۔۔
تا کہ ہم کوئی حل نکال سکیں۔۔۔نہیں تو تیرے ساتھ انکی جان کو بھی خطرہ ہے۔۔۔۔
وہ دھیمے مگر سیریس انداز میں کہتا شام کو راہ دکھا گیا۔۔۔
ٹھیک ہے یار۔۔۔ میں ایسا ہی کروں گا۔۔۔
وہ مطمئن سا بولا۔۔۔ اوکے تھینک یو یار۔۔۔۔
وہ ممنون ہوا۔۔۔
اپکا بھی تھینکس ہماری جان چھوڑنے کے لئے۔۔۔۔!
شانی کی آواز پر شام بے سر جھٹکتے ہوئے کال کاٹ دی ۔۔
میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔۔۔
ایسا لگتا ہے۔۔جیسے کچھ برا ہونے والا ہے۔۔۔
بہت برا۔۔۔۔
مورے جاۓ نماز تہہ کر کہ اٹھیں۔۔۔
اور بڑبڑاتے ہوئے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔۔۔ جسکی رفتار معمول سے تیز تھی۔۔۔
میں سحر سے مل آوں۔۔۔
وہ اٹھنے لگیں۔۔۔
مجہے یقین ہے وہ ٹھیک ہوگی۔۔۔ جب تک میرا وظیفہ کام کرتا ہے. ۔
مگر میں اپنے دل کا کیا کروں۔۔۔ جو میری سحر کے خیال کو کسی وظیفے سے بھی نہیں ٹال سکتا۔۔
۔
آنسو تو ویسے ہی جاری تھے۔۔۔
نہیں’
وہ رکیں۔۔۔
اگر آقا کی نافرمانی کی۔۔تو طاقتیں کمزور پڑ جائیں گی میری۔۔۔
انہوں نے سوچا۔۔۔
مگر پھر اپنے خیال کی نفی کی۔۔۔
ایسی طاقت کا کیا فائدہ۔۔۔ جو میری بیٹی سے مجھے نا ملنے دے۔۔۔’
انکی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔۔۔
بس مجھے جانا ہوگا۔۔۔
وہ فیصلہ کر چکی تھیں۔۔۔۔
سحر جلدی اٹھو۔۔۔
اٹھو۔۔۔۔۔
ایک منٹ سے پہلے اٹھ جاؤ۔۔۔ورنہ میں بہت برا پیش آوں گا۔۔۔
وہ کمرے میں آتے ہی اس پر چلانے لگا۔۔۔
مگر شاید وہ گہری نیند میں تھی ۔۔۔۔اسلئے ٹس سے مس نا ہوئی۔۔۔
شام نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔۔۔ اور گہرا سانس لے کر اپنے آپ کو کنٹرول کیا.۔۔۔
سحر۔۔۔ اٹھو ۔۔۔۔
اب کی بار وہ تھوڑا سا کسمسائ۔۔۔
اور پھر۔۔۔
‘سونے دیں مورے’ کہ کر پھر سے پہلی والی حالت میں لیٹ گئی ۔۔
شام نے پوری آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔۔۔۔
اب کی بار وہ تیزی سے اسکی طرف بڑھا۔۔۔ اور اسے بازو سے پکڑ کر جھٹکے سے بیٹھا دیا۔۔۔
سحر اس افتاد پر بوکھلا گئی۔۔۔۔
اپنے چہرے سے بال ہٹاتے ہوئے اس نے گھبرا کر اس غصیلے کو دیکھا۔۔۔۔
جو نتھنے پھلاۓ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
جج۔۔۔جی۔۔۔؟
وہ ہکلائ۔۔۔
کتنا سوتی ہو تم۔۔۔
وہ گرجا۔۔۔
سحر اسکی بات سن کر حیران رہ گئی ۔
اسکے اندازے کے مطابق اسے تھوڑا ہی ٹائم ہوا تھا سوتے ہوئے۔۔۔
جی۔۔۔۔!!
وہ شاید صحیح سے بیدار نہیں ہوئی تھی ۔۔تب ہی انجام کی پرواہ کے بغیر کہ کر اسنے دوبارہ سونا چاہا۔۔۔
مگر شام نے پیچھے سے تکیہ کھینچ لیا۔۔۔
اسکا سر زور سے بیڈ کرؤن سے ٹکرایا۔۔۔۔
مورے۔۔۔ وہ رونے لگی۔۔۔۔
آہااااں۔۔۔۔
میرے سامنے چالاکی نہیں۔۔۔
میں پاگل نہیں ہوں ۔۔۔ تمھیں کوئی چوٹ نہیں لگی۔۔۔ اسنے پیچھے لگے فوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
سحر کا چہرہ سفید پڑ گیا۔۔۔ وہ اسکی سوچ سے زیادہ چالاک تھا ۔ ۔
چپ کیوں ہوگئی۔۔۔
شام آگے ہو کر اسکا چہرہ دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ جو اس نے شرمندگی کی وجہ سے دوسری طرف موڑا ہوا تھا۔۔۔
جوابا اسنے صرف نفی میں سر ہلایا۔۔۔
ہممم۔۔۔ چلو مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔ ۔
سحر نے بے اختیار اسکی طرف رخ موڑا ۔۔۔ اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔۔۔
نا جانے اب اسنے کیا پوچھنا تھا۔۔۔
جج۔۔۔جی۔۔۔؟
وہ با مشکل ہی پوچھ پائی۔۔
او۔۔۔کم آن میں تم سے یہ سوال کئ بار کر چکا ہوں۔۔۔۔
مگر تم مجھے جواب میں صرف اپنے آنسو دکھاتی ہو۔۔۔۔
شام نے جیسے اسے یاد دلایا۔۔۔۔
سحر چہرہ جھکا گئی۔۔۔۔
اسکا شک درست نکلا تھا۔۔۔۔
“اور ہاں یاد رکھنا اس بار کوئی رعایت نہیں ملے گی۔۔”
شام کی سخت آواز پر اسکا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔۔۔
مم۔۔۔میں کک۔۔۔کل بتاؤں گی۔۔۔۔
وہ دھیمی آواز میں کہتی بلینکٹ میں گھسنے لگی۔۔۔۔
مگر شام نے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔۔
“بتاؤ گی یا۔۔۔؟”
بھنویں اچکا کر سوال کیا گیا۔۔۔۔
سحر رونے لگی۔۔۔
بے بسی کی انتہا تھی۔۔۔۔
“میں کل پکّا بتا دوں گی۔۔۔”
اس نے ایک آخری کوشش کرنا چاہی۔۔۔
“مگر میں پکّا آج ہی سنوں گا”
وہ اس سے دو ہاتھ آگے تھا۔۔۔۔ وہ بےبس ہوگئ۔۔۔۔
وہ سر جھکاۓ خاموشی سے اسکے منہ سے نکلنے والی ہر بات سنتا رہا۔۔۔۔
راز کھل چکا تھا۔۔۔ مگر شام کو لگا کہ وہ وہیں کھو گیا ہے۔۔۔۔ اسکی گڑیا جنات کے بیچ رہی۔۔۔۔
اور سب سے تکلیف دہ بات کہ وہ بھیڑیا جس سے اسکا مقابلہ ہوا تھا۔۔۔ وہ سحر سے شادی کرنے والا تھا۔۔۔۔
اگر وہ وقت پے نا پہنچتا تو۔۔۔۔؟
اس سے آگے اسکا دل کانپ گیا۔۔۔۔
اسکی بیوی کسی اور کے ساتھ ہوتی اور وہ بے خبر۔۔!!
اور وہ بھی اسکو پسند کرتی تھی۔۔۔۔
یہ خیال دل کو ٹھیس پہنچا رہا تھا۔۔
وہ شاک زدہ سا اٹھا۔۔۔ اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔
پیچھے وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی رہ گئی۔۔۔۔
سحر میرا بچا۔۔۔ کیوں رو رہی ہو۔۔۔۔؟
وہ گھٹنوں میں سر دئے بری طرح سے رو رہی تھی۔۔۔ مورے اور آہن کی فکر اسے کھاۓ جا رہی تھی۔۔۔
اگر شام انہیں کوئی نقصان پہنچا دیتا تو۔۔۔؟
یہی سوچ کر اسکا دل کانپ جاتا تھا۔۔۔
مورے کی آواز پر اسنے جھٹکے سے سے اٹھایا۔۔۔۔ اسے لگا جیسے اسے آکسیجن کا جھونکا مل گیا ہو۔۔۔۔
اسے مورے کے دوبارہ آنے کی امید نہیں تھی۔۔۔۔
مگر انہیں سامنے دیکھ کر اسکے آنسو غائب ہوگئے۔۔۔
خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔۔۔
مورے۔۔۔!!
وہ ان سے لپٹتی انکے آنچل میں چہرہ چھپا گئی۔۔
میرا بچا۔۔۔۔میری جان سحر۔۔۔ مت رویا کرو۔۔ تمہاری مورے کو تکلیف ہوتی ہے۔۔۔
مورے نے اسکا چہرہ چوما۔۔۔
انکی آواز میں تھکان سی تھی۔۔
سحر نے بغور انہیں دیکھا۔۔
وہ بہت کمزور لگ رہی تھیں۔۔۔۔
مورے کیا ہوا آپکو۔۔۔؟
وہ پریشانی سے انکے ہاتھ تھامتے ہوئے بولی۔ ۔۔
کچھ نہیں بچے۔۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔
نہیں مورے آپ مجھے بتائیں گی۔۔۔۔
وہ بضد تھی۔۔۔۔
سحر بچے۔۔۔ !!
وہ ٹالنا چاہتی تھیں۔۔۔
مگر وہ سننے کو تیار ہی نا تھی۔۔۔۔
سحر میری جان اتنی ضد نہیں کرتے۔۔۔ پر سنو۔۔۔آقا نے مجھے تم سے ملنے سے منع کیا ہے۔۔۔۔
اور اگر آقا کی نافرمانی کی جائے تو تم جانتی ہو۔۔۔ ہم کمزور پڑ جاتے ہیں۔۔
ہمارا کچھ وقت کے لئے اپنی طاقتوں پر کنٹرول نہیں رہتا۔۔
مگر میرا اپنی سحر کے بغیر رہنا بھی تو مشکل ہے نا۔۔
انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
پر مورے۔۔۔ یہ آپکے لئے نقصان زدہ ہو گا۔۔۔ آپکو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔سحر پریشان ہوئ۔۔۔
ارے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔
انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔
کچھ لمحے خاموشی کی نذر ہوگۓ۔۔۔
“مورے۔۔۔۔”
تھوڑی دیر بعد مورے اسکی آواز پر چونکی۔۔۔
جی میری بیٹی۔۔۔؟
مم۔۔ مورے آپکو ایک بات بتاؤ۔۔۔؟ آ۔۔۔آپ ناراض تو نہیں ہوں گی۔۔۔
وہ ڈرتی ہوئی بولی۔۔
سحر۔۔۔’ مورے نے اسے خفگی سے دیکھا۔۔۔
کیا تمھیں پہلے کوئی بات کرنے کے لئے میری اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔۔؟
اور میں نے کبھی تم پر غصہ کیا۔۔۔؟
ارے۔۔۔ نہیں مورے ۔۔پپ۔۔پر بات ہی کچھ ایسی ہے۔۔۔۔
وہ ڈر رہی تھی۔۔۔
سحر۔۔۔بچے۔۔۔ایسی کیا بات ہے۔۔۔ کیوں اتنا ڈر رہی ہو۔۔۔۔
مورے اسکی کیفیت دیکھ کر ہی حیران تھیں۔۔۔۔
مم۔۔۔ مورے۔۔۔ وو۔۔۔وہ۔۔۔ شش۔۔۔شام نے مم۔۔۔ مجھ ۔۔۔سس۔۔۔ سب ۔۔۔کک۔۔۔کچھ پوچھ لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
اور۔۔۔
اسنے سوکھے لبوں پر زبان پھیری۔۔۔
اور۔۔۔ مم۔۔۔ میں نے اسے سب کچھ بتا دیا ہے۔۔۔
وہ آخر انہیں سچ بتا گئی۔۔۔۔
مورے خاموش تھیں۔۔۔ انکے جھریوں بھرے چہرے پر پریشانی کی لکیریں بڑھ گئی تھیں۔۔۔۔
مورے ۔۔۔۔؟
اسنے خاموش بیٹھی مورے کو پکارا۔۔۔
جی۔۔۔۔؟ سحر۔۔۔
وہ اپنے خیالات سے نکلیں۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ خاموش کیوں ہو گئیں۔۔۔؟
کچھ نہیں۔۔۔
وہ بس مسکرا کر اتنا ہی کہ پائیں۔۔۔۔
وہ خاموشی سے واپس انکی گود میں لیٹ گئی۔۔۔۔
کیا دھمکی ملی تھی اس سچ کو جاننے کے لئے۔۔۔۔؟
مورے کی آواز پر سحر کو گویا کرنٹ لگا۔۔۔وہ اس سے کیا سوال کر رہی تھیں۔۔۔۔
کک۔۔۔کچھ۔۔نہیں۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔
وہ جلدی سے بولی۔۔۔ مبادا وہ کوئی اور سوال نا کر لیتیں۔۔۔
مورے نے بغور اسکا سرخ ہوتا چہرہ دیکھا۔۔۔مگر بولی کچھ نہیں۔۔۔۔
بیٹا شام تمہیں دیکھنے میں کیسا لگا۔۔۔اچھا نا۔۔۔۔؟
وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتی اسکے دماغ اور دل میں اسکا نام نقش کرنا چاہتی تھیں۔۔۔
نہیں۔۔۔ سحر کے نقوش بگڑے۔۔۔۔
ہاہا۔۔۔ ارے کیوں۔۔؟
مورے کو اسکے انداز پر ہنسی آئ۔۔۔
وہ بہت سخت ہے۔۔۔ ہر بات پر ڈانٹتا رہتا ہے۔۔۔ اور ہنستا تو بلکل نہیں ہے ۔۔۔ منہ کے زاویے بگاڑے وہ اسکی برائیاں مورے کے سامنے کرنے لگی۔۔۔۔
مورے ہنستی ہی چلی گئیں۔۔۔۔
اور دکھنے میں وہ کیسا ہے۔۔۔۔ وہ شرارت پر آمادہ ہوئیں۔۔۔۔
سحر چپ کر گئی۔۔ ۔ مگر دل و دماغ میں وہی شخص چل رہا تھا۔۔۔ اسکا سراپا تصور میں لہرایا۔۔۔اسکا دل عجیب طرف سے دھڑکنے لگا۔۔۔۔ بلاشبہ وہ بے انتہا وجیہ تھا۔۔۔۔۔
اسکو خاموش دیکھ کر مورے نے اسکا چہرہ تھاما۔۔۔
دیکھو سحر بیٹا۔۔۔۔ وہ تمہارا شوھر ہے. ۔۔۔ اور ایسا شوھر تو اکثر مانگنے سے بھی نہیں ملتا ۔۔۔
جو تمھیں بیٹھے بٹھاۓ مل گیا ۔۔۔۔
دیکھو بیٹی۔۔۔شوھر کی نافرمانی کرنے والی عورت سے اللّه پاک ناراض ہوتا ہے۔۔۔۔
شام اب تمہارا شوھر ہے۔۔۔۔ تمھیں اسی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔۔۔ نا کہ آہن کے بارے میں۔۔۔۔
انہوں نے تلقین کی ۔۔۔
مگر مورے میں نے تو ہمیشہ آہن کے بارے میں ہی سوچا۔۔۔
وہ بھرائ ہوئی آواز میں بولی۔۔۔
نہیں سحر۔۔۔ میں جیوں یا مر جاؤں۔۔۔۔ اب تم آہن کے بارے میں کبھی بات نہیں کرو گی۔۔۔ اور نا اسکو اپنے خیالوں میں لاؤ گی۔۔۔۔
اور ہاں تمھیں اور کیا چاہئے۔۔ تمھیں تمہارا ہم جنس مل گیا۔۔۔ ۔اتنا وجیہ لڑکا۔۔۔ جسکی خواہش ہر لڑکی کرے۔۔۔۔ اور تم اسی ہیرے کو ٹھکرا رہی ہو۔۔۔۔؟
مورے ناراض ہوئیں۔۔۔۔۔
پر مورے جسکا نام بچپن سے اپنے نام کے ساتھ سنا ہو ۔۔۔۔ اسکے کھونے کا غم تو ہوتا ہے نا۔۔۔۔
اسکی درد بھری آواز پر مورے دل تڑپ گیا۔۔۔۔۔