لوگ پیار سے مجھے عالم بلاتے ہیں۔۔۔
آئی مین ۔۔۔ مما اور ڈیڈ۔۔۔!!
باقی سب کے لئے میں شام ہوں۔۔۔
ابھی میری اسٹڈیز کمپلیٹ ہوئ ہیں۔۔۔
بابا چاہتے ہیں میں انکے ساتھ بزنس سنبھالوں۔۔۔ مگر میں ابھی ایسا بلکل نہیں چاہتا۔۔۔
اسنے گہرے گہرے سانس لیتی اس لڑکی کو دیکھا۔۔۔
تم ڈر کیوں رہی ہو۔۔۔؟؟
وہ حیرانی سے سحر کے فق چہرے کو دیکھتا ہوا بولا
۔۔
مگر وہ بلکل خاموش رہی۔۔۔ بس اس کی بے ترتیب سانسوں کی آواز واضح سنائی دے رہی تھی۔۔۔
اچھا تم بتاؤ نام کیا ہے۔۔ کیا کرتی ہو تم اور کیا کرنے آئی ہو یہاں پر۔۔۔۔؟
وہ اسے نارمل کرنے کے لئے دوستانہ لہجے میں بولا۔۔۔۔
مگر اسکی حالت میں کوئی فرق نہیں پڑا۔۔۔
یہ دیکھ کر شام کا پارہ ہائی ہوگیا۔۔۔۔
وہ ویسے بھی غصّے کا بہت تیز تھا۔۔۔
اور اس لڑکی کی وجہ سے اسے کتنی مصیبت اٹھانی پڑی تھی۔۔۔
اور وہ تھی کہ کوئی جواب نہیں دے رہی تھی۔۔۔
یہ تو بتاؤ گی نا۔۔۔ کہ مجھے دیکھ کر اس وقت کہاں غائب ہو گئی تھی۔۔۔۔
وہ اب قدم بڑھاتا ہوا بولا۔۔۔۔اسکی آواز سے سختی کا اندازہ اسے ہو چکا تھا۔۔۔
اور اسے اپنے قریب ہوتا دیکھ کر اسکے اوسان خطا ہوگئے تھے۔۔۔۔
شام نے اسے سر سے پکڑا۔۔۔ اور جھٹکا دے کر قریب کرتا اسکی آنکھوں میں جھانکتا ہوا ایک بار پھر سے پوچھنے لگا۔
سچ سچ بتاؤ کون ہو تم۔۔۔۔؟
“دد۔۔دور رہو ۔۔۔۔ !”
سحر کے منہ سے یہ الفاظ سن کر شام حیران رہ گیا۔۔۔۔
تو تم بولتی بھی ہو۔۔۔ اور۔۔۔!
اور تمہاری آواز کتنی پیاری ہے۔۔۔۔
جیسے پانی کی آبشار۔۔۔!!
جیسے کوئل کی آواز۔۔۔!!
وہ اسے خود سے دور کرتا خوشی سے بولا۔۔۔۔
سحر اسے حیرانی سے دیکھنے لگی۔۔۔۔
مگر اسکا دیہاں بٹا دیکھ کر تیزی سے وہاں سے بھاگنے لگی۔۔
مگر شام نے اسکی کلائ پکڑ کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔۔
دیکھو مس تم جو بھی ہو۔۔ اور یہاں کیوں ہو مجھے بتا دو۔۔۔ ورنہ بھول جاؤ کہ تم یہاں سے جا سکتی ہو۔۔۔
وہ سختی سے بولا۔۔۔ اسے غصّہ آ رہا تھا۔۔۔ کیا تھااگر وہ لڑکی اسکی بات کا جواب دے دیتی۔۔۔۔
اسکی بات سن کر سحر اچانک پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔۔۔۔اسکا دل چاہ رہا تھا کہ مورے کہیں سے آئیں اور اسے بچا کر لے جائیں۔۔۔۔
بے بسی کی انتہا تھی۔۔۔
کہ وہ وہاں سے ہل بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔
ارے ارے۔۔۔۔ رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔
وہ اس لڑکی کو روتا دیکھ کر بوکھلا گیا۔۔۔۔۔
میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔۔۔ اسنے آگے ہاتھ بڑھا کر اسکے آنسو صاف کرنا چاہے۔۔۔۔
مگر سحر نے وحشت زدہ ہو کر انھیں جھٹک دیا۔۔۔۔
اوہ سوری۔۔۔۔!!
مجھے تمہیں ٹچ نہیں کرنا چاہئے تھا۔۔۔
وہ نادم سا پیچھے ہٹ گیا۔۔۔۔
سحر سر جھکاۓ اپنے آنسو صاف کرنے لگی۔۔۔۔
مگر اس انسان کو اپنی جگہ پر جما دیکھ کر اسے رونے کے ساتھ ڈر بھی لگنے لگا۔۔۔ کہ اگر آہن نے اسے اس کے ساتھ دیکھ لیا۔۔۔ تو؟
تم مجھے بتا دو۔۔۔ میرے سوال کا جواب۔۔۔ اور چلی جاؤ۔۔
سحر نے چہرہ اٹھا کر اس ڈھیٹ کو دیکھا۔۔۔۔
مگر پیچھےسےکسی کو اتا دیکھ کر اسکے چہرے پر خوف آگیا۔۔۔
اسکے چہرے کے تاثرات اور نگاہوں کا ارتکاز دیکھ کر شام نے مڑنا چاہا۔۔۔ مگر اچانک پیچھے سے ہوتے حملے سے وہ خود کو سنبھال نہیں پایا تھا۔۔۔
شام جو اسکے لبوں پے تل کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
وہ تل کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا تھا۔۔۔
اچانک اس حملے سے منہ کے بل زمین پہ آ گرا تھا۔۔۔
اسکے ناک اور منہ سے خون چل پڑا۔۔۔
سحر چیخ مار کر پیچھے ہٹی۔۔۔ اسکا جسم بری طرف کانپ رہا تھا۔۔۔
ایک منٹ کی دیری کے بغیر وہ تیزی سے مورے کے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
مورے۔۔۔ مورے۔۔۔
اسنے زور زور سے چلّاتے ہوئے مورے کو جھنجھوڑ ڈالا تھا۔۔۔۔
اسے بھاگتا دیکھ کر آہن کی غضب ناک نگاہوں نے اسکا پیچھا کیا تھا
کون ہے تو۔۔۔۔؟؟؟
وہ اس پر جھکا غرایا۔۔۔
جوابا شام نے نہایت اطمینان سے اسے دیکھا۔۔۔۔
اسکے اطمینان پر وہ غضب ناک ہوگیا۔۔۔۔
بتاتا کیوں نہیں۔۔۔۔
اسنے غضب ناک ہو کر اپنا نوکیلے ناخنوں والا پنجہ اسکے کندھے پر مارا۔۔۔۔
اسکے ناخن شام کا کندھا ادھیڑتے ہوئے نیچے تک جا پہنچے۔۔۔
آآآآہ۔۔۔۔۔۔۔!!
شام کی درد ناک چیخ پورے جنگل میں گونجی تھی۔۔۔
اسکی پوری بازو خون سے لال پڑ گئی۔۔۔
وہ آنکھیں بند کۓ ہولے ہولے سسک رہا تھا۔۔۔
بتا مجھے کون ہے تو۔ ۔؟؟
جواب نہ ملنے اسنے شام کے دوسرے بازو پر پنجہ مارا ۔۔۔
خون بہتا ہوا ارد گرد کی زمین کو لال کر گیا۔۔۔۔
شام تڑپ کر رہ گیا۔۔۔
تیری ہمّت کیسے ہوئے اسے چھونے کی۔۔۔
نام بتا جلدی اپنا۔۔۔۔!!
کہیں تو میرا سچی والا دشمن تو نہیں۔۔۔
جو میری راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔۔۔۔
شام نے ادھ کھلی آنکھوں سے اس بھیڑیے کو دیکھا۔۔۔
وہ جو کچھ بول رہا تھا۔۔۔ اسے سب کچھ سمجھ آ رہا تھا۔۔۔۔ اب کی بار وہ حیران نہیں ہوا۔۔۔
چل پھر ایسے ہی مرنے کے لئے تیار ہو جا۔۔۔۔
اس بھیڑیے نے اپنا پنجہ اسکے سینے پر رکھا۔۔۔
اور منہ کھول کر اسکی گردن کی طرف بڑھا۔۔۔
شام نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے۔۔۔۔ اسکے ہاتھ کچھ لگا۔۔۔
اسنے آؤ دیکھا نا تاؤ۔۔۔
وہ اسکے کھلے منہ میں گھسا دیا۔۔۔
آہن ایک دم ہڑبڑا کر پیچھے ہٹا۔۔۔۔
وہ کسی جانور کی پڑی ہوئی ہڈی تھی جو شام نے اسکے منہ میں گھسا دی تھی۔۔۔
آہن نے منہ کو بار بار جھٹکا۔۔۔۔
مگر وہ اسکے اوپر اور نیچے والے دانتوں کے درمیان بری طرح سے پھنس گئی تھی۔۔۔
شام اپنی ساری ہمّت جمع کرتا اٹھا۔۔۔
اسکا حلیہ دیکھنے کے قابل تھا۔۔۔۔
دونوں بازؤں سے ٹپکتا خون۔۔۔
اور ان پر گہرےکٹ کے نشان۔۔۔۔
پورا لباس کیچڑ سے بھر چکا تھا۔۔۔
ایک گھٹنے پر ہاتھ رکھے اس نے اپنے چکراتے سر کو سنبھالا۔۔۔۔اور اپنی جراب سے بندھا ہوا چاقو نکالا۔۔۔۔
یہ چاقو وہ کسی مصیبت سے بچنے کے لئے لایا تھا۔۔۔۔۔
اور اب اسکی ضرورت اسے سچ میں محسوس ہوئی
لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ اٹھا۔۔۔
اور اس بھیڑیے کی طرف بڑھا۔۔۔
آہن زمین پے لیٹا لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔۔۔
اور اپنے منہ کو بار بار جھٹک رہا تھا۔۔
شام اسکے قریب آ کر گھٹنوں کے بل بیٹھا۔۔۔
تیری ہمت کیسے ہوئی شام کو تکلیف دینے کی۔۔۔؟؟
اسنے چاقو اسکی پیٹھ میں گھساتے ہوئے سرگوشی میں کہا۔۔ اطمینان بھری سرگوشی۔۔!!!
یہی وقت تھا جب آہن تکلیف سے بلبلایا۔۔۔ شام نے چاقو بے دردی سے کھینچ کر دوسری جگہ پر وار کیا۔۔۔
تب تک آہن ہڈی کو اپنے دانتوں سے توڑ توڑ چکا تھا۔۔۔
اسنے شام کو دھکّا دیا۔۔۔
وہ زمین پر گھسٹتا ہوا دور جا پڑا۔۔
جسم پر گہری خراشیں پڑ گئی تھیں۔۔۔
وہ زمین پر لیٹا گہرے گہرے سانس لینے لگا۔۔۔
آہن نے سر جھٹکا۔۔۔ اور لنگڑاتا ہوا شام کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
اچھا ہوا کہ تو نے اپنا نام خود ہی بتا دیا۔۔۔
اور تیری نشانی۔۔۔!!
ہاااں۔۔۔۔!!
تیری بھنوؤں پر کٹ کا نشان۔۔۔۔!!
وہ شام کے قریب آ کر اسکی نشانی پر ناخن پھیرتا ہوا بولا۔۔۔
آاااہ۔۔۔۔ اچانک وہ دانت پیستا کراہا۔۔۔۔
جہاں اس پر شام نے حملہ کیا تھا۔۔۔ اسکے زخم میں شدید ٹیس اٹھی تھی۔۔۔
تو وہی ہے۔۔۔۔!!!! میرے انتقام کے بیچ حائل۔۔۔۔
وہ غضب ناک ہوتا اب دوبارہ شام کی طرف بڑھا۔۔۔
شام اسکی باتوں پر غور کر رہا تھا۔۔۔۔
کہ وہ اسکا دشمن کیسے ہو سکتا تھا۔۔۔ اور کیسا انتقام ایک بھیڑیے کا۔۔۔۔؟؟
آہن نے اپنا پنجہ کھولا۔۔۔ تا کہ اسکا منہ نوچ سکے ۔۔۔ کہ
اچانک ایک زور دار قسم کی ہوا آئ۔۔۔
ارد گرد کی ساری مٹی دھول ہوا میں اٹھے تھے۔۔۔۔
شام نے بے اختیار کھانستے ہوئے چہرہ سائیڈ پر کیا۔۔۔
آہن جھٹکے سے دور جا پڑا۔۔۔
اسنے اپنے ناخن زمین میں گھسا کر خود کو روکا۔۔۔
شام جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔۔۔۔
وہ بھیڑیا کچھ بول رہا تھا۔۔۔ اور کس سے بول رہ تھا۔۔۔
اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔
اسکی نظر سامنے پڑی۔۔۔۔
وہ لڑکی درخت کے ساتھ کھڑی سہمی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔ شاید اسکے بچنے پر حیران تھی۔۔۔
شام اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
چکراتے سر اور لڑکھڑاتی چال کے ساتھ وہ اسکی طرف بڑھنے لگا۔۔۔
سحر مزید خود میں سمٹ گئی۔۔۔
اسنے ایک ترچھی نگاہ مورے پر ڈالی۔۔۔ وہ آہن کے ساتھ سختی سے بات کر رہی تھیں۔۔۔
وہ جانتی تھی کہ وہ اور آہن تو اسے دیکھ سکتے تھے۔۔۔ لیکن وہ انسان اسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔
اب شام کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر وہ خوف سے وہیں جم گئی۔۔۔ ہلنے کی ہمت اس میں بلکل نہیں تھی۔۔۔
تم ٹھیک ہو۔۔۔۔؟
شام نے آتے ہی اسے چہرے سے تھاما۔۔۔
سحر نے بے حد حیرت سے اسکی لہو رنگ ہوتی آنکھوں میں جھانکا تھا۔۔۔۔