مما اپ بھائی کو منا لیں گی نا”
تم فکر نہ کرو بیٹا میں اپنی پوری کوشش کروں گی انہوں نے مناہل کو تسلی دی
” پر بیٹا کیا یہ بہتر نہیں تھا کے زویا کی شادی اسکی خالہ کے یہاں ہی ہوتی انکا بہت دل تھا اور میں نے سوچا تھا کے ہم ردا کو اسفند کے لئے مانگ لیں گے پھر”
نہیں مما یہ افہام کی خواھش ہے کے زویا اور بھائی کی شادی ہو ” وہ افہام کی مرضی جان کر چپ ہو گیں
—————————————————-
اما اگر آپکی اجازت ہو تو ہم چاہتے ہیں کے زویا اور اسفند کا رشتہ تے کر دیا جائے ہال کمرے میں اس وقت سب بڑے جمع تھے اور کمرے کے باہر مناہل اور حمنہ کان لگاۓ کھڑی تھیں
” پر شکیل زویا کے لئے تو ارحم کا رشتہ بھی آیا تھا نہ اسکے بارے میں کیا فیصلہ کیا تم لوگوں نے ؟
اما اس رشتے پر افہام نہیں مان رہا یونہی بدمزگی پیدا کرنے سے بہتر ہے کے زویا اور اسفند کا رشتہ ہو جائے”
افہام کو کسی نے یہ حق نہیں دیا کے وہ فیصلے سناۓ ابھی ہم بڑے بیٹھے ہیں میرا اپنا دل زویا اور ارحم کے رشتے پر تھا تم دونوں بھائی ردا اور اسفند کی شادی کرا دیتے لیکن اگر تم لوگوں کی اس میں مرضی نہیں ہے تو ٹھیک ہے مجھے اس فیصلے پربھی اعترض نہیں لیکن اک دفع بچوں سے انکی مرضی جان لینا “
جی اما ہم نے بچوں سے پوچ لیا ہے انہیں کوئی اعترض نہیں ہمارے اس فیصلے پر اپ بس الله کا نام لے کر دونوں کی منگنی کی تاریخ رکھ دیں “عظیم صاحب نے کہا
کرنا ہی ہے تو سیدھا نکاح کروا دو منگنی کے چکروں میں نہ پڑو اب”
بات تو ٹھیک ہے اما تو کیوں نہ اسفند اور زویا کے نکاح کے ساتھ ساتھ مناہل اور افہام کا بھی نکاح پڑھوا دیں” زرنیہ بیگم کو بھی بہو لانے کی جلدی تھی
مناہل جو باہر کھڑی باتیں سن رہی تھی شرما کر وہاں سے ہٹ گئی
حمنہ البتہ وہیں جمی رہی اسے زویا کی فکر تھی یقیناً کچھ تو غلط ہو رہا تھا جسکی اسے خبر نہیں تھی
بات تو اچھی کی ہے چھوٹی بہو تم نے، تو پھر ٹھیک ہے آج اتوار ہے اگلے اتوار کو بچوں کا نکاح ہوگا چلو اٹھو شاباش تیاریوں میں لگ جاؤ”
سب لوح ہنستے مسکراتے وہاں سے چلے گئے
صرف دادی اور زرینہ بیگم کمرے میں رہ گئیں
” اما میرا بڑا دل تھا کے ارحم اور زویا کا رشتہ ہو جاتا میری بہن سے میرا تعلق مظبوط ہو جاتا پر افہام کوئی بات سننے کو تیار ہی نہی”
دل تو میرا بھی بہت تھا پر کیا کریں قسمت سے کون لڑ سکتا ہے زویا کی قسمت میں وہاں شادی ہے ہی نہیں تبھی تو دونوں بار بات اگے نہیں بڑھی”
جی اما ٹھیک کہ رہی ہیں اپ بات ساری نصیبوں کی ہوتی ہے بس الله میری بچی کے نصیب اچھے کرے”
آمین” دادی نے صدق دل سے کہا
” اچھا سنو چھوٹی بہو اپنی بہن کو تم خود بتاؤ گی یا میں فون کر دوں زرینہ بیگم
اٹھ کر جانے لگیں تو دادی کو یاد آیا اسی لئے روک کر پوچ لیا
اما اپ خود ہی بات کر لیں مجھ میں تو ہمت نہیں وہ تو یہی سمجیں گے کے ہم نے بدلہ لیا ہے انکے پہلے کیے گیۓ انکار کا
” تم فکر نہ کرو میں سلیقے سے سمجھا دوں گی اور نکاح میں انے کی دعوت بھی دے دوں گی”
جی ٹھیک ہے اما” وہ سر ہلا کر چلی گیں
مس زویا مجھے اپ سے بات کرنی ہے”
وہ لیکچر دے کر کلاس سے نکلی ہی تھی کے ارحم بھی ساتھ ہو لیا میرے پاس ٹائم نہیں ہے آپکی بات سنیں کیا میرے اگلے لیکچر کا وقت ہو گیا ہے”
وقت نہیں ہے تو وقت نکالنا پڑے گا لیونگ ٹائم پر میں اپکا پارکنگ میں انتظار کروں گا”
” میرے پاس فضول لوگوں کے لئے ہی وقت نہیں ہے اسی لئے انتظار کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا آپکو ” وہ که کر تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی
ارحم صبر کا گھونٹ پی کر رہ گیا
————————————–
اف یار میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا اتنا سب کچھ اتنی جلدی کیسے ہوگا پارلر جانا ہے جوتے کپڑے جیولری سب کچھ ابھی لینا ہے ویسے تم دونوں کس قسم کا ڈریس لو گی
مناہل نے باری باری ردا اور حمنہ دونوں کو دیکھا لیکن دونوں اپنی اپنی سوچوں میں الجھی نظر آئ
کہاں گم ہو تم دونوں میں یہاں اتنی ضروری بات کر رہی ہوں اور تم لوگ ہو کے سن ہی نہیں رہی”
سوری میں کچھ سوچ رہی تھی خیر تم بتاؤ کیا کہ رہی تھی”
اپنے ڈریس کے بارے میں سوچا کیسا لو گی”
کیا فرق پڑتا ہے میرا ڈریس جیسا بھی ہو فنکشن تو زویا اور تمہارا ہے”
ارے خیر تو ہے ردا یہ واقعی تم ہو نہ تم تو کپڑوں کے معاملے میں کوئی کومپرومائز نہیں کرتی تھی “
زندگی میں تو بڑی بڑی باتوں پر کومپرومائز کرنا پڑتا ہے مناہل پھر کپڑے کیا چیز ہیں”
اف اس قسم کی باتیں نہ کرو یار اچھی اچھی باتیں سوچو اور کرو سمجھی “مناہل اس کے سر پر اک چپت لگا کر شیشے کے سامنے جا کر دوبارہ اپنا جائزہ لینے لگ گئی اور حمنہ ردا کا جو پھر سے کسی سوچ میں گم ہو گئی تھی
————————————-
زویا فون اٹھا لو یار ابھی سے دلہن بن کر بیٹھ گئی ہو تم تو” حمنہ کو فون کی گھنٹی ناول پڑھتے ہووے زہر لگ رہی تھی
ردا اور مناہل کچن میں تھیں اور زویا اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں گم پتا نہیں کیا سوچے جا رہی تھی حمنہ کے کہنے پر اٹھ کر فون کان سے لگا لیا
ہیلو !
موبائل کیوں نہیں اٹھا رہی تھی کب سے کال کر رہا ہوں ” ارحم کی آواز سنتے ہی رانگ نمبر که کر اس نے فون رکھ دیا اور اپنے کمرے میں چلی ای
فون اٹھا کر دیکھا تو اس پر ارحم کی بہت سی مسڈ کال آیی ہوئی تھیں ابھی وہ فون رکھنے ہی والی تھی کے اک دفع پھر ارحم کی کال انے لگ گئی اس نے بیزاری سے کال کاٹ دی کچھ ہی دیر میں اسکا میسج آ گیا
بدلہ لینے کا نہ یہ وقت سہی سے اور نہ ہی طریقہ تمھیں میرے رشتے کے لئے انکار نہیں کرنا چاہیے تھا زویا حسن !
تم مجھے حیران کر رہے ہو ارحم تمھیں تو مجھ میں کوئی انٹرسٹ ہی نہیں تھا تو پھر رشتہ بھجنے کا کیا جواز تھا ؟
اس نے بھی جلدی سے رپلائی کیا
لیکن تمھیں تو مجھ میں انٹرسٹ تھا نہ تو پھر انکار کا کیا جواز تھا زویا حسن ؟
کاش ارحم میں نے تم سے اپنی محبت کا اظہار نہ کیا ہوتا کاش میں نے اپنی کمزوری تمہارے ہاتھ نہ دے ہوتی تو اب میں یوں لاجواب نہ ہوتی وہ دکھ سے سوچتی ہوئی موبائل بیڈ پر پٹخ کر واشروم میں گھس گئی
——————————–
دادی دیکھیں نہ کچھ ہی دن رہ گئے ہیں نکاح میں پر گھر میں تو کوئی رونق ہی نہیں ہے ووہی معمول کے کام ہوتے ہیں روز کوئی ڈھولق شولق رکھوایں نہ دادی !
حمنہ دادی کے گھٹنے سے لگی انکو مشورے دینے میں مصروف تھی
باقی سب انکی باتوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے سواۓ ردا ، زویا اور اسفند کے جو اپنے اپنے کمروں میں سونے چلے گئے تھے
بات تو ٹھیک کی ہے گھر کی پہلی شادی ہے کچھ ہلے گلے کا سامان تو تم لوگوں کے لئے بھی ہونا چاہیے”
ارے شادی کہاں دادی ابھی تو صرف نکاح ہو رہا ہے اور نکاح پے اتنا ہلا گلا کون کرتا ہے بھلا “
افہام بھائی اپ تو سدا کے بور انسان ہیں پر اس موقے پر آپکی اک نہیں چلے گی جیسا میں کہوں گی ویسا ہی ہوگا ہنا دادی”
ہان میری بچی ایسا ہی ہوگا خوشیوں کے ان لمحوں کو ہم انشاللہ یادگار بنا دیں گے”
ہراہ دادی زندہ باد حمنہ اور سعد دونوں نے خوشی سے دادی کے گال چوم لیے باقی سب اس منظر کو دیکھ کر مسکرا دیے
————————————–
زویا بیٹا تم یونیورسٹی سے چھٹیاں لے لو اب بس تین چار دن ہی تو رہ گئے ہیں نکاح میں” ناشتے کے لئے میز پر زرینہ بیگم افہام اور زویا بیٹھے تھے شکیل صاحب پہلے ہی ناشتہ کر کے جا چکے تھے
ردا ابھی تک سو رہی تھی
جی امی میں بھی یہی سوچ رہی تھی بس آج اک ہی کلاس ہے اسکے بعد اپلیکشن دے کر آ جاؤں گی “
ہان یہ ٹھیک رہے گا اسکے بعد شام میں جا کر تم سب اپنی شوپنگ کر آنا افہام بیٹا تم بھی چلے جانا انکے ساتھ اور میں اسفند کو بھی بول دوں گی “
انکو جانا ہے تو جایئں مجھے تو کوئی ضرورت نہیں شوپنگ کی اتنے سارے کپڑے پڑے ہیں میرے ،کوئی سا بھی پہن لوں گا “
افہام بیٹا بری بات جب میں نے کہ دیا ہے کے جانا ہے تو جانا ہے ہر بات میں ضد کرنا اچھی بات نہیں ہوتی “
اچھا ٹھیک ہے امی چلا جاؤں گا ڈانٹیں تو مت افہام نے معصوم سے شکل بنا کر کہا زویا اور زرینہ بیگم دونوں مسکرا دیں
اچھا امی میں چلتی ہوں اب یونیورسٹی کے لئے دیر ہو رہی ہے”
رکو زویا آج میں چھوڑ دیتا ہوں واپسی پے بھی میں ہی لینے آ جاؤں گا”
کیوں بھائی جی آج اتنی نوازش کیوں ؟
ارے میری گڑیا کچھ ہی دنوں میں پرائی ہو جانے والی ہے تو جب تک یہاں ہے تب تک اسے اسپیشل ٹریٹمنٹ ملنا چاہیے نا ؟ ب
ھائی اپ مجھے پرایا کر دیں گے ؟ کیا شادی کے بعد میں آپکی گڑیا نہیں رہوں گی ؟
اہ میری گڑیا تو جذباتی ہو گئی میں تو مذاق کر رہا تھا یار! افہام نے اسے گلے لگا لیا زرینہ بیگم کی آنکھیں بھر ائی
چلو بچو جاؤ اب ورنہ دیر ہو جائے گی زویا کو”
جی امی زویا نے افہام سے الگ ہو کر جلدی سے آنسو صاف کیے چلیں بھائی ہان چلو اچھا امی میں زویا کو چھوڑ کر سیدھا افس چلا جاؤں گا
ٹھیک ہے بیٹا الله حافظ ”
————————————
مس زویا اپ نے میرے رشتے سے انکار کیوں کیا ؟ وہ کلاس لے کر سٹاف روم سے اپنا پرس لینے آی تھی کے طلال وہیں بیٹھا مل گیا
وہ خاموشی سے نکل جانا چاہتی تھی کے اس نے راستہ روک لیا
طلال صاحب میں نے اپ سے کہا تھا نہ جو میرے گھر والوں کا فیصلہ ہوگا ووہی میرا فیصلہ ہوگا میرے گھر والوں نے آپکے لئے انکار کیا کیوں کے ہم خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرتے اسی لئے بہتر یہی ہوگا کے اپ اس بات کو بھول جایئں اب ! ویسے بھی دو تین دن میں میرا نکاح ہے بہتر ہے یہی ہے کے اس بات کو اب ینہی ختم کر دیا جائے امید ہے اپ میری بات سمجھ گیے ہونگے الله حافظ”
اس نے اتنی سختی سے اپنی بات کہی کے طلال کی مزید ہمت نہ ہوسکی اسے کچھ بھی کہنے کی وہ خاموشی سے اک طرف ہوگیا
مجھے بات کرنی ہے تم سے وہ پارکنگ کی طرف جا رہی تھی کے ارحم نے اچانک سے سامنے آ کر اسکا راستہ روک لیا
پر مجھے کوئی بات نہیں کرنی اس نے پاس سے گزرنا چاہا مگر ارحم پھر سامنے تن کر کھڑا ہوگیا
یہ کیا بتمیزی ہے ارحم”
بتمیزی یہ نہیں وہ ہے جو تم کر رہی ہو کتنے دنوں سے تم سے بات کرنا چاہتا ہوں پر تم ہو کے سننے کے لئے تیار ہی نہیں ہو آج تمھیں میری بات کا جواب دینا ہوگا تم نے میرے رشتے سے انکار کیوں کیا آخر ؟
میرا ہونے والا شوہر اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرے گا کے میں ہر ارے غیرے کے سوالوں کا سڑکوں پر جواب دیتی پھروں” زویا نے اسے جلا کے رخ دیا
زویا اپنی فضول بکواس بند رکھو تم !مجھے صرف وجہ جاننی ہے وہ چلایا
لیکن مجھے نہیں بتانی اس نے اتنی ہی ہڈ دھرمی دکھائی
زویا حسن بہتر تھا کے تم سیدھے طریقے سے بتا دیتی لیکن .. ارحم غصے سے کچھ کہ رہا تھا کے پیچھے سے افہام آ گیا
کیا ہو رہا ہے یہاں ؟ اور تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟ زویا یوں اچانک افہام کو دیکھ کر گھبرا گئی
کچھ نہیں بھائی یہ تو بس مجھے نکاح کی مبارک دے رہے تھے اس نے بات سنبھالنی چاہی
ہنہ ! مبارک مائی فوٹ مجھے پتا ہے تم نے شادی کے لئے ہاں اسی کے کہنے پر کی ہوگی ہیں نہ ؟ اس نے غصے سے زویا کی طرف دیکھا مگر زویا کی آنکھوں میں التجا پڑھ کر وہ بےبس سا ہو خاموشی سے وہاں سے چلا گیا
دماغ تو ٹھیک ہے اسکا ؟ کیا بکواس کر رہا تھا ؟ کچھ نہیں بھائی اپ چلیں نہ ہمیں دیر ہو رہی ہے شوپنگ کے لئے بھی تو جانا ہے نا “
ہان چلو ! افہام سمجھ گیا کے زویا اسے کچھ نہیں بتانا چاہتی مگر ارحم کی بات اسکے دماغ کے کسی کونے میں اٹک سی گئی
مناہل اب جلدی سے کوئی ڈریس لے لو میں مزید انتظار نہیں کرنے والا”
افہام اسے چھٹا ڈریس بھی ریجیکٹ کرتے دیکھ کر جھنجلا گیا
مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی کے کیا لوں میں بہت کنفویزہوں مناہل چاہتی تھی کے اسکا ڈریس افہام سلیکٹ کرے مگر خود سے کہنا کچھ عجیب سا لگ رہا تھا اسی لئے اسے تنگ کر رہی تھی تاکہ وہ خود ہی کوئی ڈریس سلیکٹ کر دے اور ایسا ہی ہوا
” اب تم چپ کر کے کھڑی رہو گی جو میں سلیکٹ کروں گا وہی لینا پڑے گا سمجھی! مناہل نے بڑی فرمابرداری سے سر ہلایا
وہ سب دو دو کے گروپ میں شوپنگ کر رہے تھے افہام اور مناہل زویا اور اسفند جبکہ ردا اور حمنہ ساتھ ساتھ تھی
زویا مجھے اس قسم کی شوپنگ کا کوئی اندازہ نہیں ہے جو لینا ہے خود لے لو میں باہر گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں”
وہ کون سا اسکے ساتھ شوپنگ کے لئے مری جا رہی تھی اس نے بھی لاپرواہی سے کہندے اچکا دیے اور ردا اور حمنہ کی طرف آ گئی
کیا ہوا بھائی کہاں گیۓ ؟
وہ تھک گیا تھا اسی لئے گاڑی میں جا کر بیٹھا ہے”
اچھا چلو کوئی بات نہیں یہ بتاؤ کچھ پسند بھی آیا ہے کے نہیں ؟
زویا نے نفی میں سر ہلایا چلو پھر اس شاپ میں چلتے ہیں شائد کچھ اچھا مل جائے حمنہ زویا کو لے کر اک شاپ میں چلی گئی جبکہ ردا وہیں کھڑی سوچتی رہی کے اسے اسفند کو زویا سے رویہ ٹھیک کرنے کا کہنا چاہیے کے نہیں
کیا ہوا ردا اندر آؤ نہ حمنہ نے اسے باہر ہی کھڑے دیکھ کر ہاتھ سے اندر انے کا اشارہ کیا وہ خاموشی سے چلتی ہوئی انکے ساتھ آ کھڑی ہوئی
شوپنگ میں دلچسپی نہ تو ردا لے رہی تھی اور نہ ہی زویا حمنہ کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا اسی لئے ٹوک بھی دیا
” یار تم لوگ اتنی ڈل کیوں ہو گئی ہو زویا تمہاری تو شادی ہے تم تو تھوڑا انٹرسٹ شو کرو یار”
مجھے پتا ہے شادی ہے بار بار یاد کرانے کی ضرورت نہیں ہے وہ غصے سے بولی مگر جلد ہی اپنے رویے کی تلخی کا احساس بھی ہوگیا اسی لئے بات بدل دی اچھا یہ پیچ کلر کا لہنگا کیسا ہے ؟ مجھے تو بڑا پسند آیا ہے”
ہان بہت پیارا ہے یہی لے لو تم پر بہت اچھا بھی لگے گا حمنہ نے کھلے دل سے تعریف کی
چلو جی دلہن صاحبہ نے تو لے لیا اپنا ڈریس اب ہم بھی کچھ پسند کر لیتے ہیں
” حمنہ تم ہی میرے لئے بھی پسند کر دو نہ ہم دونوں اک سا ڈریس پہنیں گے اس نے اپنے سر سے بوجھ ااتارا
اف سارا کام میں ہی کروں یہ دلہن صاحبہ کم تھی نخرے دکھانے کے لئے جو تم بھی شروع ہوگئی “
اچھا نا غصہ تو نہ کرو میں نے تو بس یونہی که دیا تھا “
اچھا ٹھیک ہے ڈریس میں سلیکٹ کر دیتی ہوں پر جیولری اور جوتے تم لوگ خود لو گی”
اچھا بابا ٹھیک ہے لے لیں گے ہینا زویا! زویا نے بھی سر ہلا دیا پھر حمنہ نے کچھ ہی دیر میں اپنے لئے لائم اور ردا کے لئے گولڈن کلر کا شرارہ لیا دونوں پر نفیس سا کام تھا شوپنگ پر اچھی خاصی دیر لگا کر وہ لوگ رات کو گھر پہنچے
—————————————————-
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...