جب بھی وہ بہت اداس ہوتی سیدھا دادی کے پاس چلی اتی تھی اب بھی وہ افہام کے کمرے سے نکل کے دادی کے پاس آ گئی
دادی بیڈ پر لیٹی تسبیح پڑھ رہی تھیں وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی
وہ اس کی شکل دیکھ کر ہی جان گیں کے افہام نے ہی کچھ کہا ہوگا
اب کیا کیا اس نے” انہوں نے مسکراتے ہووے پوچھا ”
دادی انہوں نے مجھے ڈانٹ کر اپنے کمرے سے نکال دیا جیسے میری تو کوئی عزت ہے ہی نہیں”
” تو بیٹا تم نے ہی کوئی الٹی سیدھی بات که دی ہوگی””
دااادی!!!! اس نے احتجاج کیا
” اچھا تو پھر کیوں ڈانٹا اس نے میری گڑیا کو”
دادی میں نے صرف انہیں خالہ لوگوں کو معاف کرنے کے لئے کہا مگر انہوں نے اس بات کو نہ بھولنے کی قسم کھا لی ہے اسی لئے مجھے بھی ڈانٹ کر نکال دیا”
اب کی بار دادی بھی گہری سوچ میں پڑ گیں
وہ خاموشی سے انکے پاس سے اٹھ ای
—————————————————————
مناہل نے اپنے کمرے میں جانے کے لئے ابھی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا ہی تھا کے حمنہ نے زویا کے کمرے کے دروازے سے گردن نکال کر اسے اندر انے کا اشارہ کیا اور جھٹ سے اندر غائب ہو گئی
مناہل بھی اندر کی طرف لپکی کیوں کے جانتی تھی کے زویا کا کمرہ انکا میٹنگ روم تھا اور اب بھی یقیناً کوئی اہم میٹنگ چل رہی ہوگی
مناہل اندر آئ تو ان تینوں کو پہلے سے ہی بیڈ پر آلتی پالتی مار کر سر جوڑے بیٹھ کر چلائی
” خبردار جو میرے بغیر میٹنگ شروع کی رکو مجھے بھی انے دو”
اس نے جھٹ سے اپنے پیروں کو جوتوں سے آزاد کیا اور بیڈ پر انکے ساتھ آ کر بیٹھ گئی
ہان اب بتاؤ”
زویا نے ان سب کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر بولنا شروع کیا
” اچھا تو سنو میری یونیورسٹی میں اک پروفیسر ہے… باقی کی بات اس کے مونھ میں رہ گئی
کیوں کے انکے سوالات کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا
“نام کیا ہے اسکا” مناہل نے جھٹ پوچھا
نام کا اچار ڈالنا ہے کیا یہ بتاؤ ہینڈسم ہے کے نہیں” حمنہ کو اپنا سوال زیادہ اہم لگا ”
اور ردا کو یہ دونوں سوال فضول.” زویا تم ارحم کو بھول گئی کیا”
اف اتنے سوال تو میری کلاس میں بیٹھے سٹوڈنٹ نہیں کرتے جتنے تم لوگ کر رہی ہو”
اچھا اچھا اب زیادہ استانی نہ بنو سیدھی طرح بتاؤ” ردا نے جھاڑا
“زویا بھی سنجیدہ ہو گئی” نہیں یار ارحم کو میں کبھی نہیں بھول سکتی
” ارحم سے پہلے تمھیں کرس پائن پسند تھا مگر تم اسے تو بھول گئی تھی ارحم کو بھی بھول ہی جاؤ گی حمنہ نے مونھ بنا کر کہا
ردا اور مناہل ہنس دی زویا نے البتہ اسے اک دھپ لگائی
اصل بات کی طرف آؤ نا مناہل نے انہیں موضوع سے ہٹتے دیکھ کر کہا
اچھا تو سنو زویا اک دفع پھر گویا ہوئی” پروفیسر طلال جو کے ہماری ہی یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے خوامخواہ مجھ سے فری ہونے کی کوشش کرتا ہے خیر آج میری گاڑی یونیورسٹی میں ہی پنکچر کھڑی تھی کے وہ میری مدد کرنے کے بہانے مجھ سے فری ہو رہا تھا پر تبھی ارحم پیچھے سے آیا اور مجھے گھر چھوڑنے کی آفر کی
” پھر”
تینوں متجسس تھیں
“پھر کیا طلال کے ساتھ تو میں کبھی بھی نہ جاتی اسی لئے ارحم کی آفر قبول کر کے اس کے ساتھ آ گئی”
اچھا پھر اس نے کچھ کہا ردا نے پوچھا
مگر زویا کوئی جواب نہ دے سکی کیوں کے زرینہ بیگم نے خالہ لوگوں کے انے کی خبر دے کر ان سب کو جلدی سے باہر انے کا حکم دے دیا
————————————————————–
لو آ گیا تمہارا ہینڈسم کزن مناہل نے اندر اتے ارحم کو دیکھ کر زویا کو چھیڑا لیکن زویا کوئی بھی توجہ دیے بغیر نانی اور خالہ سے ملنے کے لئے اگے بڑھی جو بھی تھا اسے اپنی پیاری سے نانی اور اکلوتی خالہ بہت عزیز تھیں
ارحم کو زویا کا اگنور کرنا خاصا محسوس ہوا اسے پچھلے سال کی بات یاد آ گئی جب وہ سات سال بعد ابو کی وفات کے بعد کراچی سے اسلام آباد آے تھے اور امی اسے خالہ اور ان کے گھر والوں سے ملوانے یہاں لے کر آی تھیں تب یہی زویا حسن اسے دیکھ کر کیسے مبہوت سی ہو گئی تھی اور پھر بعد میں بھی اسے متاثر کرنے کے لئے کیا کیا نہ کرتی تھی
” کہاں گم ہو بیٹا آؤ بیٹھو نہ زرینہ بیگم نے اسے دروازے پر ہی جمے پا کر کہا
وہ کچھ شرمندہ سا ہو کر اک نظر نانی سے باتوں میں مصروف زویا پر ڈال کے سنگل صوفے پر بیٹھ گیا
میری بیٹی نانی کو تو بھول ہی گئی ہے اب اتی ہی نہیں ہے گھر یا کہیں یہ تیری کھوسٹ دادی تو نہیں منع کرتی تجھے” نرگس بیگم نے صوفے پر نگہت بیگم کے ساتھ بیٹھتے ہووے کہا
نگہت بیگم مسکرا دیں
زویا بھی نانی کے پاس صوفے پر آ کر ٹک گئی اور ان کے گلے میں باہیں ڈال دی “میری پیاری نانی اپ کو کیسے بھول سکتی ہوں بس آج کل نوکری شروع کر دی ہے تو اسی لئے مصروف رہتی ہوں”
ارے کہاں شروع کر دی نوکری ہماری بیٹی نے “تابندہ بیگم نے حیرت سے پوچھا ”
خالہ ارحم بھائی ہی کی یونیورسٹی میں تو پڑھاتی ہے زویا بلکہ ارحم کو بھی یہی پڑھاتی ہے” ردا نے مزے سے بتایا ”
ارحم اپنی جگہ پہلو بدل کر رہ گیا
سب کے چہروں پر حیرت تھی سواۓ ان چاروں کے
تم نے بتایا نہیں کبھی ارحم” تابندہ بیگم نے بیٹے کو حیرت سے دیکھا”
ارحم شرمندہ سا مسکرا دیا اک پل کے لئے تو زویا اس کی ترچھی مسکراہٹ میں گُم ہو گئی لیکن پھر جلدی سے خود کو سنبھالا
یہ کیا بتایں گے خالہ میں بتاتی ہوں نا “زویا نے تابندہ بیگم کو اپنی طرف متوجہ کیا” جی تو سنیں نانی. خالہ اس نے باری باری ان دونوں کی طرف دیکھا
اپکا لاڈلے ارحم روز مجھ سے ڈانٹ سنتا ہے پڑھائی کی طرف تو توجہ ہی نہیں نہ دیتے اکثر تو کلاس میں ہی نہیں اتے اور اگر اتے ہیں تو لائٹ تشریف لاتے ہیں اس نے خالص ٹیچر والا لہجہ اپنا کر کہا
ارحم کو لگا جیسے وہ میٹرک کا سٹوڈنٹ ہے اور گندے نمبر انے پر اسکی ٹیچر امی سے شکایت لگا رہی ہیں
اسفند اور سعد جو ابھی اندر آے تھے زویا کی بات سن کر ہنس دیے
ارحم کو نہایت خفت محسوس ہوئی
تابندہ بیگم نے بیٹے کی ناگواری کو محسوس کر لیا اسی لئے اس کی حمایت میں بولیں” اصل میں ارحم نے اپنے اک دوست کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کیا تھا اب جب کے الله کے فضل سے کاروبار چل پڑا ہے تو ارحم نے سوچا پہلے تعلیم مکمل کر لے دونوں کام ساتھ ساتھ ہی کر رہا ہے اسی لئے کسی اک کام میں ناچاہتے ہووے بھی دیر سویر ہو ہی جاتی ہے ان کے لہجے میں بیٹے کے لئے مان تھا
وہ چاروں کچھ شرمندہ سی ہو گیں
” آپا افہام نظر نہیں آ رہا کہاں ہے وہ”
اسے ذرا سا بخار ہے اپنے کمرے میں دوائی کھا کے سویا ہے” زرینہ بیگم کو ناچاہتے ہووے بھی جھوٹ بولنا پڑا ”
الله اسے صحت دے سو نہ گیا ہوتا تو میں مل اتی چلو خیر میری طرف سے اسے پوچھ لینا”
زرینہ بیگم نے سر ہلا دیا
لڑکیو جا کر کھانا لگاؤ بعد میں باتیں کر لینا نانی سے ان چاروں کو نانی کے گرد جمع دیکھ کر زرینہ بیگم نے ٹوکا وہ چاروں جلدی سے اٹھ کر کچن میں آ گیں
ویسے زویا تم نے بتایا ہی نہیں کے ارحم پہلے سے زیادہ ہینڈسم ہوگیا ہے” ردا نے کچن میں اتے ہی اسے چھیڑا ”
ماشاللہ کہو لڑکی زویا نے بزرگانہ لہجہ اپنایا تو وہ تینوں ہنس دی
ویسے کم تو ہماری زویا بھی کسی سے نہیں ہے” مناہل نے پیاری سی زویا کو دیکھ کر کہا”
زویا شرما گئی
” اچھا اب جلدی کھانا لگائیں نا سب انتظار کر رہے ہیں”
حمنہ نے اصل کام کی طرف انکی توجہ دلوائی وہ سب بھی جلدی جلدی ٹیبل پر کھانا لگانے میں مصروف ہو گیں
لگ گیا کھانا ؟ تائی امی نے ڈائننگ روم میں آ کر پوچھا
جی امی لگ گیا ہے میں ابھی بولانے آ ہی رہی تھی مناہل نے کہا
اچھا کوئی بات نہیں ردا بیٹا افہام کو بھی کھانا دے کر آؤ اب بیچارہ بچہ بھوکا تو نہیں بیٹھا رہے گا نہ
ردا نے سر ہلا دیا مقدس بیگم سب کو کھانے کے لئے بولانے چلی گئیں
ردا نے جلدی سے افہام کا کھانا ٹرے میں سجا کر مناہل کے ہاتھ میں پکڑا دیا
“جاؤ تم دے آؤ بھائی کو کھانا ”
ارے میں کیوں مناہل نے ٹرے دوبارہ اسکے ہاتھ میں تھما دیا
” پیاری بھابی میرے بھائی کو یقیناً آپکے ہاتھوں سے کھانا زیادہ لذیذ لگے گا ”
ردا نے شرارت سے که کر ٹرے دوبارہ اسکے ہاتھ میں پکڑا دیا
مجبوراً اسے کھانا لے کر افہام کے کمرے میں جانا پڑا لیکن ابھی وہ پچھلی عزت افزائی بھولی نہیں تھی
————————————————
سب کے ڈائننگ روم میں انے کے بعد زویا حمنہ کو لے کر اک دفع پھر کچن میں آ گئی
” کیا ہے یار مجھے بھوک لگی ہے اس سے پہلے کہ سب کھانا ختم ہو جائے مجھے جانے دو”
حمنہ نے کچھ اس طرح التجا کی کے زویا کو ہنستے ہووے اسے جانے کی اجازت دینا پڑی
اچھا سنو ردا که رہی تھی کے وہ کسٹرڈ ٹیبل پر رکھنا بھول گئی ہے وہ باہر لیتی آنا “وہ مزے سے کہتی باہر چلی گئی”
اف کیا مصیبت ہے زویا جھنجلا گئی
اب مجبوراً اسے باہر جا کر دوبارہ ارحم کا سامنا کرنا تھا کتنا مشکل تھا ایسے شخص کو سامنے ہوتے ہووے بھی اگنور کرنا جس کے خیال ہر پل آپکے ساتھ رہتے ہوں مگر اسے اپنی انا بھی تو بہت عزیز تھی
———————————————————
افہام کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور وہ بیڈ پر آنکھوں پر ہاتھ دیے لیٹا ہوا تھا
مناہل نے کچھ گھبرا کر اسکے کمرے کے دروازے پر دستک دی اس نے آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹا کر دیکھا اور مناہل کو سامنے پا کر اٹھ کر بیٹھ گیا
وہ مجھے امی نے آپکو کھانا دینے بھیجا تھا آ کر کھا لیں” اس نے ٹرے صوفے کے سامنے پڑی میز پر رکھ کر کہا اور جانے کے لئے مڑی
“سنو”
” جی وہ فوراً اس امید پے مڑی کے شائد افہام اس سے اپنے سخت لہجے پر معافی مانگے گا
خالہ لوگ آ گئے؟”
جی آ گئے ہیں” اس کے دل کی کلی اسکے چہرے کی طرح مرجھا گئی
” اور وہ ارحم بھی آیا ہی ہوگا ”
جی وہ بھی آے ہیں”
کسی نے میرا پوچھا ؟ ”
جی خالہ اور نانی دونوں بار بار اپکا پوچھ رہی تھیں پر چچی نے که دیا ہے کے آپکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اور اپ سو رہے ہیں اب اپ سکوں سے کھانا کھا لیں وہ ذرا تیز لہجے میں کہتی واپس جانے لگی پر افہام نے اک دفع پھر اسے پکار لیا
” جی! اسکے چہرے پر ہلکی ہلکی غصے کی لالی تھی
افہام کو اس پل اسکا چہرہ اور بھی دلکش لگا
ناراض ہو؟”
نہیں اپ تو اتنی میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں اپ سے بھلا کوئی کیسے ناراض ہو سکتا ہے”
افہام مسکرا دیا
اف اسکے ہونٹوں پر انے والی اسکی وہ کبھی کبھی کی مسکراہٹ مناہل کے دل کی دنیا روشن کر دیتی تھی اب بھی وہ اک پل میں ہی ساری ناراضگی مٹا بیٹھی تھی
” اب کیا معافی بھی مانگوں” افہام نے اسکے چہرے پر بکھرتے رنگ دیکھ کر پیار سے پوچھا
مناہل شرما کر نفی میں سر ہلاتی وہاں سے نکل آی
——————————————————–
“ارے نہیں اب تو زویا بڑی سمجھدار ہو گئی ہے بلکہ گھر کے سارے کام بھی سیکھ لئے ہیں”
وہ ہاتھ میں کسٹرڈ کا باؤل لئے ڈائننگ روم میں داخل ہوئی تو دادی کو نانی اور خالہ اور خاص طور پر ارحم کے سامنے اپنی تعریف کرتا سن کر اسکی گردن اپ ہی اپ غرور سے ذرا تن گئی مگر وہ کہتے ہیں نہ کے غرور کا سر نیچا ابھی اس نے دوسرا قدم اٹھایا ہی تھا کے اسکا بڑا سا شیفون کا دوپٹہ اسکے پاؤں میں ایسا الجھا کے پروفیسر زویا حسن کو سامنے بیٹھے ارحم کی کرسی کا سہارا لینا پڑا جب کہ بیچارہ کسٹرڈ کا باؤل فرش پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا
سب نے حیرت سے پہلے فرش پر بکھرے کسٹرڈ کو اور پھر زویا کو دیکھا جو شرمندگی سے سر جھکاۓ کھڑی تھی
اس کے بعد کئی قہقہے ڈائننگ روم میں گونجے اسفند سعد اور ارحم تک تو ٹھیک تھا مگر اسکی اپنی ٹیم اس پر ہنس رہی تھی زویا کا دل چاہا کے ان سب کو غدار قرار دے کر پھانسی کے تخت پر چڑھا دے
اسے بیچاری دادی کے لئے بھی دکھ محسوس ہوا جو اسکی وجہ سے شرمندہ سی بیٹھی تھیں
” دادی میں نے جان کے نہیں گرایا پتا نہیں کیسے غلطی سے ہو گیا اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے دادی کو دیکھ کر کہا
“اور نانی دادی سہی که رہی تھیں میں اب سمجھدار ہو گئی ہوں میں نے گھر کے سارے کام بھی سیکھ لئے ہیں” اب کی بار اس نے نانی کو دیکھ کر کہا
نانی نے اٹھ کر پیار سے اسے اپنی باہوں میں لے لیا مجھے پتا ہے میری بیٹی بڑی سمجھدار ہے غلطی کا کیا ہے وہ تو سب سے ہو جاتی ہے تم فکر نہ کرو آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاؤ” انہوں نے اسے اپنی جگہ پر ارحم کے ساتھ بیٹھا دیا اور خود دوسری کرسی پر جا کر بیٹھ گیں
کھانا اک دفع پھر شروع ہو گیا سب اپنی باتوں میں مصروف ہوگئے
” ویسے کمال کی بات ہے نہ کہ پروفیسر زویا حسن سے اک باؤل نہیں سمبھلتا پتا نہیں پوری کلاس کیسے سنبھالتی ہیں ارحم نے آہستہ سے کہا زویا نے غصے سے اسے گھور کر دیکھا
اس کے چہرے پر صاف لکھا تھا کے ارحم صاحب آپ کو تو میں کل کلاس میں بتاؤں گی
اسی لئے ارحم خاموشی سے کھانے کی طرف متوجہ ہو گیا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...