’’آج مسز نثار آئی تھی ملنے۔۔۔۔۔‘‘ کھانے کی ٹیبل پر ہمدہ نے نوید شیخ کو بتایا جس پر وہ چونک اٹھے
’’کیوں؟ خیریت؟‘‘ وہ اپنی ہڑبڑاہٹ پر قابو پاتے بولے
’’ہاں۔۔۔۔۔ وہ دراصل وہ آئی تو مجھ سے ملنے تھی مگر مجھے انکے ارادے کچھ اور ہی لگتے ہیں‘‘ ہمدہ بیگم ہلکا سا مسکرائی
’’کیسے ارادے؟‘‘ پانی کا گھونٹ بھرتے نوید شیخ نے پوچھا
’’وہ زرقہ کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔۔۔۔۔ کافی انٹرسٹ بھی شو کررہی تھی۔۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے وہ غازان کے لیے زرقہ کا رشتہ مانگنا چاہتی ہے‘‘ ہمدہ بیگم کی مسکراہٹ قائم تھی۔۔۔
انہیں غازان زرقہ کے لیے برا نہیں لگا تھا۔۔۔۔۔ آخر کو وہ رستم کا بہترین دوست تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
’’آپ کا خیال ہے؟‘‘ انہوں نے نوید شیخ سے پوچھا جو کسی اور ہی دنیا میں پہنچے ہوئے تھے
اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتے انکے موبائل پر ایک تصویر آئی اور ساتھ ہی ویڈیو بھی۔۔۔۔۔ انہوں نے تصویر دیکھی تو زمین و آسمان گھومتے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔۔ وہ انکی تصویر تھی ایک رقاصہ کے ساتھ۔۔۔۔ بغیر دیکھے ہی وہ جانتے تھے کہ اس ویڈیو میں کیا تھا
’’امید ہے یہ تصویر اور ویڈیو آپ کو فیصلہ کرنے میں آسانی دے گی‘‘ غازان کا میسج پڑھ کر ان کے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں چمکنے لگی تھی
’’نوید؟‘‘ ہمدہ نے انہیں ہلایا
’’ہا۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہی تھی تم؟‘‘ وہ ہکلاتے بولے
’’وہ میں کہہ رہی تھی کہ مسز نثار آنا چاہتی ہے اپنی فیملی کے ساتھ ڈنر پر‘‘ ہمدہ بیگم نے جواب دیا
’’ٹھیک ہے بلا لوں انہیں‘‘ نوید شیخ ہلکی آواز میں بولے اور کھانا ختم کرنے کے فورا بعد کمرے میں چلے گئے
’’رستم کی شادی کے فورا بعد دعوت دوں گی انہیں‘‘ ہمدہ بیگم خود سے پلان بنائے خوش ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’عامر کون ہے؟‘‘ کھانے کی ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھے رستم نے انا سے پوچھا جس کے ہاتھ کانپنے لگے
’’وہ۔۔۔۔۔۔‘‘ چمچ نیچے رکھے دونوں ہاتھ کو آپس رگڑے ، زبان ہونٹوں پر پھیرے اس نے رستم کو دیکھا ، جو آںکھیں چھوٹی کیے اسے گھور رہا تھا
’’عامر ایک نیوز رپورٹر ہے۔۔۔۔۔ میری اور اسکی ملاقات ایک کیس کے دوران ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ایک بار جب میں جاب سے واپس آرہی تھی تو مجھے ایک لڑکی ملی تھی بیچ راستے میں، وہ بہت زیادہ گھائل تھی۔۔۔۔۔۔ میں اسے ہوسپٹل لیکر گئی تھی اور پھر وہاں سے پولیس کیس شروع ہوا۔۔۔۔۔۔۔ اس لڑکی کو بہت زیادہ مقدار میں ڈرگز دی گئی تھی۔۔۔۔۔ اسکا کیس عدالت میں چلا تھا اور عامر تب نیوز رپورٹر تھا۔۔۔ چونکہ میں گواہ تھی تو مجھ پر بھی بہت بار حملہ ہوا تھا اسی لیے عامر نے میری مدد کی تھی اور ہم اچھے دوست بن گئے۔۔۔‘‘ انا نے اپنی بات ختم کی
’’صرف اچھے دوست؟‘‘ رستمم کی آنکھیں ابھی بھی چھوٹی تھی
’’ہاں صرف اچھے دوست‘‘ انا نے سر اثبات میں ہلایا
’’اوکے پرنسز۔۔۔ رات بہت ہوگئی ہے تمہیں آرام کرنا چاہے ویسے بھی پھر ایک دفعہ شادی کے فنکشن شروع ہوگئے تو تم آرام نہیں کر پاؤ گی‘‘ رستم اسکا سر تھپتھپاتا وہاں ست چلا گیا
انا اسکے اتنے جلدی چلے جانے پر سکون میں آگئی
۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بہادر خان!!‘‘ رستم نے سٹڈی کی جانب جاتے بولا
’’جی ماسٹر؟‘‘ بہادر خان بھی ساتھ چلنے لگا
’’مجھے اس عامر کی پوری فائل چاہیے۔۔۔۔ ساری ہسٹری نکالو اس کی‘‘ رستم کی آنکھیں سرد تھی
’’جو حکم ماسٹر‘‘ بہادر خان نے سر جھکایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’پرنسز!!‘‘ رات کے بارہ بجے تھے۔۔۔۔۔ نیند انا کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔۔۔۔۔ جب رستم اسکے کمرے میں داخل ہوا
انا اسے دیکھ کر ایک پل کو چونکی۔۔۔۔۔۔۔ اسکی آنکھوں میں پھیلتا ڈر رستم سے مخفی نہ تھا۔۔۔۔۔
’’وہ یہ تمہارے لیے‘‘ اسکی جانب ایک ڈبہ بڑھائے رستم بولا
’’یہ کیا ہے؟‘‘ انا نے حیرانگی سے پوچھا
’’خود دیکھ لو‘‘ انا نے اسے کھولا تو اس کے اندر نئے ماڈل کا موبائل تھا
’’یہ میں اسکا کیا کروں گی؟‘‘ انا نے حیرت سے پوچھا
’’کیا مطلب کیا کروں گی۔۔۔۔۔ باتیں کرنا‘‘ رستم ہلکا سا ہنس کر بولا
’’کس سے‘‘ انا بھی ہلکا سا ہنسی
’’مجھ سے‘‘ رستم بولا تو انا نے چونک کر اسے دیکھا
’’آااا میں چلتا ہوں گڈ نائٹ‘‘ رستم شرمندہ سا فورا کمرے سے نکلا
’’کیا یہ واقعی میں رستم تھا۔۔۔۔ رستم شیخ؟‘‘ انا مسکراہ کر خود سے بولی اور کندھے اچکا دیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’زرقہ!!‘‘ اسے باہر کی جانب جاتے دیکھ کر ہمدہ بیگم نے پکارا
’’جی مام؟‘‘ زرقہ ان کے پاس آئی
’’بیٹا کہی جارہی ہوں؟‘‘ انہوں نے اسکی تیاری دیکھتے پوچھا اور چائے کا کپ ٹیبل پر رکھ دیا
’’جی وہ شاپنگ پر۔۔۔‘‘ اسنے جواب دیا
’’اچھا!! چلو یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔۔ رستم کی کال آئی تھی وہ چاہتا ہے کہ تم اور میں انا کی مہندی اور ولیمے کا ڈریس خریدے ، بارات کا وہ لے آیا ہے۔۔۔۔۔۔ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ انہوں نے زرقہ سے پوچھا
’’شیور مام کیوں نہیں‘‘ زرقہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔۔۔۔ اسکا مطلب وہ انا سے مل کر ساری بات کلئیر کرسکے گی
’’ٹھیک ہے پھر بس ہم دونوں جائے گے اور۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ایک منٹ مام میں اور آپ سے کیا مطلب۔۔۔۔۔ انا نہیں جائے گی؟‘‘ اس نے انکی بات کاٹتے پوچھا
’’نہیں رستم نے کہاں ہے کہ صرف ہم دونوں جائے‘‘ ہمدہ بیگم کپ لبوں کو لگائے بولی
’’مام آپ بھائی سے کہیے نا انا کو ابھی ہمارے ساتھ بھیج دے۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ہم ڈریس لے آئے اور انا کو پسند نہیں آئے تو؟ اچھا ہے نا وہ بھی ساتھ چلے۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر بھائی کو تو آپ جانتی ہے اگر انا کو ڈریس پسند نہیں آئی تو کوئی بھروسہ نہیں کہ وہ پورے مارٹ کو آگ لگا دے‘‘ زرقہ نے بات مکمل کی تو ہمدہ بیگم سوچ میں پڑگئی
’’ہمم۔۔۔ کہہ تو تم بلکل ٹھیک رہی ہوں۔۔۔۔ سہی میں بات کرتی ہوں رستم سے‘‘ یہ کہتے ہی انہوں نے اپنا موبائل اٹھایا
۔۔۔۔۔۔۔
’’پرنسز!!‘‘ رستم نے اسے پکارا جو کسی سوچ میں گم تھی
’’جج۔۔۔جی؟‘‘ انا چونکی
’’مام کی کال آئی تھی تمہاری مہندی اور ولیمے کا ڈریس خریدنا ہے تو اس لیے تم ان کے ساتھ چلی جانا‘‘ رستم نے اسے بتایا
’’آپ نہیں آئے گے؟‘‘ بولتے ہی انا نے زبان دانتوں تلے دبا لی جبکہ رستم نے مسکرا کر اسے دیکھا
’’تو تم چاہتی ہوں کہ میں جاؤں؟‘‘ رستم نے مسکراہ کر اس سے پوچھا
’’ہا۔۔۔۔ میرا مطلب نہیں‘‘ نظریں نیچی کیے اس نے جواب دیا
رستم تو بس مسکرائے اسے دیکھے جارہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکی تھوڑی سی نرمی اور انا اس کے ساتھ نارمل ہوگئی تھی
’’ماسٹر گاڑی آگئی ہے‘‘ بہادر خان بولا تو انا نے نظریں پھیر لی اسے بہادر خان سے انجانا سا خوف آتا تھا
’’ٹھیک ہے تم جاؤ‘‘ رستم نے جب انا کی حالت دیکھی تو اسے بھیج دیا
’’پرنسز تم تیار ہوجاؤں مام آگئی ہے‘‘ رستم اسکی جانب دیکھتے نرمی سے بولا
’’میں تیار ہوں‘‘ انا نے جواب دیا
’’اچھا چلو پھر یہ لے لو‘‘ رستم نے اسکی جانب کارڈ بڑھایا
’’یہ؟‘‘ انا نے حیرت سے کارڈ پکڑا
’’تم نے شاپنگ کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔ میری ہونے والی بیوی ہوں تم۔۔۔۔۔ میرے پیسے پر حق ہے تمہارا‘‘ رستم بولا تو انا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ کارڈ پکڑ لیا
رستم اتنا بھی برا نہیں اگر وہ اسے ایک موقع دے تو۔۔۔۔۔ یہ سوچ انا کے دماغ میں آئی
ایک مسکراہٹ رستم کی جانب اچھالتے وہ پرس میں اپنا موبائل اور کارڈ ڈالے باہر کی جانب نکل گئی
’’السلام علیکم آنٹی!!‘‘ گاڑی کی بیک سیٹ پر بیٹھتے وہ بولی۔۔
’’وعلیکم السلام انا بچے کیسی ہوں؟‘‘ انہوں نے محبت سے پوچھا
’’بلکل ٹھیک آنٹی‘‘ انا ہلکا سا مسکرائی
’’کیسی ہوں انا؟‘‘ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی زرقہ نے پوچھا
انا کے مسکراتے لب سکڑے۔۔۔۔۔
’’ٹھیک ہوں‘‘ اسکے بعد پورے راستے کوئی بات نہیں ہوئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاپنگ مال پہنچ کر زرقہ نے بہت دفعہ انا سے بات کرنے کی کوشش کی مگر انا نے اسکی ایک نہیں سنی۔۔۔۔۔۔ زرقہ نے اسے تکلیف دی تھی۔۔۔۔۔ اسکا دل دکھایا تھا۔۔۔۔
’’بچیوں بات سننا!!‘‘ ہمدہ بیگم جن کو کال آئی تھی وہ موبائل بند کیے انکی طرف آئی
’’جی؟‘‘ دونوں نے بیک وقت پوچھا
’’زرقہ انا مجھے نوید کی کال آئی ہے، انکی کوئی پارٹی ہے میرا وہاں موجود ہونا ضروری ہے تو مجھے جلدی گھر جانا ہے۔۔۔۔ ڈریسز تو ہم نے خرید لیے ہیں۔۔۔۔۔۔ بس جیولری اور سینڈلز رہ گئے ہیں وہ تم دونوں دیکھ لینا میں چلتی ہوں ٹھیک ہے‘‘ تیزی میں انہیں انفارم کیے وہ وہاں سے نکل گئی
پہلے تو ہمدہ بیگم کی وجہ سے زرقہ بات نہیں کر پارہی تھی مگر اب وہ دونوں اکیلی تھی بات کر سکتی تھی
’’انا!!‘‘ اس سے پہلے زرقہ منہ کھولتی کسی نے پکارا
’’عامر؟‘‘ اسے دوبارہ دیکھ کر انا چونکی
’’کیسی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے زرقہ تم کیسی ہوں‘‘ انا کے ساتھ ساتھ زرقہ کو دیکھ کر وہ حیران ہوا
’’میں ٹھیک ہوں تم کیسے ہوں عامر؟‘‘ زرقہ جبرا مسکرایا
’’ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔ تم دونوں یہاں؟‘‘ اس نے آبرو اچکائے پوچھا
’’ہاں وہ انا کی شادی کی شاپنگ‘‘ زرقہ نے جواب دیا
’’تو انا نے تمہیں انوائیٹ کیا مگر مجھے نہیں۔۔ہمم‘‘ عامر تھوڑا ناراض سا ہوتا بولا
’’ایسی کوئی بات نہیں عامر۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ایسی کوئی بات نہیں عامر ۔۔۔۔۔ انا نے مجھے بھی نہیں بلایا وہ تو بس میں رشتے میں اسکی نند بن گئی ہوں‘‘ زرقہ انا کی بات کاٹتے بولی
’’اوہ تو ایسا ہے‘‘ عامر نے انا سے پوچھا تو انا نے سر اثبات میں ہلادیا
’’اچھا عامر اب ہم چلتے ہیں۔۔۔۔۔ ہمیں دیر ہورہی ہے‘‘ زرقہ انا کا ہاتھ تھامے مڑی
’’ایک منٹ انا‘‘ عامر نے پکارا
’’جی؟‘‘ انا نے منہ پیچھے کیا پوچھا
’’وہ تمہارا نمبر ملے گا؟ مینز کے ویسے ہی ہم دوست ہے نا۔۔۔۔ دوست کی حیثیت سے؟‘‘ عامر نے زرقہ کی گھورتی نگاہوں کو اگنور کیا
’’شیور‘‘ انا ہلکا سا مسکرائی۔۔۔۔۔
عامر اسکا دوست تھا وہ اسے چھوڑ تو نہیں سکتی تھی صرف اسی وجہ سے کہ اسنے انا سے شادی کی خواہش ظاہر کی تھی
’’تھینکیو۔۔۔۔‘‘ نمبر ملتے ہی عامر وہاں سے چلا گیا جبکہ زرقہ اسکی پشت کو گھورتی رہی۔۔۔۔۔ اسے عامر پر یقین نہیں تھا
’’انا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’زرقہ پلیز میرے سر میں درد ہے اور مجھے گھر جانا ہے‘‘ انا اسکی بات بیچ میں کاٹتے بیزار سی بولی تو زرقہ نے لب بھینچ لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیلے رنگ کا گھٹنوں تک آتا فراک پہنے۔۔۔۔۔۔ بالوں کی فرینچ چوٹی بنائے اسے دائیں کندھے پر ڈالے ۔۔۔۔۔۔ پھولوں کی جیولری پہنے اور سر پر ڈوپٹا جمائے وہ ہلکے میک اپ میں بھی دلکش لگ رہی تھی
وہ واقعی سادہ تھی۔۔۔۔ کچھ خاص خوبصورت نہیں تھی مگر رستم کے لیے وہ سب سے زیادہ حسین تھی
’’انا بیٹا ریڈی ہوں؟‘‘ ہمدہ بیگم نے اس سے پوچھا
’’جی‘‘ اس نے سر اثبات میں ہلایا
’’چلو آجاؤں پھر رسم شروع کرے‘‘ زرقہ اور چند اور لڑکیاں انا کو ڈوپٹے کے سائے تلے باہر لان میں لے آئی تھی جہاں مہندی کا فنکشن رکھا گیا
رستم کمبائن مہندی چاہتا تھا مگر ہمدہ بیگم نے اسے صاف منع کردیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ حتی کے انا اور رستم کو پچھلے تین دنوں سے ملنے بھی نہیں دیا گیا تھا۔۔۔۔ انا جتنا پرسکون تھی رستم اتنا ہی بےچین۔۔۔۔
پھولوں کے جھولے پر بٹھائے اس پر اچانک لال ڈوپٹا اوڑھ دیا گیا تھا جس پر انا حیران ہوئی
’’یی۔۔۔یہ؟‘‘ اس سے پہلے انا کچھ بول پاتی ہمدہ بیگم نے اسکے پاس بیٹھے اسکا ہاتھ تھام لیا
’’کچھ نہیں سب کچھ ٹھیک ہے‘‘ ہمدہ بیگم نے اسے نارمل کیا
تبھی نکاح خواں انا کے سامنے آبیٹھا
انا کا رواں رواں کانپ رہا تھا۔۔۔۔ اسنے نیٹ کے ڈوپٹے کے نیچے سے نظریں اٹھائے ہمدہ بیگم کو دیکھا اور پھر سر اقرار میں ہلائے اس نے نکاح نامے پر سائن کردیا تھا
اس نکاح نامے سے جتنا دھچکا انا کو لگا تھا اس سے زیادہ تاشہ کو لگا تھا۔۔۔۔۔۔ تاشہ کو یقین تھا کہ وہ نکاح نامہ جو رستم نے دکھایا تھا وہ نقلی تھا۔۔۔۔۔ مگر اب سب کے سامنے ہوئے اس نکاح کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا تھا۔۔۔۔۔
تاشہ جل رہی تھی۔۔۔۔۔ غازان نے وعدہ کیا تھا کہ انا اور رستم کی شادی نہیں ہو پائے گی۔۔۔۔ اس نے وعدہ کیا تھا کہ برات والے دن نکاح ہونے سے پہلے ہی وہ ایسی نیوز میڈیا کو دے گا کہ رستم اپنی شادی کو بھول جائے گا مگر یہاں تو سب کچھ ہاتھوں سے نکلتا محسوس ہورہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
نکاح کے فورا بعد رستم کو وہاں لایا گیا تھا جوکہ سفید شلوار قمیض کے ساتھ کالا واسکوٹ پہنے یونانی بادشاہ لگ رہا تھا
اسکے دونوں جانب اسکے دوست کھڑے تھے
مہندی کے سوٹ کے ڈوپٹے سے انا کا پردہ کردیا گیا تھا جس پر رستم کو غصہ آیا تھا مگر وہ چاہتا تھا کہ اسکی شادی میں تمام رسومات ہوں اسی لیے وہ چپ رہا۔۔
رستم کو انا کے ساتھ لاکر بٹھایا گیا تھا جب اسے انا کانپتی محسوس ہوئی
’’ششش ریلیکس پرنسز۔۔۔۔۔ ریلیکس سب کچھ ٹھیک ہے‘‘ اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ جمائے رستم بولا
اس بار انا نے ہاتھ نہیں کھینچا تھا۔۔۔۔ کیونکہ اب ان میں ایک رشتہ تھا
’’ٹھیک ہوں؟‘‘ رستم نے ہلکے سے پوچھا۔۔۔۔ انا نے سر اثبات میں ہلادیا
’’بہت خوش لگ رہے ہوں رستم شیخ‘‘ اپنے اندر کی جلن کم نہیں ہوپائی تو تاشہ اسکے پاس چلی آئی
’’الحمداللہ!!‘‘ رستم جھولے سے ٹیک لگائے ایک بازو انا کے کندھے پر رکھے بولا
’’زیادہ دیر خوش نہیں رہوں گے تم دونوں‘‘ تاشہ لال آنکھوں سے انا کو گھورتے بولی
’’اچھا اور تمہیں کیسے پتا۔۔۔۔ تم کیا ہوں۔۔۔۔ کوئی انتریامی؟‘‘ رستم نے اسکا مزاق اڑایا
’’میری بددعا لگے گی تمہیں رستم۔۔۔۔۔ جیسے مجھے میری محبت نہیں نا ملی تمہیں بھی نہیں ملے گی۔۔۔۔۔۔۔ تڑپو گے تم بھی۔۔۔۔۔ تم بھی جلو گے قربت کی اس آگ میں۔۔۔ تم دونوں کو کوئی خوشی نصیب نہیں ہوگی۔۔۔۔ برباد ہوگے تم دونوں‘‘ تاشہ دانت پیستے ہلکی آواز میں بولی
’’ہوگیا۔۔۔۔۔ تو اب جاؤ‘‘ رستم اسکی بات کا مزاق اڑاتے بولا۔۔۔۔ جبکہ انا کا دل اسکی بددعا سن کر دہل گیا
کیا ابھی اسے اور بھی برباد ہونا تھا؟ انا صرف سوچ سکی
تاشہ وہاں سے غصے سے واک آؤٹ کر گئی۔۔۔۔ جبکہ تمسخرانہ نگاہ اس پر ڈالتے رستم انا کی طرف متوجہ ہوا جو دوبارہ سے کانپنا شروع ہوگئی تھی اور نظریں تاشہ کی پیٹھ کی جانب تھا
’’یا اللہ خیر!!‘‘ انا صرف یہی دعا کرسکی
اس سارے ہنگامے میں کمرے میں موجود انا کا موبائل بجتے بجتے بند ہوگیا
’’انا پک اپ دا کال!!‘‘ عامر بار بار کال کرتا جھنجھلایا
’’انا کال اٹھاؤ۔۔۔۔۔۔ کال اٹھاؤ انا تم بہت بڑی مصیبت میں ہوں۔۔۔۔ پلیز انا‘‘ عامر ادھر ادھرٹہلتے بولا
’’اسکی حفاظت کرنا میرے مولا‘‘ عامر بس اتنا کہہ پایا
۔۔۔۔۔۔۔
’’ہیلو ہاں بولوں؟ نہیں ابھی کام نہیں ہوا۔۔۔ نہیں ابھی نہیں۔۔۔۔ بس تھوڑی دیر میں سب چلے جائے گے۔۔۔۔ رسم ختم ہوتے ہی میں اپنی گیم شروع کروں گا۔۔۔ نہیں اسکی فکر مت کرلوں وہ کچھ نہیں کرسکتا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔ تم ٹینشن مت لوں ہاں کہا نا ہوجائے گا سب‘‘ کال بند کرتے ہی وہ وجود روشنی میں آیا اور سب مہمانوں میں گھل مل گیا تھا
’’تمہاری خوشیاں بس چند دن کی تھی رستم شیخ اور نہیں‘‘ مکار ہنسی ہنستے وہ رستم پر نفرت بھری نظر ڈالے مڑ گیا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...