رشن دن بہت چہل پہل کے ساتھ اپنا آغازکیا چاہتا تھا۔اس نے کروٹ بدل کر سامنے دائیں جانب لگی بڑی سی شیشے کی کھڑکی کو دیکھا۔جس کے دوسری طرف ٹیرس تھا۔جہاں کل رات وہ سگریٹ نوشی کرتا رہا تھا۔اور جہاں سے چاند چمکتا ہوا اس کے پہلو میں اُترا ہوا لگتا تھا۔
شیشے کے پار سے چھن کر آتی روشنی اس کے چہرے پہ پڑ رہی تھی۔اس نے ان سنہری کرنوں سے بچاؤ کی خاطر ہاتھ آنکھوں کے سامنے کر لیا۔اور کمرے میں نظر دوڑائی۔
کمرے میں سفید پینٹ کی مناسبت سے چوقلیٹ براؤن فرنیچر تھا۔کھولے ہوادار کمرے کی کھڑکیوں کے سامنے بھی بھاری پردے تھے۔جن کا رنگ بھی پینٹ اور فرنیچر کی مناسبت سے تھا۔وہ اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ساتھ ہی پاؤں بیڈ سے نیچھے اتار کر،چوکلیٹ براؤن قالین پہ متناسب چال چلتی کھڑکی کے سامنے آ گئی۔۔۔اور ٹیرس کی جانب کی کھڑکی ایک جھٹکے سے کھول دی۔
وہ اس وقت نیوی بلو کاٹن کے ہلکے پھلکے سوٹ میں کھولے بالوں کے ساتھ اچھی دکھ رہی تھی۔دائیں کندھے پہ جھولتے دوپٹے کو درست کر کے وہ ایک آخری نظر ٹیرس کی خالی کرسیوں پہ ڈال کر باتھ روم کی جانب بڑھ گئی۔
دس منٹ بعد اس کی آمد ہوئی ۔تو کمرے میں کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں،جس سے ظاہر ہوتا تھا۔کہ کمرے کا مالک آ چکا ہے۔وہ بغیر اسے نوٹس کئے شیشے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔اور آہستہ آہستہ گیلے لمبے بالوں کو سُلجھانے لگی۔۔۔شیشے میں اس کا عکس اگرچہ واضح تھا۔مگر ماہ نور نے دیکھنے سے عتراض برتا تھا۔وہ ایک بد تمیز،اور بد اخلاق مرد تھا۔اور وہ اس سے کوئی بھی بات کر کے ماحول کو تناؤ کا شکار نہیں کرنا چاہتی تھی۔اس نے نخوست سے ایک نظر اس کو دیکھا ۔جو رات کا جاگا شائد اب نیند پورا کرنے کی خواہش کو لئے ،آنکھوں پہ بازو رکھے سونے کی کوشش میں تھا۔
شوخا۔۔۔سوچ کر سر ہلا کراس نے ایک آخری نظر اپنے اوپر ڈالی تھی۔وہ اس وقت جامن رنگ نازک سے کام داری شلوار سوٹ میں ملبوس تھی۔ گیلے بالوں کو کھولا چھوڑے ،ہلکے میک اَپ اور نازک سی جیولری کے ساتھ وہ قابلِ دید لگ رہی تھی۔اس کی ترو تازہ رنگت دمق رہی تھی۔البتہ آنکھوں میں سرد مہری اور غصہ ہلکورے لے رہا تھا۔
یہ پردے برابر کرو۔کروٹ بدلتے اس نے اس قدر روکھائی سے ماہ نور سے کہا تھا۔کہ وہ دانت پیس کر رہ گئی۔
مجھے سورج کی روشنی اچھی لگتی ہے۔اس نے بھی جواب میں اُسی روکھائی سے کھا۔اور جنوب سمت پڑے تھری سیٹر صوفے پہ بیٹھ گئی۔
جاؤ ٹیرس پہ جا کر اپنا شوق پورا کرو۔مگر اس پردے کو برابر کرو۔سیاہ ٹراؤزر شرٹ میں بکھرے بالوں کے ساتھ وہ خاصا چڑ چڑالگ رہا تھا۔ماہ نور اس کی پشت کو گھور کر رہ گئی۔
کیوں ناں میں یہ شوق باہر اس خوبصورت لان میں جا کر پورا کر لوں۔اس نے بھی اُدھار رکھنا پسند نہیں کیا تھا۔ذریت نے مُڑ کر ایک نظر اسے سر سے پاؤں تک دیکھا(وہ اس عرصے میں لا تعلق ہو چکی تھی۔)اور پھر پاس پڑا کوشن منہ پہ رکھ لیا۔
جب تک میں سو کر اُٹھ نہیں جاتا۔تم اس کمرے سے باہر نہیں نکلو گی۔ذریت کا یہ حُکم اسے رات بھی موصول ہو چکا تھا۔منہ بگاڑ کر رہ گئی۔
میں یہاں اتنی دیر نہیں بیٹھ سکتی۔مجھے جانا ہے نیچے۔۔۔اسے سخت بھوک لگ رہی تھی۔
مجھے بات دُھرانے کی عادت نہیں ہے۔مجھے مجبور مت کرنا کہ میں تم پہ سختی کروں۔چپ چاپ ادھر بیٹھی رہو۔۔۔اور اب اُٹھو شاباش اور پردے برابر کرو۔وہ بالکل بھی نرمی سے بات کرنے کا عادی معلوم نہیں ہوتا تھا۔جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی۔بلکہ وہ جب بھی اس سے بات کرتا تھا۔ہمیشہ لہجے کو روکھا،لاتعلق اور سخت رکھتا تھا۔اب کی طرح۔۔۔وہ خاموشی سے اُٹھ گئی۔اس نے سُنا تھا۔کہ مردوں سے ضد نہیں باندھنی چاہیے۔وہ بھی یہی کرنے کی کوشش میں تھی۔وہ یہاں آنے سے پہلے بہت سی باتیں پہلے ہی جانتی تھی۔مریم آپی نے مہندی کی رات اسے ذریت کے ماضی میں سخت برتاؤ کی جو وجوہات بتائیں تھیں۔وہ ان وجوہات کی بنا پر۔۔۔عقل مندی سے کام لے کر حالات کو ساز گار بنا سکتی تھی۔اور اس نے سوچا بھی یہی تھا۔ماہ نور کے کانوں میں مریم آپی کی آواز گونج رہی تھی۔وہ گہرا سانس کے کر ٹیرس میں آ گئی۔۔۔
اس لڑکے نے خودکشی ایک لڑکی کی وجہ سے کی تھی۔جو آذر کی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔اس نے آزر کو اس طرح دھوکہ دیا تھا۔ایسے اپنی محبت میں پھنسا کر ایسا بے بس کیا تھا۔کہ وہ مارا ہی گیا تھا۔وہ لڑکی ہم نہیں جانتے کون تھی۔معلوم کرنے کی کوشش کی تھی۔ذریت نے اور اکمل نے لیکن پھر آذر کی امی کے منا کرنے پہ اُنہوں نے اسے ڈھونڈنے کا کام چھوڑ دیا تھا۔آذرکی موت کے بعد اس کی امی یہاں سے اپنی بیٹی کے پاس چلی گئیں۔ذریت نے ان کو بھی روکنے کی بہت کوشش کی تھی۔لیکن وہ نہیں مانیں۔وہ اپنی بیٹی مومنہ کے پاس رہنا چاہتیں تھیں۔ذریت آذر سے بہت محبت کرتا تھا۔دونوں نے سارا بچپن ،لڑکپن،اور جوانی کے اوائل ایک ساتھ ہی گُزارے تھے۔آگے بزنس ایک ساتھ ہی کرنے کا پلین تھا دونوں ۔مگر۔۔۔مگر اس سے پہلے ہی آذر چلا گیا۔مریم آپی کی آنسوں میں بھیگی آوازاب بھی ایک تسلسل سے اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔وہ جو کھڑی بلندی سے نیچے لان میں لگے پودوں کو دیکھنے میں مصروف تھی۔تھک کر ایک کرسی دیوار کی چھاؤں میں لے کر بیٹھ گئی۔
ماہ نور نے سر دیوار سے ٹکا لیا۔ایک آنسو بہت خاموشی سے اس کی آنکھ سے نکلا۔اور اس کی گال پہ پھسلتا قمیض کے گلے میں جزب ہو گیا ۔وہ نہیں جانتی وہ کیوں روئی تھی۔شائد ذریت کے غم کا احساس کر کے۔۔۔
::::::::::
اگر سو نہیں گئی ۔تو آ جاؤتمہاری پیاری نند یاد فرماتی ہے۔۔۔وہ جو آنکھیں بند کئے۔کہیں ماضی میں گم ہو چکی تھی۔اس کی آواز پہ چونکی ۔اور جھٹ گیلے گال بھی صاف کرلئے۔وہ آنکھیں سکیڑے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ماہ نور کو شرمندگی ہوئی۔اور ساتھ ہی ذہن میں خیال بھی آیاتھا۔کہ کہیں وہ غلط نہ سمجھ لے۔
چلو بھی۔۔۔وہ اس وقت لیمن رنگ ٹی شرٹ میں ملبوس ،کچھ دیر پہلے کے حولیئے سے یکسر مختلف ترو تازہ دکھ رہا تھا۔ماہ نور کو اپنی جگہ سے ہلتا نہ پا کر اس نے جھڑکا ۔تو وہ خاموشی سے اُٹھ گئی۔
پلیز آئندہ میرے سے ایسے بات مت کیجئے گا۔ماہ نور کو سخت خفت محسوس ہوئی تھی۔وہ بغیر گھبرائے کہہ گئی۔
ذریت نے اس کے کہنے پہ رک کر اور ایک آنکھ سکیڑ کر ،اسے دیکھا۔۔۔اور پھر واپس چل پڑا۔میرے سے کسی بھی اچھے رویے کی اُمید مت رکھنا۔۔۔کہنے کے ساتھ اس نے کمرے میں قدم رکھا۔اور پھر درازسے ایک باکس نکال کر اسے تھما دیا تھا۔ماہ نور اس سے پہلے کہ سمجھتی۔پکڑا کر وہ جا چکا تھا۔
باکس کو قدرِ شش و پنج میں اس نے کھولا۔۔۔تو اس میں ایک خوبصورت ہیروں جُڑا سیٹ تھا۔جس کی چمک اس کی قیمت کو بڑھا رہی تھی۔
واؤ۔۔۔اسے وہ اچھا لگا تھا۔ضرور آپی نے ہی لیا ہو گا۔اس شوخے سے تو بالکل بھی اُمید نہیں ہے۔سر جھٹک کر اس نے سوچا اور پھر سیٹ الماری میں رکھ کر خود بھی باہر آ گئی۔جہاں سب اس کے منتضر تھے۔
:::::::::::
وہ جس وقت ڈائنگ حال میں داخل ہوئی۔۔۔تمام مہمان کھانے کی میز کے گِرد بیٹھے،دُلہن کے منتضر تھے۔اس نے آتے ہی قدرِ مسکرا کر سلام کیا۔ مہمانوں پہ ایک طائرانہ نظر ڈالی۔اور پھر ذریت کے پہلوکی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔سب مہمان اسے ہی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
نیند اچھی آئی رات میں۔اگر ابھی بھی تھکاوٹ محسوس کرو ۔تو پھر سے سو لینا۔رات میں ولیمہ ہے۔سو بے فکر رہنا۔مریم آپی اس کے بائیں جانب بیٹھیں تھیں۔ان کے کہنے پہ مسکرا کر اس نے سر ہلا دیا۔
تم کافی عقل مند ہو۔ذریت کو لگا تھا۔وہ اس کے بُرے رویے کے بعدضرور اس کے گھر والوں کے ساتھ،روکھا پیش آئے گی۔یا پھر کھانے کی میز پہ تو وہ ضرور ہی اس کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دے گی۔مگر اس نے حیرت انگیز طور پہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا تھا�آآہاں۔۔۔چلیں شکر ہے۔آپ کو پتہ تو چلا۔بظاہر مسکرا کر کہے گئے۔اس کے الفاظ میں طنز کی کاٹ ذریت نے واضح محسوس کی تھی۔ایک سرد نظر ڈال کر سب مہمانوں کو دیکھا۔اور پھر ماہ نور کو۔۔۔جو آپی کے دئے گئے جوس کو گھونٹ گھونٹ پی رہی تھی۔
تم بولتی بہت ہو۔اور مجھے باتونی عورتیں سخت زہر لگتی ہیں۔ایک بار پھر سے اس نے قدرِ جھک کر کہا۔تو ماہ نور مسکرا دی۔دادی اور مریم آپی کی نظریں ان دونوں پہ ہی جمی تھیں۔دادی ذریت کو جہاں دیکھ کے خوش ہو رہی تھیں۔وہیں مریم آپی کچھ اُلجھ رہی تھیں۔وہ اپنے بھائی کو بہت اچھے طریقے سے جانتی تھیں۔اس کی رگ رگ سے واقف تھیں۔
کس قسم کی خواتین آپ کو پسند ہیں۔آپ بتا دیں۔تاکہ میں ویسی بن جاؤں۔
دادی مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔میں شام تک واپس آ جاؤں گا۔ماہ نور کی بات کے جواب میں اس نے کرسی دھکیلی ۔اور دادی سے مخاطب ہو کر کہا تھا۔مگر دادی کے جواب دینے سے پہلے ہی وہ جا رہا تھا۔
مجال ہے ۔جو یہ بچہ گھر آرام سے ٹِک جائے۔دادی کا بس چلتا ۔تو آج وہ اس کے پاؤں کسی رسی سے باندھ دیتیں۔
یہ ابھی کیا بکواس کر کے گیا ہے؟مریم آپی ذریت کی چھوڑی کرسی پہ آ بیٹھی تھیں۔ماہ نور نے قدرِحیران ہو کر اُنہیں دیکھا۔
آپی اب کیا آپ میرے سامنے میرے شوہر کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کریں گی۔
تمہارا بیچارا شوہر ہے ہی اس قابل کہ دن رات اس کی عزت افزائی کی جائے۔اس کے منہ بنانے پہ مسکراہٹ دبا کر اُنہوں نے کہا ۔تو ماہ نور بھی مسکرا دی۔یہ تو سہی کہا آپ نے۔
نند بھاوج میں خوب بنتی معلوم ہوتی ہے۔وہ خاتون ذریت کے رشتے میں ممانی تھیں۔جو کافی دیر سے ان دونوں کو کسی بات پہ آہستہ آہستہ مسکراتے دیکھ رہی تھیں ۔آخر مسکرا کر دادی سے پوچھ ہی لیاتھا۔جواب میں دادی کا مان اور خوشی سے چہرہ کِھل ہی گیا تھا۔
ماہ نور اور آپی بھی مسکرا دیں۔
ہاں میری بہو۔۔۔بہت اچھی ہے۔تم نہیں جانتی میں نے اِسے کیسے ڈھونڈا۔دادی کے لہجے میں چُھپی مُحبت نے ماہ نور کو آنکھیں جُھکانے پہ مجبور کر دیا تھا۔وہ کہاں ماں کی محبت کی عادی تھی۔
اماں بتا ہی دیں پھر آپ ۔کہ کیسے ڈھونڈی اتنی پیاری بہو۔ذریت کی خالہ نے مسکرا کر ماہ نور کو دیکھ کر کہا۔تو دادی دھیمے سے مسکرا دیں۔
جاؤ چائے بناؤ۔ساتھ بیٹھ کر پیتے ہیں ساتھ سارا واقع بھی بتاؤں گی۔دادی کے لہجے میں جوش تھا۔ماہ نور شرمندہ ہو گئی۔
آپی اب کیا دادی سارا واقع بتائیں گی۔اس نے پریشانی سے پہلو میں بیٹھی مسکراتی مریم آپی سے پوچھا تھا۔وہ ہنس دیں
دادی پہ بھروسہ رکھو۔۔۔وہ کہانیاں سُنانے میں بہت ماہر ہیں۔آؤہم تمہارے کمرے میں چلیں۔آپی نے کہنے کے ساتھ کرسی کھینچ دی ۔تو وہ سب سے اجازت لیتی اُٹھ گئی۔
::::::::::::
ماہ نور ایک بات پوچھوں؟ مریم آپی اس کے سامنے صوفے پہ بیٹھی تھیں۔اور ماہ نور ان کے سامنے بیڈ پہ ٹانگیں لٹکائے اپنے سوٹ کے سٹونز پہ انگی پھیر رہی تھی۔
جی آپی پوچھ کیوں رہی ہیں۔جو پوچھنا ہیں کھولے دل سے پوچھیں۔اس نے ان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر کہا۔تو وہ دھیمے سے مسکرا دیں۔
تم میرے سے ناراض تو نہیں ہو۔میرا مطلب ہے۔جیسے میں نے تمہیں سب کو سچ بتانے سے منا کیا تھا۔جیسے میں نے تمہیں روکا تھا۔اس کے بعد ناراض ہو جانا ایک فطری سی بات ہے۔مریم آپی کے دل میں یہ بات کافی دیر سے کانٹے کی طرح چُب رہی تھی۔بس شائد یہ بھائی کی محبت ہی تھی۔کہ وہ ماہ نور کو کھونا نہیں چاہتی تھیں۔چاہے لاکھ مسلے ہوتے۔کہ وہ جانتی تھیں کہ وہ ان کے بھائی کے لئے بہترین ہے۔
نہیں آپی ناراض نہیں ہوں۔لیکن وقتی طور پہ سچ پوچھیں ۔تو تھوڑا فکرمند ہوئی تھی۔لیکن پھر میں نے اللہ پہ چھوڑ دیا۔اس نے معصومیت سے کہا۔تو مریم آپی پھر سے مسکرا دیں۔
مجھے اور دادی کو تمہاری یہی بات بہت پسند ہے۔تم جانتی ہوعجیب بات ہے۔لیکن سچ ہے ۔کہ میرا بھائی بہت عام سا مرد ہے۔اس کی ناراضگی دور کرنا۔یا اس کو منانا بہت آسان ہے۔اس کا مسلہ بھی عورت کا کردار ہی ہے۔اب بے شک وہ خود جو بھی ہو۔خود اس کا کردار جیسا بھی ہو۔میں جانتی ہوں۔یہ اچھی بات نہیں ہے۔غلط ہے۔مگر میں اس کے لئے اتنا ہی کر سکتی ہوں۔جتنا اب تک اس کو سیٹ رکھنے کے لئے میں اب تک کرتی آئی ہوں۔مریم آپی کے چہرے پہ فکر کی لکیریں تھیں۔ماہ نور جواب میں خاموش ہی رہی تھی۔
وہ اس عورت سے شادی کرنے کے لئے ہر گز تیار نہیں تھا۔جسے وہ جانتا نہیں تھا۔میں جانتی ہوں۔کہ وہ ایسا ہی ہے۔اپنے سے منسلک چیز میں ہر لیحاظ سے پرفیکشن دیکھنا چاہتا ہے۔پلیز ماہ نور تم اس کی کسی بھی بات کو دل پہ مت لینا۔بلکہ جب بھی کوئی مسلہ ہو۔اسے عقلمندی سے حل کرنے کی کوشش کرنا۔میں جانتی ہوں ۔ذریت دل کا بہت نرم اور اچھا ہے۔جب وہ تمہیں دیکھے گا،پرکھے گا۔وہ تم سے ہماری ہی طرح محبت کرے گا۔ماں اور بہن کے سوا اس نے کبھی عورت کو اس نظر سے نہیں دیکھا۔اسی لئے ایسا ہے۔مریم آپی بہت محبت اور نرمی سے اسے سب سمجھا رہی تھیں۔وہ سنتی رہی ،اور سمجھ کر اثبات میں سر ہلاتی رہی۔
آپی میں جانتی ہوں۔کہ آپ جو بھی مجھے کہہ رہی ہیں۔وہ محض لفاظی نہیں ہوگی۔لیکن مجھے بس اس بات کا خوف ہے۔کہ کہیں اتنی دیر نہ ہو جائے۔کہ ۔۔۔وہ بات کو اختتام میں چھوڑ گئی تھی۔مریم آپی نے چونک کے اُسے دیکھا۔
ماہ نور نااُمید مت ہو۔اور ایک دلچسپ بات بتاؤں۔مرد جتنا خود کو عقلمند سمجھتے ہیں۔کچھ معاملوں میں ہوتے نہیں ہیں۔عورت کو وہ بس انڈرایٹیمیٹ کرتے رہتے ہیں۔ورنہ عورت کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا ،کوئی نئی بات نہیں ہے۔عورت کو مرد کی بائیں پسلی سے بنایا ہی اس لئے گیا ہے۔کہ جب مرد ٹیڑھا ہونے لگے۔فوراً سے سیدھا کردے۔اور ویسے بھی تم نہیں دیکھتی۔۔۔عورت کے لئے مرد۔وہ بھی اپنے شوہر کو بے و قوف بنانا کو نسا مشکل کام ہے۔آخری بات اُنہوں نے ہنس کے کہی تھی۔ماہ نور بھی مسکرا دی۔
اگر آپ کا بھائی یہ سب سُن لے۔تو؟
تو کیا۔۔۔میں تو اس کے سامنے ہی اُسے ایسے ایسے ارشادات سے نواز چکی ہوں۔کہ بس ۔۔۔
ہا ہا ہا۔۔۔کاش میں وہ ارشادات سُن سکتی۔اس نے ہنس کر کہا تھا۔مریم آپی مسکرتی ا اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
ہاں سُن لینا۔ویسے بھی تمہارا شوہر ایک ایسا انسان ہے۔جو اپنی عزت افزائی کے مواقع خود ہی فراہم کرتا رہتا ہے۔بہت جلد تم دیکھو گی۔مریم آپی کی بات پہ وہ ایک بار پھر سے ہنسی تھی۔
واہ شیر کو بھی کوئی زنجیر ڈال سکتا ہے۔کیا بات ہے۔مجھے تو آپ سے کلاسز لینی ہوں گی۔ماہ نور نے ان کے جاتے جاتے بھی ہنس کر کہہ دیا تھا۔
بول کر شیر اور سر مت چڑھانا اُس کو۔اور بے فکر رہو۔آہستہ آہستہ سب سیکھ جاؤ گی۔کہہ کر وہ دوروازہ کھولتی کمرے سے نکل گئیں۔تو وہ بھی مسکراتی بیڈ پہ پاؤں اکٹھے کر کے بیٹھ گئی۔اسے ایک دم سے بھائی اور بابا بہت یاد آنے لگے تھے۔اس نے صبح نماز کے بعد سب سے پہلے بابا کو کول کی تھی۔اور بابا نے دوسری بیل پہ ہی اس کی کال اُٹھا لی تھی،شائد وہ رات بھر سوئے نہیں تھے۔
ماہ نور گہرا سانس لے کر رہ گئی۔اب تو شائد یہ جُدائی ہمیشہ کے لئے قسمت میں لکھی گئی تھی۔اب تو بس سوائے صبر کے کوئی چارا نہ تھا۔
:::::::::::
آگئے۔۔۔مل گئی آپ کو اپنی بیوی سے اجازت گھر سے باہر نکلنے کی۔وہ اس کے سامنے بیٹھا ہو ا تھا۔جب نتاشا نے طنز کیا۔ذریت نے سر اثبات میں ہلا دیا�آایک خوبصورت عورت بھی حسد کر سکتی ہے۔مجھے اندازہ نہیں تھا۔ذریت کم کم مسکراتا تھا۔اب بھی بغیر مسکرائے کہا۔تو نتاشا دلکشی سے مسکرا دی۔
ہنی حسد کیسا؟وہ میرے سے زیادہ خوبصورت تو نہیں ہوگی۔اور ویسے بھی جو چیز اس کے پاس میری کچھ مصلیحت کے تحت ہے۔میں اس کو ہمیشہ تو اس کے پاس رہنے نہیں دوں گی۔اور ہم بہت جلد شادی کر لیں گے۔تب وہ ہماری زندگی میں کہیں نہیں ہو گی۔پھر اس طرح کی حالت میں حسد نہیں بنتا۔البتہ مجھے اس پہ ہنسی ضرور آتی ہے۔بیچاری تم سے شادی پہ پتہ نہیں کتنی خوش ہوگی۔فرنڈز کے سامنے کتنا اترائی ہو گی۔وہ بالکل اپنی سوچ کے تحت بات کر رہی تھی۔
ذریت بے ختیا ر لمبی سانس لے کر رہ گیا۔ناشتے کی میز پہ اس کے طنز وہ سُن چکا تھا۔اور جس طرح سے اُس نے ذریت کو اگنور کیا تھا۔یہ بات اس کے لئے عجیب بھی تھی۔اور ناگوار بھی۔۔۔
کیا ہم کوئی اور بات کریں۔اس نے ناگواری سے کہا۔تو نتاشا جیسے کِھل ہی گئی۔
ہاں ضرور۔۔۔
ویسے ذریت اگر ڈیڈ نے کوئی پرابلم کیا تو؟میرا مطلب ہے۔کہ وہ ابھی تک یہ نہیں جانتے ۔کہ میں اسفند سے منگنی ختم کر چکی ہوں۔جب اُنہیں پتہ چلے گا۔وہ مجھے چین بھیجنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔تب ۔۔۔تب کیا ہوگاذریت۔اسے صرف اسی بات کا خوف تھا۔ذریت جو ٹانگیں سیدھی کئے۔کوفی شوپ میں بیٹھا۔ارد گِرد کے لوگو ں کو دیکھ رہا تھا۔نتاشا کی بات پہ سر اثبات میں ہلا یا۔
تو مائی ڈئیر۔میں وہاں بھی جا سکتا ہوں۔اور بے فکر رہو۔میں خود تمہارے ڈیڈ کے پاس جاؤں گا۔مجھے یقین ہے۔کہ میرا سٹیٹس وہ اسفند اکرام سے کم نہیں پائیں گے۔نتاشا نے جوش میں سر ہلا یا تھا۔اسے خامخوہ شک و شباہت میں نہیں پڑنا چاہیے تھا۔
ذریت آپ نے اپنی بیوی کی کوئی تصویر نہیں دیکھائی۔مسکرا کر اس نے سامنے بیٹھے ذریت سے کہا تھا۔وہ آنکھیں سکیڑ کر اُسے دیکھنے لگا۔
تم اُسے دیکھ کر کیا کرو گی۔
بس ویسے ہی ۔۔۔میں دیکھنا چاہتی تھی۔کہ آپ کی جلد ایکس ہو جانے والی وائف کیسی ہے۔مسکراہٹ دبا کر اُس نے کہا۔تو ذریت ٹانگیں سیدھی کر کے بیٹھ گیا۔اور سامنے پڑی کافی پینے لگا۔
میرے پاس اس کی کوئی تصویر نہیں ہے۔اور اب بات یا تو بدل دو یا پھر مجھے اجازت دو۔وہ ہمیشہ بات دو ٹوک انداز میں ہی کرتا تھا۔اب بھی دو ٹوک کہا تو وہ مسکرا کر سامنے چہرے پہ پڑتے بالوں کو دائیں کان کے قریب سے انگلی پہ فولڈ کرنے لگی۔
جیسا آپ کہو۔
::::::::::::
عصر کی نماز کا وقت تھا۔وہ ابھی نیند سے اُٹھی تھی۔ماہ نور کا آج ولیمہ تھا۔سیڑھیاں اُترتے اُسے یاد آ گیا۔کل کا دن بہت خوبصورت گُزرا تھا۔ماہ نور کی رُخصتی پہ اسے بہت مزہ آیا تھا۔بابر بھائی نے خوب چُٹکلے چھوڑے تھے۔وہ مسکراتی آنکھیں ملتی، لاؤنج میں آ گئی۔
لاؤنج میں اُنچی آواز میں ٹی وی چل رہا تھا۔وہ وہیں صوفے پہ بیٹھ گئی۔اور چینل سرچ کرنے لگی۔
ٹی وی دیکھنے کے دوران وقفے وقفے سے کیچن سے برامد ہونے والی کھٹ پٹ کی آوازین بتارہی تھیں۔کہ واہاں کو ئی موجو دہے۔
پھو پو اگر آپ ہیں تو پلیز ایک کپ چائے بنا دیں۔سر میں بہت درد ہے۔سر میں درد متواتر تھا۔سونے کے باوجود سر کی کل شام سے ہونے والی درد بالکل نہیں جا رہی تھی۔
پھوپو تو نہیں مگر تمہاری چاچی ضرور ہوں۔۔۔چچی کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا۔فرح صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔جھٹ سیدھی ہوئی۔
مجھے لگا پھوپو ہیں۔چائے ان کے ہاتھ میں دیکھتے اس نے کہا تھا۔وہ مسکرا کر اس کی جانب بڑھیں،
کوئی بات نہیں!جاؤ ذرا یہ ڈرائینگ روم میں چائے دے آؤ۔تب تک میں تمہارے لئے بھی چائے ڈال دیتی ہوں۔کہنے کے ساتھ اُنہوں نے کپ اُس کی طرف بڑھایا تو سوالیہ انداز میں ان کو دیکھتی اُٹھ گئی۔
کون۔۔۔کون ہے ۔ڈرائینگ روم میں؟
کوئی غیر نہیں ہے۔۔۔کہہ کر وہ مُڑی تھیں۔مگر پھر اس کو وہیں کھڑا دیکھ کر رک گئیں۔
تم ابھی تک کھڑی ہو۔ارے بھئی جاؤ بھی۔اب کی بر اُنہوں نے جانے کے لئے سامنے کی جانب ڈارئینگ روم کو اشارہ کیا۔تو وہ سر ہلاتی بڑھ گئی۔
اس نے جیسے ہی ڈرائینگ روم میں قدم رکھا۔وہ ایک دم گڑبڑائی تھی۔اسے اُمید نہیں تھی۔کہ اُدھر کاشف ہوگا۔وہ ایک لمحے کو رکی۔مگر پھر باروعب چال چلتی آگے بڑھ گئی۔کاشف جو سر جُھکائے چچی کے لاڈلے کو پڑھانے میں مصروف تھا۔اس کے آنے پہ سر اُٹھا کر مسکراتا اُسے دیکھنے لگا۔
فرح نے خاموشی سے کپ میز پہ رکھ دیا۔اور ابھی مُڑی تھی۔جب پشت پہ پڑنے والی آواز پہ رکنا پڑا۔
شائستہ آپ کو گھر پہ بلا رہی تھی۔۔۔
جی؟
شائستہ میری بہن۔۔۔اس نے مجھے آپ کو پیغام دینے کو بولا تھا۔مگر آپ شائد کہیں گئیں ہوئی تھیں۔۔۔ویسے آپ کہاں گئی تھیں۔؟ہاتھ میں پین پکڑے وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے اُسے دیکھتا پوچھ رہا تھا۔فرح کو اس کا سوال اور اس کا انداز دونوں بُرے لگے تھے۔
کیوں؟آپ کو اس بات سے کیا۔میں کہاں گئی تھی۔اور اپنی بہن سے بول دیجئے گا۔کہ میں مصروف ہوں۔اگر ملنا ہو تو گھر آ جائے۔اس نے روکھائی سے کہا۔تو کاشف بھی سر اثبات میں ہلاتا مسکرا دیا۔
میرے خیال میں آپ کو میرا سوال پسند نہیں آیا۔
نہیں!آپ کا خیال سراسر غلط ہے۔خیر یہ چائے چچی نے بھیجی ہے۔پی لیجئے گا۔کہہ کر وہ رکی نہیں تھی۔کاشف نے ایک ابرو اُٹھا کر بغور اُسے دیکھا۔اور پھر سر جھٹک کر واپس کام کی متوجہ ہو گیا۔
اتنی دیر لگا دی چائے دینے میں۔۔۔چچی نے اسے آتا دیکھ کر کہا تھا۔وہ صوفے پہ پاؤں چڑھا ئے بیٹھیں۔کوئی ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھیں۔فر ح کو ان کا انداز ناگوار گُزرا مگر خاموش ہی رہی۔
یہ تمہاری چائے پڑی ہے پی لو۔ویسے اب تک تو تھنڈی ہو چکی ہوگی۔۔۔چینل سرچ کرتے ہوئے اگرچہ لئے دئے انداز میں کہا تھا۔مگر فرح خان کوئی بچی نہیں تھی۔کہ ان کا رویہ اور طنز نہ سمجھتی۔
چلیں کوئی بات نہیں ۔آپ کے آگے ایک چائے کی کیا قیمت۔۔۔آپ کو پتہ ہے۔کاشف بھائی کہہ رہے تھے۔کہ وہ چائے نہیں پئیں گے۔مجھے سخت بُری لگی ان کی یہ بات۔بھلا کیا تُک بنتی ہے انکار کی۔آپ نے بیٹا سمجھ کر اتنے پیار سے چائے بنائی۔اور میں بھائی سمجھ کر لے کر گئی ۔مگر کیا کہنے خون جو سفید ہو گیا۔آگے سے اور بولے۔کہ چائے کچھ ایسی اچھی بھی نہیں ہوتی ۔لو اب بھلا یہ کوئی بات تھی کرنے والی ۔صفاچٹ جواب سُن کر میرا تو دل ہی کھٹا ہو گیا۔سوچا لے جاؤں چائے واپس ۔بے قدرِ کو بھلا آپ کی محبت کی کیا قدر۔مگر پھر منت کر لی۔کہ آپ کا خامخواہ دل کھٹا ہو گا۔صوفے سے پاؤں لٹکا کر بیٹھتے ،اس نے خاصی لمبائی اور صفائی سے لیٹ آنے کی وجہ بیان کی تو چچی پہ گویا گھڑوں پانی پڑا۔ان کا کہاں خیال تھا۔کہ وہ اتنا تڑ تڑ کر جائے گی۔ایک ناگوار نظر اس پہ ڈال کر ٹی وی کی آواز بلند کردی۔تو فرح خان جو بڑی معصومیت سے جواب دے کرمزے دار چائے کی چُسکیاں لے رہی تھی دھیمے سے مسکرا دی۔
::::::::::::
ماہ نور یہ دادی نے دیا ہے۔یہ پہن لو۔۔۔وہ اس وقت پستہ اور گولڈن رنگ شرارے میں سر پہ گولڈن رنگ ہی دوپٹے کو بیوٹیشن سے سیٹ کروانے میں مصروف تھی۔جب مریم آپی اندر آئیں۔ان کے ہاتھ میں ایک جیولری باکس تھا۔
ماشاء اللہ بھابی صاحبہ آپ تو غضب ڈھا رہی ھیں۔مریم آپی نے سچ میں اس کی تعاریف دل سے کی تھی۔کہ وہ اپنے تمام ملکوتی حُسن کے ساتھ۔آسمان سے اُتری پریوں کی شہزادی لگ رہی تھی۔اُنہوں نے بڑھ کر اس کے گال پہ بوسہ لیا۔تو ماہ نور مسکرا دی۔
تم جانتی ہو۔تمہیں دیکھنے کے بعد مجھے یقین ہے۔کہ ذریت کسی دوسری عورت کو دیکھنے کی کبھی غلطی نہیں کرے گا۔بس ہمت سے کام لینا۔ان کے لہجے میں ہمیشہ کی طرح کی محبت اور بڑی بہنوں والا مان تھا۔ماہ نور نے سر ہلا دیا۔
آپی آپ کی بھابی جتنی صورت کی خوبصورت ہے۔اُتنی ہی سیرت کی بھی خوبصورت ہے۔ذریت بھائی سچ میں بہت خوش قسمت ہیں ۔۔۔مریم آپی جو بیوٹیشن کو دیکھ کر بات سُنتے مسکرا رہی تھیں۔اختتام پہ ماہ نور کو دیکھاتھا۔
اوف اللہ اتنی تعاریفیں۔۔۔اب بس بھی کرو آپ لوگ۔شرما کر کہنے پہ۔جہاں مریم آپی حیران ہوئی تھیں۔وھیں بیوٹیشن بھی ہنس دی تھی۔
توبہ ماہا تم شرما رہی ہو۔اُنہیں یقین نہیں آیا تھا۔کوئی اتنا معصوم کیسے ہو سکتا ہے۔
آپ لوگ ایسی باتیں کرو گی۔تو کوئی بھی شرما جائے گی۔اس نے ایک بار پھر معصومیت سے کہا۔تو مریم آپی بھی مسکرا دیں۔
اچھا باقی باتیں بعد میں ۔۔۔پہلے یہ پہن کے دیکھاؤ۔ڈبہ کھول کر اُنہوں نے سامنے کیاتھا۔وہ ایک خوبصورت سا بھاری گولڈ کا سیٹ تھا۔جس کا ڈیزائین نہایت باریک اور روائیتی تھا۔ماہ نور کو وہ بہت پسند آیا تھا۔
واہ آپی دادی جان کی پسند تو بہت کمال ہے۔وہ سراہے بغیر نہ رہ سکی۔
ہاں تمہیں دیکھ کر ہم سب کو بھی یقین ہو چکا ہے۔مریم آپی نے لاڈ سے ہار اس کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہاتو وہ محض مسکرا دی۔
بہت اچھا لگ رہا ہے۔ماہ نور اللہ آپ کی زندگی میں آپ کی قسمت میں کرے۔آمین۔۔۔اوکے آپی جی۔اب میں جاتی ہوں۔امی کے ساتھ گھر سے آؤں گی۔اپنا سامان اُٹھاتے بیوٹیشن تیز تیز بولتی کہہ رہی تھی۔۔اور پھر مریم آپی کے سر ہلاتے ہی باہر بھی نکل گئی۔
ماہ نور ذریت کا موڈ صبح کچھ آف تھا۔وہ جب گھر آیاماتھے پہ دس بل ساتھ لایا تھا۔اس کا ہاتھ تھامے وہ کہہ رہی تھیں۔ماہ نور سُنتی رہی۔
کیوں وجہ پوچھی آپ نے؟
ارے میں وہی تو پاچھنے لگی تھی۔تم سے کہ تمہیں بتایا اس نے کچھ۔دادی سے کہہ رہا تھا۔کہ کیا لڑکی چنی ہے میرے لئے گھمنڈی اور پتہ نہیں کیا کیا۔مسکراہٹ دباتے وہ کہہ رہی تھیں۔ماہ نور کا منہ کھول گیا۔
توبہ توبہ ۔۔۔آپی آپ کا بھائی کتنا جھوٹا ہے۔میں کب گھمنڈی ہوں۔گھمنڈی تو وہ خود ہیں۔
اچھا۔جب میں کچھ بول دوں تو۔تمہارا شوہربن جاتا ہے۔اور جب تم کچھ بولو ۔تو میرا بھائی۔۔۔اُنہیں مزہ آ رہا تھا۔ذریت نے کچھ بھی ایسا دادی سے نہیں بولو تھا۔وہ جانبوجھ کرماہ نور سے جھوٹ بول رہی تھیں۔تاکہ ماہ نور کے دل میںیہ بات نہ آئے کہ۔اس نے ایک غلط انسان سے شادی کی ۔جس کو اس کی پروا ہی نہیں تھی۔
ہاں تو ؟آپ کا بھائی ہے۔ہی اس قابل۔نا ک سے مکھی اُڑا کر کہا۔تو وہ مسکرا دیں۔
اچھا بات سُنو۔۔۔باہر جب تمہیں لے جایا جائے گا ناں۔تو وہاں آذر کی امی اور اس کی بہن بھی ہوں گی۔ان سے ضرور ملنا۔اور کھڑے ہو کر ملنا۔وہ ذریت کو اور مجھے بہت چاہتی ہیں بالکل اپنی بیٹی کی طرح۔ان کی تاکید پہ اس نے سمجھ کر سر ہلایا ۔تو وہ اس کا گال تھپ تھپاتی کمرے سے نکل گئی تھیں۔
ماہ نور نے ایک نظر خالی دروزے کی راہ داری کو دیکھا۔اور پھر مسکراتی شیشے کے سامنے پڑے سٹول پہ بیٹھ گئی۔اور شیشیے میں اپنا آپ دیکھنے لگی۔
کہتی تو آپی سچ ہی ہیں۔مسکرا کر شیشے میں دیکھتے ہونٹ کے قریب سے سرخ لپسٹک کو درست کرتے اس نے دل میں سوچا تھا۔اور اس سے پہلے کہ وہ اپنی خوبصورتی کی چند قصے اور پڑھتی۔کوئی بہت تیزی سے کمرے کا دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا تھا۔ماہ نور نے نووارد کو شیشے کے عکس میں دیکھ لیا تھا۔مسکرا کر مُری۔
ذریت جو ماہ نور کو کچھ بولنے والا تھا۔اسے دیکھ کر ذرا دیر کو ٹھٹکا۔مگر پھر اپنے آپ کو سنبھال کر سیدھا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا۔ماہ نور بھی سٹول سے اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
تم ابھی مریم آپی سے میری چغلیاں کر رہی تھی ناں۔ذریت کی بات پہ ماہ نور یک دم گڑبڑائی تھی
چغلیاں؟کیسی چغلیاں۔۔۔اور میں کیوں کرنے لگی۔آپ کی چغلیاںںں۔اس نے چغلیاں لفظ گھسیٹ کر لمبا کر دیا تھا۔
میری بات سُنو۔۔۔اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھو گی ۔تو تمہارا ہی مستقبل محفوط ہوگا۔ورنہ۔۔۔
ورنہ؟اس نے ابرو اُٹھا کر ایسے دیکھا۔گویا کہہ رہی ہو۔جاؤ جو کرنا ہے کر لو۔
ورنہ یہ مس ماہ نور ابتسام ۔کہ مجھے تمہں گھر بھیجنے کے لئے کسی ویزہ کے دفتر نہیں جانا پڑے گا۔۔۔یعنی اپنے چھوٹے سے ذہن میں یہ بات بیٹھا لو۔کہ مجھے صرف تمہاری ایک غلطی کی ضرورت ہے۔پھر آگے گھر تک کا رستہ تم با آسانی تیہہ کر لو گی۔مسکرا اس نے اس کے دائیں کو گال تھپ تھپا کر کہا۔تو ماہ نور بھی جواب میں مسکرا دی۔وہ دونوں اس وقت کمرے کے وسط میں ایک دوسر کے مقابل کھڑے تھے۔
پہلی بات اپنی تصیح کر لیجئے میں اب مس ماہ نور ابتسام نہیں مسز ماہ نور ذریت حسن ہوں۔دوسری بات آپ کی اس ساری لفاظی سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔کہ اس گھر میں کوئی ایسی شخصیت ضرور ہے۔جس کے بول بالے کی وجہ سے۔آپ سرِ عام غنڈہ گردی نہیں دکھا سکتے۔اور یقیناًوہ المعروف شخصیت میرے حق میں ہوں گیں۔یعنی کہ میری اور آپ کی۔۔۔ہم سب کی پیاری دادی جان۔ولیمے کی دُلہن تھی۔وہ مگر زبان ایسے چلا رہی تھی۔کہ اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا۔کہ شرماہٹ تو اس کے قریب سے بھی نہ گُزری ہو گی۔ذریت کا دل چاہا اس کو پکڑ کر کمرے سے باہر نکال دے ۔مگر افسوس صد افسوس کے وہ جو بھی بول
رہی تھی ۔بالکل سچ تھا۔اور یہ بھی سچ تھا۔کہ قدرت نے اس جیسے ٹیڑھے انسان کو کیا چُن کر بیوی دی تھی۔جو اس کی بہن اور دادی کی لاڈلی تھی۔وہ گہرا سانس لے کر رہ گیا۔ابھی کچھ عرصہ اسے برداشت کرنے کے سوا اور کوئی چارا نہ تھا۔
مسز یا مس جو بھی تم کہو۔۔۔میری بات دھیان سے سُنو(ماہ نور نے دائیاں کان سامنے کر لیا تھا۔)اس گھر کو اپنا گھر سمجھ کر یہاں رہنے کی بے وقوفی ہر گز مت کرنا۔واپسی میں تکلیف تمہیں ہی زیادہ ہوگی۔دوسری بات دادی اور آپی سے کمرے کی کوئی بھی بات ڈسکس کرنے کی غلطی سے بھی غلطی مت کرنا۔ورنہ میں کسی کی بھی پروا کئے بغیر تمہیں یہاں سے چلتا کر دوں گا۔اور۔۔۔ابھی وہ کچھ اور بھی بولنے والا تھا۔کہ ماہ نور بول اُٹھی ۔
آپ ایک کام کریں ایک پرچہ تیار کر کے مجھے دے دیں۔کہ مجھے کیا کرنا ہے۔اور کیا نئیں۔مسکرا کر اس نے اس کے کندھے سے اندیکھی دھول صاف کرتے کہاتھا۔لہجے میں مسکراہٹ تھی ۔ذریت اس کی لگام کھینچنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔جس کا وہ خوب فائدہ اُٹھا رہی تھی۔
ایک اور بات مجھے زیادہ بولنے والی عورتوں سے سخت چڑھ ہے۔سو اپنی اس زبان کو بھی ذرا قابو میں رکھا کرو۔اس نے کہا تو بہت ٹھہر ٹھر کر تھا۔مگر لہجہ صاف دل کی حالتِ زار بیان کر رہا تھا۔
ماہ نور کھل کھلا کر ہنسی تھی۔۔۔اس کے ہنسنے کا انداز بہت دلفریب معلوم ہوا تھا۔ذریت گھور کر رہ گیا۔
جب مجھے فرق نہیں پڑتا ۔کہ آپ کیسے ہو۔تو آپ بھی مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو ناں۔وہ جانبوجھ کر اب اسے تنگ کر رہی تھی۔یہ مریم آپی کی بات کا اثر تھا۔
تمہیں ایک دن میں ہی یہ خوش فہمی کیوں ہونے لگی۔کہ مجھے تمہاری پروا ہے۔اسے اس کی دماغی حالت پہ شک سا گُزا تھا۔
ماہ نور مسکرا دی۔اور مُڑ کر بیڈ پہ جا بیٹھی۔اُنہیں معلوم بھی نہیں ہوا تھا۔اور دونوں ایک دوسرے سے چُھپن چُھپائی کھیلنے لگے تھے۔
ذریت نے ایک نظر اس خود پسند لڑکی کو دیکھا۔اور پھر خود کو شیشے میں دیکھنے لگا۔اس وقت وہ سیاہ کوٹ سوٹ میں ملبوس تھا۔اور بالوں کو جیل سے سیٹ کرکے ایک سائڈ پہ لاکئے ۔وہ قدرِ بُردبار اور باعتماد لگ رہا تھا۔اس نے نیک ٹائے کو ذرا سیٹ کیا۔شیشے میں سے ماہ نور کی پُشت کو دیکھا۔اور پھر ہاتھ میں پکڑے فون کوچارجنگ پہ لگانے کے لئے سویچ بورڈ کی جانب بڑھ گیا۔ماہ نور بھی اپنے فون پہ بابر بھائی سے میسجنگ میں مصروف تھی۔
::::::::::::
ماہا میری گُڑیا میرے ساتھ جائے گی۔بابا اس کے سامنے کھڑے اس سے پوچھ رہے تھے۔ماہ نور کی نظریں ان کے ہاتھ میں پکڑے سفید رومال پہ تھیں۔اس نے رومال کو دیکھتے آنکھیں پٹپٹا کر سر نفی میں ہلایا۔تو ان کے چہرے پہ مایوسی اور افسردگی کے سائے لہرانے لگے۔
بابا آپ کہاں جا رہے ہیں؟ ان کے چہرے پہ مایوسی دیکھ کر اسے دُکھ ہو ا تھا۔
میں۔۔۔میں اُدھرپہاڑوں میں جا رہاں ہوں۔ادھر ایک جھرنا بہتا ہے۔اس جھرنے کے پاس ایک جھیل ہے۔جس میں بطخیں تیرتی ہیں۔وہ دونوں اس وقت کسی گھر کی چھت پہ کھڑے تھے۔اور اسی چھت سے بہت دور پہاڑ تھے۔جس کی طرف ان کااشارہ تھا۔
ماہ نور سہم کر انہیں دیکھنے لگی۔بابا آپ مجھے چھوڑ کر وہاں چلے جائیں گے؟اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
آپ وہاں کیوں جا رہے ہیں۔وہاں اچھی بطخیں نہیں ہیں۔وہ ان کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ چکی تھی۔وہ انہیں وہاں جانے نہیں دینا چاہتی تھی۔وہ ان کو کھونے سے ڈرتی تھی شائد۔
مگر جواب میں بابا سر نفی میں ہلاتے اسے اس سے اپنے ہاتھ چھڑوا رہے تھے۔ماہ نور ان کے قدموں میں بیٹھ گئی۔اور ان قمیض کے دامن کو مُٹھی میں دبا لیا۔
بابا اگر آپ چلے گئے ۔تو آپ کی ماہا آپ کے بغیر کیا کرے گی۔میں۔۔۔میں تو مر جاؤں گی بابا۔وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
نہیں میری جان ضد نہیں کرتے اور بابا کی گڑیا بہت بہادر ہے۔وہ رہ لے گی بابا کے بغیر۔۔۔کہیں بہت پیچھے بابا کے بچپن میں کہے گئے الفاظ پس منظر میں چل رہے تھے۔وہ محض آواز سُن سکتی تھی۔ماہ نور رونے لگی۔وہ انہیں جانے نہیں دے رہی تھی۔اور بابا اس سے ہاتھ چھڑوا رہے تھے۔اور مُڑ مڑ کر دور پہاڑ کی جانب بھی دیکھ رہے تھے۔اس سے پہلے کہ وہ تھک کر ان کا ہاتھ چھوڑتی۔اس کی آنکھ کُھل گئی۔
ایک جھٹکے سے ہلق سے سانس کھینچتے وہ اُٹھ بیٹھی۔۔۔کمرے میں نیم تاریک تھی۔اور اس نیم تاریکی میں بھی اس کا پسینے اور آنسوں سے تر چہرہ دیکھا جا سکتا تھا۔ چہرے پہ رقم خوف بھی آسانی سے پڑھا جا سکتا تھا۔
اس نے حوش کی دنیامیں یقین پانے کے لئے تر چہرے اور گردن پہ ہاتھ پھیرا۔اور پھر قریب ہی دھرے پانی کے جگ سے پانی گلاس میں انڈیل کر پینے لگی۔اس کا گلا خشک ہوتا ۔کانٹا بن چکا معلوم ہوتا تھا۔پانی پینے سے گلا ذرا کھولا تو اس نے کمرے میں ایک تائرانہ نظر ڈالی تھی۔کمرے میں نیم تاریکی اس کے عصاب کو شل کر رہی تھی۔اس نے اُٹھ کر لائٹ جلا دی،اور پھر واپس اپنی جگہ پہ بیٹھی آنکھیں موند کر بیڈ سے سر ٹکا گئی۔اس کا جسم ہلی کپکپی کا شکار تھا۔وہ بابا سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔۔۔اور اس کا دماغ اسے بتاتا تھا۔کہ یہ خواب کسی نہ کسی طرح سچ ہو جانے والا ہے۔مگر دل کہتا تھا۔کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔حوصلہ رکھو، یقین رکھو۔
ذریت رات سے کمرے میں نہیں تھا۔وہ روز رات میں کمرے سے غائب ہو جاتا تھا۔ماہ نور نے ایک نظر پھر سے کمرے میں ارد گرد دیکھا۔اور ابھی واپس لیٹنے کا سوچ ہی رہی تھی۔جب وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔سر جُھکا ئے وہ کچھ سو چتا اندر آ یا تھا،مگر پھر ذرد چہرے کے ساتھ سامنے بیٹھی ماہ نور کو دیکھ کر ٹھٹک گیا۔بیس منٹ پہلے جب اس نے دیکھا۔تب وہ سو رہی تھی۔اور اب وہ واپس آیا تو وہ پریشان سی بیٹھی جاگ رہی تھی۔
ماہ نور نے اس کے ہاتھ مین فون دیکھا۔اور پھر سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھتی بیڈ سے اُٹھ کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
میرے بابا؟اس کے منہ سے جو لفظ نکلا تھا۔وہ ذریت کے لئے غیر یقینی تھا۔وہ اسے بتانے آیا تھا۔کہ اس کے والد صاحب ہسپتال میں ہیں۔مگر اس سے پہلے ہی وہ کہہ دیا تھا۔ذریت نے نگاہ چورائی۔
ماہ نور انکل ہسپتال میں ہیں۔انہیں مائنر ہارٹ اٹیک آیا ہے۔اس نے ابرار بھائی کے کہنے پہ لفظ مائنر بولا تھا۔ماہ نور لڑکھ گئی۔اگر تبھی ذریت اسے سہارا نہ دیتا ۔تو شائد وہ گر جاتے۔ذریت نے اسے قریب ہی بیڈ کی پائنتی پہ بیٹھا دیا۔
میرے با۔۔۔بابا اس کی آنکھون میں وحشت و بے یقینی تھی۔ذریت ان آنکھوں کے جزبات کو سمجھ سکتا تھا۔اسے یاد تھا۔جب اسے آذر کی موت کا پتہ چلا تھا۔وہ بے یقین ہی رہا تھا۔
یقین اور بے یقینی کے درمیان جھولنے والا لمحہ سب سے زیادہ تکلیف دے اور صبر آزمہ ہو تا ہے۔وہ سمجھ سکتا تھا۔
وہ ٹھیک ہیں۔۔۔ڈاکڑز انہیں جلد گھر بھیج دیں گے۔وہ سب کچھ بول رہا تھا۔جو ابرار نے اسے بولنے کے لئے کہا تھا۔
ماہ نور نے سر نفی میں ہلایا۔میں جانتی ہوں ۔وہ ٹھیک نہیں ہیں۔پیچھلی بار جب اُن کا ایکسڈنٹ ہوا تھا۔تب بھی سب نے میرے سے چُھپایا تھا۔مگر مجھے پتہ تھا۔۔۔اب بھی مجھے پتہ ہے۔کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں ۔مگر میں آپ سے یہ نہیں بولوں گی۔کہ یہ جھوٹ ہے۔کیونکہ میں اس جھوٹ پہ یقین کر لینا چاہتی ہوں۔وہ بول رہی تھی ۔اور بھل بھل کرتے اس کے آنسو گالوں کو بھگوتے اس کی قمیض کے دامن اور گلے میں جزب ہوتے جا رہے تھے۔ذریت نے گہرا سانس لیا ۔چلو آؤ چلیں۔ان سے ملنے چلتے ہیں۔پھر تمہیں خود ہی یقین آ جائے گا۔وہ اسے یہ یقین پتہ نہیں کیوں دلانے چلا تھا۔کہ وہ درد سے بھاگ رہی ہے۔وہ سہے اور خود کو مضبوط بنائے۔
خوف سے اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔میں ۔۔۔میں انہیں نہیں جانے دوں گی۔وہ بطخیں اچھی نہیں ہیں۔وہ جو کہہ رہی تھی ۔ذریت اس خواب سے نا واقف تھا۔البتہ وہ اس کے اندر کے جزبات کو ضرور سمجھ رہاتھا۔وہ اس سب سے گُز چکا تھا۔وہ تیزی سے سر ہلاتا واپس مُڑ گیا۔وہ مریم آپی کو لینے گیا تھا۔انہوں نے ہی اسے وہاں لے جانے کو بولا تھا۔
وہ متواتر رونے کے ساتھ نفی میں سر ہلانے میں مصروف تھی ۔جب مریم آپی اس کے ساتھ آئیں۔ساتھ ہی دادی جان بھی تھیں۔
آپی میرے بابا۔۔۔انہیں دیکھتے ہی ہونٹ لٹکا کر آنسوں کو بہاتے اس نے کہا۔تو مریم آپی بے اختیار اس کی جانب بڑھ گئیں۔دادی پریشانی سے اسے دیکھتیں سامنے صوفے پہ بیٹھ رہی تھیں۔
ماہ نور۔۔۔رو مت ۔اللہ پاک انکل کو صحت دیں۔وہ ٹھیک ہیں۔تم رو کیوں رہی ہو۔ان کے لہجے میں درد تھا۔ ماہ نور نے نفی میں سر ہلا یا۔
نہیں !نہیں ہیں وہ ٹھیک۔
مریم آپی نے اس کا سر اپنے کندھے سے ٹکا لیا۔رو مت ۔۔۔ہم ابھی ان سے ملنے جاتے ہیں۔
ماہ نور میری بچی رو مت۔وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔شاباش میرا بہادر بچہ روتے نہیں۔دادی کا پُر شفیق سا لہجہ تھا۔مگر اس وقت وہ بھی اثر نہیں کر رہا تھا۔
دادی میرے بابا میرے خواب میں آئے تھے۔وہ۔۔۔وہ مجھے چھوڑ کر جارہے تھے۔وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔مریم آپی کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ماہا میری جان رو مت۔میرا یقین کرو ۔وہ ٹھیک ہیں۔آؤ ہم ان کے پاس چلتے ہیں۔ذریت گاڑی نکال چکا تھا۔اور اب ہارن بجا رہا تھا۔
جاؤ میرا بچہ خیر سے جاؤ۔میں صبح آؤں گی۔اور اب رونا مت۔دادی دعا کریں گی۔وہ محبت سے کہہ رہی تھیں۔وہ سر ہلاتی اُٹھ گئی۔اور کندھے پہ جھولتے دوپٹے سے ہی حجاب باندھنے لگی۔مریم آپی بھی اُٹھ گئیں تھیں۔
:::::::::::
ذریت اسفند اکرام اس لڑکے کو ڈھونڈ رہا ہے۔اکمل اس کے سامنے بیٹھا کوفی سے شغف اُٹھاتا کہہ رہا تھا۔ذریت کی نظریں کہیں دور تھیں۔اس نے اکمل کی بات نہیں سُنی۔
ذریت۔۔۔اس نے اسے کندے سے پکڑ کر ہلا یا ۔تو وہ حوش کی دنیا میں لوٹا۔
کیا۔۔۔؟
ہاں ڈھونڈنے دو۔مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا۔وہ کہہ رہا تھا۔ساتھ ہی اس کی نظریں سامنے لگے بڑے سے درخت پہ تھیں۔
ذریت تم کل رات سے جاگ رہے ہو۔بھابھی بھی ادھر ہی ہیں۔میرا مشورہ مانو تو انہیں لے کر گھر چلے جاؤ۔شام میں پھر آ جانا۔وہ کل رات سے ہسپتال میں تھا۔اور مسلسل جاگنے کی وجہ سے خاصا ڈسٹرب تھا۔
ہاں میرا بھی یہی خیال ہے۔سمجھ کر اس نے سر ہلایا ۔تو اکمل مسکرا دیا۔
ویسے اگر تم بُرا نہ مانو تو ایک سوال پوچھوں؟
ہم م کافی کو گھونٹ بھرتے اس نے اجازت دی تھی۔
تم نتاشا کے زیادہ قریب نہیں ہو رہے۔میرا مطلب ہے۔کہ ۔۔۔تم جو چاہتے تھے۔اس سے تم ہٹتے جا رہے ہو۔
ذریت نے جواب میں ایک گہری سانس لی ۔اور پھر جیب سے والٹ نکال لیا۔۔۔پتہ نہیں یار۔میری زندگی میں سب اپلٹ چل رہا ہے۔مجھے نہیں پتہ میرا انجام کیا ہو گا۔اس نے جس لہجے میں کہا تھا۔اس بات نے اکمل کو چونکا دیا تھا۔وہ سر ہلا کر رہ گیا۔
ماہ نور جاؤ تم گھر چلی جاؤ۔۔۔وہ بینچ پہ بیٹھی ۔۔۔تسبیح کرتی مسلسل ایمرجنسی روم کے باہر کھڑی لال بتی کو دیکھ رہی تھی۔جب ابرار بھائی آئے۔
نہیں میں نہیں جاؤں گی۔وہ ضد پہ اڑی تھی۔تبھی ذریت اور اکمل بھی آ گئے۔
ذریت تم سمجھاؤ اسے۔۔۔بات ہی نہیں سن رہی۔وہ اب ذریت کو کہہ رہے تھے۔ذریت نے ماہ نور کو دیکھا تھا۔جو مسلسل بس ایک جانب دیکھ رہی تھی۔اس کا چہرا میرون رنگ حجاب میں ذرد لگتا تھا۔
نہیں بھائی میں بابا کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔وہ ناراض ہوں گے۔اور افسردہ بھی۔سر ہلاتے اس نے ذریت کے کہنے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ذریت اس کے پاس کی کرسی پہ بیٹھ گیا۔بائیں جانب بابر بیٹھا تھا۔وہ چہرے سے خاصا تھکا ہوا لگتا تھا۔
ماہ نور ضد مت کرو۔میں یہں رہوں گا۔اور شام میں تمہیں بھی ساتھ لے آؤں گا۔چلو اب گھر چلیں۔مریم آپی کی بھی کال آ چکی ہے۔اس نے نرمی سے کہا۔تو ماہ نور کو جیسے جھٹکا لگا۔اس نے عجیب نظروں سے ذریت کو دیکھا تھا۔جس کے بعد اس پہ گھڑوں پانی پڑا۔
میں ۔۔۔نہیں ۔۔۔جاؤں گی۔اس نے رک رک کر مگر رعب سے کہا ۔تو ذریت ابرار بھائی کو دیکھ کر رہ گیا۔ابرار بھائی دیکھ رہے تھے۔وہ مسلسل ایک کی پوزیش میں بیٹھی تھی۔اور خاصی ذرد ہو رہی تھی۔
ماہ نور اگر تم گھر نہ گئی۔تو میں بابا کو تمہاری شکائت لگاؤں گا۔وہ تم سے ناراض ہو جائیں گے۔بابر نے اب کی بار انگلی اُٹھ کر تاکید کرنے کے انداز میں کہا۔تو باوجود ٹینشن کے ابرار مسکرا دیا۔اور ماہ نور کی آنکھون میں لبا لب آنسو بھر گئے۔بے دردی سے صاف کرتی تیزی سے وہاں سے اُٹھ گئی۔
چلیں۔۔۔آنکھوں میں غم کی نمی لئے اس نے ذریت کو دیکھے بغیر کہاتھا۔ابرار نے بڑھ کر اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر اسے رخصت کیا تھا۔ماہ نور روتی ذریت کے پہلو میں چلتی آ گئی۔اکمل وہیں رُکا تھا۔ذریت نے اسے خیال رکھنے کو بولا تھا۔
ذریت اس کے ساتھ قدم کے ساتھ قدم ملا کر چل رہا تھا۔مگر اس وقت وہ سوچ کسی اور کے بارے میں رہا تھا۔
::::::::::
کمرے کی نیم تاریکی میں ایک سایہ سا نظر آتا شخص اس وقت رائٹنگ ٹیبل پہ سر ٹکائے آنکھوں کو بند کئے مسلسل سوچنے میں مصروف تھا۔اس کی آنکھیں نم تھیں۔
ابرار کا دل پسیج رہا تھا۔وہ ڈیڈ کی لمحہ بہ لمحہ گِرتی حالت سے واقف تھا۔ان کا دل محض ۰۲ فیصد کام کر رہا تھا۔ان کے دونوں پاؤں سوج چکے تھے۔جنہیں اُنہوں نے چھپائے رکھا تھا۔کہ ماہ نور کی شادی میں رکاوٹ نہ پیدا ہو جائے۔اب شادی ہوئی ۔تو گویا زندگی کا پہیہ بھی لڑکھنے لگا۔
ابرار نے سر اُٹھا کر قریب ہی پڑی فائل اُٹھائی اور ورق گردانی کرنے لگا۔بابا کی رپورٹ میں ہر چیز واضح تھی۔کچھ بھی ہو سکتا تھا۔البتہ ڈکٹرز پُر اُمید تھے۔
اس نے اوراق الٹ پلٹ کرنے کے بعد اُنہیں ٹیبل کی دراز میں رکھنے کی غرض سے دراز کھولا۔تو اس کا ہاتھ جیسے ٹھٹکا ہو۔
ایک ہاتھ جتنا موبائل فون جس کی سیاہ سکرین بھی نیم اندھیرے میں نظر آ رہی تھی۔اس کی توجہ پا گئی تھی۔اس نے فائل واپس میز پہ رکھی ۔اور فون اُٹھ کر دیکھنے لگا۔فون کی سکرین اُپری بٹن کے کچھ لمحے کے دبائے جانے سے چمکنے لگی۔سکرین کے آن ہوتے ہی ،اس پہ کمپنی کا نام جلی حروف میں چمکنے لگا تھا۔اس نے سکرین پہ ہاتھ پھیر کر انجانا سا لمس محسوس کرنے کی کوشش کی ۔اور پھر شرمندہ سا ہوتامسکرا کر سر جھٹک گیا۔اس لڑکی کی یاد اس کے سہمے ہوئے کو خوبصورت سی میٹھی سی بے چینی عطا کر گئی تھی۔
فرح خان ایک ایسا کردار تھاابرار ابتسام کی زندگی کا جس کو سوچنے کے لئے اسے زیادہ سوچنا نہیں پڑا تھا۔غیر ایرادی طور پہ وہ اپنے آپ کو دیکھ کر سوچنے لگا تھا۔کہ شائد وہ سچ میں موٹا ہوتا جارہا ہے۔اس نے اپنی آواز کو بھی نوٹس کیا تھا۔مگر وہ اتنی بدھی نہیں تھی۔اسے حقیتاً دکھ ہوا تھا۔وہ بھلا کہاں سے موٹا تھا۔وہ تو بڑا ڈائٹ اور ہلتھ کونشئیس بندہ تھا۔ایک انجان لڑکی کی ایسی رائے نے اسے سوچنے پہ مجبور کیاتھا۔یا پھر اس آواز میں ہی ایسی سادگی،معصومیت اور نرماہٹ تھی۔کہ اسے ہر لمحہ وہ آواز اپنے کانوں میں رس گھولتی محسوس ہوتی۔اس نے تب ہر گز محسوس نہیں کیا تھا۔جب ماہ نور ہر روز اسے فارغ دیکھ کر اپنے اور فرح کے قصے خوب جوش سے سُناتی تھی۔وہ دلچسپی لیتا تھا۔اسے مزہ آتا تھا۔ایسی لڑکی کے بارے میں سُننے میں جو سچ میں بہت معصوم تھی۔سادہ دل تھی۔اور بہت پُر خلوص بھی۔اسے سہی محبت فرح خان سے تب ہوئی تھی۔جب اسے دیکھنے کا لمحہ قریب تھا۔وہ بے چین بھی تھا،خوفزہ بھی ہوا تھا۔اس کا دل چاہ رہا تھا۔وہ کمرے سے نکل جائے۔جتنی اسے دیکھنے کی بے چینی ہوئی تھی۔اس سے کہیں زیادہ وہاں سے اسے بغیر دیکھے چلے جانے کی خواہش تھی۔وہ خود کو مزید پرکھناچاہتا تھا۔دیکھنا چاہتا تھا۔اپنا متحان لینا چاہتا تھا۔مگر پھر نہ جانے کیا سوچا کہ وہ جا ہی نہ سکا۔
سکرین کے جگ مگ کرتے چہرے کو دیکھتے اس نے کچ لمحے کے لئے کچھ سوچا ۔۔۔اور پھر فون کے مختلف فیچرز دیکھنے لگا۔اس نے سب سے پہلے گیلکری کھالی تھی۔جس میں ایک سوائے پھول کے اور کوئی تصویر نہ تھی۔وہ سر جھٹک گیا۔چند لمحوں تک یوں ہی فون کو کھنگالتا رہا۔اور پھر آخر میں نوٹ پیڈ کھول کر بیٹھ گیا۔نوٹ پیڈ ک وہ کھول چکا تھا۔مگر ذہن اس وقت اس حالت میں نہ تھا۔کہ وہ فوری طور پہ کچھ لکھ پاتا۔سو ایک وصی شاہ کے کچھ اشعار تھے۔جو ذہن میں ایک جھماکے کے ساتھ آئے تو ۔وہی لکھنے لگا۔جس میں شاعر کہہ رہا تھا۔کہ
ہر اک شب مری تازہ عذاب میں گُزری
تمہارے بعد تمہارے ہی خواب میں گُزری
میں ایک پھول ہوں،وہ مجھ کو رکھ کے بھول گیا
تمام عمر اُسی کی ،کتاب میں گُزری
شعر لکھ کر اس نے سکرین واپس بند کی ۔فون دراز میں رکھا۔اور چابی اُٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔بابا کے پاس وہ ہسپتال جا رہا تھا۔
::::::::::::::
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...