رات کب کا اپنا سیاہ آنچل ہٹاتی جا چکی تھی۔وہ بستر پہ بیٹھی تسبیح پڑھنے کے ساتھ ساتھ ایک افسردہ سی نظرکمرے کے مغرب کی جانب بنی بڑی سی قد آدم کھڑکی سے باہر بنے گیراج کی طرف بھی ڈال رہیں تھیں۔رات ۱۲ بجے کے قریب وہ آیا تھا۔اور ۴بجے پھر دفتر چلا گیا تھا۔اس پوتے نے انہیں بہت تنگ کر رکھا تھا۔
کیا کروں میں اس بچے کا۔۔۔بس ہر وقت کام کام اور بس کام۔مجال ہے جو یہ ذرا وقت پہ کھانا کھا لے۔اب پتہ نہیں رات کو بھی کچھ کھایا تھا یا نہیں اور صبح منہ اندھیرے بھی ویسے ہی چلا گیا۔ان کو رہ رہ کر فکر ہو رہی تھی۔
ظفر۔۔۔ظفر بچے او کدھر ہو۔انہوں نے ملازم لڑکے کو بلند آواز میں پکارہ تھا۔
جی دادی جی۔اس نے گیلے ہاتھ صاف کرتے اندر جھانکا۔
یہ ذریت نے رات میں کچھ کھایا تھا۔یا پھر بھوکا ہی سو گیا میرا بچہ۔تسبیح پہلو میں رکھ کر انہوں نے اکھٹی کی ٹانگیں بھی دراز کیں۔
پتہ نہیں دادی جی۔میں تب سو چکا تھا۔بھائی جی کا پتہ نہیں کب آئے۔اور پھر کب گئے۔
دادی جان نے محض سر ہلایا تھا۔وہ اس وقت کچھ سوچنے میں مصروف تھیں۔
دادی جان میں توکہتا ہوں بھائی جی کی شادی کروا دیتے ھیں۔پھر دیکھئے گا کیسے وقت پہ گھر بھی آیا کریں گے۔اور کھانا بھی کھایا کریں گے۔وہ وہیں کنڈلی م مار کر بیٹھ گیا تھا۔
ہاں مجھے بھی یہی لگتا۔پر تمہارے بھائی جی مانیں تب ناں۔کچھ لمحے پہلے ان کا چہرا جو کھل سا گیا تھا۔یک دم بجھ بھی گیا ۔
لیں ۔۔۔۔ دادی جان وہ کونسا مسلہ ہے۔ظفر نے ناک سے مکھی اُڑائی ۔اپنی مریم باجی ہیں نہ ۔وہ منالیں گی بھائی جی کو۔۔۔ظفر ۸ سال سے ان کے ہاں ملازم تھا۔میٹرک بھی اس نے دادی جان کہ کہنے پہ یہیں سے کیا تھا۔اور پھر دادی جان ہی تھیں جنہوں نے اس کی مرضی سے اس کی خالہ کی بیٹی سے رشتہ کیا تھا۔وہ اچھے سے جانتا تھا۔کہ یہ جو ذریت بھائی جی ہیں ان کو صرف مریم آپی ہی لائن پہ لا سکتی ہیں۔اس لیئے جھٹ سے مشورہ دے ڈالا۔
لیکن دادی جان بھابی جی ہوں گی تو شادی ہوگی۔ایک اہم بات جیسے یاد آنے پہ بولا تھا۔
ارے بھئ وہ بھی اللّٰہ دے دے گا۔۔۔جاوٴ تم مجھے میرا فون لا کر دو۔وہ خاصی پرُجوش ہو کر بولی تھیں۔وہ سر ہلاتا باہر گیا۔اور پھر اگلے ہی لمحے فون پہ نمبر ملا کر وہ انہیں پکڑا چکا تھا۔
گھنٹی جا رہی تھی۔
____
اچھی بھلی زندگی سکون میں تھی۔پھر یہ امتحانات پتہ نہیں کہاں سے آ گئے۔وہ باغیچے میں بیٹھی اس وقت شام میں ڈوبتے نارنجی سورج کو دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔نارنجی سورج سے چھٹنے والی کرنیں بھی نارنجی ہی تھیں۔جنہوں نے مغرب کی سمت کے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔اور اب اس سمت کا دو رنگا آسمان خاصا دلکش لگ رہا تھا۔
چند دن رہ گئے تھے امتحانات میں اور پڑھنے کو دل نہیں کرتا تھا۔کتابوں کو دیکھتے ہی جان جانے لگتی تھی۔
اور حال یہ کہ ٹنشن سے اس کا رنگ پیلا پڑچکا تھا۔بابا نے اس کے پیلے چہرے کو دھیکتے ہی سمجھ لیا تھا کہ وہ امتحانات کی ٹنشن کو سر پہ سوار کر چکی ہے۔وہ اس کے پاس گھنٹہ بیٹھے سمجھاتے رہے تھے۔کہ ٹنشن لینے سے کچھ نہیں ہوگا۔میں اپنی بیٹی کے لیئے دُعا بھی کروں گا اور اس کے ساتھ رات میں جاگوں گا بھی۔انہوں نے شفقت سے اس کا ماتھا چوم کر کہا تھا۔لیکن شرط یہ کہ ٹنشن نہیں لینی۔ورنہ اینڈ میں جو پڑھا لکھا ہوگا سب غائب۔۔۔
نہیں بابا آپ نے صبح آفس بھی تو جانا ہوتا۔کوئی بات نہیں میں ٹھیک ہوں اس نے فکر سے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا تھا۔وہ دل کے مریض تھے اور ان کے لئے رات جاگنا بلکل بھی ٹھیک نہیں تھا۔
چلو اس با ت کا بھی فیصلہ ہو جائے گا۔لیکن خیر بات وہیں رہی کہ ڈھاک کہ تین پات۔۔۔ٹنشن بیگم کم کیا ہونی تھی اور بڑھ گئ تھی۔
اس نے گہری سانس لے کر دماغ کو پُرسکون کرنا چاہا۔اور پھر قدم اندر کی جانب بڑھا دئے۔
ابھی وہ لاوٴنج کے داخلی دروازے کو دھکیلنے والی تھی۔جب باہر کا گیٹ تیز آواز سے کھولا تھا۔اس نے مڑ کر دیکھا تو فرح کو اندر داخل ہوتے اور پھر اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ کھل گئی تھی۔ہفتے بعد جو ملاقات ہو رہی تھی۔
ہائے موٹی تم۔۔۔اگر قارئین کو لگ رہا ہے کہ فرح خان موٹی تھی۔تو ایسا بلکل بھی نہیں تھا۔وہ اتنی ہی خوبصورت اور سمارٹ تھی۔جس طرح کے لڑکیاں فرحت اشتیاق کے ناولز اور ڈراموں میں ہوتی ہیں۔یہ تو محض اس کا نام تھا۔
سلام نہ دُعا اور ملتے ہی شروع۔۔اُس نے بے زاری سے منھ بگاڑ کر کہا تھا۔
اچھا سوری یار ۔وہ بڑھ کر اس کے گلے لگی۔
بس اب یہیں کھڑی رکھو گی۔
ہاں چلو آوٴ۔۔۔وہ شرمندہ ہوتی اسے ساتھ لیئے اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔اور ملازمہ آنٹی کو جوس کا بول کر اسے لئے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔
کمرے میں چار سو نفاست تھی ایک سوائے اس کے بیڈ کے جہاں کتابیں بکھری پڑی اپنی بے حُرمتی پہ اپنے مالک کو کوسنے دے رہیں تھیں۔اس نے بڑھ کر جنوب کی جانب بنی قد آدم کھڑکیوں کے پٹ وا کر دئے۔فرح نے چادر اُتار کر صوفے کی پشت پہ سلیقے سےلٹکا دی ۔اور پھر گہرے سانس سے فضاء میں رچی ایرٴ فرشنر کی خوبصورت خشبو کو اپنے اندر اُتارا تھا۔اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ ماہ نور کو خشبو کتنی پسند تھی۔
شکر یار تم آ گئی ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا کہ میں نے فکر سے ہی فوت ہو جانا۔وہ اس کے برابر صوفے پہ بیٹھ کر بولی تھی۔
ہممم ۔اس نے کوئی خاص جواب نہیں دیا ۔جیسے کچھ سوچ رہی ہو جیسے پریشان ہو۔وہ اسے آج چپ سی لگی۔
۔فری کیا تمہیں بھی پیپرز کی ٹنشن ہے۔اسے حیرت ہوئی تھی۔وہ تو ٹنشن لیتی ہی نہیں تھی۔ضرور کوئی اور وجہ تھی۔
نہیں پیپرز کی کیا ٹنشن لینی ۔وہ افسردہ ہوئی۔
پھر کیا مسلہ؟ منہ کیوں بنا رکھا۔؟
اس کے پوچھنے کی دیر تھی ۔اور وہ اگلے ہی لمحے اس کے کندھے کے ساتھ لگ کر پھٹ پڑی تھی۔
فری یار کیا ہوا ؟گھر پہ سب ٹھیک ہیں؟
ہاں ۔۔۔وہ سب ٹھیک ہیں اس کی بھیگی آواز گونجی۔۔۔
فرح میری جان تم رو کیوں رہی ہو؟
مجھے۔۔۔۔ مجھے دو دن سے کوئی مسلسل فون پہ تنگ کر رہا ہے۔اس نے رونے کے دوران اٹکتے ہوئے کہا تھا۔
اور ماہ نور سے اپنی مسکراہٹ روکنا مشکل ہو گیا تھا۔
جانے دو فری ایسے ہی کوئی فارغ انسان ہو گا۔ایسے ہی تنگ کر رہا ہو گا۔اس نے حوصلہ دیا تھا۔لیکن اسے اس معصومیت پہ حیرت بھی ہوئی تھی۔
آپ کی اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ وہ فارغ انسان میرے ابو کا نام ۔میرے شہر اور کالج کا نام تک جانتا ہے۔اور یہ بھی کہ میں کس کلاس کی سٹوڈنٹ ہوں۔اسے اس کا ہنسنا بُرا لگا تھا۔ادھر میری جان پہ بنی اور اس کو ہنسی سوجھ رہی۔
اب کی بار ماہ نور سوچ میں پڑی تھی۔اچھا کہتا کیا ہے؟
نہ پوچھو وہ سوچ کر ہی غلابی پڑ گئ تھی۔
بتاوٴ بھی۔اسے ہنسی آئی تھی۔
کہتا ہے اسے مجھ سے پہلی نظر کی محبت ہو گئی ہے۔اور ۔۔۔اور یہ بھی کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔اور اگر میں اس کو نہ ملی تو وہ خودکشی کر لے گا۔
لو ہو سکتا تمہارا کزن ہو۔۔۔کسی خیال کے تحت وہ بولی تھی۔
نہ۔۔۔ دونو طرف سے بس چاچو جی کے دو بیٹے ہی ہیں وہ بھی پانچ چھ سال کے۔اور ایک پھو پھو جن کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔
اچھا رونا بند کرو ۔ہم اس کو بلاک کر دیتے ہیں قصہ ہی ختم۔بہادر بنو۔
بہادری تو ۔۔۔تو گھر والوں کی عزت کا سوچتے ہی ختم ہونے لگتی ہے۔ان کا مان ٫عتماد سب اس خوف سے کہ ان دونو میں کمی نہ آ جائے بہادری کو کم کر دیتی ہے۔اگر بابا جان یا پھر چچا جان کو خبر بھی ہو گئی تو۔۔۔تو تم جانتی ہو وہ میرا کیا حشر کریں گے۔سب سے پہلے وہ میری تعلیم اور تربیت پہ انگلی اُٹھائیں گے۔اور ۔۔۔اورابھی تو ان کو یہ معلوم نہیں کہ میرے پاس فون بھی ہے۔وہ بولتی چلی گئی تھی۔
تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔لیکن عزت کے محافظوں کو بہادر اور نڈر ہونا پڑتا ہے۔ورنہ عزت کی حفاظت مشکل ہو جاتی ہے۔میں اس کا نمبر بلاک کر چکی ہوں ۔لیکن بہتر تھا کہ رونے کی بجائے حل نکالتی۔
وہ بس خاموشی سے سنتی رہی تھی۔بولی کچھ نہیں تھی۔
یہ نمبر تم نے میرے علاوہ اور کس کس کو دیا تھا۔وہ پوچھ رہی تھی۔کہ جاننا ضروری تھا۔
تمہارے علاوہ یہ نمبر صرف زری کے پاس ہے۔اور اس کا کوئی بھائی نہیں ہے۔اس نے سوچ کر بتایا تھا۔
پکا؟
ہمم۔۔۔ اس نے تیزی سے سراثبات میں ہلایا تھا۔وہ غلط تھی۔اور بھول چکی تھی۔
—–
رات کے سائےگہرےہو چکے تھے۔جب وہ گھر واپس لوٹا تھا۔دادی جان نے اسے دیکھ کر سکھ کا سانس لیا۔
آآآ گیا میرا بیٹا ۔کچھ یاد بھی ہے کہ گھر پہ ایک بوڑھی بیٹھی ہے۔جسے انتظار کی سولی پہ تنہا لٹکا کر چلے جاتے ہو اور پھر مُڑ کر دیکھتے ہی نہیں۔وہ آج اسے ایسے جانے نہیں دینا چاہتی تھیں ۔ورنہ یہ سب نہ جانے کب تک چلے۔وہ اس کے لئے اب کی بار حقیقتاً پریشان تھیں۔
تو کون کہتا ہے بوڑھی کو کہ انتظار کرے۔اس نے تھکاوٹ کے باوجود مسکرا کر اپنی پیاری سی دادی جان کے ماتھے کا بوسہ لیا اور پھر ان کے پاس ہی صوفے پہ بیٹھ گیا۔
کہاں تھے۔؟آج سارا دن۔۔۔
وہ جو ٹائی ڈھیلی کرتا ان کی گودمیں سر رکھنے ہی والا تھا۔سیدھا ہوا ۔
کچھ ہوا ہے کیا؟
اچھا جب کچھ ہو گا تب ہی گھر وقت پہ آوٴ گے۔انہوں نے اسے سخت افسوس سے دیکھا تھا
نہیں وہ آپ پہلے پو چھتی نہیں نا اس طرح۔۔۔
توٹھیک ہے نہیں پوچھتی۔میرا کیا ہے پڑی رہے بوڑھی ایک طرف۔آج وہ صحیح فوم میں تھیں۔
وہ اب صحیح پریشان ہوا تھا۔کچھ ہوا ہے۔تو بتاتی کیوں نہیں آخر آپ۔اس نے پریشانی سے کچن میں کام کرتے ظفر کو بھی بلا لیا تھا۔
ظفر ۔۔۔ میرے پیچھے سب خریت رہی تھی؟
جی بھائی جی۔میرے خیال سے تو خریت ہی رہی تھی۔باقی آپ دادی جی سے پوچھ لیں۔ظفر فوراً بول کر واپس کچن میں گم ہو گیا تھا۔
کیا بات ہے دادی کیا ہوا ؟اس نے ان کے سلوٹ زدہ ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے کر پوچھا۔اور پھر جھک کر ان کے ہاتھ کی پوشت پہ بوسہ بھی لے ڈالا۔
ہونا کیا۔۔۔ وہ گہرہ سانس لے کر بولی تھیں۔ان کی آہ میں بھی گہرہ دکھ تھا۔
بس بچےیہ تنہائی ہی ہے ۔جو مجھے کھاتی ہے۔تم سارا دن آفس میں ہوتے ہو۔اور میں سارا دن کمرے میں یا کھبی لاوٴنج میں ۔۔۔لان میں کبھی چلی جاوٴں بڑی حد۔میرا دم گھٹتا ہے ایسی تنہائی میں۔سوچتی ہوں ۔کہ کہیں دو دن کو چلی جاوٴں لیکن پھر تم نہیں جانے دیتے ۔اور مریم بھی روز روز نہیں آسکتی ۔بول رہی ہے۔کہ اگلے ماہ تک آئے گی ۔سن کر مجھے بھی خوشی ہوئی ۔کہ چلو احمد سے دل لگ جائے گا۔لیکن پھر سوچتی ہوں کہ کب تک وہ بھی رہے گی ۔ہفتہ یا پھر بڑی حد دس دن ۔۔۔وہ افسردگی سے بول کر اسے دیکھنے لگیں تھیں ۔کہ اب مسلے کا حل تمہارے پاس ہے۔وہ ان کو دیکھ کر رہ گیا تھا۔شائد غلطی میری ہی ہے۔آپ تو میرے بچوں جیسی ہیں۔پہلےآپ نے مجھے پالا اور اب جب میری باری آئی تو میں نے بزنس کی خاطر آپ کو تنہا کر دیا۔اس کے لہجے میں گہرہ دکھ تھا۔وہ اس کی بات پہ گڑ بڑا گئں تھیں۔
ارےنہیں بچے تم سے کیا گلہ۔تم نے تو کام کرنا ہی ہے۔ہاں بس اتنا کر لیا کروکہ گھر وقت پہ آ جایا کرو۔انہوں نے اس کے ماتھے کہ بکھرے بال ہاتھ کی کنگھی سے بائیں سمت موڑے تھے۔نہیں دادی جان پھر بھی۔
اچھا چھوڑو ۔۔۔ یہ بتاوٴ ۔آج سارا دن کہاں تھے۔؟وہ اسے اپنی خاطر زیادہ دیر پریشان نہیں دیکھ سکتیں تھں ۔اس لیئے باقی مریم پہ چھوڑ دیا تھا۔جو جلد آنے والی تھی۔انہوں نے ہی تو فون کر کہ سپیشل اسے بلایا تھا۔ کہ آ کر بھائی کی شادی میں ہاتھ بٹائے۔لڑکی دیکھنے والا کام وہ کر چکی ہیں۔اورصدا کی ہلے گُلے کی شُدائی وہ بھی فوراً مان گئی تھی۔کہ ایک ہی تو دو سال کا بیٹا تھا۔جو پڑھائی سے ابھی بچا ہوا تھا۔اور شوہر کا مسلہ نہیں تھا۔ان کی طرف سے اجازت ہی تھی۔
اٹلی سے کچھ گیسٹ آئےہیں۔صبح انہیں پک کیا ۔اورپھر سارا دن میٹنگز میں گزر گیا۔وہ خاصہ تھکا ہوا تھا۔
اور آذر کی امی؟وہ اسے پھر سے یاد دلا گئیں تھیں۔لیکن یہ ضروری تھا۔
صبح جاوٴں گا ان شاءللّٰہ۔۔۔اس نے دونو آنکھیں مسل ڈالیں تھیں۔وہ ابھی صرف سو جانا چاہتا تھا۔
اچھا تم کھانا کھائے بغیر مت سونا۔انہوں نے صوفے سے اُٹھتے ہوئے اسے تنبیہہ کی تھی۔
وہ میں گیسٹس کے ساتھ کھا چکا۔بس اب سوٴں گا۔
وہ بھی ان کے ساتھ ہی چل پڑا تھا۔
_____
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے جانے سے انسان کو ایسا لگتا ہے۔کہ اب کی بار ایسا گِرا کہ اُٹھ نہیں پائے گا۔اپنے جان سے عزیز بندے کو کھو کر انسان اپنے آپ کو گم نام کر لینے کی خواہش کرتا ہے۔مگر اللّٰہ کی ذات اپنے بندےکو اتنا کمزور نہیں ہونے دیتی۔کہ انسان اپنے آپ کو فنا کر لے۔وہ تو اللّٰہ ہے۔اگر ساری دنیا بھی چھوڑ دے۔وہ اپنے بندے کو نہیں چھوڑتے۔۔۔ بس محسوس کرنے کی بات ہے۔وہ گہرہ سانس لے کر بولیں تھیں۔وہ پلک جھپکے انہیں ہی سن رہا تھا۔جن کے جوان اکلوتے بیٹے کی موت نے انہیں مزید کمزور٫ ضعیف اور بےبس کر دیا تھا۔وہ دو ماہ بعد ان کے پاس آیا تھا۔اور وہ اسے دیکھتے ہی کھل سی گئیں تھیں۔
آنٹی مومنہ باجی کے جانے کے بعد آپ اکیلے کیسے رہیں گی۔اس نے کچھ فاصلے پہ بیٹھیں آذر کی بہن کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔جو بھائی کی موت کے بعد سے اپنے سات سال کے بیٹے کے ساتھ سسرال (جو کہ سات والے شہر میں ہی تھا۔)یہاں آ کر رہ رہی تھیں۔اسے اپنے رویے پہ دکھ ہوا تھا۔ صوفیہ آنٹی نے کبھی اس میں اور آذر میں فرق نہیں کیا تھا۔اور جب وہ زندہ تھا۔تو دونو گھنٹوں ایک دوسرے کے گھر بیٹھے رہتے تھے۔وہ اکثر اس کے لئے کچھ نہ کچھ بنا کر رکھتی تھیں۔وہ سب ان کا پیار تھااس کے لئے۔اور اب وہ اس لئے ان کے پاس نہیں آتا تھا۔کہ ان کے گھر سے اس کی ان کے بیٹے سے یادیں جڑی تھیں ۔جہاں وہ اپنے دن رات گُزار تی تھیں۔وہ ان سے زیادہ تو اس سے پیار نہیں کرتا تھا نا۔
ارے بچے میں نے مومنہ کے گھر کے قریب ہی ایک فلیٹ دیکھا ہے۔سوچ رہی ہوں وہاں شفٹ ہو جاؤں ۔اس طرح میں بھی بچوں کے پاس رہوں گی اور رونک بھی رہے گی۔وہ گہرہ سانس لے کر بتا رہی تھیں۔
آنٹی آپ آذر کو ادھر چھوڑ کر چلی جائیں گی۔اس کی آنکھیں ضبط سے سرخ ہو چکی تھیں۔
کیا کروں ۔۔۔ اب تنہا بھی رہا نہیں جا سکتا۔وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ کر مسکرائیں تھیں۔وہ ان کی شفاف سی مسکراہٹ جس کا وہ فین تھا ۔آج غم کی زد میں تھی۔
آذر ایک لڑکی کی خاطر تم نے کتنے لوگوں کے دل توڑ دیئے۔تمہیں ایک لمحے کےلئے بھی ہم یاد نہیں آئے۔کیا ہماری یادیں اتنی کمزور تھیں کہ اس چار دن کی یکطرفہ محبت نے بھلا دیں۔ایک آنسو بہت خاموشی سے اس کی ہلکی سیاہ داڑھی میں جزب ہو گیا تھا۔اس نے بے اختیار دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگوٹھےسے آنکھیں چھپانے کی خاطر آنکھں کو ڈھامپ لیا۔
آنٹی آپ میرے پاس آکر رہ لیں ۔میں بھی تو آپ کا بیٹا ہی ہوں ۔وہ کچھ سوچ کر ان کے گھٹونوں پہ ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔
کیوں نہیں تم تو میرے پیارے بیٹے ہو۔لیکن اب میرا بھی دل کرتا کہ میں اپنی مونا کہ پاس رہوں جب تک زندگی ہے۔وہ اس کے ہاتھ کو سہلا کر بولی تھیں۔اور تم آیاکرنا نا میرے پاس وہاں جب دل چاہے۔
وہ سر ہلا کر رہ گیا۔وہ جانتا تھا وہ کبھی اس کے ساتھ نہیں آئیں گی۔
تمہاری دُلہن کو میں اور امی مل کر تمہارے ساتھ لینے جائیں گے۔کیوں ؟مومنہ باجی جو کافی دیر سے رنجیدہ سی خاموشی سے بیٹھیں ان دونوں کی با تیں سن رہی تھیں ۔یک دم بولی تھیں۔آنٹی نے بھی جھٹ اثبات میں سر ہلا یا تھا۔وہ محض ان دونوں کودیکھ کر رہ گیا۔مگر بتا نہیں سکا تھا۔کہ وہ تو شادی نہ کرنےکی قسم کھا چکا ہے۔کسی دھوکےکوبرداشت کرنااب اس کےلئےممکن نہیں تھا۔یہ جانتے ہوئےبھی کہ ایک لڑکی ہی کی وجہ سے اس کا دوست اپنی جان دے چکا ہے۔
وہ اس وقت ان لوگوں کی صّف میں کھڑا تھا۔جو کسی دوسرے کے کیئے کی سزا اپنے قریب کے لوگوں کو دیتے ہیں۔اور سب کو ایک نظر کی ہی عینک سے دیکھتے ہیں۔
_____
مشرق کی جانب سے تیزی سے رات کی سیاہ چادر اکٹھی ہوتی جارہی تھی۔اور دور کہیں افق پہ پھیلتی سورج کی کرنیں سارے آسمان کو اپنے حصار میں لیتی جا ہی تھیں۔اس سب سے الگ وہ ہوسٹل کی چھت پہ بیٹھی مدھم مدھم آواز میں پڑھنے میں اس قدر مشغول تھی۔کہ اسے دنیا کی طرف سے بیگانگی سی ہو گئی تھی۔آج اس کا آخری پیپر تھا۔سب پیپر اچھے ہوئے تھے۔اب اگر یہ پیپر بھی اچھا ہو گیا۔تو فرسٹ ڈاویژن پکی۔اس نے سو چ کر ان شاءللّٰہ بولا اور پھر سے پڑھنے لگی ۔جب کرتے کی جیب میں اس کا موبائل بجا تھا۔وہ اکثر شوقیا کرتے کی پوکیٹس بنوایا کرتی تھی۔خاص طور پہ سردیوں کے کپرڑوں کی ہوتی تھیں۔وہ ان میں منگپھلی رکھتی تھی۔یہ عادت اس نے پھوپھو سے لی تھی۔ اس نے جھنجھلا کر موبائل کو دیکھا۔یہ کونسا وقت ہے فون کرنے کا۔اس نے فون اُٹھا کر امی کو سلام کیا تھا۔
اسلامُ علیکم ۔۔۔اس کا لہجہ نرم اور باادب تھا۔
ہم۔۔۔ وعلیکم ۔وہ ہمیشہ ایسے ہی بولتی تھیں۔پورے سلام کا جواب دینا وہ کم ہی پسند کرتی تھیں۔
کیا حال ہے؟کافی دن سے تم نے فون نہیں کیا میں نے سوچا میں خود کر لوں۔اور پوچھ لوں واپسی کب تک ہوگی۔(انہیں لگتا تھا۔فرح اپنی روم میٹ کا فون استعمال کرتی ہے۔جبکہ وہ یہ بھی نہیں جانتی تھیں۔کہ وہ کمرے میں اکیلی رہتی ہے)انہوں نے بات کے دوران رکنا پسند نہیں کیا تھا۔یہ بھی ان کا ہی انداز تھا۔بلکہ ان کے گھر کے سب بڑوں کا بولنے کا یہی انداز تھا۔مقابل کی بات سننے کا وہ کم، ہی تکلف کیا کرتے تھے۔ اس نے گہری سانس لی۔۔۔ آج آخری پیپر ہے۔۔۔ ایک دو دن میں کچھ کام نبٹا کر آ جاوٴں گی۔وہ لاہور کو سب فکروں سےآزاد ہو کر دیکھنا چاہتی تھی۔سوچا تھا کہ دو چار دن خوب موج مستی کے بعد جائے گی۔لیکن بلاوا آ چکا تھا۔
نہیں تم کل ہی آ جاوٴ۔۔۔ کام بھی ہو جائیں گے۔ہم آٹھ بجے ڈرائیور کو بھیج دیں گے۔اور ٹھک سے فون بند ۔۔۔
وہ افسوس سے سر ہلا کر رہ گئی تھی۔گھر والوں کو دو سال بعد بھی اس پہ یقین نہیں تھا۔وہ سر پہ سیاہ سکارف کو ماتھے پہ سرکاتی پھر سے پڑھنے لگی تھی۔
_______
آج خریت ہے ۔یہ سب کو ہوا کیا ہے؟وہ دونو آج یونی کے طلبِہ کی رفتار دیکھ کر حیران ہو رہی تھیں۔وہ دونو ابھی ابھی پیپر دے کر ہال سے نکلیں تھیں ۔اور اب بھوک مٹانے کی غرض سے یونی کی کینٹین کی طرف نکل آئیں تھیں۔اور آج خلافِ معمول کینٹین کو ویران دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی تھی۔حلانکہ یہ سب سے رش والی جگہ ہو شائد۔اور خاص طور پہ لڑکیوں کی تیاریاں تھیں۔
آج کوئی فنگشن تو نہیں۔۔۔
نہیں شائد کوئی سیمنار ہے۔ بزنس ڈیپارٹمنٹ میں۔کوئی بزنس مین آ رہا ہے۔۔۔ فرح نے لاپرواہی سے کہہ کر وہاں موجود لڑکیوں کو حیرت سے دیکھا تھا۔جو کسی کا نام حسرت سے لے کر لپسٹک لگانے میں مصروف دنیا سے بے خبر کھڑی تھیں۔
حد نہیں ہو گئ آج کل کی عوام پہ۔مطلب اب ایک عمررسیدہ سے بھلا کیا متاثر ہونا۔اور اسے تو دیکھو کیسے گھسیٹ گھسیٹ کر لپسٹک لگا رہی ہے۔اسے زور سے ہنسی آئی تھی۔
جانے دو فری ہمیں کیا۔بابا کہتے ہیں کسی کے بارے میں چھپ کر بات نہیں کرتے۔بات بھی وہ جو بُری ہو۔اس نے ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔بس سامنے پڑے برگر سے انصاف کرنے میں مصروف تھی۔
فرح بھی شرمندگی سے رخ موڑ کر بیٹھ گئی تھی۔اب اس کی ان کی طرف پشت تھی۔اسے بھلا کیا وہ جو بھی کریں ۔اس نے اپنے سیاہ سکارف کو ماتھے کی جانب کچھ اور کھینچا اور پھر برگر اور کولڈرنک کی جانب متوجہ ہو گئی۔
یہ کھانے کے بعد یونی گھومیں گے۔اس نے سیاہ مائع کو اپنے اندر انڈیلتے ہوئے اسے کہا تھا۔اس نے کھاتے دوران ہی سر ہلایا تھا۔
_____
برگرز اور کولڈرنکس کی پیمنٹ کر کے وہ دونو ں اب خاصی تروتازہ سی تیزتیز بزنس ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل کر آئیں تھیں۔
بہت کم سٹوڈنٹس تھے جو باہر ایسے ہی کھڑے تھے۔یا کچھ جو گراوٴنڈ کی سبز سبز گھاس پہ بیٹھے پڑھنے میں مصروف تھے۔اور جو اُپر کے کچھ تھے۔وہ یونی کو ہی گھر کا راج سمجھتے وہیں ۔آڑے ترچھے دراز تھے۔وہ دونوں یوں ہی ایک نظر ڈال کہ ہال کی جانب آ گئیں۔جہاں سے سٹوڈنٹس کو اینڑر ہوتے انہونے دیکھا تھا۔
ہال تو ایسے بھرا ہوا تھا۔جیسے وہاں ولیمے کا کھانا کھایا جا رہا ہو۔انہیں زیادہ تر وہا ں لڑکیاں ہی نظر آئیں تھیں۔جن میں بہت کم ایسی تھیں جو مائیک کے سامنے کھڑے شخص کو گھورنے سے زیادہ اس کے الفاظ پہ فوکس کر رہی تھیں۔
ماہی یہ بزنس مین تو نہیں لگ رہا۔وہ اس کو کوئی ۵۵ کے قریب کا انکل سمجھیں تھیں۔مگر یہ کوئی ینگ کوئی ۲۷ کے قر یب تھا۔یا اس سے کچھ کم۔اور خاصہ جانا پہچانا بھی لگ رہا تھا۔
یہ کیا ٹی وی میں آتا ہے۔فرح کی بات پہ اس نے چونک کر اس کی جانب د یکھا تھا۔
مجھے نہیں لگتا۔بس کہیں دیکھا ہوا لگ رہا ہے۔۔۔اور پھر ایک جھماکا ہوا تھا۔
فری یاد ہے ۔وہ آنٹی جن کی تم فین ہو گئی تھی۔اورتم بول رہی تھی۔کہ ان کی آواز کسی ریڈیو میں بولنے والی سےکہیں زیادہ اچھی ہے۔وہ اسے اپنی اور اس کی کچھ دن پہلے کی بات یاد دلا رہی تھی۔
ہاں جن کے پوتے کو تم نے جانبوجھ کر ڈرائیور بولا تھا۔ماہ نور پُرجوش ہوئی تھی۔لیکن اگلی بات سن کے جل گئی تھی۔
حلانکہ اتنا ہینڈسم تو وہ تھا۔کہ کوئی بھی اہلِ عقل اسے ڈرائیور نہ سمجھتا۔
اچھا بسس۔۔۔یہ ہی ہے وہ ۔خامخواہ دوسروں کے مردوں کے قصیدے پڑھنے شروع کر دئے۔اسے غیر مردوں کو ڈیسکس کرناکبھی بھی پسند نہیں رہا تھا۔خاص طورپہ یہ تو کچھ زیادہ ہی شوخا تھا۔
وہ دونو باہر آ گئیں تھیں۔ہماری بلا سے۔۔۔
بات سنو کل شام مجھے مارکٹ جانا ہے۔تو تم تیار رہنا میرے ساتھ تم چل رہی ہو۔میں آٹو لے آوٴں گی۔یا تم آ جانا۔۔۔
وہ گاڑی کا دروازہ کھول رہی تھی۔جب فر ح نے اُداسی سے کہا۔
تم جا رہی۔۔۔ماہ نور بھی سن کر اُداس ہو گئی تھی۔کھرے دوست نہ ملیں تب اتنا دکھ نہیں ہوتا جتنا ان کا کھو دینا دکھ دیتاہےاور وہ اور فرح جتنا بھی لڑتیں۔تھیں تو ایک جان دو قلب۔
ہاں۔۔۔آج صبح امی جی کا فون آیا تھا۔
تم کچھ دن اور نہیں رک سکتی۔ ہم نے تو مری ٹرپ پلان کیا تھا۔ پھر تم نے تو ابھی لاہور بھی گھومنا تھا۔اس کی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں۔جُدائی کا وقت قریب تھا۔وہ اسے کسی طریقے سے روک لینا چاہتی تھی۔
نہیں رک سکتی۔۔۔ گھر والے پہلے ہی نہ جانے مجھے کیسے یہاں برداشت کر رہے ہیں۔پھوپو کی سپورٹ نہ ہوتی تو میں کبھی لاہور میں نہ ہوتی۔یہ تو بس ان کی ضد تھی۔جو ابو جی اور چچا جان کو ماننا پڑا۔ورنہ آج کل کے لڑکوں پہ۔۔۔یعنی ان کو اپنی بیٹی پہ یقین نہیں ہے۔ان کو لگتا ہے ۔میں اتنے ہلکے کردار کی مالک ہوں۔کہ کوئی بھی مجھے ورغلا سکتا ہے۔اس کے چہرے کے گرد سیاہ سکارف اس کے اندرکی اُداسی کو واضع کر رہا تھا۔
ماہ نور سنتی ہی رہی۔۔۔
ہو سکتا ہے۔فری جیسے تمہیں لگتا ہے۔ویسا نہ ہو۔ہمارے والدین ہم سے زیادہ ہمارا بھلا جانتے ہیں۔ یہاں جس طرح بچےوالدین کا بھلا نہیں کرنا سمجھتے ۔اسی طرح بہت کم انسان ہیں۔جو اللّٰہ اور بندے کے تعلق کو سمجھتے ہیں۔ہم اللّٰہ کی حکمت کو نہیں سمجھتےبس شکوہ کرتے رہتے ہیں۔جس طرح تم اب اپنے آپ کو مظلوم سمجھ کر شکوہ کر رہی ہو۔وہ بردباری سے بولتی کہیں سے بھی۔۱۹ سال کی جولی سی ماہا نہیں لگ رہی تھی۔
منفی سوچ کو چھوڑو آج ہم انجوائے کریں گے۔خوش ہو کر جاوٴ۔ہم پھر ضرور ملیں گے۔ اس کے لہجے میں ۔یقین تھا۔ویسے بھی میری شادی کی رسمیں تم نے ہی کرنی ہیں۔آخر اب کی بار وہ کچھ ہنس کر بولی تھی۔اور بات سنو میری شادی پہ نہ آئی تو دوستی ختم۔اس نے ماحول کی کسل مندی ختم کرنے کی کوشش کی اور وہ کامیاب بھی ہوئی تھی
_____
آج آپ کا لاسٹ پیپر تھا۔انہوں نے کھانا کھاتے بات شروع کی ۔وہ ابھی کچھ دیر پہلے آ کر بیٹھی تھی۔جب ان کی بات پہ اس نے محض سر ہلایا ۔
ہمم تو اب نکسٹ کیا پلان ہے۔
ابھی تو کچھ نہیں۔ویسے بھی پڑھائی میرے بس کی بات نہیں۔۔۔اس نے مزے سے کہ کر روٹی کو سالن میں ڈبو کر منہ میں رکھا۔وہ اس کی بات سن کر مسکرائے تھے۔
تو پھر پڑھائی کو خیرباد بول رہی ہو۔؟وہ بھی یہی چاہتے تھے۔زندگی ان کے لئے بس لمحوں کی تھی۔کون جانے کس کو کتنا جینا ہے۔
اہممم ابھی کے لئے۔۔۔اور بابا فری جا رہی۔پتہ نہیں اب ہم کب ملیں۔وہ سوچ کر ہی اُداس ہو گئی تھی۔
جب الگ ہوں تو اس اُمید پہ خُدا حافظ خوشی سے بولتے ہیں۔کہ اگر الّٰلہ نے چاہا تو دوبارہ ملنے کا سامان بھی وہ ضرور پیدا کرے گا۔اس لئے خوشی سے رخصت کریں ان کو۔کہ اگراللّٰہ نے چاہا تو وہ ضرور ملوا دے گا۔وہ نرمی سے کھانے کے دوران اسے سمجھا گئے تھے۔وہی تو تھے۔اس کے روحانی اُستاد۔
بابا میں آپ کے ساتھ آفس چلوں۔وہ پُر جوش ہو کر بولی۔اور اس چکر میں پانی کا گلاس گِرا گئی تھی۔لیکن وہاں تو صدا کی لاپرواہی تھی۔اتنی لاپروا بس باپ بھائی کہ سامنے ہی ہوتی تھی۔کہ پتا تھا کہ بس وہی ایک تو ہوتے ہیں جو نخرے بھی خوشی سے اُٹھاتے ہیں۔یہ رشتوں کا عتماد اور مان ہی ہوتا ہے۔جو آ پ کو پُرعتماد اور بولڈ بناتا ہے۔
نہیں ابھی نہیں۔۔۔ابھی آپ انجوئے کرو۔اور اچھے اچھے کھانےبنا کر اپنے بابا جان کر کھلاوٴ۔۔۔وہ اس کو منا کر کےپھر سے کھانے کی جانب متوجہ ہو چکے تھے۔انہوں نے اسے گلاس کے ٹوٹنے پہ سخت نظر تک سے نہیں دیکھا تھا۔
بابا کھانا بنانا تو مجھے آتا ہی نہیں اس نے فکر سے ہونٹ لٹکا کر کہا۔وہ اس کی معصوم معصوم اسی طرح کی حرکتوں سےمحظوظ ہوا کرتے تھے۔
اب بھی وہ اس کی ادا پہ مسکرئے تھے۔
یہ تو میرے ذہین بیٹی کے لیئے مسّلہ ہی نہیں ہوگا۔سیکھو اور اپنے بابا جان پہ پرٹیکس کرو۔ان کی محبت پہ وہ مسکرائی تھی۔
ٹھیک تو کل کا کھانا میں۔۔۔ابھی جملہ اس کے منہ میں ہی تھے۔جب اس کو اپنے پیچھے جانی پہچانی آواز آئی تھی۔وہ اور بابا آواز والے کی طرف بے یقینی سے دیکھ رہے تھے۔
لگتا میرے گھرے والے مجھے دیکھ کر یا تو بہت حیرت میں ہیں یا پھر بہت دکھ میں۔بابا سے گلے ملتے وہ پُر وقار انداز میں مسکرا کر بولا تھا۔
ماہا مجھے پتہ ہے میں پہلے سے بہت زیادہ ڈیسنٹ ہو گیاہوں۔۔۔لیکن اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم مجھ معصوم کو گھوری جاوٴ۔وہ بھی اپنے ان بنٹوں سے۔
بابا میرے ہاتھ پہ چٹکی کاٹئے گاپلیز۔۔۔اسے یقین نہیں تھا کہ بھائی جان اس طرح سے چار سال بعد یک دم واپس آجائیں گے۔
ہاں تم تو پہلےہی یہ چاہتی ہو کہ کوئی تمہاری جگہ نہ لے لے۔لیکن ایک بات یاد رہےہر عروج کو زوال ہوتا ہے۔۔۔۔وہ مسکرا کراس کی طرف بڑھا اور پھر اس معصوم سی اپنی گڑیوں جیسی بہن کے ماتھے پہ نرمی سے بوسہ لیا۔اس میں تو اس کی جان بستی تھی۔اسے یاد آیا کیسے وہ اور ابرار بھائی بچپن میں ہر وقت اماں کی طرح اس کے آگے پیچھے پھرتے تھے۔بابا ہمیشہ جانے سے پہلے ان کو رٹوا کر جاتے کہ بھائی بہنوں کے پروائیڈر اور پروٹیکٹر ہوتے ہیں۔میرے بعد ماہا کا خیال تم دونو نے مل کر رکھنا ہے۔اور ایسا ہی ہوتا تھا بابا کے آفس جانے کے بعد تین سالہ ماہ نور کا ایسے خیال رکھتے۔جیسے خود بہت بڑے ہوں چار پانچ سال کا ہی توفرق تھا۔سکول سے آنے تک وہ نسرین آنٹی کل وقتی ملازمہ کےپاس ہوتی اور پھر آتے ہی وہ دونو اس کے محافظ بن کر کھڑے رہتے۔امی تو جب وہ دو سال کی تھی۔تبھی بلڈپریشر کے بڑھ جانے سے منوّں مٹی تلے جا سوئیں تھیں۔بس پھر دس سال کی عمر تک اس کے پہنچنے تک ان دونو نے سرد و گرم سے اسے ایسے بچائےرکھاجیسے کسی نازک کلی کو مالی ہر طرح کے موسم سےبچایئے رکھتا ہے ۔
بھائی آپ کومیری یاد کیسے آ گئی؟میں اور بابا تو آپ کو بلا بلا کر تھک گئے تب تو آئے نہیں تھے۔اب ایسا کیا ہو گیا جو ایک دم سے ہمیں جھٹکا لگا دیا۔اور یہ ابرار بھائی کدھر ہیں وہ کیوں نہیں آئے۔وہ صوفےپہ ان کے بائیں جانب بیٹھی تھی۔
بابا کو بھی اس کی بات سے اتفاق ہوا تھا۔
آپ کو چاہئے تھا۔دونو بھائی ساتھ میں ہی آ جاتے۔اصل میں تو انہوں نے اسے ہی جلد آنے کو بولا تھا۔لیکن انہوں نے خود آنے کی بجائے بابر کو کیوں بھیج دیا۔
اصل میں بابا جان آنا تو انہوں نے ہی تھا۔لیکن ان کی ایک پیشنٹ سے ضروری میٹنگ تھی۔ مسٹر فرینک کی بیٹی کی ان سےاپوائنٹمنٹ تھی۔وہ اب ڈیڈ کو اس کیس کے بارے میں بتا رہا تھا۔
ہممم چلو تم تو آ گئے شکر ہے اللّٰہ کا۔
قریباً آدھا گھنٹہ مزید بیٹھ کر وہ نماز کے لیئے اُٹھ گئے تھے۔
زیادہ دیر مت با تیں کرنا۔اور ماہا بیٹا بھائی کو سونے سے پہلے کھانے کے لئے دے دینا۔کچھ دیر پہلے جب اُنہوں نے اس سے پوچھا کے وہ کھانا کھالے۔تو اسنے یہ کہہ کر منع کر دیا تھا۔کہ کچھ دیر پہلے فلائیٹ کے دوران کچھ ہلکا پھُلکا لےچکا تھا۔لیکن وہ پھر بھی بیٹی کو تاکید کرنا نہیں بھولے تھے۔بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں۔جو آپ کے گھر والوں کی نظر میں آپ کی قدر اور اہمیت کو بڑھاتی ہیں۔بہت سے والدین کے لیئے ان کے بچوں کا تعلق محض والدین اور اولاد کا ہی ہوتا ہے۔وہ والدین اپنے اور اپنے اولاد کے رشتے پہ محنت نہیں کرتے۔اور ایک والدین وہ ہوتے ہیں۔جو اپنے بچوں کے لیے اچھے دوست٫روحانی اُستاد اور اپنےبچوں کو اعتبار دینے والے ہوتے ہیں۔اگرچہ والدین اور اولاد کا تعالق ویسے ہی مظبوط ہوتا ہے۔اس رشتے کو کسی اور احساس کی ضرورت نہیں ہوتی۔لیکن چمک اس میں بھی ایسے نہیں آتی۔محنت کرنی پڑتی ہے۔وہ اُنہی والدین میں سے تھے۔اگرچے وہ بہت کمگو تھے۔لیکن پھر بھی۔۔۔ان کی محبت کا اظہاران کی آنکھیں کر دیا کرتی تھیں۔
جی بابا۔۔۔وہ سر ہلاگئی ۔اور پھر سے بھائی سے بات کرنے لگی جو اس کو ادھر اُرھر کی باتوں میں اُلجھا رہے تھے۔
——
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...