“مجھے بتائیں !آپ نے اس دن وہ بات کیوں کی تھی۔”صارم غصے سے لال پیلا ہورہا تھا۔
“برخودار!شاید تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔”عثمان صاحب اپنی عادت کے برخلاف خاصے تحمل سے بولے تھے۔
صارم کا خون رگوں میں ابلنے لگا تھا۔
عامر نے آگے بڑھ کے اسکے کاندھے پہ ہاتھ رکھا تھا۔
صارم نے چونک کے اسے دیکھا۔لہو جماتا کوئی عجیب سا احساس ہوا تھا۔
“میرے خیال سے بیٹھ کے بات کرتے ہیں۔”اسکی آواز میں گو کے نرمی تھی لیکن اسکا لہجہ!صارم کو اسکے لہجے نے عجیب سے خوف میں مبتلا کیا تھا۔
“صارم!ہٹو سامنے سے ‘عثمان صاحب ہمارے معزز کسٹمر ہیں۔تحمل رکھو۔”کمال صاحب درمیان میں آئے تھے۔
“نہیں!ابا آج میں جان کے رہوں گا۔”صارم قابو میں ہی نہ آرہا تھا۔
“لڑکے!”عثمان صاحب کی آواز میں کچھ تو تھا ایسا کہ صارم چو نک کے انہیں دیکھنے لگا۔
انکی آنکھوں میں دیکھنے کی تاب اس میں نہ تھی۔
وہ بےساختہ ہی پلکیں جھپک کےرہ گیا تھا۔
“کمال صاحب!ہم غیب کا علم نہیں رکھتے لیکن جو کچھ آپ کے ہاں ہورہا ہے،اسکے بارے میں کچھ تو جانتے ہی ہیں۔”عثمان صاحب کے لہجے میں مخصوص قسم کی گرج تھی۔
“آپ بچے کی گستاخی معاف کریں اور ہماری رہنمائی کیجئے۔”کمال صاحب معذرت خوانہ انداز میں بولے۔
“دیکھیں!ہمیں یہ سب بتانے کی اجازت نہیں ہے،ہماری بھی کچھ حدود ہوتی ہیں ۔آپ کو بس اتنا بتانا کافی ہے کہ جس بندے کو آپ نے مدد کیلئے پکارا ہے ،اللہ اسے ہی وسیلہ بنائے گا۔”عثمان صاحب سنجیدگی سے بولے تھے۔
“ٹھیک ہے!”کمال صاحب سر ہلا کے رہ گئے تھے۔
“آپ ہماری دنیا سے نہیں ہیں نا۔”صارم چیخ کے بولا تھا۔
سب کو سانپ سونگھ چکا تھا۔
٭٭٭٭٭
ثانیہ گھر آتو چکی تھی لیکن اسکا دم نکلا جارہا تھا۔صائم نجانےکہاں تھا کہ اسکا فون بھی نہیں اٹھا رہا تھا۔
“صائم!کہاں رہ گئے ہو تم؟”ثانیہ رو دینے والی ہوگئی تھی۔
اچانک تیز ہوا کا ایک جھونکا آیا اور ہوا کے زور سے پردہ ہلا تھا۔
ثانیہ چونک کے تیزی سے اٹھ کے کھڑکی کی جانب بڑھی۔
باہر اندھیرا تھا اور اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں درخت تیز ہوا سے جھوم رہے تھے۔
یوں لگ رہا تھا جیسے آندھی آنے والی ہے۔
ثانیہ کا خون رگوں میں جمنے لگا وہ وضو کیلئے اٹھی تھی۔
واش روم کا دروازہ چر چر کی تیز آواز کے ساتھ کھلا تھا۔
“شاید!بہت دنوں بعد ہوا ہے’اس لئے۔”ثانیہ نے خوف کم کرنے کی کوشش کی۔
وضو کرنے کے بعد اس نے واش بیسن کا نل بند کیا ۔
کھلا دروازہ بنا کسی آواز کے اسکی پشت پہ بند ہوا تھا۔
ثانیہ چونک کے پلٹی۔
“یہ کیسے بند ہوا؟”گھر تو بند تھا پھر بنا کسی ہوا کے دروازہ کیسے بند ہوا۔
وہ آگے بڑھی،اور ہینڈل پہ ہاتھ رکھا۔
دروازہ زور لگانے کے باوجود اپنی جگہ پہ جما رہا۔
ثانیہ نے ایک بار پھر کوشش کی،دروازہ ہنوز اپنی جگہ پہ بند رہا تھا۔
“کون ہے؟باہر کون ہے جس نے دروازہ بند کیا ہے۔”وہ خوف سے چلائی تھی۔
لیکن اسکی چیخیں سننے والا وہاں کوئی نہ تھا۔
٭٭٭٭٭
“تم انسان واقعی بہت ذہین ہوتے ہو۔”عثمان صاحب بڑبڑائے تھے۔
“مطلب!”کمال صاحب چونکے۔
“آج کے بعد ہم پھر کبھی نہیں مل سکیں گے۔”عثمان صاحب ہی بس بول رہے تھے۔
“میں معافی چاہتا ہوں اسکی طرف سے،آپ ہمارے لئے معزز ہیں۔”کمال صاحب نے شائستگی سے معذرت کی تھی۔
“کوئی بات نہیں!”عثمان صاحب کہہ کے پلٹے تھے۔
کمال صاحب بےبسی سے لب کاٹ کے رہ گئے تھے۔
٭٭٭٭٭
ثانیہ کا چیخ’چیخ کے گلا بیٹھ چکا تھا۔اس بند جگہ سے اسکے خلاصی ایک گھنٹے کے بعد صائم کے آنے پہ ہوئی تھی۔
“ثانیہ !تم کہاں ہو؟”وہ پکار رہا تھا۔
“میں یہاں ہوں۔”وہ اپنا پورا زور لگا کے چلائی تھی۔
“کدھر؟”
“یہ واش روم کا دروازہ بند ہوگیا ہے،باہر سے کسی نے کیا ہے۔پلیز!کچھ کرو۔”
“لیکن دروازہ ا تو اندر سے بند ہے ثانی۔”صائم نے حیرانگی سے کہا تھا۔
“کیا؟”ثانیہ نے آنکھیں پھاڑ کے لاک کو دیکھا۔
وہ واقعی اندر سے بند تھا۔
“نن!نہیں!”وہ بیٹھتی چلی گئی۔
“یہ کیا ہورہا تھا؟”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...