وہ ہیولا دیکھتے ہی دیکھتے ایک عدد جانور میں بدل چکا تھا۔روشنی کو اپنی آواز پہ قابو نہیں رہا تھا اور نہ اپنی ٹانگوں پہ۔
وہ پورے قد سے نیچے گری تھی۔اسکی چیخ خالی کوریڈور میں گونجی تھی۔باہر پیڑ میں چھپی چیل نے ایک تیز آواز نکال کے شاید اپنے بھی خوف کا اظہار کیا تھا۔
“یہ کیا ہورہا ہے؟”روشنی نے اپنا وجود گھسیٹتے ہوئے دیوار کے ساتھ لگاتے ہوئے سوچا۔ٹھنڈے تاریک کوریڈور میں جیسے موت کا احساس ہورہا تھا۔
اسے لگ رہا تھا آج وہ خوف سے یہیں دفن ہوجائے گی۔
“کون ہو تم؟آخر کیوں میرے پیچھے ہو؟”روشنی کہتے ہوئے بری طرح رو پڑی تھی۔
٭٭٭٭٭
“کک’کون ہو تم؟”ثانیہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس بچی کو دیکھتے ہوئے خوفزدہ آواز میں پوچھا۔
“بچی!”وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کے بولی تھی۔
“نہیں!تم پتا نہیں کیا ہو۔”ثانیہ فورا اس سے دور ہوئی تھی۔
“سنو!تم مجھے مٹھائی کھلاؤ گی نہیں تو ۔۔۔۔”بچی نے اپنی سیاہ آنکھیں اسکے چہرے پہ گاڑتے ہوئے سرد مہری سے کہا۔
ثانیہ کو ایسا محسوس ہوا کہ اسکی سیاہ آنکھوں سے ان دیکھے سیاہ دائرے نکلتے ہوئے اس کے وجود تک بڑھ رہے ہیں اور وہ ان میں جکڑی جارہی ہے۔
ثانیہ نے کوئی آیت’کوئی درود پڑھنا چاہا لیکن زبان جیسے سن ہوگئی تھی۔
بچی جیسے اسکی کیفیت بھانپ گئی تھی۔
“آنٹی!مسلمان میں بھی ہوں۔کہو تو سورۃ یسین سناؤں۔”بچی بائیں آنکھ کا کونا دبا کے معصومیت سے بولی تھی۔
ثانیہ کا ایک دل بند نہیں ہوا تھا باقی روح تک میں خوف نے پنجے گاڑ لئے تھے۔
وہ کپکپاتی ٹانگوں کے ساتھ سڑک پہ بےاختیار بیٹھتی چلی گئی۔مغرب کا وقت تھا’گلی دور تک خالی تھی اور پرہول سناٹا طاری تھا۔
“پلیز!مم۔۔۔مجھے چھوڑ دو۔”ثانیہ نے آنکھیں بند کرتے ہوئے التجا کی۔
“چھوڑنے کا کام تو آپ کا ہے۔آپ اپنے سسرال والوں کو چھوڑ کے جارہی ہیں نا۔”وہ بچی واقعی کوئی جن ہی تھی جسے سب پتا ہوتا تھا۔
“تمہیں کیسے پتا؟”ثانیہ نے چونک کے پوچھا۔
“امی نے بتایا تھا۔”وہ لاپروائی سے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے بولی پھر رک کے ثانیہ کو گہری نگاہوں سے دیکھا۔
“اٹھو!اور مجھے اپنے گھر لے چلو۔”وہ انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے تحکمانہ انداز میں کہہ رہی تھی۔
ثانیہ کو جیسے کسی انجانی طاقت نے شانوں سے تھام کے کھڑا کیا تھا۔وہ مرے مرے قدموں سے بچی کے ساتھ چلنے لگی۔
گھر پہنچی تو دروازہ کھولنے کیلئے اس نے چابی پرس میں سے نکالنی چاہی۔
“اوہ!آنٹی بہت سست ہو تم۔آ بھی جاؤ اندر۔”وہ بچی گھر کے اندر کھڑے جھلائے ہوئے انداز میں کہہ رہی تھی۔
ثانیہ ہکا بکا رہ گئی تھی۔
٭٭٭٭٭
نادیہ عفان سے نوٹس لے کے لوٹی تو روشنی کو بینچ سے غائب پایا۔
“کہیں واپس تو نہیں چلی گئی۔”نادیہ نے سوچتے ہوئے کتاب اٹھائی۔
پینسل بک میں سے نکل کے فرش پہ گری تھی۔
“اوہ!تو وہ یہیں ہے پر کہاں؟”نادیہ نے متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھا۔
وہ پینسل روشنی کی ہی تھی اور ایک اچھے اسٹوڈنٹ کی طرح وہ اپنا اریزر تک کسی دوست کے پاس نہیں رہنے دیتی تھی۔یو نو اسٹوڈنٹ سائیکی!
“روشنی!”نادیہ آواز دیتے ہوئے آگے بڑھی تھی۔
دوسری طرف روشنی کو اسکی آواز آرہی تھی لیکن اسکے اندر اتنی جان نہیں تھی کہ وہ نادیہ کو ہی جواب دے سکے۔
دس منٹ کی تلاش کے بعد نادیہ نے اسے ڈھونڈ نکالا تھا۔اسکی غیر ہوتی حالت نے نادیہ کو چونکا دیا تھا۔روشنی بالکل ویسی ہی دکھ رہی تھی جیسے اس دن سرخ گلاب ملنے کے بعد دکھائی دے رہی تھی۔
“تمہیں کیا ہوا ہے؟”نادیہ کو اپنی آواز میں خوف محسوس ہوا تھا۔
روشنی اپنا ہاتھ چھڑاتی’وہاں سے بھاگ گئی تھی۔
وہ اپنی سب سے اچھی دوست کو کیسے بتاتی کہ اسکے ساتھ کیا ہوا تھا؟
٭٭٭٭٭
“دروازے پہ تالا تھا’تم اندر کیسے آئیں؟”ثانیہ لپک کے اسکے پاس پہنچی تھی۔
” جیسے تم آئیں۔”
“تم شیطان کی نانی ہو۔”
“وہ تو تم اپنے شوہر کی دادی کو کہتی ہو نا۔”بچی اپنے سفید دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے بولی تھی۔
ثانیہ دہل کے رہ گئی۔
“ایک تو تم کنجوس انسان’مٹھائی دو گی۔”وہ بچی اسکے کھو جانے پہ جھلائی تھی۔اس لئے بےاختیار ہی اسکا ہاتھ تھاما ۔
ثانیہ بری طرح چونکی تھی۔یوں لگ رہا تھا جیسے’کسی موم میں ڈھلے سانچے نے اسے چھوا ہو۔
“تمہارا ہاتھ!”ثانیہ نے تھوک نگلتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔
“میری مٹھائی!”وہ بچی اب کی بار پیر پٹخ کے خاصے غصے سے بولی تھی۔
ثانیہ بنا کچھ کہے کسی ٹرانس کی کیفییت میں کچن کی جانب بڑھی تھی۔کسی معمول کی طرح وہ اس کیبنٹ کی جانب بڑھی تھی جہاں خشک مٹھائیوں کے ڈبے ہوتے تھے۔
اس نے ایک ڈبا اٹھایا ہی تھا کہ بچی کی آواز نے اسے بےساختہ ٹوکا تھا۔
“آنٹی اللہ نے تمہیں دو ہاتھ دئیے ہیں نا تو دو ڈبے اٹھاؤ۔”
ثانیہ نے جھٹ دونوں ڈبے اٹھا کے اس بچی کی جانب بڑھائے تھے۔
“اب جاؤ!”وہ رخ موڑتے ہوئے خوفزدہ انداز میں بولی تھی۔
“ہاں!جارہی ہوں بابا’جارہی ہوں ورنہ تم نے تو بیہوش ہوجانا ہے۔”وہ بچی ہنستے ہوئے پلٹ گئی تھی۔
جانے کیوں ثانیہ کو لگا وہ بچی چل نہیں رہی’ہوا میں تیرتے ہوئے باہر کی جانب نکلی تھی۔
٭٭٭٭٭
“تم کہاں تھے صائم؟اتنی دیر لگادی۔”روشنی نے بھیگی آواز میں شکوہ کیا تھا۔
“سوری!بہنا’اصل میں ٹائر پنکچر ہوگیا تھا۔چلو!”صائم نے معذرت کی۔
وہ دونوں گھر پہنچے تو صائم گیٹ پہ ہی اسے اتار کے واپس چلا گیا۔آج جمعرات تھی اور اسے معلوم تھا کہ عثمان صاحب ضرور آئیں گے۔وہ صرف جمعرات والے دن ہی آیا کرتے تھے۔
وہ تیز رفتاری کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے مین چورنگی تک پہنچا تھا۔
“آرام سے میرے دوست’کیا تمہیں انکے آنے کا وقت نہیں معلوم۔”
وہ سگنل کھلنے کے انتظار میں رکا تھا کہ کوئی اسکے کان کے قریب بولا تھا۔
صائم نے جھٹکے سے پلٹ کے دیکھا۔بولنے والا اپنی کہہ کے آگے جا چکا تھا۔
“کون تھا یہ؟”صائم سگنل کی پیلی بتی کو دیکھتے ہوئے الجھ سا گیا۔
“ویسے بات تو ٹھیک ہی کہی ہے’عثمان صاحب تو گیارہ بجے سے پہلے آتے ہی نہیں۔”اسکی یاداشت نے جیسے اس انجانے شخص کی حمایت کی تھی۔
“جہاں اتنا کچھ ہورہا ہے’وہاں یہ بھی صحیح۔”صائم نے سر جھٹکتے ہوئے بائیک آگے بڑھائی۔
سگنل کھل چکا تھا اور اسے دیر ہورہی تھی۔
٭٭٭٭٭
روشنی اندر آئی تو ایک عجیب سی مہک نے اسکا استقبال کیا۔
“یہ کیا ہورہا ہے اماں؟”وہ ناک پہ دوپٹہ رکھتے ہوئے ناگواری سے بولی۔
“شش!عامل صاحب اندر عمل کررہے ہیں۔اس بلا کو اس گھر سے بھگانے کیلئے۔”سلطانہ بیگم اسے چپ کرواتے ہوئے ناگواری سے بولیں ۔
“بلا!”روشنی کے قدم جیسے وہیں تھمے تھے۔
“اماں!کون ہے اندر؟”اس نے کڑے تیوروں سے ماں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“بنگالی بابا!کالے جادو کا کاٹ کرتے ہیں۔ارے ثانیہ نے کوئی سفلی عمل کروایا ہے اس پورے گھر پہ،کسی بلا کو ہمارے پیچھے لگا دیا ہے۔”سلطانہ بیگم نفرت سے بولی تھیں۔
“اماں!”روشنی سر پکڑ کے رہ گئی تھی۔
“آپ سے یہ سب کس نے کہا؟”
“ارے صغری (ماسی)نے بتایا تھا عامل بابا کا پتا۔وہ تو بھلے آدمی خود چل کے آگئے اس بلا کو یہاں سے بھگانے کیلئے۔”سلطانہ بیگم عقیدت بھرے انداز میں بولی تھیں۔
“اوہ!صغری۔”روشنی نے دانت کچکچائے۔
“بیوقوف عورت!”
“ارے بہو یہ بو کیسی ہے؟”فرحانہ بیگم نے بھی وہی سوال پوچھا تھا جو روشنی کررہی تھی۔وہ آج کسی رشتے دار کے گھر گئی تھیں اور ابھی لوٹی تھیں۔
“اماں!عالم صاحب آئے ہیں۔وہ عمل کررہے ہیں۔”
“کون؟نور اللہ صاحب آگئے۔”فرحانہ بیگم چونک کے بولیں۔
“نہیں!وہ تو بھاگ گئے۔ان سے کہاں ہوتے ہیں یہ کام۔یہ بنگالی بابا ہیں جو آج ہی اس بلا کو گھر سے بھگا ڈالیں گے۔”سلطانہ بیگم نے نوراللہ صاحب پہ طنز کرنے کے ساتھ ساس کو بتایا۔
“دادو!اماں کو کیا ہوگیا ہے؟اور یہ بو تو جیسے بالوں کے جلنے اور خون کی ہے۔”روشنی کو ابکائی آرہی تھی۔
“ہاں !بال لئے ہیں انہوں نے گھر کی سب عورتوں کے اور ایک کالی مرغی بھی منگوائی تھی۔”سلطانہ بیگم کی سادگی پہ دونوں خواتین نے سر پیٹ لئے تھے۔
“سلطانہ!ذرا چلو میرے ساتھ اندر اور روشنی تم اپنے کمرے میں جاؤ۔خبردار!جو باہر نکلیں۔”فرحانہ بیگم اسے خبردار کرتے ہوئے کمرے کی جانب بڑھی تھیں۔
روشنی کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا سو وہ سر ہلاتے ہوئے اپنے کمرے میں پہنچی تھی۔ڈریسنگ ٹیبل پہ سرخ گلاب اسکا منہ چڑا رہا تھا۔روشنی آج یونیورسٹی میں اتنے غیر معمولی حالات سے دور چار ہوئی تھی کہ اسے اس گلاب سے ذرا بھی خوف محسوس نہیں ہوا تھا۔
کسی غیر متوقع حالت کا روز ہونا بھی آپ کیلئے اس صورت حال کو معمولی بنادیتا ہے کیونکہ آپ عادی ہوجاتے ہیں۔
روشنی کے دماغ میں دفعتاً ایک ترکیب آئی تھی۔
٭٭٭٭٭
وہ چادر اچھی طرح اپنے وجود کے گرد لپیٹتے ہوئے باہر شور مچاتے ہوئے نکلی اور سیدھا اس کمرے میں جا پہنچی جہاں عامل بابا بیٹھے تھے۔
“اماں!اماں۔۔۔”روشنی کا سانس پھول رہا تھا۔
“روشنی!تم یہاں کیا کررہی ہو؟”فرحانہ بیگم نے اسے ناگواری سے گھورا۔
“دادو!میرے کمرے میں ایک عجیب سی بالوں بھری مخلوق ہے۔وہ کہتی ہے مجھے عامل بابا نے بھیجا ہے۔اس بلا کو بھگانے کیلئے!”روشنی نے کہتے ہوئے کن اکھیوں سے عامل بابا کا جائزہ لیا۔
سیاہ لبادے میں ملبوس،گلے میں رنگ برنگی مالائیں ڈالے،آنکھوں میں گہرا سرمہ اور شفاف چندیا لگے وہ اسے عامل کم اور سرکس میں کام کرنے والے زیادہ لگے۔
ایسے ہوتے ہیں عالم’ایک وہ نوراللہ صاحب تھے۔
کیا نورانی چہرہ پایا تھا؟
“عامل بابا!”سلطانہ بیگم نے پریشانی سے اسے پکارا۔
“ٹھیک کہتی ہے لڑکی!وہ ہمارا بیر ہے۔اس بلا سے لڑنے کیلئے ہمارا بیر ہی کافی ہے۔”عامل بابا پرغرور انداز میں بولے۔
“اچھا!”روشنی نے لفظوں کو کھینچا۔
“تو آپ وہاں چلیں نا’وہاں بہت برا حال ہے۔”روشنی گالوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے مصنوعی خوف سے بولی تھی۔
“اچھا!”عامل بابا کے چہرے کا جیسے رنگ اڑ گیا تھا۔
وہ اصلی عامل ہوتا تو کچھ کرتا نا۔
“ایسا ہے کہ بیر جب لڑتا ہے تو اسکے سامنے نہیں آتے بلکہ میرا یہاں سے جانا ہی ٹھیک ہے۔”عامل بابا اپنا تھیلا اٹھاتے ہوئے جلدی سے بولے۔
“اچھا!رزیل انسان کتنے پیسوں کا چونا لگا کے جارہا ہے میری اماں کو۔”روشنی نے آگے بڑھ کے اسکا تھیلا چھنا۔
اس بھاری بھر کم تھیلے میں سے پیر بندھی کالی مرغی باہر نکلی تھی ،باقی ایک پلاسٹک کی بوتل تھی جس میں سرخ سیال تھا۔ایک سرخ پوٹلی میں انہیں مختلف طرح کے بال بھی ملے تھے۔
روشنی اس پوٹلی کے کپڑے کو پہچان گئی تھی۔وہ اسکے سوٹ کے کپڑے کا ہی فالتو ٹکڑا تھا۔
“تو اسکا مطلب یہ بال بھی ہمارے ہیں۔”روشنی نے سوچتے ہوئے وہ پوٹلی دادی کی طرف اچھالی۔
“اے لڑکی!اپنی حد میں رہ ورنہ بھسم کردوں گا تجھے۔”عامل اس پہ اپنی سرخ آنکھیں گاڑ کے بولا۔
وہ لڑکی بال لے اڑی تھی۔بال!جن کی کالے علم میں بہت مانگ ہوتی ہے اور ایک’عورت کے ایک ایک بال کی قیمت کوئی لڑکی کیا جانے۔
عامل کو تو چونا ہی لگ گیا تھا۔اسکا کام ہی یہی تھا’عورتوں کو بیوقوف بنا کے ان سے بال اور ضرورت کی وہ چیزیں لینا جو جادو میں کام آسکتی تھیں۔وہ خود عامل نہیں تھا لیکن کالے جادو کے سامان کا بیوپار ضرور تھا۔
“بھسم تو تجھے ابھی میں کرتی ہوں۔”فرحانہ بیگم چپل اتارتے ہوئے آگے بڑھی تھیں۔
روشنی نے ٹیبل پہ رکھا گلدان ہاتھوں میں تولا تھا۔
“اے بہو!تمہاری عقل واپس آگئی ہو تو تم بھی اپنا کچھ حصہ ڈالو۔”فرحانہ بیگم نے چپل سے سیدھا عامل کے گنجے سر کو نشانہ بنایا تھا۔
روشنی ان کے درست نشانے کی داد دئیے بنا نہ رہ سکی تھی۔
“واہ دادی’واہ!”
اگلا دس منٹ عامل گھر سے باہر تھا او رسلطانہ بیگم شرمندگی سے سر جھکائے کھڑی تھیں۔
“سلطانہ!یہ بال تم نے یقینا دھوپ میں سفید کئے ہیں۔”فرحانہ بیگم کو افسوس ہوا تھا۔
“اماں!میں نے جو کیا اپنے بچوں کیلئے کیا’میں انکو یوں نہیں دیکھ سکتی۔”سلطانہ بیگم بےبسی سے بولیں۔
“تم ماں ہو تو میں بھی دادی ہوں۔ارے!یہ سارے بچے میرے بیٹے کے ہیں اور بہو اصل سے زیادہ سود پیارا ہوتا ہے۔تم جلدی کے چکر میں گھر کو برباد تو مت کرو۔نوراللہ صاحب سے اس آدمی کا کیا مقابلہ؟کہاں وہ گلاب کی بھینی مہک اور کہاں یہ چراند۔یہ صغری کل آئے تو اسے پہلی فرصت میں باہر کا راستہ دکھاتی ہوں۔”فرحانہ نے سمجھانے کے ساتھ فیصلہ بھی سنایا تھا۔
“اماں!آئندہ دھیان رکھوں گی لیکن روشنی تمہارے کمرے میں۔۔۔”سلطانہ بیگم نے بےچینی سے بات ادھوری چھوڑی۔
“کچھ نہیں ہے اماں’وہی سرخ گلاب ہے۔”وہ صوفے پہ بیٹھتے ہوئے بیزاری سے بولی تھی۔
یہ تو اب جیسے معمول کا حصہ بن گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
گیارہ بجنے تک ایک’ایک سیکنڈ کو صائم نے اپنی انگلیوں پہ گنا تھا۔
گیارہ بجتے ساتھ ہی گلاس ڈور کھلا تھا اور عثمان صاحب کے ساتھ عامر اندر داخل ہوا تھا۔عامر لپک کے انکے پاس پہنچا تھا۔
“آپ نے اس دن وہ بات کیوں کی تھی؟”صائم ان سے پوچھ رہا تھا۔
عثمان صاحب حیرت سے اپنے راستے میں آئے ہوئے لڑکے کو دیکھنے لگے۔
“یہ کون پاگل تھا جو انکی راہ میں آیا تھا۔”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...