صبح کا دھندلکا آہستہ’آہستہ چاروں اور پھیلنا شروع ہورہا تھا۔شہر کی فضاؤں میں اذانِ فجر کی گونج تھی۔نیم والی گلی کے گھروں کے دروازے کھلنے بند ہونے لگے۔ محلے کی مسجد گلی سے اوپر کی طرف پڑتی تھی سو سب کا رخ ادھر ہی ہوتا تھا۔
“ارے!یہ کون ہے؟”سب سے پہلے جمیل صاحب کی نظر اس لڑکے پہ پڑی تھی جو کونے پہ اوندھے منہ گرا ہوا تھا۔
کسی نے آگے بڑھ کے اسے سیدھا کیا تو محلے کے لوگ چونک اٹھے۔
“یہ تو کمال صاحب کا لڑکا ہے نا۔”کسی نے تصدیق چاہی۔
“ہاں میاں انہی کا ہےلیکن اسے ہوا کیا ہے؟”جمیل صاحب اسکی پیشانی چھوتے ہوئے فکر مند ی سے بولے۔
“کیاخبر؟”رفیقی صاحب نے لاعلمی دکھائی۔
“کیا بات ہے بھائیو؟اس وقت سب یہاں کیوں؟”کمال صاحب بھیڑ دیکھ کے اس طرف چلے آئے۔
“آپ کا بیٹا صائم کمال صاحب،اسے بہت تیز بخار ہورہا ہے اور یہ بیہوش بھی ہے۔”جمیل صاحب کے بتانے کی دیر تھی کہ کمال صاحب فورا اسکی جانب لپکے تھے۔
“صائم!آنکھیں کھولو بیٹا۔”انہوں نے پریشانی سے اسے پکارا۔
“اسے گھر لے جائیں۔”جمیل صاحب نے ہمدردی سے مشورہ دیا تھا۔
“ارے یہ اسکے گال پہ نشان کیسا ہے؟”امجد صاحب جو صائم کو سہارا دے کے اٹھا رہے تھے حیرانگی سے بولے۔
“کسی چیز نے کاٹا ہوگا۔”
“ارے نہیں!یہ تو طمانچہ کا نشان ہے’کس نے اتنا زور دار تھپڑ مارا ہے۔”جمیل صاحب نے عمیق نگاہوں سے صائم کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
“صائم کا جائزہ بعد میں لیجئے گا،پہلے اسے گھر لے چلیں۔”کمال صاحب کچھ پریشانی سے اور کچھ اکتاہٹ سے بولے تھے۔
انکی بات سن کے باقی سب تو مسجد کی جانب بڑھ گئے تھے جبکہ امجد صاحب ‘کمال صاحب کے ساتھ ہولئے تھے۔
٭٭٭٭٭
“کمال آپ ابھی تو گئے تھے مسجد۔”سلطانہ بیگم نے حیرانگی سے پوچھا۔اس سے پہلے کمال صاحب جواب دیتے سلطانہ کی نظر صائم پہ پڑی تھی۔
“یا اللہ!اسے کیا ہوا؟”
کمال صاحب نے انہیں ساری بات بتادی تھی۔
“اللہ رحم!یہ ہو کیا رہا ہے؟میں جا کے بہو کو جگاتی ہوں۔”‘سلطانہ بیگم پریشانی سے کہتی باہر نکلی تھیں۔
ثانیہ جب سے آئی تھی واپس نہیں گئی تھی۔
“ثانیہ اٹھو !”
“کیا ہوگیا امی؟”اس نے مندی مندی نگاہوں سے انہیں دیکھا۔
“صائم رات کو گھر نہیں آیا اور تم نے بتایا بھی نہیں۔”
“تو آپ مجھ سے اتنی صبح یہ پوچھنے آئی ہیں۔”وہ جماہی لیتے ہوئے بیزاری سے بولی۔
“او بی بی! وہ ساری رات گلی میں بیہوش پڑا رہا ہے اور تمہاری نیند ہی نہیں پوری ہورہی ہے۔”سلطانہ بیگم کو غصہ آگیا تھا۔
ثانیہ کا دماغ بھک سے اڑا تھا۔
“کیا مطلب؟”
“باہر آؤ !میرے کمرے میں بیہوش پڑ ا ہے وہ۔”سلطانہ بیگم اسے کہتے ہوئے باہر نکل گئی تھیں۔
٭٭٭٭٭
صوفی صاحب دو گلی چھوڑ کے رہتے تھے۔اپنا کلینک بھی تھا اور چالیس سال سرکاری نوکری کا وسیع تجربہ بھی تھا۔کمال صاحب آج ایمرجنسی میں انہیں ہی لائے تھے۔
“بلڈ پریشر انتہائی لو ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے دماغ گہرے صدمے میں ہے۔”صوفی صاحب نے چیک اپ کرنے کے بعد کہا ۔
“کہیں کارخانے میں کوئی نقصان تو نہیں ہوگیا۔”ثانیہ دہل کے بولی۔
سلطانہ بیگم نے دہل کے اسے دیکھا۔
“بولنے سے پہلے بالکل نہیں سوچتی تھی یہ لڑکی۔”
“یہ ہوش میں آئے تو اس سے فوراً کچھ نہیں پوچھنا ہے جب تک یہ خود بتانے پر آمادہ نہ ہو۔”صوفی صاحب نے جاتے جاتے ہدایت کی تھی۔
“نور اللہ صاحب کو فون لگاؤ کمال۔”فرحانہ بیگم صائم کا سرخ ہوتا گال دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭
“اچھا ہوا! کمال صاحب،آل آپ نے خود فون کرلیا۔میں بھی آپ کو کال کرنے والا تھا۔”سلسلہ ملنے پہ نور اللہ صاحب نے کہا۔
“خیریت!”کمال صاحب چونک سے گئے۔
“اصل میں میرے ہم زلف(سالی کے شوہر)کا انتقال ہوگیا ہے کل رات تو ہم گاؤں کیلئے نکل آئے ہیں۔”وہ بتا رہے تھے۔
“انا للہ وانا الیہ راجعون!”کمال صاحب بےساختہ ہی بولے تھے۔
“آپ نے فون کیا خیریت؟”نور اللہ صاحب کو خیال آیا۔
“والدہ بات کریں گی۔”کمال صاحب نے کہتے ہوئے فون فرحانہ بیگم کو پکڑایا۔
“جی ماں جی!حکم۔”
فرحانہ بیگم نے انہیں صائم کی نامعلوم بیہوشی کی داستان سنائی تھی۔
“اوہ!صائم ہوش میں آیا۔”
“ابھی نہیں!”
“ٹھیک ہے!آدھے گھنٹے میں آجائے گا،فون اسکے پاس لے جائیں۔”نور اللہ صاحب نے ہدایت کی۔
کچھ دیر خاموشی چھائی رہی یہاں تک کہ کال بند ہوگئی تھی۔
٭٭٭٭٭
ایک گھنٹے کے وقفے سے فون دوبارہ بجا تھا۔دوسری طرف سے نوراللہ صاحب نے جو بات بتائی تھی اس نے ان سب کے پیروں تلے سے زمین نکال دی تھی۔
“صائم کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔”
“لیکن اس نے کیا کیا ہے؟”کمال صاحب کو سمجھ نہیں آئی تھی۔
“اس نے ہی آپ لوگوں کو میرا پتہ دیا ہے، میرے بارے میں بتایا ہے۔”نور اللہ صاحب نے ایک یقینی وجہ بتائی تھی۔
“تو اب؟”کمال صاحب پریشانی سے پوچھ رہے تھے۔
“فکر نہ کریں’اللہ بہتر کرے گا۔میں ان شاءاللہ دو دن میں واپس آؤں گا پر کمال صاحب ایک بات بتادوں شاید پورا ایک جنات کا گھرانہ ،آپ کے گھرانے کے پیچھے ہے جو وظائف بتائے ہیں،ان پہ عمل کیجئے۔” نور اللہ صاحب نے سختی سے ہدایت کی تھی۔
٭٭٭٭٭
سورج کی نرم کرنیں پردے کی رکاوٹ عبور کرتے ہوئے پورے کمرے میں پھیل رہی تھیں۔روشنی اپنے کمرے میں گم صم سی بیٹھی تھی۔
صرف ایک ہفتے میں اسکی زندگی کا نقشہ بدل گیا تھا۔
آج پھر اسکا پیپر تھا اور وہ یونیورسٹی جانے کی خود میں ہمت نہیں پاتی تھی۔
سیل فون بجا تو روشنی نے بےدلی سے فون اٹھا لیا۔دوسری طرف نادیہ تھی۔
“کب تک آؤ گی روشنی؟”وہ پوچھ رہی تھی۔
“پیپر سے تھوڑی دیر پہلے۔”اس نے بےدلی سے جواب دیا تھا۔
“ایک دو گھنٹے پہلے نہیں آسکتیں۔”وہ پوچھ رہی تھی۔
“نہیں!”
“اچھا !پھر ملتے ہیں۔”نادیہ نے کہہ کے فون بند کردیا تھا۔
٭٭٭٭٭
“امی!”صائم نے ہوش میں آتے ہی انہیں پکارا تھا۔
“کہو!میری جان۔”
“وہ۔۔۔وہ لڑکی!”صائم کا حلق خشک ہورہا تھا۔
“کون؟ثانیہ!”انہوں نے نرمی سے پوچھا۔
“نہیں! وہ ہرے کپڑوں والی۔”صائم نے خوفزدہ انداز میں کہا۔
فرحانہ بیگم جو قریب ہی بیٹھی تھیں ،اسکے ماتھے پہ پھونک مارتے ہوئے بولی تھیں۔
“اب کہو بیٹا!”
صائم نے انہیں سارا واقعہ بتایا تھا۔
اس لڑکی کا گھورنا،تھپڑ مارنا!
ثانیہ منہ پہ ہاتھ رکھے’فق چہرے کے ساتھ سنے گئی۔
ایک تو نیم کا پیڑ اوپر سے رات کا پہر!
“تو نور اللہ صاحب کی بات ٹھیک تھی۔”سلطانہ بیگم گہری سانس بھر کے رہ گئی تھیں۔
“کیا مطلب؟”صائم نے پوچھا۔
“مطلب یہ کہ یہ انتقامی کاروائی میں تھپڑ پڑا ہے تمہیں۔اب جب تک نوراللہ صاحب نہیں آجاتے ،تم کچھ نہیں کروگے اس معاملے میں۔”فرحانہ بیگم نے سختی سے ہدایت کی۔
“یہ یہاں رہیں گے تو کچھ کہیں گے نا۔”ثانیہ درشتی سے بولی۔
“کیا مطلب؟”دونوں خواتین نے اسے چونک کے دیکھا تھا۔
“اس روشنی کی وجہ سے پورے خاندان پہ وبال آیا ہوا ہے۔میں اپنے شوہر کو لے کے امی کے پاس جارہی ہوں۔مجھے یہاں ڈر’ڈر کے نہیں مرنا۔”ثانیہ تہیہ کرچکی تھی۔
“ناعاقبت اندیش لڑکی!جب تک مسئلہ حل نہیں ہوجاتا،کوئی کہیں نہ جائے ورنہ معاملہ سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔”فرحانہ بیگم اپنی ناگواری چھپا نہ سکی تھی۔
“اونہہ!”ثانیہ سر جھٹکتے ہوئے باہر نکل گئی تھی۔ویسے بھی جو اسکے دماغ میں سما جائے اسے باہر نکالنا اتنا آسان نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭
پیپر شروع ہوکے ختم بھی ہوگیا لیکن روشنی کی خاموشی ٹوٹ کے نہ دی تھی۔یہاں تک کے وہ آج پیپر ہونے کے بعد اسے ڈسکس بھی نہیں کررہی تھی جو اسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔
“لڑکی!کیا ہوا ہے؟”نادیہ نے اسکا کاندھا ہلایا۔
“کچھ نہیں!”وہ بیزاری سے گھڑی پہ وقت دیکھتے ہوئے بولی۔صارم نے اسے لینے آنا تھا۔
“اچھا!سنو نا مجھے اسٹیٹس کے پیپر کی کچھ چیزیں ڈسکس کرنی ہیں’ پلیز ادھر چلو نا۔”نادیہ نے انسسٹ کرتے ہوئے خالی بینچز کی طرف اشارہ کیا ۔
“اچھا!”روشنی سر ہلاتے ہوئے اسکے ساتھ آگے بڑھی تھی۔
٭٭٭٭٭
“بس!بہت ہوا۔اب امی کے پاس جانا ہی ہوگا۔”ثانیہ بڑبڑاتے ہوئے اپنے گھر کی سمت بڑھ رہی تھی کہ اچانک ٹھٹک کے رکی تھی۔
راستے میں گلابی فراک میں ملبوس’گھنگھریالے بالوں والی ایک خوبصورت سی بچی نے اسکا راستہ روکا تھا۔
“کیوٹ!”ثانیہ نے اسکے گال کھینچے۔اس بچی نے جھٹکے سے سر اٹھا کے ثانیہ کو دیکھا۔اس کی سیاہ آنکھوں سے ثانیہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
“آنٹی!آپ مجھے مٹھائی کھلائیں گی؟”اس بچی کی فرمائش نے ثانیہ کے چودہ طبق روشن کئے تھے۔
٭٭٭٭٭
آسمان پہ آج سیاہ بادل چھا گئے تھے،مغرب کی اذانیں شروع ہوچکی تھیں اور صائم کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔ڈپارٹمنٹ تقریبا خالی ہوچکا تھا۔سفید ،پیلی روشنیاں جل چکی تھیں۔
نادیہ کو ایک کے بعد ایک چیز یاد آجاتی تو وہ پوچھنے لگتی ۔
“بس کرو نادیہ اور کتنا سر کھاؤ گی؟”روشنی جمائی لیتے ہوئے بیزاری سے بولی۔
“بس ایک چیز اور۔۔۔ارے!یہ عفان کہاں جارہا ہے۔اس کے پاس ٹووے اینووا کے نوٹس ہیں۔”نادیہ کتاب وہیں چھوڑتے ہوئے عفان کی جانب بڑھی۔
روشنی بیزاری سے گردن موڑ کے مخالف سمت دیکھنے لگی جہاں کو طویل راہداری تھی۔
دفعتا روشنی ایک دم چونکی تھی۔
اس نیم تاریک راہداری میں کوئی سست روی سے چلتا آگے کو جارہا تھا۔
روشنی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کے کھڑی ہوئی تھی۔
اسکا حلیہ بھی عجیب سا تھا۔
لانگ کوٹ اور سر پہ پرانے طرز کی فلٹ ہیٹ،گردن میں مفلر ڈال رکھا تھا۔
روشنی دبے پاؤں قدم بڑھاتی رہی یہاں تک کہ وہ ہیولااس کوریڈور کے آخر میں رک گیا تھا۔
اسکے بعد جو منظر روشنی نے دیکھا تھا’وہ اپنی بینائی پہ یقین نہیں کرپائی تھی۔
وہ ہیولااپنے اصل قد سے چھوٹا ہوتے’ہوتے ایک بلے میں بدل گیا تھا۔
روشنی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔