وہ اس وقت شدید غصے کی حالت میں یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہا تھا زاشہ کو تکلیف دے کر وہ خود بھی اذیت کی انتہا پر ہوتا تھا اسکی زندگی گناہوں کا انبار سہی مگر اس نے کبھی کسی عورت کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کیا تھا اس نے ہمیشہ خود کو زاشہ کی امانت سمجھا تھا اور کبھی اس امانت میں خیانت کا خیال بھی اس کو نہیں آیا تھا اسی لئے آج زاشہ کو کسی اور کے قریب دیکھ کر وہ خود پر سے اختیار کھو بیٹھا تھا اور نجانے کیسے اپنی جان کو تکلیف دے بیٹھا تھا اسکی تکلیف کے بارے میں سوچتے ہونے زرداب نے اپنا داہنا ہاتھ سامنے رکھے کرسٹل کے واز پر مارا تھا واز ٹوٹ کر بکھر گیا تھا اور ساتھ میں زرداب کا ہاتھ بھی خون سے بھر گیا تھا ۔
تبھی دروازے پہ دستک ہوئی تھی _
“آ جاؤ سکندر ”
زرداب کی تھکی ہوئی آواز آئی تھی سکندر دروازہ کھول کر اندر آیا تھا اور ایک فائل زرداب کے سامنے ٹیبل پر رکھ دی تھی ۔
“آغا یہ اس ایس پی کی ساری ڈیٹیل ہے اور زاشہ بی بی ٹھیک کہہ رہی تھیں وہ آج پہلی بار ہی ٹکرائی تھیں اس شخص سے ”
سکندر نے سر جھکا کر زرداب کو ہر ایک تفصیل سے آگاہ کیا تھا ۔
“ٹھیک ہے اب تم جا سکتے ہو ”
زرداب نے اسے جانے کا حکم دیا تھا ابھی سکندر جانے کے لئے پلٹا ہی تھا جب آغا زرداب کی آواز نے اسکو روکا تھا ۔
“وہ اب کیسی ہے سکندر ؟”
“آغا مادام اب بلکل ٹھیک ہیں ڈاکٹر انکو چیک کر کہ جا چکی ہے اب وہ سو رہی ہیں ان کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے تو اب احتیاط کرنا ہو گی”
سکندر کی بات سن کر زرداب نے اسکو جانے کا بولا تھا
“ٹھیک ہے جاؤ تم ”
سکندر کے باہر نکلتے زرداب نے سٹڈی کی ساری لائٹس آف کر دی تھیں اور خود صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر ماضی کی یادوں میں گم ہو گیا۔
تبریز اس وقت” دی زرداب اینڈ زاشہ گینگ ” کی فائل اسٹڈی کر رہا تھا جس میں انکے سارے خفیہ کارناموں کی تفصیل درج تھی بس ثبوتوں کی ضرورت تھی جو اب تبریز اور تیمور اکٹھے کر رہے تھے وہ بھی انتہائی خفیہ طور پر کیوں کہ انکے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے لوگ ہی انکے ساتھ وفادار نہیں تھے اسی لیے اب تبریز نے بھی انہی کا طریقه اپنایا تھا وہ اب کسی کو بھی سچ بتاے بنا اپنے طور پر کام کر رہا تھا۔
تبھی دروازہ ناک کر کہ تیمور اندر آیا۔
“ارے آؤ یار میں تمہارا ہی ویٹ کر رہا تھا ”
تبریز بولتے ہوے سیدھا ہوا تھا۔
“خیریت ایس پی صاحب آپ ہم چھوٹے لوگوں کو کیسے یاد فرما رہے تھے”
تیمور توپیدل مارچ کر کے ہی جلا بیٹھا تھا اسی لیے جلا بھناجواب دیا تھا۔
آج ریسٹورانٹ سے واپسی پر تبریز نے اسے جیپ سے اتار دیا تھا اور اسکا پرس بھی دھوکے سے ساتھ ہی لے آیا تھا نتیجتا اسے اتنی دور سے پیدل واپس آنا پڑا ۔
“ہاہاہاہاہا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو میرا چھوٹا سا بدلہ تھا تاکہ آئندہ تو مجھ سے پنگا نا لے ”
تبریز ہستے ہوے بولا۔
“ویسے یہ کہاں کا انصاف ہے ایس پی صاحب میرے ذرا سے مذاق کی آپ نے اتنی بڑی سزا دی اور جس حسینہ کی وجہ سے میں نے مذاق کیا اس سے آپ جناب کھری کھری سن کر آ گنے”
تیمور کرسی پر گرتے ہوے بولا۔
“اب دوبارہ اس ڈائین کا نام مت لینا میرے سامنے ورنہ نتیجے کے ذمہ دار تم خود ہو گنے”
تبریز کا لہجہ وارننگ دینے والا تھا۔
تیمور بس اسکو دیکھ کر رہ گیاتھا۔
“اچھا ٹھیک ہے یہ بتاؤ مجھے کیوں یاد کر رہے تھےآپ جناب ”
تیمور نے سیدھے ہوتے ہونے استفسار کیا۔
“اس فائل میں آغا زرداب علی خان اور اسکے سارے اہم لوگوں کی تصویریں موجود ہیں مگر زاشہ نامی خاتون جو کہ آغازرداب کی رائیٹ ہینڈ ہے اسکے بارے میں کوئی خاص انفارمیشن نہیں ہے نہ ہی اسکی کوئی تصویر موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ اس کے بارے میں معلومات ہونا بہت ضروری ہے کیوں کہ پاکستان میں آغا کی عدم موجودگی میں گینگ کے سارے کام یہی دیکھتی ہے اب تمہارا کیا خیال ہے اس بارے میں! ”
تبریز نے اپنی پریشانی کی وجہ بتا کر اب تیمور سے اسکی رائے پوچھی تھی۔
“ہممممم ۔ ۔ ۔ میں پچھلے ایک سال سے اس کیس پر کام کر رہا ہوں ہر بندے کی انفارمیشن مل گئ مگر اس زاشہ کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہوا لگتا ہے کہ زرداب کے لیے بہت اہم ہے یہ عورت تبھی وہ اسکو لے کر اتنا محتاط ہے۔”
تیمور نے اسکو بتایا۔
“مطلب اب ہمیں زاشہ پہ فوکس کرنا ہو گا ”
تبریز پرسوچ نگاہوں سے تیمور کو دیکھتے ہونے بولا۔
“ہاں اور اب پلیز گھر چل میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں اب یہ آنٹی کے ہاتھ کا کھانا کھا کر ہی آرام سے بیٹھیں گے ویسے بھی تیری وجہ سے اس وقت میری حالت بہت خراب ہے”
تیمور نے ایک بار پھر سے دہائی دی۔
“جانتا ہوں میں تجھے ہمیشہ بھوکا ہی رہتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اب باہر جا کر انتظار کر میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں”
تبریز کے کہنے پر تیمور برے برے منہ بناتا ہوا آفس سے واک آوٹ کر گیا اور تبریز کا اب سارا دھیان زاشہ کی طرف تھا کہ کیسے اس تک پہنچا جانے۔۔۔۔۔۔۔
گھڑی نے رات کے 12 بجنے کا اعلان کیا تھا ساتھ ہی زرداب کی آنکھ بھی کھل گئی تھی وہ اپنے ماضی کو سوچتے ہونے نجانے کب یونہی صوفے پہ بیٹھے بیٹھے سو گیا تھا اس نے اپنی جلتی آنکھوں کو زور سے بند کر کہ پھر سے کھولا تھا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا کافی دیر تک ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے گردن اکڑ گئ تھی۔
کچھ سوچتے ہونے اس نے فون اٹھا کر سکندر کو کال کی تھی اور اسکو اپنی دبئی کی ٹکٹ کنفرم کرنے کو کہا۔
اس وقت وہ جس ذہنی اذیت اور توڑپھوڑ کا شکار تھا اسکو فرار کی اشد ضرورت تھی ایک ٹھنڈی سانس بھر کر وہ اٹھا تھا اور اسٹڈی سے باہر نکل آیا اسکا رخ زاشہ کے کمرے کی طرف تھا وہ جانے سے پہلے اسکو ایک نظر دیکھنا اور محسوس کرناچاہتا تھا۔
کمرے کے سامنے رک کر اس نے خود کو ریلیکس کیا اور آہستہ سے دروازہ پش کرتے ہونے روم کے اندر داخل ہوا کمرے میں نائٹ بلب کی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی سامنے ہی زاشہ بیڈ پر محو استراحت تھی سیدھے ہاتھ پہ پلاسٹر چڑھا ہوا تھا پیشانی پہ بھی بینڈیج لگی ہوئی تھی گلابی چہرہ اس وقت کملایا ہوا تھا۔
وہ آہستہ سے اسکے سرہانے بیٹھ گیا اور اسکا پلاسٹر میں جکڑا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا تھا دو آنسو اسکی آنکھوں سے ٹوٹ کر زاشہ کہ ہاتھ پہ لگی پٹی میں گم ہو گے۔
“تمھیں تکلیف دے کر خود بھی ہر لمحہ کانٹوں پہ گزارتا ہوں میں جی چاہتا ہے تمہاری محبت اپنے دل سے نکال پھینکوں لیکن یہ خیال ہی میری جان نکال لیتا ہے کہ پھر تمہارے بناکیسے جی پاؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تم سے دور جانے کا احساس مجھے اندر سے ختم کر رہا ہے پتا نہیں کیوں اس دل کو ایک بے سکونی سی ہے ۔ ۔ ۔ ۔
ایسا لگتا ہے جیسے کوئی تمھیں مجھ سے چھین لے گا یہ احساس مجھے پاگل کر رہا ہے مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو جاؤں گا ۔ ۔ ۔ ۔
ابھی جا رہا ہوں مگر جلد ہی واپس آؤں گا اب ہماری شادی جلد ہو جانی چاہیے ورنہ میری دیوانگی نجانے کیا روپ دھارے گی ۔ ۔ ۔
جانتا ہوں تم میرا لمس پاتے ہی جاگ گئ ہو اس لیے بتا رہا ہوں تیار رہنا ۔۔”
زرداب نے زاشہ کے چہرے پہ جھک کر اپنا پرحدت لمس چھوڑا اور مسکراتے ہونے روم سے باہر نکل گیا ۔
دروازہ بند ہونے کی آواز سن کر زاشہ نے پٹ سے اپنی آنکھیں کھول دیں اور رکی ہوئی سانس بحال کی۔
اسکی پیشانی اور ہاتھ آغا کے لمس کے احساس سے جل رہے تھے آغا کی باتوں نے اسکی رہی سہی امید بھی ختم کر دی تھی بےبسی کے شدید احساس سے اسکی سیاہ آنکھوں سے سیال بہہ نکلا۔
رات کو نجانے کب روتے روتے اسکی آنکھ لگی تھی اب جو آنکھ کھلی تو کافی دن چڑھ آیا تھا دیوار پہ لگی گھڑی 11بجنے کا اعلان کر رہی تھی وہ آہستہ سے بیڈ پہ اٹھ بیٹھی تبھی ہلکا سا دروازہ ناک کر کہ بوا اندر آئیں ۔
“اچھا ہوا بیٹا تم اٹھ گئی اب اٹھ کر فریش ہو جاؤ جلدی سے میں نے اسپیشل ناشتہ بنایا ہے آج اپنی بیٹی کے لیے”
بوا نے کھڑکیوں کے پردے سائیڈ پہ کرتے ہونے کہا۔
زاشہ اداسی سے مسکرا دی وہ جانتی تھی کہ بوا اسکو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں اور اب بھی وہ کل کے واقعے کا اثر زائل کرنے کے لیے یہ سب کر رہی تھیں۔
“بوا آپ بلاوجہ ہی اتنا کام کرتی ہیں مت تھکایا کریں خود کو میرے لئیے ۔ ۔ ۔ ”
“ارے بیٹا کام ہوتا ہی کتنا ہے جو میں تھک جاؤں گی ویسے بھی بھلا کبھی کوئی ماں بھی تھکتی ہے اپنے بچوں کا کام کر کہ ۔ ۔ ”
زاشہ کے بولنے پر بوا نے مسکرا کر جواب دیا۔
“آغا چلے گنے کیا ۔ ۔ ”
اس نے آہستہ سے پوچھا۔
“ہاں بیٹا ۔ ۔ ۔ آغا توصبح 7 بجے ہی چلے گنے تھے ۔”
بوا کا جواب سن کر وہ ایک دم سے ریلیکس ہوئی ۔
“ٹھیک ہے بوا آپ چلیں میں آتی ہوں ”
بوا کے جانے کے بعد وہ بستر سے نکل کر فریش ہوئی جبھی اسکے فون نے شور مچایا۔
اس نے دیکھا تو نور کالنگ لکھا آ رہا تھا اس نے فوری طور پر کال رسیو کی۔
“سوری یار میں کل یونی نہیں آ پائی اور نہ ہی تجھے بتا سکی ۔ ۔ ۔ ایکچولی کل میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اوپر سے میرا فون بھی خراب ہو گیا تھا فون ٹھیک ہونے کے بعد سب سے پہلے تجھے فون کیا ہے اب پلیز تو ناراض مت ہونا۔”
اس سے پہلے کہ زاشہ کچھ بولتی نور کال پک ہوتے ہی نان اسٹاپ شروع ہو گئی ۔
زاشہ کے لبوں کو بےساختہ مسکراہٹ نے چھوا۔
“ناراض تو میں تھی تم سے لیکن اب نہیں ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ تم ایک گھنٹے تک مجھے میرے گھر کے پاس والے بس اسٹاپ سے پک کر لینا پھر مل کہ بات کرتے ہیں۔”
زاشہ نے اپنی سنا کر فون بند کر دیا اور نور ارے ارے ہی کرتی رہ گئ ۔
نور اسکو یونی میں ملی تھی شوخ اور چلبلی نیچر کی وجہ سے بہت جلد وہ زاشہ کے قریب آ گئی تھی پہلے پہلے تو زاشہ نے باقی لوگوں کی طرح نور کو بھی اگنورہی کیا مگرپھر جلد ہی نور اس کے بہت قریب آ گئی تھی اور اب یہ حال تھا کہ دونوں ایک جان دو قالب مشہور تھیں۔
نوراور اس کے حالات میں کوئی خاص فرق نہیں تھا شاید اسی وجہ سے دونوں ایک دوسرے کے درد کو اچھے سے سمجھتی تھیں۔
کہنے کو تو نور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اور روپے پیسے کی بھی کوئی کمی نہیں تھی مگر باپ کی لاپرواہی اور سوتیلی ماں کی سازشوں نے اسے انتہائی خودسر بنا دیا تھا مگر جب زاشہ اسکے قریب ہوئی تو اس نے جانا کہ وہ بھی اسی کی طرح محبت اور خلوص سے محروم رہی ہے ورنہ اندر سے وہی عام لڑکی ہے جو بارش کو پسند کرتی ہے مگر بادلوں کے گرجنے پر ڈر جاتی ہے جو بظاہر تو بہت مضبوط ہے مگر اندر سے کمزور اور معصوم ہے یہی وجہ دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آئی تھی۔
“تابی میں تجھے لاسٹ ٹائم کہہ رہا ہوں اٹھ جا ورنہ پھر بعد میں مجھے کچھ مت کہنا”
تیمور نے سونے ہونے تبریز کے اوپر سے بلینکٹ کھیںنچتے ہونے کہا۔
“تو جو مرضی کر لے میں نہیں اٹھنے والا آج سنڈے ہے اور میں اپنی نیند پوری کیے بغیر نہیں اٹھوں گا اس لئے بہتر ہو گاکہ تو میرے کان میں صور پھونکنے کی جگہ باہر جا کر میری ماں کا کام میں ہاتھ بٹا”
تبریز نے بولتے ہونے دوبارہ بلینکٹ اوڑھ لیا۔
تیمور تو اس کے تیور دیکھ کر ہی جل گیا تھا۔
“ٹھیک ہے بیٹا ۔ ۔ ۔ اب تو دیکھ میں کرتا کیا ہوں تیرے ساتھ ۔ ۔ ”
تیمور نے بولتے ہونے پانی سے بھراجگ اٹھا کر تبریز پرالٹ دیا اور خود دروازے کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا ۔
“ستیاناس ۔ ۔ ۔ کمینے ۔۔ جاہل ۔۔ گدھے یہ کون سا طریقہ ہے کسی مہذب انسان کو نیند سے جگانے کا ۔ ۔ ۔ ”
اتنی شدید ٹھنڈ میں برف جیسے پانی سےتبریز کے تو چودہ طبق روشن ہو گنے تھے ۔۔وہ سپرنگ کی طرح اچھل کر گیلے بستر سے باہر نکلا اور پاس پڑا کشن طیش کے عالَم میں تیمور کی جانب اچھالا جو اب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔
وہ تبریز کو فارم میں آتا دیکھ کر جھٹ سے باہر نکل گیا اور کشن دروازے سے ٹکرا کر زمین بوس ہو گیا۔
تبریز نے حسرت سے اپنے گیلے بستر کو دیکھا جو اب سونے کے قابل نہیں رہا تھا اور واشروم کی جانب اپنے قدم بڑھانے ہی تھے جب تیمور بوتل کے جن کی طرح دوبارہ حاضر ہوا۔
“جناب شہزادہ چارلس آپ جلدی سےغصل فرما کر نیچے تشریف لے آئیے ہمیں آج آپ کے لئے شاپنگ کرنے جانا ہے مابدولت آپ کا انتظار کر رہے ہیں”
تیمور شرارت سے بولتا ہوا جھٹ سے بھاگ گیا اور پیچھے تبریز جلتا بهنتا فریش ہونے چل دیا۔
“انسان اب چھٹی کے دن بھی نہیں سو سکتا ۔ ۔ ۔ ۔ ایسے دوستوں سے تو دشمن بھلے ۔ ۔ ۔ ۔ ”
وہ بڑبڑاتا ہوا واشروم میں گھس گیا ۔
نور اس کو لے کر قریبی کافی شاپ میں آئی تھی گرم گرم بھانپ اڑاتی کافی کے دو کپ ان کے سامنے ٹیبل پہ رکھے تھے اور زاشہ مسلسل ان سے اڑتی بھانپ پر نظریں جمانے بیٹھی تھی۔
“آئی سوئیر زاشہ اگر تم یونہی منہ سی کر بیٹھی رہی نا تو میں یہاں سے اٹھ کر چلی جاؤں گی ۔ ۔ ۔ آخر ہوا کیاہے تم زخمی کیوں ہو ۔ ۔ ۔ سوچ سوچ کر میرا دماغ پھٹنے کو آ رہا ہے اور تم ہو کہ کچھ بول ہی نہیں رہی ہو ۔”
نور جھنجھلا کر بولی۔
اسکے بولنے پر زاشہ نے اپنی جھکی پلکیں اٹھائیں تو نور نے دیکھا کہ اسکی سیاہ آنکھیں لبالب پانی سے بھری ہوئی تھیں ۔ ۔ ۔ نور نے جھٹ سے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔
“میری جان آخر ہوا کیا ہے تم مجھے پریشان کر رہی ہو زاشہ ۔ ۔ ۔ پلیز مجھے بتاؤ کہ کیا ہوا ہے کیوں آج تم اتنی کمزور پڑ گئی ہو۔۔”
اسکے یوں اچانک رونے پر نور ایک دم سے بہت فکرمند ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کبھی مشکل سے مشکل حالات میں بھی زاشہ کو اس قدر ٹوٹا بکھرا نہیں پایا تھا جیسی وہ اب دکھ رہی تھی ۔
اپنی جان سے عزیز دوست کا مہربان لمس پاتے ہی وہ بکھر گئی اور ایک ایک حرف نور کے گوش گزار دیا۔
نور نے اسکو رونے سے نہیں روکا وہ چاہتی تھی کہ زاشہ رو کر اپنے من کا درد باہر نکال دے ویسے بھی وہ اس وقت فیملی کیبن میں بیٹھیں تھیں اسی لئے رلیکس تھیں۔
جب وہ کچھ نارمل ہوئی تو نور نے اسکو پانی پلایا۔
“ہممممم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اب وہ غنڈہ تم سےشادی کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ جاہل آدمی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی اسکا یہ حال ہے تو شادی کے بعد تو وہ تمہاری جان ہی لے لے گا ۔
زاشہ آخر تمھیں اور کس وقت کا انتظار ہے ۔ ۔ ۔ ۔ تمھیں اب زرداب کے خلاف ایکشن لینا ہی ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے خلاف ٹھوس ثبوت جمع کرو اور نکل آؤ اس قید خانے سے ورنہ بہت دیر ہو جانے گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب ہمیں پولیس کی ہیلپ لینا ہی ہو گی اور یہ تبھی ممکن ہے جب تم انکو زرداب کے خلاف ثبوت دو گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر مزید دیر کرو گی تو اس دلدل میں پھنستی ہی چلی جاؤ گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس ایک ذرا سی ہمت اور بہت جلد تم ان سب چکروں سے باہر نکل آؤ گی ۔۔۔۔۔ ”
نور دھیمے لہجے میں اسکو سمجھاتے ہونے بولی۔
“نور یہ سب اتنا آسان نہیں ہے ۔۔۔۔ آغا میرے پل پل کی خبر رکھے ہونے ہے ۔۔۔۔ آج اگر میں یہاں بیٹھی ہوں تو صرف اسی وجہ سے کہ آج سکندر ضروری کام کی وجہ سے آغا کے ساتھ گیا ہے دبئی۔۔۔۔ کل تک واپس آنے گا وہ اسکی موجودگی میں تو میں آغا کے کمرے میں بھی نہیں جا سکتی تو اسکے خلاف ثبوت کہاں سے لاؤں ۔۔۔”
زاشہ کا لہجہ الجھا ہوا تھا۔
“کیسے بھی کرو مگر اب کچھ کرو زاشہ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جانے ۔۔۔”
نور کے بولنے پر اس نے سر ہلا کر اسکو تسلی دی۔
“چلو ٹھیک ہے ۔۔۔ اب جلدی سے یہ کافی ختم کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر میں تمھیں شاپنگ پر لے کر جاؤں گی ۔”
“مگر نور مجھے نہیں جانا کہیں بھی۔۔۔”
زاشہ کے جواب پر نور نے اسکو زبردست گھوری سے نواز ۔
“میں تم سے پوچھ نہیں رہی تمھیں بتا رہی ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ انتہائی بورنگ ہو یار تم ۔ ۔ ۔ ۔ اپنی اس کچھ پل کی آزادی کو انجونے کرو بجانے رونے دھونے کے ۔”
نور نے بولتے ہونے آخر پر برا سا منہ بنایا جسے دیکھ کر زاشہ کی ہنسی نکل گئی۔
“اوکے میڈم ۔۔۔ جو آپ کا حکم ۔”
زاشہ نے مسکرا کراس کے سامنے سر خم تسلیم کیا۔
وہ دونوں اس وقت شاپنگ مال میں موجود تھے تیمور تو کب سے اپنی شاپنگ مکمل کر کہ اب تبریز کے فارغ ہونے کا انتظار کر رہا تھا جسکی ناک تلے کوئی چیزآ ہی نہیں رہی تھی۔
“تابی یار تو تو شاپنگ کرتے وقت لڑکیوں کو بھی مات دیتا ہے ۔ ۔ ۔ میں سوچتا ہوں جب تو اپنی بیگم کے ساتھ شاپنگ پہ آیا کرے گا تو لازمی تم دونوں پورا دن مال میں ہی گھومتے رہو گے ”
تیمور گرے کلر کی ایک شرٹ اسکے ساتھ لگاتے ہونے بولا۔
“تو میری فکر چھوڑ اپنا سوچ اگر تیری والی کا یہ حال ہوا نا تو میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں بھابھی آگے آگے ہوں گی اور تو شاپنگ بیگز کے ساتھ لدا ہوا ایک ہاتھ میں منے کو اٹھاے ان کے پیچھے پیچھے ہو گا”
تبریز نے اس کے مستقبل کا حولناک نقشہ کھینچا جسے تیمور نے سوچتے ہونے جھرجھری لی۔
“مردہ جب بھی بولے گا کفن پھاڑ کر ہی بولے گا۔”
وہ کلس کر بولتا ہوا شاپ سے باہر نکل آیا۔
تبریز بھی اسکے پیچھے ہی باہر آیا اب دونوں کا رخ لیڈیز سیکشن کی طرف تھا وہ جب بھی شاپنگ کرتے تھے ساتھ میں فوزیہ بیگم کے لئے بھی ضرور کچھ نہ کچھ لے کر ہی جاتے۔
تیمور ایک شال دیکھ رہا تھا جب کوئی لڑکی اسکے ساتھ آ کھڑی ہوئی اور تیمور کے سامنے رکھی شال اٹھا لی۔اس نے چونک کر اپنے سامنے موجود لڑکی کو دیکھا جو اس سے بےخبر سیلز مین کو وہ شال پیک کرنے کا کہہ رہی تھی
“ایکسکیوز می مس ! یہ شال میں پسند کر چکا ہوں آپ پلیز کوئی اور دیکھ لیں ۔”
تیمور نےشائستگی سے اپنے سامنے کھڑی خوبصورت سی لڑکی سے ریکویسٹ کی۔
“آپ نے مجھ سے کچھ کہا کیا !”
نور نے کمال بےنیازی سے پوچھا۔تیمور تو اسکی بے نیازی دیکھ کر عش عش کر اٹھا۔
“جی مس میں بندہ ناچیز آپ ہی سے مخاطب ہوں میں نے یہ شال اپنے لئے پسند کی ہے آپ کوئی اور دیکھ لیں۔”
تیمور نے دوبارہ وضاحت دی۔
“آپ کو نہیں لگتا کہ یہ شال آپ پر کچھ سوٹ نہیں کرے گی کیوں کہ یہ خالص زنانہ شال ہے ایسا کریں کہ آپ اپنے لئے کچھ اور دیکھ لیں یہ مجھ پہ زیادہ اچھی لگ رہی ہے ۔”
نور نے اپنے سامنے کھڑے اچھے خاصے ہینڈسم شخص کو تعجب سے دیکھا جو اپنے لئے لیڈیز شال پسند کرنے کی بات کر رہا تھااور اسے فری مشورے سے بھی نواز دیا۔
تیمور تو اس لڑکی کی بات سن کر اچھل ہی پڑا۔
“میرا مطلب تھا کہ میں نے اپنی مدر کے لئے پسند کی ہے۔”
وہ جھٹ سے اپنی صفائی میں بولا کیوں کہ سامنے کھڑی لڑکی کی نظر اور ہونٹوں میں دبی شرارتی مسکراہٹ اسکو شرمندہ کرنے کو کافی تھی۔اس سے پہلے کہ نور کچھ بولتی تبھی زاشہ وہاں چلی آئی۔
“کیا ہوا نور کس بات پربحث کر رہی ہو ان سے ۔ ۔ ۔ ”
زاشہ نے اسکو اپنی طرف متوجہ کرتے ہونے پوچھا۔
“کچھ خاص بات نہیں ہے بس میں ان صاحب کو یہ سمجھا رہی تھی کہ ان پر یہ لیڈیز شال سوٹ نہیں کرے گی۔”
نور سامنے رکھی شال کی طرف اشارہ کرتے ہونے بولی۔
تیمور کوئی جواب دینے ہی والا تھا جب تبریز اسکے پاس چلا آیا۔
تبھی اسکی نظر سامنے کھڑی زاشہ پہ پڑی اسی لمحے زاشہ نے بھی اسکو دیکھا۔
” ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”
دونوں ایک دم سے بولے تھے۔
” لو ۔ ۔ ۔ تو تم پیچھا کر رہے ہو میرا ۔ ۔ ۔ جہاں میں جاتی ہوں وہیں آ جاتے ہو۔”
اسکو دیکھ کر زاشہ کو ایک دم سے اپنی تکلیف یاد آئی تھی جو زرداب نے اسے دی تھی اور وجہ سامنے کھڑا انسان تھا جبھی تڑخ کر بولی۔
” میڈم آپ کوئی مس ورلڈ نہیں ہیں جو میں آپ کے پیچھے آؤں گا مجھے تو لگتا ہے کہ آپ میرا پیچھا کر رہی ہیں کل بھی وہاں پہنچ گئیں تھیں جہاں میں تھا اور آج بھی میرے پیچھے اس شاپنگ مال میں آ گئی۔”
تبریز نے بھی حساب برابر کیا۔
زاشہ کو تو مانو آگ ہی لگ گئی تھی اسکی بات سن کر۔
” تو تم کہاں کے شہزادے گلفام ہو جو میں تمہارا پیچھا کروں گی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہنہہ دو نمبر ۔ ۔ ۔ آوارہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔غنڈہ ۔ ۔ ۔ ”
بات کرتے کرتے زاشہ کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ سامنے کھڑے شخص کا کیا حال کر دے۔
تبریز اپنے لئے اتنے شاندارالقابات سن کر سلگ ہی تو گیا تھا۔
” تم سچ میں مجھے کوئی پاگل ہی معلوم ہوتی ہو میں جتنی تمیز سے پیش آتا ہوں تم اتنی ہی بدتمیزی کرتی جاتی ہو ”
تبریز بھی غصے میں آ گیا تھا۔
نور اور تیمور اپنی شال کو بھولے ان دونوں کو بلیوں کی طرح لڑتے ہونے دیکھ رہے تھے۔بات بڑھتی دیکھ کر تیمور فورا بیچ میں آیا۔
“تابی کیا کر رہے ہو پبلك پلیس ہے یہ چلو یہاں سے۔”
وو اسکو کھینچتا ہوا بولا۔
“دیکھ لوں گا میں تمہیں ۔۔۔”
جاتے جاتے بھی وہ زاشہ کو وارن کرنا نہیں بھولا تھا۔
“جاؤ جاؤ بڑے آنے مجھے دھمکانے والے ۔ ۔ ۔ ۔ ڈرتی نہیں ہوں میں کسی سے ۔ ۔ ”
اس نے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔
“زاشہ بس کرو چلا گیا ہے وہ ۔۔۔”
نور اسکو ڈپٹے ہونے بولی آس پاس موجود لوگ ان کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے نور زاشہ کو لے کر وہاں سے باہر نکل آئی۔