اذان کی آواز پہ زاشہ کی آنکھ کھلی تھی رات کو روتے ہوئے نجانےکس وقت اسکی آنکھ لگی تھی سر بھاری ہو رہا تھا اور آنکھیں بھی رونے کی وجہ سے سرخ تھیں۔
نماز پڑھنے کے بعد جب دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے تو آنکھیں خود ہی آنسوٶں سے بھر آئی تھیں پھر وہ بنا دعا مانگے ہی جائے نماز سے اٹھ گئی تھی،اب اسے یونیورسٹی جانے کی تیاری کرنا تھا اس گھٹن زدہ ماحول سے نکل کر وہ کچھ پل آزادی اور بے فکری کے جی لیتی تھی ورنہ شاید یہ گھٹن اسکی جان ہی لے لیتی۔
“زاشہ بیٹا! تم نے رات کو بھی کچھ نہیں کھایا تھا اب بھی ڈھنگ سے ناشتہ نہیں کر رہی ہو ذرا اپنی حالت دیکھو کتنی کمزور ہوتی جا رہی ہو۔۔۔آغا زرداب جب آ کر تمھاری یہ حالت دیکھیں گے تو بہت غصہ ہوں گے”
زاشہ بوا کی فکر اور ڈر پہ ذرا سا مسکرائی تھی اور نیپکن سے ہاتھ پونچھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
“بوا آپ فکر مت کیا کریں بہت ڈھیٹ ہوں میں کچھ نہیں ہونے والا مجھے ساری زندگی آغا زرداب کی قید میں ہی کٹنے والی ہےمیری، آپکی زاشہ کو بچانے
کوئی شہزادہ نہیں آئے گا”
زاشہ تلخی سے بول کر ڈائيننگ روم سے نکل گئی تھی۔۔۔۔پیچھے سے بوا نے نم آنکھوں سے اسکی مشکلات ختم ہو جانے کی دعا مانگی تھی،وہ اس کے ہر دکھ سے واقف تھیں زاشہ دس سال کی تھی تب سے وہ یہاں کام کر رہی تھیں انہوں نے اپنی سروس کے گیارہ سالوں میں زاشہ کو ہمیشہ تنہا ہی دیکھا تھا اسکی زندگی بہت محدود تھی ان کے اپنےعلاوہ کبھی کوئی عورت زاشہ کی زندگی میں نہیں آئی تھی نہ ہی اسکو باہر کوئی
دوست بنانے کی اجازت تھی۔
اپنے کمرے میں آنے کے بعد زاشہ نے سکندر کوفون کر کے گاڑی لانے کا کہا تھا، پھر ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھا تھا بلیک جینز کے ساتھ براٶن کرتا پہنے سیاہ شال کو کندھوں پہ پھیلائے وہ معمول سے ذرا ہٹ کے الگ حلیے میں تھی سیاہ آنکھیں کاجل لگانے سے مزید قاتل ہو گئی تھیں گلابی چہرے کی پژمردگی ختم کرنے کے لیے اس نے ذرا سا پف منہ پہ لگایا تھا اور ایک مطمئن نظر خود پہ ڈال کر وہ اپنا بیگ اٹھا کر روم سے نکل آئی تھی۔
سٹڈی میں آکر زاشہ نے سٹڈی کا دروازہ لاک کیا تھا اب وہ سامنے دیوار پہ لگی پینٹنگ کو دبا رہی تھی دیکھتے ہی دیکھتے دیوار میں ایک بڑا سا شگاف پیدا ہو گیا تھا اندر ایک اور کمرہ تھا جس کے اینڈ پہ سیڑھیاں بنی ہوئیں تھیں جیسے نیچے کوئی تہ خانہ ہو، سیڑھیاں اترنے کے بعد زاشہ ایک سرنگ میں داخل ہوئی تھی تقریبا پانچ منٹ اس سرنگ میں چلنے کے بعد وہ باہر ایک جنگل میں نکل آئی تھی،سامنے ہی سکندر کھڑا تھا زاشہ کے باہر آتے ہی اس نے لکڑی کا دروازہ بند کر کہ اس پہ سوکھی جھاڑیاں ڈال ی تھیں۔
“چلیئے مادام گاڑی سڑک پہ کھڑی ہے” سکندر بولتا ہوا آگے بڑھ گیا تھا زاشہ نے اسکی تقلید کی تھی۔
تبریز اسوقت فل یونیفارم میں آفس جانے کے لیے بالکل تیار تھا سر پہ کیپ کو اچھی طرح جماتے ہوئے اپنے روم سے نکل کر وہ سیدھا کچن میں آیا تھا جہاں فوزیہ بیگم اسکے لیے ناشتہ بنا رہی تھیں۔
“اَلسَلامُ عَلَيْكُم ماما جانی۔۔۔۔۔۔۔میں لیٹ ہو
رہا ہوں جلدی سے ناشتہ دے دیں” تبریز نے ماں کی پیشانی پہ بوسہ دیتے ہوئے ان کو سلام کیا تھا اور چيئر گھسیٹ کر اس پہ بیٹھ گیا تھا۔
“وَعَلَيْكُم السَّلَام بیٹا! کبھی تو آرام سے کچھ کھا پی لیا کرو ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پہ سوار رہتے ہو”
فوزیہ بیگم ناشتہ اسکے سامنے رکھتے ہوئے خفگی سے بولیں تھیں۔
“اوہو میری پیاری ماما آپکا بیٹا اب اس ایریا کا ایس پی ہے تو مصروفیت تو ہوگی نا”
وہ شرارتی مسکان چہرے پہ سجائے بولا تھا۔
فوزیہ بیگم نے مسکرا کر اسکی بلائیں لیں تھیں۔
“اللہ تمھیں اور بھی کامیابیاں دے بیٹا میری تو واحد خوشی ہی تم ہو ، اب تو بس تم جلدی سے شادی کے لیے ہاں کردو تاکہ میرے گھر میں بھی تمہارے بچوں کے دم سےکچھ رونق ہو ”
فوزیہ بیگم بولتے بولتے اینڈ پہ ذرا پر جوش ہوئیں تھیں۔
“ماما مجھے آپکی تنہائی کا پورا احساس ہے میں بس ایک کیس پہ کام کر رہا ہوں جیسے ہی یہ کیس سالو ہو گا۔۔۔۔ یہ بکرا قربانی کےلیے حاضر ہو گا”
تبریز کی بات اندر داخل ہوتے تیمور نے پوری کی تھی۔
تبریز تیمور کو دیکھ کر مسکرایا تھا،وہ دونوں بچپن کے دوست تھے تیمور کے والدین کی ڈیتھ کے بعد یہ دوستی کچھ اور بھی مضبوط ہو گئی تھی،تیمور نے ایک سال پہلے پولیس فورس جوائن کی تھی تبریز نے بھی پھر اسکی تقلید کرتے ہوئے اس سال سی ایس ایس کرنے کے بعد پولیس فورس ہی چوز کی تھی۔
“تو ختم ہو گئی جناب کی آفیشل لیو۔۔۔۔”
تبریز تیمور سےگلے ملتے ہوئے بولا تھا۔
“ہاں جی ہو گئی ۔۔۔۔۔ اب میں واپس آ گیا ہوں تجھ پہ نظر رکھنے بہت عیش کر لی تو نےاکیلے، اب تو میں اور آنٹی مل کر تیرے لیے کوئی حسین کھونٹہ ڈھونڈیں گے جسکے ساتھ تجھے رشتہ ازدواج میں باندھیں گے”
وہ فوزیہ بیگم سے ملتے ہوئے شرارت سے بولا تھا۔
“چلو ہم لیٹ ہو رہے ہیں”
اس سے پہلے کہ وہ کوئی مزید گل فشانی کرتا تبریز اس کو آنکھوں سے دھمکاتا ہوا باہر نکل گیا تھا۔
“ارے تیمور بیٹا ناشتہ تو کرتے جاٶ “فوزیہ بیگم نے کہا تھا۔
ارے آنٹی آپ فکر مت کریں میں آج رات ڈنر آپکے ساتھ ہی کروں گا۔۔۔۔۔ فلحال تو آپکے ہٹلر بیٹے کا آرڈر فالو کرنا پڑے گا۔وہ مسکرا کر کہتا ہوا باہر نکل گیا تھا جہاں تبریز ہارن پہ ہاتھ رکھ کر اٹھانا بھول چکا تھا۔فوزیہ بیگم نے دونوں کی سلامتی کی دعا مانگی تھی،شوہر کی وفات کے بعد انہوں نے تن تنہا اپنے اکلوتے بیٹے کی پرورش کی تھی لیکن اب ان کا مشکل وقت گزر چکا تھا۔
تبریز اس وقت آفس میں بیٹھا کچھ کام کر رہا تھا جب ایس ایچ او حنیف دروازہ ناک کر کے اندر داخل ہوا تھا،سلیوٹ کرنے کے بعد اس نے ایک فائل تبریز کی جانب بڑھائی تھی۔
“سر یہ آغا زرداب اور زاشہ گینگ والے کیس کی ساری ڈیٹیل ہے”
“ہنہہ ٹھیک ہے آپ جا کر ذرا چوری والے کیس کی ڈیٹیلز دیکھیں”
تبریز کی بات سن کر حنیف یس سر کہتے ہوئے باہر نکل گیا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ فائل دیکھ پاتا اسکا سیل فون بج اٹھا تھا اس نے دیکھا تو تیمور کی کال تھی۔
“ہاں بول اب کیا ہو گیا تھانے میں بیٹھ کر بھی تجھے چین نہیں ہے ”
تبریز کال اٹینڈ کرتے ہوئے بولا تھا۔
“پہلی بات کہ میں تھانے سے باہر ہوں وہاں میں تجھ سے یہ بات نہیں کر سکتا تھا”
تیمور کی سنجیدہ آواز سن کر تبریز فوراً سنجیدہ ہوا تھا،اب وہ تیمور کی بات جیسے جیسے سنتا جا رہا تھا تھااسکے تاثرات بدلتے جا رہے تھے۔
“ٹھیک ہے اسے میں خود فالو کرتا ہوں آج انکے کسی نا کسی ٹھکانے کا تو پتہ چل ہی جائے گا”
تبریز نے آخر پہ بولتے ہوئے فون بند کیا تھا اور اپنے آفس سے باہر نکل آیا تھا،تبھی انسپکٹر نازیہ اپنے پہاڑ جیسے وجود کیساتھ اس سے ٹکرائی تھی اور نتیجے میں اسکے ہاتھ میں پکڑی کافی تبریز کے یونیفارم کو رنگین کر چکی تھی۔اس نے ایک نظر خود کو دیکھا تھا اور دوسری غصیلی نظر اپنے سامنے کھڑی ہستی پہ ڈالی تھی پھر بنا کچھ بولے واپس اپنے آفس میں جا چکا تھا،جلدی کے باوجود اب وہ چینج کر کے ہی باہر جانے والا تھا۔
“ظالم انسان یہ کیا کر رہے ہو کیوں اس بے چارے کمزور بچے کو مار رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑو اسے،اچھے خاصے ہٹے کٹے ہو تم اپنی عمر دیکھو اور پھر اس معصوم بچے کی شکل دیکھو اور کچھ شرم کو ہاتھ مارو اگر مقابلہ ہی کرنا ہے تو کسی اپنے جیسے سے کرو تم جیسے گلی کے غنڈے ایسے ہی کمزور لوگوں پر دھونس جماتے ہیں”
زاشہ بولنے کے بعداب سخت غصے سے مقابل کو گھور رہی تھی جو منہ کھولے آنکھیں پھاڑے اسے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ کوئی بھوت ہو۔
“او ہیلو مسٹر مار پیٹ! اب آنکھوں سے مجھے نگلنے کا ارادہ ہے کیا کیونکہ اس معصوم کو تو میں نے تم سے بچا لیا”
زاشہ اسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے بولی تھی۔
تبریز اسکی بات سن کر ایکدم سے ہوش میں آیا تھااور چونک کر اپنے اردگرد دیکھا تھا پر افسوس۔۔۔۔جس مجرم کو اس نے آج پورا دن فالو کرنے کے بعد اس سنسان جگہ پہ دبوچا تھا اسے اسکے سامنے کھڑی حسین چڑیل آرام سے بھگا چکی تھی اور ایس پی تبریز لاشاری کو کمال بے نیازی سے گلی کا غنڈہ اور مسٹر مار پیٹ جیسے القابات سے بھی
نواز چکی تھی۔