ڈاکٹر سبط علی کی تین بیٹیاں تھیں، مریم ان کی تیسری بیٹی تھی۔ ان کی بڑی دونوں بیٹیوں کی شادی ہوچکی تھی۔ جب کہ مریم ابھی میڈیکل کی تعلیم حاصل کررہی تھی۔ ڈاکٹر سبط نے امامہ کو اپنی بڑی دونوں بیٹیوں سے بھی متعارف کروایا تھا۔ وہ دونوں بیرون شہر مقیم تھیں اور ان کا رابطہ زیادہ تر فون کے ذریعہ ہی ہوتا تھا مگر یہ اتفاق ہی تھا کہ امامہ کے وہاں آنے کے چند ہفتوں کے دوران وہ دونوں باری باری کچھ دنوں کے وہاں آئیں۔
امامہ سے ان کا رویہ مریم سے مختلف نہیں تھا۔ ان کے رویے میں اس کے لئے محبت اور مانوسیت کے علاوہ کچھ نہیں تھا لیکن امامہ کو انہیں دیکھ کر ہمیشہ اپنی بڑی بہنیں یاد آجاتیں اور پھر جیسے سب کچھ یاد آجاتا۔ اپنا گھر۔۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔۔ بڑے بھائی۔۔۔۔۔ وسیم۔۔۔۔۔ اور سعد۔۔۔۔۔ سعد سے اس کا کوئی خونی رشتہ نہیں تھا۔ ان کی جماعت کے بااثر خاندان اپنے گھروں میں اولاد ہونے کے باوجود بے سہارا یتیم بچوں میں سے کسی ایک لڑکے کو گود میں لینے لگے تھے۔ یہ اپنی جماعت کے افراد کی مستقبل میں تعداد بڑھانے کے لئے کوششوں کا ایک ضروری حصہ تھی۔ ایسا بچہ ہمیشہ عام مسلمانوں کے بچوں میں سے ہی ہوتا اور ہمیشہ لڑکا ہوتا۔ سعد بھی اسی سلسلے میں بہت چھوٹی عمر میں اس کے گھر آیا تھا۔ وہ اس وقت اسکول کے آخری سالوں میں تھی اور اسے گھر میں ہونے والے اس عجیب اضافے نے کچھ حیران کیا تھا۔
“ہم لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرنے کے لئے سعد کو گود لیا ہے، تاکہ ہم بھی دوسرے لوگوں پر احسانات کرسکیں اور نیکی کا یہ سلسلہ جاری رہے۔”
اس کی امی نے اس کےا ستفسار پر اسے بتایا۔
“تم سمجھو، وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے۔”
تب اسے اپنے بابا اور امی پر بہت فخر ہوا تھا۔ وہ کتنے عظیم لوگ تھے کہ ایک بے سہارا بچے کو اچھی زندگی دینے کے لئے گھر لے آئے تھے، اسے اپنا نام دے رہے تھے اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو اس کے ساتھ بانٹ رہے تھے۔ اس نے تب غور نہیں کیا تھا کہ ایسا ہی ایک بچہ اس کے تایا اعظم کے گھر پر بھی کیوں تھا۔ ایسا ہی ایک بچہ اس کے چھوٹے چچا کے گھر پر کیوں تھا؟ ایسے ہی بہت سے دوسرے بچے ان کے جاننے والے کچھ اور بااثر خاندانوں کے گھر پر کیوں تھے؟ اس کے لئے بس یہی کافی تھی کہ وہ ایک اچھا کام کررہے تھے۔ ان کے جماعت ایک “اچھے” کام کی ترویج کررہی تھی۔ یہ اس نے بہت بعد جانا تھا کہ اس “اچھے” کام کی حقیقت کیا تھی؟
سعد اس سے بہت مانوس تھا۔ اس کا زیادہ وقت امامہ کے ساتھ ہی گزرتا تھا۔ وہ شروع کے کئی سال امامہ کے کمرے میں اس کے بیڈ پر ہی سوتا رہا۔ اسلام قبول کرلینے کے بعد میڈیکل کالج سے وہ جب بھی اسلام آباد آتی،وہ سعد کو حضرت محمد ﷺ کے بارے میں بتاتی رہتی۔ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ کسی چیز کو منطقی طریقے سے نہیں سمجھایا جاسکتا تھا مگر وہ اس سے صرف ایک بات کہتی رہی۔
“جیسے اللہ ایک ہوتا ہے اسی طرح ہمارے پیغمبر محمد ﷺ بھی ایک ہی ہیں۔ ان سا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔”
وہ اسے ساتھ یہ تاکید بھی کرتی رہتی کہ وہ ان دونوں کی آپس کی باتوں کے بارے میں کسی کو بھی نہیں بتائے اور امامہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کی یہ کوشش بے کار تھی۔ سعد کو بھی بچپن ہی سے مذہبی اجتماعات میں لے جایا جانے لگا اور وہ اس اثر کو قبول کررہا تھا۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتی کہ وہ میڈیکل کی تعلیم کے بعد سعد کو لے کر اپنے گھر والوں سے الگ ہوجائے گی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ یہ کس قدر مشکل کام تھا۔
اس نے گھر سے بھاگتے ہوئے بھی سعد کو اپنے ساتھ لے آنے کا سوچا تھا مگر یہ کام ناممکن تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسے لاتے ہوئے خود بھی پکڑی جائے۔ وہ اسے وہاں چھوڑ آئی تھی اور اب ڈاکٹر سبط کے ہاں پہنچ جانے کے بعد اسے اس کا بار بار خیال آتا اگر وہ کسی طرح اسے وہاں سے لے آتی تو وہ بھی اس دلدل سے نکل سکتا تھا مگر ان تمام سوچوں، تمام خیالوں نے اپنے گھر والوں کے لئے اس کی محبت کو کم نہیں کیا نہ اپنے گھر والوں کے لئے، نہ جلال انصر کے لئے۔
وہ ان کا خیال آنے پر رونا شروع ہوتی تو ساری رات روتی ہی رہتی۔ شروع کے دنوں میں وہ ایک الگ کمرے میں تھی اور مریم کو اس کا اندازہ نہیں تھا مگر ایک رات وہ اچانک اس کے کمرے میں اپنی کوئی کتاب لینے آئی۔ رات کے پچھلے پہر اسے قطعاً یہ اندازہ نہیں تھا کہ امامہ جاگ رہی ہوگی اور نہ صرف جاگ رہی تھی بلکہ رو رہی ہوگی۔
امامہ کمرے کی لائٹ آف کئے اپنے بیڈ پر کمبل اوڑھے رو رہی تھی جب اچانک دروازہ کھلا تو اس نے کمبل سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ وہ نہیں جانتی تھی مریم کو کیسے اس کے جاگنے کا اندازہ ہوا تھا۔
“امامہ! جاگ رہی ہو؟”
اس نے امامہ کو آواز دی۔ امامہ نے حرکت نہیں کی مگر پھر مریم اس کی طرف چلی آئی اور اس نے کمبل اس کے چہرے سے ہٹا دیا۔
“میرے اللہ۔۔۔۔۔ تم رو رہی ہو۔۔۔۔۔ اور اس وقت؟”
وہ اس کے پاس ہی تشویش کے عالم میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔ امامہ کی آنکھیں بری طرح سوجی ہوئی تھیں اور اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا، مگر اسے سب سے زیادہ ندامت پکڑے جانے کی تھی۔
“اس لئے تمہیں راتوں کو نیند نہیں آتی کیونکہ تم روتی رہتی ہو اور صبح یہ کہہ دیتی ہو کہ رات کو سونے میں دقت ہوئی اس لئے آنکھیں سوجی ہوئی ہیں۔ بس تم آج سے یہاں نہیں سوؤ گی۔ اٹھو میرے کمرے میں چلو۔”
اس نے کچھ برہمی کے عالم میں اسے کھینچ کراٹھایا۔ امامہ ایک لفظ نہیں بول سکی۔ وہ اس وقت بے حد شرمندہ تھی۔
مریم نے اس کے بعد اسے اپنے کمرے میں ہی سلانا شروع کردیا۔ راتوں کو دیر تک رونے کا وہ سلسلہ ختم ہوگیا مگر نیند پر اس کا اب بھی کوئی اختیار نہیں تھا۔ اسے نیند بہت دیر سے آتی تھی۔
کئی بار مریم کی عدم موجودگی میں اس کی میڈیکل کی کتابیں دیکھتی اور اسکا دل بھر آتا۔ وہ جانتی تھی سب کچھ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔
صبح مریم اور ڈاکٹر سبط کے گھر سے چلے جانے کے بعد وہ سارا دن آنٹی کے ساتھ گزار دیتی یا شاید وہ سارا دن اس کے ساتھ رہنے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہ اسے اکیلا نہ رہنے دینے کی کوشش میں مصروف رہتی تھیں مگر ان کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی وہ پتا نہیں کن کن سوچوں میں ڈوبی رہتی تھی۔
اس نے سالار کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ جانتی تھی اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اس کی ذہنی پریشانی میں اضافے کے علاوہ اس رابطے سے اسے کچھ حاصل نہیں ہونے والا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسے ڈاکٹر سبط علی کے ہاں آئے تین ماہ ہوگئے تھے جب ایک دن انہوں نے رات کو اسے بلایا۔
“آپ کو اپنا گھر چھوڑے کچھ وقت بیت گیا ہے۔ آپ کے گھر والوں نے آپ کی تلاش ابھی تک ختم تو نہیں کی ہوگی مگر چند ماہ پہلے والی تندی و تیزی نہیں رہی ہوگی اب۔۔۔۔۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ آپ اب آگے کیا کرنا چاہتی ہیں۔”
انہوں نے مختصر تمہید کے بعد کہا۔
“میں نے آپ کو بتایا تھا میں اسٹڈیز جاری رکھنا چاہتی ہوں۔”
وہ اس کی بات پر کچھ دیر خاموش رہے پھر انہوں نے کہا۔
“امامہ! آپ نے اپنی شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟” وہ ان سے اس سوال کی توقع نہیں کررہی تھی۔
“شادی۔۔۔۔۔؟ کیا مطلب۔۔۔۔۔؟” وہ بے اختیار ہکلائی۔
“آپ جن حالات سے گزر رہی ہیں ان میں آپ کے لئے سب سے بہترین راستہ شادی ہی ہے کسی اچھی فیملی میں شادی ہوجانے سے آپ اس عدم تحفظ کا شکار نہیں رہیں گی جس کا شکار آپ ابھی ہیں۔ میں چند اچھے لڑکوں اور فیملیز کو جانتا ہوں میں چاہتا ہوں ان میں سے کسی کے ساتھ آپ کی شادی کردی جائے۔”
وہ بالکل سفید چہرے کے ساتھ انہیں چپ چاپ دیکھتی رہی۔ وہ ان کے پاس آنے سے بہت پہلے اپنے لئے اسی حل کو متنخب کرچکی تھی اور اسی ایک حل کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ سالار سکندر سے نکاح کی حماقت کرچکی تھی۔
اس وقت اگر وہ سالار سکندر سے نکاح نہ کرچکی ہوتی تو وہ بلا حیل و حجت ڈاکٹر سبط علی کی بات ماننے پر تیار ہوجاتی۔ وہ جانتی تھی ان حالات میں کسی اچھی فیملی میں شادی اسے کتنی اور کن مصیبتوں سے بچا سکتی تھی۔ اس نے آج تک کبھی خودمختار زندگی نہیں گزاری تھی۔ وہ ہر چیز کے لئے اپنی فیملی کی محتاج رہی تھی اور وہ یہ تصور کرتے ہوئے بھی خوفزدہ رہتی تھی کہ آخر وہ کب اور کس طرح صرف اپنےبل بوتے پر زندگی گزار سکے گی۔
مگر سالار سے وہ نکاح اس کے گلے کی ایسی ہڈی بن گیا تھا جسے وہ نہ نگل سکتی تھی اور نہ اگل سکتی تھی۔
“نہیں میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔”
“کیوں؟” اس کے پاس اس سوال کا جواب موجود تھا، مگر حقیقت بتانے کے لئے حوصلہ نہیں تھا۔
ڈاکٹر سبط علی اس کے بارے میں کیا سوچتے یہ کہ وہ ایک جھوٹی لڑکی ہے جو اب تک انہیں دھوکا دیتے ہوئے ان کے پاس رہ رہی تھی۔ یا یہ کہ شاید۔۔۔۔۔ وہ سالار سے شادی کے لئے ہی اپنے گھر سے نکلی تھی اور باقی سب کچھ کے بارے میں جھوٹ بول رہی تھی۔
اور اگر انہوں نے حقیقت جان لینے پر اس کی مدد سے معذرت کرلی یا اسے گھر سے چلے جانے کا کہا تو۔۔۔۔۔؟ اور اگر انہوں نے اس کے والدین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔۔؟ وہ تین ماہ سے ڈآکٹر سبط علی کے پاس تھی۔ وہ کتنے اچھے تھے وہ بخوبی جانتی تھی لیکن وہ اس قدر خوفزدہ اور محتاط تھی کہ وہ کسی قسم کا رسک لینے پر تیار نہیں تھی۔
“میں پہلے اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں تاکہ کسی پر بوجھ نہ بنوں۔ کسی پر بھی۔۔۔۔۔ شادی کر لینے کی صورت میں اگر مجھے بعد میں کبھی کسی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تو میں کیا کروں گی۔ اس وقت تو میرے لئے شاید تعلیم حاصل کرنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔”
اس نے ایک لمبی خاموشی کے بعد جیسے کسی فیصلہ پر پہنچتے ہوئے ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔
“امامہ! ہم ہمیشہ آپ کی مدد کرنے کے لئے موجود رہیں گے۔ آپ کی شادی کردینے کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ میرے گھر سے آپ کا تعلق ختم ہوجائے گا یا میں آپ سے جان چھڑانا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔ آپ میرے لئے میری چوتھی بیٹی ہیں۔”
امامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
“میں آپ پر کوئی دباؤ نہیں ڈالوں گا جو آپ چاہیں گی وہی ہوگا یہ صرف میری ایک تجویز تھی۔”
ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
“کچھ سال گزر جانے دیں اس کے بعد میں شادی کرلوں گی۔ جہاں بھی آپ کہیں گے۔” اس نے ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔ “مگر ابھی فوری طور پر نہیں۔”
ابھی مجھے سالار سکندر سے جان چھڑانی ہے۔ اس سے طلاق لینے کا کوئی راستہ تلاش کرنا ہے۔”
وہ ان سے بات کرتے ہوئے سوچ رہی تھی۔
“کس شہر میں پڑھنا چاہتی ہیں آپ؟”
ڈاکٹر سبط علی نے مزید کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔
“کسی بھی شہر میں، میری کوئی ترجیح نہیں ہے۔” اس نے ان سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اپنے گھر سے آتے ہوئے، اپنے سارے ڈاکومنٹس اپنے پاس موجود زیورات اور رقم بھی لے آئی تھی۔ جب ڈاکٹر سبط علی نے اس گفتگو کے چند دن بعد اسے بلاکر ملتان میں اس کے ایڈمیشن کے فیصلے کے بارے میں بتانے کے ساتھ اس کے ڈاکومنٹس کے بارے میں پوچھا تو وہ اس بیگ کو لے کر ان کے پاس چلی آئی اس نے ڈاکومنٹس کا ایک لفافہ نکال کر انہیں دیا پھر زیورات کا لفافہ نکال کر ان کی میز پر رکھ دیا۔
“میں یہ زیورات اپنے گھر سے لائی ہوں۔ یہ بہت زیادہ تو نہیں ہیں مگر پھر بھی اتنے ہیں کہ میں انہیں بیچ کر کچھ عرصہ آسانی سے اپنی تعلیم کے اخراجات اٹھا سکتی ہوں۔”
“نہیں، یہ زیورات بیچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ آپ کی شادی میں کام آئیں گے۔ جہاں تک تعلیمی اخراجات کا تعلق ہے تو آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آپ میری ذمہ داری ہیں۔ آپ کو اس سلسلے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔”
وہ بات کرتے کرتے چونکے۔ ان کی نظر اس کے ٹیبل پر رکھے چھوٹے سے کھلے بیگ کے اندر تھی۔ امامہ نے ان کی نظروں کا تعاقب کیا۔ وہ بیگ میں نظر آنے والے چھوٹے سے پستول کو دیکھ رہے تھے۔ امامہ نے قدرے شرمندگی کے عالم میں اس پسٹل کو بھی نکال کر ٹیبل پر رکھ دیا۔
“یہ میرا پسٹل ہے۔ میں یہ گھر سے لائی ہوں، میں نے آپ کو بتایا تھا مجھے سالار سے مدد لینی تھی اور وہ اچھا لڑکا نہیں تھا۔”
وہ انہیں اس کے بارے میں مزید نہیں بتا سکتی تھی۔ ڈاکٹر سبط علی پستول کو اٹھا کر دیکھ رہے تھے۔
“چلانا آتا ہے آپ کو اسے؟”
امامہ نے افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ اثبات میں سرہلایا۔
“کالج میں این سی سی کی ٹریننگ ہوتی تھی۔ میرا بھائی وسیم بھی رائفل شوٹنگ کلب میں جایا کرتا تھا کبھی کبھار مجھے بھی ساتھ لے جاتا تھا۔ میں نے اپنے بابا سے ضد کرکے خریدا تھا۔ یہ گولڈ پلیٹڈ ہے۔”
وہ ان کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پستول کو دیکھتے ہوئے مدھم آواز میں کہہ رہی تھی۔
“آپ کے پاس اس کا لائسنس ہے؟”
“ہے مگر وہ ساتھ لے کر نہیں آئی۔”
“پھر آپ اسے یہیں پر رہنے دیں۔ ملتان ساتھ لے کر نہ جائیں۔ زیورات کو لاکر میں رکھوا دیتے ہیں۔” امامہ نے سر ہلا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ چند ماہ کے بعد ملتان اپنی اسٹڈیز کے سلسلے کو ایک بار پھر جاری رکھنے کے لئے آگئی تھی۔ ایک شہر سے دوسرے شہر، دوسرے سے تیسرے شہر۔۔۔۔۔ ایک ایسا شہر جس کے بارے میں اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، مگر اس نے تو خواب میں اور بہت کچھ بھی نہیں سوچا تھا۔ کیا س نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ بیس سال کی عمر میں ایک بار پھر بی ایس سی میں داخلہ لے گی۔ اس عمر میں جب لڑکیاں بی ایس سی کر چکی ہوتی ہیں۔۔۔۔۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے میڈیکل کالج چھوڑ دے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اپنے والدین کے لئے کبھی اس قدر تکلیف اور شرمندگی کا باعث بنے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ وہ اسجد کے بجائے کسی اور سے محبت کرے گی اور پھر اس سے شادی کے لئے یوں پاگلوں کی طرح کوشش کرے گی۔
کیا اس نے کبھی یہ سوچا تھا کہ ان کوششوں میں ناکامی کے بعد وہ سالار سکندر جیسے کسی لڑکے کے ساتھ اپنی مرضی سے نکاح کر لے گی۔
اور کیا اس نے یہ سوچا تھا کہ ا یک بار گھر سے نکل جانے کے بعد اسے ڈاکٹر سبط علی کے گھرانے جیسا گھر مل سکے گا۔
اسے باہر کی دنیا میں پھرنے کی عادت نہیں تھی اور اسے باہر کی دنیا میں پھرنا نہیں پڑا تھا۔ اپنے گھر سے نکلتے وقت اس نے اللہ سے اپنی حفاظت کی بے تحاشا دعائیں مانگی تھیں۔ اس نے دعائیں کی تھیں کہ اسے دربدر نہ پھرنا پڑے۔ وہ اتنی بولڈ نہیں تھی کہ وہ مردوں کی طرح ہر جگہ دندناتی پھرتی۔
اور واقعی نہیں جانتی تھی کہ جب اسے اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے سلسلے میں خود جگہ جگہ پھرنا پڑے گا۔ ہر طرح کے مردوں اور لوگوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ کیسےکرے گی۔ وہ بھی اس صورت میں جب کہ اس کے پیچھے فیملی بیک گراؤنڈ نام کی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔
وہ اپنی فیملی کے سائے کے نیچے لاہور آکر میڈیکل کالج میں پڑھنا اور آگے تعلیم حاصل کرنے کے لئے باہر جانے کے خواب دیکھنا اور بات تھی۔۔۔۔۔ تب اس کے لئے کوئی مالی مسائل نہیں تھے اور ہاشم مبین احمد کے پاس اتنی دولت اور اثرورسوخ تھا کہ صرف ہاشم مبین احمد کے نام کا حوالہ کسی بھی شخص کو اس سے بات کرتے ہوئے مرعوب اور محتاط کردینے کے لئے کافی تھا۔
گھر سے نکلنے کے بعد اسے جس ماحول کے سامنے کا خدشہ تھا اس ماحول کا سامنا اسے نہیں کرنا پڑا تھا۔ پہلے سالار اسے بخریت لاہور چھوڑ گیا تھااور اس کے بعد ڈاکٹر سبط علی تک رسائی جس کے بعد اسے اپنے چھوٹے بڑے کسی کام کے لئے کسی وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔
ڈاکومنٹس میں نام کی تبدیلی، ملتان میں ایڈمیشن۔۔۔۔۔ ہاسٹل میں رہائش کا انتظام۔ اس کے تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری۔۔۔۔۔ وہ اس ایک نعمت کے لئے اللہ کا جتنا شکر ادا کرتی وہ کم تھا۔ کم از کم اسے کسی برے ماحول میں بقا کی جنگ لڑنے کے لئے جگہ جگہ دھکے کھانے نہیں پڑے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ملتان چلی آئی، یہ اس کے لئے زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز تھا۔ ایک مشکل اور تکلیف دہ دور۔ وہ ہاسٹل میں رہ رہی تھی اور و ہ عجیب زندگی تھی۔ بعض دفعہ اسے اسلام آباد میں اپنا گھر اور خاندان کے لوگ اتنی شدت سے یاد آتے کہ اس کا دل چاہتا وہ بھاگ کر ان کے پاس چلی جائے۔ بعض دفعہ وہ بغیر کسی وجہ کے رونے لگتی۔ بعض دفعہ اس کا دل چاہتا وہ جلال انصر سے رابطہ کرے۔ اسے وہ بے تحاشا یاد آتا۔ وہ بی ایس سی کررہی تھی اور اس کے ساتھ بی ایس سی کرنے والی لڑکیاں وہی تھیں جو ایف ایس سی میں میرٹ لسٹ پر نہیں آسکی تھیں اور اب وہ بی ایس سی کرنے کے بعد میڈیکل کالج میں جانے کی خواہش مند تھیں۔
“میڈیکل کالج۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر۔” اس کے لئے بہت عرصے تک یہ دونوں الفاط نشتر بنے رہے۔ کئی بار وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھ کر حیران ہوتی رہتی۔ آخر وہاں کیا تھا جو ہر چیز کو مٹھی کی ریت بنا رہا تھا۔ کئی بار اسے جویریہ سے کی جانے والی اپنی باتیں یاد آتیں۔
“میں اگر ڈاکٹر نہیں بن سکی تو میں تو زندہ ہی نہیں رہ سکوں گی۔ میں مرجاؤں گی۔”
وہ حیران ہوتی وہ مری تو نہیں تھی۔ اسی طرح زندہ تھی۔
“پاکستان کی سب سے مشہور آئی اسپیشلسٹ؟”
سب کچھ ایک خواب ہی رہا تھا۔۔۔۔۔ وہ ہر چیز کے اتنے پاس تھی وہ ہر چیز سے اتنا دور تھی۔
اس کے پاس گھر نہیں تھا۔
اس کے پاس گھر والے نہیں تھے۔ اس کے پاس اسجد نہیں تھا۔ میڈیکل کی تعلیم نہیں تھی۔
جلال بھی نہیں تھا۔ وہ زندگی کی ان آسائشوں سے ایک ہی جھٹکے میں محروم ہوگئی تھی جن کی وہ عادی تھی اور اس کے باوجود وہ زندہ تھی۔ امامہ کو کبھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس قدر بہادر تھی یا کبھی ہوسکتی تھی مگر وہ ہوگئی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تکلیف میں کمی ہونا شروع ہوگئی تھی۔ یوں جیسے اسے صبر آرہا تھا۔ اللہ کے بعد شاید زمین پر یہ ڈاکٹر سبط تھے جن کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ سنبھلنے لگی تھی۔
مہینے میں ایک بار ویک اینڈ پر وہ ان کے پاس لاہور آتی۔ وہ وقتاً فوقتاً اسے ہاسٹل فون کرتے رہتے، اسے کچھ نہ کچھ بھجواتے رہتے۔ ان کی بیٹیاں اور بیوی بھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ ان کے نزدیک ان کے گھر کا ایک فرد بن چکی تھی اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو میرا کیا ہوتا۔ وہ کئی بار سوچتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ملتان میں اپنے قیام کے دوران بھی اس نے سالار کو کبھی اپنے ذہن سے فراموش نہیں کیا تھا۔ تعلیم کا سلسلہ باقاعدہ طور پر شروع کرنے کے بعد وہ ایک بار اس سے رابطہ کرنا چاہتی تھی اور اگر وہ پھر اسے طلاق دینے سے انکار کردیتا تو وہ بالآخر ڈاکٹر سبط علی کو اس تمام معاملے کے بارے میں بتا دینا چاہتی تھی۔
اور سالار سے رابطہ اس نے بی ایس سی کے امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد لاہور آنے سے پہلے کیا۔ اپنے پاس موجود سالار کے موبائل کا استعمال وہ بہت پہلے ترک کرچکی تھی۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ دو سال کے عرصہ میں سالار دوبارہ اسی موبائل کا استعمال کرنا شروع کرچکا ہے یا پھر اس نئے نمبر کو استعمال کررہا تھا جو اس نے اپنا موبائل دے دینے کے بعد دیا تھا۔
ایک پی سی او سے اس نے سب سے پہلے اس کا نیا نمبر ڈائل کیا۔ وہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ پھر اس نے اپنے پاس موجو دموبائل کے نمبر کو ڈائل کیا۔۔۔۔۔ وہ نمبر بھی کسی کے استعمال میں نہیں تھا۔ اس کا واضح مطلب یہی تھا کہ اب وہ کوئی اور نمبر لئے ہوئے تھا اور وہ نمبر اس کے پاس نہیں تھا۔
اس نے بالآخر گھر کا نمبر ڈائل کیا کچھ دیر تک بیل ہوتی رہی، پھر فون اٹھا لیا۔
“ہیلو۔۔۔۔۔!” کسی عورت نے دوسری طرف سے کہا۔
“ہیلو میں سالار سکندر سے بات کرنا چاہتی ہوں۔” امامہ نے کہا۔
“سالار صاحب سے۔۔۔۔۔! آپ کون بول رہی ہیں۔”
امامہ کو اچانک محسوس ہوا جیسے اس عورت کے لہجے میں یکدم تجسس پیدا ہوا تھا۔
امامہ کو پتا نہیں کیوں اس کی آواز شناسا لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی اچانک اس عورت نے بڑی پرجوش آواز میں کہا۔ “امامہ بی بی آپ امامہ بی بی ہیں؟”
ایک کرنٹ کھا کر امامہ نے بے اختیار کریڈل دبا دیا۔ وہ کون تھی جس نے اسے صرف آواز سے پہچان لیا تھا۔ اتنے سالوں بعد بھی۔۔۔۔۔ اور اتنی جلدی وہ بھی سالار سکندر کے گھر پر۔۔۔۔۔
کچھ دیر اس کے ہاتھ کانپتے رہے۔ وہ پی سی او کے اندر والے کیبن میں تھی اور کچھ دیر ریسیور اسی طرح ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی۔
“جو بھی ہو مجھے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میں اسلام آباد سے اتنی دور ہوں کہ یہاں مجھ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ مجھے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔”
اس نے سوچا اور پی سی او کے مالک کو ایک بار پھر کال ملانے کے لئے کہا۔
فون کی گھنٹی بجنے پر اس بار فون اٹھا لیا گیا تھا۔ مگر اس بار بولنے والا کوئی مرد تھا اور وہ سالار نہیں تھا۔ یہ وہ آواز سنتے ہی جان گئی تھی۔
“میں سالار سکندر سے بات کرنا چاہتی ہوں۔”
“آپ امامہ ہاشم ہیں؟”
مرد نے کھردری آواز میں کہا۔ اس بار امامہ کو کوئی شاک نہیں لگا۔
“جی۔۔۔۔۔” دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
“آپ ان سے میری بات کروا دیں۔”
“یہ ممکن نہیں ہے۔” دوسری طرف سے کہا۔
“کیوں؟”
“سالار زندہ نہیں ہے۔”
“کیا؟” بے اختیار امامہ کے حلق سے نکلا۔
“وہ مر گیا؟”
“ہاں۔۔۔۔۔”
“کب۔۔۔۔۔؟”
اس بار مرد خاموش رہا۔
“آپ سے آخری بار ان کا رابطہ کب ہوا؟”
اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس آدمی نے کہا۔
“چند سال پہلے۔۔۔۔۔ ڈھائی سال پہلے۔”
“ایک سال پہلے اس کی ڈیتھ ہوئی ہے۔ آپ۔۔۔۔۔”
امامہ نے کچھ بھی اور سننے سے پہلے فون بند کردیا۔ کچھ کہنے اور سننے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ آزاد ہوچکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ ایک انسان کے طور پر اسے اس کی موت پرافسوس ہونا چاہیے تھا مگر اسے کوئی افسوس نہیں تھا۔ اگر اس نے اس طرح اسے طلاق دینے سے انکار نہ کیا ہوتا تو یقیناً اس کے لئے دکھ محسوس کرتی مگر اس وقت ڈھائی سال کے بعد اسے بے اختیار سکون اور خوشی کا احساس ہورہا تھا۔ وہ تلوار جو اس کے سر لٹکی ہوئی تھی وہ غائب ہوچکی تھی۔
اسے اب ڈاکٹر سب علی کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں تھی وہ صحیح معنوں میں آزاد ہوچکی تھی وہ اس کا وہاں ہاسٹل میں آخری دن تھا اور اس رات اس نے سالار سکندر کے لئے بخشش کے لئے دعا کی۔
وہ اس کی موت کے بعد اسے معاف کرچکی تھی اور وہ اس کی موت پر بے پناہ خوش تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس سے فون پر بات کرنے والی وہی ملازمہ تھی جو سالار کے ساتھ ساتھ اس کے گھر میں بھی کام کرتی رہی تھی اور اس نے امامہ کی آواز کو فوراً پہچان لیا تھا۔ امامہ کے فون بند کرتے ہی وہ کچھ اضطراب اور جوش و خروش کے عالم میں سکندر عثمان کے پاس پہنچ گئی۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس دن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے وہ گھر پر ہی تھے۔
“ابھی کچھ دیر پہلے ایک لڑکی کا فون آیا ہے۔۔۔۔۔ وہ سالار صاحب سے بات کرنا چاہتی تھی۔”
“تو تم بات کروا دیتیں۔” سکندر عثمان قدرے لاپروائی سے بولے۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ سالار بھی ان دنوں پاکستان آیا ہوا تھا اور گھر پر موجود تھا۔ ملازمہ کچھ ہچکچائی۔
“صاحب جی! وہ امامہ بی بی تھیں۔”
سکندرعثمان کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹے بچا، وہ یکدم حواس باختہ نظر آنے لگے۔
“امامہ ہاشم۔۔۔۔۔ ہاشم کی بیٹی؟” ملازمہ نے اثبات میں سر ہلادیا۔ سکندر عثمان کا سر گھومنے لگا۔
“تو کیا سالار ہر ایک کو بے وقوف بنا رہا ہے وہ ابھی تک امامہ کے ساتھ رابطے میں ہے اور وہ جانتا ہے وہ کہاں ہے۔ تو پھر یقینا وہ اس سے ملتا بھی رہا ہوگا۔” انہوں نے بے اختیار سوچا۔
“اس نے تمہیں خود اپنا نام بتایا۔؟” انہوں نے چائے کا کپ ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔
“نہیں۔۔۔۔۔ میں نے ان کی آواز پہچان لی اور جب میں نے ان کا نام لیا انہوں نے فون بند کردیا۔” ملازمہ نے سکندر عثمان کو بتایا۔ “مگر مجھے یقین ہے وہ ان ہی کی آواز تھی۔ مجھے کم از کم اس بارے میں کوئی دھوکہ نہیں ہوسکتا۔” اس سے پہلے کہ سکندر عثمان کچھ کہتے انہوں نےفون کی گھنٹی سنی مگر اس بار وہ ڈائننگ روم میں موجود ایکسٹینشن کی طرف بڑھ گئے اور انہوں نے فون اٹھا لیا۔ دوسری طرف موجود لڑکی ایک بار پھر سالار سکندر کا پوچھ رہی تھی۔ ان کے استفسار پر اس نے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ وہ امامہ ہاشم ہی تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کیوں مگر بے اختیا ران کے دل میں آیا کہ وہ اسے سالار کے مرنے کی خبر دے دیں، تاکہ وہ دوبارہ کبھی ان کے گھر فون نہ کرے۔ انہیں اس سے بات کرکے یہ اندازہ تو ہو ہی چکا تھا کہ وہ بہت عرصےسے سالار کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکی ہے اور اس کے پاس ان کے بیان کی صداقت کو پرکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ وبارہ رابطہ نہ کرتی تو ان کی جان اس سے ہمیشہ چھوٹ سکتی تھی۔ وہ ابھی تک اس ایک سال کو اپنے ذہن سے نکال نہیں سکے تھے۔ جب امامہ کی گمشدگی کے فوراً بعد سالار پر شبہ ہونے کی وجہ سے ہاشم مبین احمد نے ان کے لئے ہر قسم کی پریشانی کھڑی کی تھی۔
بہت سے سرکاری دفاتر جہاں پہلے ان کی فرم کی فائلز بہت آسانی سے نکل آئی تھیں۔ مہینوں پھنسی رہیں۔ ان کے گھر دھمکی آمیز کالز اور خط آتے رہے۔ کئی لوگوں نے بالواسطہ طور پر ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ ہاشم مبین احمد کی بیٹی کی واپسی کے لئے ان کی مدد کریں۔ ایک لمبے عرصے تک سالار کی نگرانی کی گئی اور نگرانی کا یہ سلسلہ صرف پاکستان ہی نہیں باہر میں بھی جاری رہا۔ مگر جب کسی طرح بھی امامہ سے اس کے رابطے کا کوئی ثبوت یا سراغ نہیں ملا تو رفتہ رفتہ یہ تمام سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔
سکندر عثمان کی بے پناہ کوشش کے باوجود بھی ہاشم مبین کے ساتھ ان کے تعلقات بحال نہیں ہوئے مگر ان کی طرف سے عدم تحفظ کا اندیشہ ختم ہوگیا تھا اور اب ڈھائی سال بعد وہ لڑکی ایک بار پھر سالار سے رابطہ کرنا چاہتی تھی وہ کسی صورت بھی دوبارہ ان حالات کا سامنا نہ خود کرنا چاہتے تھے نہ ہی سالار کو کرنے دینا چاہتے تھے۔
اگر وہ خود ہاشم مبین احمد کی ٹکر کے آدمی نہ ہوتے تو وہ اب تک اس سے زیادہ نقصان اٹھا چکے ہوتے، جتنا نقصان انہوں نے اس ایک سال اور خاص طور پر شروع کے چند ماہ میں اٹھایا تھا۔ وہ امامہ کو اس طلاق نامے کی ایک کاپی بھجوانا چاہتے تھے جو سالار کی طرف سے انہوں نے تیار کیا تھا اور انہیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ جائز تھا یا نہیں۔ وہ صرف امامہ کو یہ یقین دلانا چاہتے تھے کہ سالار یا اس کے خاندان کے ساتھ اس کا تعلق ہونا چاہیے نہ ہی ہوگا۔
اگر کچھ تھا بھی تو وہ سالار کی موت اور اس سے پہلے کے تحریر شدہ اس طلاق نامے کے ساتھ ہی ختم ہوگیا تھا مگر یہ ایک اور اتفاق تھا کہ امامہ نے ان کی بات مکمل طور پر سنے بغیر فون بند کردیا انہوں نے فون کو ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کی، مگر وہ ملتان کے ای پی سی او کا ثابت ہوا سالار ایک ہفتہ بعد واپس امریکہ جانے والا تھا اور انہوں نے اس ایک ہفتہ اس کی مکمل طور پر نگرانی کروائی۔ وہ ملازموں کو ہدایت دے چکے تھے کہ کسی کا بھی فون آئے وہ کسی بھی صورت سالار سے بات نہ کروائیں، چاہے فون کسی مرد کا ہو یا عورت کا جب تک وہ خود یہ نہ جان لیں کہ فون کرنے والا کون تھا۔ ملازمہ کو بھی وہ سختی کے ساتھ منع کرچکے تھے کہ وہ سالار کو امامہ کی اس کال کے باےر میں نہ بتائے۔ ایک ہفتے کے بعد جب سالار واپس امریکہ چلا گیا تو انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔
سر پر آئی ہوئی آفت ایک بار پھر ٹل گئی تھی۔ سالار کی واپسی کے چند ہفتے بعد انہیں ایک لفافہ موصول ہوا تھا۔
امامہ نے لاہور پہنچنے کے بعد وہ موبائل بیچ دیا تھا۔ وہ اسے واپس نہیں بھجوا سکتی تھی اور سالار کی وفات کے بعد اب یہ امکان نہیں تھا کہ کبھی اس کے ساتھ آمنا سامنا ہونے کی صورت میں وہ اسے وہ موبائل واپس دے سکے گی۔ اس نے موبائل بیچنے سے ملنے والی رقم کے ساتھ اپنے پاس موجود کچھ اور رقم شامل کی۔ وہ اندازاً ان کالز کے بل کی رقم تھی جو ڈھائی تین سال پہلے سالار نے ادا کئے ہوں گے اور چند دوسرے اخراجات جو اپنے گھر قید کے دوران اور وہاں سے لاہور فرار کے دوران سالار نے اس پر کئے تھے۔ اس کے ساتھ سکندر عثمان کے نام ایک مختصر نوٹ بھجوایا۔ ٹریولرز چیکس۔ اس کے سر پر موجود اس آدمی کا قرض بھی اتر گیا تھا۔
اس رقم اور اس کے ساتھ ملنے والے نوٹ سے سکندر عثمان کو تسلی ہوگئی تھی کہ وہ دوبارہ اس سے رابطہ نہیں کرے گی اور یہ بھی کہ اس نے واقعی ان کی بات پر یقین کرلیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ملتان سے بی ایس سی کرنے کے بعد وہ لاہور چلی آئی تھی۔ اسے گھر چھوڑے تین سال ہونے والے تھے اور اس کا خیال تھا کہ اب کم از کم اسے تلاش نہیں کیا جائے گا، جس طرح پہلے کیا جاتا رہا تھا۔ اگر کیا بھی گیا تو صرف میڈیکل کالجز پر نظر رکھی جائے گی۔ اس کا یہ اندازہ صحیح ثابت ہوا تھا۔
اس نے پنجاب یونیورسٹی میں کیمسٹری میں ایم ایس سی کے لئے ایڈمیشن لے لیا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ بے حد محتاط تھی۔ یہ لاہور تھا یہاں کسی وقت کوئی بھی اسے پہچان سکتا تھا۔ ملتان میں وہ صرف چادر اوڑھ کر کالج جاتی تھی۔ لاہور میں اس نے نقاب لگانا شروع کردیا۔
لاہور میں دوبارہ واپسی کے بعد وہ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ نہیں رہی تھی، وہ سعیدہ اماں کے پاس رہنے لگی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...