دروازہ کھولنے پر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا جب اس نے سعیدہ اماں کو وہاں کھڑا پایا۔ سالار نے دروازہ کھول دیا۔
“السلام علیکم! کیسی ہیں آپ؟”
“اللہ کا شکر ہے میں بالکل ٹھیک ہوں ، تم کیسے ہو؟”
انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کے سر پر اپنےدونوں ہاتھ پھیرے۔
“میں بھی ٹھیک ہوں، آپ اندر آئیں۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“ٹھیک لگ تو نہیں رہے ہو۔ کمزور ہو رہے ہو، چہرہ بھی کالا ہو رہا ہے۔” انہوں نے اپنی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے اس کے چہرے پر غور کیا۔
“رنگ کالا نہیں ہوا، میں نے شیو نہیں کی۔” سالار نے بے اختیار اپنی مسکراہٹ روکی۔ وہ ان کے ساتھ چلتا ہوا اندر آ گیا۔
“لو بھلا شیو کیوں نہیں کی۔ اچھا داڑھی رکھنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ بہت اچھی بات ہے۔ نیکی کا کام ہے۔ بہت اچھا کر رہے ہو۔”
وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
“نہیں اماں! داڑھی نہیں رکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔ آج اتوار ہے۔ دیر سے اٹھا ہوں کچھ دیر پہلے ہی۔ اس لئے شیو نہیں کی۔” وہ ان کی بات پر محظوظ ہوا۔
“دیر سے کیوں اٹھے۔۔۔۔۔ بیٹا! دیر سے نہ اٹھا کرو۔ صبح جلدی اٹھ کر فجر کی نماز پڑھا کرو۔۔۔۔۔ چہرے پر رونق آتی ہے۔ اسی لئے تو تمہارا چہرہ مرجھایا ہوا ہے۔ صبح نماز پڑھ کر بندہ قرآن پڑھے پھر سیر کو چلا جائے۔ صحت بھی ٹھیک رہتی ہے اور اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔”
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔
“میں نماز پڑھ کر سویا تھا۔ صرف اتوار والے دن ہی دیر تک سوتا ہوں۔ ورنہ روز صبح وہی کرتا ہوں جو آپ کہہ رہی ہیں۔”
وہ اس کی وضاحت پر بے حد خوش نظر آنے لگیں۔
“بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ اسی لئے تو تمہارا چہرہ چمک رہا ہے۔ رونق نظر آ رہی ہے۔”
انہوں نے اپنے بیان میں ایک بار پھر تبدیلی کی۔
“آپ کیا لیں گی؟”
وہ اپنے چہرے پر کوئی تبصرہ نہیں سننا چاہتا تھا، اس لئے موضوع بدلا۔
“ناشتا کریں گی؟”
“نہیں، میں ناشتا کر کے آئی ہوں۔ صبح چھ سات بجے میں ناشتہ کر لیتی ہوں۔ گیارہ ساڑھے گیارہ تو میں دوپہر کا کھانا بھی کھا لیتی ہوں۔”
انہوں نے اپنے معمولات سے آگاہ کیا۔
“تو پھر دوپہر کا کھانا کھا لیں۔ ساڑھے دس تو ہو رہے ہیں۔”
“نہیں ابھی تو مجھے بھوک ہی نہیں۔ تم میرے پاس آ کر بیٹھو۔”
“میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔۔”
وہ ان کے انکار کے باوجود کچن میں آ گیا۔
“پورے چھ ماہ سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ تم نے ایک بار بھی شکل نہیں دکھائی۔ حالانکہ وعدہ کیا تھا تم نے۔”
اسے کچن میں ان کی آواز سنائی دی۔
“میں بہت مصروف تھا اماں جی۔۔۔۔۔”
اس نےا پنے لئے چائے تیار کرتے ہوئےکہا۔
“لو ایسی بھی کیا مصروفیت۔۔۔۔۔ ارے بچے! مصروف وہ ہوتے ہیں، جن کے بیوی بچے ہوتے ہیں نہ تم نے گھر بسایا، نہ تم گھر والوں کے ساتھ رہ رہے ہو۔۔۔۔۔ پھر بھی کہتے ہو مصروف تھا۔۔۔۔۔”
وہ ٹوسٹر سے سلائس نکالتے ہوئے ان کی بات پر مسکرایا۔
“اب یہی دیکھو، یہ تمہارے کرنے کے کام تو نہیں ہیں۔”
وہ اسے چائے کی ٹرے لاتے دیکھ کر خفگی سے بولیں۔
“میں تو کہتی ہوں یہ کام مرد کے کرنے والے ہیں ہی نہیں۔”
وہ کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے میز پر برتن رکھنے لگا۔
“اب دیکھو بیوی ہوتی تو یہ کام بیوی کر رہی ہوتی۔ مرد اچھالگتا ہی نہیں ایسے کام کرتے ہوئے۔”
“آپ ٹھیک کہتی ہیں اماں جی! مگر اب مجبوری ہے۔ اب بیوی نہیں ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔”
سالار نے چائے کا کپ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ انہیں اس کی بات پر جھٹکا لگا۔
“یہ کیا بات ہوئی، کیا کیا جا سکتا ہے؟ ارے بچے ! دنیا لڑکیوں سے بھری ہوئی ہے۔ تمہارے تو اپنے ماں باپ بھی ہیں۔ ان سے کہو۔۔۔۔۔ تمہارا رشتہ طے کریں۔ یا تم چاہو تو میں کوشش کروں۔”
سالار کو یک دم صورت حال کی سنگینی کا احساس ہونے لگا۔
“نہیں ، نہیں اماں جی! آپ چائے پئیں میں بہت خوش ہوں، اپنی زندگی سے۔۔۔۔۔ جہاں تک گھر کے کاموں کاتعلق ہے تو وہ تو ہمارے پیغمبرﷺ بھی کر لیا کرتے تھے۔”
“لو اب تم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ میں تو تمہاری بات کر رہی ہوں۔” وہ کچھ گڑبڑا گئیں۔
“آپ یہ بسکٹ لیں اور کیک بھی۔۔۔۔۔”
سالار نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
“ارے ہاں، جس کام کے لئے میں آئی ہوں وہ تو بھول ہی گئی۔”
انہیں اچانک یاد آیا، اپنے ہاتھ میں پکڑا بڑا سا بیگ انہوں نے کھول کر اندر کچھ تلاش کرنا شروع کر دیا۔
“تمہاری بہن کی شادی طے ہو گئی ہے۔”
سالار کو چائے پیتے بے اختیار اچھو لگا۔
“میری بہن کی۔۔۔۔۔ اماں جی! میری بہن کی شادی تو پانچ سال پہلے ہو گئی تھی۔”
اس نے کچھ ہکا بکا ہوتے ہوئے بتایا۔ وہ اتنی دیر میں اپنے بیگ سے ایک کارڈ برآمد کر چکی تھیں۔
“ارے میں اپنی بیٹی کی بات کر رہی ہوں۔ آمنہ کی، تمہاری بہن ہی ہوئی نا۔۔۔۔۔”
انہوں نے اس کے جملے پر بڑے افسوس کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے کارڈ تھمایا۔
سالار کو بے اختیار ہنسی آئی کل تک وہ اسے اس کی بیوی بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں اور اب یک دم بہن بنا دیا، مگر اس کے باوجود سالار کو بے تحاشا اطمینان محسوس ہوا۔ کم از کم اب اسے ان سے یا ان کی بیٹی سے کوئی خطرہ نہیں رہا تھا۔
بہت مسرور سا ہو کر اس نے کارڈ پکڑ لیا۔
“بہت مبارک ہو۔۔۔۔۔ کب ہو رہی ہے شادی؟” اس نے کارڈ کھولتے ہوئے کہا۔
“اگلے ہفتے۔۔۔۔۔”
“چلیں اماں جی! آپ کی فکر تو ختم ہو گئی۔”
سالار نے” میری” کے بجائے” آپ کی” کا لفظ استعمال کیا۔
“ہاں اللہ کا شکر ہے، بہت اچھی جگہ رشتہ ہو گیا۔ میری ذمہ داری ختم ہو جائے گی پھر میں بھی اپنے بیٹوں کے پاس انگلینڈ چلی جاؤں گی۔”
سالار نے کارڈ پر ایک سرسری سی نظر دوڑائی۔
“یہ کارڈ تمہیں دینے خاص طور پر آئی ہوں۔۔۔۔۔ اس بار کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔ تمہیں شادی پر آنا ہے۔ بھائی بن کر رخصت کرنا ہے بہن کو۔”
سالار نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے چائے کا کپ لیا۔
“آپ فکر نہ کریں، میں ضرور آؤں گا۔”
وہ کپ نیچے رکھ کر سلائس پر مکھن لگانے لگا۔
“یہ فرقان کا کارڈ بھی لے کر آئی ہوں میں۔۔۔۔۔ اس کو بھی دینے جانا ہے۔”
انہیں اب فرقان کی یاد ستانے لگی۔
“فرقان کو تو آج بھابھی کے ساتھ اپنے سسرال جانا تھا۔ اب تک تو نکل چکا ہو گا۔ آپ مجھے دے دیں، میں اسے دے دوں گا۔” سالار نے کہا۔
“تم اگر بھول گئے تو؟” وہ مطمئن نہیں ہوئیں۔
“میں نہیں بھولوں گا، اچھا میں فون پر اس سے آپ کی بات کرا دیتا ہوں۔”
وہ یک دم خوش ہو گئیں۔
“ہاں یہ ٹھیک ہے، تم فون پر اس سے میری بات کرا دو۔”
سالار اٹھ کر فون اسی میز پر لے آیا۔ فرقان کا موبائل نمبر ڈائل کر کے اس نے اسپیکر آن کر دیا اور خود ناشتہ کرنے لگا۔
“فرقان! سعیدہ اماں آئی ہوئی ہیں میرے پاس۔”
فرقان کے کال ریسیو کرنے پر اس نے بتایا۔
“ان سے بات کرو۔”
وہ خاموش ہو گیا، اب فرقان اور سعیدہ اماں کے درمیان بات ہو رہی تھی۔
دس منٹ بعد جب یہ گفتگو ختم ہوئی تو سالار ناشتہ کر چکا تھا۔ برتن کچن میں رکھتے ہوئے اسے خیال آیا۔
“آئی کس کے ساتھ تھیں آپ؟” وہ باہر نکل آیا۔
“اپنے بیٹے کے ساتھ۔” سعیدہ اماں نے اطمینان سے کہا۔
“اچھا، بیٹا آ گیا آپ کا؟ چھوٹا والا یا بڑا والا؟”
سالار نے دلچسپی لی۔
“میں ساتھ والوں کے راشد کی بات کر رہی ہوں۔” سعیدہ اماں نے بے اختیار برا مانا۔
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ سعیدہ اماں کے لئے ہر لڑکا اپنا بیٹا اور ہر لڑکی اپنی بیٹی تھی۔ وہ بڑے آرام سے رشتے گھڑ لیتی تھیں۔
“تو وہ کہاں ہے؟” سالار نے پوچھا۔
“وہ چلا گیا، موٹر سائیکل پر آئی ہوں اس کے ساتھ۔ آندھی کی رفتار سے چلائی ہے اس نے۔ نو بجے بیٹھی ہوں، پورے ساڑھے دس بجے ادھر پہنچا دیا اس نے۔ میری ایک نہیں سنی اس نے۔ سارا راستہ۔۔۔۔۔ بار بار یہی کہتا رہا آہستہ چلا رہا ہوں۔ یہاں اتارتے وقت کہنے لگا آپ کے ساتھ موٹر سائیکل پر میرا آخری سفر تھا۔ دوبارہ کہیں لے کر جانا ہوا تو پیدل لے کر جاؤں گا آپ کو۔۔۔۔۔”
سالار کو ہنسی آئی۔ آدھہ گھنٹہ میں طے ہونے والے راستے کو ڈیڑھ گھنٹےمیں طے کرنے والے کی جھنجھلاہٹ کا وہ اندازہ کر سکتا تھا۔ بوڑھوں کے ساتھ وقت گزارنا خاصا مشکل کام تھا۔ یہ وہ سعیدہ اماں کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات میں ہی جان گیا تھا۔
“تو واپس کیسے جائیں گی۔ راشد لینے آئے گا آپ کو؟”
“ہاں ، اس نے کہا تو ہے کہ میچ ختم ہونے کے بعد آپ کو لے جاؤں گا۔ اب دیکھو کب آتا ہے۔”
وہ اسے ایک بار پھر اپنی بیٹی اور اس کے ہونے والے سسرال کے بارے میں اطلاعات پہنچانے لگیں۔
وہ مسکراتے ہوئے بڑی فرمانبرداری سے سنتا رہا۔
اس قسم کی معلومات میں اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی مگر سعیدہ اماں اب اس کے ساتھ بینکنگ کے بارے میں تو گفتگو نہیں کر سکتی تھیں۔ ان کی باتیں رتی بھر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں مگر وہ یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے وہ ہر بات سمجھ رہا ہے۔
دوپہر کا کھانا اس نے ان کے ساتھ کھایا۔ اس نے ان کے سامنے فریزر سے کچھ نکال کر گرم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ایک بار پھر شادی کے فوائد اور ضرورت پر لیکچر نہیں سننا چاہتا تھا۔ اس نے ایک ریسٹورنٹ فون کر کے لنچ کا آرڈر دیا۔ ایک گھنٹے کے بعد کھانا آگیا۔
کھانے کے وقت تک راشد نہیں آیا تو سالار نے ان کی تشویش کو کم کرنے کے لئے کہا۔
“میں گاڑی پر چھوڑ آتا ہوں آپ کو۔”
وہ فوراً تیار ہو گئیں۔
“ہاں یہ ٹھیک ہے، اس طرح تم میرا گھر بھی دیکھ لو گے۔”
“اماں جی! میں آپ کا گھر جانتا ہوں۔”
سالار نے کار کی چابی تلاش کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا۔
آدھہ گھنٹہ کے بعد وہ اس گلی میں تھا جہاں سعیدہ اماں کا گھر تھا۔ وہ گاڑی سے اتر کر انہیں اندر گلی میں دروازے تک چھوڑ گیا۔ انہوں نے اسے اندر آنے کی دعوت دی، جسے اس نے شکریہ کے ساتھ رد کر دیا۔
“آج نہیں۔۔۔۔۔ آج بہت کام ہیں۔”
وہ اپنی بات کہہ کر پچھتایا۔
“بچے اسی لئے کہتی ہوں شادی کر لو۔ بیوی ہو گی تو خود سارے کام دیکھے گی۔ تم کہیں آ جا سکو گے۔ اب یہ کوئی زندگی ہے کہ چھٹی کے دن بھی گھر کے کام لے کر بیٹھے رہو۔” انہوں نے افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
“جی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اب میں جاؤں؟”
اس نے کمال فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
“ہاں ٹھیک ہے جاؤ، مگر یاد رکھنا شادی پر ضرور آنا۔ فرقان سے بھی ایک بار پھر کہہ دینا کہ وہ بھی آئے اور اس کو کارڈ ضرور پہنچا دینا۔”
سالار نے ان کے دروازے پر لگی ہوئی ڈور بیل بجائی اور خداحافظ کہتے ہوئے پلٹا۔
اپنے پیچھے اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ سعیدہ اماں اب اپنی بیٹی سے کچھ کہہ رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“پھر کیا پروگرام ہے، چلو گے؟”
فرقان نے اگلے دن شام کو اس سے کارڈ لیتے ہوئے کہا۔
“نہیں، میں تو اس ویک اینڈ پر کراچی جا رہا ہوں۔ آئی بی ای کے ایک سیمینار کے لئے۔ اتوار کو میری واپسی ہو گی۔ میں تو آ کر بس سوؤں گا۔
“Nothing else۔ تم چلے جانا ۔، میں لفافہ دے دوں گا، وہ تم میری طرف سے معذرت کرتے ہوئے دے دینا۔” سالار نے کہا۔
“کتنے افسوس کی بات ہے سالار! وہ خود کارڈ دے کر گئی ہیں، اتنی محبت سے بلایا ہے۔”
فرقان نے کہا۔
“جانتا ہوں لیکن میں ادھر جا کر وقت ضائع نہیں کر سکتا۔”
“ہم بس تھوڑی دیر بیٹھیں گے پھر آجائیں گے۔”
“فرقان! میری واپسی کنفرم نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے میں اتورا کو آ ہی نہ سکوں یا اتوار کی رات کو آؤں۔”
“بے حد فضول آدمی ہو تم۔ وہ بڑی مایوس ہوں گی۔”
“کچھ نہیں ہو گا، میرے نہ ہونے سے ان کی بیٹی کی شادی تو نہیں رک جائے گی۔ ہو سکتا ہے انہیں پہلے ہی میرے نہ آنے کا اندازہ ہو اور ویسے بھی فرقان! تم اور میں کوئی اتنے اہم مہمان نہیں ہیں۔”
سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
“بہرحال میں اور میری بیوی تو جائیں گے، چاہے ہم کم اہم مہمان ہی کیوں نہ ہوں۔” فرقان نے ناراضی سے کہا۔
“میں نے کب روکا ہے، ضرور جاؤ، تمہیں جانا بھی چاہئیے۔ سعیدہ اماں کے ساتھ تمہاری مجھ سے زیادہ بے تکلفی اور دوستی ہے۔” سالار نے کہا۔
“مگر سعیدہ اماں کو میرے بجائے تمہارا زیادہ خیال رہتا ہے۔”فرقان نے جتایا۔
“وہ مروت ہوتی ہے۔” سالار نے اس کی بات کو سنجیدگی سے لئے بغیر کہا۔
“جو بھی ہوتا ہے بہرحال تمہارا خیال تو ہوتا ہے انہیں۔ چلو اور کچھ نہیں تو ڈاکٹر سبط علی کی عزیزہ سمجھ کر ہی تم ان کے ہاں چلے جاؤ۔” فرقان نے ایک اور حربہ آزمایا۔
“ڈاکٹر صاحب تو خود یہاں نہیں ہیں۔ وہ تو خود شادی میں شرکت نہیں کر رہے اور اگر وہ یہاں ہوتے بھی تو کم از کم مجھے تمہاری طرح مجبور نہیں کرتے۔”
“اچھا، میں بھی نہیں کرتا تمہیں مجبور۔ نہیں جانا چاہتے تو مت جاؤ۔”
فرقان نے کہا۔
سالار ایک بار پھر اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف ہو چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ایک سرسبز و وسیع سبزہ زار تھا جہاں وہ دونوں موجود تھے۔ وسیع کھلے سبزہ زار میں درخت تھے مگر زیادہ بلند نہیں۔ خوبصورت بھولدار جھاڑیاں تھیں، چاروں طرف خاموشی تھی۔وہ دونوں کسی درخت کے سائے میں بیٹھنے کے بجائے ایک پھولدار جھاڑی کے قریب دھوپ میں بیٹھے تھے۔ امامہ اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے ہوئے بیٹھی تھی اور وہ گھاس پر چت لیٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ ان دونوں کے جوتے کچھ فاصلے پر پڑے ہوئے تھے۔ امامہ نے اس بار خوبصورت سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ ان دونوں کے درمیان گفتگو ہو رہی تھی۔ امامہ اس سے کچھ کہتے ہوئے دور کسی چیز کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے لیٹے لیٹے اس کی چادر کے ایک پلو سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ یوں جیسے دھوپ کی شعاعوں سے آنکھوں کو بچانا چاہتا ہو۔ اس کی چادر نے اسے عجیب سا سکون اور سرشاری دی تھی۔ امامہ نے چادر کے سرے کو اس کے چہرے سے ہتانے یا کھینچنے کی کوشش نہیں کی۔ دھوپ اس کے جسم کو تراوٹ بخش رہی تھی۔ آنکھیں بند کئے وہ اپنے چہرے پر موجود چادر کے لمس کو محسوس کر رہا تھا۔ وہ نیند اسے اپنی گرفت میں لے رہی تھی۔
سالار نے یک دم آنکھیں کھول دیں۔ وہ اپنے بیڈ پر چت لیٹا ہوا تھا۔ کسی چیز نے اس کی نیند کو توڑ دیا تھا۔ وہ آنکھیں کھولے کچھ دیر بے یقینی سے اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھتا رہا۔ یہ وہ جگہ نہیں تھی جہاں اسے ہونا چاہئیے تھا۔ ایک اور خواب۔۔۔۔۔ ایک اور الوژن۔۔۔۔۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور تب اس کو اس موبائل فون کی آواز نے متوجہ کیا، جو مسلسل اس کے سرہانے بج رہا تھا۔ یہ فون ہی تھا جو اسے اس خواب سے باہر لے آیا تھا۔ قدرے جھنجھلاتے ہوئے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر اس نے موبائل اٹھایا۔ دوسری طرف فرقان تھا۔
“کہاں تھے سالار! کب سے فون کر رہا ہوں۔ اٹینڈ کیوں نہیں کر رہے تھے؟”فرقان نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
“میں سو رہا تھا۔” سالار نے کہا اور اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس کی نظر اب پہلی بار گھڑی پر پڑی جو چار بجا رہی تھی۔
“تم فوراً سعیدہ اماں کے ہاں چلے آؤ۔” دوسری طرف سے فرقان نے کہا۔
“کیوں؟میں نے تمہیں بتایا تھا ، میں تو۔۔۔۔۔”
فرقان نے اس کی بات کاٹ دی۔
“میں جانتا ہوں، تم نے مجھے کیا بتایا تھا مگر یہاں کچھ ایمرجنسی ہو گئی ہے۔”
“کیسی ایمرجنسی؟” سالار کو تشویش ہوئی۔
“تم یہاں آؤ گے تو پتا چل جائے گا۔ تم فوراً یہاں پہنچو، میں فون بند کر رہا ہوں۔”
فرقان نے فون بند کر دیا۔
سالار کچھ پریشانی کے عالم میں فون کو دیکھتا رہا۔ فرقان کی آواز سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پریشان تھا مگر سعیدہ اماں کے ہاں پریشانی کی نوعیت کیا ہو سکتی تھی۔
پندرہ منٹ میں کپڑے تبدیل کرنے کے بعد گاڑی میں تھا۔ فرقان کی اگلی کال اس نے کار میں ریسیو کی۔
“تم کچھ بتاؤ تو سہی، ہوا کیا ہے؟ مجھے پریشان کر دیا ہے تم نے۔” سالار نے اس سے کہا۔
“پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تم ادھر ہی آ رہے ہو۔ یہاں آؤ گے تو تمہیں پتا چل جائے گا۔ میں فون پر تفصیلی بات نہیں کر سکتا۔”
فرقان نے ایک بار پھر فون بندکر دیا۔
تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے آدھے گھنٹے کا سفر تقریباً بیس منٹ میں طے کیا۔ فرقان اسے سعیدہ اماں کے گھر کے باہر ہی مل گیا۔ سالار کا خیال تھا کہ سعیدہ اماں کے ہاں اس وقت بہت چہل پہل ہو گی مگر ایسا نہیں تھا۔ وہاں دور دور تک کسی بارات کے آثار نہیں تھے۔ فرقان کے ساتھ وہ بیرونی دروازے کے بائیں طرف بنے ہوئے ایک پرانی طرز کے ڈرائینگ روم میں آ گیا۔
“آخر ہوا کیا ہے جو تمہیں مجھے اس طرح بلانا پڑ گیا؟”
سالار اب الجھ رہا تھا۔
“سعیدہ اماں اور ان کی بیٹی کے ساتھ ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔” فرقان نے اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
“کیسا مسئلہ؟”
“جس لڑکے سے ان کی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی اس لڑکے نے کہیں اور اپنی مرضی سے شادی کر لی ہے۔”
“مائی گڈنیس۔” سالار کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
“ان لوگوں نے ابھی کچھ دیر پہلے سعیدہ اماں کو یہ سب فون پر بتا کر ان سے معذرت کی ہے۔ وہ لوگ اب بارات نہیں لا رہے۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے ان لوگوں کے ہاں گیا ہوا تھا، مگر وہ لوگ واقعی مجبور ہیں۔ انہیں اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے، اس لڑکے نے بھی انہیں صرف فون پر ہی اس کی اطلاع دی ہے۔” فرقان تفصیل بتانے لگا۔
“اگر وہ لڑکا شادی نہیں کرنا چاہتا تھا تو اسے بہت پہلے ہی ماں باپ کو صاف صاف بتا دینا چاہئیے تھا۔ بھاگ کر شادی کر لینے کی ہمت تھی تو ماں باپ کو پہلے اس شادی سے انکار کر دینے کی بھی ہمت ہونی چاہئیے تھی۔” سالار نے ناپسندیدگی سے کہا۔
“سعیدہ اماں کے بیٹوں کو اس وقت یہاں ہونا چاہئیے تھا، وہ اس معاملے کو ہینڈل کر سکتے تھے۔”
“لیکن اب وہ نہیں ہیں تو کسی نہ کسی کو تو سب کچھ دیکھنا ہے۔”
“سعیدہ اماں کے کوئی اور قریبی رشتہ دار نہیں ہیں؟” سالار نے پوچھا۔
“نہیں، میں نے ابھی کچھ دیر پہلے داکٹر سبط علی صاحب سے بات کی ہے فون پر۔” فرقان نے اسے بتایا۔
“لیکن ڈاکٹر صاحب بھی فوری طور پر تو کچھ نہیں کر سکیں گے۔ یہاں ہوتے تو اور بات تھی۔” سالار نے کہا۔
“انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہاری فون پر ان سے بات کراؤں۔”فرقان کی آواز اس بار کچھ دھیمی تھی۔
“میری بات۔۔۔۔۔ لیکن کس لئے؟ سالار کچھ حیران ہوا۔
“ان کا خیال ہے کہ اس وقت تم سعیدہ اماں کی مدد کر سکتے ہو۔”
“میں ؟” سالار نے چونک کر کہا۔” میں کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟”
“آمنہ سے شادی کر کے۔”
سالار دم بخود پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
“تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟” اس نے بمشکل فرقان سے کہا۔
“ہاں، بالکل ٹھیک ہے۔” سالار کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
“پھر تمہیں پتا نہیں ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔”
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ فرقان برق رفتاری سے اٹھ کر اس کے راستے میں حائل ہو گیا۔
“کیا سوچ کر تم نے یہ بات کہی ہے۔” سالار اپنی آواز پر قابو نہیں رکھ سکا۔
“میں نے یہ سب تم سے ڈاکٹرصاحب کے کہنے پر کہا ہے۔” سالار کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔
“تم نے انہیں میرا نام کیوں دیا؟”
“میں نے نہیں دیا سالار! انہوں نے خود تمہارا نام لیا ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تم سے درخواست کروں کہ میں اس وقت سعیدہ اماں کی بیٹی سے شادی کر کے اس کی مدد کروں۔”
کسی نے سالار کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچی تھی یا سر سے آسمان، اسے انداز ہ نہیں ہوا۔ وہ پلٹ کر واپس صوفے پر بیٹھ گیا۔
“میں شادی شدہ ہوں فرقان! تم نے انہیں بتایا۔”
“ہاں میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ تم نے کئی سال پہلے ایک لڑکی سے نکاح کیا تھا، مگر پھر وہ لڑکی دوبارہ تمہیں نہیں ملی۔”
“پھر؟”
“وہ اس کے باوجود یہی چاہتے ہیں کہ تم آمنہ سے شادی کر لو۔”
“فرقان۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
“اور امامہ۔۔۔۔۔ اس کا کیا ہو گا؟”
“تمہاری زندگی میں امامہ کہیں نہیں ہے۔ اتنے سالوں میں کون جانتا ہے، وہ کہاں ہے۔ ہے بھی کہ نہیں۔”
“فرقان۔۔۔۔۔” سالار نے ترشی سے اس کی بات کاٹی۔” اس بات کو رہنے دو کہ وہ ہے یا نہیں۔ مجھے صرف یہ بتاؤ کہ اگر کل امامہ آ جا تی ہو تو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا؟”
“تم یہ بات ڈاکٹر صاحب سے کہو۔” فرقان نے کہا۔
“نہیں، تم یہ سب کچھ سعیدہ اماں کو بتاؤ، ضروری تو نہیں ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو قبول کر لیتی جس نے کہیں اور شادی کی ہے۔”
“وہ اگر بارات لے کر آ جاتا تو شاید یہ بھی ہو جاتا۔ مسئلہ تو یہی ہے کہ وہ آمنہ سے دوسری شادی پر بھی تیار نہیں ہے۔”
“اسے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔”
“ہاں، ڈھونڈا جا سکتا ہے مگر یہ کام اس وقت نہیں ہو سکتا۔”
“ڈاکٹر صاحب نے آمنہ کے لئے غلط انتخاب کیا ہے۔ میں ۔۔۔۔۔ میں آمنہ کو کیا دے سکتا ہوں۔میں تو اس آدمی سے بھی بدتر ہوں جو ابھی اسے چھوڑ گیا ہے۔”
سالار نے بے چارگی سے کہا۔
“سالار! انہیں اس وقت کسی کی ضرورت ہے، ضرورت کے وقت صرف وہی آدمی سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے، جو سب سے زیادہ قابل اعتبار ہو۔ تم زندگی میں اتنے بہت سے لوگوں کی مدد کرتے آ رہے ہو، کیا ڈاکٹر سبط علی صاحب کی مدد نہیں کر سکتے۔”
“میں نے لوگوں کی پیسے سے مدد کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مجھ سے پیسہ نہیں مانگ رہے۔”
اس سے پہلے کہ فرقان کچھ کہتا اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔ اس نے نمبر دیکھ کر موبائل سالار کی طرف بڑھا دیا۔
“ڈاکٹر صاحب کی کال آ رہی ہے۔”
سالار نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ موبائل پکڑ لیا۔
وہاں بیٹھے موبائل کان سے لگائے سالار کو پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ زندگی میں ہر بات، ہر شخص سے نہیں کہی جا سکتی۔ وہ جو کچھ فرقان سے کہہ سکتا تھا وہ ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتا تھا۔ انہیں دلائل دے سکتا تھا نہ بہانے بنا سکتا تھا۔ انہوں نے مخصوص نرم لہجے میں اس سے درخواست کی تھی۔
“اگر آپ اپنے والدین سے اجازت لے سکیں تو آمنہ سے شادی کر لیں۔ وہ میری بیٹی جیسی ہے۔ آپ سمجھیں میں اپنی بیٹی کے لئے آپ سے درخواست کر رہا ہوں، آپ کو تکلیف دے رہا ہوں لیکن میں ایسا کرنے کے لئے مجبور ہوں۔”
“آپ جیسا چاہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔”
اس نے مدھم آواز میں ان سے کہا۔
“آپ مجھ سے درخواست نہ کریں، آپ مجھے حکم دیں۔” اس نے خود کو کہتے پایا۔
فرقان تقریباً دس منٹ کے بعد اندر آیا۔ سالار موبائل فون ہاتھ میں پکڑے گم صم فرش پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
“ڈاکٹر صاحب سے بات ہو گئی تمہاری؟”
فرقان نے اس کے بالمقابل ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے مدھم آواز میں اس سے پوچھا۔
سالار نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر کچھ کہے بغیر سینٹر ٹیبل پر اس کا موبائل رکھ دیا۔
“میں رخصتی ابھی نہیں کراؤں گا۔ بس نکاح کافی ہے۔”
اس نے چند لمحوں بعد کہا۔ وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہا تھا۔ فرقان کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ وہ” مقدر” کا شکار ہونے والا پہلا انسان نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سڑک پر گہما گہمی نہ ہونے کے برابر تھی۔ رات بہت تیزی سے گزرتی جا رہی تھی۔ گہری دھند ایک بار پھر ہر چیز کو اپنے حصار میں لے رہی تھی۔
سڑک پر جلنے والی سٹریٹ لائٹس کی روشنی دھند کو چیرتے ہوئے اس بالکونی کی تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی جہاں منڈیر کے پاس ایک اسٹول پر، سالار بیٹھا ہوا تھا۔ منڈٖیر پر اس کے سامنے کا فی کا ایک مگ پڑا ہوا تھا، جس میں سے اٹھنے والی گرم بھاپ دھند کے پس منظر میں عجیب سی شکلیں بنانے میں مصروف تھی اور وہ۔۔۔۔۔ وہ سینے پر دونوں ہاتھ لپیٹے یک ٹک نیچے سنسان سڑک کو دیکھ رہا تھا جو دھند کے اس غلاف میں بہت عجیب نظر آ رہی تھی۔
رات کے دس بج رہے تھے اور وہ چند منٹ پہلے ہی گھر پہنچا تھا۔ سعیدہ اماں کے گھر نکاح کے بعد وہ وہاں رکا نہیں تھا۔ اسے وہاں عجیب سی وحشت ہو رہی تھی۔ وہ گاڑی لے کر بے مقصد شام سے رات تک سڑکوں پر پھرتا رہا۔ اس کا موبائل آف تھا۔ وہ بیرونی دنیا سے اس وقت کوئی رابطہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ موبائل آن ہوتا تو فرقان اس سے رابطہ کرتا۔ بہت سی وضاحتیں دینے کی کوشش کرتا یا ڈاکٹر سبط علی رابطہ کرتے، اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتے۔
وہ یہ دونوں چیزیں نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس وقت مکمل خاموشی چاہتا تھا۔ اٹھتی ہوئی بھاپ کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک بار پھر چند گھنٹے پہلے کے واقعات کے بارے میں سوچا۔ سب کچھ ایک خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ کاش خواب ہی ہوتا۔ اسے وہاں بیٹھے کئی ماہ پہلے حرم پاک میں مانگی جانے والی دعا یاد آئی۔
“تو کیا اسے میری زندگی سے نکال دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔” اس نے تکلیف سے سوچا۔
“تو پھر یہ اذیت بھی تو ختم ہونی چاہئیے۔ میں نے اس اذیت سے رہائی بھی تو مانگی تھی۔ میں نے اس کی یادوں سے فرار بھی تو چاہا تھا۔” اس نے منڈیر پر رکھا گرم کافی کا کپ اپنے سرد ہاتھوں میں تھام لیا۔
“تو امامہ ہاشم بالآخر تم میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل گئی۔”
اس نے کافی کی تلخی اپنے اندر اتاری۔
“اور اب کیا میں پچھتاؤں کہ کاش میں کبھی سعیدہ اماں کو اس سڑک پر نہ دیکھ پاتا یا میں ان کو لفٹ نہ دیتا۔ ان کا گھر مل جاتا اور میں انہیں وہاں ڈراپ کر کے آ جاتا۔ ان کو اپنے گھر نہ لاتا، نہ روابط بڑھتے، نہ وہ اس شادی پر مجھے بلاتیں یا پھر کاش میں آج کراچی میں ہی نہ ہوتا ۔ یہاں ہوتا ہی نہیں یا میں موبائل آف کر کے سوتا۔ فون کا ریسیور رکھ دیتا۔ فرقان کی کال ریسیو ہی نہ کرتا یا پھر کاش میں ڈاکٹر سبط علی کو نہ جانتا ہوتا کہ ان کے کہنے پر مجھے مجبور نہ ہونا پڑتا یا پھر شاید مجھے یہ تسلیم کر لینا چاہئیے کہ امامہ میرے لئے نہیں ہے۔” اس نے کافی کا مگ دوبارہ منڈیر پر رکھ دیا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے، پھر جیسے کوئی خیال آنے پر اپنا والٹ نکال لیا۔ والٹ کی ایک جیب سے اس نے ایک تہہ شدہ کاغذ نکال کر کھول لیا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔
خدا حافظ
امامہ ہاشم
اس نے نو ماہ میں کتنی بار اس کاغذ کو پڑھا تھا اسے یاد نہیں تھا۔ اس کاغذ کو چھوتے ہوئے اسے اس کاغذ میں امامہ کا لمس محسوس ہوتاتھا۔ اس کے ہاتھ سے لکھا ہوا اپنا نام۔۔۔۔۔ کاغذ پر تحریر ان چند جملوں میں اس کے لئے کوئی اپنائیت نہیں تھی۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ امامہ کو اس کی موت کی خبر پر بھی کوئی افسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ خبر اس کے لئے ڈھائی سال بعد رہائی کا پیغام بن کر آئی تھی۔ اسے کیسے افسوس ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ چند جملے اس لئے بہت اہم ہو گئے تھے۔
اس نے کاغذ پر لکھے جملوں پر اپنی انگلیاں پھیریں۔ اس نے آخر میں لکھے امامہ ہاشم کے نام کو چھوا۔۔۔۔۔ پھر کاغذ کودوبارہ اسی طرح تہہ کر کے والٹ میں رکھ لیا۔
منڈیر پر کافی کا مگ سرد ہو چکا تھا۔ سالار نے ٹھنڈی کافی کے باقی مگ کو ایک گھونٹ میں اپنے اندر انڈیل لیا۔
ڈاکٹر سبط علی ایک ہفتے تک لندن سے واپس پاکستان پہنچ رہے تھے اور اسے ان کا انتظار تھا۔ امامہ ہاشم کے بارے میں جو کچھ وہ اتنے سالوں سے انہیں نہیں بتا سکا تھا وہ انہیں اب بتانا چاہتا تھا۔ اپنے ماضی کے بارے میں جو کچھ وہ انہیں نہیں بتا پایا تھا اب وہ ان سے کہہ دینا چاہتا تھا۔ اسے اب پرواہ نہیں تھی وہ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رمضان کی چار تاریخ تھی، جب ڈاکٹر سبط علی واپس آ گئے تھے۔ وہ رات کو کافی دیر سے آئے تھے اور سالار نے اس وقت انہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ وہ رات کو ان کے پاس پہلے کی طرح جانا چاہتا تھا مگر دوپہر کو خلاف توقع بینک میں ان کا فون آ گیا۔ سالار کے نکاح کے بعد یہ ان کا سالار سے تیسرا رابطہ تھا۔ وہ کچھ دیر اس کا حال احوال دریافت کرتے رہے پھر انہوں نے اس سے کہا۔
“سالار! آپ آج رات کو نہ آئیں، شام کو آجائی۔ افطاری میرے ساتھ کریں۔”
“ٹھیک ہے میں آ جاؤں گا۔” سالار نے حامی بھرتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر ان کے درمیان مزید گفتگو ہوتی رہی پھر ڈاکٹر سبط علی نے فون بند کر دیا۔
وہ اس دن بینک سے کچھ جلدی نکل آیا۔ اپنے فلیٹ پر کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ جب ان کے پاں پہنچا اس وقت افطاری میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔
ڈاکٹر سبط علی کا ملازم اسے اجتماع والے بیرونی کمرے کے بجائے سیدھا اندر لاؤنج میں لے آیا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس سے بغلگیر ہونے کے بعد بڑی محبت کے ساتھ اس کا ماتھا چوما۔
“پہلے آپ ایک دوست کی حیثیت سے یہاں آتے تھے، آج آپ گھر کا ایک فرد بن کر یہاں آئے ہیں۔”
وہ جانتا تھا ان کا اشارہ کس طرف تھا۔
“آئیے بیٹھیے۔” وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئے۔
“بہت مبارک ہو۔ اب تو آپ بھی گھر والے ہو گئے ہیں۔”
سالار نے خاموش نظروں اور پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھا۔ وہ مسکرا رہے تھے۔
“میں بہت خوش ہوں کہ آپ کی شادی آمنہ سے ہوئی ہے۔ وہ میرے لئے میری چوتھی بیٹی کی طرح ہے اور اس رشتے سے آپ بھی میرے داماد ہیں۔”
سالار نے نظریں جھکا لیں۔ اس کی زندگی میں امامہ ہاشم کا باب نہ لکھا ہوا ہوتا تو شاید ان کے منہ سے یہ جملہ سن کر وہ اپنے آپ پر فخر کرتا مگر سارا فرق امامہ ہاشم تھی۔ سارا فرق وہی ایک لڑکی پیدا کر رہی تھی وہ جو تھی اور نہیں تھی۔
ڈاکٹر سبط علی کچھ دیر اسے دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
“آپ اتنے سالوں سے میرے پاس آ رہے ہیں آپ نے کبھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ نکاح کر چکے ہیں۔ تب بھی نہیں جب ایک دو بار آپ سے شادی کا ذکر ہوا۔”
سالار نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
“میں آپ کو بتانا چاہتا تھا مگر۔۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے چپ ہو گیا۔
“سب کچھ اتنا عجیب تھا کہ میں آپ کو کیا بتاتا۔” اس نے دل میں کہا
“کب ہوا تھا آپ کا نکاح؟” ڈاکٹر سبط علی دھیمے لہجے میں پوچھ رہے تھے۔” ساڑھے آٹھ سال پہلے، تب میں اکیس سال کا تھا۔”اس نے کسی شکست خودہ معمول کی طرح کہا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ انہیں سب کچھ بتاتا گیا۔ ڈاکٹر سبط علی نے ایک بار بھی اسے نہیں ٹوکا تھا۔ اس کے خاموش ہونے کے بعد بھی بہت دیر تک وہ چپ رہے تھے۔
بہت دیر بعد انہوں نے اس سے کہا تھا۔
“آمنہ بہت اچھی لڑکی ہے اور وہ خوش قسمت ہے کہ اسے ایک صالح مرد ملا ہے۔”
ان کی بات سالار کو ایک چابک کی طرح لگی۔
“صالح؟ میں صالح مرد نہیں ہوں ڈاکٹرصاحب! میں تو۔۔۔۔۔ اسفل السافلین ہوں۔ آپ مجھے جانتے ہوتے تو میرے لئے کبھی یہ لفظ استعمال نہ کرتے نہ اس لڑکی کے لئے میرا انتخاب کرتے جسے آپ اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں۔”
“ہم سب اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر”زمانہ جاہلیت” سے ضرور گزرتے ہیں، بعض گزر جاتے ہیں، بعض ساری زندگی اسی زمانے میں گزار دیتے ہیں۔ آپ اس میں سے گزر چکے ہیں۔ آپ کا پچھتاوا بتا رہا ہے کہ آپ گزر چکے ہیں۔ میں آپ کو پچھتاوے سے رکوں گا نہ توبہ اور دعا سے، آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنی ساری زندگی یہ کریں، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ شکر بھی ادا کریں کہ آپ نفس کی تمام بیماریوں سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔”
اگر دنیا آپ کو اپنی طرف نہیں کھینچتی، اگر اللہ کے خوف سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، اگر دوزخ کا تصور آپ کو ڈراتا ہے، اگر آپ اللہ کی عبادت اس طرح کرتے ہیں جس طرح کرنی چاہئیے، اگر نیکی آپ کو اپنی طرف راغب کرتی ہے اور برائی سے آپ رک جاتے ہیں تو پھر آپ صالح ہیں۔ کچھ صالح ہوتے ہیں، کچھ صالح بنتے ہیں، صالح ہونا خوش قسمتی کی بات ہے، صالح بننا دو دھاری تلوار پر چلنے کے برابر ہے۔ اس میں زیادہ وقت لگتا ہے، اس میں زیادہ تکلیف سہنی پڑتی ہے۔ میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ صالح ہیں کیونکہ آپ صالح بنے ہیں، اللہ آپ سے بڑے کام لے گا۔”
سالار کی آنکھوں میں نمی آ گئی انہوں نے ایک بار پھر امامہ ہاشم کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا، کچھ نہیں کہا تھا۔ کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی سے نکل گئی؟ کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ آئندہ بھی کبھی اس کی زندگی میں نہیں آئے گی؟ اسے اپنی زندگی آمنہ کے ساتھ ہی گزارنے پڑے گی؟ اس کا دل ڈوبا۔ وہ ڈاکٹڑ صاحب کے منہ سے امامہ کے حوالے سے کوئی تسلی، کوئی دلاسا، کوئی امید چاہتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب خاموش تھے۔ وہ چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
“میں آپ کے لئے اور آمنہ کے لئے بہت دعا کروں گا بلکہ میں بہت دعا کر کے آیا ہوں خانہ کعبہ میں۔۔۔۔۔ روضہ رسول ﷺ پر۔” وہ لندن سے واپسی پر عمرہ کر کے آئے تھے۔ سالار نے سر جھکا لیا۔ دور اذا ن کی آواز آ رہی تھی۔ ملازم افتاری کے لئے میز تیار کر رہا تھا۔ اس نے بوجھل دل کے ساتھ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ بیٹھ کر روزہ افطار کیا پھر وہ اور ڈاکٹر سبط علی نماز پڑھنے کے لئے قریبی مسجد میں چلے گئے۔ وہاں سے واپسی پر اس نے ڈاکٹر سبط علی کے ہاں کھانا کھایا اور پھر اپنے فلیٹ پر واپس آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کل میرے ساتھ سعیدہ اماں کے ہاں چل سکتے ہو؟”
اس نے ڈاکٹر سبط علی کے گھر سے واپسی کے بعد دس بجے کے قریب فرقان کو فون کیا۔ فرقان ہاسپٹل میں تھا اس کی نائٹ ڈیوٹی تھی۔
“ہاں ، کیوں نہیں۔ کوئی خاص کام ہے؟”
“میں آمنہ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔”
فرقان کچھ دیر بول نہیں سکا۔ سالار کا لہجہ بہت ہموار تھا۔ وہاں کسی تلخی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
“کیسی باتیں؟”
“کوئی تشویش ناک بات نہیں ہے۔” سالار نے جیسے اسے تسلی دی۔
“پھر بھی۔” فرقان نے اصرار کیا۔
“تم پھر امامہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟”
“تم پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ چلو گے؟”
سالارنے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے پوچھا۔
“ہاں، چلوں گا۔”
“تو پھر میں تمہیں کل ہی بتاؤں گا کہ مجھے اس سے کیا بات کرنی ہے۔”
اس سے پہلے کہ فرقان کچھ کہتا، فون بند ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...