وہ برآمدے سے گزر تے ہوئے اندر جانے لگا، تب ہی اندر سے ایک شخص نکل آیا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا سالار نے اس سے کہا۔
“میں چائے پینا چاہتا ہوں۔”
اس نے جماہی لی اور واپس مڑ گیا۔
“آ جائیں۔۔۔۔۔”
سالار اندر چلا گیا۔ یہ وہی کمرہ تھا مگر اندر سے کچھ بدل چکا تھا۔ پہلے کی نسبت میزوں اور کرسیوں کی تعداد زیادہ تھی اور کمرے کی حالت بھی بہت بہتر ہو چکی تھی۔
“چائے لیں گے یا ساتھ کچھ اور بھی؟” اس آدمی نے مڑ کر اچانک پوچھا۔
“صرف چائے۔”
سالار ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
آدمی کاؤنٹر کے عقب میں اب اسٹوو جلانے میں مصروف ہو چکا تھا۔
“آپ کہاں سے آئے ہیں؟” اس نے چائے کے لئے کیتلی اوپر رکھتے ہوئے سالار سے پوچھا۔
جواب نہیں آیا۔
اس شخص نے گردن موڑ کر دیکھا۔ چائے پینے کے لئے آنے والا وہ شخص کمرے کے ایک کونے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ بالکل پتھر کے کسی مجسمے کی طرح بے حس و حرکت۔
وہ نماز پڑھ کر اس کے بالمقابل میز کے دوسری جانب کرسی پر آ بیٹھی تھی۔ کچھ کہے بغیر اس نے میز پر پڑا چائے کا کپ اٹھایا اور اسے پینے لگی۔ لڑکا تب تک برگر لے آیا تھا اور اب ٹیبل پر برگر رکھ رہا تھا۔ سالار تیکھی نظروں کے ساتھ برگر کی پلیٹ کو دیکھ رہا تھا، جو اس کے سامنے رکھی جا رہی تھی۔ جب لڑکے نے پلیٹ رکھ دی تو سالار نے کانٹے کے ساتھ برگر کا اوپر والا حصہ اٹھایا اور تنقیدی نظروں سے فلنگ کا جائزہ لیا پھر چھری اٹھا کر اس نے لڑکے سے کہا جو اب امامہ کے برگر کی پلیٹ اس کے سامنے رکھ چکا تھا۔
“یہ شامی کباب ہے؟”
وہ filling کی اوپر والی تہہ کو الگ کر رہا تھا۔
“یہ آملیٹ ہے؟” اس نے نیچے موجود آملیٹ کو چھری کی مدد سے تھوڑا اونچا کیا۔
“اور یہ کیچپ، تو چکن کہاں ہے؟ میں نے تمہیں چکن برگر لانے کو کہا تھا نا؟”
اس نے اکھڑ لہجے میں لڑکے سے کہا۔
امامہ تب تک خاموشی سے برگر اٹھا کر کھانے میں مصروف ہو چکی تھی۔
“یہ چکن برگر ہے۔” لڑکے نے قدرے گڑبڑا کر کہا۔
“کیسے چکن برگر ہے؟ اس میں کہیں چکن نہیں ہے۔” سالار نے چیلنج کیا۔
“ہم اسے ہی چکن برگر کہتے ہیں۔” وہ لڑکا اب نروس ہو رہا تھا۔
“اور جو سادہ برگر ہے اس میں کیا ڈالتے ہو؟”
“اس میں بس شامی کباب ہوتا ہے۔ انڈہ نہیں ہوتا۔”
“اور انڈہ ڈال کر سادہ برگر چکن برگر بن جاتا ہے، چونکہ انڈے سے مرغی نکلتی ہے اور مرغی کے گوشت کو چکن کہتے ہیں اس لئے directlyنہیں تو indirectly یہ چکن برگر بنتا ہے۔”
سالار نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ لڑکا کھسیانے انداز میں ہنسا۔ امامہ ان دونوں کی گفتگو پر توجہ دئیے بغیر ہاتھ میں پکڑا برگر کھانے میں مصروف تھی۔
“ٹھیک ہے جاؤ۔” سالار نے کہا۔
لڑکے نے یقیناً سکون کا سانس لیا اور وہاں سے غائب ہو گیا۔ چھری اور کانٹے کو رکھ کر سالار نے بائیں ہاتھ سے برگر کو اٹھا لیا۔ برگر کھاتے ہوئے امامہ نے پہلی بار پلیٹ سے سالار کے ہونٹوں تک بائیں ہاتھ میں برگر کے سفر کو تعجب آمیز نظروں سے دیکھا اور یہ تعجب ایک لمحے میں غائب ہو گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر برگر کھانے میں مصروف تھی۔سالار نے اپنے برگر کو دانتوں سے کاٹا ایک لمحہ کے لئے منہ چلایا اور پھر برگر کو اپنی پلیٹ میں اچھال دیا۔
“فضول برگر ہے۔ تم کس طرح کھا رہی ہو؟” سالار نے لقمے کو بمشکل حلق سے نگلتے ہوئے کہا۔
“اتنا برا نہیں ہے جتنا تمہیں لگ رہا ہے۔” امامہ نے بے تاثر انداز میں کہا۔
“ہر چیز میں تمہارا اسٹینڈرڈ بڑا لو ہے امامہ! وہ چاہے برگر ہو یا شوہر۔”
برگر کھاتے ہوئے امامہ کا ہاتھ رک گیا۔ سالار نے اس کے سفید چہرے کو ایک پل میں سرخ ہوتے دیکھا۔ سالار کے چہرے پر ایک تپا دینے والی مسکراہٹ آئی۔
“میں جلال انصر کی بات کر رہا ہوں۔” اس نے جیسے امامہ کو یاد دلایا۔
“تم ٹھیک کہتے ہو۔” امامہ نے پرسکون لہجے میں کہا۔
“میرا اسٹینڈرڈ واقعی بہت لو ہے۔” وہ ایک بار پھر برگر کھانے لگی۔
“میں نے سوچا تم برگر میرے منہ پر دے مارو گی۔” سالار نے دبی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“میں رزق جیسی نعمت کو کیوں ضائع کروں گی۔”
“یہ اتنا برا برگر نعمت ہے؟” اس نے تضحیک آمیز انداز میں کہا۔
“اور کون کون سی نعمتیں ہیں اس وقت تمہارے پاس۔۔۔۔۔”
“انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ میری زبان پر ذائقہ چکھنے کی جو حس ہے یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں اگر کوئی چیز کھاتی ہوں تو اس میں اس کا ذائقہ محسوس کر سکتی ہوں۔ بہت سے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔”
“اور ان لوگوں میں ٹاپ آف دی لسٹ سالار سکندر کا نام ہو گا، ہے نا؟”
اس نے امامہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی تیز آواز میں اس کی بات کاٹی۔
“سالار سکندر کم از کم اس طرح کی چیزیں کھا کر انجوائے نہیں کر سکتا۔”
اس شخص نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھ دیا۔ سالار یک دم چونک گیا۔ سامنے والی کرسی اب خالی تھی۔
“ساتھ میں کچھ اور چاہئیے؟” آدمی نے کھڑے کھڑے پھر پوچھا۔
“نہیں، بس چائے کافی ہے۔” سالار نے چائے کا کپ اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔
“آپ اسلام آباد سے آئے ہیں؟” اس نے پوچھا۔
“ہاں۔۔۔۔۔”
“لاہور جا رہے ہیں؟” اس نے ایک اور سوال کیا۔
اس بار سالار نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔ وہ اب چائے کا گھونٹ لے رہا تھا۔ اس آدمی کو شبہ ہوا اس نے چائے پینے والے شخص کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی دیکھی ہے۔
“میں کچھ دیر یہاں اکیلا بیٹھنا چاہتا ہوں۔” اس نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے سر اٹھائے بغیر کہا۔
وہ شخص کچھ تعجب سے اسے دیکھتا ہوا واپس کچن میں چلا گیا اور ثانوی نوعیت کے کاموں میں مصروف گاہے بگاہے دور سے سالار پر نظریں دوڑاتا رہا۔
پورے پندرہ منٹ بعد اس نے سالار کو ٹیبل چھوڑ کر کمرے سے نکلتے دیکھا۔ وہ آدمی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ کچن سے کمرے میں واپس آیا مگر اس سے پہلے کہ وہ سالار کے پیچھے باہر جاتا، میز پر خالی کپ کے نیچے پڑے ایک نوٹ نے اسے روک لیا۔ وہ بھونچکا سا اس نوٹ کو دیکھتا رہا، پھر اس نے آگے بڑھ کر اس نوٹ کو پکڑا اور تیزی سے کمرے سے باہر آ گیا۔ سالار کی گاڑی اس وقت ریورس ہوتے ہوئے مین روڈ پر جا رہی تھی۔ اس آدمی نے حیرانی سے اس دور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھا پھر ہاتھ میں پکڑے اس ہزار روپے کے نوٹ کو برآمدے میں لگی ٹیوب لائٹ کی روشنی میں دیکھا۔
“نوٹ اصلی ہے مگر آدمی بے وقوف۔۔۔۔۔”
اس نے اپنی خوشی پر قابو پاتے ہوئے زیر لب تبصرہ کیا اور نوت کو جیب میں ڈال لیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سکندر عثمان صبح ناشتے کی میز پر آئے تو بھی ان کے ذہن میں سب سے پہلے سالار کا ہی خیال آیا تھا۔
“سالار کہاں ہے؟ اسے بلاؤ۔”
انہوں نے ملازم سے کہا۔” سالارصاحب تو رات کو ہی چلے گئے تھے۔”
سکندر اور طیبہ نے بے اختیار ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا۔
“کہاں چلے گئے۔۔۔۔۔؟ گاؤں؟”
“نہیں ، واپس لاہور چلے گئے۔ انہوں نے سالار کا نمبرڈائل کیا۔ موبائل آف تھا۔ انہوں نے اس کے فلیٹ کا نمبر ڈائل کیا۔
وہاں جوابی مشین لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے پیغام ریکارڈ کرائے بغیر فون بند کر دیا۔ کچھ پریشان سے وہ دوبارہ ناشتے کی میز پر آبیٹھے۔
“فون پر کانٹیکٹ نہیں ہوا؟” طیبہ نے پوچھا۔
“نہیں موبائل آف ہے۔ اس کے فلیٹ پر آنسر فون لگا ہوا ہے۔ پتا نہیں کیوں چلا گیا؟”
“آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔۔ ناشتہ کریں۔” طیبہ نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔
“تم کرو۔۔۔۔۔ میرا موڈ نہیں ہے۔”
وہ اٹھ کر باہر نکل گئے۔ طیبہ بےا ختیار سانس لے کر رہ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا، باہر فرقان تھا۔ وہ پلٹ کر اندر آ گیا۔
“تم کب آئے؟” فرقان نے قدرے حیرانی سے اس کے پیچھے اندر آتے ہوئے کہا۔
“آج صبح۔۔۔۔۔” سالار نے صوفے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
“کیوں۔۔۔۔۔” تمہیں گاؤں جانا تھا؟” فرقان نے اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“میں تو پارکنگ میں تمہاری گاڑی دیکھ کر آ گیا۔ بندہ آتا ہے تو بتا ہی دیتا ہے۔”
سالار جواب میں کچھ کہے بغیر صوفے پر بیٹھ گیا۔
“کیا ہوا؟” فرقان نے پہلی بار اس کے چہرے کو دیکھا اور تشویش میں مبتلا ہوا۔
“کیا ہوا؟” سالار نے جواباً کہا۔
“میں تم سے پوچھ رہا ہوں، تمہیں کیا ہوا ہے؟” فرقان نے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“کچھ نہیں۔”
“گھر میں سب خیریت ہے؟”
“ہاں۔۔۔۔۔”
“تو پھر تم۔۔۔۔۔سر میں درد ہے؟ میگرین؟”
فرقان اب اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
“نہیں۔۔۔۔۔” سالار نے مسکرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کا فائدہ بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو مسلا۔
“تو پھر ہوا کیا ہے تمہیں؟ آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔”
“میں رات سویا نہیں، ڈرائیو کرتا رہا ہوں۔”
سالار نے بڑے عام سے انداز میں کہا۔
“تو اب سو جاتے۔ یہاں آ کر فلیٹ پر، صبح سے کیا کر رہے ہو؟” فرقان نے کہا۔
“کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔”
“سوئے کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟”
“نیند نہیں آ رہی۔۔۔۔۔”
“تم تو سلپنگ پلز لے کر سو جاتے ہو، پھر نیند نہ آنا کیا معنی رکھتا ہے؟”
فرقان کو تعجب ہوا۔
“بس آج نہیں لینا چاہتا تھا میں۔ یا یہ سمجھ لو کہ آج میں سونا نہیں چاہتا تھا۔”
“کھانا کھایا ہے؟”
“نہیں، بھوک نہیں لگی۔۔۔۔۔”
“دو بج رہے ہیں۔” فرقان نے جیسے اسے جتایا۔
“میں کھانا بھجواتا ہوں کھا لو۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر سو جاؤ پھر رات کو نکلتے ہیں آؤٹنگ کے لئے۔”
“نہیں، کھانا مت بھجوانا۔ میں سونے جا رہا ہوں۔ شام کو اٹھوں گا تو باہر جا کر کہیں کھاؤں گا۔”
سالار کہتے ہوئے صوفہ پر لیٹ گیا اور اپنا بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔ فرقان کچھ دیر بیٹھا اسے دیکھتا رہا ، پھرا ٹھ کر باہر چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟”
رمشہ نے سالار کے کمرے میں آتے ہوئے کہا۔ اس نے ریسیپشن کی طرف جاتے ہوئے سالار کے کمرے کی کھڑکیوں کے چند کھلے ہوئے بلائنڈز میں اسے اندر دیکھا تھا۔ کوریڈور میں سے جانے کی بجائے وہ رک گئی۔ سالار ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکائے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے ہوئے تھا۔ رمشہ جانتی تھی کہ اسے کبھی کبھار میگرین کا درد ہوتا تھا۔ وہ ریسیپشن کی طرف جانے کی بجائے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آ گئی۔
سالار اسے دیکھ کر سیدھا ہو گیا۔ وہ اب ٹیبل پر کھلی ایک فائل کو دیکھ رہا تھا۔
“تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” رمشہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
“ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔”
اس نے رمشہ کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ رمشہ واپس جانے کی بجائے آگے بڑھ آئی۔
“نہیں تم ٹھیک نہیں لگ رہے۔” اس نے سالار کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“تم پلیز اس فائل کو لے جاؤ۔۔۔۔۔ اسے دیکھ لو۔۔۔۔۔ میں دیکھ نہیں پا رہا۔۔۔۔۔”
سالار نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے فائل بند کر کے ٹیبل پر اس کی طرف کھسکا دی۔
“میں دیکھ لیتی ہوں، تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہے تو گھر چلے جاؤ۔”
رمشہ نے تشویش بھرے انداز میں کہا۔
“ہاں، بہتر ہے۔ میں گھر چلا جاؤں۔” اس نے اپنا بریف کیس نکال کر اسے کھولا اور اپنی چیزیں اندر رکھنا شروع کر دیں۔ رمشہ بغور اس کا جائزہ لیتی رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ گیارہ بجے آفس سے واپس گھر آ گیا تھا۔ یہ چوتھا دن تھا جب وہ مسلسل اسی حالت میں تھا۔ یک دم، ہر چیز میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔
بینک میں اپنی جاب
لمز (LUMS) کے لیکچرز
ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ نشست۔۔۔۔۔
فرقان کی کمپنی
گاؤں کا اسکول۔
مستقبل کے منصوبے اور پلاننگ
اسے کوئی چیز بھی اپنی طرف کھینچ نہیں پا رہی تھی۔
وہ جس امکان کے پیچھے کئی سال پہلے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ گیا تھا وہ” امکان” ختم ہو گیا تھا۔ اور اسے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ختم ہونے سے اس کے لئے سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ وہ مسلسل اپنے آپ کو اس حالت سے باہر لانے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا اور وہ ناکام ہو رہا تھا۔
محض یہ تصور کہ وہ کسی اور شخص کی بیوی بن کر کسی اور کے گھر میں رہ رہی ہو گی۔ سالار سکندر کے لئے اتنا ہی جان لیوا تھا جتنا ماضی کا یہ اندیشہ کہ وہ غلط ہاتھوں میں نہ چلی گئی ہو اور اس ذہنی حالت میں اس نے عمرہ پر جانے کا فیصلہ کیا تھا وہ واحد جگہ تھی جو اس کی زندگی میں اچانک آ جانے والی اس بے معنویت کو ختم کر سکتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ احرام باندھے خانہ کعبہ کے صحن میں کھڑا تھا۔ خانہ کعبہ میں کوئی نہیں تھا۔ دور دور تک کسی وجود کا نشان نہیں تھا۔ رات کے پچھلے پہر آسمان پر چاند اور ستاروں کی روشنی نے صحن کے ماربل سے منعکس ہو کر وہاں کی ہر چیز کو ایک عجیب سی دودھیا روشنی میں نہلا دیا تھا۔ چاند اور ستاروں کے علاوہ وہاں اور کوئی روشنی نہیں تھی۔
خانہ کعبہ کے غلاف پر لکھی ہوئی آیات، سیاہ غلاف پر عجیب طرح سے روشن تھے۔ ہر طرف گہرا سکوت تھا اور اس گہرے سکوت کو صرف ایک آواز توڑ رہی تھی۔ اس کی آواز۔۔۔۔۔ اس کی اپنی آواز۔۔۔۔۔ وہ مقام ملتزم کے پاس کھڑا تھا۔ اس کی نظریں خانہ کعبہ کے دروازے پر تھیں اور وہ سر اٹھائے بلند آواز سے کہنے لگا۔
“لبيك اللهم لبيك٭ لبيك لا شريك لك لبيك٭ إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك٭”
(حاضر ہوں میرے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک حمد وثنا تیرے لئے ہے، نعمت تیری ہے، بادشاہی تیری ہے کوئی تیرا شریک نہیں)۔
پوری وقت سے گونجتی ہوئی اس کی آواز خانہ کعبہ کے سکوت کو توڑ رہی تھی، اس کی آواز خلا کی وسعتوں تک جاری تھی۔
“لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔”
ننگے پاؤں، نیم برہنہ وہاں کھڑا وہ اپنی آواز پہچان رہا تھا۔
“لبیک لا شریک لک لبیک۔۔۔۔۔ وہ صرف اس کی آواز تھی۔ ٭ إن الحمد والنعمة لك والملك ۔”
اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو اس کی ٹھوڑی سے نیچے اس کے پیروں کی انگلیوں پر گر رہے تھے۔
“لا شریک لک۔۔۔۔۔”
اس کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے تھے۔
“لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔”
اس نے خانہ کعبہ کے غلاف پر کندہ آیات کو یک دم بہت روشن دیکھا۔ اتنا روشن کہ وہ جگمگانے لگی تھیں۔ آسمان پر ستاروں کی روشنی بھی اچانک بڑھ گئی۔ وہ ان آیات کو دیکھ رہا تھا۔ مبہوت سحر زدہ، کسی معمول کی طرح، زبان پر ایک ہی جملہ لئے۔۔۔۔۔ اس نے خانہ کعبہ کے دروازے کو بہت آہستہ ہستہ کھلتے دیکھا۔
“لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔”
اس کی آواز اور بلند ہو گئی۔ ایک درد کی طرح، ایک سانس، ایک لے۔
“لبیک لا شریک لک لبیک۔۔۔۔۔”
اس وقت پہلی بار اس نے اپنی آواز میں کسی اور آواز کو مدغم ہوتے محسوس کیا۔
“إن الحمد والنعمة۔۔۔۔۔”
اس کی آؤاز کی طرح وہ آواز بلند نہیں تھی۔ کسی سرگوشی کی طرح تھی۔ کسی گونج کی طرح، مگر وہ پہچان سکتا تھا وہ اس کی آواز کی گونج نہیں تھی۔ وہ کوئی اور آواز تھی۔
“لک و الملک۔۔۔۔”
اس نے پہلی بار خانہ کعبہ میں اپنے علاوہ کسی اور کی موجودگی کو محسوس کیا۔
“لا شریک لک۔۔۔۔۔”
خانہ کعبہ کا دروازہ کھل رہا تھا۔
“لبیک الھم لبیک۔۔۔۔”
وہ اس نسوانی آواز کو پہچانتا تھا۔
“لبیک لا شریک لک۔”
وہ اس کے ساتھ وہی الفاظ دہرا رہی تھی۔
“لبیک إن الحمد والنعمة۔”
آواز دائیں طرف نہیں تھی بائیں طرف تھی۔ کہاں۔۔۔۔۔ اس کی پشت پر۔ چند قدم کے فاصلے پر۔
“لک و الملک لا شریک لک۔”
اس نے جھک کر اپنے پاؤں پر گرنے والے آنسوؤں کو دیکھا اس کے پاؤں بھیگ چکے تھے۔
اس نے سر اٹھا کر خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھا۔ دروازہ کھل چکا تھا۔ اندر روشنی تھی۔ دودھیا روشنی۔ اتنی روشنی کہ اس نے بے اختیار گھٹنے ٹیک دئیے۔ وہ اب سجدہ کر رہا تھا، روشنی کم ہو رہی تھی۔ اس نے سجدے سے سر اٹھایا، روشنی اور کم ہو رہی تھی۔
وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ خانہ کعبہ کا دروازہ اب بند ہو رہا تھا۔ روشنی اور کم ہوتی جا رہی تھی اور تب اس نے ایک بار پھر سرگوشی کی صورت میں وہی نسوانی آواز سنی۔
اس بار اس نے مڑ کر دیکھا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار کی آنکھ کھل گئی۔ وہ حرم شریف کے ایک برآمدے کے ستون سے سر ٹکائے ہوئے تھا۔ وہ کچھ دیر سستانے کے لئے وہاں بیٹھا تھا مگر نیند نے عجیب انداز میں اس پر غلبہ پایا۔
وہ امامہ تھی۔ بے شک امامہ تھی۔ سفید احرام میں اس کے پیچھے کھڑی۔ اس نے اس کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی مگر ایک جھلک بھی اسے یقین دلانے کے لئے کافی تھی کہ وہ امامہ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھی۔ خالہ الذہنی کے عالم میں لوگوں کو ادھر سے ادھرجاتے دیکھ کر بے اختیار دل بھر آیا۔
آٹھ سال سے زیادہ ہو گیا تھا اسے اس عورت کو دیکھے جسے اس نے آج وہاں حرم شریف میں دیکھا تھا کسی زخم کو پھر ادھیڑا گیا تھا۔ اس نے گلاسز اتار دئیے اور دونوں ہاتھوں سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔
آنکھوں سے ابلتے گرم پانی کو رگڑتے، آنکھوں کو مسلتے اسے خیال آیا۔ یہ حرم شریف تھا۔ یہاں اسے کسی سے آنسو چھپانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں سب آنسو بہانے کے لئے ہی آتے تھے۔ اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹا لئیے۔ اس پر رقت طاری ہو رہی تھی۔ وہ سر جھکائے بہت دیر وہاں بیٹھا روتا رہا۔
پھر اسے یاد آیا، وہ ہر سال وہاں عمرہ کرنے کے لئے آیا کرتا تھا۔ وہ امامہ ہاشم کی طرف سے بھی عمرہ کیا کرتا تھا۔
وہ اس کی عافیت اور لمبی زندگی کے لئے بھی دعا مانگا کرتا تھا۔
وہ امامہ ہاشم کو ہر پریشانی سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی دعا مانگا کرتا تھا۔
اس نے وہاں حرم شریف میں اتنے سالوں میں اپنے اور امامہ کے لئے ہر دعا مانگ چھوڑی تھی۔ جہاں بھر کی دعائیں۔ مگر اس نے وہاں حرم شریف میں امامہ کو کبھی اپنے لئے نہیں مانگا تھا۔ عجیب بات تھی مگر اس نے وہاں امامہ کے حصول کے لئے کبھی دعا نہیں کی تھی۔ اس کے آنسو یک دم تھم گئے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
وضو کے بعدا س نے عمرے کے لئے احرام باندھا۔ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس بار اتفاقاً اسے مقام ملتزم کے پاس جگہ مل گئی۔ وہاں ، جہاں اس نے اپنے آپ کو خواب میں کھڑے دیکھا تھا۔
اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے اس نے دعا کرنا شروع کی۔
“یہاں کھڑے ہو کر تجھ سے انبیاء دعا مانگا کرتے تھے۔ ان کی دعاؤں میں اور میری دعا میں بہت فرق ہے۔”
وہ گڑگڑا رہا تھا۔
“میں نبی ہوتا تو نبیوں جیسی دعا کرتا مگر میں تو عام بشر ہوں اور گناہ گار بشر۔ میری خواہشات، میری آرزوئیں سب عام ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر کبھی کوئی کسی عورت کے لئے نہیں رویا ہو گا۔ میری ذلت اور پستی کی اس سے زیادہ انتہا کیا ہو گی کہ میں یہاں کھڑا ۔۔۔۔۔ حرم پاک میں کھڑا۔۔۔۔۔ ایک عورت کے لئے گڑگڑا رہا ہوں مگر مجھے نہ اپنے دل پر اختیار ہے نہ اپنے آنسوؤں پر۔
یہ میں نہیں تھا جس نے اس عورت کو اپنے دل میں جگہ دی، یہ تو نے کیا۔ کیوں میرے دل میں اس عورت کے لئے اتنی محبت ڈال دی کہ میں تیرے سامنے کھڑا بھی اس کو یاد کر رہا ہوں؟ کیوں مجھے اس قدر بے بس کر دیا کہ مجھے اپنے وجود پر بھی کوئی اختیار نہیں رہا؟ میں وہ بشر ہوں جسے تو نے ان تمام کمزوریوں کے ساتھ بنایا۔ میں وہ بشر ہوں جسے تیرے سوا کوئی راستہ دکھانے والا نہیں، اور وہ عورت ، وہ عورت میری زندگی کے ہر راستے پر کھڑی ہے۔ مجھے کہیں جانے کہیں پہنچنے نہیں دے رہی یا تو اس کی محبت کو اس طرح میرے دل سے نکال دے کہ مجھے کبھی اس کا خیال تک نہ آئے یا پھر اسے مجھے دے دے۔ وہ نہیں ملے گی تو میں ساری زندگی اس کے لئے ہی روتا رہوں گا۔ وہ مل جائے گی تو تیرے علاوہ میں کسی کے لئے آنسو نہیں بہا سکوں گا۔ میرے آنسوؤں کو خالص ہونے دے۔
میں یہاں کھڑا تجھ سے پاک عورتوں میں سے ایک کو مانگتا ہوں۔
میں امامہ ہاشم کو مانگتا ہوں۔
میں اپنی نسل کے لئے اس عورت کو مانگتا ہوں، جس نے آپ کے پیغمبرﷺ کی محبت میں کسی کو شریک نہیں کیا۔ جس نے ان کے لئے اپنی زندگی کی تمام آسائشات کو چھوڑ دیا۔
اگر میں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی نیکی کی ہے، تو مجھے اس کے عوض امامہ ہاشم دے دے۔ تو چاہے تو یہ اب بھی ہو سکتا ہے۔ اب بھی ممکن ہے۔
مجھے اس آزمائش سے نکال دے۔ میری زندگی کو آسان کر دے۔
آٹھ سال سے میں جس تکلیف میں ہوں مجھے اس سے رہائی دے دے۔
سالار سکندر پر ایک بار پھر رحم کر، وہی جو تیری صفات میں افضل ترین ہے۔
وہ سر جھکائے وہاں بلک رہا تھا۔ اسی جگہ پر جہاں اس نے خود کو خواب میں دیکھا تھا مگر اس بار اس کی پشت پر امامہ ہاشم نہیں تھی۔
بہت دیر تک گڑگڑانے کے بعد وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا۔ آسمان پر ستاروں کی روشنی اب بھی مدھم تھی۔ خانہ کعبہ روشنیوں سے اب بھی بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ لوگوں کا ہجوم رات کے اس پہر بھی اسی طرح تھا۔ خواب کی طرح خانہ کعبہ کا دروازہ بھی نہیں کھلا تھا۔ اس کے باوجود وہاں سے ہٹتے ہوئے سالار سکندر کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہوا تھا۔
وہ اس کیفیت سے باہر آ رہا تھا جس میں وہ پچھلے ایک ماہ سے تھا۔ ایک عجیب سا قرار تھا جو اس دعا کے بعد اسے ملا تھا اور وہ اسی قرار اور طمانیت کو لیے ہوئے ایک ہفتے کے بعد پاکستان لوٹ آیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“میں اگلے سال پی ایچ ڈی کے لئے امریکہ جا رہا ہوں۔”
فرقان نے بے اختیار چونک کر سالار کو دیکھا۔
“کیا مطلب۔۔۔۔۔” سالار حیرانی سے مسکرایا۔
“کیا مطلب کا کیا مطلب؟ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں۔”
“یوں اچانک۔۔۔۔۔؟”
“اچانک تو نہیں۔ پی ایچ ڈی کرنی تو تھی مجھے۔ بہتر ہے ابھی کر لوں۔” سالار اطمینان سے بتا رہا تھا۔
وہ دونوں فرقان کے گاؤں سے واپس آ رہے تھے۔ فرقان ڈرائیو کر رہا تھا جب سالار نے اچانک اسے اپنی پی ایچ ڈی کے ارادے کے بارے میں بتایا۔
“میں نے بینک کو بتا دیا ہے، میں نے ریزائن کرنے کا سوچا ہے۔ لیکن وہ مجھے چھٹی دینا چاہ رہے ہیں۔ ابھی میں نے سوچا نہیں کہ ان کی اس آفر کو قبول کر لوں یا ریزائن کر دوں۔”
“تم ساری پلاننگ کیے بیٹھے ہو۔”
“ہاں یار۔۔۔۔۔ میں مذاق نہیں کر رہا۔۔۔۔۔ میں واقعی اگلے سال پی ایچ ڈی کے لئے جا رہا ہوں۔”
“چند ماہ پہلے تک تو تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔”
“ارادے کا کیا ہے، وہ تو ایک دن میں بن جاتا ہے۔”
سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے کھڑکی کے شیشے سے باہر نظر آنے والے کھیتوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“میں ویسے بھی بینکنگ سے متعلق ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں لیکن یہاں میں پچھلے کچھ سالوں میں اتنا مصروف رہا ہوں کہ اس پر کام نہیں کر سکا۔ میں چاہتا ہوں پی ایچ ڈی کےدوران میں یہ کتاب لکھ کر شائع بھی کرا لوں۔ میرے پاس کچھ فرصت ہو گی تو میں یہ کام آسانی سے کر لوں گا۔”
فرقان کچھ دیر خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے کہا۔
“اور اسکول۔۔۔۔۔؟ اس کا کیا ہو گا؟”
“اس کا کچھ نہیں ہو گا۔ یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اس کا انفراسٹرکچر بھی بہتر ہوتا جائے گا۔ بورڈ آف گورنرز ہے، وہ لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ تم ہو۔۔۔۔۔ میں نے پاپا سے بھی بات کی ہے وہ بھی آیا کریں گے یہاں پر۔۔۔۔۔ میرے نہ ہونے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ سکول بہت پہلے سالار سکندر کی تھمائی ہوئی لاٹھیاں چھوڑ چکا ہے۔ آئندہ بھی اسے ان کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر میں مکمل طور پر اس سے قطع تعلق نہیں کر رہا ہوں۔ میں اس کو دیکھتا رہوں گا۔ کبھی میری مدد کی ضرورت پڑی تو آ جایا کروں گا۔ پہلے بھی تو ایسا ہی کیا کرتا تھا۔”
وہ اب تھرمس میں سے چائے کپ میں ڈال رہا تھا۔
“پی ایچ ڈی کے بعد کیا کرو گے؟” فرقان نے سنجیدگی سے پوچھا۔
“واپس آؤں گا۔ پہلے کی طرح یہیں پر کام کروں گا۔ ہمیشہ کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔”
سالار نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے کو تھپکا۔
“کیا چند سال بعد نہیں جا سکتے تم؟”
“نہیں، جو کام آج ہونا چاہئیے اس آج ہی ہونا چاہئیے۔ میرا موڈ ہے پڑھنے کا۔ چند سال بعد شاید خواہش نہ رہے۔”
سالار نے چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے کہا وہ اب بائیں ہاتھ سے ریڈیو کو ٹیون کرنے میں مصروف تھا۔
“روٹری (Rotary) کلب والے اگلے ویک اینڈ پر ایک فنکشن کر رہے ہیں، میرے پاس انویٹیشن آیا ہے۔ چلو گے؟”
اس نے ریڈیو کو ٹیون کرتے ہوئے فرقان سے پوچھا۔
“کیوں نہیں چلوں گا۔ ان کے پروگرام دلچسپ ہوتے ہیں۔”
فرقان نے جواباً کہا۔ گفتگو کا موضوع بدل چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس دن اتوار تھا۔ سالار صبح دیر سے اٹھا۔
اخبار لے کر سرخیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے وہ کچن میں ناشتہ تیار کرنے لگا۔ اس نے صرف منہ ہاتھ دھویا تھا۔ شیو نہیں کی۔ نائٹ ڈریس کے اوپر ہی اس نے ایک ڈھیلا ڈھالا سویٹر پہن لیا اس نے کتیلی میں چائے کا پانی ابھی رکھا ہی تھا جب ڈور بیل کی آواز سنائی دی۔ وہ اخبار ہاتھ میں پکڑے کچن سے باہر آ گیا، دروازہ کھولنے پر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...