عرزی۔۔۔ عرزی۔۔۔۔ یار بات تو سن۔۔۔
زیام تقریبا اس کے پیچھے بھاگا کر بول رہا تھا۔۔۔ عرزم جو تیز تیز چل رہا تھا ایک دم رکا اور زیام کی طرف مڑا۔۔۔ شدت ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔۔۔
بولو۔۔۔۔
عرزم نے سپاٹ چہرے سے کہا۔۔۔
کیا یار اتنا غصہ کیوں کر رہا ہے؟ اور ویسے بھی میری غلطی تھی مجھے ہی اس کے معاملے میں بولنا نہیں چاہیے تھا۔۔۔
زیام نرمی سے بولا ۔۔۔۔۔۔۔
زیام علوی ۔۔۔ تمہارے ساتھ اونچی آواز میں بات کرنے کا حق میں خود کو بھی نہیں دیتا تو پھر اس دو ٹکے کی لڑکی کی ہمت کیسے ہوئی سب کے سامنے تم سے بدتمیزی کرنے کی۔۔۔۔
عرزم نے حتی المقدور اپنے لہجے کو سخت ہونے سے روکا تھا۔۔۔
یار چھوڑ نا ۔۔ کیوں بات کو بڑھا رہا ہے اور اپنا خون جلا رہا ہے۔۔۔
میں۔۔۔ میں بات کو بڑھا رہا ہوں؟؟؟
عرزم نے بے یقینی سے اپنے سینے پر انگلی رکھ کر زیام سے پوچھا۔۔۔ زیام بے ساختہ نظریں چرا گیا۔۔۔
یو نو واٹ زیمی ۔۔۔ تمہیں لگتا ہے کہ ہر غلطی کی معافی ہوتی ہے لیکن میرا نظریہ مختلف ہے۔۔۔ میں جب تک دوسرے انسان کو اس کی غلطی کی سزا نا دے لوں ۔۔ بے سکون رہتا ہوں۔۔۔ اور تم یہ بات اچھے سے جانتے ہو۔۔ میں تمہارے معاملے میں ایسا ہی ہوں۔۔۔۔
عرزم یہ بول کر وہاں سے چلا گیا جبکہ زیام نے اپنا سر نفی میں ہلایا ۔۔۔۔
یااللہ اس لڑکی کی حفاظت کرنا کیونکہ یہ عقل سے پیدل انسان اپنے غصے میں ہمیشہ کی طرح ہر حد پار کرنے کی کوشش کرے گا۔۔۔۔
زیام نے دل میں سوچا اور وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحاب بگڑے تیوروں کے ساتھ جیسے ہی گھر کے لائونج میں داخل ہوئی سامنے ہی صوفے پر موجود حاشر کو دیکھ کر ایک دم خوشی سے چیخی تھی۔۔۔۔
حاشر بھائی۔۔
اجالابیگم اور حسن نیازی نے اس کی چہرے پر خوشی کے رنگ وا ضح دیکھے تھے۔۔۔ حاشر جلدی سے اٹھا تھا اور رحاب بھاگ کر حاشر کے گلے لگی تھی۔۔۔
حاشر بھائی آئی ایم ویری ہیپی ٹو سی۔۔۔۔
می آلسو میری جان۔۔۔۔
حاشر نے مسکرا کر کہا اس کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔۔۔۔
آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ آپ پاکستان واپس آ رہے ہیں؟ ابھی رات کو ہی تو ہماری بات ہوئی تھی لیکن آپ نے مجھے کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔۔۔اور ۔
رحاب نان سٹاپ بول رہی تھی اور خوشی اس کے چہرے اور لہجے دونوں سے وا ضح ہو رہی تھی۔۔۔
اگر بتا دیتا تو مجھے میری اکلوتی اور لاڈلی بہن کے چہرے پر جو خوشی نظر آ رہی ہے وہ کیسے نظر آتی ؟؟
حاشر اسے اپنے حصار میں لے کر حسن اور اجالا کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔
ویسے بھائی آپ یو ایس سے بار ایٹ لا کی ڈگری لینے گئے تھے یا وہاں کوئی لڑکی بھی سیٹ کی ؟؟
رحاب شرارت سے بولی۔۔۔ جبکہ حاشر ماں باپ کے سامنے اس کی سوال پر اسے گھورنے لگا۔۔۔۔
روحی ۔۔۔۔ اگر تم مجھے ایکسپوز کرنے کی کوشش کر رہی ہو تو تمہاری کوشش بیکار ہے کیونکہ مام ڈیڈ دونوں شمائل کے بارے میں جانتے ہیں۔۔۔۔
واٹ۔۔۔۔
رحاب ایکدم اچھلی تھی۔۔۔ اس کا مطلب آپ نے مجھے یہ بھی سب سے آخر میں بتایا ۔۔۔
رحاب صدمے سے بولی تھی۔۔۔
ریلکیس بےبی۔۔۔ سب سے پہلے تمہیں ہی بتایا تھا ۔۔۔ موم کو کل ہی بتایا تھا اور انہوں نے ڈیڈ کو بتا دیا۔۔
حاشر نے نرمی سے کہا۔۔۔
چونکہ آج میں بہت خوش ہوں اس لئے آپ کی یہ غلطی نظر انداز کی جاتی ہے۔۔۔
رحاب پھر سے اس کے پاس بیٹھ گئی تھی۔۔۔
ویسے بھائی آپ نے بھابھی کا مکمل تعارف نہیں کروایا۔۔؟؟
رحاب شرارت سے بولی تھی۔۔۔
شمائل علوی نام ہے اس کا۔ پاکستان کے مشہور جسٹس جہانگیر علوی کی بیٹی ہے۔۔ اس کے دو بھائی ہیں ایک کسی یونیورسٹی میں اسٹنٹ پروفیسر ہے اور دوسرا کسی اور کنٹری میں ہوتا ہے ۔۔ ۔ میرے ساتھ ہی یو ایس میں پڑھتی تھی۔۔ اب بھی میرے ساتھ ہی پاکستان آئی ہے ائیرپورٹ تک۔۔۔ کیونکہ وہاں سے اس کے فادر اسے ریسیو کرنے آئے تھے ۔اور انشاء اللہ جلد ہی مام ڈیڈ اسے ہمارے گھر لانے والے ہیں۔۔۔۔
بس یا اور کچھ؟؟؟
یہ سب تو میں پہلے بھی جانتی تھی مجھے یہ بتائیں کہ آپکی لو سٹوری پروان کیسے چڑی؟؟؟
رحاب شرارت سے بولی جبکہ حاشر نے اسے گھورا ۔۔۔
تم مجھے ڈیڈ سے اگر جوتے کھاتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہو تو بتا دو ؟؟؟
حاشر نے اس کے کان میں سرگوشی کی جبکہ رحاب نے بمشکل اپنی مسکراہٹ دبائی۔۔۔۔
ایک شرط پر۔۔۔
بولو ۔۔۔۔
مجھے رات کو شاپنگ پر لے کرچلیں گے؟؟؟
رحاب جانتی تھی کہ حاشر کو شاپنگ سے چڑ ہے اس لئے بولی۔۔۔
روحی میں تھکا ہوا ہوں۔۔۔
حاشر نے معصومیت طاری کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
میں ڈیڈ کو آپکی لو سٹوری بتا ہی دیتی ہوں ۔۔۔۔
لے جائوں گا۔۔۔
حاشر نے اسے گھورا۔۔۔
یہ تم دنوں بہن بھائیوں میں کونسے راز ونیاز ہو رہے ہیں؟؟؟
حسن نیازی نے پوچھا ۔۔۔
ڈیڈ وہ ہم۔۔۔
تمہیں شاپنگ پر جانا ہے نا؟؟
حاشر نے اسے آنکھیں دکھاتے ہوئے سرگوشی میں پوچھا۔۔۔
کچھ نہیں ڈیڈ۔۔۔ بس بھائی سے ان کے لاتعداد افئیرز کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔۔۔
رحاب مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی ۔۔۔
روحی سدھر جائو۔۔۔
حسن نیازی نے مصنوعی رعب سے کہا ۔۔۔
میں کھانا لگاتی ہوں۔۔۔۔
اجالا بیگم یہ بول کر وہاں سے چلی گئیں جبکہ باقی سب ایک دفعہ پھر باتوں میں مصروف ہوگئے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلال نیازی ۔۔۔ پاکستان کے مشہور سائیکالوجسٹ تھے ان کی بیوی کا نام شائستہ تھا۔۔ اللہ نے ان کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازہ تھا۔۔۔ سب سے بڑے بیٹے کا نام حسن نیازی جن کی پہلی شادی رافعہ سے ہوئی۔۔۔ پولیس فورس جوائن کرنے کے بعد ان کے بہت سے دشمن پیدا ہوگئے تھے۔۔۔
اسی دشمنی میں ایک دن ان کی بیوی کی قتل کر دیا گیا۔۔۔ حسن صاحب کافی نڈھال ہوگئے تھے رافعہ کی موت سے۔۔۔ آٹھ سالہ حاشر اور چار سالہ رحاب بھی اپنی ماں کی موت کا صدمہ برادشت کر رہے تھے۔۔۔ بلال نیازی نے ان اپنے بیٹے کے بکھرتے آ شیانے کو بچانے کے لئے ان کی شادی اپنے دوست کی بیٹی اجالا سے کروا دی ۔۔۔ اجالا نے ناصرف دونوں بچوں کو محبت دی بلکہ انہیں رافعہ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔۔۔ لیکن ان کی ایک غلطی سے رحاب ان سے دور ہو گئی تھی۔۔۔
حسن نیازی سے چھوٹی ان کی بیٹی تھی ۔۔۔ رانیہ جو شادی کے بعد امریکہ شفٹ ہوگئی تھی ۔۔ ان کے دو جڑوا بیٹے تھے۔۔۔ راحم اور ارحم۔۔۔
سب سے چھوٹے حسین نیازی تھے جن کا شمار ملک کے مشہور سیاستدانوں کی فہرست میں ہوتا تھا۔۔۔ ان کی بیوی جازبہ ایک گائناکالوجسٹ تھیں ۔۔۔ دونوں کی کوئی اولاد نہیں تھی۔۔۔ بلال نیازی اور حسین نیازی ایک کار ایکسیڈنٹ جبکہ جازبہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے اس دنیا کو ہمیشہ کے لئے خیر آباد کہہ گئے۔۔۔۔۔حسن نیازی نے کافی دکھوں کو جھیل کر زندگی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تھا۔۔۔ اور ویسے بھی وقت کے ساتھ بڑھنے میں عقلمندی ہے۔۔۔ یہ بات انہیں حاشر نے اجالا کو ایکسپٹ کر کے ثابت کی تھی جبکہ رحاب کے لئے وہ خاصے فکر مند رہتے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ ضدی اور خود سر ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیمی بیٹا۔۔۔ بیٹھ جائو۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ مصروف ہو ۔۔ اسلئے وہ کال ریسیو نہیں کر رہا ہوگا۔۔۔
دائی ماں نے سمجھانے والے انداز میں زیام سے کہا جو مسلسل کمرے میں ٹہلتے ہوئے موبائل پر عرزم کو کال کر رہا تھا۔۔۔
دائی ماں یونیورسٹی میں بھی مجھ سے ملے بغیر چلا گیا اور اب میری کال بھی ریسیو نہیں کر رہا ۔۔۔ غصے سے نکلا تھا وہاں سے ۔۔۔ اللہ کرے وہ ٹھیک ہو۔۔۔
زیام پریشانی سے بولا۔۔۔۔
اس سے پہلے دائی ماں کوئی جواب دیتی زیام کے موبائل پر عرزم کا میسج آیا۔۔۔۔
مجھے اگر اب تمہاری کال آئی تو میں تمہارا ابھی آ کر منہ توڑ دوں گا۔۔۔
زیام کے لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی۔۔۔
آپکا دوسرا بیٹا گدھا ہے ایک نمبر کا۔۔۔
زیام نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
اب تو کھانا کھا لو۔۔۔۔
دائی ماں نے محبت بھرے انداز میں کہا۔۔۔
جی دائی ماں آتا ہوں فریش ہو کر۔۔۔ آپ تب تک کھانا لگائیں۔۔۔
زیام یہ بول کر اپنے کمرے کی طرف جانے ہی لگا تھا جب باہر سے شور کی آواز سنائی دی۔۔۔ زیام الٹے قدموں مڑا تھا۔۔۔ جیسے ہی وہ انیکسی سے باہر آیا سامنے شاویز بھائی کو کسی سے فون اونچی آواز میں بات کرتے دیکھا۔۔۔
زیام نے سرجھٹکا اور جانے کے لئے پلٹا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ اندر جاتا شاویز کے الفاظ اس کے قدم ساکت کر گئے تھے۔۔۔۔
کیا تم بتا سکتے ہو کہ سٹوڈنٹ نے میری شکایت کی ہے؟؟
مجھے کل تک اس انسان کا نام چاہیے امجد ۔۔۔ جس کی وجہ سے مجھے یونیورسٹی سے وارننگ لیٹر ایشو ہوا ہے۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے۔۔۔
شاویز یہ بول کر گیٹ کی جانب چلا گیا جبکہ زیام کے ذہن میں ایک دم سے جھماکہ ہوا ۔۔
مطلب آج اسی وجہ سے عرزم غائب تھا۔۔۔۔
زیام خود سے بڑبڑایا اور جلدی سے انیکسی کا دروازہ بند کر کے اپنے کمرے میں بھاگا۔۔۔
تیسری بیل پر اس نے کال ریسیو کر لی تھی۔۔۔
کچھ بھی بولنے اے پہلے اتنا سوچ لینا کہ میں انہیں وارننگ لیٹر ایشو کروانے کی جگہ جاب سے بھی نکلوا سکتا تھا۔۔۔ لیکن تمہاری وجہ سے بس ایک چھوٹی سی سزا دی ہے تمہارے نام نہاد شاویز بھائی کو۔۔۔ صبح ملتے ہیں۔۔۔
عرزم بنا کچھ سنے کال ڈراپ کر گیا تھا۔۔۔ جبکہ زیام نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روحی اور کتنی شاپنگ کر نی ہے یار؟ میں سچ میں تھک گیا ہوں۔۔۔
رحاب جو پچھلے دو گھنٹوں سے حاشر کو شاپنگ مال میں اپنے ساتھ خوار کر رہی تھی نے مڑ کر اپنے بڑے بھائی کو دیکھا جس کے چہرے پر تھکن واضح نظر آ رہی تھی۔۔۔۔
اس بار چھوڑ رہی ہوں بھائی لیکن آپکی شادی کی ساری شاپنگ میں آپکے ساتھ ہی کروں گی۔۔۔
رحاب احسان کرنے والے انداز میں بولی جبکہ حاشر نے اسے گھورا اور دانت پیستے ہوئے بولا ۔۔۔
شکریہ۔۔۔۔اب چلیں۔۔۔۔
ضرور۔۔۔۔
رحاب حاشر کے دائیں باذو کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بولی ۔۔۔
حاشر نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔۔۔
جھلی۔۔۔۔
اور دونوں آپس میں باتیں کرتے ہوئے مال سے نکل کر پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی آ کر بیٹھ گئے۔۔
حاشر نے جیسے ہی گاڑی سٹارٹ کی رحاب جلدی سے بولی۔۔۔
اووو شٹ ۔۔۔۔ بھائی میرا موبائل جیولری والی شاپ پر رہ گیا ہے ۔۔ آپ گاڑی کو پارکنگ سے نکالیں میں دو منٹ میں آتی ہوں۔۔۔
رحاب یہ بول کر جلدی سے گاڑی سے اتری جبکہ حاشر جس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔اور خود سے بڑبڑایا ۔۔۔
تمہارا واقعی کچھ نہیں ہو سکتا روحی۔۔۔۔
شکر ہے مل گیا ۔۔۔
رحاب موبائل کو ہاتھ میں پکڑ کر جیسے ہی جیولری شاپ سے باہر نکلی اس کا کسی سے زبردست تصادم ہوا ۔۔۔ رحاب کو ایسا لگا جیسے وہ کسی پتھر سے ٹکرائی ہے۔۔ اسی تصادم میں اس کا موبائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور نیچے گر گیا جبکہ وہ سر کو سہلا رہی تھی۔۔
آر یو بلائنڈ ؟؟؟؟
رحاب بولی نہیں چیخی تھی لیکن جیسے ہی اس کی نظر اوپر اٹھی عرزم حیدر کو دیکھ کر اس کا دماغ مزید گھوم گیا۔۔۔۔
دوسری طرف عرزم جو اپنی ماں کی سالگرہ کاگفٹ لینے آیا تھا نے رحاب کو دیکھ کر بمشکل خود لڑ ضبط کیا تھا۔۔۔ وہ رحاب کی بات کو اگنور کرکے جانے لگا تھا جب رحاب نے سامنے آ کر اس کا راستہ روکا۔۔۔۔
سے سوری ۔۔۔۔
ایکسکیوزمی ۔۔۔ کیا تم نے مجھ سے کچھ کہا؟؟؟
عرزم نہیں چاہتا تھا کہ مال میں سب ان کی طرف متوجہ ہوں لیکن شاید رحاب کو کسی کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔
نہیں تمہارے باپ سے بول رہی ہوں ۔۔۔۔۔
رحاب کی بدتمیزی پر عرزم کا پارہ ایکدم ہائی ہوا تھا ۔۔۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی شائوٹ کر گیا تھا۔۔۔
جسٹ شٹ اپ مس حسن نیازی۔۔۔ تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرے باپ کا نام استعمال کرنے کی۔۔۔
کم ہمت تو تم مجھے سمجھنا نہیں مسٹر عرزم۔۔۔ کیونکہ ڈی ایس پی حسن نیازی کی بیٹی ہوں جو چاہے تو تمہیں اگلے پانچ منٹ می لاک آپ میں بند کرواسکتی ہے۔۔۔ لیکن وہ کیا ہے نا آج میرا موڈ اچھا ہے اس لئے ایسا کروں گی نہیں ۔۔۔ بشرطیکہ تم مجھے سوری بولو کیونکہ تمہاری وجہ سے میرا موبائل گرا اور ٹوٹا ہے۔۔۔۔۔
رحاب کا چہرے پر غرور تھا جو مقابل کو سلگا گیا تھا۔۔۔
عرزم نے اسے کہنی سے پکڑا اور تقریبا گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ مال کے اس ایریا میں لے آیا ۔۔۔ جہاں لوگ کم نظر آ رہے تھے۔۔۔ رحاب عرزم کے ہاتھ سے مسلسل اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن مقابل کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔
عرزم نے اسے دونوں کندھوں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا۔۔۔ اتنا قریب کہ رحاب کو اسکی سانسوں کی تپش سے اپنا آپ جھلستا ہوا محسوس ہونے لگا تھا۔۔۔۔
مجھے مجبور مت کرو ۔۔۔ کہ میں صحیح اور غلط کی تمیز بھول جائوں ۔۔۔ مجھے تمہاری بدتمیزی کسی صورت پسند نہیں ہے۔۔ اس لئے آئندہ احتیاط کرنا ورنہ آج جو چند انچ کا فاصلہ بچا ہے نا اس کو میں ختم کرکے تمہارا غرور خاک میں ملا دوں گا۔۔۔۔
عرزم اس وقت واقعی غصے میں بھول گیا تھا کہ وہ رحاب سے کیا کہہ رہا ہے ۔۔۔۔ جبکہ رحاب جیسے اپنی جگہ پتھر کی ہوگئی تھی۔۔۔۔
اس بات کو وہ کیسے نظر انداز کر سکتی تھی کہ وہ ایک لڑکی ہے۔۔۔ ایک دم اس کی آنکھوں میں نمی چمکی تھی جسے دیکھ کر عرزم نے اسے دھکا سینے والے انداز میں چھوڑا۔۔۔۔ وہ لڑ کھڑاتے ہوئے فرش پر گری۔۔۔
مجھ سے اور زیام سے دور رہنا ۔۔۔ یہ میری آخری وارننگ ہے۔۔۔
عرزم یہ بول کر وہاں سے چلا گیا جبکہ رحاب ابھی تک سوچ رہی تھی اگر وہ واقعی اس کے ساتھ کچھ کر دیتا تو؟؟؟
رحاب جلدی سے اٹھی اور تقریبا بھاگتے ہوئے مال سے نکلی تھی۔۔۔ حاشر کی گاڑی نظر آنے پر وہ اس کی طرف بڑھی اور جلدی سے کار میں بیٹھ کر اس نے دروازہ بند کیا۔۔۔
روحی میری جان کیا ہوا؟ تم ٹھیک ہو؟ اتنا گھبرا کیوں رہی ہو؟؟؟
حاشر اس کا فق چہرہ دیکھ کر تشویش سے بولا۔۔۔۔
بھائی مجھے گھر جانا ہے جلدی اور اب کوئی سوال جواب نہیں پلیز۔۔۔۔
رحاب یہ بول کر آنکھیں موند گئی اور گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگا لی۔۔۔
حاشر جانتا تھا وہ مزید بات نہیں کرے گی اس لئے وہ چپ چاپ ڈرائیو کرنے کرنے لگا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔
عرزم جیسے ہی گھر میں داخل ہوا لائونج کی لائٹس ایک دم سے آن ہوئی تھیں ۔۔۔ اس نے سامنے ہی حیدر حسن کو دیکھ کر لب بھینچے تھے ۔۔۔۔ وہ خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا جب حیدر حسن کی آواز نے اس کے قدم روک لئے۔۔۔۔
یہ کونسا وقت ہے گھر آنے کا؟
یقینا آپ بھی وقت دیکھ کر ہی اپنے کمرے سے باہر نکلے ہیں ۔۔۔ اور اگر نہیں دیکھا تو دیکھ لیجئیے بارہ بج کر پچاس منٹ ہوئے ہیں۔۔۔۔
عرزم مڑے بغیر بولا۔۔۔۔
کہاں تھے تم ؟؟؟
حیدر حسن کے ماتھے پر شکنوں کا جال بنا تھا ۔۔ لیکن حتی المقدور انہوں نے اپنے لہجے کو نارمل رکھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔
شاپنگ مال گیا تھا۔۔۔
عرزم یہ بول کر وہاں سے ایک قدم بڑھا تھا جب حیدر کی بات نے اسے مڑنے پر مجبور کردیا۔۔۔۔۔
شاپنگ مال گئے تھے یا اپنے نام نہاد شریف دوست کے پاس گئے تھے۔۔۔
عرزم نے پہلے تو بے یقینی سے انہیں دیکھا اور پھر جلد ہی بے یقینی کی جگہ تاسف نے لے لی۔۔۔۔
جب آپکو مجھ پر یقین ہی نہیں ہے تو کیوں پوچھتے ہیں مجھ سے کچھ؟۔۔ اور ویسے بھی میں جہاں مرضی جائوں آپ کو کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے۔۔۔۔
عرزم نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔
کیوں مطلب نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ باپ ہوں تمہارا۔۔۔
اچھا یاد آگیا آپکو کہ آپکا کوئی بیٹا بھی ہے۔۔۔
عرزم طنزیہ انداز میں بولا۔۔۔۔
عرزم۔۔۔۔۔
حیدر حسن کی آواز میں تنبیہہ تھی۔۔۔
کیوں کچھ غلط کہا میں نے؟؟؟
عرزم حیدر مجھے یہ جاننا ہے تم نے یونیورسٹی کے پروفیسر شاویز کو میرے ریفرنس سے وارننگ لیٹر کیوں ایشو کروایا۔۔۔ ؟؟؟؟
حسن حیدر نے اس کو گھورتے ہوئے پوچھا۔۔۔
عرزم بے ساختہ مسکرایا ۔۔۔ اس کی مسکراہٹ حیدر کو مزید تپا گئی تھی ۔۔۔
کچھ پوچھا ہے تم سے ؟؟؟
ڈیڈ آپ جانتے ہیں وہ پروفیسر زیام کا بھائی ہے۔۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اور زیام ایک ساتھ اس یونیورسٹی میں رہیں اس لئے میں نے کچھ جھوٹے گواہ بنائے کہ وہ سٹوڈنٹس کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں ۔۔۔ پھر آپکے نمبر سے آپکے سیکریٹری شہباز کی مسٹر حیدر حسن بن کر بات کروائی اور ان کو وارننگ لیٹر ایشو کروا دیا۔۔۔
زیام نے اطمینان سے جواب دیا۔۔۔
جبکہ اس کا اطمینان اس وقت حیدر حسن کے ضبط کو آزما رہا تھا۔۔۔
عرزم مجھے مجبور مت کرو کہ میں یہ واقعی بھول جائوں میری کوئی اولاد بھی ہے۔۔۔۔
ہاہاہاہاہہاہاہا ۔۔۔۔۔
ڈیڈ آپ کو یاد رکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔۔ کہ آپکی کوئی اولاد ہے۔۔۔۔
عرزم استہزائیہ انداز میں بولا ۔۔۔
سٹاپ اٹ عرزم ۔۔۔۔
میں باپ ہوں تمہارا اور تمہاری بکواس اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتی۔۔۔۔ اور ایک بات آئندہ اگر تم نے میرا نام اپنے کسی بے جا مقصد کے لئے استعمال کیا تو یاد رکھنا میں کوئی لحاظ نہیں رکھوں گا۔۔۔۔
اب جا سکتے ہو تم۔۔۔۔
حیدر حسن یہ بول کر رخ موڑ گئے تھے جبکہ عرزم کی آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔۔۔
ڈیڈ مجھے لگتا تھا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں لیکن میں غلط تھا۔۔۔ آپ صرف اپنے سٹیٹس اور پیسے سے محبت کرتے ہیں۔۔۔ آج پتہ نہیں مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ میری پیدائش پر سب سے زیادہ دکھ آپ کوہی ہوا ہوگا۔۔۔۔
عرزم بھرائے لہجے میں بول کر وہاں سے واک آئوٹ کر گیا جبکہ حیدر حسن نے نم آنکھوں سے اس کو جاتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔
ایم سوری عرزم۔۔ لیکن میں تمہیں تمہاری زندگی برباد کرنے نہیں دے سکتا ۔۔۔
حیدر حسن خود سے بڑبڑائے اور اپنے کمرے کی طرف چل دئیے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیام صبح صبح یونیورسٹی کے لئے تیار ہو رہا تھا جب دائی اس کے کمرے میں آئیں اور اسے نائلہ کا پیغام دیا۔۔۔
زیمی بیٹا آپکو نائلہ بیگم بلا رہی ہیں۔۔۔
زیام مکسرایا تھا لیکن اس کی مسکراہٹ میں موجود کرب دائی ماں نے واضح محسوس کیا تھا۔۔۔
حیرت کی بات ہے اس مہینے میں دوسری دفعہ میری شکل برداشت کر لیں گی؟؟؟
زیام نے دائی ماں کو دیکھ کر کہا۔۔
دائی ماں نے جواب میں اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔۔۔
جائو بات سن کر آئو ۔۔۔۔۔
زیام نے ایک لمبی سانس لی اور کف کے بٹن لگاتا ہوا باہر نکل گیا ۔۔
شاکرہ بی بی ۔۔۔۔ ممی کدھر ہیں؟؟؟
زیام نے لائونج میں دسٹنگ کرتی شاکرہ سے پوچھا۔۔۔
وہ تو اپنے کمرے میں ہیں۔۔۔
زیام خود کو نارمل کرتے ہوئے کمرے کے قریب پہنچا اور اپنے دائیں ہاتھ سے دروازہ ناک کیا۔۔۔۔
کمنگ۔۔۔۔
نائلہ کے جواب پر زیام دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا ۔۔۔ ۔۔۔۔
آپ نے بلایا؟؟؟
زیام سامنے بیڈ کرائون سے ٹیک لگا کر بیٹھیں نائلہ سے مخاطب ہوا۔۔۔
ہاں مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔۔۔ بیٹھو۔۔۔
نائلہ نے اس کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔۔۔ زیام پاس ہی رکھے ایک صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
شاویز کو وارننگ لیٹر ایشو کراونے کے پیچھے تمہارے دوست کے باپ کا ہاتھ ہے اور مجھے یقین ہے یہ سب اس نے تمہارے دوست کے کہنے پر کیا ہوگا ۔۔ کیا یہ بات تم جانتے ہو؟؟؟
نائلہ بیگم نے بلا تمہید بات کی۔۔۔
مجھے نہیں معلوم۔۔۔۔
زیام سر جھکا کر بولا۔۔۔۔
مجھ سے جھوٹ مت بولنا زیام۔۔۔ ورنہ تم جانتے ہو میں تمہارا کیا حال کروں گی۔؟؟؟
نائلہ بیگم کی آواز کسی بھی رعایت سے عاری تھی۔۔۔ زیام کے دل میں درد کی ایک ٹھیس اٹھی تھی۔۔۔ اس بے ساختہ آنکھیں بند کی تھیں ۔۔۔ کیونکہ وہ کم از کم نائلہ کے سامنے رونا نہیں چاہتا تھا۔۔۔
مجھے اس بارے میں کچھ نہیں جانتا ؟؟؟
زیام نے یہ الفاظ مشکل سے ادا کئے تھے ۔۔۔۔
چلو اچھی بات ہے تم نہیں جانتے لیکن میرا یقین مانو اگر مجھے معلوم ہوا کہ یہ سب اس نے تمہارے کہنے پر کیا ہے تو یاد رکھنا پچھلی دفعہ صرف پچاس کوڑے مارے تھے میں نے اس بار دگنے ہوں گے۔۔۔۔
نائلہ بیگم سفاکی سے بولیں۔۔۔
زیام زخمی سا مسکرایا ۔۔۔۔
آپ جانتی ہیں ممی مجھے آپ کی دی ہوئی کسی بھی سزا کا درد نہیں ہوتا کیونکہ میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے مجھے مارنے کے لئے ہی سہی وقت تو نکالا ۔۔۔ خیر چلتا ہوں میں دیر ہو رہی یونیورسٹی کے لئے۔۔۔۔
زیام یہ بول کر اپنی جگہ سے اٹھا اور نائلہ بیگم کے قدموں کے نزدیک آیا۔۔۔ نائلہ بیگم جانتی تھیں وہ کیا کرنے والا ہے اس لئے انہوں نے اپنے پائوں بے ساختہ پیچھے کئے۔۔۔
خدا کے لئے ممی مجھ سے میری جنت مت چھینیں ۔۔۔ آج مجھے اپنی جنت کو دیکھنے دیں۔۔۔ مجھے آج اسے محسوس کرنے دیں۔۔۔
زیام بھرائے لہجے میں بولا تو نائلہ بیگم نے ایک ٹرانس کی کیفیت میں اپنے پائوں آگے کئے اور زیام بے ساختہ جھکا تھا۔۔۔ اور ان کے قدموں پر اپنے لرزتے لب رکھ دئیے تھے۔۔۔۔ اس کی آنسو نائلہ بیگم کے پائوں پر جیسے ہی گرے وہ اس ٹرانس سے باہر نکلیں تھیں۔۔۔ انہوں نے پائوں بے ساختہ پیچھے کئے تھے۔۔۔۔۔
شکریہ ممی۔۔۔۔
زیام نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
نائلہ بیگم نے اس کی پشت کو دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...