پھر جس شام شاہنواز کو لحد میں اتارا گیا اسی شام زلیخا نے زندگی موت سے لڑتے ایک ان میچور بچے کو جنم دیا تھا ۔۔
زلیخا کو دوسری صبح ہوش آگیا تھا لیکن اسکی نازک حالت کے پیش نظر مزید دو دن دواؤں کے زیر اثر مصنوعی بے ہوشی میں رکھا
بچے کو ابھی اینکوبیٹر میں رکھا گیا تھا
وہ شاہنواز کے سوئم کی شام تھی جب زلیخا مکمل ہوش میں آئی تھی اور آنکھ کھولتے ہی اس نے اپنے بچے کا پوچھا تھا۔
ربنواز صاحب جو تھوڑی دور بیٹھے تھے فوراً سے اٹھ کر آئے تھے۔۔
وہ بلکل ٹھیک ہے اور آپکی اماں جان کے پاس ہے ربنواز صاحب نے اسے آدھی ادھوری سی تسلی دی تھی
دادا کا فون آیا؟
زلیخا نے سرسری سا ذکر کیا تھا
ہاں بات ہوئی تھی میری وہ بہت کوشش کر رہے ہیں جیسے ہی کوئی سبب بنے گا پہنچ جائیں گے ربنواز صاحب نے رخ پھیر کر کہا تھا جیسے کچھ چھپا رہے ہوں
وہ زلی کو بتا نہیں پائے تھے کہ فون تو آیا تھا مگر علی کریم صاحب کا نہیں بلکہ ایمبیسی والوں کا یہ بتانے کے لیے کہ طواف کے دوران بھگڈر مچنے کی وجہ سے علی کریم صاحب کی ڈیتھ ہوگئی ہے
شاہنواز کا نا اسے نے پوچھا نا انہوں نے بتایا بس ایک دلاسہ تھا جو دونوں سسر بہو نے ایک دوجے کو غمگین آنکھوں سے دیا تھا
وہ شاہنواز کی شہادت کو دسواں دن تھا جب زلیخا اور احمد شاہنواز گھر آگئے تھے۔۔
بچے کا نام ربنواز صاحب نے احمد شاہنواز رکھا تھا ایک درد کی خاموشی تھی جو اس گھر کے تینوں نفوس پر اپنی اپنی طرح اثر انداز تھی اس خاموشی اس جمود کو کبھی کبھی ننھے احمد کی قلقاریاں تو کبھی رونے اور چیخنے کی آوازیں توڑتیں گھر میں پھیلے موت کے سناٹے میں زندگی کا احساس ہوتا تھا۔
زلیخا کا علی کریم صاحب سے رابطہ نہیں ہوپایا تھا ۔
رات سے احمد کی طبعیت بھی کچھ ٹھیک نا تھی ابھی بڑی مشکل سے سویا تھا ۔۔
آج صبح سے اسکا دل بہت بے چین تھا جیسے کچھ برا ہوگا یا ہوچکا ہے وہ احمد کے لیے دودھ بنانے کچن میں کی طرف چلی آئی ۔
کچن کی طرف جانے سے پہلے اسے پیچھلے صحن سے اماں کے رونے کی آواز آئی نا چاہتے ہوئے بھی اسکے قدم صحن کہ جانب اٹھ گئے
ربنواز صاحب میں کہتی ہوں کب تک چھپائیں گے بتا دیں بچی کو میرا تو کلیجہ جلتا ہے ۔۔۔
زلیخا کو تجسس سا ہوا جب ربنواز صاحب بولے
کیا بتا دوں نیک بخت پاگل ہوئی ہو کیا ابھی تو وہ شاہنواز کے غم سے نہیں سنبھلی اب اس پر ایک اور پہاڑ توڑ دوں کیا؟
شاہنواز کا غم تو ہماری زندگیوں کا روگ ہے جی اماں مسلسل رو رہی تھیں لیکن زلی کو یوں قسطوں میں دکھ اور اذیت نا دیں اب ہمارا ہے ہی کون اسکے اور احمد کے علاوہ بتا دیں اسے علی کریم بھائی فوت ہوچکی ہے ۔
ایک تیز رفتار ٹرین نے زلیخا کے جسم کو روندا تھا یا جیسے برف کی بہت سی سلیں اسکے وجود کے آر پار ہوئی تھیں
اماں بابا نجانے اور بھی کیا کہہ رہے تھے وہ سن نہیں پائی سکتے کی سی حالت میں کھڑی رہی کتنی دیر کھڑی رہتی لیکن اندر سے احمد کے رونے کی آواز نے اسے واپس لایا تھا بہت سے آنسو یکبارگی اسکی آنکھوں سے نکلے تھے ۔۔
زلی زلی پتر احمد کیوں رو رہا ہے اماں کی آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے ہٹ جاتی اپنے بوڑھے ساس سسر کا بھرم رہنے دیتی لیکن اماں اور انکے پیچھے ابا اندر چلے آئے تھے اور اسے یوں حال سے بحال ہوتے دیکھ چکے تھے ۔۔
اماں شائد اپنے غم میں تھیں سمجھ نہیں سکیں بس اسکے سر پر ہاتھ دھرتے اندر احمد کو اٹھانے چلی گیئں جبکہ ربنواز صاحب اسکی طرف بڑھے ہاتھ اسکے سر پر رکھا۔
اسکی آنکھوں میں التجاء تھی جیسے کہہ رہی ہو بابا کہہ دیں کہ یہ جھوٹ ہے؟
لیکن انہوں نے کہا تھا زلی پتر یہ بات بتانے کا مجھ میں حوصلہ نہیں تھا مجھے معاف کر دینا پتر لیکن یہی سچ ہے۔
زلیخا کے منہ سے دبی دبی چیخیں بلند ہوئی تھیں پھر ربنواز صاحب نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا اور زلیخا کی چیخیں بلند ہوتی گئیں تھیں.
—————————-
زندگی کا کام ہے گزرنا ہر حالت میں چاہے آپ دکھ سے آدھ موئے ہی کیوں نا ہوں انکی زندگی بھی اچھی یا بری چلنے لگی تھی۔
وہ سب اپنے اپنے غم میں تھے کسی کو کسی کا کوئی ہوش نہیں تھا ہر کوئی اپنے اندر برپا حشر سے لڑتا صبر کر رہا تھا۔
ایسے میں احمد شاہنواز ہی تھا جو ان سب کی امیدوں کا مرکزتھا یا انکے غموں کا مداوا بن کر رہ گیا تھا۔۔
وقت گزرنے لگا تھا انکی زندگیاں جس جمود کا شکار تھیں آہستہ آہستہ اس میں دراڑ پڑنے لگی تھی وجہ ننھا احمد شاہنواز تھا ۔
احمد بہت حساس بچہ تھا دو سال کا ہوتے ہی وہ عام بچوں سے قدرے مختلف اور سمجھ بوجھ رکھنے والا بن گیا تھا ۔۔
دادا دادی اور ماں کو ہر دم اپنے پیچھے لگائے رکھتا تھا ربنواز صاحب اور انکی بیگم کو مزید جینے کا سہارہ مل گیا تھا وہ اسے دیکھ دیکھ کر جیتے تھے تو دوسری جانب جوان جہان زلیخا انہیں غموں میں دھکیل دیتی تھی عمر ہی کیا تھی اسکی محض اکیس سال جو دو سال سے بیوگی کی چادر اوڑھے انکے ساتھ جیے چلی جارہی تھی ۔۔
———————
شاہنواز کی میت وہ لوگ اپنے آبائی گاؤں لے آئے تھے پھر زلیخا کت کہنے پر ربنواز صاحب نے مستقل وہیں سکونت اختیار کر لی تھی۔
احمد تین سال کا تھا جب ربنواز صاھب ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ تین چار ماہ کے کیے بیڈ کے ہو کر رہ گئے تو زلیخا نے چپ چاپ گھر کی ذمہ داریاں اٹھانا شروع کردیں
وہ سارا دن گھر کے کام کرتی کھانا بناتی باقی کا ٹائم احمد اور اماں بابا کے ساتھ گزارتی تھی ۔
جیسے جیسے احمد بڑا ہوتا جارہا تھا زلیخا کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا وہ بعج اوقات چڑ سی جاتی تھی جس کا اظہار کبھی موسم پر تو کبھی گھر کسی چیز کبھی لسی نوکر کو جھاڑ جھنکار کر کے کرتی ۔
ربنواز صاحب اور انکی بیگم محض مسکرا کر رہ جاتے تھے کر بھی کیا سکتے تھے؟
عاقل و بالغ تھی آج ہی الگ دنیا بسانے کا سوچتی تو اسکے لیے ہزاروں راہیں کھلی تھیں کیونکہ زلیخا کی عمر کی کئی لڑکیوں کی انکے گاؤں میں ہی شادی ہوئی تھی اور وہ اس عمر میں چھ سات سال سے بیوگی کی زندگی گزار رہی تھی۔
وہ دونوں میاں بیوی دل ہی دل میں خود کو کم ظرف بھی کہتے لیکن اکیلے ہو جانے کے ڈر سے زلیخا کی شادی بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔
رہ گئی زلیخا تو اسے چھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا وہ صبح کی نماز پڑھتی پھر دبے قدموں افسردگی اور بیوگی کی چادر اوڑھے قبرستان کی طرف نکل جاتی وہاں جاکر شاہنواز کی قبر پر دیا جلاتی پھول چڑھاتی اور چپ چاپ واپس چلی آتی نا کوئی گلہ نا شکوہ حالانکہ اسے شاہنواز سے گلے تھے شکوے تھے
گھر میں داخل ہوتے ہی وہ افسردگی اور بیوگی کی چادر اتار پھینکتی اسکی جگہ ایک زمہ دار ماں ایک رابعدار بیٹی لے لیتی تھی۔
———————
وقت کچھ اور گزرا تو ایک دن ربنواز صاحب سے انلے بھتیجے علی سبحان نے رابطہ کیا تھا جسکا زکر بہت سال پہلے تک انکے گھر میںہر سو ہوتا تھا پھر اسکے ماں باپ کی یکسیڈنٹ موت واقع ہوگئی اسکی ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آئی تھی اور ایک ٹانگ بھی ضائع ہوگئی تھی ۔
جس وقت شاہنواز کی شہادت کی خبر اسے پہنچی تھی وہ خود بستر پر تھا بلکہ اس کے بعد بھی دو سال لگ گئے تھے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں ربنواز صاحب سے اسکی کم کم ہی بات ہوتی تھی لیکن جب بھی ہوتی وہ انہیں اپنے ساتھ لے جانے کا کہتا تھا اور ربنواز صاحب ہر بار ہی منع کردیتے. اسی ہاں نا میں انکے آٹھ سال گزر گئے تھے نا انہوں ساتھ جانے کہ حامی بھری نا وہ آیا
لیکن اب ربنواز صاحب کو لگتا تھا وہ ختم ہوتے جارہے ہیں انکا دل کہتا تھا کم از کم زلیخا کو ایل مضبوط چھت مہیا کر دیں تاکہ وہ آرام سے مر سکیں ۔
اپنی موت کا وہم ہوتے ہی انہوں نے علی سبحان ست رابطے تیز کر دیے تھے انکی ایک ہی ڈیمانڈ تھی کہ ہمیں آکر لے جاؤ
ربنواز صاحب نے سوچا تھا کہ علی سبحان کے آتے ہی زلیخا کا کسی اچھی جگہ نکاح کردیں گے اور خود احمد اوراپنی بیوی کو لے کر علہ کے ساتھ چلے جائیں گے
اپنی ہی سوچوں میں وہ اس بار بھی خود غرضانہ فیصلہ کیے ہوئے تھے لیکن پھر بھی انہیں علی کا انتظار تھا۔
———————–
وہ دن چڑھے تک قبرستان میںرلا رہا تھا پھر جب رو رو کر دل کو کچھ سکون ملا تو گھر جانے کے لیے اٹھ کھڑ ا ہوا اسکی چال میں ایک واضح لنگڑاہٹ تھی دور سے دیکھنے والے کوءی عام سا بندہ سمجھ کر منہ پھیر لیتے تو پاس سے دیکھنے افسوس سے ہاتھ ملتے کہ کتنا سوہنا صحت مند جوان ہے اور اتنے واضح عیب کے ساتھ؟؟
علی کو ایسی نظروں کی عادت ہوچکی تھی اسی لیے سب کو اگنور کرتا گھر کے دروازے تک پہنچ گیا.
اس نے دستک کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اندر سے آتی سریلی سی آواز سے اسکا ہاتھ کانپ گیا تھا اور جسم میں خون کی گردش بڑھ سی گئی تھی۔
بن کے خیرالورا آگئے مصطفیٰ
بن کے خیرالورا آگئے مصطفیٰ
علی سبحان کو لگا اس نے یہ آواز کہیں سنی ہے اسے لگا وہ اس آواز سے اور اس آواز والی سے انجان نہیں ہے
ہم گناہگاروں کی بہتری کے لیے
بن کے خیر الوارا آگئے مصطفیٰ
اس نے نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ دروازے پر زوردار سی دستک دی تھی۔
———————
آج شاہنواز کی برسی تھی جس کی وجہ سے گھر میں قرآن خوانی رکھی گئی تھی۔
زلیخا قبرستان جانے سے پہلے کافی کام کرکے گئی تھی اور اب واپس آکر بھی کام والی کو ساتھ لگائے جلدی جلدی کام نبٹانے میں لگی تھی۔
پیچھلے صحن میں بابا نے رات کو ہی پانی چھڑک دیا تھا
اب اس نے چاندنیاں بچھا کر ان پر سفید چادریں بچھائیں درمیان میں چھوٹا ٹیبل رکھ کر سپارے اور یاسین شریف رکھیں خواتین آنا شروع ہوگئیں تو اماں کو باہر آنے کا کہہ کر وہ خود چینج کرنے چلی گئی تھی۔
اندر جاتے اس نے ایک طائرانہ سی نظر سے پیچھلے صحن کو دیکھا سب صاف ستھرا نکھرا نکھرا لگ رہا تھا ۔
انار کر پودوں پر لال نارنجی سے پھول لگے تھے انار کے ساتھ لگے سکھ چین کا گھنا درخت بھی جامنی رنگ کے پھولوں سے لدا اپنی ایک الگ ہی چھب دکھالا رہا تھا۔
سکھ چین اور انار کے پھولوں کی کھٹی میٹھی سی مہک اگربتیوں کی خوشبو کے ساتھ مل کر ماحول کو عجیب پرنور سی جلا بخشے ہوئے تھی اسے کافی عرصے بعد اپنے اندر ڈھیروں سکون
حسوس ہوا تھا
پھر سر جھٹک کر اندر کی طرف مڑ گئی
وہ چینج کرکے نکلی شیشے کے سامنے کھڑی بال بنا رہی تھی ۔
جب احمد کمرے میں داخل ہوا چہرے پر عجیب سا اشتیاق تھا زلیخا سمجھ گئی جناب احمد شاہنواز صاحب کچھ الٹا سیدھا کر کے آئے ہیں یا کرنے کا پلان دماغ میں لیے ہوئے ہیں اسی لیے اسے نظر انداز کیے اپنی چوٹی کو بل دینے لگی تھی
احمد شاہنواز خان کو بھلا کیسے منظور ہوتا کہ کوئی بھی اسے نظر انداز کرے یہاں تو معاملہ اسکی پیاری ماما جان کا تھا سو کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بول اٹھا
ماما ،
ماما جی
زلیخا نے پھر سے نظر انداز کیا کیونکہ احمد کو ایک بار بات کا موقع دینے کا مطلب تھا ایک گھنٹہ الٹی سیدھی بے سروپا باتیں سنتے جاؤ
اور کم از کم زلیخا کے پاس فلحال احمد کی الف لیلا سننے کا ٹائم بلکل بھی نہیں تھا باہر سب لوگ آچکے تھے اور پڑھائی تقریباً شروع ہوچکی تھی ۔۔
ماما وہ ایک با پھر سے بولا تھا
احمد بیٹا جو بات بھی ہے جلدی سے کہہ دیں اور پھر فوراً جاکر دادا کے پاس بیٹھو ماما کو ابھی بہت کام کرنے ہیں
اس نے نرمی سے احمد کو ہدایت کی پھر چوٹی کو آخری بل دے کر ڈوپٹہ اٹھایا اور اوڑھنے لگی
ارے میری ماما جیییییییی.
یہ آخری حربہ تھا احمد کا دادا دادی یا ماں کی خاص توجہ حاصل کرنے کے لیے میری دادو جی یا میرے دادا جی کہتا تھا اور جواب میں اسے بھرپور توجہ ملتی تھی اب بھی ایسا ہی ہوا زلیخا ڈوپٹہ گلے میں ڈال کر مڑی پھر اسکے پاس بیٹھ کر بولی
جی میرا بیٹا جی!!
احمد صاحب کی بتیسی کھل گئی اور رازدانہ انداز میں بولا آپ دنیا کی سب سے اچھی ماما ہیں پتا ہے؟
احمد شاہنواز فوراً سے پہلے بات مکمل کریں اور یہ مکھن کسی اور وقت کے لیے رکھیں بیٹا جی
زلیخا مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی تھی ۔
ارے مسز شاہنواز ایک تو سمجھتی نہیں یار اب بندہ اپنی ماما کو گفٹ بھی نہیں دے سکتا کیا؟ زلیخا نے اب توجہ دی تھی کہ وہ دونوں ہاتھ پیچھے کیے کچھ چھپا رہا تھا ۔
زلیخا کو لفظ بندہ پر ہنسی تو بہت آئی تھی لیکن پھر اسی کے انداز میں بولی بھئی بندہ بلکل اپنی ماما کو گفٹ دے سکتا ہے لیکن آپ پلیز اس بندے سے کہیں جو بھی گفٹ ہے جلدی سے دے تاکہ ماما اور بھی کام کرسکیں اس نے اٹھ کر ڈوپٹہ سر پر اوڑتھے روانی میں کہا تھا
اوکے تو پھر جلدی سے آنکھیں بند کریں احمد جلدی سے کہتا اسکے سامنے آیا تھا اس نئی فرمائش پر وہ زچ ہوئی لیکن ماننے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا اسی لیے آنکھیں بند کرلیں
اب کھولیں کچھ سیکینڈ بعد احمد کے کہنے پر زلیخا نے آنکھیں کھولیں تو احمد کے ہاتھوں میں موجود چیز دیکھ کر اسکا رنگ فق ہوا تھا۔
لچھ دیر بعد گنگ سی لڑکھڑاتے لہجوے میں بولی
یہ
یہ کیا بیٹا؟
یہ کہاں سے لائے آپ؟
احمد کے ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے تھے
ارے ماما یہ میں خود لایا ہوں فلاور شاپ سے احمد نے فخریہ اپنا کارنامہ بیان کیا
لیکن کیوں بیٹا؟ زلیخا کی حیرت میں انجانا سا خوف تھا
وہ ماما لاسٹ ٹائم ابراہیم کے گھر بھی قرآن خوانی تھی نا!
احمد نے بیچ میں بات روک کر ماں سے تصدیق چاہی زلیخا نے اثبات میں سر ہلایا
وہاں ابراہیم کی ماما نے اسکی دادو نے سب نے یہ پہنے ہوئے تھے سب کیسے ایکشن مار رہے تھے آپکو تو یاد ہی نہیں رہتا دادو کو بھی پتا نہیں چلتا آپ پہنا کرو نا ماما ابراہیم کی ماما اتنی اچھی لگتی ہیں ۔
اور پہلے بھی قرآن خوانی پر آپ نہیں پہنتیں تھیں مجھے بلکل بھی اچھا نہیں لگتا تھا ۔۔۔
اس بار میں اتنے دن سے پاکٹ جمع کر رہا آپکو اور دادو کو یہ فلاور بینگل گفٹ کرنے لے لیے دادو کو پہنا کر آیا ہوں آپ بھی جلدی سے پہن لیں نا یار
ابھی تو پیسے ہی کم تھے لیکن ماما آپ دیکھنا جب میں بڑا ہوجاؤں گا نا تو آپکے لیے وہ جو ریڈ گرین اورنج والی ہوتی ہیں نا رئیل بینگل وہ بھی لاؤں گا.
زلیخا بھری آنکھوں سے اپنے جگر گوشے کو دیکھ رہی تھی جو اتنی سی عمر میں اپنی ماں کی اُجاڑ ویران زندگی کو رنگوں سے مزین کرنا چاہتا تھا چوڑیوں کی کھنک سے سجانا چاہتا تھا
ارے ماما آپ احمد شاہنواز خان کی ماما ہیں یار میرا دل چاہتا ہے آپ ہر وقت بینگل پہنی رکھا کریں ۔۔
آپکی بینگلز کی آواز سے مجھے پتا چل جایا کرے گا کہ آپ میرے آس پاس ہیں احمد نے زلیخا کو آنکھ ماری تھی۔
اسی وقت زلیخا کے کانوں میں کسی نے مدہم سی سرگوشی کی تھی۔
(ارے یار تمہاری چوڑیوں کہ کھنک ہی تو مجھے زندگی کا احساس دلاتی ہے)
اس نے جلدی سے سر جھٹکا تھا
احمد میں یہ نہیں پہن سکتی بیٹا
زلیخا نے احمد کو لپٹاتے ہوئے دکھی سے لہجے میں کہا
کیوں ماما ابراہیم کی ماما بھی تو پہنتی ہیں نا؟
بیٹا اسکے پاپا لا کردیتے ہیں
او آئی سی تو جب میں پاپا کے پاس جاؤں گا نا تو انہیں کہوں گا آپکے لیے بینگل لے کردیں۔
زلیخا کے کلیجے پر ہاتھ پڑا تھا وہ فوراً سے چیخی تھی
احمددددد اس نے تڑپ کر اسے سینے سے لگایا تھا جو اپنی معصومیت میں اتنی بڑی بات کہہ گیا تھا ۔
ایسے نہیں کہتے بیٹا ۔
اللہ میاں ناراض ہوجاتے ہیں
لو اب اللہ میاں اپنے بابا کے پاس جانے پر کیوں ناراض ہوں گے بھلا؟
احمد شاہنواز خان اس بار زلیخا غصے ۔میں بولی تھی
اوکے نہیں کہتا پھر آپ یہ پہن لیں جلدی سے
لیکن بیٹا
دروازے پر دستک دے کر بابا آئے تھے ۔
لیکن ویکن کچھ نہیں دادا آپ بولیں ماما کو یہ پہن لیں ایک تو مجھے اتنا زیادہ پیار بھی نہیں کرتیں بات بھی نہیں مانتیں میں بھی شہید ہو کر بابا کے پاس چلا جاؤں گا۔۔
زلیخا کی سسکیاں نکل گئی تھیں اس نے تڑپ کر ربنواز صاحب کی طرف دیکھا انکی حالت بھی اس سے مختلف نا تھی لیکن وہ چپ تھے کیونکہ حقیقت جاننے کی نا تو احمد کی عمر تھی نا ہی اسکو بتایا گیا تھا اسے صرف اتنا پتا تھا کہ اسکے پاپا شہید ہوگئے ہیں ۔
شہید اللہ میاں کے پیارے مہمان ہوتے ہیں اور اللہ ان سے بہت پیار کرتا ہے ماما بابا سے بھی زیادہ دادا دادو سے بھی زیادہ
احمد آپ چلے جاؤ گے تو ماما دادا دادو کے پاس کون ہوگا بیٹا؟ انکا سہارا کون بنے گا بتائیں زرا؟
ربنواز صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں اس سے بات شروع کی تھی ۔
ہاں تو میری بات تو کوئی مانتا نہیں ہے پھر میں کیسے بنو سہارا؟
ماما سے کہیں یہ پہن لیں پھر ماما کا سہارا بنو گا ادو وائز سوری
احمد نے منہ پھلا کر کہا تھا ربنواز صاحب کے چہرے پر دکھی سی مسکراہٹ آئی پھر وہ زلیخا سے بولے
زلی بیٹا پہن لو
زلیخا نے شکوے بھری نظر ان پر ڈال کر کہا
بابا لوگ کیا کہیں گے
وہ آنکھوں میں نرمی لیے بولے
بیٹا اب تمہیں کسی سے ڈرنے کہ ضرورت نہیں تمہارا سہارا کہہ رہا ہے کہ پہن لو تو پہن لو؟
اور یاد رکھنا شیروں کے بچے بھی شیر ہوتے ہیں اور جو مائیں شیروں کو جنم دیتی ہیں وہ عام نہیں ہوتیں انہیں لوگوں کی باتوں سے گھبرانا زیب نہیں دیتا
زلیخا نے گجرے پہن لیے تھے پھر چپ کر کے سر جھکاتی باہر نکل گئی تھی
————————-
قرآن پاک ختم ہوگیا تھا دعا سے پہلے محلہ کی عالمہ باجی نے چھوٹا سا بیان دیا تھا جسکا موضع حقوق العباد اور صلہ رحمی تھا سب سے آخر میں اسے نعت پڑھنے کا کہا گیا
وہ کھوئی کھوئی سی حالت میں بیان کے دوران سنی جانے والی احادیث میں الجھی ہوئی تھی جب عالمہ باجی کے دوسری بار پکارنے پر چونکی
زلیخا بچے موسم خراب ہورہا ہے آپ جلدی سے دو نعتیہ اشعار پڑھیں پھر دعا کے بعد سب اپنے اپنے گھر جائیں
اس نے آسمان پرنظر ڈالی اچھا بھلا دن شام کا منظر پیش کر رہا تھا پھر آنکھیں بند کیں اور نہایت عاجزی سے نعت پڑھنے لگی
((بن کے خیرالوارا آگئے مصطفیٰ
بن کے خیرالوارا آگئے مصطفیٰ))
اسکی آواز میں سوز تھا جذب تھا تمام خواتین جو خراب موسم کی وجہ سے گھر جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی تھیں ایک ٹرانس کی سی حالت میں بیٹھتی چلی گئیں
((ہم گناہگاروں کی بہتری کے لیے
بن کے خیرالوا آگئے مصطفیٰ))
ہلکی ہلکی چلتی ہوا تیز ہونے لگی تھی لیکن وہ مگن سی مداح سرائی میں مشغول تھی ۔۔
(اک طرف بخششیں اک طرف نعمتیں)
آواز، میں اتنا تسلسل تھا اتنا درد تھا کہ بہت سی خواتین کے آنسو نکل آئے تھے
گھر کے دروازے پر زور سے دستک ہوئی تھی ۔۔
((ہم گناہگاروں کی بہتری کے لیے
بن کے خیرالوارا آگئے مصطفیٰ))
نعت کے بعد باجی نے دعا کروائی پھر ایک ایک کرکے سب لوگ اٹھ کر جانے لگے تھے ہر بزرگ عورت جاتے جاتے زلیخا کو خود سے لپٹاتی اسکی پیشانی چوم کر دعا دیتی اور آگے بڑھ جاتی
وہ دروازہ بند کرنے آئی جب گلی میں داخل ہوتی کچھ عورتوں کا تبصرہ اسکے کان میں پڑا تھا
کیسی نیک سیرت بچی ہے روشن پیشانی تو دیکھو جیسے نور چھلک رہا ہو ۔
دوسری نے کہا ہاہ ہائے پر قسمت تو اچھی نہیں کہتے ہیں اٹھارہ سال کی تھی جب بیوہ ہوئی۔۔
نیک ماں باپ کی اولاد ہے جبھی اتنے سالوں سے بوڑھے ساس سسر کو سنبھالے بیوگی جھیل رہی ہے ورنہ تو اس عمر کی تو کئی لڑکیاں ابھی کنواری بیٹھی ہیں.۔۔
وہ دروازہ بند کرکے پلٹ آئی اب ایسی باتوں کی عادی ہوچکی تھی یہ باتیں وہ پیچھلے کئی سالوں سے سن رہی تھی ۔
وہ اندر کی طرف بڑھی اماں کسی محلے دار کے ساتھ ہی باہر نکلی تھیں ابا نجانے اندر کہاں غائب ہوگئے تھے ابھی وہ صحن میں ہی تھی کہ بارش کی بوچھاڑ شروع ہوگئی اس نے جلدی سے کام والی کو آواز دی
رشیدہ جلدی آؤ سامان سمیٹ لیں
اور پیچھلے صحن میں چلی گئی رشیدہ پہلے سے ہی وہاں تھی قرآن پاک وہ اندر رکھ آئی تھی اب جلدی جلدی چاندنیاں لپیٹ کر شیڈ کے نیچے رکھیں اور چادریں رشیدہ کو اندر لے جانے کا کہہ کر خود ٹیبل اٹھانے لگی
اسی وقت بجلی چمکی اور بادل گرجنے کے ساتھ بے اختیار ہی اسکی چیخ نکلی تھی اپنی دونوں بازؤں سے اس نے منہ چھپا لیا تھا
—————————
وہ زور زور سے دروازہ بجا رہا تھا کچھ دیر بعد ربنواز صاحب نے دروازہ کھولا تو اسے دیکھ کر حیران رہ گئے پھر آگے بڑھ کر اسے سینے کے ساتھ لگاتے اندر لے آئے
وہ جو آواز کے تعاقب میں جانا چاہتا تھا انکے سارتھ اندر کی طرف چل دیا وہ سریلی سی روح کے تانے بانے اُدھیڑتی آواز ابھی تک آرہی تھی ۔
ربنواز صاحب کوئی بات کر رہے تھے لیکن وہ آواز میں الجھا تھا
اسکا ذہن یہ تو مانتا تھا کہ یہ آواز اس نے بہت دل سے بڑے جذب سے سن رکھی ہے لیکن کہاں یہ یاد نہیں آرہا تھا۔
ارے میاں کہاں کھو گئے بھئی؟
ربنواز صاحب نے اسکی توجہ نا پاکر سوال کیا
کہیں نہیں چاچو بس میں سوچ رہا تھا چاچی کہاں ہیں؟
کچھ نا بن پڑا تو چاچی کا پوچھ لیا؟
آج شاہو کی برسی ہے اسی لیے قرآن خوانی کروائی ہے تمہاری چاچی اور زلی پیچھلے صحن میں ہیں
وہ زلی کا نام سن نہیں سکا تھا ۔
آواز آنا بند ہوگئی تھی ۔
اچھا تم اوپر روم میں جاکر فریش ہو جاؤ میں تمہاری چاچی کو بلاتا ہوں اور کھانا بنواتا ہوں
ربنواز صاحب نے اسکی غیر حاضر دماغی کو تھکاؤٹ کا نام دیا تھا
جی جی ٹھیک ہے علی نے اثبات میں سر ہلایا ربنواز صاحب باہر نکل گئے جبکہ وہ اوپر آگیا اسکے کمرے کی کھڑکی نیچے صحن میں کھلتی تھی اس نے کھڑکی سے دیکھا دو عورتیں جلدی جلدی نیچے صحن کا پھیلاوا سمیٹ رہی ہیں ۔
دل تھا کہ کسی کے ہونے کی گواہی دے رہا تھا لہو میں چنگاریاں تھی کہ بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اگرچہ تھوڑی دیر پہلے والی حالت تو نہیں تھی لیکن بے قراری سی چھائی ہوئی تھی
یوں کھڑکی پر کھڑے ہونا اسے معیوب سا لگا جبھی کھڑکی سے ہٹ گیا لیکن کھڑکی سے ہٹتے اسکی نظر سکھ چین کی ایک شاخ پر پڑی جو تنے سے بلکل الگ ہونے والی تھی ہوا تیز تھی بارش بھی ہورہی تھی شاخ کا تنے سے الگ ہونا مطلب نیچے گرنا اور جو نیچے ہوتا اس خیال کے تحت اس نے کھڑ کی سے نچیے آواز دی تاکہ دونوں خواتین کو خبردار کرسکے لیکن دونوں ہی اپنے کام میں مگن تھیں سن نہیں سکی تھیں
———————-
وہ کھڑکی سے ہٹ گیا اور جلدی جلدی نیچے جانے لگا جب وہ پیچھلے صحن میں پہنچا تو وہ اکیلی تھی چہرہ تو نہیں لیکن سانولے ہاتھوں میں پہنے گجرے اسکا دل دھڑکا گئے تھے ۔
سانولے سلونے مہکتے ہاتھوں سے نظر اوپر شاخ کی طرف اٹھی تو اسکی طرف تیز قدموں سے بڑھنے لگا بھاگ وہ سکتا نہیں تھا اور آج کی مسلسل واک کی وجہ سے ٹانگ میں شدید درد ہورہا تھا۔
قریب تھا کہ وہ شاخ لڑکی پر گر پڑتی علی نے اسے زور سے آواز دی تھی
وہاں سے ہٹ جائیں پلیززز
وہ جو اپنے دھیان میں تھی یوں ایک انجان مردانہ آواز پر سہم سی گئی ٹھیک اسی وقت بجلی چمکنے کے ساتھ بادل گرجے تھے اور اس لڑکی نے دونوں کلائیاں چہرے کے آگے تانے چیخ ماری تھی۔
علی دکھتی ٹانگ کے ساتھ اسکی طرف تقریباً بھاگا تھا اس سے پہلے کہ علی اسکو دھکا دیتے سائڈ پر کرتا شاخ گر گئی تھی ۔
علی نے اپنے اور اس لڑکی کے بچاؤ کے لیے اپنے بازو دونوں کے سر پر تان لیے تھے۔
وہ شاخ گری نہیں تھی تنے میں ہی کہیں اٹک گئی تھی لیکن اس پر لگے خوشبودار جامنی پھول یکلخت دونوں پر برسے تھے زلیخا نے گجرے پہنی کلائیوں کی اوٹ سے اوپر دیکھا وہ کوئی جانا پہچانا سا مہربان تھا جو اس پر اپنی بانہوں کا سائبان کیے ہوئے تھا ۔
بارش کی بوندیں اسے بھگوتی زلیخا پر گر رہی تھیں
جامنی پھول اسکے وجود سے مس ہوتے زلیخا پر برس رہے تھے ۔
ٹھیک اسی وقت زلیخا پر اپنی بانہوں کا سائبان کیے شخص نے ذرا کی ذرا نظریں جھکا کر مہکتی کلائیوں سے جھانکتا سانولا سا چہرہ دیکھا تھا
اور وقت؟
وقت تو جیسے تھم گیا تھا۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...