وہ نجانے کتنی دیر سے اتنی ٹھنڈ میں بیٹھا ماوتھ آرگن بجاتے خود کو بہلانے کی کوشش کررہا تھا لیکن اب ٹھنڈ اسکی برداشت سے باہر ہوتی جارہی تھی ۔۔۔
اس نے بیگ میں پڑی رانا بلال کی وائن نکالی اور ایک گلاس میں ڈال کر پینے لگا وہ عام حالات میں کبھی بھی ایسا نا کرتا کیوں کہ امیر ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود اس میں اپنی کلاس کی کوئی برائی نہیں پائی جاتی تھی
وہ پکا مومن نا سہی پر ایک اچھا مسلمان ضرور تھا لیکن اب معاملہ جان بچانے کا تھا اور جان بچانے کے لیے تو مذہب میں مردار کھانے کی اجازت بھی ہے ۔
اس نے ایک کے بعد وائن کا دوسرا گلاس پیا اور اپنے بیگ کے پاس ہی پڑے دوسرے سلیپنگ بیگ میں آکر لیٹ گیا اس بیگ کی زپ خراب ہوچکی تھی اور بلال نیو بیگ کا ارینج کرنے ہی ناران گیا تھا ۔
علی سبحان نے بیگ کے اوپر اس بے ہوش لڑکی کا سٹالر اوڑھا اور آنکھیں موند لیں۔۔۔
رات کا نجانے کون سا پہر تھا یا شائد صبح ہونے والی تھی کسی احساس کے تحت اسکی آنکھ کھلی کوئی چیز اسکے سر اور کان کی لو کو ٹچ ہورہی تھی ۔
برف باری رک چکی تھی اسکا سر بری طرح چکرا رہا تھا دماغ کچھ بھی سوچنے سمجھنے سے عاری محسوس ہورہا تھا اسے لگتا تھا سردی سے اسکا جسم اکٹر چکا ہے۔
دفعتا اس نے ََ رخ پھیرا اور سر کو ترچھا کر کے دیکھا نظر سلیپنگ بیگ میں بے ہوش پڑے نسوانی وجود پر پڑی جسکا نازک ریشمی سا سانولہ ہاتھ پہلے اسکے سر اور کان کی لو سے ٹکرا رہا تھا ۔
اب سر ترچھا کرنے پر اسکے رخسار اور مونچھوں تو کبھی ہونٹوں سے ٹچ ہونے لگا تھا۔
اسے عجیب سا احساس ہوا سانولے سے ہاتھ کی نفاست اور رعنائی رخسار سے ہلکا سا ٹچ ہونا اسے لودیتا محسوس ہوا یکایک اسکے اندر نفس پرست مرد نے انگڑائی لی
وہ ایک پل کو سیدھا ہوا تھا۔
کچھ دیر وہ سلیپنگ بیگ میں بے سدھ پڑے وجود کو دیکھتا رہا پھر اس پر نفس غالب آگیا۔
وہ جو کھلا دشمن ہے انسان کا جو روشنی سے تاریکی میں لے جاتا ہے وہ جو بلندی پستیوں میں لے جاتا ہے
وہی جو برائیوں کو گناہوں کو آراستہ و پیراستہ کر کے دکھاتا ہے پل بھر کی لغزش، کروا کر نیکوں کو بدوں کی فہرست میں لاکھڑا کرتا ہے
وہی مردود غالب آیا تھا اور علی سبحان خان نے اس نحیف سے خوبصورت سانولے سلونے سے نرم ہاتھ کو اپنے مضبوط ہاتھ میں لیا تھا ۔
گویا روشنی سے تاریکی تک بلندی سے پستی تک کے سفر پر پاؤں دھرا تھا ۔
علی سبحان نے اسکا ہاتھ چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہا ہی تھا اس سے پہلے کہ اسکا نام نیکوں کی فہرست سے نکال کر ہمیشہ کے لیے بدوں میں لکھ دیا جاتا۔
تبھی وہ جو رحیم بھی ہے وہ جو کریم بھی جو غفار بھی اور ستار بھی ہے اسکی رحمت کو اسکی کریمی کو گوارا نا ہوا اسکی رحمت جوش میں آئی تھی اور قریبی کسی پہاڑی بستی سے صدائے حق بلند ہوئی تھی
اللہ ہو اکبر اللہ ہو اکبر
علی سبحان کا لڑکی کے چہرے کی طرف بڑھتا ہاتھ جھٹکے سے رکا تھا وہ اچانک ہوش میں آیا تھا
اللہ ہو اکبر اللہ ہو اکبر
اسکے ہاتھ کے ساتھ پورے وجود میں جھٹکے لگنے لگے تھے وہ لرزنے لگا تھا آنکھیں بھرنے لگی تھیں سارا نشہ کہیں دور جا سویا تھا ۔۔۔
پھر ساری آذان کے دوران اسکا جسم دل اسکی روح لرزتی رہی تھی خشیت الہیٰ سے آنکھیں تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔
یہ کیا کرنے لگا تھا میں یہ کیا ہونے جا رہا تھا مجھ سے او میرے اللہ اگر کچھ ہوجاتا تو اس سے آگے آنسو اور ندامت اسے کچھ سوچنے ہی نہیں دے رہے تھے ۔
پھر اس نے ایک فیصلہ کیا اور بغیر کچھ سوچے سمجھے خود پے پڑا سٹالر لپیٹ کر خیمے سے باہر نکلتا چلا گیا۔
————————
اسکا ذہن تاریکی سے جاگنے لگا تھا شائد وہ حرارت کا احساس زندگی کا احساس تھا۔
جو سب سے پہلے اسے ہوا تھا پھر اسکی سماعتوں میں کوئی میٹھا سا رس سا گھلنے لگا تھا۔
وہ بہت خوبصورت اور روح افزاء ساز تھا جو کہیں دور بہت دور سے سنائی دے رہا تھا۔
اسے لگتا تھا دور سے آتی ان سریلے مدھر سازوں کی آواز اسکے دل کو جسم کو روح کو جکڑتی جارہی ہے یاشائد وہ جکڑی جا چکی ہے۔
اسکا دماغ بیدار ہونے لگا تھا اور آواز مدھم ہونے لگی تھی پھر جب وہ آواز مکمل بند ہوگئی تو اسکی آنکھ کھلی کچھ دیر وہ بے حس و حرکت پڑی رہی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ کہاں ہے اس نے ہلکا سا سر گھما کر دیکھا اسکے بلکل پاس ہی وہ سویا ہوا تھا ۔
وہی جادو گر تھا کالے گاؤن پر گولڈن رومال سر پر لپیٹے ہوئے ( pied Piper) جو سانسوں سے جادو کرتا تھا جسکا جادو شام کو جھیل سیف الملوک پر زلیخا علی کریم کے علاوہ بیسیوں لوگوں پر چل چکا تھا۔
بس اب فرق صرف اتنا تھا کہ ریشمی رومال سر سے ڈھلک کر اسکا منہ چھپائے ہوئے تھا زلیخا کو یہ سب کوئی خواب سا لگ رہا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر اس جادوگر کو چھونا چاہا پھر اس سے پہلے کہ اسکا ذہن حقیقت اور خواب میں فرق تلاش کرتا غنودگی ایک بار پھر سے غالب ہونے لگی اور ذہن تاریکی میں کھونے لگا۔۔
————————
اس بار اسکی آنکھ کسی کے بلکہ بہت سے لوگوں کے اونچا اونچا بولنے پر کھکی تھی خود کو ایک انجان جگہ پاکر وہ سوچنے لگی کہ میں کہاں ہوں پھر اچانک اسے رات برف باری والا واقع یاد آیا وہ ایک چیخ مار کر اٹھ کھڑی ہوئی خیمے میں اسکی فیکلٹی کے کچھ لوگ اور چند مقامی اور پولیس کے دو بندے ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے
اسکو چیخ کر اٹھتے دیکھ مس فرخندہ پاس آئی تھیں اور اسے گلے لگا لیا زلیخا کیسی ہیں بیٹا آپ وہ پریشان لگ رہی تھیں
زلیخا انکی بانہوں کے حصار میں منہ دیے رونے لگی یہ سب شاک کی وجہ سے تھا مگر وہاں موجود بہت سے لوگوں نے کچھ اور سمجھا تھا۔
زلیخا زلیخا بریو گرل بتائیں کیا ہوا تھا کیوں رو رہی ہیں؟
میم وہ میم
زلیخا نے بامشکل آنسوؤں کے درمیان کہا تھا۔
جی جی زلیخا بتائیں پلیز کیا ہوا تھا اور کون تھا رات آپکے ساتھ؟
زلیخا سوال پر غور کیے بغیر ایک بار پھر سے بولنے لگی ۔
میم وہ ریچھ تھے وہ دو ریچھ تھے وہ میرا خچر اچانک بھاگنے لگا تھا پھر اسنے مجھے گرا دیا پھر پھر ہر طرف برف تھی۔
اوکے آگے مس فرخندہ نے نہایت پیار سے پوچھا۔
زلیخا نے بڑی عجیب سی نظروں سے انہیں دیکھا کہ آگے کیا؟
بچے پھر اسکے بعد کیا ہوا آپ کیسے بچیں کس نے بچایا آپکو یہاں کیسے آئیں؟
زلیخا یک ٹک انکا منہ دیکھتی رہی تھی
اور منہ ات صرف اتنا نکلا
پتا نہیں؟
مس فرخندہ اسکی غائب دماغی نوٹ کر چکی تھیں جبھی پولیس والوں سے معذرت کی پھر چند مقامی لوگوں کی مدد سے زلیخا کو پہلے جھیل پھر اسکے بعد ناران ہوٹل میں لے گئیں تھیں
ہوٹل میں ساری لڑکیاں لڑکے اسکے لیے پریشان تھے لیکن اسکو زندہ سلامت دیکھ کر اور یہ جان کر کے زلیخا رات بھر کسی شکاری کے خیمے میں اسکے ساتھ گزار کر آئی ہے بہت سی معنی خیز نظریں اس پر اٹھی تھیں۔
زلیخا ابھی ساری حقیقت سے لاعلم تھی مس فرخندہ نے اسے کمرے میں جاکر ریسٹ کرنے اور فریش ہونے کے بعد انکے کمرے میں آنے کا کہا تھا اسی لیے وہ اپنے کمرے میں آگئی ۔
پیچھے پیچھے رملہ بھی چلی آئی زلی کہاں تھی یار اس نے روہانسی ہوکر زلیخا کو گلے لگالیا
پتا نہیں یار میں وہاں کیسے پہنچی وہ محسن کو ہے جا نے میری جان بچائی؟؟
زلیخا بہت عقیدت سے اس انجان مسیحا کا نام لے رہی تھی
رملہ حیرت سے اسے دیکھنے لگی تھی پھر کچھ سنبھل کر بولی
زلی کیا تمہیں واقعی نہیں پتا کس نے تمہاری جان بچائی؟
زلیخا کے نا میں سر ہلانے پر رملہ نے دکھ سے آہ بھری
کیوں کیا ہوا رملو زلیخا نے پریشانی سے پوچھا
رملہ نے ایک نظر اسکو دیکھا پھر بولی
زلی کل جھیل پر ایک اجنبی جو ساز بجارہا تھانا؟
زلیخا کو اچانک اپنے خواب میں انی جانے والی آواز یاد آئی اس کی گردن ہاں میں ہلی
وہ ایک شکاری تھا اور تمہاری جان اسی نے بچائی تھی پھر وہ ساری رات تمہارے ساتھ جنگل میں لگے اس خیمے میں رہا کیوں کہ سلیپنگ بیگ ایک تھا تو سب کا خیال ہے کہ وہ اور تم ۔
زلیخاکا سرخ پڑتا چہرہ دیکھ کر رملہ کو اپنی بات ادھوری چھوڑنی پڑی۔
یہ یہ تم رملہ یہ کیا؟
نہیں میرا اللہ جانتا ہے میں بلکل ٹھیک ہوں میں میں
وہ کیسے نہیں نہیں رملے
میں تو بلکل
زلیخا پر جیسے دیوانگی کا دورہ پڑ گیا تھا کوئی بھی بات پوری نہیں کر پارہی تھی ۔
تم بے ہوش تھیں زلی اور تمہارے پاس ہی اسکا ماوتھ آرگن پڑا ملا تمہارے ہاتھ کے نیچے اسکا گولڈن رومال پڑا تھا جو جل رات اسنے باندھ رکھا تھا
بیسیوں لوگوں نے دیکھا تھا اسے اور تمہارا سٹالر بھی تمہارے پاس نہیں تھا تمہارا کوٹ اترا پڑا تھا اور وہ رات بھر تمہارے
رملہ رونے لگی تھی
َاسکا ہر جملہ زلیخا کے جسم کو برف کرتا جارہا تھا بلکل ٹھنڈا
کہاں ہے وہ زلیخا کی آواز کسی کنوئے سے آئیں تھی۔
پتا نہیں جب گاؤں والے اور باقی لوگ خیمے میں پہنچے تم وہاں بے ہوش تھیں اور وہاں کوئی نہیں تھا ایک امیر ذادہ وہاں آیا تھا پولیس کے استفسار پر اس نے کہا کہ تمہیں اس کے دوست نے رات بھر کے لیے تمہاری مرضی سے روکا تھا کیوں کہ تم اس پر دل ہار بیٹھی تھیں اور جان بوجھ کر اسکے خیمے میں گئیں
َ
زلی زلی زلییییییی
رملہ نے روتے ہوئے بات مکمل کرتے زلیخا کی طرف دیکھا جو زمیں پر گری پڑی تھی۔
————————
پھر اسکے بعد زلیخا پر زندگی تنگ ہونے لگی وہ جہاں سے گزرتی سٹوڈنٹس منہ سے ماوتھ آرگن کی آواز نکالنے لگتے ۔
کوئی جادوگر کی ملکہ تو کوئی فارسی شہزادے کی محبوبہ کا فقرہ کستا وہ چپ چاپ گزر جاتی آیت ثانیہ نے اسے بات کرنا چھوڑ دی اسکا کمرہ تک چھوڑ دیا صرف رملہ تھج جو اسکے ساتھ ساتھ تھی اور بکت سے لوگوں کو جواب بھی دیتی تھی۔
پھر ایک دن اسکی زندگی کی تاریکی میں مزید تاریکی کا باعث بنا اور اسے دوسرے ہی سال کے شروع میں ہی پڑھائی چھوڑ کر واپس گاؤں جانا پڑا تھا
وہ بھی ایک عام سا دن تھا وہ زلیخا کلاس لے کر باہر نکلی ہی تھی کہ دو بہت معزز نظر آنیوالی خواتین نے اسے گھیرا لیا
کیسی ہیں آپ زلیخا ایک عورت نے بہت محبت کا مظاہرہ کیا؟
جی میں ٹھیک ہوں بٹ سوری میں آپکو پہچانی نہیں زلیخا نے الجھن آمیز جواب دیا۔
اٹس اوکے بیٹا آپ ہمیں جانتی بھی نہیں ہیں اصل میں ہمیں آپ پر گزری قیامت کا سن کر بہت افسوس ہوا ۔
عورت نے باقاعدہ آنکھیں پونچھنا شروع کردیا
آپکی ابھی عمر ہی کیا تھی محض اٹھارہ سال اور یہ داغ لگوا بیٹھیں ۔
کافی سٹوڈنٹس اردگرد جمع ہونے شروع ہوگئے تھے زلیخا بس برف کی مورت بنی کھڑی تھی جو آہستہ آہستہ پگھلتی جارہی تھی۔
پھر دوسری عورت نے آگے بڑھ کر اسے ساتھ لگایا بچے ہم (WRO) این جی او سے ہیں ہم ریپ وکٹمز کا کیس لڑتے ہیں.۔۔
ریپ وکٹم کے نام پر بہت دی لڑکیوں کے منہ کھلے تھے انہوں نے ترحم بھری نظروں سے زلیخا کو دیکھا تھا۔
ہم مظلوموں کی آواز بنتے ہیں آپکی آواز بنیں گے اور دیکھیئے گا اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپکا مجرم بہت جلد جیل کی سلاخوںکے پیچھے ہوگا۔
زلیخا کے پگھلتے وجود مین دراڑیں پڑنے لگی تھیں کسی لڑکی نے محج حظ اٹھانے کے لیے اس این جی او کو زلیخا بن کر فون کیا تھا۔
ارے اگر کوئی مجرم ہوہی نہیں تو پھر کیسے اسے سلاخوں کے پیچھے دھکیلں گیں؟
کسی نے فقرہ کسا تھا۔
روتی ہوئی عورت نے سر اٹھا کر پوچھا کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ کوئی ریپ نہیں ہو ا انکے ساتھ جو کچھ بھی ہوا بلجبر نہیں بلرضا تھا۔
انفیکٹ انہی کی تو رضا شامل تھی دوسرے فریق کو جبراً شامل ہونا پڑا ہوگا
کیوں کہ یہی اس شکاری کے ساحر ساز کی دیوانی ہوئی اسکی جائے قیام پر جا پہنچیں تھیں وہ نہیں آیا تھا بلانے؟
یہ ثانیہ تھی جونجانے کس دشمنی کا بدلہ اس طرح زہر اگل کر لے رہی تھی۔
زلیخا کے برف وجود میں جنبش ہوئی پھر و روتی آنکھوں کے ساتھ وہاں سے بھاگی تھی
وہ اسکا یونی میں آخری دن تھا اسکے بعد کسی نے اسے یونی میں نہیں دیکھا تھا۔
اور یونی میں دیکھا تو ایک عرصے سے کسی نے سر میسی کو بھی نہیں تھا لیکن اس غیر حاضری پر کسی نے کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔
————————–
وہ اس رات ناران سے نکل کر سیدھا لاہور آگیا تھا
اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا اسے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی وہ اپنے آپکو ایک نفس پرست گھٹیا انسان لگ رہا رھا تھا ۔
لاہور آنے پر اسے پتا چلا کہ امی بابا لندن گئے ہیں اسکی بڑی بہن کی طرف وہ بھی اگلے دن کی فلائیٹ سے لندن چلا گیا
: اپنے آپ کو اپنے دل کو اس نےبہ حوصلہ دیا کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بچا لیا ہے کچھ بھی غلط ہونے سے پہلے لیکن اگر کچھ ہوجاتا تو؟
یہ ایک سوال اسے چین نہیں لینے دیتا تھا
آخرکار تین ماہ بعد اپنے اندر کی جنگ سے تنگ آکر اسنے شاہنواز سے رابطہ کیا اور رابطہ ہوتے ہی ساری بات بتا دی؟
شاہنواز نے ساری بات چپ کر کے سنی آخر میں صرف ایک اتنا بولا
علی سبحان خان یہ تو پیغمبرانہ صفت ہے یارا
ایسی صفات تو آب صرف ولیوں میں پائی جاتی ہی میرے یار جس صفت کا مظاہرہ تم نے کیا۔۔
تم شر کو خیر سے شکست دی تم نے یہ ثابت کیا کہ مرد نفس پرست نہیں ہوتا بلکہ نفس پرستی کو کسی سے بھی مشروط نہیں کیا جاتا۔۔
نفس پرست وہی ہوتا ہے جو نفس کو خود پر غالب ہونے دیتا ہے ۔
میرے بھائی تم یہ کیوں سوچتے ہو اگر ہوجاتا تو؟
تم یہ سوچو کہ کچھ ہوا تو نہیں نا؟
تم یہ بھی تو سوچو کہ خدا کی رحمت نے تمہیں اور اس نیک بخت عورت کو میلا نہیں کیا اسکی رحمت نے گوارا نہیں کیا؟
عجیب بندے ہو تم بجائے اپنے رب کی شکر گزاری کے کہ اس نے تمہیں ذلت کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا؟
تم سوگ منارہے ہو؟ اسکی رحمت سے ناامید ہوکر؟
یعنی کہ حد ہوگئی علی سبحان خان؟؟
وہ کچھ ہلکا پھلکا ہوا دل سے منوں بوجھ ہٹ گیا تھا ۔
شاہنواز نے اور بھی بہت سی باتیں کیی اسکے دل کو مزید ڈھارس ملی پھر جب اسنے فون رکھا تو اپنی خود ساختہ گناہگاری سے کافی حد تک باہر آچکا تھا۔
ایک ہفتے بعد وہ اس ٹراما سے مکمل باہر آگیا تھا جبھی شاہنواز کی شادی کا شور بلند ہونے لگا اور وہ شادی کے لیے پاکستان واپس آگیا ۔
شادی کے بعد اسکا واپس کالج جوائن کرنے اور اس سانولی سلونی سی لڑکی کو پرہوز کرنے کا ارادہ تھا۔
—————————
وہ سب چھوڑ چھاڑ واپس آگئی تھی دادا کو رملہ نے تھوڑ ا بہت حذف کرنے کے بعد مسلہ بتادیا تھا۔
جسے سن کر علی کریم پورے قد سے لڑکھڑائے تھے لیکن پھر انہیں اپنا آپ سنبھالنا پڑا تھا زلیخا علی کریم کے لیے
آج رملہ تین دن رہ کر واپس چلی گئی تھی
رملہ جتنے دن بھی رہی زلیخا نے یا انہوں نے ایک دوسرے سے دانستہ کوئی بات نہیں کی تھی۔
اب رات کا کھانا کھانے کے بعد وہ خود زلیخا کے کمرے میں آئے تھے کسی ایک کو تو پہل کرنی تھی نا؟
َزلیخا چپ چاپ کمرے میں اندھیرا کیے آنکھیں موندے لیٹی تھی یہ چپ اسے جنگل والی رات کے بعد سے لگی تھی اور ابھی تک چپ قائم تھی
اسکا دل نہیں مانتا تھا کہ قدرت اسکے ساتھ اتنا بڑا مزاق کرسکتی ہے اسی لیے وہ ابھی تک شاک میں تھی۔
علی کریم چپکے سے آئے اور جھک کر اسکی پیشانی چومی زلیخا نے بامشکل اپنی سسکی روکی وہ دیر تک اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتے رہے تھے ۔
جب انہوں نے اٹھتے ہونے دوبارہ اسکی پیشانی چومنی چاہی وہ ضبط نہیں کر پائی تھی آہ کے ساتھ دو آنسو اسکی آنکھ سے نکلے تھے تھے۔
نا نا نا میرے زلی پتر علی کریم کے مان بھرے لہجے میں اتنا کہنا تھا کہ وہ خود پر کیے سارے بندھ کھو ببیٹھی علی کریم کی گود میں سر رکھ کر اس نے دھاڑیں ماری وہ سسکی تھی تڑپی تھی
علی کریم کے اپنے آنسو تھمنے کا نام نہیں، لے رہے تھے انہی آنسوؤں کے درمیان وہ بولے
زلی ہتا ہے جب تو پیدا ہوئی تھی نا تو تیرے بابا کو لوگوں کی باتوں کے زیر اثر میں نے کہا پہلا تو بیٹا ہونا چاہئے تھا بیٹا وارث ہوتا ہے
تو پتا ہے اس نے مجھ سے کیا کہا تھا۔
زلیخا نے روتی آنکھوں سے انہیں دیکھا۔
اس نے کہا تھا
میرے لیے بوا کھولنے والی آگئی ہے ابا جی بیٹے تو ایویں نام کے وارث ہوتے ہیں اصل میں تو بیٹیاں باپوں کی پگ کو اونچا کرتی ہیں انکی شان بڑھاتی ہیں ۔
اللہ سائیں نے میری شان بڑھانے والی بھیج دی ہے
دادا زلیخا درد سے تڑپ کر بولی تھی میں غلط نہیں دادا
نا نا دادا کی جان ایک لفظ نہیں مجھے اپنے خون پر اپنے زلی خان پر پورا بھروسہ ہے یہ ساری دنیا مل کر بھی کہے نا کہ میرا زلی خان غلط ہے میں کبھی نا مانوں
دنیا میں بچے اپنے واحد رشتے اپنے پیارے دادا کے منہ سے نکلے چند جملی زلیخا کے لیے آب حیات ثابت ہوئے تھے اس نے دکھ سے محبت سے انکے سینے سر چھپا لیا تھا اور سسکنے لگی تھی
نا نا نا میرا پتر دادا کے ہوتے میرے زلی خان کو کوئی میلی آنکھ سے دیکھ بھی نہیں سکتا میری جان
علی کریم نے حوصلہ دیتے اسکے گرد اپنے کمزور نحیف سی بانہوں کا حصار قائم کیا تھا ۔
زلیخا کو ایسا لگا تھا جیسے وہ دنیا کی سب سے محفوظ پناہ گاہ میں آگئی ہو ۔
لیکن انکے اپنے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔
کافی دیر وہ زلیخا کا سر اپنے سینے سے لگائے تھتھپاتے رہے
زلیخا کی اتنے دنوں سے جاری ذہنی کشمکش کو سکون ملا تھا جبھی کچھ دیر بعد وہ سکون سے سو گئی تھی
علی کریم صاحب نے احتیاط سے زلیخا کا سر نیچے رکھا اور اسے کمبل اڑھاتے دروازہ بند کرتے کمرے سے باہر نکل گئے۔
——————-
بارات واپسی کی تیاریوں میں تھی وہ بہت بے چین تھا اسکا دل بار بار کہہ رہا تھا کہ گانے والی کی صورت دیکھ لے بس ایک بار اسکا وجدان کہتا تھا کہ یہ وہی یونی والی لڑکی ہے اور یونی والی لڑکی وہی ہے سانولی سلونی سی زلیخا علی کریم جس سے علی سبحان خان کو پہلی نظر میں محبت ہوئی تھی ۔۔۔
وہ اسی کشمکش میں تھا جب شاہنواز کے والد نے اسے چلنے کا اشارہ کیا۔
اس نے چونک کر دیکھا دلہا دلہن گاڑی میں بیٹھ چکے تھے وہ بھی ناچاہتے ہوئے شاہنواز کے ساتھ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور برے دل کے ساتھ گاڑی سٹارٹ کرکے آگے بڑھا دی۔
وہاں سے نکلتے ایک آخری سوچ جس نے اسکے دل کو ڈھارس دی تھی وہ یہ کہ شاہنواز کی بیوی سے اس لڑکی کے بارے پوچھے گا پھر بھابھی ہی کے ذریعے اس تک پہنچے گا ۔
لیکن اسے شاہنواز کی بیوی سے بات تو کجا اسے ملنے کا موقع بھی نہیں ملا تھا
———————
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...