“نینا میری جان تمہیں کیا ہوگیا ہے تم ایسی تو نہیں تھی۔۔۔ نہ ہنستی ہو۔۔۔نہ کچھ بولتی ہو۔۔۔خود میں ہی کہیں کھوئی رہتی ہو کیا سوچتی رہتی ہو سارا دن پلیز شئیر کرو مجھ تم مجھ پر بھروسہ کرسکتی ہو۔۔۔۔پریشانی ہے کیا کوئی یا پھر طبعیت ٹھیک نہیں ہے تمہاری کچھ تو بتاؤ پلیز۔۔۔۔۔”
“پوجا نینا کے ہاتھ تھامے پریشانی سے پوچھنے لگی۔۔۔۔”
“تمہارے پاس میرے درد کی دوا ہی نہیں ہے میں تمہیں بتا کر کیا کرونگی۔۔۔۔”
“نینا نے سر اٹھا کر نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔”
“کس درد کی بات کررہی ہو۔۔۔۔؟؟۔۔۔۔کچھ تو بتاؤ ہوسکتا ہے میں تمہارے کام آجاؤں۔۔۔۔”
“پوجا اس کے جواب پر الجھ کر رہ گئی تھی۔۔۔۔”
“کچھ نہیں۔۔۔۔”
“نینا نم آنکھوں سے مسکرا دی۔۔۔اور وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔”
“پوجا تاسف سے اسے جاتا دیکھنے لگی۔۔۔۔”
“میں تمہیں کیا بتاؤں پوجا کہ میں ہر پل کا اذایت سے گزرتی ہوں۔۔۔تمہارے پاس میرے درد کی دوا نہیں ہے۔۔۔۔”
“نینا چھت کو تکتے ہوئے بولی۔۔۔۔”
“تم نے کبھی اس سے ہی نہیں دعا کی ہوگی۔۔۔۔میں نے کہا تھا نا تمہیں کہ وہ اس کی بھی سنتا ہے جو اس پر ایمان نہیں رکھتا۔۔۔۔تو پھر وہ تمہاری کیوں نہیں سنے گا بیٹا وہی تو ہے جس سب کی سنتا ہے۔۔۔۔”
“نینا کے کانوں میں اسحاق صاحب کی باتیں گونجنے لگی۔۔۔۔”
“نینا نے گہری سانس لیتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔”
“یا اللہ مجھے سکونِ قلب عطا فرما۔۔۔۔”
“نینا کے لبوں نے حرکت کی اور بے اختیار آنسو اس کی آنکھوں سے تیزی سے بہنے لگے۔۔۔۔۔”
“مجھے سکونِ قلب عطاء فرما۔۔۔۔۔”
“آنسوؤں نے اور شدت اختیار کرلی۔۔۔”
“سکونِ قلب عطاء فرما۔۔۔۔۔”
“اب کی بار اس کی ہچکیوں بندھ چکی تھی۔۔۔۔۔”
“روتے روتے وہ کب سوئی اسے خبر نہیں ہوئی۔۔۔۔۔”
“اگلی صبح نینا کی آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔۔۔۔”
“گھڑی میں ٹائم دیکھا تو حیرت سے اس کی آنکھیں پھٹ گئی تھی۔۔۔نینا حیران تھی۔۔۔کہ نہ تو آج اسے کوئی برا خواب آیا تھا اور نہ ہی وہ چونک کر رات کے آخری پہر اٹھ کر بیٹھی تھی۔۔۔۔”
“تم جانتی ہو وہ اس انسان کو بھی رزق دیتا اس کی بھی دعا سنتا ہے جو اس پر ایمان ہی نہیں رکھتا جو اس کو بھلا کر جھوٹے خداؤں کو مانتا ہے۔۔۔۔تو پھر سوچو جو اس پر ایمان رکھتا ہے اس کی عبادت کرتا ہے وہ اس کو کس قدر نوازتا ہوگا۔۔۔۔”
“ابھی وہ اسی سوچ میں گھم تھی کہ اسحاق صاحب کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔۔۔”
“نینا کے لب بے اختیار مسکرا اٹھے تھے۔۔۔۔۔”
“اس میں اور اللہ میں اب کچھ ہی فاصلہ رہ گیا تھا۔۔۔۔شاید اس نے اللہ کو ڈھونڈ لیا تھا۔۔۔۔لیکن کیا اس کی تلاش یہی پر ختم ہوگئی تھی یا پھر سفر ابھی باقی تھا۔۔۔۔”
“نینا خوشی سے جھومتی ہوئی اٹھی اور کھڑکی کھول کر صبح کی خوبصورتی دیکھنے لگی۔۔۔۔”
“آج سے خوبصورت صبح اسے کوئی نہیں لگی تھی۔۔۔۔”
“بابا کی طبیعت کیسی ہے۔۔۔؟
“ایلا نے پوچھا۔۔۔۔”
“بہتر ہے پہلے سے۔۔۔۔”
“نین نے سادے سے انداز میں کہا۔۔۔۔”
“ہممم۔۔۔۔
“اس نے گہری سانس لی۔۔۔”
“کیا تم ان سے ملنے نہیں آؤ گی۔۔۔۔؟
“نین نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔”
“ہمم آؤنگی۔۔۔۔ٹائم ملا تو۔۔۔۔”
“وہ نظریں چراتے ہوئے بولی۔۔۔”
“ٹائم ملا تو۔۔۔؟
“اس نے تعجب سے پوچھا۔۔۔”
“ہمم۔۔۔۔
“ایلا دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔۔”
“وہ تمہیں کچھ غلط تو نہیں کہتے ایلا۔۔۔۔تم انہیں کیوں نہیں سمجھتی۔۔۔۔؟
“نین دکھ سے پوچھنے لگا۔۔۔”
“مجھے کچھ کام ہے میں جاتی ہوں۔۔۔۔”
“وہ بات بدلتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔”
“نین تاسف سے اسے جاتا دیکھنے لگا۔۔۔”
“یہ آپ کے لیے۔۔۔۔”
“نینا نے تازے پھولوں کا گلدستہ اسحاق صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔”
“شکریہ۔۔۔۔۔ویسے آج تو بڑی ہی خوش نظر آرہی ہو کیا وجہ ہے اس خوشی کی۔۔۔۔؟
“اسحاق صاحب نے گلدستہ لیتے ہوئے نینا کے چہرے کو دیکھا جہاں خوشی کے کئی رنگ تھے۔۔ ”
“جی آج واقع میں بہت خوش ہوں آپ جانتے ہیں آج نہ تو میں نے کوئی برا خواب دیکھا اور نہ ہی میں رات کو چونک کر اٹھی اور جب میری صبح آنکھ کھلی تو اذان ہورہی تھی۔۔۔آپ جانتے ہیں آج کا دن میرے لیے بہت خاص ہے۔۔۔۔۔”
“نینا خوشی سے انہیں بتانے لگی۔۔۔۔”
“یہ تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔اس کا مطلب اللہ نے تمہاری دعا کو قبول کرلیا۔۔۔۔کیا اب تم پرسکون ہو۔۔۔؟
“وہ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگے۔۔۔۔”
“آپ کو کیسے معلوم ہوا ہے کہ میں نے اللہ سے دعا کی تھی۔۔۔۔کیا اللہ نے یہ بھی آپ کو بتا دیا۔۔۔؟
“وہ کسی معصوم بچے کی طرح سوال کررہی تھی۔۔۔”
“نہیں۔۔۔ایسا نہیں ہے اللہ نے مجھے نہیں بتایا لیکن بس مجھے ایسا لگا کہ تم نے اللہ سے دعا مانگی۔۔۔”
“اسحاق صاحب اس کی بات سن کر مسکرا دیے۔۔۔۔”
“اچھا۔۔مگر شاید ابھی میری دعا قبول نہیں ہوئی کیونکہ ابھی میں مکمل طور پر پرسکون نہیں ہوں لیکن میں خوش ہوں کیونکہ مجھے وہ برے خواب نہیں آئے کل رات آپ جانتے ہیں میں وہ خواب دیکھ کر کافی ڈر جایا کرتی تھی۔۔۔”
“وہ بچوں کی طرح بتانے لگی۔۔۔”
“ہر دعا کے قبولیت کا ایک وقت مقرر ہے تم اس وقت کا انتظار کرو دعا ضرور قبول ہوگی۔۔۔”
“انہوں نے مسکرا کر کہا۔۔۔”
“مجھے انتظار رہے گا اس وقت کا۔۔۔۔اور آپ جانتے ہیں میں نے صبح تو کئی بار ہوتے دیکھی ہے لیکن اس صبح میں کچھ خاص تھا۔۔پہلے تو چاروں طرف اندھیرا تھا اور پھر جب سورج طلوع ہونے لگا نا تو وہ آہستہ آہستہ اندھیرے کو مٹاتا جارہا تھا میں ساکت سی کھڑی سب دیکھ رہی تھی اور آپ جانتے ہیں وہ دیکھ کر مجھے خیال آیا۔۔۔۔”
“نینا مسکراتے ہوئے بتانے لگی۔۔۔۔”
“کیا۔۔۔؟
“اسحاق صاحب نے تعجب سے پوچھا۔۔۔”
“وہ دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ آپ بھی میری زندگی میں سورج کی طرح آئے اور مجھے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئے۔۔۔۔بلکل اسی طرح جیسے سورج جب طلوع ہوتا ہے تو آسمان سے سارے اندھیروں کو چھاٹ دیتا ہے۔۔۔میں آسمان تو نہیں ہوں لیکن آپ میری زندگی میں سورج کی وہ روشنی ہیں جیسے آپ نور کہتے ہیں۔۔۔میں جانتی ہوں ابھی میں مکمل طور پر روشن نہیں ہوئی ہوں لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ ایک دن مجھے مکمل طور پر ان اندھیروں سے نکال لیں گے۔۔۔۔”
“نینا محبت سے بول رہی تھی اس کے ایک ایک لفظ میں اسحاق صاحب کے لیے احترام اور محبت تھی۔۔۔۔”
“تم مجھ پر اتنا بھروسہ کیوں کرتی ہو۔۔۔۔؟
“اسحاق صاحب تعجب سے پوچھنے لگے۔۔۔”
“میں نہیں جانتی۔۔۔۔لیکن مجھے لگتا ہے ایسا میرا دل کہتا ہے کہ آپ مجھے اندھیروں سے نکال کر میری منزل تک پہنچا دیں گے۔۔۔۔”
“نینا پرمسرت لہجے میں بولی۔۔۔۔”
“خوش رہو۔۔۔۔۔”
“انہوں نے نینا کے سر پر ہاتھ رکھا۔۔۔”
“اوہ میں تو پوچھنا ہی بھول گئی آپ کی طبیعت کیسی ہے اب۔۔۔؟
“نینا یاد آنے پر بولی۔۔۔”
“اللہ کا کرم ہے پہلے سے بہتر ہوں۔۔۔۔”
“وہ مسکرانے لگے۔۔۔۔”
“یہ کس نے لکھا ہے۔۔۔۔؟
“نینا نے کمرے کی دیوار پر ایک کیلیگرافی لگی دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔جس پر بڑے بڑے حرفوں میں اللہ لکھا ہوا تھا۔۔۔”
“یہ میری بیٹی ایلا اور اس کی ماں نے لکھا تھا۔۔۔۔۔”
“وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولے تھے جیسے ماضی کی کئی یادیں تازہ ہوگئی ہو۔۔”
“آپ سے ایک بات پوچھوں۔۔۔؟
“نینا نے انہیں بغور دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔”
“ضرور۔۔۔”
“اسحاق صاحب حال میں واپس آتے ہوئے گویا ہوئے۔۔۔”
“ایلا آپ کی بیٹی ہے لیکن آپ سے اتنی الگ کیوں ہے وہ۔۔۔؟
“نینا نے پوچھا۔۔۔۔”
“تم اس سے ملی ہو کیا۔۔۔؟
“انہوں نے الٹا سوال کیا۔۔۔”
“جی میری ملاقات ہوتی رہتی ہے ہم ایک ہی یونی میں ہیں۔۔۔”
“نینا نے بتایا۔۔۔”
“اچھا۔۔۔”
“اسحاق صاحب سر ہلاتے ہوئے بولے۔۔۔”
“آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔۔۔”
“نینا نے انہیں دیکھا جو خاموش بیٹھے تھے۔۔۔”
“بیٹا اللہ نے ہر ایک کی شخصیت کو دوسرے سے مختلف رکھا ہے ہر ایک کا نظریہ دوسرے بندے سے الگ ہوتا ہے۔۔۔کوئئ بھی مکمل طور پر کسی کے جیسا نہیں ہوتا۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے عادتاً دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔”
“لیکن پھر بھی وہ بلکل الگ ہے۔۔۔آپ کو یاد ہے آپ نے مجھے کہا تھا کہ جانداروں کی تصویر بنانا آپ کے مذہب میں حرام ہے اللہ کو یہ نہیں پسند لیکن ایلا کو میری بنائی ہوئی تصویریں بہت آئی تھیں۔۔۔وہ ان سے بہت متاثر تھی اس کے علاوہ وہ کبھی بھی آپ کی طرح بات نہیں کرتی میں نے ہمیشہ آپ کو اللہ کی بات کرتے سنا ہے۔۔۔اور ایلا کو کبھی نہیں جب کے میرا اور پوجا کا اکثر وقت ایلا کے ساتھ گزرتا ہے۔۔۔۔جب مجھے معلوم ہوا کہ وہ آپ کی بیٹی ہے تو بہت حیران ہوئی تھی۔۔۔کیونکہ وہ مکمل طور پر آپ سے الگ ہے۔۔۔”
“نینا دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔۔”
“وہ پہلے ایسی نہیں تھی۔۔۔اپنی ماں کے جانے کے بعد ایسی ہوگئی ہے۔۔۔جب اس کی ماں اس دنیا سے گئی تو ایلا زیادہ بڑی نہیں تھی۔۔۔اسے اپنی ماں کے جانے کا گہرا صدمہ پہنچا تھا۔۔۔اسے لگتا ہے کہ اللہ نے اس کی ماں کو اس سے چھین لیا ہے۔۔۔۔غلطی میری بھی ہے اس میں میں نے سوچا تھا بچی ہے ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ابھی عقل نہیں ہے۔۔لیکن میں غلط تھا۔۔۔اگر میں اس وقت اسے سنبھال لیتا تو بات اتنی آگے نہ بڑھتی۔۔۔۔جب وہ اپنی حدود میں سے نکلنے لگی اللہ کی قائم کردہ حدود سے نکلنے لگی تو میں نے اسے سمجھایا کہ تم غلط کررہی ہو یہ سب اچھا نہیں ہے اللہ نے عورت کو سات پردوں میں بنایا ہے اسے پردے میں رہنے کا کہا ہے۔۔۔سر پر سے دوپٹے کو سرکنے مت دو یہ تمہاری حفاظت کرتا ہے یہ اللہ کا حکم ہے۔۔۔ لیکن وہ باغی ہوگئی اسے میری باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں اسے میرا ٹوکنا پسند نہیں تھا وہ اپنی مرضی سے جینا چاہتی تھی اور پھر ایک وہ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔۔
“کسی نے صحیح ہی کہا ہے کہ بچے چھوٹے ہوں تب ہی سے انہیں صحیح راستہ دیکھانا چاہیے کیونکہ چھوٹے بچے کسی نرم ٹہنی کے مانند ہوتے ہیں جیسے چاہو انہوں موڑ لو لیکن جب وہی ٹہنی شاخ بن جاتی ہے تو اسے موڑنے کی چاہ میں ہم اسے توڑ بیٹھتے ہیں۔۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ وہ اللہ کو مانتی نہیں ہے مانتی ہے وہ بھی وہ جانتی ہے وہ ہے۔۔لیکن وہ اس سے بدگمان ہوگئی اس کی بدگمانی نے اسے اللہ سے دور کردیا ہے۔۔۔۔”
“تم جانتی ہو میں پہلے ایسا نہیں تھا میں بھی غافل لوگوں میں سے تھا۔۔۔۔مجھے سیدھے راستے پر لانے کے لیے اللہ نے پاکیزہ کو وسیلا بنایا۔۔۔ایلا کی ماں نے میری دنیا بدل دی مجھے اللہ سے ملوا دیا۔۔۔وہ اپنے نام کی طرح پاکیزہ تھی۔۔۔میں نے اپنی پوری زندگی میں اس جیسی عورت سے نہیں ملا۔۔۔اب بس دعا ہے جیسے تمہارے لیے اللہ نے مجھے وسیلا بنایا ہے ایسے ہی میں چاہتا ہوں کہ اللہ میری بیٹی کے لیے بھی کوئی وسیلا بنا دے ورنہ میں محشر میں پاکیزہ کو کیا جواب دوں گا وہ اسے میرے پاس چھوڑ کر گئی تھی اسے راستہ دیکھانا میرا کام تھا لیکن میری ایک غلطی نے اسے غلط راہ دیکھا دی۔۔۔”
“یہ بتاتے ہوئے اسحاق صاحب کی آنکھیں اشک بار تھیں۔۔۔”
“تمہیں یاد ہے میں نے کہا تھا کہ اللہ کسی کسی کو اپنی عبادت کے لیے چنتا ہے وہ ہر کسی کو ہدایت نہیں دیتا اب شاید تمہیں میری بات سمجھ آگئی ہوگی کہ میں نے یہ کیوں کہا تھا کیونکہ مثال تمہارے سامنے ہیں ایلا میری بیٹی ہے لیکن پھر بھی اللہ سے دور ہے میں اسے نہیں سمجھا سکا۔۔۔یہ معاملات اللہ کے ہیں اگر وہ چاہے گا تو ضرور وہ بھی براہ راست پر آجائے گی اور مجھے اس دن کا انتظار ہے۔۔۔۔”
“نینا نے انہوں نے دیکھا جو باقی دنوں سے مختلف نظر آرہے تھے۔۔۔۔”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...