“کتنا حسین ہوگا نہ وہ منظر۔۔۔۔”
“نینا آنکھیں بند کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔”
“بے حد حسین۔۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب مسکرائے۔۔۔۔”
“اللہ نے ان کے علاوہ کبھی کسی سے ملاقات نہیں کی۔۔۔؟
“نینا نے پوچھا۔۔۔”
“اللہ نے اپنے محبوب سے عرش پر ملاقات کی اور محبوب کو تحفے میں نماز دی تاکہ محبوب کا ہر امتی اس سے ملاقات کرسکے محبوب کی عرش پر ملاقات ہوئی تو ان کی امت کی فرش پر۔۔۔۔نماز اللہ پاک سے ملاقات کا واحد ذریعہ ہے۔۔۔۔۔ نماز کے وقت ہم اللہ کے بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں۔۔۔جب کوئی فقیر کسی نیک بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے اور کچھ مانگتا ہے تو بادشاہ اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا یہ تو دنیا کا بادشاہ تھا۔۔۔۔جسے اللہ نے یہ مقام دیا لیکن سوچو جو پوری کائنات کا بادشاہ ہے جس بادشاہ نے سب کچھ بنایا ہے تم اس کے دربار میں حاضر ہوگے تو کیا وہ تمہیں خالی ہاتھ لوٹائے گا وہ بادشاہ جس کے لیے سب مکمن ہے جو ہر شئے پر قادر ہے۔۔۔جو ہم سے بہتر ہمیں جانتا ہے پھر بھی ہماری سنتا ہے۔۔۔۔ہم کتنے ہی گناہ کرکے اس کی دربار میں جا کر کچھ مانگے دل سے مانگے تو وہ ہمیں سب دے دیتا ہے کیونکہ میرا رب بہت رحیم ہے اس نے کہا ہے کہ مانگو مجھ سے میں تمہیں دونگا۔۔۔۔ تم جانتی ہو وہ اس انسان کو بھی رزق دیتا اس کی بھی دعا سنتا ہے جو اس پر ایمان ہی نہیں رکھتا جو اس کو بھلا کر جھوٹے خداؤں کو مانتا ہے۔۔۔۔تو پھر سوچو جو اس پر ایمان رکھتا ہے اس کی عبادت کرتا ہے وہ اس کو کس قدر نوازتا ہوگا۔۔۔۔”
“میرا اللہ بہت رحیم ہے پہاڑوں جتنے گناہ کرکے بھی تم اس کے پاس جاکر دو آنسو سچے دل سے بہا کر توبہ کروگے نا وہ معاف کردے گا۔۔۔وہ معاف کردے گا۔۔۔کیونکہ میرا رب بہت رحیم ہے۔۔۔۔۔وہ واحد ہے جو ہم گناہگاروں کے بھی لاڈ اٹھاتا ہے۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔۔۔۔”
“نینا کے دل کی کیفیت عجیب ہونے لگی تھی آنسو راونی سے بہنے لگے۔۔۔۔دل موم ہونے لگا۔۔۔۔”
“نین کمرے سے نکلا تو نینا کو روتے دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا۔۔۔۔”
“م۔۔۔میں چلتی ہوں۔۔۔۔اااذان بھی ہونے والی ہے۔۔۔۔۔”
“نینا آنکھوں کے کنارے صاف کرتی ہوئی اٹھی۔۔۔۔”
“نینا کا دل کیا کہ وہ کسی ایسی جگہ چلی جائے ابھی کہ جہاں کوئی نہ ہو۔۔۔۔وہ اپنے دل کی کیفیت کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔۔خود کو اور دل کو سمجھانے کے لیے ابھی اسے کچھ وقت درکار تھا۔۔۔”
“اللہ کے امان میں جاؤ۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔۔۔”
“نینا آنسو پیتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔”
“یہ رو کیوں رہی تھی۔۔۔۔؟
“نینا کے جاتے ہی نین اسحاق صاحب کے قریب آیا۔۔۔”
“دل کی سیاہی آنسوؤں سے ہی مٹتی ہے۔۔۔اور اللہ اس کے دل سے سیاہی مٹا رہا ہے۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب نے اٹھتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور وہاں سے چلے گئے۔۔۔۔”
“نین ان کی بات سن کر کچھ پل کے لیے تو حیران رہ گیا لیکن اگلے ہی پل اس کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی۔۔۔پھر اس نے بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھا کر نینا کے لیے دعا کی۔۔۔۔”
“کمرے میں داخل ہوتے ہی نینا کی نظر اپنی بنائی ہوئی تصویریں پر پڑی تو بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے۔۔۔۔”
“نینا نے جیکیٹ کی پوکیٹ سے موبائل نکال کر بیڈ پر پھینکا اور کمرے کا دروازہ بند کرکے واش روم میں گھس گئی۔۔۔۔”
“نینا شاور لے کر باہر آئی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوگئی۔۔۔۔”
“تم جانتی ہو وہ اس انسان کو بھی رزق دیتا اس کی بھی دعا سنتا ہے جو اس پر ایمان ہی نہیں رکھتا جو اس کو بھلا کر جھوٹے خداؤں کو مانتا ہے۔۔۔۔تو پھر سوچو جو اس پر ایمان رکھتا ہے اس کی عبادت کرتا ہے وہ اس کو کس قدر نوازتا ہوگا۔۔۔۔”
“میرا اللہ بہت رحیم ہے پہاڑوں جتنے گناہ کرکے بھی تم اس کے پاس جاکر دو آنسو سچے دل سے بہا کر توبہ کروگے نا وہ معاف کردے گا۔۔۔وہ معاف کردے گا۔۔۔کیونکہ میرا رب بہت رحیم ہے۔۔۔۔۔وہ واحد ہے جو ہم گناہگاروں کے بھی لاڈ اٹھاتا ہے۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب کی باتیں مسسلسل اس کے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔۔۔۔”
“جب میں تم سے پہلی بار ملا تھا نا میں سمجھ گیا تھا۔۔۔کہ تمہیں بھی اللہ نے چن لیا ہے۔۔۔۔میری ایک بات یاد رکھنا کہ اللہ جنہیں اپنی عبادت کے لیے چنتا ہے وہ لوگ نایاب ہوتے ہیں۔۔۔”
“اسحاق صاحب کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔”
کیا واقع اللہ نے مجھے چن لیا ہے۔۔۔۔؟
“نینا خود سے سوال کرنے لگی۔۔۔
“کیا واقع اللہ ہے۔۔۔۔؟۔۔۔۔کیا واقع واحد ہے۔۔۔۔؟؟
“نینا الجھن کا شکار تھی۔۔۔”
“اپنے دل میں جھانکو۔۔۔”
“وہ تمہارے اندر ہے۔۔۔۔”
“اللہ دیکھتا نہیں ہے محسوس ہوتا ہے۔۔۔وہ ایک خوبصورت احساس ہے اسے سمجھنے کی کوشش کرو۔۔۔وہ تمہارے دل کی آواز ہے۔۔۔اسے سننے کی کوشش کرو۔۔۔آنکھیں بند کرو اور اسے محسوس کرو۔۔۔وہ ہے تمہارے اندر تمہارے دل میں وہ ہر جگہ ہے ہر جگہ۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب کی باتیں اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔۔۔۔”
“نینا نے آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے اس کا دل اس بات کی گواہی دے رہا ہو کہ وہ ہے وہ ہے اور واحد ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے وہ اس کے دل میں ہے وہ ایک احساس ہے ایک خوبصورت احساس۔۔۔۔”
“نینا کی آنکھوں سے آنسوں تیزی سے بہنے لگے۔۔۔۔وہ اپنے رونے کی وجہ نہیں جانتی تھی آج کل وہ بے مقصد رونے لگتی تھی۔۔۔۔وہ لڑکی جو کبھی نہیں روتی تھی۔۔۔۔”
“ایک گہری سانس لیتے ہوئے اس نے آنکھیں کھولیں پوجا کا خیال آتے ہی اس نے اپنے آنسو صاف کیے اور کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔”
“اگلے دن نینا اسحاق صاحب کے گھر جارہی تھی جب اسے راستے میں ایلا نظر آئی۔۔۔۔ایلا کو دیکھ کر اس کے ذہن میں کئی سوال اٹھے تھے۔۔۔۔خیر وہ سر جھٹکتی ہوئی اسحاق صاحب کے گھر کے لیے نکل گئی۔۔۔۔”
“نینا نے گھر کے باہر پہنچ کر بیل بجائی۔۔۔۔”
“مرحبا۔۔۔۔
“نین نے دروازہ کھولتے ہوئے مسکرا کر کہا۔۔۔۔”
“مرحبا۔۔۔۔
“نینا نے بھی جواباً مسکرا کر کہا۔۔۔”
“نین نے اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔۔۔۔”
“انکل کہاں ہیں۔۔۔۔؟
“نینا اندر آتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔۔”
“وہ اپنے کمرے میں ہیں۔۔۔۔”
“نین دروازہ بند کرتا ہوا بولا۔۔۔۔”
“اچھا۔۔۔۔”
“نینا دھیمے لہجے میں بولی۔۔۔”
“آئیں میں آپ کو ان کے پاس لے کر چلتا ہوں۔۔۔۔”
“نین نے اسحاق صاحب کے کمرے کی جانب قدم بڑھا دیے۔۔۔”
“نینا اس کے پیچھے چلی گئی۔۔۔۔”
“کیا ہوا ہے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا۔۔۔؟
“نینا نے اسحاق صاحب کو دیکھتے ہوئے پوچھا جو بیڈ پر لیٹے ہوئے تھے۔۔۔۔”
“کچھ نہیں بیٹا بس عمر کا تقاضہ ہے۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔۔۔۔”
“آپ ایک بار ڈاکٹر سے چیک اپ کروا لیں۔۔۔”
“نینا فکرمند ہوئی۔۔۔۔”
“بیٹا بیماری تو اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے اور بیماری بھی انسان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے کیونہ جب انسان بیمار پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہی ہے جس طرح درخت سے پتے جھڑ جاتے ہیں۔۔۔ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر مسلمان کو ایک کانٹا بھی چبھ جائے نا تو اسے جو تکلیف محسوس ہوتی ہے نا اس کے بدلے میں اللہ اس کے گناہ معاف کردیتا ہے۔۔۔بے شک وہ واحد ہے جو سب کو معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب کے چہرے پر ابھی بھی ایک اطمینان تھا۔۔ ایک سکون تھا۔۔۔جو بخوبی محسوس کیا جاسکتا تھا۔۔۔۔”
“نینا ان کو دیکھ کر اور ان کی باتیں سن کر حیران ہورہی تھی۔۔۔۔اس کے ذہن میں یہی سوال بار بار آرہا تھا کہ واقع آج بھی ایسے لوگ ہیں دنیا میں جو اپنے رب کی رضا میں راضی ہیں۔۔۔۔”
“آپ کو کچھ چاہیے۔۔۔؟
“نین نے پوچھا۔۔۔”
“نہیں بیٹا بچے آگئے ہوگے تم جاؤ میں ٹھیک ہوں پریشان مت ہو۔۔۔”
“انہوں نے ہونٹوں پر نرم مسکراہٹ سجا کر کہا۔۔۔۔”
“نین اثبات میں سر ہلاتا ہوا باہر چلا گیا۔۔۔”
“تمہیں میں ایک قصہ سناتا ہوں حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش کا۔۔۔۔یہ سننے کے بعد تم کہو گی کہ میری آزمائش تو کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔”
“اسحاق نے مسکراتے ہوئے کہا تو نینا اپنی تمام توجہ ان کی طرف مرکوز کر کے بیٹھ گئی۔۔۔۔”
“حضرت ایوب علیہ السلام انبیاء کی جماعت میں سے وہ ہستی ہیں کہ اللہ نے صبر کے معاملے میں بطور خاص ذکر فرمایا ہے لوگوں کے لیے ایک مثال اور نمونہ ٹھہرایا ہے۔۔۔۔”
“حضرت ایوب ؑ اسرائیلی نہ تھے بلکہ ابراہیم علیہ السلام کی پانچویں پشت میں سے تھے جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے:
وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ ۭ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوْحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ ۭوَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ 84ۙ
“اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق (جیسا بیٹا) اور یعقوب (جیسا پوتا) عطا کیا۔ (ان میں سے) ہر ایک کو اہم نے ہدایت دی، اور نوح کو ہم نے پہلے ہی ہدایت دی تھی، اور ان کی اولاد میں سے داؤد، سلیمان، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔۔۔۔۔”
“آپ ؑ کا قیام سر زمین عوص میں تھا جو عرب کے شمال ومغرب میں ار فلسطین کی مشرقی سرحد سے متصل ہے ۔۔۔۔”
اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ۚ وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَعِيْسٰى وَاَيُّوْبَ وَيُوْنُسَ وَهٰرُوْنَ وَسُلَيْمٰنَ ۚ وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ١٦٣ۚ
(اے پیغمبر) ہم نے تمہارے پاس اسی طرح وحی بھیجی ہے جیسے نوح اور ان کے بعد دوسرے نبیوں کے پاس بھیجی تھی، اور ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد کے پاس، اور عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کے پاس بھی وحی بھیجی تھی، اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی تھی۔ (سورۃ النساء 163)
“اللہ تعالیٰ نے ان سب انبیاء کی طرف وحی بھیجی حضرت ایوب علیہ السلام بھی ان رسولوں میں سے ایک ہیں۔ اللہ نے آپ ؑ کو قوم حوران کی طرف مبعوث فرمایا یہ قوم ملک شام میں رہائش پذیر تھی ۔ آپؑ بہت زیادہ مالدار تھے اللہ نے آپ کو بہت زیادہ نعمتوں سے نوازاتھا۔ آپ علیہ السلام کے پاس بے شمار مویشی۔لاتعداد ، نوکر چاکر اورزرعی زمینیں تھیں۔۔۔۔ آپ ؑ تاجر بھی تھے۔ تجارت کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا اللہ نے آپ کو کثیر اولاد عطا فرمائی۔ آپ ؑ خود بھی سحت مند اور طاقتور تھے۔ اصحاب کی تعداد بھی کافی تھی ۔آپ ؑ کے صحیفے “سفر ایوب ” میں ہے :
” آپ علیہ السلام امیر کبیر اور بڑے صاحب ثروت تھے عہد عتیق میں ہے عوص کی سر زمین میں ایوب نامی ایک شخص تھا اور وہ شخص کامل اور صادق تھا اور خدا سے ڈرنا اور بری سے دور رہتاتھا۔ا س کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں اس کے مال میں سات ہزار بھیڑیں اور تین ہزار اونٹ اور پانچ سوجوڑے بیل اور پانچ سو گدھیاں تھیں اور اس کے نوکر چاکر بہت تھے ایسا کہ اہل مشرق میں ایسا مالدار کوئی نہ تھا۔” ( ایوب : 1۔2۔10)
“حضرت ایوب علیہ السلام کی آزمائش:۔
“اللہ تعالیٰ نے آپ کو آزمانا چاہا تاکہ بعدمیں آنے والوں کے لیے آپ علیہ السلام صبر کی مثال بن جائیں۔۔۔۔۔آخر آزمائش کا مرحلہ شروع ہوا۔۔۔۔۔آپ علیہ السلام کا سب مال ومتاع چھین گیا۔ تمام اولاد اللہ پیاری ہوگئی تمام مال مویشی پلاک ہوگئے آپ ؑ شدید مرض میں مبتلا ہوگئے بیماری اس قدر شدید تھی کہ آپ ؑ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے آپ کی آزمائش انتہاء کو پہنچ گئی آپ کے ملنے والے آپ کا ساتھ چھوڑ گئے صرف آپ کی بیوی خدمت کے لیے رہ گئیں وہ بہت وفادار تھیں ان تمام مصیبتوں مشکلات اور بیماریوں کے باوجود آپ ؑ نہایت صابر وشاکر رہے اوردن رات اللہ کا ذکر کرتے رہے۔۔۔۔”
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام تیرہ برس تک مصائب کے امتحان میں مبتلا رہے۔۔۔.
آپ ؑ کا تمام مال ومتاع ختم ہوگیا تو آپ ؑ کی صالح بیوی اجرت پر لوگوں کا کام کر کے حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت کرتی رہیں۔۔۔۔”
“حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انہیں کوئی سخت بیماری لاحق تھی لیکن وہ کیا بیماری تھی ؟ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ علیہ السلام کی بیماری سے متعلق بہت سی روایتیں مشہور ہیں کہ آپ علیہ السلام کو ایسی بیماری تھی کہ لوگ آپ ؑ سے گھن کھانے لگے اور آپ ؑ کو کچرے میں بٹھادیا یہ تمام باتیں مستند نہیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نبیوں میں کوئی عیب یا بیماری پیدا نہیں فرماتے جس سے لوگ دور بھاگے۔۔۔۔”
“شیطان آپ علیہ السلام کے صبر سے بہت حسد کرتا تھا بہت کوشش کے باوجود وہ آپ علیہ السلام کے صبر کو نہ تور سکا آخر ایک د وہ آپ ؑ کی بیوی کے پاس انسانی شکل میں آیا حکیم کے روپ میں اور کہا کہ کیا تم نہیں چاہتی کہ تمہارا مردصحت یاب ہوجائے میں اسے شفا دےسکتا ہوں ۔اگر کوئی پوچھے تو اسے کہنا کہ اسے میں ( حکیم ) نے شفا دی ہے ۔ بیوی نے یہ بات حضرت ایوب علیہ السلام کو بتائی ۔ آپ ؑ پریشان ہوگئے کہ شیطان ان کے گھر تک کیسے پہنچ گیا آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی کو ڈانٹا اور قسم کھائی جب میں صحت یاب ہوجاؤں گا تو تجھے سو کوڑے ماروں گا اور اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی :
وَاذْكُرْ عَبْدَنَآ اَيُّوْبَ ۘ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الشَّيْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ 41ۭ (ص)
اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو، جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا تھا کہ : شیطان مجھے دکھ اور آزار لگا گیا ہے۔
حضرت ایوب علیہ السلام کی بارگاہ الٰہی میں التجا :۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
“آپ ؑ کی بیماری میں تمام ملنے والے آپ ؑ کو چھوڑ گئے سوائے دو ساتھی کے۔۔۔۔”
ایک مرتبہ وہ آپ کے پاس آئے اور ایک نے دوسرے سے کہا: “توجانتا ہے کہ اللہ کی قسم ! شاید ایوب ؑ جیسا گناہ جہاں والوں میں سے کسی نے نہیں کیا۔۔۔۔”
ساتھی نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟
تو اس نے کہا : دیکھو اتنے عرصے سے بیماری دور نہیں ہوئی اور اللہ نے رحم کیا اگر ایسی بات نہ ہوئی تو رب اس کی بیماریوں کودور فرمادیتا ۔ یہ بات جب حضرت ایوب علیہ السلام کو معلوم ہوئی تو آپ ؑ نے اللہ سے دعا کی۔۔۔۔”
وَاَيُّوْبَ اِذْ نَادٰي رَبَّهٗٓ اَنِّىْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ 83ښ
” اور ایوب کو دیکھو ! جب انہوں نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ : مجھے یہ تکلیف لگ گئی ہے، اور تو سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔۔۔۔۔”
شفا یابی:
اُرْكُضْ بِرِجْلِكَ ۚ ھٰذَا مُغْتَسلٌۢ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ 42
(ہم نے ان سے کہا) اپنا پاؤں زمین پر مارو، لو ! یہ ٹھنڈا پانی ہے نہانے کے لیے بھی اور پینے کے لیے بھی۔۔۔۔۔”
“حضرت ایوب علیہ السلام کو حک خداوندی ہوا : اپنا پاؤ ں زمین پر مارو ۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی ۔ ایک چشمہ جاری ہوگیا جس میں انہوں نے غسل کیا تو جسم کی ظاہری بیماری دور ہوگئی اس کے بعد دوبارہ پاؤں زمین پر مارا دوسرا چشمہ ابل پڑا اور انہوں نے اس کا پانی پیا تو جسم کے اندر سے مرض دور ہوگیا اورآپ علیہ السلام مکمل صحت یاب ہوگئے ۔ آپ ؑ اللہ کا شکر بجالائے ۔ آپ علیہ السلام کی بیوی اس حالت میں دیکھ کر پہچان نہ سکی جب حقیقت آشکار ہوئی تو اللہ کا شکر بجالائیں۔۔۔۔”
انعامات ربانی :
وَوَهَبْنَا لَهٗٓ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ 43
اور (اس طرح) ہم نے انہیں ان کے گھر والے بھی عطا کردیے۔ اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی۔ (٢٢) تاکہ ان پر ہماری رحمت ہو، اور عقل والوں کے لیے ایک یادگار نصیحت۔۔۔۔۔”
امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح روایت نقل کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت ایو ب علیہ السلام غسل فرمارہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے سونے کی چند ٹڈیاں ان پر برسائیں ۔ایوب ؑ نے ان کو دیکھا تو مٹھی بھر کر کپڑے میں رکھنے لگے ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب ؑکو پکارا : ایوب ! کیا ہم نے تم کو یہ سب دولت دے کر غنی بنادیا ؟ حضرت ایوب ؑ نے کہا : کیوں نہیں میرے پروردگار مگر تیری برکتوں سے کب کوئی بے پرواہ ہوسکتا ہے ۔ ( بخاری کتاب الانبیاء )
حضرت ایوب علیہ السلام نے ہرآزمائش پر صبر کیا اورصرف اللہ سے ثواب کی توقع رکھی تو اللہ نے ان کی تمام پریشانیوں کو دور کردیا بلکہ پہلے سے کہیں زیادہ مال ودولت اور اہل وعیال سے نواز دیا۔۔۔۔”
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :اللہ نے ان کی بیوی کو وفاداری اورصبر کے صلے میں پہلے سے کہیں زیادہ جوانی عطا فرمائی یہاں تک کہ پھر ان سے حضرت ایوب علیہ السلام کے چھبیس لڑکے ہوئے۔۔۔”
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَيْنٰهُ اَهْلَهٗ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِكْرٰي لِلْعٰبِدِيْنَ 84
“پھر ہم نے ان کی دعا قبول کی، اور انہیں جو تکلیف لاحق تھی، اسے دور کردیا اور ان کو ان کے گھر والے بھی دیے، اور ان کے ساتھ اتنے ہی لوگ اور بھی تاکہ ہماری طرف سے رحمت کا مظاہرہ ہو، اور عبادت کرنے والوں کو ایک یادگار سبق ملے۔۔۔۔”
قسم کا کفارہ:
وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَلَا تَحْــنَثْ ۭاِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا ۭ نِعْمَ الْعَبْدُ ۭ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ 44
اور (ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ) اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا لو، اور اس سے مار دو، اور اپنی قسم مت توڑو۔ (٢٣) حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انہیں بڑا صبر کرنے والا پایا، وہ بہترین بندے تھے، واقعہ وہ اللہ سے خوب لو لگائے ہوئے تھے۔۔۔۔۔”
“,حضرت ایوب علیہ السلام نے بیماری کی حالت میں اپنی بیوی سے ناراض ہو کر قسم کھائی تھی کہ جب صحت یاب ہوجاؤں گا تو بیوی کو سو کوڑے ماروں گا ۔ جب اللہ نے آپ علیہ السلام کو صھے یابی عطا فرمائی تو آپ ؑ پریشان ہوئے کہ اتنی وفا شعار بیوی کی وفاداری کا یہ صلہ دینا مناسب نہیں ہے ۔ تب اللہ نے ان کے لیے آسانی کا راستہ کھول دیا اور قسم پورا کرنے کے لیے یہ ترکیب بتائی کہ ایک کھجور کا خوشہ لے لو جس میں سو شاخیں ہوں اور تمام کو اکھٹا مارو تویہ کوڑوں کا بدل ہوجائے گا ۔ اورقسم پوری ہوجائے گی۔۔۔”
( قصص الانبیاء ص 415)
“بیٹا ضروری نہیں ہے یہ کہ اگر کوئی شخص بیماری میں مبتلا ہے تو وہ گناہگار ہے بیماری اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے۔۔۔۔وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے طرح طرح کے طریقوں سے وہ اپنے بندے کا صبر دیکھنا چاہتا ہے اس کا اس پر توکل دیکھنا چاہتا ہے حضرت ایوب علیہ السلام جب بیماری میں مبتلا ہوئے تو لوگوں نے ان سے ملنا چھوڑ دیا اور طرح طرح کی باتیں بنائی لیکن وہ صبر کرتے رہے۔۔۔۔اور ان کا صبر دنیا والوں کے سامنے ایک مثال بن گیا۔۔۔ ایک بار جب آپ کی بیوی کو خدمت کرتے طویل زمانہ گزر گیا، تو ایک مرتبہ حضرت ایّوبؑ سے کہا’’ اگر آپؑ اپنے پروردگار سے دُعا کریں، تو وہ آپؑ کو ان مصائب سے رہائی عطا فرمائے گا‘‘، اس پر آپؑ نے حیرت انگیز جواب دیا کہ’’ مَیں ستّر سال تک صحیح سالم رہا، تو کم از کم اللہ کے لیے ستّر سال تو صبر کر لوں۔‘‘ یہ سُن کر بیوی خاموش ہوگئیں اور خدمت جاری رکھی۔۔۔۔۔”
“ایسے ہی اللہ نے اپنے اور انبیاء کرام کو بھی آزمائش میں ڈالا تھا۔۔۔۔مسلمان کے لیے یہ بات فخر کی ہونی چاہیے کہ اس کا رب اسے آزمائش کے قابل سمجھتا ہے۔۔۔۔۔”
“وہ ٹہر ٹہر کر بتا رہے تھے۔۔۔ان کے چہرے پر ایک سکون تھا ایک ایسا سکون جس کی چاہ ہمیشہ سے نینا کو تھی۔۔۔جب بھی وہ اللہ کا یا اس کے کسی نبی کا ذکر کرتے تھے تو کبھی تو ان کے چہرے سے مسکراہٹ نہیں جاتی تھی۔۔۔۔ایسا لگتا تھا کہ وہ ان کے ذکر میں ایک سکون محسوس کررہے ہیں۔۔۔۔”
“آپ سے ایک پوچھوں۔۔۔۔؟
“نینا نے اجازت چاہی۔۔۔”
“ضرور۔۔۔”
“وہ مسکرائے۔۔۔۔”
“آپ ہمیشہ اتنے پرسکون کیسے رہتے ہیں۔۔۔؟
“نینا حیرت سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔۔۔”
“یہ تو میرے اللہ کی شان ہے کہ اس نے مجھے پرسکون رکھا ہوا ہے۔۔۔۔مجھے سکونِ قلب جیسی نعمت سے نوازا ہوا ہے۔۔۔۔یہ سب میرے رب کی شان ہے۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب اوپر کی جانب دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔”
“آپ دعا کریں نا پھر کہ وہ مجھے بھی اس نعمت سے نواز دے۔۔۔
“نینا نم آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگی۔۔۔۔”
“تم خود دعا کرو اس سے وہ ضرور تمہاری سنے گا۔۔۔”
“اسحاق صاحب نینا کو دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔”
“وہ میری نہیں سنے گا۔۔۔اسے سننی ہوتی تو بہت پہلے سن چکا ہوتا۔۔۔۔”
“نینا رونے کے قریب تھی۔۔۔۔”
“تم نے کبھی اس سے دعا کی۔۔۔۔؟
“وہ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگے۔۔”
“نینا خاموش ہوگئی کیونکہ اس نے تو کبھی یہ دعا ہی نہیں کی تھی کہ اسے سکون میسر ہو۔۔۔۔”
“تم نے کبھی اس سے ہی نہیں دعا کی ہوگی۔۔۔۔میں نے کہا تھا نا تمہیں کہ وہ اس کی بھی سنتا ہے جو اس پر ایمان نہیں رکھتا۔۔۔۔تو پھر وہ تمہاری کیوں نہیں سنے گا بیٹا وہی تو ہے جس سب کی سنتا ہے۔۔۔۔”
“اسحاق صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔۔۔۔”
“نینا خاموش ہوگئی۔۔۔۔۔”
“کیا ہوا۔۔۔؟
“اسحاق صاحب نے اسے خاموش پاکر پوچھا۔۔۔۔”
“کچھ نہیں۔۔۔۔آپ آرام کریں۔۔۔میں چلتی ہوں اپنا خیال رکھیے گا۔۔۔۔”
“نینا کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔”
“اللہ کے امان میں جاؤ۔۔۔۔”
“انہوں نے اسے دعا دی۔۔۔۔۔”
“نینا مسکراتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔۔”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...