دروازے پر ہونے والی بیل کی آواز پر وہ چونک کر ماضی سے نکلی تھی۔
چہرے پر ہاتھ لگایا جو آنسوؤں سے تر تھا
دروازے پر بیل ابھی تک ہورہی تھی اس نے وہیں کچن سنک سے چہرے پر پانی کے چھینٹے منہ پے مارے اور باہر آکر دروازہ کھولنے چل دی۔
شیر حیدر کے آنے کا وقت تو نہیں تھا لیکن چونکہ انہیں اس شہر میں آئے تھوڑا عرصہ ہوا تھا جبھی اسکے علاوہ کوئی ہو بھی نہیں سکتا تھا ۔
شیر کا خیال آتے ہی اسکا چہرہ خود بخود کھل اٹھا تھا تو اسکا دل رب کے حضور سجدے میں جھک گیا تھا ۔۔
بے شک اللہ نے جو کچھ بھی لیا وہ جان سے عزیز تر لیکن بدلے میں خدا نے اسے عزیز ترین شخص سونپا تھا پھر کیسے نا شکر گزار ہوتی ۔۔
اسے اپنے دن میں اماں نسائی اور بوا کے ساتھ برتا جانے والا رویہ یاد آیا تو ندامت سے ڈوب مرنے کو ہوگئی ۔
اسکے ضمیر نے ملامت کیا کہ اگر شیر حیدر سے شادی نا ہوتی تو پتا نہیں وہ کہاں کہاں رلاتی پھرتی جو اگر وہ بھی کسی بلوائی کے ہتھے چڑھ جاتی تو اب تک.
اس سوچ نے ہی اسے دہلا دیا تھا جبھی اس نے اماں نسائی کو فوراً اپنے ہاں مستقل رکھنے کا خود سے عہد کیا تھا ۔۔۔۔
——————————-
ہلکی سی کھسر پھسر کے بعد کوئی بولا تھا ۔
سنیں
شیر جی
خدا راہ بات سنیں
اسکے آس پاس کوئی کوئل سی کوکی تھی
وہ جو جان بوجھ کر سونے کا ڈرامہ کررہا تھا اس پکار پر چاہ کر بھی ڈرامے کو طول نا دے سکا۔
کیونکہ اس پکار میں اتنی مٹھاس تھی کہ اسے لگا اگر ایک بار پھر اس میٹھی بولی والی نے
“”شیر جی
سنیں “””
کہا تو اسے پکا ذیابیطس کا مرض لاحق ہوجانا ہے اور بھری جوانی میں وہ مریض بنتا اچھا لگتا
بھلا؟؟
مسٹر چوہدری کیا آپ ٹھیک ہیں
کسی نے اسکا کندھا تھپتھپایا تھا تو وہ ہوش کہ دنیا میں واپس آیا ورنہ نجانے وہ کب تک مہراں نام کے سراب میں مبتلا رہتا؟؟
ہاں نا مہراں ایک سراب ہی تو تھی جو ناہوکر بھی ہر جگہ تھی ۔
آں ہاں جی جی میں ٹھیک ہوں بس سر میں درد رہتا پیچھلے کچھ دنوں سے باقی سب ٹھیک ہے
پیچھلے دو چار دن سے اسکے دل کی حالت عجیب تھی ۔۔
وجہ ایک جاننے والے کی انڈیا سے کال تھی جسے اس نے گاؤں جاکر مہراں کا پتا کرنے کا کہا تھا۔۔
کال سننے کے بعد رہی سہی امید بھی دم توڑ گئی تھی ۔۔۔۔
آ ج اسکا دل پہلے سے کچھ زیادہ اداس تھا وہ مہراں کو سوچنا نہیں چاہتا تھا مگر پھر بھی سوچے جارہا تھا
سعدیہ اسکے بچوں کی ماں تھی اس کی شریک سفر ہونے کے ناطے بہت سے زیادہ عزیز تھی۔۔
وہ اسکا بچوں کا ہر لحاظ سے پورا پورا خیال رکھتی تھی ۔۔
اسی کے دم سے شیر حیدر چوہدری کا مکان گھر لگتا تھا
بدلے میں وہ بھی ہر لحاظ سے اسکا وفادار تھا گزرے دس سالوں میں سعدیہ نے اسکے دل میں بہت نام مقام پایا تھا ۔۔
لیکن پھر بھی وہ بہت چاہ کر بھی اسے وہ مقام نہیں دے پایا جس کی وہ متنمی تھی ۔۔
کیونکہ وہ جو دل شیر حیدر چوہدری کے سینے میں دھڑکتا تھا اسکے آدھے سے زیادہ حصے میں آج بھی مہراں پورے حق سے براجمان تھی۔
وہ بلکل بھی اپنی جگہ چھوڑنے یا کسی اور کو دینے کے حق میں نہیں تھی۔۔۔۔
اس نے مہراں سے سوچنا شروع کیا تھا پھر سعدیہ بچوں اور اسکی اپنی ذات کے بعد سوچ پھر سے مہراں تک چلی گئی تھی ۔
اس خیال نے شیر حیدر چوہدری کے ہونٹوں پر بڑی مدھر سی مسکان بکھیری تھی ۔۔۔
کندھا تھپتھپانے والا حیران رہ گیا تھا کیونکہ اسکا یہ کولیگ اسکے سامنے آ ج پہلی بار مسکرایا تھا اور حیران تھا کہ کیا کسی کی مسکراہٹ اتنی خوبصورت بھی ہوسکتی ہے۔
جبھی اس نے ہنستے ہوئے لقمہ دیا تھا ۔
:: کھائے جاتی تھی کوئی فکر اسے
ایسے ہنستا تھا. جیسے رویا ہو::
شیر حیدر سن کر کھلکھلا کر ہنس دیا اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے جناب ۔
بال بچے دار آدمی ہوں اللہ کا دیا سب کچھ ہے
کوئی غم نہیں ہے رونے کو.
اچھا میں اب چلوں گا ارادہ ہے آ ج تھوڑا آرام کرلوں ۔
وہ کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا پھر ایک منٹ سے بھی پہلے بریف کیس پکڑ کر آفس سے باہر نکل آیا ۔
گھر کی طرف برھتے قدموں کے ساتھ اس نے خیالوں میں کسی کو مخاطب کیا تھا ۔
سن مہراں
“”جتنی رونق سجا لوں چہرے پر
ہجر تیرا آنکھوں سے جھلک جاتا ہے “”
————————–
وہ ناچاہتے ہوئے بھی آفس سے سیدھا گھر آیا تھا دل کا بوجھل پن تھا کہ بڑھتا جا رہا تھا ۔
اسی بد دلی کے ساتھ بیل بجائی سعدیہ شاید کسی کام میں مصروف تھی اس نے دوسری کے بعد تیسری بیل بجائی پھر رک کر چھوتی مرتبہ بیل بجانے کو ہاتھ آگے بڑھایا ہی تھا کہ دروازہ کھل گیا
سعدیہ دھلے دھلے سرخ چہرے کے ساتھ مسکرا رہی تھی اسکے ہونٹ بھی خود بخود کھل اٹھے تھے ۔۔
آج آپ اس وقت خیریت طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟ سعدیہ نے اسکے لیے راستہ چھوڑتے ہوئے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے تھے۔
جبکہ شیر حیدر یک ٹک مسکراتے ہوئے اسے دیکھتے اندر آگیا تھا۔
صاف ستھرا گورا چہرہ بھرے بھرے ہونٹ لانبی پلکوں کی جھالر سے سجی گہری سیاہ آنکھیں ناک میں پہنی نتنھی چار بچوں کے بعد وہ تھوڑی فربہی مائل ضرور ہوئی تھی لیکن اسکے حسن میں اضافہ ہوا تھا۔
سعدیہ بلاشبہ حسین عورت تھی اور کسی بھی مرد کی اولین چاہ ہوسکتی تھی
وہ گھر آکر بہت ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا تھوڑی دیر پہلے والی کیفیت یکسر بدل گئی تھی بلکہ اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے اسکے دل کو قرار سا آرہا ہو
کیا ہوا حیدر آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ سعدیہ نے تشویش سے کہتے ہوئے اسکے ماتھے پر ہاتھ دھرا
شیر حیدر نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے ہونٹوں سے لگایا لیا ۔
حیدر بات سنیں
ٹھیک اسی وقت اور بڑے غلط وقت پر اسکے
کانوں میں کوئی بولا تھا
شیرجی
بات سنیں
اس سے پہلے کے شیر حیدر کچھ کہتا یا سعدیہ کچھ سمجھتی کچن میں کوئی چیز گری تھی ۔
ایک لمحہ لگا تھا لمحوں کا فسوں ٹوٹنے پر اس نے سنبھل کر سعدیہ کا ہاتھ چھوڑا اور چینج کرنے کا کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
سعدیہ کے لیے شیر حیدر کا پہلا عمل غیر متوقع تھا مگر دوسرا نہیں وہ افسوس سے اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی ۔
سو تو طے ہوا شیر حیدر چوہدری صاحب
آپ مجھ تک صرف اپنے بٹے ہوئے وجود کی کی تھکن اتارنے آتے ہیں ؟؟
کبھی تو ایسا ہو کہ میری چاہ میری کشش آپکو کھینچ کر لائے حیدر؟؟
اس نے دکھ سے سوچتے آنکھوں میں آئے آنسو کے قطرے پونچھے
وہ بھول رہی تھی کہ اسکی سوچ سراسر غلط ہے
کیونکہ کوئی بھی مرد کسی عورت کو گھر میں زندگی میں مقام یونہی نہیں دیتا ۔۔
(ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ مرد جذبوں کی اور بے رحم زندگی کی مسافت سے جب تھکتا ہے تو اسے سکون کی چاہا گھر اور گھر والی تک لے آتی ہے لیکن اگر ہم یہ کہیں کہ مرد اپنی فطرت سے مجبور ہوکر آتا ہے تو یہ سراسر غلط بات ہے کیونکہ مرد اپنی فطرت میں آزاد ہے اسے فطری جزبوں کی تسکین کے لیے گھر بیوی بچوں کا بکھیڑا پالنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی)
وہ شیر حیدر کے جانے کے بعد کچن کی طرف چلی گئی تھی۔
———————–
وہ کھانا کھانے کے بعد کچھ دیر بچوں کے پاس بیٹھا پھر کمرے میں چلا آیا جہاں ننھی ابیہا سو رہی تھی اس نے ابیہا کو اٹھا کر اپنے سینے پر لٹا لیا۔
اولاد کا لمس اولاد کی خوشبو ہر دکھ ہر درد کا مداوا ہوتی ہےاس وقت وہ بھی کچھ ایسا ہی محسوس کررہا تھا۔
سعدیہ بچوں کوسلا کر کمرے میں آئی تو ابیہا کو شیر حیدر کے سینے پر بڑے سکون سے سوئے ہوئے پایا جبکہ وہ خود بھی پرسکون انداز میں آنکھیں موندے ہوئے تھا ۔۔
مجھ سے نا سہی اپنی اولاد سے تو محبت کرتے ہو نا؟ یہی میرا سب سے بڑا ہتھیار ہے اور تمہاری اولاد ہی سب کچھ بھلا دے گی دیکھنا سعدیہ سوچتے ہوئے آگے بڑھی جبھی شیر حیدر نے بھی اسکی آہٹ پاکر آنکھ کھولی ابیہا کو بہت پیار سے ایک سائیڈ پر سلایا تھا۔
اس بارسعدیہ پھر سے غلط سوچ رہی تھی کیونکہ اولاد ماں یا باپ کا ہتھیار کبھی نہیں ہوتی اولاد ماں اور باپ دونوں کی یکساں محبت توجہ اور لگن سے پروان چڑھتی ہے اگر ماں یا باپ دونوں میں سے کوئی بچوں کا اپنا ہتھیار بنا کر استعمال کرنا چاہے تو
بچوں کہ شخصیت میں تو بگاڑ آتا ہی ہے وہ خود بھی اپنے ساتھ ساتھ دوسرے فریق کی نظروں میں گر جاتے ہیں
———————–
رات کے بارہ بج رہے تھے کئی بار کہ طرح آج پر نیند نہیں آرہی تھی
اسنے بہت آرام سے سر گھما کر دیکھا سعدیہ اور ابیہا پرسکون نیند سو رہیں تھی وہ بے آواز اٹھا اور ٹیرس پر چلا آیا ۔
مطلع ابر آلود، تھا مگر چاند پورا ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی کسی کمزور سی بدلی کو دھکیل کر اپنی پوری آ ب و تاب سے چمکتا تھا
اس نے سگریٹ سلگایا اور ڈھکے چھپے سے چاند کو دیکھنے لگا
تم اکثر پوچھتی تھی نا
بچھڑ جائیں تو کیا ہو گا
نا مل پائے تو کیا ہو گا
لو دیکھو ! اب بھی زندہ ہوں
ابھی بھی چاند تکتا ہوں
ابھی بھی پھول کھلتے ہیں
ابھی بھی دل کے دریا میں
ہزاروں درد بہتے ہیں
ابھی بھی کچھ نہیں بدلا
مگر بس ایک کمی سی ہے
تمہارے بعد جاناں میری
آنکھوں میں نمی سی ہے۔۔
وہ نجانے کتنی دیر چاند اور بادلوں کی آنکھ مچولی دیکھتا رہا ۔
کسی کی ڈھکی چھپی شبیہہ کو پاکر اس سے بولتا رہا
وہ مزید بولتا رہتا جب اسے اپنے پیچھے ہونے والی آہٹ نے چونکایا مڑ کر دیکھا تو سعدیہ چائے کا کپ اٹھائے کھڑی تھی ۔۔۔
تمہیں کیسے پتا کہ مجھے اس وقت چائے کی شدید طلب ہورہی ہوگی؟
وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا۔
کیونکہ مجھے پتا ہے چائے آپکا دوسرا عشق ہے سعدیہ بھی مسکراتے ہوئے لفظ دوسرے ہر زور دیا اور ٹیرس پر نکل آئی
چاند اب مکمل چھپ چکا تھا۔۔
اور چاندنی رات تمہارا پہلا عشق
شیر حیدر نے اپنے پہلے عشق کا ذکر کیے بغیر حساب چکایا۔
وہ دونوں ٹیرس کے کالے سنگ مرمر سے بنے فرش پر آمنے سامنے بیٹھ گئے شیر حیدر چپ چاپ چائے پینے لگا۔
کچھ دیر ان دونوں کے درمیاں خاموشی چھائی رہی پھر سعدیہ نے بات کا آغاز کیا
حیدر آپ سے ایک بات پوچھوں؟
شیر حیدر نے ابرو آٹھایا ( ہاں جی پوچھو)
وہ دونوں آمنے سامنے ایسے تھے کہ چاند کا جھکاؤ سعدیہ کی پیٹھ کی طرف تھا جو گرل سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔
لیکن پھر بھی انکے درمیان میں کبھی کبھی کالے چمک دار فرش پر چاند کا دھندلا سا عکس پڑتا تھا جیسے وہ نا ہو کر بھی انکے درمیان ہو
وہی چاند جس سے کچھ دیر پہلے شیر حیدر ہمکلام تھا۔۔
کیا بہت خوبصورت تھی وہ؟
شیر حیدرکے ہاتھ میں کپ لرزا سعدیہ کا سوال اتنا غیر متوقع تھا کہ اسکا ہاتھ جلتے جلتے بچا تھا۔۔
اس نے ایک شکوہ کناں نظر سعدیہ پر ڈالی کیونکہ جس اذیت آمیز سوچ سے وہ سعدیہ کے آنے کے بعد نکلنا چاہ رہا تھا اس نے واپس وہیں دھکیل دیا لیکن کچھ جواب تو دینا تھا جبھی بولا
وہ؟
کون وہ؟
وہی جو نا ہوتے ہوئے ہم دونوں کے ساتھ تیسرے فریق کی طرح ہے
کیسی تھی تو؟
سعدیہ نے بہت التجاء آمیز لہجے میں پوچھا تھا؟؟
شیر حیدر نے بھی آنکھوں سے التجاء کی کے چھوڑو اس بات کو
خداراہ بتائیں نا
کیا بہت پیاری تھی وہ؟
شیر حیدر نے چائے کا کپ سائیڈ پے رکھا کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر نظر پھیر کر اس بادل کی طرف دیکھا جس کی اوٹ میں چھپا چاند مسکرایا تھا۔
اسکے ہونٹ بھی مسکراہٹ میں ڈھلے پھر بہت ہی پیارے سے لہجے میں گویا ہوا
(( وہ اتنی پیاری تھی جیسے پورے چاند کی رات))
((جیسے کالے بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے
شرماتا ہوا چاند))
نجانے کیوں سعدیہ کو چاندنی رات اور چاند سے نفرت محسوس ہوئی جو کچھ دیر پہلے تک اسکا پہلا عشق تھے۔
لیکن پھر کسی احساس کے تحت ناچاہتے ہوئے بھی پوچھ بیٹھی۔
کیا وہ آپکو بہت اچھی لگتی تھی؟؟
حد سے زیادہ
کیا سب سے زیادہ؟
پتا نہیں
لیکن میری سماعتوں کو اسکی آہٹوں کی میرے دل کو اسکی قربتوں کی میری آنکھوں کو اسکی دید کی طلب سی رہتی تھی
جیسے؟؟؟
وہ کھوئے کھوئے لہجے میں کہتا چپ سا ہوا
سعدیہ نے بے چینی سے پوچھا
جیسے؟؟
شیر حیدر نے چپ چاپ نظر چاند سے پلٹ کر سیدھی چائے کے کپ پر مرکوز کردی جو اس نے بلکل گرل کے ساتھ رکھا تھا۔
(جیسے شام کے بعد رات کی چائے )
وہ کسی اور ہی جہاں میں تھا دیکھ نہیں پایا کہ سعدیہ کا ہاتھ نامحسوس طریقے سے چائے کے کپ کو لگا جو نیچے لان میں لڑھک گیا تھا
اب اسکی پیار بھری میٹھی نظر ہاتھ کی انگلیوں میں دبی سگریٹ پر تھی
(اسکی طلب ایسی تھی جیسے کسی چین سموکر کو ہر وقت بے وقت سگریٹ کی طلب )
سعدیہ نے پاس پڑی سگریٹ کی ڈبی اپنی مٹھی میں دبوچ کر مسل دی تھی ۔۔۔
بات مکمل کرتے ہوئے شیر حیدر مسکراتا ہوا کھڑا ہوا اور سگریٹ کو ہونٹوں سے لگایا سعدیہ بھی ساتھ ہی اٹھ کھڑی ہوئی
شیر نے ایک لمبا کش لے کر دھواں چاند کی طرف چھوڑا تھا۔
پھر دھویں میں چاند کا دھندلا دھندلا عکس بڑی وارفتگی سے دیکھنے لگا جو کسی بدلی کو دھکیل کر ظاہر ہوا تھا
سعدیہ کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا آنسو بے اختیار ہی آنکھوں کی باڑ پھلانگ کر نکل آئے تھے۔۔
اس سے پہلے کہ شیر اسکے آنسو دیکھتا اور وہ بھرم کھو دیتی اس نے پلٹ کر اندر کی طرف قدم بڑھا دیے
شیر حیدر کے پاس سے گزر کر تھوڑا ہی آگے گئی تھی جب کسی نے محبت بھری نرمی سے اسکا ہاتھ پکڑ کر جانے سے روکا اچانک سے ٹھنڈی ہوا چلنے لگی تھی۔
سعدیہ کے قدموں کے ساتھ دھڑکن بھی رک سی گئی اس نے آنکھیں زور سے میچ کر خود مزید اپنی نامعلوم رقیب کی مداح سارئی کے لیے تیار کیا تھا۔
ان دونوں کی ایک دوسرے کی جانب پیٹھ تھی چند لمحے چپ چاپ وہ اندر کی طرف تو شیر حیدر چاند کی طرف تکتا رہا ۔۔
اس نے گردن کو زرا کی زرا جھکا کر اپنے اس محرم ہاتھ کی طرف نظر ڈالی جسکی نرم گرم مضبوط سی گرفت میں اسکا ہاتھ دبا تھا ۔۔
پھر نظر اٹھائی تو اسے چاند ہی کی طرف تکتے پایا وہ دس سالوں میں اس شخص کو سمجھ نہیں پائی تھی جو اسکا نہیں تھا لیکن اسکے علاوہ بھی کسی کا نہیں تھا۔
جو مسیحا تو تھا لیکن مسیحائی کرتا نہیں تھا۔
جو اپنا قرب تو بخشتا تھا مگر قریب آنے نہیں دیتا تھا ۔
جو بادلوں کی طرح برستا تو تھا مگر بھیگنے نہیں دیتا تھا۔۔
ہوا میں اب نمی گھل گئی تھی اور شیر حیدر کی پیٹھ کو تکتے سعدیہ کی آنکھوں سے ایک بار پھر سے آنسو رواں ہوگئے
اس نے روتے ہوئے پلٹ کر ہاتھ چھڑانا چاہا تو گرفت اور مضبوط ہوگئی وہ ہاتھ چھڑانے کی کشمکش میں تھی
جب چھپ چکے چاند کو تکتے ہوئے شخص کی مسکراتی ہوئی آواز کے ساتھ بارش کے چند قطروں نے ٹیرس کو رونق بخشی تھی ۔
وہ چاندنی رات ہے تو تم چاند کی ٹھنڈی میٹھی چاندنی ہو جس میں بھیگنے سے ہر زخم کو راحت ہر درد کو دوا ملتی ہے
بادلوں نے شور سا مچایا تھا
سعدیہ کو اپنا پورا جسم سن ہوتا ہوا محسوس ہوا۔
چاند کو تکتا شخص پلٹا اور مسکراتے ہوئے ہاتھ کو بڑے پیار سے جھٹکا دے کر اسے پورا ٹیرس پر کھینچ لیا
بادلوں کو اسکی یہ ادا پسند آئی تھی جبھی دل کھول کر برسنے لگے۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے گز بھر فاصلے پر کھڑے بھیگ رہے تھے شیر حیدر کی اس پر تو اسکی نظریں ٹیرس کے چمکیلے فرش پر تھیں۔
” تم ٹھٹھرتی سردیوں کی دھوپ”
اسے لگا جیسے وہ کسی نے اس پر ٹھنڈے خوشبو دار پانی کی آبشار الٹ دی ہو
” تم تپتی دوپہروں کی ٹھنڈی چھاؤں جیسی ہو”
اس نے ایک جھٹکے سے نظر اٹھا کر دیکھا اور
اور جیسے زمان و مکان رک سے گئے تھے اس نے گذشتہ دس سالوں میں شاذونادر ہی اس شخص کی آنکھوں کو اٹھے ہوئے پورے حق سے دیکھا ہو کیونکہ اسے ایسا کوئی حق نہیں دیا گیا تھا
مگر آج؟
آج یہ جھکی ہوئی سحر لٹاتی آنکھیں اسے سارے حق سونپتے خود میں جھانکنے کی دعوت دے رہیں تھیں۔۔۔
شیر حیدر نے گز بھر کا فاصلہ مٹایا اسے خود سے لگاتے کان کے قریب جھکتے بہت ہی جاں فزا لہجے میں بولا تھا
” جھوٹ چہرے پہ سجانا نہیں آیا مجھ کو زندگی تجھ کو بِتانا نہیں آیا مجھ کو
دنیا ٹھیٹر ہے تو ناکام اداکار ہوں میں
کوئی کردار نبھانا نہیں آیا مجھ کو
ایک ہی شخص کی خواہش میں رہا سرگرداں
در بدر خاک اڑانا نہیں آیا مجھ کو
لطف تو جب تھا وہ خود کرتا محبت محسوس
کہہ کر احساس دلانا نہیں آیا مجھ کو
کچھ تو یہ دل بھی ہے تنہائی پسند اور اس پر
عمر بھر دوست بنانا نہیں آیا مجھ کو
تُو سمجھتا ہے کہ میں ترکِ تعلق پہ ہوں مائل
روٹھنے والے تجھے منانا نہیں آیا مجھ کو .””
آخری شعر ختم ہوتے ہی ان دونوں نے ساتھ کھڑے ایک ساتھ اوپر کی طرف دیکھا تھا جہاں آسمان ان پر کھل کر رحمت برسا رہا تھا ۔۔
دور کہیں کسی بادل کی ہلکی سی اوٹ سے چاند چھپ کر یہ سارا منظر بڑہ اداس نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
وہ دونوں ہی مسکراتے ہوئے آسمان کو دیکھ رہے تھے جب پاس ہی کہیں سے ہلکی ہلکی پائل کی آواز نے انہیں چونکایا تھا ۔۔۔
——————–
وہ دونوں ٹیرس کی گرل تک ساتھ ساتھ آئے تو گھر کے سامنے پارک میں کسی لڑکی کو دیکھا تھا
وہ جو کوئی بھی تھی اس وقت گھونگھٹ نکالے تن تنہا بارش میں بھیگتے ہوئے گول گول چکر کاٹ رہی تھی جسکی وجہ سے اسکے پاؤں میں پہنی پائل چھنچھنا رہی تھا۔
کسی احساس کے تحت شیر حیدر کے ہاتھ سے سعدیہ کا چھوٹا تھا مگر دونوں نے اس طرف توجہ نہیں دی تھی
دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکی زور زور سے گھومتے ایک جانب گری تھی
ان دونوں کے منہ سے یکلخت او نکلا پھر انہوں نے ایک دوجے کی جانب دیکھا اور جلدی سے نیچے کی طرف بھاگے تھے ۔۔
——————
وہ دونوں پارک میں آئے لڑکی اب تک گری ہوئی تھی اور کپکپا رہی تھی ڈوپٹے نے اسکے چہرے سمیت پورے جسم کو چھپا رکھا تھا ۔۔
سعدیہ جلدی جلدی اسکے پاس پینچی ارے کون ہو تم؟؟
لڑکی کے کپکپاتا جسم ساکت ہوا تھا ۔
اس وقت یہاں کیا کررہی ہو کہیں چوٹ تو نہیں لگی سعدیہ نے تشویش سے آگے بڑھ کر اسے اٹھانا چاہا
شیر حیدر تھوڑی دور کھڑا سب دیکھ رہا تھا
جی جی میں بلکل ٹھیک ہوں بس ایسے ہی بارش کی وجہ سے
اس لڑکی کہ آواز بچوں جیسی تھی سعدیہ نے اندازہ لگایا کوئی ٹین ایج بچی ہے جو بارش کے ایڈونچر میں گھر سے نکل آئی ہوگی جبھی لہجےکو ہموار کرتے ہوئے بولی
ایسے کیسے ٹھیک ہو بھئی
اور آپ اتنے خراب موسم میں اس وقت گھر سے کیوں نکلیں؟؟
چلیں اٹھیں شاباش میں آپکو گھر چھوڑ دوں
شیر حیدر کی نظر اسکے زخمی پاؤں پر پڑی جس سے خون رس کر بارش کے پانی میں بہہ رہا تھا۔۔
وہ فوراً سے پاس آکر اسکے پاؤں کیطرف بیٹھتے ہوئے بولا
آپکے پاؤں پر تو کافی چوٹ آئی ہے
بارش اب بھی ہورہی تھی
نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں
اس لڑکی نے ساکت سے لہجے میں کہا تھا
ارے ایسے کیسے ٹھیک ہیں زخم اتنا گہرا لگ رہا ہے ۔
اور ضرور آپ ہمارے سامنے بہادر بنتے ہوئے درد کو ضبط کررہی ہیں؟؟
شیر حیدر نے بھی اسے بچوں کی طرح پچکارتے ہوئے کہا تھا ۔۔
لڑکی ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی پھر سعدیہ کو نظر انداز کیے اٹھنے لگی تو شیر حیدر کی طرف رخ کرتے ہوئے بولی
خود کو اذیت دے کر دیکھا ہے ____!!!
درد نہیں ہوتا جب کوئی ہمدرد نہیں ہوتا ___!!!
بات مکمل کرتے وہ لنگڑاتے ہوئے ایک طرف بڑھ گئی تھی
یہ آج کل کے ٹین ایج بچے بھی نا
سعدیہ نے جھنجلاتے ہوئے شیر حیدر کی طرف دیکھا
جسکا سرخ و سفید چہرہ سفید ہو چکا تھا
جیسے کسی نے خون کا آخری قطرہ تل نچوڑ لیا ہو؟؟
اور جس کی حیرت سے پھٹی نظریں اس لڑکی کے پائل والے زخم پاؤں پر تھی جو ایک پل کو پارک میں بنی سنگ مرمر کی روش کو رنگتا تو دوسرے ہی لمحے بارش اسکے نقوش کو مٹاتی چلی جاتی تھی
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...