گیٹ کھلا اور گاڑی سیدھی اندر چلی گئی۔ اونچی خاردار دیواروں کے اندر کی دنیا بہت الگ تھی۔ باہر سے دیکھنے میں جو قید خانہ لگ رہا تھا اندر سے ماحول کافی مختلف تھا۔ کافی بڑے حصے پہ گھاس لگی ہوئی تھی۔ کچھ بینچیں لگی ہوئی تھیں ان میں سے کچھ بینچیں ٹوٹی ہوئی بھی تھیں۔ ایک طرف چھوٹی عمارت تھی جس پہ مینجمنٹ بلاک لکھا تھا۔ دوسری دو منزلہ عمارت ہوسٹل کی طرح تھی اور کافی بڑی تھی۔ وہاں گیٹ پہ ایک لیڈی کانسٹیبل بیٹھی تھی اور دو تین چھوٹے بچے کھیلتے نظر آرہے تھے۔مینجمنٹ بلاک کے پاس ایک بندہ پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ ساتھی پولیس والے نے اتر کے اس سے دعا سلام کی۔ لگ رہا تھا کہ ان کا آپس میں ملنا ہوتا رہتا ہے۔
“میڈم بیٹھی ہیں؟”
“ہاں ہیں تو مگر جانے والی ہیں۔ ویسے بھی مسئلہ کیا ہے انٹری تو حمید بھائی نے کرنی ہے میڈم ہوں یا نا ہوں۔”
“نہیں یار کیس الگ ہے تھوڑا، لڑکی کچھ بتا ہی نہیں رہی۔ جج کے آرڈر ہیں کہ اس کا فورا فزیکل اور مینٹل چیک اپ کرا کے دو دن میں رپورٹ پیش کرنی ہے۔ میڈم بیٹھی ہونگی تو جلدی نمٹ جائے گا کام۔ حمید بھائی( کلرک) ٹال دیتے ہیں پھر ہمارے گلے میں پڑتی ہے فلم۔ پولیس والوں پہ ویسے ہی نظر ہوتی ہے سب کی، کب ہم کوئی غلطی کریں اور کہا جائے یہ تو ہوتے ہی ایسے ہیں۔”
“ہاں تو جاو جلدی باتیں کرنے میں کیوں لگ گئے۔”
اتنی دیر میں دو لیڈی کانسٹیبل بسمہ کو اندر لے گئیں۔ یہ پولیس والا بھی جلدی جلدی قدم بڑھا کے ان کے پیچھے پیچھے مینجمنٹ بلاک کی طرف بڑھ گیا۔
ایک لیڈی کانسٹیبل ایک کمرے میں چلی گئی جو نسبتا بڑا کمرا تھا اورباہر اسسٹنٹ ڈائریکٹر دارالامان کی تختی لگی تھی۔ تھوڑی دیر بعد باہر آکر وہ بسمہ کو بھی اندر لے گئی۔ سامنے ہی ایک ادھیڑ عمر خاتون بیٹھی تھیں جن کے بادامی رنگ کے باب کٹ بال دیکھ کر اندازہ ہورہا تھا کہ رنگے گئے ہیں۔ اپ ٹو ڈیٹ قسم کی ڈریسنگ میں ملبوس خاتون کی امارت پہلی ہی نظر میں مرعوب کرنے والی تھی۔
“ٹھیک ہے بیٹا آپ لوگ باہر بیٹھو میں اس بچی سے بات کر کے آپ لوگوں کو بلاتی ہوں”
میڈم کا لہجہ نرم ضرور تھا مگر اپنی سیٹ کی اتھارٹی سے بھرپور تھا۔ لیڈی کانسٹیبل نے بسمہ کو میڈم کے قریب والی کرسی پہ بٹھا دیا اور خود باہر چلی گئی۔
“بیٹا آپ بالکل پریشان نا ہوں آپ محفوظ جگہ پہ ہیں۔ آپ کو اپنا نام یاد ہے؟”
بسمہ نے خالی خالی نظروں سے میڈم کو دیکھا۔
“آپ گھر سے کیوں نکلی ہو؟ اچھا ایسا کرو میں جو پوچھوں اس کا ہاں یا نا میں جواب دیتی جاو اور پریشان نا ہو ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔”
بسمہ نے کھوئے کھوئے سے انداز میں ہاں میں سر ہلا دیا
اس کے بعد وہ جو پوچھتی رہیں بسمہ اسی طرح ہاں میں سر ہلاتی رہی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا پوچھ رہی ہیں۔
“بیٹا آپ کسی سے شادی کرنا چاہتی ہیں؟ اس نے دھوکا دیا آپ کو؟ گھر والے ماریں پیٹیں گے؟”
میڈم نے بیل بجا کر پولیس والی اور کلرک کو بلایا۔ بسمہ کو باہر بھیج کر کلرک سے کہا
“ہاں حمید وہی مسئلہ ہے روٹین والا گھر سے پسند کی شادی کے لیئے نکلی ہے مگر وہ بندہ چھوڑ کے چلا گیا۔ ہوسکتا ہے کچھ کیا بھی ہو اس کے ساتھ۔ بس لڑکی نے زیادہ اثر لے لیا یاہوسکتا ہے ابھی ڈر کی وجہ سے ڈرامہ کر رہی ہو۔ آپ چھوٹی سی انیشل (ابتدائی) کیس ہسٹری بنا لو اور لیٹر بنا کے مجھ سےسائن لے لو اور ساتھ نوشین کو بھیج دو اسی گاڑی میں سول سے اس کا ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس، پریگنینسی اور مینٹل ٹیسٹ کروا کے آجائے ابھی۔”
“جی میڈم”
اسی وقت بسمہ کو دوبارہ اسی پولیس وین میں شہر کے سول اسپتال لے جایا گیا چند گھنٹے ٹیسٹ میں لگے کچھ باتیں لیڈی ڈاکٹر نے اسی وقت بتادیں اور لکھت میں بھی دے دیں فائنل رپورٹ ارجنٹ بھیجنے کا کہہ کر وہ لوگ واپس دارلامان آگئے۔
میڈم اس وقت تک جا چکی تھیں۔ نوشین جو بسمہ کے ساتھ گئی تھی آکر حمید کو ہی تفصیل بتانے لگی۔
“حمید بھائی لڑکی امید سے تو نہیں ہے مگر کنواری بھی نہیں ہے۔ عمر سے لگ رہا ہے شادی شدہ تو نہیں ہوگی۔ کچھ کر کے ہی آئی ہے۔ چلیں باقی رپورٹ کل آئے گی۔ سائیکاٹرسٹ نے کہا ہے کسی صدمے کہ وجہ سے یہ حال ہے سکون کی گولیاں دیں ہیں اور کہا ہے یہ کھلا کر سلا دیں اٹھے گی تو بہتر ہوگی۔ اگر بہتری نا آئے تو دوبارہ لا کر دکھانے کے لیئے کہا ہے۔”
“آج کل لڑکیوں کو اچھا طریقہ ملا ہے کچھ بھی کر کے دارالامان آکر پڑ جاتی ہیں۔ نا ماں باپ کی عزت کی فکر نا اپنی عزت کی۔ قانون کا غلط فائدہ اٹھاتی ہیں۔ چلو خیر ہمیں کیا ہم تو اپنا کام کرتے ہیں، اسے برابر کمرے میں بٹھاو میں کیس بنا کر اس کا انگوٹھا لگوالوں تم اسے لے جانا اس کے کمرے میں۔ روم نمبر 14 والی ایک لڑکی گئی ہے نا دو دن پہلے؟ اسی کا بیڈ دے دو اس کو۔” کلرک کام بھی کرتا جارہا تھا اور اپنے بنائے ہوئے اندازے کی بنیاد پہ بسمہ کے کردار کی دھجیاں بھی اڑا رہا تھا ان کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ ان کے لیئے کسی لڑکی کے کردار کے بارے میں یہ باتیں کرنا روز کا معمول ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے انٹری وغیرہ کر کے بسمہ کا انگوٹھا لگوا لیا۔ جتنی دیر بسمہ برابر والے کمرے میں بیٹھی کوئی تین سے چار خواتین آ آ کر جھانک کر گئیں۔ شاید اسٹاف کی خواتین تھیں۔ پھر انہی جھانک جھانک کے جانے والی عورتوں میں سے ایک نوشین کے ساتھ اسے بڑی عمارت لے جانے لگی رستے میں وہ دونوں باتیں بھی کرتی جارہی تھیں۔
“دیکھو ذرا کتنی پیاری ہے۔ بس قیامت کی نشانیاں ہیں آج کل کی لڑکیاں اپنی شکل کی زعم میں اپنا آپ برباد کردیتی ہیں۔” بسمہ کو ان کی کسی بات کا مطلب سمجھ نہیں آرہا تھا۔ آج پھر موسم خراب تھا گہرے بادل آگئے تھے۔ بسمہ سہمی سہمی نظروں سے سر اٹھا کر بار بار بادلوں کو دیکھ رہی تھی۔
ایک دم اس نے ساتھ چلتی دونوں خواتین میں سے ایک کا بازو پکڑ لیا۔
“جلدی اندر چلیں۔ ورنہ باسط مجھے نکال دیں گے۔ بارش ہونے والی ہے مجھے بارش سے ڈر لگتا ہے۔ ہم اندر کمرے میں چل کر دروازہ بند کرلیں گے تاکہ باسط مجھے نکال نا دیں”
دونوں عورتیں ایک دوسرے کو دیکھ کے ہنس پڑیں نوشین نے دوسری عورت کو مخاطب کیا
“بس بھئی نرگس ایک پاگل کی کمی تھی وہ بھی پوری ہوگئی۔ ہمارے دارالامان میں عورت کی ہر ورائٹی آگئی اب۔” پھر ہنس کے بسمہ سے کہنے لگی
“ہاں ہاں چلو ہم تمہیں کمرے میں ہی لے جارہے ہیں تم آرام سے سونا کوئی تمہیں نہیں نکالے گا۔” انہیں لگ رہا تھا کہ انہوں نے اس سے مناسب حد تک ہمدردی جتا دی ہے بس اتنا کافی ہے۔
وہ تینوں بڑی عمارت میں داخل ہوئیں تو اندر بہت ساری عورتیں ادھر ادھر آتی جاتی نظر آئیں۔ کچھ کی گود میں چھوٹے بچے تھے۔ کچھ ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں۔ ایک دو لڑکیوں نے کان سے لگا موبائل اپنے پیچھے چھپانے کی کوشش کی۔
نرگس اور نوشین سب کو نظر انداز کرتی ہوئی کمرہ نمبر 14 میں آگئیں۔ پیچھے پیچھے ایک ایک کرکے سب عورتیں جمع ہوتی جارہی تھیں جو کمرے کے دروازے سے جھانک جھانک کر دیکھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
“چلو لڑکیو رستہ چھوڑو اپنے کام میں لگو۔ کوئی تماشہ نہیں ہورہا۔ روز ہی نئی لڑکی آتی ہے اور تم لوگ روز اس کے سر پہ مجمع لگا کے کھڑی ہوجاتی ہو۔ اور شنو ادھر آو ہم اسے دوا کھلا کے جارہے ہیں تو یہ سو جائے گی تم اپنی بیٹی کو لے کر اسی کے ساتھ بیٹھ جاو کمرے کی کنڈی لگا کے، کسی اور کو اندر نا آنے دینا۔ کوئی آئے تو پھر بتانا پھر میڈم دیکھ لیں گی اسے۔”
نوشین نے پاس کھڑی ایک لڑکی سے کہا جو عمر میں تو بیس بائیس کی لگ رہی تھی۔ گود میں چند ماہ کی بیٹی بھی تھی مگر چہرے مہرے سے ذمہ دار لگ رہی تھی۔
“جی باجی آپ فکر نا کریں میں خیال رکھوں گی اس کا۔ نام کیا ہے اسکا ویسے؟”
“نام وام تو اس نے ابھی تک کسی کو بھی نہیں بتایا تھوڑی یوں ہی سی ہے۔ پولیس کو کل رات سڑک پہ گھومتی ملی۔ اب واللہ عالم گھر والوں نے نکال دیا یا خود بھاگی۔” نوشین نے پاگل ہونے کا اشارہ کیا۔ “دماغ کے ڈاکٹر نے کہا ہے سو کے اٹھے گی تو شاید بہتر ہو۔ بس اللہ مدد کرے اس کی۔”
انہوں نے بسمہ کو دوائیں کھلائیں اور لٹا دیا۔ بسمہ بادلوں کی آواز پہ بار بار سہم رہی تھی۔ ان دونوں کے جانے کے بعد شنو بیٹی کو لے کر بسمہ کے پاس بیٹھ گئی۔
“کیا نام ہے تمہارا؟ پریشان کیوں ہو؟”
“بارش ہوجائے گی۔ مجھے بارش سے ڈر لگتا ہے۔ تم فائزہ ہو نا۔ فائزہ تم مجھے اکیلا چھوڑ کے چلیں گئیں دیکھو مجھے باسط نکال دیں گے ابو نے پیسے نہیں دیئے نا۔ مجھے بچا لو۔” بسمہ نے شنو کے ہاتھ سختی سے پکڑ لیئے۔ شنو نے گھبرا کر ہاں میں سر ہلا دیا۔ بسمہ نے شنو کے کندھے پہ سر رکھ دیا وہ کچھ دیر سسکتی رہی پھر دواوں کے اثر سے سو گئی۔ شنو نے اسے سیدھا کر کے لٹایا اور برابر والے بیڈ پہ بیٹی کو لے کر بیٹھ گئی۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد بسمہ نیند میں سسکیاں لینے لگتی ہلکی آواز مین کچھ بڑبڑاتی بھی تھی شنو چونک کے اسے دیکھتی مگر وہ گہری نیند میں تھی۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ ایک گھنٹے تک تو شنو بیٹھی رہی پھر اکتا گئی دروازہ کھول کے باہر چلی گئی اور باہر سے کنڈی لگادی۔ کام وام نپٹا کر گھنٹہ ڈیڑھ بعد واپس آئی تو بھی بسمہ سو ہی رہی تھی۔ وہ پھر اس کے پاس بیٹھ گئی۔ بیٹی کو دودھ پلا کے سلا دیا اور خود ایک قمیض کاڑھنے لگی۔ تقریبا دو گھنٹے مزید ایسے گزر گئے باہر بارش تیز ہوگئی تھی۔ بادل گرجتے تو بسمہ نیند میں ہی ڈر جاتی۔ رات زیادہ ہونے لگی تو کمرے میں رہنے والی ایک اور لڑکی دروازہ بجانے لگی۔ شنو نے آہستہ سے دروازہ کھول کے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کے خاموشی سے اندر آنے کا اشارہ کیا۔
“نشہ کر کے آئی ہے کیا سوئے جارہی ہے”
لڑکی نے دبی آواز میں پوچھا
“دوا کھلائی ہے نوشین باجی والوں نے۔ تم بھی چپ چاپ سو جاؤ۔ سو کر اٹھے گی تو ٹھیک ہوجائے گی۔”
لڑکی نے کندھے اچکائے اور اپنے بیڈ پہ لیٹ گئی۔
کچھ دیر بعد بسمہ کے آنسو بھی بند ہوگئے وہ کافی پرسکون سو رہی تھی اب۔ باہر بارش ہلکی ہوگئی تھی۔ تقریبا رات کے تین بجے اس کی آنکھ کھلی کمرے میں ملگجا اندھیرا تھا باہر سے لائٹس کی ہلکی روشنی اندر آرہی تھی۔ بسمہ کو پہلے سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے اس کے ذہن میں اپنے میکے سے نکلنے کا وقت آگیا ایک دم سارا واقعہ فلیش بیک کی طرح دماغ میں تازہ ہوگیا اسے یہاں تک تو یاد آیا کہ وہ گھر کے دروازے پہ بیٹھی تھی اس کے بعد کا کچھ یاد نہیں تھا وہ گھبرا کے اٹھی۔
“میں کہاں ہوں” وہ ایک دم گھبرا کے گھٹی گھٹی آواز میں بولی۔ شنو اس کی آواز سن کے جاگ گئی شاید چھوٹی بیٹی کی ماں ہونے کی وجہ سے ہلکی سی آواز پہ جاگنے کی عادت ہوگئی تھی اسے۔ وہ ایک دم اٹھ کے بسمہ کے پاس آئی
“آپ کون ہیں؟ میں کہاں ہوں؟ مجھے گھر جانا ہے۔” وہ گھبرا کے رونے لگی۔
شنو نے اس کا ہاتھ پکڑ کے تسلی دی۔
“میں شنو ہوں۔ تم پریشان مت ہو یہاں کوئی تمہیں تنگ کرنے نہیں آئے گا۔”
“مگر میں ہوں کہاں یہ کونسی جگہ ہے”
شنو کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ اسے بتائے یا نہیں کہ یہ دارالامان ہے۔ اسے بھی پتا تھا کہ کہنے کو یہ امان کی جگہ کہلاتی ہے مگر جو لڑکی یہاں آجاتی ہے ہمیشہ کے لیئے اس کا کردار مشتبہ ہوجاتا ہے۔ وہ بسمہ کی جو حالت دیکھ چکی تھی ایسے میں وہ نہیں چاہتی تھی کہ دوبارہ وہ اسی ذہنی حالت میں چلی جائے۔
“تمہیں اپنا نام یاد ہے”
بسمہ نے سر ہلایا
“بسمہ۔۔۔ بسمہ عبدالباسط رانا۔ باسط میرے ہسبینڈ ہیں۔ آپ پلیز بتائیں نا میں کہاں ہوں”
“بسمہ تم محفوظ جگہ ہو۔ پریشان مت ہو یہاں صرف عورتیں ہیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پینچائے گا۔”
“مگر میں اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔”
“دیکھو رات کافی ہورہی ہے۔ تمہیں پولیس یہاں چھوڑ کے گئی ہے صبح آکر وہ تمہیں لے جائیں گے تمہارے گھر۔”
شنو کافی دیر اسے جھوٹی سچی تسلیاں دے کر سمجھاتی رہی دوسری لڑکی بھی جاگ گئی۔ بسمہ کے شور پہ وہ کافی ناراض لگ رہی تھی۔ بسمہ خاموش تو ہوگئی مگر بیڈ کے سرہانے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ شنو دوبارہ بیٹی کے پاس جاکر لیٹ گئی۔ شنو کے سونے تک بسمہ یونہی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ رک رک کر اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
بسمہ کی نظریں کھڑکی سے دکھتے بلب پہ تھیں۔ یہاں تک کہ صبح کے اجالے نے اس کی روشنی سمیٹ کر ایک پیلے نقطے تک محدود کردی ۔ کمرے سے باہر ہلکی پھلکی چہل پہل محسوس ہونے لگی۔ کچھ دیر بعد شنو بھی جاگ گئی۔ دوسری لڑکی سو ہی رہی تھی۔ اس نے سب سے پہلے اٹھ کر بیٹی کو دودھ پلایا۔ پھر دوبارہ سلا دیا۔ وہ باہر جانے لگی تو کچھ خیال آیا مڑ کے بسمہ کو آواز دی
“سنو” اس نے ذہن پہ زور ڈالا “بسمہ؟۔۔ چلو منہ دھو آئیں تو ناشتہ لینے چلیں گے۔”
“پولیس کب آئے گی مجھے لینے”
“ابھی تو آفس والے بھی نہیں آئے، 9 بجے سب آتے ہیں پھر ہی پولیس آتی ہے۔ اتنی دیر میں ہم ناشتہ کر لیں گے۔ پتا نہیں تمہارے لیئے ڈبل روٹی ہو یا نہیں؟ اصل میں شام والی باجی آتی ہیں تو روز لڑکیوں کی گنتی کر کے صبح ناشتے کی ڈبل روٹی منگاتی ہیں۔ میں بھول گئی کہ انہیں تمہارا بتا دوں۔” پھر اسے کچھ خیال آیا
“میرا نام شہنیلا ہے مگر سب شنو کہتے ہیں۔ پہلے تین سال رہ کے گئی ہوں دارالامان پھر ایک این جی او نے ایک جگہ شادی کروا دی آٹھ نو مہینے کے بعد شوہر نے گھر والوں کے دباو میں آکر چھوڑ دیا تو پھر یہیں آگئی۔ یہ بھی یہیں ہوئی” اس نے اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کیا۔
” تمہارے گھر والے نہیں ہیں” بسمہ نے پوچھا
“سب ہیں مگر ان کے لیئے میں مر گئی ہوں۔”
“کیوں”
” میں اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتی تھی اس لڑکے کے لیئے گھر بھی چھوڑ کے نکلی بس اسٹینڈ پہ پتا نہیں کتنے گھنٹے بیٹھی رہی مگر وہ لڑکا نہیں آیا جب رات ہوگئی تو پولیس پکڑ کے یہاں چھوڑ گئی۔”
شنو کی بات سن کر بسمہ کو اس پہ افسوس بھی ہوا اور حیرت بھی۔ شنو کو دیکھ کر بالکل نہیں لگتا تھا کہ وہ اس قسم کی لڑکی ہوگی۔
بسمہ کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا ناشتے کا مگر بیٹھے بیٹھے وقت نہیں گزر رہا تھا۔ وہ منہ ہاتھ بھی دھونا چاہتی تھی۔ وہ اور شنو باہر نکل آئیں۔ کل کا تو اسے کچھ یاد نہیں تھا اب باہر نکلی تو لگا پہلی دفعہ سب کچھ دیکھا ہے۔ انگلش کے حرف ایل سے مشابہہ عمارت میں ایک طرف کمرے بنے تھے اور سامنے راہداری جس پہ آدھی دیوار تھی اور باقی چھت تک گرل لگی ہوئی تھی۔ یہ گرل ہوا دار ہونے کے باوجود قید کا احساس دے رہی تھی۔ دیکھنے میں اندازہ ہورہا تھا کہ اوپر نیچے ملا کر تقریبا 40 سے زائد کمرے ہوں گے اور ہر کمرے میں تین سے چار بیڈ نظر آرہے تھے۔ کچھ عورتیں ابھی بھی سو رہی تھیں کچھ اپنے بچوں کو سنبھال رہی تھیں کچھ ایک دوسرے سے باتیں کر رہی تھیں۔ بسمہ نے کچھ عورتوں کو موبائل پہ بات کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ کمرے کے کونے میں بیٹھ کر، کسی دیوار سے ٹیک لگائے۔ گرل کی طرف منہ کر کے۔ دیکھنے میں ہی لگ رہا تھا کہ وہ کوئی پرائیویٹ بات کر رہی ہیں۔ کچھ عورتیں صاف ستھری تھیں اور پڑھی لکھی بھی لگ رہی تھیں۔ کچھ کے حلیے بہت میلے کچیلے تھے۔ کچھ نے بہت سلیقے سے دوپٹہ سر پہ اوڑھا ہوا تھا اور کچھ ایسے گھوم رہی تھیں جیسے اکیلی ہوں۔ شنو تھوڑا تھوڑا سب کے بارے میں بتاتی جارہی تھی۔
“یہ دو مہینے پہلے آئی ہے اس کو اس کے شوہر نے الزام لگا کے نکال دیا اب اس کے بدلے میں اسی کی بھتیجی سے اپنے بھائی کا نکاح کروایا ہے۔
یہ تین بچوں کے ساتھ آئی ہے شوہر مر گیا ہے سسرال والوں نے جائداد میں حصہ دینے کی بجائے گھر سے نکال دیا۔ میکے میں کوئی ہے نہیں۔
اس پہ سسر اور دیور کی غلط نظر تھی شوہر کو بتایا تو اس نے مار پیٹ کے گھر سے نکال دیا۔ گھر والوں نے بھی رکھنے سے انکار کردیا۔
اس کی گھر والوں نے پیسے لے کر تین بار شادی کروائی یہ اپنے دوسرے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے۔ گھر والوں نے طلاق بھی نہیں کروائی تھی۔ اب مقدمہ چل رہا ہے۔”بسمہ چلتے چلتے رک گئی اسے لگا ایک کمرے میں گل بانو کو دیکھا اس نے
“یہ کون ہے؟” بسمہ کی کیفیت عجیب تھی۔
یہ صفیہ ہے ، دونوں ماں بیٹیاں چھ مہینے سے ہیں یہاں۔ چچا نے کسی لڑکی سے بھاگ کے شادی کی تھی تو عوض میں اس کی شادی اسی (80)سال کے ایک بڈھے سے کر رہے تھے گھر والے، ماں اسے لے کر پولیس اسٹیشن پہنچ گئی ابھی 12 سال کی ہے یہ۔”
“یہ تو بہت چھوٹی ہے مگر” بسمہ دوبارہ آگے چلنے لگی
“یہاں شہر میں یہ عجیب بات ہے مگر گاوں وغیرہ میں تو لڑکی کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس کا نکاح کردیا جاتا ہے۔ اسے ملا کر چھ یا سات لڑکیاں تو ابھی بھی دارلامان میں ہیں جن کی عمر ابھی 15 بھی نہیں ہوئی اور یا تو نکاح ہوچکا ہے ایک یا دو بچے بھی ہیں۔ جیسے اسے دیکھو مہتاب کو۔ یہ ابھی 14 سال کی ہے تین سال پہلے اس کی شادی ہوگئی تھی۔ اب یہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہے تو گھر سے نکل آئی ابھی 7 مہینے کی امید سے ہے جب بچہ ہوگا تبھی مسئلہ حل ہوگا۔ اس کا مسئلہ اس لیئے بھی الجھا ہوا ہے کیونکہ اس کے نکاح کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہے۔ قانونی طور پہ اس عمر میں اس کا نکاح ہو ہی نہیں سکتا اب عدالت میں اس کا شوہر مکر گیا کہ اس سے تو میری شادی ہی نہیں ہوئی یہ کسی اور کا گناہ مجھ پہ لگا رہی ہے۔” بسمہ کو یاد آیا اس کے نکاح نامے پہ بھی اس کی عمر تین سال بڑھا کے لکھوائی گئی تھی۔
پھر اسے کچھ خیال آیا
“یہ دارلامان ہے؟”
شنو نےدل میں خود کو لعنت دی جوش میں آکر وہ بتا گئی جو وہ نہیں بتانا چاہتی تھی۔ اس نے صرف سر ہلا دیا۔ بسمہ کا چہرہ فق ہوگیا۔
وہ لوگ باتیں کرتے کرتے اب باتھرومز والی سائیڈ پہ آگئیں۔ یہاں بھی کافی رش تھا۔ یہ اوپر سے کھلا ایریا تھا دیواریں اونچی تھیں اور دو طرف باتھ رومز بنے ہوئے تھے کل ملا کے چھ ہر ایک کے ساتھ واش بیسن بھی تھا۔ ایک طرف بیٹھ کے کپڑے دھونے کی جگہ تھی۔ بسمہ ایک دم گم سم ہوگئی تھی۔ اس نے ایسے ہی منہ ہاتھ بھی دھویا۔ شنو کو اس کی ایک دم بدلی ہوئی کیفیت محسوس ہوئی تو ہاتھ پکڑ کے تسلی دی
“بسمہ تم یہاں محفوظ ہو۔ پریشان مت ہو انشاءاللہ تمہارا مسئلہ جلدی حل ہوجائے گا۔”
شنو نے اسے تسلی تو دے دی مگر خود اسے بھی اپنی بات پہ یقین نہیں تھا۔ یہاں آنا آسان تھا مگر نکلنا صرف ان عورتوں کے لیئے آسان تھا جن کی مدد کے لیئے کوئی باہر موجود ہو۔ اسے یہ بھی پتا تھا کہ ایک دفعہ اس چاردیواری میں داخل ہوجانے والی لڑکی ہمیشہ کے لیئے باہر والوں کے لیئے ناقابل قبول ہوجاتی ہے۔ حالانکہ یہاں کچھ نرالا نہیں تھا۔ بلکہ شنو کو تو یہ معاشرے کی ٹیسٹ رپورٹ لگتی تھی جیسے بندے کی شکل دیکھ کر سب ٹھیک لگ بھی رہا ہو تو ٹیسٹ رپورٹ اندر کا سب حال کھول کے دکھا دیتی ہے اسی طرح دارالامان میں آنے والا بندہ ذرا بھی شعور رکھتا ہو تو اس بیمار معاشرے کا صحیح حال سمجھ سکتا ہے۔ شنو نے سر جھٹکا۔ اسے بھی بسمہ کی طرح سوچتے رہنے کی عادت تھی۔ مگر وہ کر ہی کیاسکتی تھی سوائے سوچنے کے۔
وہ لوگ منہ دھو کر فارغ ہی ہوئی تھیں کہ پیچھے سے ان کے کمرے کی تیسری لڑکی آگئی اس کی گود میں شنو کی بیٹی تھی۔
“لو بھئی تمہارا باجا جاگ گیا۔ اور مجھے بھی جگا دیا۔”
“تو خالہ ہو دومنٹ سنبھال نہیں سکتیں اسے۔”
” خالہ سنبھال لیتی مگر پیٹ میں جنگ مچی ہوئی ہے، جلدی پکڑ اپنی بیٹی میں لیٹرین جاوں۔ وہ فورا شنو کو بچی پکڑا کر ایک کھلے باتھ روم میں گھس گئی۔
“چلو کچن اور کھانے کا کمرہ نیچے ہے” وہ لوگ سیڑھیاں اترنے لگیں تو شنو نے دوبارہ بتانا شروع کیا۔
“یہ ذکیہ ہے موڈی ہے بہت کبھی بہت خیال رکھنے والی کبھی منہ پہ بیستی کردینے والی۔ ویسے یہاں کا ماحول ہی ایسا ہے خوش ہوتی ہیں تو ذرا سی مٹھائی بھی نوالا نوالا سب میں بٹتی ہے اور ناراض ہوں یا جھگڑا ہوجائے تو ایک دوسرے کو بال پکڑ پکڑ کے مارتی ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کے لیئے جان قربان کرنے کو تیار کبھی ایسی بے مروت کے مرتے کو دوا کے لیئے دو روپے بھی نا دیں۔”
“یہ کیوں آئی ہے یہاں”
“اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ گھر والے مان نہیں رہے۔ لڑکا دوسری ذات کا ہے۔ ان کی اپنی برادری میں اس کی عمر کا کوئی ہے ہی نہیں اس کا رشتہ اس سے 8 سال چھوٹے لڑکے سے طے ہے۔”
شنو اسے مزید چھوٹی موٹی باتیں بتاتی رہی کہ یہاں دن میں 4 فیمیل اسٹاف ہوتا ہے 1 کچن کے سامان کی انچارج ہیں اور باقی تین دوسرے کام دیکھتی ہیں دو ماسیاں اور ایک سوئیپر دو کلرک ایک مالی اور ایک پیون، ایک پولیس والی بڑی عمارت کے گیٹ پہ اور ایک پولیس والا باہر مین گیٹ پہ رات میں بس ایک خاتون اور ایک چوکیدار ہوتے ہیں وہ خاتون سامان وغیرہ دیتی ہیں اور صبح ناشتہ ان کی نگرانی میں ملتا ہے یعنی چائے اور ڈبل روٹی۔ کچھ عورتیں جن کے پاس اپنے پیسے ہوتے ہیں وہ اپنی مرضی کا ناشتہ بھی پکا لیتی ہیں۔
“رات والی باجی بہت اچھی ہیں فاطمہ نام ہے ان کا۔ ابھی وہی ہوں گی کچن میں۔”
اتنی دیر میں وہ لوگ ایک بڑے سے کمرے میں پہنچ گئیں جس کے بیچ میں دو لمبی لمبی ٹیبل لگی ہوئی تھیں۔ کوئی نو دس عورتیں مختلف چیزیں کھا رہی تھیں عموما کے پاس چائے ڈبل روٹی تھی۔ اس کے سائیڈ پہ ایک اور کمرہ نظر آرہا تھا شنو اسے لے کر اسی کمرے میں چلی گئی تو اسے پتا چلا کہ یہ کچن ہے۔ کچن بھی عام گھریلو کچنز سے تو کافی بڑا تھا۔ بیچ میں اسکول میں استعمال ہونے والی ٹیبلز جیسی ایک لکڑی کی ٹیبل رکھی تھی جس پہ تین بڑے بڑے فلاسک رکھے تھے ساتھ ہی ایک چئیر پہ ایک ادھیڑ عمر خاتون سادے سے کپڑوں میں نماز کی طرح سر سے دوپٹہ لپیٹے بیٹی تھیں۔
“بسمہ یہ فاطمہ باجی ہیں یہاں کی سب سے اچھی باجی”
وہ خاتون مسکرا دیں
“اچھا بس مکھن نا لگاو آج سب سے آخر میں آئی ہو ناشتہ لینے۔”
“باجی رات سونے میں دیر ہوگئی تھی۔ پھر صبح اس کو تھوڑا دارلامان کا ٹور لگوایا سب سے جلدی جلدی ملوایا۔ ابھی بھی کافی عورتیں رہ گئی ہیں ملنے سے۔ نخرے پیٹیوں سے تو ملوایا ہی نہیں۔ کچھ نظر نہیں آئیں۔ یہ بسمہ ہے کل جب آپ کی ڈیوٹی شروع ہوئی تو یہ سو رہی تھی میں بھی بھول گئی بتانا۔ اس کے لیئے ڈبل روٹی نکل آئے گی؟ نہیں تو میں اور یہ آدھی بانٹ لیں گے”
“اچھا یہ ہے وہ بچی کل مجھے نرگس نے بتایا تھا مگر اسے نام نہیں پتا تھا۔ اسی لیئے میں نے اس کے حساب سے منگا لی تھی ڈبل روٹی۔”
پھر شفقت سے بسمہ کی ٹھوڑی ہلکے سے چھوئی
“بیٹا اب طبیعت کیسی ہے”
ان کے اتنے پیار سے پوچھنے پہ بسمہ کے گلے میں آنسووں کا گولا سا اٹکا۔ اس نے بس سر ہلا دیا۔
پھر خود پہ تھوڑا قابو پا کر پوچھا
“شنو کہہ رہی تھی 9 بجے تک پولیس آکر مجھے گھر پہنچا دے گی؟”
“بیٹا ابھی تو کسی کو آپ کا ایڈریس ہی نہیں معلوم۔ پہلے آپ کی اسٹیٹمنٹ لکھی جائے گی۔ کل آپ کی ٹیسٹ رپورٹس اور بیان کے ساتھ آپ کو عدالت لے کر جائیں گے۔ پھر جج جو فیصلہ کرے۔”
“مجھے اپنے گھر کا رستہ پتا ہے مجھے چھوڑ دیں تو میں خود چلی جاوں گی۔”
“دیکھو گڑیا یہ حکومت کا ادارہ ہے اور شیلٹر ہوم ہے عورتوں کی حفاظت کے لیئے۔تو عورتوں کے آنے جانے کی اجازت عدالت سے ہی لینی پڑتی ہے۔ ہمیں تونہیں پتا نا کہ کس بچی کو جان کا خطرہ ہے تو بس ہم آرڈر پہ چلتے ہیں۔” بسمہ نے سمجھنے کے انداز میں سر ہلا دیا۔ اتنی دیر میں شنو نے اپنی بیٹی فاطمہ باجی کو تھمائی اور چائے اور ڈبل روٹی نکال لی۔ بسمہ خاموشی سے چائے کے ساتھ ڈبل روٹی کھانے لگی شنو مسلسل فاطمہ باجی کو کل کے قصے سنا رہی تھی۔
“فاطمہ باجی کل تو طاہرہ اور چھوٹی میں زبردست جنگ ہوئی۔ طاہرہ نے چھوٹی کا چارجر لے لیا تھا اور اس کی پن ٹیڑھی ہوگئی۔”
” توبہ ہے شنو بری بات ہے تم نے ان کا جھگڑا ختم کروانا تھا نا آکر مجھ سے غیبت کر رہی ہو۔”
“اللہ نہیں باجی غیبت کرنے کے لیئے تھوڑی بتایا اس لیئے بتایا کہ آپ جھگڑا ختم کروا دیتی ہیں۔ باقی تو بس پرس بغل میں دبائے ادھر ادھر گھومتی رہتی ہیں۔”
“اچھا وہ تو غیبت نہیں تھی اور یہ جو اب کی وہ۔” فاطمہ باجی نے پیار سے گھورا اسے
“آپ سمجھائیں نا چھوٹی کو اتنی اتنی سی چیزوں کے لیئے اتنا جھگڑا کرتی ہے۔”
“بیٹا وہ بچاری بھی کیا کرے ایک یہی موبائل تو یہاں کی بچیوں کے لیئے ایک آسرا ہے اپنے گھر سے دور اجنبیوں کے درمیان تو بچیاں ویسے ہی ہول ہول کے آدھی ہوجائیں۔” پھر بسمہ کو بتانے لگیں
“اصل میں موبائل کی اجازت نہیں ہے یہاں۔ مگر میڈم زیادہ سختی نہیں کرتیں۔ بچیاں بہت گھبرا جاتی ہیں۔ گھر والوں سے تھوڑی بات چیت ہوتی رہتی ہے تو تسلی رہتی ہے انہیں۔”
بسمہ نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔ وہ لوگ ناشتہ کر ہی چکی تھیں شنو نے دونوں کپ دھو کر الماری میں رکھے پھر بیٹی فاطمہ باجی سے واپس لے لی۔ فاطمہ باجی بھی اٹھ گئیں۔
“چلو بھئی میری بھی چھٹی کا وقت ہوگیا۔ بانو بھی آگئی ہوگی۔
“آئے ہائے باجی بانو باجی تو اتنا رلا رلا کر چیزیں دیتی ہیں مجھے بالکل اچھی نہیں لگتیں۔ آپ اپنی ایک اور فوٹو اسٹیٹ کروا لیں دن میں بھی آپ رات میں بھی آپ کتنا مزا آئے گا۔”شنو کے مزاحیہ انداز پہ فاطمہ باجی اور بسمہ دونوں ہی ہلکے سے مسکرا دیں۔ شنو کی اس طرح کی باتوں پہ عموما دیکھنے والے یہ سمجھتے تھے کہ یہ دارلامان میں بہت خوش ہے مگر یہ صرف وہی جانتی تھی کہ اس کی عموما راتیں جاگ کے گزرتی تھیں پہلے تو صرف اپنا بوجھ تھا اب بچی کا بھی۔
فاطمہ باجی اپنا سامان اٹھا کر باہر نکلیں پیچھے پیچھے یہ دونوں بھی ہال سے باہر نکل آئیں۔
“شنو یہ لڑکیاں موبائل کے لیئے اتنی جذباتی کیوں ہیں؟”
“بسمہ ایک سیدھا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لڑکوں سے دوستیوں کے لیئے مگر یہ آدھا سچ ہوگا۔”
“کیا مطلب”
” مطلب یہ کہ دارلامان سے نکلنا صرف اس کے لیئے ممکن ہے جس کے گھر والے یا شوہر سپورٹ کرنے والا ہو۔ جس کے آگے پیچھے کوئی نا ہو اس کی ساری زندگی یہیں گزر جاتی ہے۔ ایسے میں ان لڑکیوں کو مجبورا باہر سپورٹ تلاش کرنی پڑتی ہے۔ جب کوئی لڑکی نئی آتی ہے تو عموما پرانی والی عورتیں اسے یہی مشورہ دیتی ہیں کہ یہاں سے نکلنا ہے تو یار ڈھونڈ لو کوئی۔”
“انہیں شرم نہیں آتی اتنا گھٹیا مشورہ دیتے ہوئے۔”
بسمہ کو ایک دم غصہ آگیا اتنا نامناسب مشورہ سن کے۔
“بسمہ سننے میں جتنا یہ تلخ ہے کرنے میں اس سے زیادہ مشکل مگر یہ عورتیں جو کچھ سہہ کر آئی ہیں اور جو کچھ سہہ رہی ہیں انہیں پتا ہے کہ یہ مشورہ انہوں نے نیک نیتی سے ہی دیا ہے۔ بس اپنی زندگی کی سختی ان کے لہجوں سے جھلکتی ہے اب۔ اصل میں مسئلہ صرف نکلنے کا نہیں ہے وہ تو تم عدالت مین بیان دو کہ تم اکیلی رہ سکتی ہو تو تمہیں آزاد کردیا جائے گا۔ مگر جب ہاتھ میں پیسا نا ہو رہنے کو گھر نا ہو۔ ہر مرد آپ کو آسان شکار سمجھ رہا ہو تو عورت کیا کرے۔ بہت سی ایسی بھی آئیں جو شروع میں دعوے کرتی ہیں کہ ہم مر جائیں گے مگرباہر نکلنے کے لیئے کسی لڑکےسے دوستی نہیں کریں گے۔ مگر چند ہی مہینے میں گھبرا جاتی ہیں۔ ورنہ خود سوچو کسی ایسے بندے پہ اعتبار کرنا کتنا مشکل ہے جسے کبھی دیکھا بھی نا ہو۔” بسمہ اگر یہاں صرف دیکھنے آئی ہوتی تو شاید پلٹ کے کہتی کہ کیا مسئلہ ہے رہنے میں حفاظت سے رہ رہی ہیں کھانے پینے کو سب میسر ہے۔ مگر وہ خود اتنی سے دیر میں اس ماحول سے گھبرا گئی تھی۔ اور سب سے بڑی گھبراہٹ ہے یہ تھی کہ وہ اپنی مرضی سے باہر نہیں جاسکتی تھی۔ شنو نے مزید بتایا
“عام جھگڑے تو روز کی بات ہیں مگر کبھی کبھی ایسے بھی حالات ہوجاتے ہیں کہ ان کی ہمتیں جواب دے جاتی ہیں۔ ابھی دو مہینے پہلے ایک عورت نوراں آئی تھی یہاں۔ ٹی بی کی مریض تھی۔ بہت غریب گھرانے سے تعلق تھا اور تقریبا آخری اسٹیج پہ تھی۔ اولاد کوئی تھی نہیں شوہر کی دوسری بیوی نے مار پیٹ کے گھر سے نکال دیا تو رشتہ دار یہاں چھوڑ گئے۔ اپنے بستر پہ پڑی کھانستی رہتی تھی اور خون تھوکتی رہتی تھی۔ بالکل کونے والا کمرہ دیا تھا اسے اور کوئی اس کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں تھی۔ ماسیاں کھانا رکھ آتی تھیں اس کے پاس۔ ایک دن جب کافی دیر اس کے کھانسنے کی آواز نہیں آئی تو پتا چلا کہ پتا نہیں کب مر گئی تھی وہ۔ پورا ایک دن اس کی لاش کمرے میں ایسے ہی پڑی رہی کیونکہ کوئی وارث آکر لے جانے کو تیار نہیں تھا۔ پھر اگلے دن ایدھی والے لے گئے لاوارثوں کی طرح دفنانے۔ اس کے بعد کئی دن تک کوئی عورت اس کمرے میں رہنے کو تیار نہیں تھی۔ کچھ عورتوں کا کہنا تھا انہیں اس کمرے میں نوراں بیٹھی روتی دکھائی دیتی ہے۔”
“کیاواقعی یہاں پہ اس کی روح ہے”
بسمی ایک دم خوفزدہ ہوگئی
“نہیں نہیں وہ بچاری زندگی میں کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکی مرنے کے بعد کیا بگاڑے گی۔ عورتوں کا اپنا خوف تھا۔ میڈم نے ان کی تسلی کے لیئے اس کمرے میں قرآن خوانی اور میلاد شریف کروائی اس کے بعد سے سب ٹھیک ہے۔ مگر تم بتاو ایسی موت کون مرنا چاہتا ہے۔ اس واقعے کے بعد لڑکیاں بہت ڈر گئی تھیں۔”
بسمہ گنگ سی سب سن رہی تھی۔ صبح تک اسے لگ رہاتھا کہ اس کی زندگی میں سب سے زیادہ تکلیفیں ہیں۔ مگر اب اسے احساس ہوا کہ دنیا میں کہیں زیادہ مسائل موجود ہیں۔ اور لوگ اس سے اپنی اپنی ہمت کے مطابق لڑ رہے ہیں۔
ایک دم اسے خیال آیا۔ وہ تو کبھی اپنے حالات سے نہیں لڑی۔ اگر باسط اسے نا نکالتا تو وہ کبھی خود سے اس گھر سے نا نکلتی۔ اب تک اس کا خیال تھا کہ بد چلنی کا الزام اتنا خوفناک ہے ایک عورت کے لیئے کہ وہ مرجائے گی مگر یہ الزام نہیں سہہ سکتی اور اب اسے اندازہ ہوا کہ اس الزام کے بعد بھی زندگی ہوتی ہے اور گزارنی پڑتی ہے۔
******۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔******
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...