آج روحانی ریسرچ اکیڈمی میں اسکی پہلی کلاس تھی۔۔ وہ کوریڈور میں چلتی ہوئی کلاس کی طرف آرہی تھی۔۔
کلاس پر لگے ایک بورڈ نے اسکو اپنی جانب کھینچا۔۔
(بشر کا عشق بشر۔۔۔ اور۔۔۔ روح کا عشق خدا ہوتا ہے)۔۔
بورڈ پر لکھے ہوے ان جملوں نے اسکے وجود کو ساکت کر دیا۔۔۔ وہ کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد کلاس کے اندر چلی گئی۔۔۔
مجھے بے حد خوشی ہے کہ آپ سب یہاں تشریف لاے۔۔ چونکہ آج آپ سب ہی کا پہلا دن ہے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ آج ہم کورس سے ہٹ کر کسی موضوع پر گفتگو کریں۔۔
تو آپ لوگ بتائیں کس موضوع پر بات کی جاے۔۔
سر شفقت علی اپنی بات مکمل کر کے کلاس میں موجود تمام شاگردوں کی طرف متوجہ ہوے۔۔۔
کلاس میں موجود تمام شاگرد ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔۔
گھبرائیں نہیں آپ سب۔۔ اپنے اندر کانفیڈینس پیدا کریں۔۔ ماشااللہ آپ سب ہی پڑھے لکھے بچے ہیں۔۔
شاگردوں کو گھبراتا دیکھ کر پروفیسر نے انکو موٹیویٹ کرنے کی کوشش کی۔۔
سر۔۔ میں کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔ حرمین نے ہاتھ کھڑا کیا۔۔
جی جی فرمائیں مس حرمین۔۔
سبھی اسٹوڈینٹ اسکی طرف دیکھنے لگے۔۔
سر باہر وہ جو بورڈ پر لکھا ہے۔۔۔ آپ اس بات کو زرا واضح کردیں۔۔۔ حرمین نے کہا۔۔۔
اووہ اچھا وہ (بشر کا عشق بشر۔۔۔ اور۔۔۔ روح کا عشق خدا ہوتا ہے)۔۔ گڈ اچھا ٹوپک ہے۔۔
دیکھیں بھئ یہ بات فانی اور لافانی کی ہے۔۔۔ اللہ سے ذیادہ بندے سے کوئی محبت کر نہیں سکتا۔۔ انسان کہ پاس جزبات ہیں اس لیے وہ اپنی زندگی میں شامل حال لوگوں سے محبت بھی کرتا ہے۔۔ لیکن ان سب لوگوں میں کوئی ایسا شخص بھی ضرور ہوتا ہے جس کی طرف ہمارا قلبی رحجان ذیادہ ہوتا ہے، جسے ہم عشقِ مجازی کہتے ہیں۔۔۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اکثر و بیشتر لوگ عشقِ مجازی کہ بعد ہی عشقِ حقیقی کے سفر پر چلتے ہیں؟؟؟
کچھ دیر رکنے کے بعد وہ دوبارا بولے۔۔
اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے کہ وہ اللہ کو پہچانے۔۔ اللہ کے عشق میں مبتلا ہوجاے۔۔لیکن یہ ممکن تب ہوتا ہے۔۔ جب انسان اپنی روح کو پہچانتا ہے۔۔ اپنی روح کو پہچاننے کے لیے اپنے اندر جھانکنا بہت ضروری ہے۔۔ لیکن جب بندا ہر چیز سے غافل ہو کر اپنے ہی جیسے انسان کی ذات میں گم ہوجاتا ہے تو وہ اپنی ذات سے بھی غافل ہو جاتا ہے۔۔ اور اللہ کو یہ بات بہت نا پسند ہے کہ اسکا بندہ اسی کی مخلوق سے عشق کر بیٹھے اور مخلوق کو بنانے والی اللہ کی ذات کو بھول جاے۔۔۔
اللہ کو یاد رکھنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کے کہ آپ صرف نماز، روزہ اور دیگر عبادات میں مشغول رہیں۔۔ یہ سب فرض ہیں جو ہر حال میں ادا کرنی ہیں۔۔
لیکن اللہ سے عشق صرف ظاہری عبادات سے نہیں ہوتا۔۔ قلب میں موجود قندیل جلانا پڑتا ہے۔۔ جس کی روشنی میں روح دکھائ پڑتی ہے اور روح پر غور کرنے سے اللہ کی ذات کو پہچانا جاتا ہے۔۔۔ انسان کا عشق انسان سے عشقِ فانی ہے۔۔ جو انسان کے مرنے کے بعد ختم ہوجاے گا۔۔ مگر روح کا عشق اللہ سے عشقِ لافانی ہے۔ جو مرنے کہ بعد بھی ختم نہیں ہوسکتا۔۔
کیونکہ موت گوشت پوست سے بنے اس جسم کو آتی ہے۔۔ روح تو اللہ کا امر ہے وہ دنیا سے جانے کہ بعد آسمان میں ذندہ رہتی ہے۔۔ جب انسان اللہ سے ذیادہ اپنے ہی جیسے انسان کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اللہ پاک اسکو اسی کے عشق میں توڑتا ہے۔۔ اور جب وہ کسی کے عشق میں ٹوٹ جاتا ہے۔۔ اسکی انا، اسکے تکبر، اسکے مان کو زوال آجاتا ہے۔۔ تب وہ ایک فقیر کی طرح اللہ کے در پر حاضری دیتا ہے۔۔۔
پھر اللہ کی محبت اسکی ٹوٹی پھوٹی ذات کو سمیٹتی ہے اور وہ عشقِ حقیقی کہ عروج پر جا پہنچتا ہے۔۔ اس ذات کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے جو لافانی ہے جسے کبھی زوال نہیں آے گا۔۔
سر لیکن اللہ پاک ہی دلوں کو نرم کرتا ہے اور دلوں میں محبت ڈالنے والا ہے تو پھر۔۔۔
کلاس کہ ایک اسٹوڈینٹ نے سوال کیا۔۔
بے شک اللہ پاک ہی دلوں میں محبت ڈالنے والا ہے لیکن اللہ نے انسان کو جزبات دیے ہیں تو ان پر قابو رکھنے کا اختیار بھی دیا ہے انسان کو۔۔ انسان ہی وہ مخلوق ہے جس کو اللہ نے چند اختیارات دیے ہیں۔۔اگر انسان اپنے جزبات پر قابو رکھے تو ایسا کبھی نہیں ہوتا۔۔ اور پھر جب انسان اللہ کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے تو عشقِ حقیقی دنیاوی محبت پر غالب آجاتی ہے۔۔ اللہ بندے کو اسکی محبت بھی دے دیتا ہے ۔۔ مگر بندے کے دل میں پھر اس شخص کہ لیے وہ جزبہ نہیں رہتا۔۔۔ وہ دوبارہ ملنے والی اپنی محبت کو صرف اللہ کے لیے اپناتا ہے۔۔ صرف اللہ کے لیے اس سے محبت رکھتا ہے۔۔۔
حرمین سر شفقت علی کی باتوں سے سوچ میں پڑگئ۔۔
______________________
تم اتنی جلدی کیسے آگے ابھی تو ایک ہفتہ ہوا ہے۔۔؟؟ تم نے تو کہا تھا نا کہ تمھیں ایک ماہ بھی لگ سکتا ہے۔۔۔ ابراہیم احمد نے ادھی بچی سگریٹ ایش ٹرے میں بجھاتے ہوے کہا۔۔
وہ صوفے پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے جب انہوں نے اصفر کو کمرے کی طرف جاتا دیکھا۔۔۔
وہ ڈیڈ جس بندے سے میں نے شوروم کے لیے جگہ لینے کی بات کی تھی۔۔ اس بندے کا کل وہاں ایکسیڈینٹ ہوگیا۔۔ بہت سیرئس حالت میں ہے وہ۔۔
اس لیے مجھے واپس یہاں آنا پڑا وہاں رکنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں تھا۔۔
اتنی جلدی دوسری ڈیل ہو بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔
اوو بہت برا ہوا یہ تو۔۔۔ چلو تم یہی رہ کر کوئی دوسری ڈیل کرلو۔۔۔ ابراہیم احمد نے اظہارِ افسوس کیا۔۔
ہاں۔۔ ابھی تو فی الحال میں شوروم جا رہا ہوں۔۔ دیکھتا ہوں کیا چل رہا ہے وہاں۔۔ اصفر نے کہا۔۔۔
____________________
شاپنگ بیگز کار کی پچھلی سیٹ پر رکھتی ہوئ اب وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے لگی تھی۔۔
وہ کسی شاپنگ مال سے شاپنگ کر کے نکلی تھی۔۔۔
کار ڈرائیو کرتے ہوے اسنے میوزک آن کیا۔۔۔
اووہ گوڈ۔۔ یہ کیا۔۔۔ اس ٹریفک کو بھی ابھی جام ہونا تھا۔۔ کار اسٹیئرنگ پر سر رکھتے ہوے وہ افسوس کر رہی تھی۔۔۔
یہ۔۔۔یہ تو اصفر ہے۔۔۔ ٹریفک جام کی وجہ سے وہ آس پاس دیکھ رہی تھی جب اسکو اپنی دائیں جانب کھڑی اصفر کی کار نظر آی۔۔ کار کی فرنٹ سیٹھ پر بیٹھا وہ سگریٹ پی رہا تھا۔۔
میں ابھی حرمین کو کال کرتی ہوں۔۔
ڈیش بورڈ سے مبائل اٹھا کر وہ حرمین کا نمبر ملانے لگی۔۔۔۔
_________________
شیشے کے سامنے کھڑی وہ اپنے بال سلجھا رہی تھی۔۔
وقار کو پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے آپی۔۔ ایک ہفتہ ہوچکا ہے نہ وہ کال پک کر رہا ہے۔۔نہ میسج کا جواب دے رہا ہے۔۔۔
وہ بالوں میں کنگا کرتی ہوئ کہہ رہی تھی۔۔
اچھا۔۔ اب تک تو وہ ٹھیک بھی ہوچکا ہوگا نہ۔۔ پھر۔۔۔
تمھاری کوئی لڑائ ہوئ ہے کیا؟؟ اسکے بیڈ پر بیٹھی شزا نے کہا۔۔
نہیں آپی۔۔۔ میری تو اس سے کوئی بات ہی نہیں ہوئ ہے۔۔۔ حرمین اب اپنے بال باندھ رہی تھی۔۔۔
یہ لو شفا کی کال آرہی ہے۔۔۔ شزا نے اپنے پاس رکھا موبائل اسکی طرف بڑھایا۔۔۔
ہیلو شفا کیسی ہو؟؟ حرمین نے بیڈ پر بیٹھتے ہوے کہا۔۔۔
حرمین مجھے تمھیں بہت ضروری بات بتانی ہے۔۔۔ شفا تیزی سے بولی۔۔
ہاں بتاو۔۔
حرمین اصفر ذندہ ہے۔۔۔ وہ اس وقت میرے سامنے ہے۔۔۔
شفا کی بات پر حرمین دوسری سانس نہ لے سکی۔۔
مجھے بھی یقین نہیں آرہا تھا مگر میں نے بہت غور سے دیکھا ہے وہ اصفر ہی ہے اور وہ گاڑی بھی اسی کی ہے۔۔۔
کیا۔۔۔یہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ حرمین بمشکل بول سکی۔۔۔
مجھے لگتا ہے کہ وقار نے ہم سے جھوٹ بولا ہے۔۔ شفا نے کہا۔۔۔
لگتا نہیں۔۔۔ ایسا ہی ہے شفا۔۔ تم ابھی مجھ سے ملو۔۔۔ مجھے ابھی وقار کے پاس جانا ہے۔۔۔ حرمین غصے کے عالم میں کھڑی ہوگئ۔۔
وقار بیٹا میں تمھارے ابو کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جا رہی ہوں۔۔ مجھے لگ رہا ہے میری شوگر بڑھ گئ ہے۔۔۔ شاہدہ نے کہا۔
وقار اس وقت اپنی الماری سے کپڑے نکال رہا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے لیکن جلدی آجائیے گا۔۔۔ کیونکہ مجھے حرمین کی طرف جانا ہے۔۔ اس نے ایک سوٹ نکال کر بیڈ پر رکھا۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔ ہم چلتے ہیں۔۔ شاہدہ کمرے سے نکل گئ۔۔۔
شاہدہ کو گے ابھی کچھ دیر ہی ہوئ تھی کہ دروازے کی بیل بجی۔۔۔
وقار اس وقت اپنے کپڑے استری کر رہا تھا۔۔ ڈور بیل کی آواز پر وہ بٹن بند کر کے دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔
ابھی اسنے دروازہ کھولا ہی تھا کہ حرمین اس پر جھپٹ پڑی۔۔ اسکا گریبان اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیے وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔ جھوٹ کیوں بولا؟؟؟؟؟؟
وقار اچانک خود پر ہونے والے حملے کی وجہ سے حرمین کو حونکوں کی طرح دیکھنے لگا۔۔
ک۔ک۔ک کیسا۔۔۔ جھوٹ۔۔؟؟ وہ ہکلا رہا تھا۔۔
جسٹ شٹ آپ۔۔۔ حرمین نے اسے پیچھے دھکیل کہ زور دار آواز میں کہا۔۔۔
دیکھو وقار تم اب ہم سے جھوٹ نہیں بول سکتے۔۔۔ اس لیے سیدھی طرح سے بتا دو کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔۔ حرمین کے پیچھے کھڑی شفا نے اس سے کہا۔۔
یہ کیا ہمیں کچھ بتاے گا شفا۔۔ اس بچارے کی تو یاداشت ہی چلی گئ ہے۔۔ حرمین وقار کو گھورتے ہوے بولی۔۔۔
وقار کی ہوائیاں اڑھ چکی تھیں۔۔۔
ہاں تو وقار تم شرافت سے بتانا پسند کروگے۔۔ یا میں تمھاری عزت کی دھجیاں اُڑاؤں۔۔۔ حرمین نے اسی طرح گھوتے ہوے بولا۔۔۔
حرمین میں تمھیں آج خود ہی سب کچھ بتانے والا تھا۔۔۔ وقار نے کہا۔۔
میں نے تمھاری شرافت کی داستانیں بہت سن لی ہیں۔۔ اب تم ذرا اپنی ذلالت کی داستان سناؤ۔۔ حرمین اس پر طنز کر رہی تھی۔۔۔
میں۔۔۔ سب بتاتا ہوں۔۔۔
کچھ دیر ہمت کر کے اسنے بولنا شروع کیا۔۔۔
جس دن ہمارا لاسٹ پیپر تھا اور ہم سب مال گے تھے۔۔ اس رات مال سے واپسی پر میں اصفر کے ساتھ گھر گیا تھا۔۔۔
حرمین کو وہ رات یاد آنے لگی۔۔۔
اس وقت راستے میں، میں نے اصفر سے تمھارا ذکر کیا۔۔ اور میں نے اسکو یہ ظاہر کیا کہ میں تمھاری کوئی حقیقت جانتا ہوں۔۔
پھر آہستہ آہستہ میں نے اسکو فرضی کہانی سنانی شروع کی۔۔۔ میں نے اس سے کہا کہ تمھارا کریکٹر ٹھیک نہیں ہے۔۔ تم اس سے پہلے مجھ سے اور مجھ سے پہلے کافی لڑکوں کے ساتھ ریلیشن رکھ چکی ہو۔۔۔۔
وقار کی بات پر حرمین اور شفا ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔۔۔
پھر۔۔ میں نے اسکو کچھ تصویریں دکھائیں۔۔
کیسی تصویریں؟؟؟؟؟ وقار زرا رکا تو حرمیں نے فوراً سوال کیا۔۔
وہ شاید تمھیں یاد ہو کہ۔۔ جب تم سے میں نے دوبارا دوستی کی تھی تو تمھیں ملنے کے لیے بلایا تھا۔۔ جب تم ملنے آی تب میرے ایک دوست نے تمھاری اور میری کچھ تصویریں اتاری جس کو میں نے اس رات اصفر کے سامنے پیش کیا۔۔۔ میں نے اصفر کو یہ بھی کہا کہ میں نے تم سے دوبارا دوستی صرف تمھارا سچ سامنے لانے کے لیے کی تھی۔۔۔
پھر میں نے تمھاری تصویروں کو اپنے ایک دوست کی تصویروں کے ساتھ ایڈٹ کیا۔۔ اور ان تصویروں کو اصفر کے سامنے کچھ اور ہی رنگ دے کر پیش کیا۔۔
میں نے اس رات اس کے دل میں اتنا زہر بھر دیا کہ اسنے تم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔۔
پھر دوسرے دن اسکی موت کا جھوٹ بول کر میں نے تمھیں اس سے دور کیا۔۔ اور تم سے جھوٹ بولنے کے بعد بھی میں اصفر سے ایک ہفتے تک لگاتار ملتا رہا۔۔ کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ کہی وہ تم سے کوئی رابطہ نا کرلے اس لیے میں مستقل اسکے دل میں زہر بھرتا رہا۔۔۔
اتنا کہ وہ تمھاری شکل سے بھی نفرت کرنے لگا۔۔۔ اسنے اپنا نمبر چینج کرلیا تا کہ تم کوئی رابطہ نا کر سکو۔۔ وقار کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا وہ سر جھکاے اپنے جرم کی کہانی بتا رہا تھا۔۔
دل تو چاہتا ہے کہ ابھی اسی وقت تمھیں شوٹ کردوں۔۔ حرمین سرخ چہرے کے ساتھ وقار کے چہرے پر نظریں جماے کہہ رہی تھی۔۔۔
تم نے حرمین اور اصفر کے بھروسے کا بہت ناجائز فائدہ اٹھایا ہے وقار۔۔۔ مجھے تم سے اس گھٹیا پن کی امید نہیں تھی۔۔۔ شفا نے سخت لہجے میں کہا۔۔
جن لوگوں کی برائیاں دنیا کے سامنے ظاہر ہوتی ہے نہ ان لوگوں سے دھوکے کا خطرہ نہیں ہوتا۔۔
خطرہ تو ان سے ہوتا ہے جو شرافت کا لباس پہنے اندر کے جانور کو چھپاتے ہیں۔۔ حرمین چبھتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
پلیز حرمین مجھے معاف کردو۔۔۔۔۔
پلیز۔۔۔ میں تمھیں حاصل کرنے کے جنون میں اندھا ہوگیا تھا۔۔
وقار اسکے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔۔۔
محبت اگر نواز دی جاے تو ملکیت ہوتی ہے۔۔۔ اور اگر چھینی جاے تو چوری۔۔۔ تم نے محبت کی چوری کی ہے۔۔ اسکی کوئی معافی نہیں۔۔۔
ہاں اب مجھ پر ایک احسان کردینا کہ میرے گھر پر اپنی امی سے کال کر وا کر یہ کہلوادینا کہ وقار کسی اور کے عشق میں مبتلا ہوچکا ہے اس لیے وہ یہ رشتہ ختم کر رہی ہیں۔۔۔ حرمین ہر جملے پر زور دے رہی تھی۔۔۔
وہ دونوں وہاں سے جا چکی تھی اور وقار فرش پر بیٹھا روتا رہا۔۔۔
________________________
میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میرا سب سے اچھا دوست مجھے دھوکا دیگا۔۔۔ حرمین بیڈ پر بیٹھے رو رہی تھی۔۔۔
یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا ہے کہ وقار ایسا کر سکتا ہے۔۔ اسکے برابر میں بیٹھی شفا نے کہا۔۔۔
اس منحوس کا نام مت لو اب حرمین۔۔ شزا بھڑک گئ۔۔۔
میری محبت میرے اتنے قریب تھی اور میں اس کو آسمانوں میں ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔ حرمین نیچے نگاہیں کرے کہہ رہی تھی۔۔۔
صبر رکھو حرمین پلیز۔۔۔ شفا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔
میں اسکی غیر موجودگی میں بھی اس سے وفا کرتی رہی اور وہ۔۔۔ اسکو مجھ پر بھروسہ ہی نہیں تھا۔۔۔
نہیں شفا۔۔۔ نہیں۔۔ وقار کا جتنا قصور ہے اتنا ہی قصور اصفر کا بھی ہے۔۔۔ محبت بھروسے کا نام ہے۔۔۔ جب تک ہماری محبت کمزور نہ ہو۔۔ تب تک کوئی غلط فہمی پیدا نہیں کر سکتا۔۔ اسکو محبت تھی ہی نہیں ورنہ وہ میرا اعتبار ضرور کرتا۔۔۔
شفا اور شزا خاموشی سے اسکی بات سن رہی تھیں۔۔ وہ دونوں افسوس کہ سوا کچھ کر بھی نہیں سکتی تھیں۔۔۔
(جب انسان اللہ سے ذیادہ اپنے ہی جیسے انسان کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اللہ پاک اسکو اسی کے عشق میں توڑتا ہے۔۔) اسے سر شفقت علی کی وہ بات یاد آی۔۔۔
میں اس شخص کی محبت میں سب کچھ بھول چکی تھی جو مجھ سے بے وجہ نفرت کرتا ہے۔۔ اور وہ ذاتِ الٰہی جو میرے دل کے سب سے ذیادہ قریب ہے میں اس سے کتنی دور تھی۔۔۔
اللہ بندے کے بہت قریب ہوتا ہے۔۔ مگر بندہ ہی اللہ سے دور ہوتا ہے۔۔۔
میں عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے درمیان بنی خلا میں سفر کر رہی تھی۔۔ نہ عشقِ مجازی مل رہا تھا نہ عشقِ حقیقی ۔۔ شاید اسی لیے اللہ نے مجھے اسکی محبت میں توڑ دیا۔۔۔
ایک ہی بار ٹوٹنے سے میری ذات کی کرچیاں ہوگئیں۔۔ تو وہ جو کسی کی محبت میں بار بار ٹھوکر کھاتے ہیں بار بار ٹوٹتے ہیں انکی تو ذات ہی فنا ہوجاتی ہوگی نہ۔۔
میں نے اسکو اسکی تمام برائیوں کے ساتھ قبول کیا اور اسنے مجھے ہی توڑ دیا۔۔ ایک بار بھی مجھ پر بھروسہ کرنے کا نہیں سوچا۔۔۔ وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپاے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔
تم کیوں رو رہی ہو حرمین۔۔ اب رونے کی باری اصفر کی ہے۔۔ کیونکہ جب اسکو حقیقت کا پتہ چلے گا تو وہ بھی ٹوٹ جاے گا۔۔۔ شفا اسکو گلے لگا کر کہنے لگی۔۔
________________________________
کہاں ڈھونڈوں میں اصفر کو۔۔۔ کہاں مل سکتا ہے وہ مجھے۔۔۔ وقار دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے صوفے پر بیٹھا تھا۔۔۔
اسکے گھر چلا جاتا ہوں۔۔ مگر اسکا ایڈریس کہاں سے نکالوں میں۔۔ وہ دماغ پر زور دے رہا تھا۔۔
ہاں۔۔ کالج کے ریجسٹر میں اسکے گھر کا ایڈریس ضرور ہوگا۔۔۔ بس سر مجھے اسکا ایڈریس دے دیں۔۔۔
ایک بار میری اصفر سے ملاقات ہوجاے تو پھر میں سب ٹھیک کردونگا۔۔ وہ خود کلامی کر رہا تھا۔۔
_________________________
موم میری ایک بہت اچھی ڈیل فائنل ہوگی ہے۔۔ میں کل صبح ہی حیدرآباد واپس جارہا ہوں۔۔
وہ خوشی سے چہک رہا تھا۔۔
wao that’s great۔۔ اللہ تمھیں کامیاب کرے بیٹا۔۔ کلثوم اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوے کہنے لگیں۔۔
وہ اس وقت گارڈن میں بیٹھی کتاب کا مطالعہ کر رہی تھیں۔۔۔
بس امی ایک بار میرا وہاں کام ہوجاے۔۔ وہ گارڈن میں چئیر پر بیٹھنے لگا۔۔
بیٹا ایک بات کرنی ہے مجھے تم سے۔۔۔ وہ مدھم آواز میں بولیں۔۔
جی بولیں۔۔۔
بیٹا تم اپنے ڈیڈ کو ایک موقع دے دو۔۔ وہ اتنے سالوں کے تمھارے ساتھ رکھے ہوے رویہ کی وجہ سے بہت شرمندہ ہیں۔۔ وہ خود کو بہت برا باپ سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
امی وہ میرے سوتیلے باپ ہیں۔۔ میں انکو باپ کی جگہ کیسے دے دوں جب انہوں نے مجھے اپنا بیٹا نہیں سمجھا۔۔۔ وہ اکھڑے لہجے میں بات کر رہا تھا۔۔۔
دیکھو بیٹا میں مانتی ہوں کہ انہوں نے تمھارے ساتھ بہت ذیادتی کی ہے۔۔ مگر اب جب انکو احساس ہوگیا ہے تو تم انکو ایک موقع دے دو ۔۔
اس قدر اپنا دل سخت نہ کرو۔۔ وہ نرم لہجے میں بات کر رہی تھیں۔۔۔
موم پلیز۔۔۔۔
میری محرومیوں کا اٰزالہ انکا زرا سہ افسوس نہیں کرسکتا۔۔۔ اس لیے پلیز۔۔۔آپ اس بارے میں مجھ سے بات نہ کریں۔۔ وہ روکھے لہجے میں کہتا ہوا وہاں سے اٹھ گیا۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...