یہ شعیب نامی لڑکا تمھارا دوست ہے؟؟ ابراہیم احمد نے کھانے کا لقمہ لیتے ہوے کہا۔۔۔
جی۔۔۔ہاں۔۔۔۔لیکن کیوں۔۔۔۔؟؟ اصفر کے بدن میں کرنٹ سا لگا۔۔۔۔
وہ دونوں کھانے کی میز پر بیٹھے ڈنر کر رہے تھے۔۔ جبکہ ملازمہ باقی کہ لوازمات میز پر سجا رہی تھی۔۔
میں کل اس لڑکی سے ملا تھا مجھے لگا کہ وہ یہ سب پیسوں کے لیے کر رہی ہے۔۔۔ اس لیے پیسے دے کر میں معاملہ نپٹالوں گا۔۔ مگر وہ لڑکی پیسے نہیں چاہتی۔۔۔۔ خیر مجھ سے ملاقات کہ بعد جب وہ جانے لگی تو میں نے اپنے ایک جاننے والے کو اسکے پیچھے لگایا تو پتہ چلا کہ وہ شعیب نامی لڑکے سے ملنے گی ہے۔۔ تب مجھے اس پر کچھ شک ہوا۔۔۔۔۔
اسکا مطلب کہ یہ سب شعیب کروا رہا ہے مجھے بدنام کرنے کے لیے۔۔۔۔ اصفر سوچ میں پڑگیا۔۔۔
اب تم مجھے اس شعیب کا اڈریس وغیرہ دو تاکہ میں اس کو اندر کروا سکو ورنہ یہ ہمارے لیے کوی بڑی مصیبت کھڑی کر سکتا ہے۔۔۔
نہیںں ڈیڈ۔۔۔ آپ کچھ نہیں کریں گے۔۔۔ اس کو میں خود سنبھال لوں گا۔۔۔ وہ کافی گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔۔ کیوں کہ اگر شعیب پکڑا جاتا تو اس کے بھی سارے کارناموں کا پتہ چل جاتا۔۔۔
Are you sure؟؟
تم واقعی سب سنبھال لوگے؟؟؟ انھوں نے قدرے حیرانگی سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔
جی ڈیڈ میں سنبھال لوں گا۔۔۔ وہ اپنی گھبراہٹ کو چھپاتے ہوے ان کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
that’s great۔۔
کیونکہ مجھے کل کام کے سلسلے میں دبئ جانا ہے تو اچھا ہی ہے تم یہ معاملہ خود ہی ہینڈل کرلو۔۔۔۔ وہ کھانا ختم کر چکے تھے۔۔۔
__________________________
یار مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔ وہ اپنے سامنے کی کرسی پر بیٹھے فرحان سے کہہ رہا تھا۔۔۔
ہاں بول یار کیا بات ہے۔۔۔ فرحان نے کافی کا سپ لے کر کہا۔۔۔ وہ دونوں ایک چھوٹے سے کافی شاپ میں بیٹھے تھے۔۔
مجھے شعیب کے بارے میں بتانا ہے۔۔۔ اصفر نے اسکو ساری کہانی سنائی۔۔۔۔
مطلب کہ شعیب نے اپن اوقات دکھا ہی دی۔۔۔۔ میں تم سے ملنا ہی چاہ رہا تھا مگر مجھے آسٹریلیا جانا پڑ گیا ورنہ تم ابھی اتنے پریشان نہیں ہوتے۔۔۔ فرحان نے اس سے کہا۔۔۔
کیا مطلب؟؟ یعنی کہ تم جانتے تھے کہ اسکا ارادہ کیا ہے؟؟ اصفر کو کچھ تشوش ہونے لگی۔۔۔
ذیادہ وقت نہیں ہوا۔۔۔ قریب کی ہی بات ہے کہ شعیب نے تمھیں بدنام کرنے کا پلین بنایا تھا۔۔۔ شہلا نام کی گرل فرینڈ ہے اسکی اسی کے ساتھ مل کر کچھ کرنے والا تھا۔۔۔ اور مجھے بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی لیکن میں نے اسے انکار کردیا۔۔۔ لیکن اس نے جو پلین مجھے بتایا تھا وہ تمھاری کہانی سے بلکل الگ ہے۔۔۔۔
کیسا پلین؟؟ اس نے بے ساختہ کہا۔۔۔ وہ ڈانس کلب میں شہلا کہ ساتھ مل کر تمھارا اسکینڈل بنانا چاہتا تھا تاکہ تم سب سے منہ چھپاتے پھرو۔۔۔
اس کو سمجھ نہیں آیا وہ اس بات پر کیسا ردِعمل پیش کرے ۔۔۔ اس کے ذہن میں اس دن کا واقعہ گھومنے لگا جس دن ڈانس کلب میں شعیب کہ ساتھ اسکی تلخ کلامی ہوئی تھی۔۔۔
اب تمھارے دماغ میں یہ سوال آرہا ہوگا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔۔۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ فرحان نے اس کو چونکا دیا۔۔۔
ہممم۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ اصفر چونک گیا۔۔
۔ تم دونوں ہی ڈرگس سپلائیر ہو۔۔ مگر لک تمھارا اچھا ہے۔۔ ہر بار اسکا مال پکڑا جاتا ہے کافی بھاری رقم کا نقصان ہو چکا ہے اسکو اس بار۔۔۔ اور تمھیں اس کام میں بہت منافع ہو رہا ہے بس اسی حسد میں وہ یہ سب کر رہا ہے۔۔۔
ایک دن میں اسکو غائب کروا سکتا ہوں میں مگر میں یہ کرنا نہیں چاہتا۔۔ تم کچھ کرو آرام سے یہ معاملہ ختم کروادو۔۔۔ اصفر نے اس سے کہا۔۔۔
میں اسکو اپنی زبان میں آرام سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں تم سامنے نہیں آو ایسا نہ ہو وہ کوئی مصیبت کھڑی کردے ۔۔۔ تم ایسا کرو کچھ ٹائم کہ لیے ملک سے باہر چلے جاؤ۔۔۔۔ فرحان اسکو سمجھانے لگا۔۔
میں یہ کام چھوڑ رہا ہوں۔۔۔ بلکہ دوسرے کام بھی چھوڑ رہا ہوں۔۔۔ باہر نہیں جا سکتا کیونکہ یہاں رہ کر دوسرا کام شروع کرنا ہوگا۔۔۔ وہ نظریں چرا رہا تھا۔۔۔۔
یہ تو اور بھی اچھا ہے۔۔ شعیب کو سمجھانا اور آسان ہو جاے گا میرے لیے لیکن اچانک تمھیں اتنا اچھا خیال آیا کسے؟؟۔۔۔۔ فرحان نے خوشی کا اظہار کیا۔۔
وقت آنے پر بتاوں گا تمھیں۔۔ اسکے چہرے پر ہلکی سی مسکان تھی۔۔
______________________
حرمین۔۔۔۔ وہ۔۔۔ مجھے بات کرنی ہے۔۔۔ حرمین کینٹین میں بیٹھی برگر کھا رہی تھی جب وہ اسکے پاس آیا۔۔۔ آج دو ہفتے بعد وہ اس کے پاس آیا تھا۔۔
دیکھو وقار اگر تمھیں پھر وہی بات کرنی ہے تو پلیز میرے پاس تمھارے کسی سوال کا جواب نہیں ہے۔۔ حرمین جھنجھلا اٹھی۔۔
نہیں حرمین وہ بات نہیں کرنی میں تو بس تم سے معافی مانگنے آیا ہوں اس دن کے برتاؤ کے لیے۔۔۔۔ وہ شرمندہ تھا۔۔
اچھا۔۔۔۔ پلیز بیٹھ جاؤ۔۔۔ اسنے وقار کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔
دیکھو وقار ہم زبردستی کسی کہ دل میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتے۔۔۔ محبت تو اللہ پاک دلوں میں ڈالتا ہے۔۔۔ اگر کوئی آپ سے پیار نہیں کرتا تو کیا آپ اس سے نفرت کرنے لگ جاو گے۔۔۔ وہ مدھم آواز میں کہہ رہی تھی۔۔۔
میں سمجھتا ہوں حرمین۔۔۔ پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے۔۔۔ لیکن ہم دوست تو رہ سکتے ہیں نہ؟؟ وہ خاصا شرمندہ نظر آرہا تھا۔۔
ہاں کیوں نہیں ہم دوست تھے دوست ہی رہیں گے۔۔۔ وہ مسکراتے ہوے دوستی کی راہوں میں اسے خوش آمدید کہہ رہی تھی۔۔
ارے تم دونوں جگری دوستوں کی ناراضگی ختم ہوگی۔۔۔ شفا نے اپنا لنچ ٹیبل پر رکھتے ہوے کہا۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔۔۔
بیسٹ فرینڈ ذیادہ دیر ایک دوسرے سے ناراض نہیں رہ سکتے۔۔۔ شفا نے برگر کھاتے ہوے کہا۔۔۔
ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو تم بلکل۔۔ حرمین نے اس سے کہا۔۔
ویسے ہوا کیا تھا تم دونوں کے بیچ میں جو منہ پھلا کر بیٹھے تھے؟؟؟ شفا کہ سوال پر دونوں گھبرا گے ان دونوں نے شفا کو اس بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔۔
وہ۔۔۔۔ ایسے ہی بس۔۔۔ چھوڑو نہ۔۔۔ تم لنچ ختم کرو کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔۔ حرمین نے اسکی بات کو ٹال دیا۔۔
حرمین۔۔۔ حرمین۔۔۔ جلدی آو یہاں۔۔۔ فاطمہ ٹی وی کہ سامنے بیٹھے زور زور سے اسکو پکار رہی تھیں۔۔۔
کیا ہو گیا ایسا؟؟ حرمین پریشانی کہ عالم میں دوڑتی ہوی آی۔۔۔
یہ دیکھو اس ڈرامے میں یہ لڑکی کتنی سگھڑ ہے۔۔ سارا گھر اکیلے سنبھالتی ہے۔۔ فاطمہ نے ٹی وی کی اسکرین کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا۔۔
لائیں یہاں دیں ریموٹ۔۔ ایسے ڈراموں کی وجہ سے ہی معصوم امیوں کہ برین واش ہو رہے ہیں ۔۔۔ اسنے منہ بگاڑتے ہوے کہا۔۔۔
بس بس رہنے دو تم تو۔۔۔ فاطمہ کی بات انکے منہ میں ہی رہ گی۔۔ کیونکہ حرمین کہ موبائل پر کسی کی کال آنے لگی۔۔
ہیلو۔۔ حرمین نے کمرے سے باہر برآمدے میں آتے ہوے کہا۔۔
مجھے تم سے ملنا ہے کل کلاس کے بعد۔۔ وہ آواز اصفر کی تھی۔۔
خیریت تو ہے؟؟اچانک ملنے کا کیوں کہہ رہے ہو؟؟ حرمین نے اس سے سوال کیا۔۔
مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے جو مل کر ہی کی جا سکتی ہے۔۔ اور پانچ ماہ بعد پہلی بار تو کہہ رہا ہوں ملنے کا تمھیں۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔ مگر کہاں؟؟
کالج کے پاس جو کافی شاپ ہے وہاں۔۔ او کے۔۔
__________________
بہت محبت کرتا ہوں حرمین سے۔۔ میں بہت لکی ہوں جو مجھے وہ ملی ہے۔۔۔
چند دن پہلے کی گئ اصفر کی باتیں اس کے دماغ میں گردش کر رہی تھیں۔۔
خون خولتا ہے میرا ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر دل جلتا ہے آگ لگ جاتی ہے دل میں ۔۔۔ وہ بیڈ کہ سرہانے سے ٹیک لگاے سوچ رہا تھا۔۔۔
مجھے اسکی دوستی نہیں اسکا پیار چاہیے اور وہ میں حاصل کر کے ہی رہوں گا۔۔ وہ زیرِ لب کہہ رہا تھا۔۔
_____________________
ہاں جی جلدی سے بتا دو اب کہ کیا بات ہے۔۔ حرمین مسکراتے ہوے کہہ رہی تھی۔۔
حرمین میں تمھیں اپنی زندگی کی حقیقت بتانا چاہتا ہوں ہو سکتا ہے تم سچ جان کر مجھے چھوڑ دو۔۔۔ مگر میں تمھیں دھوکہ نہیں دے سکتا۔۔۔ وہ نظریں جھکاے کہہ رہا تھا۔۔
ایسی کیا بات ہے اصفر؟؟ وہ پریشان ہو گی اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔۔
میں شروع سے سب بتاتا ہوں تمھیں۔۔ حرمین نے جواباً سر ہلا دیا۔۔
میں اپنے باپ کی سگی اولاد نہیں ہوں۔۔ میری پیدائش کے تین سال بعد ہی میرے باپ کی روڈ ایکسیڈینٹ میں ڈیتھ ہو گئ تھی۔۔ میری ماں نے دوسری شادی میرے ڈیڈ سے کی۔۔ ڈیڈ نے میری ماں سے شادی اس لیے کی کہ انکو بیوی کہ ساتھ ساتھ ایک بیٹا بھی مل جاے گا کیونکہ ڈیڈ کی پہلی بیوی سے انکی طلاق ہو گی تھی لیکن بیٹی کو انہوں نے اپنے ساتھ ہی رکھا تھا۔۔ اس طرح ڈیڈ میرے سوتیلے باپ اور میری موم عفرہ کی سوتیلی ماں ہیں۔۔۔ حرمین خاموشی سے ساری بات سن رہی تھی۔۔
لیکن دوسری شادی کے بعد میری موم بہت اداس رہنے لگی۔۔ انہوں نے مجھے بھی خود سے دور کردیا۔۔ باپ کا پیار تو مجھے کبھی ملا ہی نہیں۔ میری ماں بھی مجھ سے دور ہو گی۔۔ میں نے باہر کی دنیا میں اپنی جگہ بنالی۔۔
تھوڑا سمجھداد ہوا تو ملک سے باہر چلا گیا ڈیڈ کے ایک دوست کا دبئ میں شاپنگ مال تھا۔۔ ڈیڈ کے کہنے پر وہاں چلا گیا۔۔۔سوچا کام کروں گا تو کچھ بن جاوں گا۔۔ لیکن باہر جا کر گھٹن ہونے لگی ایسا لگا جیسے میں بلکل لاوارث ہوں۔۔ ایک پردیسی کی سانس اسکے عزیزوں کی ایک کال پر ٹکی ہوتی ہے۔۔ جب اس کے گھر والے اسکی خیر خبر لیتے ہیں نہ تو اسکا پیٹ بھرتا ہے۔۔ مگر میرے گھر والے مجھے ایک دفعہ بھی کال نہیں کرتے تھے۔ پوچھتے بھی نہیں تھے کہ میں زندہ ہوں یا مر گیا صرف مہینے میں ایک بار کال کرتے تھے وہ بھی اپنی کوئی فرمائش بتانے کہ لیے۔۔ کبھی عفرہ کبھی موم۔۔ اور ڈیڈ تو بھول ہی گے تھے کہ انکا کوئی بیٹا بھی ہے سوتیلہ ہی سہی۔۔
اسکی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا اور زبان لڑکھڑا رہی تھی۔۔۔
یار کلیجہ پھٹ جاتا تھا میرا یہ بے حسی دیکھ کر۔۔ رات بھر روتا رہتا تھا۔۔ اپنے دوستوں کے منہ سے سنتا تھا کہ انکے گھروالوں نے کیا باتیں کی ہیں تو دل تڑپتہ تھا بہت۔۔
پھر میں نے اپنی ساری کمائ وہاں بھیجنی شروع کردی تو پھر مجھے ایک آدھ بار گھر سے فون آجاتا تھا خیریت کہ لیے اپنے لیے کچھ نہیں رکھتا تھا یہ سوچ کر کہ کچھ پیسوں کہ بدلے مجھے ایک کال تو آجاتی ہے میں اپنے دوستوں کو فخر سے کہہ تو سکتا ہوں کہ میرے گھر سے فون آیا ہے۔۔
اسکا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور زبان کانپ رہی تھی۔۔۔ ہونٹوں پر زبان پھیر کر اس نے ایک بار پھر کہنا شروع کیا۔۔
۔ میں واپس یہاں آگیا دل ہی نہیں لگتا تھا وہاں۔۔ مگر یہاں آنے کے بعد ڈیڈ کے ہاتھوں میں بہت ذلیل ہوا۔۔
انہوں نے کوئی بد دعا نہیں چھوڑی مجھے دینے کے لیے۔۔ وہ نہیں چاہتے تھے میں یہاں آوں۔۔
اس دن پہلی بار بہت شدت سے مجھے اپنے پاپا کی یاد آی وہ ہوتے تو کبھی مجھے بد دعا نہیں دیتے۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...