بھول جاؤ بیٹا زینب کو۔۔۔ دو سال ہوگے ہیں۔۔ شاہدہ بیگم اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہی تھیں۔۔
کیسے بھول جاؤں امّی بیوی تھی وہ میری ۔۔۔۔ اسکے ماتھے پر شکن تھی۔۔۔ وقار وہ بیوی نہی تھی تمھاری صرف نکاح ہوا تھا تمھارا اسکے ساتھ۔۔۔۔ اور اس نکاح کی عمر ہی کتنی تھی صرف دو ماہ۔۔۔ وہ ہر الفاظ پر زور دے رہی تھیں۔۔۔
بچپن کا پیار تھا وہ امّی بس نصیب خراب تھا اسکو پا کر بھی کھو دیا۔۔۔ اسکی آنکھوں میں نمی اتر رہی تھی۔۔۔
دیکھو بیٹا صبا بہت اچھی بچی ہے۔۔۔ میری بھانجی بھی ہے اور تمھیں بہت پسند بھی کرتی ہے۔۔۔۔ اگر تمھارے اتنے سال برباد نہ ہوتے تو آج تم بھی اسکی طرح گریجویٹ کر رہے ہوتے۔۔۔ آخری سال چل رہا ہے اسکا اور تم ابھی تک ڈپلومہ میں پھسے ہو۔۔۔ بس تم یہ ڈپلومہ مکمل کرو اور میں تمھاری شادی کردونگی۔۔۔ وہ وقار کہ لیے بہت پریشان تھیں۔۔۔
امّی اگر شادی کرنی ہی ہے تو میری مرضی سے کردیں۔۔۔۔ مجھے ایک لڑکی میں انٹرسٹ ہے۔۔۔۔ وہ رک رک کر کہہ رہا تھا۔۔۔
کون ہے وہ؟؟؟ انھوں نے حیرت سے پوچھا۔۔
میرے ساتھ پڑھتی ہے۔۔۔۔ حرمین۔۔۔۔۔
آج اسکا کالج میں پہلا دن تھا۔۔ وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کمپیوٹر کی اسکرین کو گھور رہا تھا۔۔۔ اچانک اسنے شیشے کہ دروازے سے لیب میں اس لڑکی کو مسکراتے ہوے آتے دیکھا، اسکی نظر اس لڑکی کہ چہرے پر جم گی، اتنی خوبصورت اور معصوم شکل و صورت کی ملکہ اسکہ دل میں اترنے لگی۔۔۔ اسنے اپنی گردن جھٹک کر کمپیوٹر کی اسکرین پر دوبارا نظر جمالی۔۔۔۔۔۔
کیسی ہو شفا؟؟ وہ کرسی اپنی طرف کھیچ کر بیٹھی اور پہلا سوال کیا۔۔۔
میں ٹھیک ہوں بس تھوڑا سا بخار ہے۔۔ تم سناؤ کل گی تھی تم دادی کہ گھر۔۔؟؟ شفا نے کتاب بند کر کہ سوال کیا۔۔۔
ہاں گی تھی شکر ہے سب ٹھیک رہا وہاں۔۔۔ مبین چاچو میرے سامنے آے ہی نہی سارا وقت چھت پر ہی رہے۔۔۔ حرمین نے نظریں جھکا کر کہا۔۔۔۔
چلو اچھا ہی ہوا تم انکی غلیظ نظروں سے بچ گی۔۔ شفا نے کندھے اچکا کہ کہا۔۔۔
وہ خود پر قابو نہی رکھ پا رہا تھا گردن موڑ کر وہ ایک بار پھر حرمین کو اپنی نظروں کہ حصار میں لے رہا تھا۔۔
حرمین کو احساس ہوا کہ اسے کوی دیکھ رہا ہے۔۔ حرمین نے نظریں اٹھا کہ دیکھا تو اسکی نظروں سے اسکی نظریں ٹکرایں۔۔۔
یہ نیو اسٹوڈنٹ ہے شفا؟؟ حرمین نے اسکے بارے میں پوچھا۔۔
ہاں یار آج اسکا پہلا دن ہے۔۔ شفا نے اس لڑکے کی طرف دیکھتے ہوے کہا۔۔۔
کیا؟؟ لیکن 4 ماہ بعد تو ہمارے فائنل پیپرز ہیں۔۔۔۔ سر نے اسکو ایڈمیشن کیسے دے دیا یار؟؟ اسنے حیرت سے شفا کو دیکھا۔۔
یار سر کا کیا ہے انکو تو پیسے کمانے ہیں اور پھر ہمارا پہلا سال چل رہا ہے ابھی ایک سال باقی ہے ڈپلومہ کو۔۔۔ شفا نے اسے اطمینان دلایا۔۔۔
یار اصفر یہ لو تمھاری فائل سر نے دی ہے۔۔ وقار نے اس لڑکے کو فائل دیتے ہوے کہا۔۔۔
کافی دوستی نہی ہو گی وقار کی اس نیو اسٹوڈنٹ سے۔۔ حرمین نے مسکراتے ہوے کہا۔۔۔
ہاں یہ بہت جلدی دوستی کرلیتا ہے سب سے تاکہ ضرورت آنے پر کام نکال سکے۔۔۔
شفا کی بات پر حرمین ہسنے لگی۔۔۔
__________________________________
حرمین مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔ تم تھوڑی دیر بعد گھر چلی جانا۔۔۔ وقار نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔
وہ دونوں کوریڈور میں کھڑے تھے اور باقی اسٹوڈنٹ گھر جا رہے تھے۔۔
ہاں بولو وقار کیا بات ہے۔۔ حرمین نے نرمی سے پوچھا۔۔
یار میں گھوما پھرا کر بات نہی کروں گا صاف صاف بولوں گا۔۔ وقار کچھ کنفیوز لگ رہا تھا۔۔۔
ہاں تو بولو نا ایسی کیا بات ہے۔۔۔ حرمین کچھ پریشان ہوگی۔۔۔
حرمین میں۔۔۔۔۔میں تمھیں پسند کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ اس نے ایک ہی سانس میں سب کہہ دیا۔۔۔
حرمین کا چہرا ویران ہو گیا۔۔۔ وہ حیران پریشان اسے دیکھتی رہی۔۔ کچھ دیر بعد اسنے جو کہا اس جواب نے وقار کے سارے خوابوں کو روندھ کر رکھ دیا۔۔۔ وہ آنکھوں میں نمی لیے وہاں سے چلا گیا۔۔۔ اور وہ کچھ دیر وہی کھڑی رہی۔۔۔
__________________________________
وہ کوچنگ میں فرنٹ سیٹھ پر بیٹھے صبح کہ واقعہ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔ کہ سر ظفر اس سے مخاطب ہوے۔۔۔
میں نے سنا ہے کہ تم نے انٹر میڈیکل کی فیلڈ میں کیا ہے۔۔
جی سر کیا ہے۔۔ وہ خیالوں سے باہر نکلی۔۔
تو پھر تم میڈیکل کی فیلڈ میں آگے کیوں نہی گی ڈپلومہ کیوں کر رہی ہو۔۔ سر ظفر نے چاے کا گھونٹ لیتے ہوے پوچھا۔۔۔
میں میرٹ پر نہی آی تھی۔۔ فائنل پیپرز کے وقت مجھے typhoid ہو گیا تھا۔۔۔ حرمین نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔
اووہ سو سیڈ۔۔۔ سر ظفر نے افسوس کا اظہار کیا۔۔
موبائل کی رنگ پر اسنے ایک نظر اسکرین کو دیکھ کر لائن کاٹ دی۔۔۔ مگر لائن کاٹنے پر پھر اسی نمبر سے کال آی۔۔۔
کیا ہوا حرمین لائن کیوں کاٹ رہی ہو۔۔۔ سر ظفر نے سوالیا نظروں سے اسے دیکھا۔۔
سر رونگ کال ہے۔۔ حرمین نے منہ بنا کر جواب دیا۔۔۔
مگر بار بار ایک ہی نمبر سے کال آرہی تھی۔۔ اس بار اسنے کال اٹھائی اور سخت لہجے میں پوچھا۔۔۔ کون؟؟؟؟
آپ ماجد کی بہن ہیں؟؟؟ دوسری طرف سے مردانہ آواز آی۔۔
ہاں آپ کون؟؟ حرمین کا لہجا نرم تھا۔۔۔
میں انسپیکٹر جاوید بول رہا ہوں آپ کا بھائی قائدِاعظم کہ مزار کی طرف سے پکڑا گیا ہے اسکے ساتھ ایک لڑکا بھی ہے۔۔۔۔ ہم دونوں کو تھانے لے جا رہے ہیں آپ کسی کہ ساتھ آجایں۔۔۔۔
اس کے چہرے کا رنگ اڑھ گیا۔۔ آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ کہتی دوسری طرف سے لائن کاٹ دی گی تھے۔۔
اس کی وجہ سے میں اتنی بے عزت ہوی ہوں امّی۔۔۔ اگر سر ظفر اور سر شاویز اپنے جان پہچان والوں کی مدد سے اسکو وہاں سے نکلواتے نہی نہ تو آج مجھے اور آپکو جانا پڑتا پولیس اسٹیشن۔۔۔۔ حرمین غصے میں سرخ ہو رہی تھی۔۔۔۔
ارے بتا مجھے کیا کرنے گیا تھا وہاں تو اپنے اس آوارا دوست کے ساتھ۔۔۔ پولیس تو کہہ رہی ہے کہ اسنے تجھے کسی لڑکی کا پرس چھین تے ہوے پکڑا ہے۔۔ مگر تو ضرور وہاں کوئی بڑا کارنامہ کرنے گیا ہوگا اس ڈکیت شانی کہ ساتھ۔۔۔۔
اگر تیرے باپ کو یہ بات پتہ لگ گی نہ تو اسی وقت گھر سے نکال دینگے تجھے اور اس بار میں نہی روکوں گی ان کو۔۔۔۔ فاطمہ چیخ رہی تھیں ماجد پر مگر وہ ٹس سے مس نہی ہو رہا تھا دونوں پاوں پھیلاے صوفے پر لیٹا ہوا تھا۔۔۔
کیا سوچ رہے ہونگے سر میرے بارے میں کہ میرا بھائی کیسا ہے۔۔ حرمین کو بہت افسوس ہو رہا تھا۔۔۔
بے غیرت شخص اپنی ماں بہن کو بے عزت کرواتے ہوے تجھے شرم نہی آئی۔۔۔ اب نکل تو گھر سے باہر تیری ٹانگیں توڑ دونگی یا بتا دوں گی تیرے باپ کو آج کا قصہ۔۔۔ فاطمہ کی باتوں کا اسے کوی اثر نہی ہو رہا تھا وہ پیر پٹختے ہوے کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔۔
___________________________________
بلو کلر کی جینز اور ریڈ شرٹ میں ملبوس، ایک ہاتھ میں بیئر کی بوتل اور دوسرے میں سگریٹ لیے وہ ڈانس کلب میں ایک صوفے پر بیٹھا تھا۔۔۔
ہاں شعیب تم نے مجھے یاد کیا؟؟ بلیک جینز اور وائٹ ٹاپ میں ملبوس وہ لڑکی ایک ہاتھ کمر پر ٹکاے بڑے اسٹائل سے شعیب کہ برابر کھڑی تھی۔۔۔
اوووہ شہلا ہاں ہاں میں نے ہی بلوایا تھا تمھیں۔۔۔ آو ہمارے پاس بیٹھو۔۔
شعیب نے اس لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بیٹھایا۔۔۔۔۔
ہاں تو اب بتاؤ ہنی کیا بات ہے۔۔۔ شہلا نے شعیب کہ گلے میں ہاتھ ڈالا اور بے تکلفی سے کہا۔۔۔
یہ جو ہمارے دوست ہیں نہ انکا موڈ بڑا خراب ہے۔۔ اور تمھارے لیے تو کوئی مشکل بات نہی ہے انکا موڈ ٹھیک کرنا۔۔۔ شعیب اصفر کی طرف اشارہ کرتے ہوے اسکو سمجھا رہا تھا۔۔۔
اور اصفر اپنے ہاتھ میں پکڑی آدھی بچی ہوئ سگریٹ کو اب اپنے جوتے سے مسل کہ بجھانے میں مصروف تھا۔۔۔
ہاں تو شعیب کیا خیال ہے میرے یار کا؟؟ شعیب نے مسکراتے ہوے اس سے پوچھا۔۔۔
کس بارے میں؟؟؟ اصفر نے حیرت سے اسکا منہ دیکھا۔۔۔
ارے میری جان۔۔۔ یہ جو شہلا ہے نہ یہ بڑے کمال کی چیز ہے کچھ دیر میں ہی تیرا موڈ ٹھیک کر دے گی۔۔۔ شعیب نے ہستے ہوے کہا۔۔۔
دماغ تو ٹھیک ہے تیرا؟؟ اصفر سمجھ چکا تھا اسکا اشارہ کس طرف ہے۔۔۔ اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑی بیئر کی بوتل کو فلور پہ دے مارا۔۔۔
میں بہت برا انسان ہوں مگر اتنا گھٹیا بھی نہی ہوں سمجھا۔۔۔ وہ غصے میں دھاڑا اور اپنی بلیک کلر کی جیکٹ کو کندھے پر ڈالتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔۔۔
_____________________________________
سگریٹ کا دھواں جیسے ہی اسکے پھیپھڑوں میں پہنچا اسکو ایک زور کا پھندا لگا۔۔ آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور ان میں سے پانی بہہ رہا تھا۔۔۔ وہ پہلی بار سگریٹ پی رہا تھا۔۔۔
کیوں۔۔۔۔۔ کیوں حرمین ۔۔۔ کیا کمی ہے مجھ میں؟؟۔۔ کوئی وجہ تو ہوتی مجھے ٹھکرانے کی کہ میں اپنے دل کو تسسلی دی دیتا سمجھا لیتا۔۔ مگر بغیر کسی وجہ کہ تم نے انکار کردیا۔۔
وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھا خود سے ہم کلام تھا۔۔ حرمین کی ریجکشن نے اسکے وجود میں توڑ پھوڑ مچا رکھی تھی۔۔ اتنا غم تو اسے زینب کے ٹھکراے جانے کا بھی نہی ہوا تھا شاید دوسری دفعہ ریجکٹ ہونا ذیادہ تکلیف دیتا ہے۔۔ زینب اسکے بچپن کی محبت تھی دونوں گھرانوں میں کافی دوستی تھی زینب اور وقار کی مرضی سے ہی ان دونوں کا نکاح ہوا تھا مگر نکاح کہ دو ماہ بعد وہ دن آیا۔۔
وقار مجھے تم سے طلاق چاہیے۔۔ موبائل کان سے لگاے وہ شدید غصے میں بول رہی تھی۔۔۔۔
یہ۔۔۔ یہ کیا بول رہی ہو زینب؟؟ دو ماہ ہوے ہیں نکاح کو تین ماہ بعد تمھاری رخصتی ہے۔۔ وقار کے سر پر جیسے دھماکہ ہو گیا تھا۔۔۔۔
دیکھو اگر تم مجھے طلاق نہی دو گے تو میں خود کشی کر لوگی ابھی اسی وقت اس لیے مجھے ابھی فون پر طلاق دو تم۔۔ وہ نفرت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی۔۔۔
یہ کیا بکواس ہے۔۔ میں ابھی سب بڑوں سے بات کرتا ہوں۔۔۔ وقار نے اسکو ڈرایا۔۔
تم نے اگر کسی سے بھی اس بارے میں بات کی تو میں ابھی زہر کھالوگی میں زہر کی بوتل پکڑ کہ ہی بیٹھی ہوں اور تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو وقار۔۔ وہ اسکو دھمکا رہی تھی۔۔۔
نہی زینب نہی میں تمھیں نہی جانتا۔۔ میں جس زینب کو جانتا ہوں وہ تو مجھے بے تحاشہ چاہتی ہے۔۔۔ وقار زارو قطار رو رہا تھا۔۔
میرے پاس وقت نہی ہے تمھارا رونا دھونا سننے کہ لیے۔۔ مجھے طلاق دو بس۔۔۔ وہ مستقل اس پر چیخ رہی تھی۔۔۔
تم وجہ تو بتادو۔۔۔ ایسا کیا گناہ ہو گیامجھ سے جو یہ سز دے رہی ہو میں کیسے جیوں گا تمھارے بنا میں بہت چاہتا ہوں تمھیں۔۔۔ وقار اسکے آگے گڑگڑا رہا تھا۔۔۔۔
وقار تمھارے لیے اتنا جاننا ہی بہتر ہے کہ میں اپنے کزن احتشام سے پیار کرتی ہوں اسنے میری آنکھیں کھول دی ہیں میں نے تم سے نکاح کرکے بہت بڑی بھول کی تھی اب تم مجھے طلاق دو تاکہ میں احتشام سے شادی کروں۔۔ زینب ایک ایک لفظ کو جما کر بول رہی تھی۔۔۔
کیا؟؟؟؟ وقار کہ سر پر آسمان ٹوٹ پڑا تھا۔۔۔
احتشام کو صرف زینب کی پراپرٹی سے مطلب تھا اسی لیے اس نے زینب کو وقار کے لیے اس قدر بد گمان کر دیا تھا کہ وہ اپنے بچپن کہ پیار کو بھول چکی تھی اور احتشام اسکو پھسانے میں کامیاب رہا تھا۔۔۔
اب مجھے طلاق دو کیونکہ میں تم سے پیار نہی کرتی اور اگر تم نے۔۔۔۔
ہاں ہاں پتہ ہے تم خودکشی کرلوگی۔۔۔ وقار نے اسکی بات کاٹ کر کہا۔۔۔
میں اس کو کیا آزاد کروں یہ تو کب کی جا چکی ہے۔۔۔ کتنی بے بس ہے یہ لڑکی کہ اسکو مجھ سے بے وفائ کرنے کہ لیے بھی میری اجازت کی ضرورت ہے۔۔۔۔ وہ دل میں سوچ رہا تھا۔۔۔
میں وقار زلفی ، زینب قریشی تمھیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔۔۔ طلاق دیتا ہوں۔۔۔ طلاق دیتا ہوں۔۔۔ کچھ دیر کی خاموشی کہ بعد وقار نے اسکو آزاد کر دیا۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...