(Last Updated On: )
اب وہ ملتے ہیں نہ ہم ملتے ہیں
راہ میں نقشِ قدم ملتے ہیں
ایسے مل لیتے ہیں ہم کیفے میں
جیسے دو آبے بہم ملتے ہیں
بڑھ گئی قیمت ِ اشیاء لیکن
اب بھی ارزاں سبھی غم ملتے ہیں
دل کی باتیں ہوں فون پر کیسے
چائے پر شام کو ہم ملتے ہیں
اور سخنور ضمیر قیس کے سے
عام ملتے نہیں کم ملتے ہیں