ناران کاغان اور گلگت بلتستان کے اہم مقامات کی خوبصورتی کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں قید کرنے کے بعد انہوں نے لندن واپسی کے لیے ٹکٹس بک کروائے۔ شاردا سے جانے کے بعد وہ اگلے پانچ دنوں میں لندن میں تھے۔ پاکستان میں اپنے قیام کے آخری دنوں میں وہ کئی بار میجر ارتضی کا فون ٹرائے کرچکی تھی لیکن ہر بار اسے مایوسی ہی ہوئی۔
چارو ناچار ہی سہی اسے واپس آنا پڑا۔
شاید ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔
اسے میجر ارتضی سے اس قدر بے رخی کی توقع نہیں تھی۔ انہوں نے ایک دفعہ اس سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔
کوئی پیغام تک نہ اس کے لیے چھوڑا۔
ٹریفلگر اسکوائر کے سامنے بیٹھی وہ اپنے آنسوؤں پر سے اختیار کھو بیٹھی تھی۔
لندن آنے کے بعد اس نے آسٹن لوگوں سے رابطہ تقریبا ختم کردیا تھا۔ وہ بالکل ویسی ہی تنہا ہوچکی تھی جیسے کہ کبھی ہوا کرتی تھی۔
ٹریفلگر اسکوائر کے سامنے بیٹھے اسے لندن سے وحشت ہورہی تھی ۔ خاص طور پر نیلسن کے مجسمے سے۔
وہ بالکل ارتضی جیسا تھا۔
لبوں پر مسکراہٹ سجائے۔۔۔۔
جسم میں دل کی جگہ پتھر چھپائے۔۔۔۔
جو اپنے پاس آنے والوں کو صرف ایک نظر دیکھتا تھا۔۔۔
پھر اپنے سحر میں جکڑتا تھا۔۔۔
انہیں اپنا دیوانہ بناتا تھا لیکن خود اسی جگہ پر قائم رہتا تھا۔ اپنی طرف بڑھنے والے قدموں کی کہاں پرواہ تھی اسے۔
وہ تو اک مجسمہ تھا۔۔۔۔پتھر کا بنا ایک مجسمہ۔
بے حس، سنگ دل۔۔۔
لیکن میجر ارتضی تو انسان تھے۔ جسے وہ زندہ دل سمجھتی تھی۔
لیکن شاید غلط ہی سمجھتی تھی۔۔۔۔ انسانوں سے بڑھ کر کوئی بھی سنگ دل نہیں ہوتا۔ پتھر کے مجسمے بھی نہیں۔
اس نے آنسو بہاتی آنکھوں سے وہاں پر اڑتے کبوتروں کو دیکھا۔
اور پھر ان پر رشک کیا۔
” تم سب بہت اچھے ہو ۔ اپنا دیس چھوڑ کر تو نہیں جاتے نا۔ اور نہ ہی تمہیں محبت کے زخم لگتے ہیں۔ ” اس نے دل ہی دل میں ان کبوتروں سے ہمکلامی کی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ جانور دلوں کی زبان ضرور سمجھتے ہیں۔
” دیکھو۔ اس لندن کی بدقسمت ماریہ کو۔ جو دنیا دیکھنے کے لیے لندن سے پہلی دفعہ نکلی تھی۔ اور
دنیا نے ایسا رنگ دکھا دیا کہ اب تو ہررنگ سے نفرت سی ہونے لگی ہے۔تم سب کبھی بھی لندن چھوڑکر نہ جانا۔ لندن سب سے اچھا ہے۔ کم از کم یہاں کوئی کسی کو دکھ تو نہیں دیتا نا۔جیسے ارتضی نے دیا ہے مجھے۔ لندن سے باہر کی دنیا بہت سنگدل ہے۔ کسی کو کسی کے جذبات و احساسات کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ لندن سے باہر ہر انسان ایک مجسمہ ہے۔ بالکل ان مجسموں کی طرح جو یہاں پچھلی کئی دہائیوں سے موجود ہیں۔ لندن کو کبھی نہ چھوڑنا ورنہ پھر یہ تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔ ” وہ دل ہی دل میں انہیں نصیحتیں کررہی تھی۔ جو غلطی وہ خود کر چکی تھی وہ نہیں چاہتی کہ لندن کا کوئی اور باسی اس غلطی کو دہرائے۔
وہ وہاں بیٹھے کافی دیر ٹریفلگر اسکوائر کی ہر چیز کو اپنی بربادی کی داستان سرگوشیوں میں سناتی رہی اور پھر دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے بعد وہ اپنے گھر لوٹ آئی۔
ماریہ۔ ” وہ دبے پاؤں اپنے کمرے میں جانے لگی تبھی اس کی ماں نے اسے پیچھے سے پکارا۔
وہ دھیرے سے پلٹی تو نظر اپنی ماں کے پریشان چہرے پرپڑی۔
” ادھر بیٹھو۔ ” وہ نرمی سے اس کا ہاتھ تھامے سٹنگ روم میں رکھے صوفے پر اسے لے آئی۔
” میرے بچے میں دیکھ رہی ہوں کہ جب سے تم پاکستان سے آئی ہو یونہی کھوئی کھوئی سی رہتی ہو۔سارا دن اپنے کمرے میں بند رہتی ہو۔ اگر کبھی باہر نکلو بھی تو مجھ سے ملنے سے کتراتی ہو۔ آسٹن لوگوں سے بھی اب تم ملنے نہیں جاتی۔ تم لوگوں میں وہاں کوئی بات ہوئی ہے کیا؟ ” و ہ ماں تھی اس کی ۔ بیٹی کی اس حالت پر پریشان کیونکر نہ ہوتی۔
وہ خاموش رہی۔
اس کے پاس کہنے کو اب کچھ بھی نہیں بچا تھا۔
” مجھے بتاؤ بیٹا۔ کیا غم ہے جو تمہیں کھائے جارہا ہے؟ ہر وقت کا یوں رونا بے سبب تو نہیں ہوتا نا؟ ” وہ اس کی خاموشی سے معاملے کی سنجیدگی کو سمجھ رہی تھیں۔
” ماں جب اپنی کوئی قیمتی چیز کھو جائے تو ہر وقت کا رونا مقدر بن جاتا ہے۔ ” سرخ ہوتی متورم آنکھوں سے اس نے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا تھا ۔ جو کہ اس کے چہرے پر درج مبہم سی داستان پڑھنے کی ناکام کوشش کررہی تھیں۔
” کیا کھودیا ہے تم نے میرے بچے؟ ” ان کا دل دہل ہی تو گیا تھا۔
” وہی جو میرا سب کچھ تھا۔اور جس کے لیے قسمت نے میرے ساتھ ایسا مذاق کیا کہ میری زندگی کو میرے لیے ہی سزا بنا دیا۔ایک ایسی سزا کہ جس کی شدت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتے چلا جارہا ہے۔ ”آنکھیں ایک دفعہ پھر چھلک گئی تھیں۔
” میں کچھ سمجھی نہیں میری جان۔ ” اور یہ پہلی بات تھی جو ماریہ کی ماں سمجھی نہیں تھیں کیونکہ وہ ایسی باتیں پہلے کبھی کیا ہی نہیں کرتی تھی۔ گھما پھرا کرکرنے والی باتیں اسے ہمیشہ مشکل لگا کرتی تھیں۔ مگر اب وہ خود ایسی باتوں کی کشتی میں سوار ہوگئی تھی۔
” میں بھی نہیں سمجھی تھی۔ مگر جب سمجھ آئی تو خود کو اس مقام پر کھڑے پایا کہ جہاں واپسی کے تمام راستے بند تھے اور آگے کی راہیں بہت ہی الجھی ہوئیں ۔ ” اس کی اس بات پر اس کی ماں نے اسے بغور دیکھا تھا۔ وہ پہلے والی ماریہ نہیں رہی
تھی۔
پہلے والی ماریہ ایسی باتیں کبھی نہیں کیا کرتی تھی کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔
وہ پہلے سے کہیں زیادہ کمزوربھی ہوچکی تھی۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے پڑ گئے تھے۔ اس کی آنکھیں ہر وقت رونے سے سرخ سی رہتی تھیں۔
” پہیلیاں کیوں بجھا رہی ہو؟ ” اس کی ماں کا دل دہل رہا تھا۔
” اس پہیلی کو پہیلی ہی رہنے دیں ماں ۔ جتنا اسے سلجھانے کی کوشش کریں گی اتنا ہی الجھیں گی۔ ” اپنا ہاتھ اپنی ماں کے ہاتھ سے چھڑاتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں آگئی۔
کمرے کا دروازہ بند کرکے اس نے ایک دفعہ پھر خود کو لاکڈ کرلیا تھا۔
سامنے ٹیبل پر میجر ارتضی کا دیا گیا تحفہ اسی حالت میں پیکڈ پڑا تھا۔ اس کی ہمت ہی نہیں ہوئی تھی کہ وہ اس تحفے کو کھول کر ہی دیکھ لے۔
وہ جب اسے کھولنے کا سوچتی تو میجر ارتضی کے آخری الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگتے۔
” یہ تحفہ تمہیں ہمیشہ میری یاد دلایا کرے گا۔ اسے سنبھال کر رکھنا۔ ”
شاید اس نے اسے سنبھال کر ہی رکھا تھا کیونکہ اگر وہ اسے کھولتی تو شاید وہ اپنی اصل شکل میں زیادہ عرصے قائم نہ رہتا۔
اس نے اس تحفے کو اٹھا کر اپنی الماری میں ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔
وہ جب جب بھی اسے دیکھتی تھی میجر ارتضی کی یادیں اس کے آنسوؤں پر رقص کرتی اس کے گرد آموجود ہوتیں۔
اور اسی اذیت سے چھٹکارا پانے کے لیے اس نے اس تحفے کو الماری کے لاکر میں رکھا تھا۔
جہاں اس کی قیمتی چیزوں کے نام پر ایک ڈائری اور اس کے والد کی تصویر رکھی ہوئی تھی۔ پہلے یہی اس کی سب سے قیمتی چیزیں تھیں مگر اب ان قیمتی چیزوں میں اور بھی بہت سی چیزوں کا اضافہ ہوا تھا جن میں سے ایک وہ تحفہ تھا جو اسے جان سے پیارے انسان نے آخری لمحات میں اسے عمر بھر کے لیے سونپا تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
اسی شام انہیں ایمرجنسی میں واپس بلالیا گیا۔ان کی پوسٹنگ سیاچن میں کردی گئی جہاں انہیں اپنی یونٹ کے جوانوں کو سیاچن کی پوسٹس پر ڈیوٹی کے لیے ٹریننگ دینا تھی۔ چار ماہ کی مسلسل اور بہترین ٹریننگ کے بعد یہ جوان سیاچن جیسے برفیلے قبرستان میں جانے کے لیے مکمل تیار تھے۔ اسی دوران انہیں اپنی قائد پوسٹ سے دشمن کی مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع ملی تھی۔ اور اسی سلسلے میں میجر ارتضی کو اپنے تربیت شدہ جوانوں کے ساتھ اس خطرناک مہم کے لیے چنا گیا۔ جسے فخر سمجھتے ہوئے میجر ارتضی نے اپنے جوانوں سمیت قبول کرلیا۔
بائیس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع یہ برف کے دوزخ کسی بھی عقل کو یہاں آنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
ان دنوں میں برفیلی ہوائیں ستر کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے چلا کرتی تھیں۔
” کیسے ہو جوان؟ ” دس ہزار کی بلندی پر واقع پاک آرمی کی ایک پوسٹ پر کھڑے میجر ارتضی نے اپنے سامنے موجود ان چٹانوں کو دیکھا جو کہ برف کے اس صحرا کو شکست دینے جارہے تھے۔
” الحمداللہ سر۔ ” سب نے الرٹ ہو کر بیک وقت جواب دیا۔
” اور مورال کیسا ہے ؟” وہ سب کے چہرے کو باری باری دیکھ رہے تھے۔ یہ چہرے ایک نئی داستان رقم کرنے جارہے تھے۔
ہمت و بہادری کی۔۔۔
جوش و ولولے کی۔۔۔۔
حب الوطنی کی۔۔۔۔
ایک لازوال داستان۔۔۔۔
کبھی نہ مٹنے والی۔۔۔۔
کبھی نہ بھولنے والی۔۔۔۔۔
” آج ہم بادلوں سے بھی اونچے ایک محاز پر جنگ لڑنے جارہے ہیں۔جہاں آپ کو اپنے چاروں طرف صرف برف ہی برف نظر آئے گی۔ برف کے ایسے سمندر میں جس کا دور دور تک کوئی کنارہ نہیں ہوگا۔ لیکن اس وطن نے ہمیں اسی دن کے لیے چنا تھا۔ اسی محاز کے لیے ہی ہمارے ناموں کو منتخب کیا گیا ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت فخر کی بات ہے کہ دھرتی ماں نے اس بلند اور مشکل محاز کے لیے ہمارا انتخاب کیا ہے۔ تو میرے جوانو گھبرانا نہیں ۔دنیا میں ابھی تک کوئی ایسی چیز پیدا نہیں ہوئی جسے اس ملک کے بیٹے شکست نہیں دے سکتے۔یہ برف مقدار میں بے شک جتنی مرضی ہوجائے، رہے گی ہمارے قدموں تلے ہی۔یہ برف تب تک ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی جب تک ہمارے دلوں میں جذبہ ایمانی اورجسموں میں خون کی آخری بوندیں ختم نہیں ہوجاتیں۔ ہم اس محاز پر دو دو دشمنوں سے لڑنے جارہے ہیں ۔ایک جو سرحد پار ہوگا اورایک وہ جو ہمارے چاروں طرف ہوگا۔ یعنی کہ ان بلند گلیشئیرز کا موسم۔ مگر میں اپنی بات پھر دہرانا چاہوں گا کہ دنیا میں ابھی تک کوئی بھی چیز ایسی پیدا نہیں ہوئی جسے اس ملک کے بیٹے شکست نہیں دے سکتے۔ یہ تو پھر بدلتا ہوا ایک موسم ہے۔ آج ہے کل نہیں۔ یہاں موت آپ کے سامنے دو آپشن رکھے گی۔۔۔۔شہید اور غازی۔ تیسرا آپشن اس ملک کے بیٹے اپنے انتخاب میں رکھتے ہی نہیں ہیں۔ اللہ کا نام لیکر آگے بڑھتے رہنا۔ تاکہ دشمن کو اس غلطی کا احساس ہوجائے کہ فولادی دیواروں سے سر پیٹنے کی غلطی کانقصان کیا ہوتا ہے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ ان شاءاللہ ہم کامیاب لوٹیں گے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ ” اس مختصر سے خطاب نے ان شیردل سپاہیوں میں جوش و ولولے کی ایک نئی روح پھونکی تھی۔
دس ہزار کی بلندی پر اللہ اکبر کی صدائیں گونجی تھیں جنہوں نے اس بلند ترین گلیشئیر کو خوش خبری دی تھی کہ پاکستان کے جوانوں کے قدم اس کی زمین پر پڑنے والے ہیں۔
” اب مورال کیسا ہے جوانو؟ ” آخر میں انہوں نے پھر دریافت کیا۔
” اپ ٹو سیاچن سر ۔ ” سیکنڈ لیفٹننٹ احمد کمال نے پوری شدت سے چلاتے ہوئے اس گلیشئیر کو بھی خبردار کردیا تھا۔
” سب سے پہلے ہم اپنی سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر موجود زاہد پوسٹ کی طرف بڑھیں گے۔ اس کے بعد ہماری نفری کئی پارٹیوں میں تقسیم ہو کر اکیس ہزار فٹ کی بلندی پر موجود قائد پوسٹ کی طرف روانہ ہوگی ۔ ان شاءاللہ۔ اس سارے سفر کے دوران اللہ کے بعد تم سب ایک دوسرے کا سہارا ہوگے۔ گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ ہماری مدد کے لیے بیس سے کمان آتی رہے گی۔ تو پھر سب تیار ہو؟ ”
انہوں نے پوری قوت سے چلاتے ہوئے دریافت کیا۔
” یس سر۔ ” اور اس کے ساتھ ہی میجر ارتضی نے سب جوانوں سے باری باری ہاتھ ملایا اور کندھا تھپکتے ہوئے ان کے خونوں کو مزید گرمایا۔ اس برفیلے صحرا میں ایک ہی چیز ان کی زندگی کی ضمانت ہوسکتی تھی اور وہ تھی ان کا جوشیلا خون۔ جب تک یہ خون گرم تھا تبھی تک ان کی زندگی تھی۔
” اللہ کا نام لیکر آگے بڑھو۔ ” ان سب نے اپنے ضروری سامان اپنی کمروں کے ساتھ باندھے اور یہ پراسرار بندے برف سے کھیلنے چل دیے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
شام کے ساڑھے پانچ بجے پاکستان آرمی کی دو پارٹیوں میں سے ایک الفا پارٹی نے زاہد پوسٹ کی جانب سفر کا آغاز کیا۔جبکہ براوو پارٹی کو ان سے ایک دن کے بعد اپنے سفر کا آغاز کرنا تھا۔ ستمبرکے دن چل رہے تھے۔ پھر بھی سردی اپنے عروج پر تھی۔
الفا پارٹی کی قیادت میجر ارتضی جبکہ براوو پارٹی کی قیادت کیپٹن شہریار کررہے تھے۔
ہر پارٹی میں پانچ پانچ سپاہی ، ایک لیڈر اور ایک ڈاکٹر تھا۔ اور یوں ہر پارٹی سات افراد پر مشتمل تھی۔
اپنی کمروں کے ساتھ رسی باندھے الفا پارٹی کے جوان اپنے گائیڈر کے پیچھے چل رہے تھے۔ گائیڈر کے پیچھے میجر ارتضی کچھ فاصلے پر چل رہے تھے۔ میجر ارتضی سے کچھ فاصلے پر ڈاکٹر تھا جبکہ باقی جوان بھی اسی طرح ایک تریتب کے ساتھ ایک دوسرے کے پیچھے چل رہے تھے۔ یہ ان کے چلنے کی ایک خاص ترتیب تھی جو اس علاقے میں نقل و حمل کے لیے کام آتی تھی۔
ان سب نے کمروں کے ساتھ ایک رسی کو باندھا ہوا تھا جو کہ گائیڈر یا کسی بھی سپاہی کے کسی برفیلی دراڑ میں گرنے سے بچنے کے لیے تھی۔ اگر ایسے کوئی گر جاتا تو باقی کے جوان اس رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیتے اور اپنے ساتھی کو مزید گہرائی میں جانے سے بچاتے۔ان بلند پہاڑوں پر یہی اللہ کے بعد ایک دوسرے کا سہارا ہوتے۔
اس رسی کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ یہ تین ہزار کلو وزن اٹھانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ان جوانوں نے اپنی کمروں پر اس بلند محاز کے لیے روز مرہ کی ضروریات کے لیے بھاری سامان بھی اٹھایا ہوا تھا۔
جیسے جیسے بلندی پر قدم بڑھ رہے تھے فضا میں سے آکسیجن کم ہوتی جارہی تھی۔ جس کی وجہ سے سانس لینے میں ہر قدم کے ساتھ مشکل بڑھ رہی تھی۔ہر جوان کا سانس پھول رہا تھا لیکن میجر ارتضی خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کررہے تھے کیونکہ اس وقت اگر وہی ہمت چھوڑ جاتے تو ان کی پارٹی کے جوان آگے بڑھنے کی ہمت کھو دیتے۔
” حوالدار شیر خان؟ ” سانس کی رفتار کو نارمل رکھتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر سے پیچھے والے سپاہی کو پکارا۔
” یس سر۔ ”پھولتے ہوئے سانس کے ساتھ جواب آیا۔
”طبیعت ٹھیک ہے جوان؟ ” وہ بار بار پیچھے مڑ کردیکھ رہے تھے کہ کہیں ان کے کسی ساتھی کو کوئی مشکل نہ پیش آرہی ہو۔ حوالدار شیر خان کی طبیعت انہیں ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔
” یس سر۔ ” اب کی بار بھی ویسے ہی جواب آیا تھا۔
” میرا خیال ہے کہ ہمیں یہاں کچھ دیر کے لیے رک جانا چاہیے۔ ” ان کے ڈاکٹر میجر عامر نے رکتے ہوئے کہا۔
میجر ارتضی ان کی جانب پلٹے۔
” کیوں؟ ”
” کیونکہ ہم دو ہزار کی بلندی چڑھ آئے ہیں۔ اور پل بھر کے لیے بھی نہیں رکے۔ اگر یونہی اس سفر کو جاری رکھا تو منزل پر پہنچنا مشکل ہوجائے گا۔ عام حالات میں یہاں ایک ہزار فٹ کی بلندی چڑھنے کے بعد ایک رات رکنے کا کہا جاتا ہے اور پھر اگلی ایک ہزار فٹ کی چڑھائی کے لیے سفر کا غاز کیا جاتا ہے۔ ” میجر عامر کا سانس بھی پھول رہا تھا۔
” ہاں ٹھیک ہے۔ جوانوں کا اپنے حواس میں رہنا بھی ضروری ہے۔ ” یہ کہہ کر میجر ارتضی نے اپنی پارٹی کو وہیں رکنے کا حکم دیا۔
حکم کی تعمیل میں سب جوان کچھ دیر سستانے کے لیے برف کے بستروں پر بیٹھ گئے۔
انہیں اتنی چڑھائی کے لیے تربیت پہلے سے ہی دی گئی تھی۔ مگر اتنی برف میں وہ پہلی بار اس سفر پر جا رہے تھے۔
شام کا وقت تھا۔ سورج تو کبھی دن کے وقت یہاں مہربان نہیں ہوا تھا۔ اب تو پھر رات ہورہی تھی۔
میجر ارتضی نے بیٹھنے سے پہلے ایک نظر اپنے اردگرد گھمائی۔ نیچے زمین سے لیکر آسمان تک اور مشرق سے لیکر مغرب تک صرف سفید برف ہی نظر آرہی تھی۔
حوالدار شیر خان کے سر میں درد ہورہا تھا۔ باقی جوانوں کی حالت بھی ان سے کسی طرح کم نہ تھی۔ وہ مسلسل دو ہزار فٹ کی بلندی چڑھے تھے۔
اگر اب بھی نہ رکتے تو شاید مزید سفر بھی نہ کرپاتے۔
” میجر عامر سر درد کی کچھ گولیاں دیں مجھے۔ ” میجر عامر سے سردرد کی گولیاں لیکر وہ اپنے ساتھیوں کے پاس خود آئے اور انہیں سر درد کی گولیاں دیں۔
” ان شاء اللہ ابھی یہ ٹھیک ہوجائے گا۔ ” ان کا کندھا تھپتپھاتے ہوئے وہ دوبارہ اپنی پوزیشن پر آگئے۔ چاکلیٹ کا ایک ٹکرا منہ میں رکھتے ہوئے انہوں نے اس برفیلے پہاڑ کی اونچائی دیکھی ۔
اور لبوں سے ” اللہ اکبر ” کی صدا نکلی۔ جسے صرف اس پہاڑ نے سنا تھا۔ یا پھر اس برف نے جس پر وہ کمر کے بل لیٹ گئے تھے۔
برف کا بستر۔۔۔برف کی چادر۔۔۔۔عجب زندگی تھی ان برف والوں کی بھی۔
” ہاں بھئی شیرو! تیار ہو؟ ” کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد انہوں نے سب سے پوچھا۔وہ زیادہ دیر وہاں نہیں رک سکتے تھے۔ ایک ایک لمحہ بہت قیمتی تھا۔
” یس سر۔ ” اور اس کے ساتھ ہی وہ سب اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے کھڑے ہوگئے۔
” چلیں پھر اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ” ایک دفعہ پھر اس برف کے قبرستان میں اللہ اکبر کا نعرہ گونجا تھا جسے شاید پہاڑ کی چوٹی نے بھی سنا تھا۔
اس پہاڑ پر اس وقت صرف اللہ کہ یہی سات سپاہی موجود تھے۔ یہ جگہ اتنی بلند تھی کہ اس سے آگے آکسیجن بھی جانے سے گھبراتی تھی لیکن مادرِ گیتی کے یہ بیٹے تو اکیس ہزار فٹ کی بلندی پر بھی اپنی ڈیوٹی کو سرانجام دیتے تھے۔
تو پھر یہ پہاڑ کیسے نہ ان کی اس ہمت پر انہیں سلام کریں ؟
سلام ہے ان جانبازوں پر۔۔۔۔
سلام ہے ان شیردلوں پر۔۔۔۔
سلام ہے دین کے ان سپاہیوں پر۔۔۔۔۔۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
اگست کے آخر تک میرام شاہ اورمیر علی کے علاقوں کو دشمن کے چنگل سے آزاد کروا لیا گیا۔ شرپسندوں کی ایک بڑی تعداد اس آپریشن میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔
اس دوران شرپسند نیٹ ورکس کے کئی ہیڈ کوارٹرز کو پاک آرمی نے تباہ کردیا تھا۔ دھماکہ خیز مواد اور دیگر اسلحہ آرمی نے اپنے قبضے میں لیے لیا۔
اگست کے آخر میں آئی ایس پی آر نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق نوسو دس کے قریب دہشت گرد مارے گئے تھے۔ اور اسی آپریشن کے دوران پاکستان آرمی کے دوسو انہتر کے قریب زخمی ہوئے جبکہ بیاسی کے قریب بیٹے اپنی زندگیوں کو اپنے وطن پر وار گئے ۔
اس عرصے کے دوران پاک آرمی اور دیگر فورسزنے میرام شاہ، میر علی ، دتا خیل اور بویا کے علاقوں کو شرپسندوں سے صاف کردیا۔
یہی علاقے ان عسکریت پسندوں کے نیٹ ورکس کے ہیڈ کوارٹرز تھے۔ اور پاکستان آرمی نے تین ماہ کے مختصر عرصے میں ان تمام ٹھکانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹا دیا۔
ستمبر کے پہلے ہفتے میں بویا میں دس کے قریب دہشت گردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا اور ان کی پانچ گاڑیوں جن میں دھماکہ خیز مواد اور دیگر اسلحہ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جارہا تھا ، کو اڑا دیا گیا۔
انہی دنوں میں ایک آپریشن دتا خیل میں میجر ناصر کی قیادت میں شروع کیا گیا۔اور ستمبر کے دوسرے ہفتے میں آئی ایس پی آر نے اپنی ایک اور رپورٹ جاری کی جس میں اس بات کا دعوی کیا گیا کہ دس دہشت گرد جو کہ زیارت ریزیڈنسی کے واقعے میں ملوث تھے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ اسی رپورٹ میں یہ بیان بھی جاری کیا گیا کہ ایک ہزار کے قریب دہشت گرد مارے گئے جبکہ ایک سو چونتیس کے قریب خطرناک دہشت گرد گرفتار بھی کرلیے گئے۔اس دوران ملک کا ایک بیٹا اپنی جان اپنی دھرتی ماں پر قربان کرگیا۔
ستمبر کے تیسرے ہفتے میںایک آپریشن خیبر ایجنسی میں شروع کیا گیا۔اس آپریشن کی پہلی جھڑپ کے دوران گیارہ کے قریب شرپسند ہلاک ہوئے جبکہ ایک کو گرفتار کرلیا گیا۔ اور اسی جھڑپ کے دوران تین اور جوانوں کو قدرت نے شہادت کا جام پلا دیا۔
اسی ہفتے کے دوران ائیر اسٹرائک بھی کی گئی جس میں تئیس کے قریب دہشت گرد مارے گئے ۔اور آنے والے دنوں میں مزید ائیر اسٹرائکس کی گئیں جس میں شرپسندوں کی ایک بڑی تعداد جہنم واصل ہوئی تھی۔
ستمبر کے آخر تک خیبر ایجنسی کو ان شرپسند عوامل سے صاف کرلیاگیا۔
اکتوبر میں وادیِ تیرہ ، جمرود اور ان کے اردگرد کے علاقوں میں شرپسندوں کے خلاف آپریشن کیا گیا۔
اکتوبر کے آخر میں ڈی جی عاصم باجوہ نے پریس کو یہ بیان جاری کیا کہ اس آپریشن کے دوران گیارہ سو کے قریب دہشت گرد ہلاک کردیے گئے ہیں۔
دتا خیل کو پوری طرح اپنے قبضے میں لینے کے لیے اس علاقے میں ہوائی حملے کے گئے اور نومبر کے آخر میں آپریشن ضربِ عضب کے کمانڈرمیجر جنرل ظفراللہ خاں نے یہ دعوی کیا کہ پاکستان آرمی نے اللہ کے کرم و فضل سے ان علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اور نئی رپورٹ جاری کی جس میں ہونے والے دہشت گردوں کی تعداد گیارہ سو اٹھانوے بتائی گئی ۔
دسمبر کے شروع میں ایک آپریشن اورکزئی ایجنسی میں کیا گیا۔
اس آپریشن کے لیے میجر بلال کا ایک بار پھر انتخاب کیا گیا تھا۔
اورکزئی ایجنسی کے پچپن فیصد حصے کو صاف کروا لیا گیا تھا کہ اسی دوران دشمن کی ایک گولی میجر بلال کے سینے میں لگی۔ وہ ابھی سنبھلے ہی نہ تھے کہ ایک گولی برق رفتاری سے آتے ہوئے ان کے کندھے کو چیرتے ہوئے گزر گئی۔
” اللہ اکبر ” کا نعرہ لگاتے ہوئے وہ نیچے زمین پر گرگئے۔آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا تھا شاید کبھی نہ ختم ہونے کے لیے۔
چہرے پر وہی مسکراہٹ تھی جس کا ہر کوئی شیدائی تھا۔۔ وعدہ جو کیا تھا ابرش سے کہ جان بھی نکلنے لگے گی تو بھی وہ اس مسکراہٹ سے ناطہ نہیں توڑیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا تھا۔
اور ایسا ہونا بھی چاہیے تھا وہ کوئی اور نہیں تھے۔پاکستان آرمی کے بیٹے تھے۔ گولیاں بھی لگتیں تو بھی مسکراتے تھے۔
اور اس کے ساتھ ہی اس مردِ مجاہد کے لیے آسمانوں سے سلامی آئی تھی۔ اور اس سلامی پر زمین والوں نے فخر کیا تھا۔
سلام ۔۔۔۔
سلام۔۔۔۔
سلام۔۔۔۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
وہ ہمت وحوصلے کے ساتھ مسلسل ایک دن چلتے ہوئے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ چکے تھے۔ مزید ایک ہزار فٹ کی بلندی پر ان کی پہلی پوسٹ موجود تھی۔
منزل کی جانب سفر جاری تھا کہ اسی دوران میجر ارتضی کو اپنا دل بہت تیزی کے ساتھ دھڑکتے ہوئے محسوس ہوا۔ انہیں اپنے دل کے قریب درد سا اٹھتے محسوس ہوا تھا۔وہ پل بھر کے لیے رکے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی پارٹی بھی رک گئی۔
” اگر ہم ایک دوسرے سے دور بھی ہوئے تو دیکھ لینا ہمارے دل ایک دوسرے کی شہادت کی خبر دیں گے۔ ” ان بلند پہاڑوں میں میجر ارتضی کو میجر بلال کے یہ الفاظ گونجتے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔کچھ دیر کے لیے میجر ارتضی کو وہ پہاڑ پوری شدت سے ہلتے ہوئے محسوس ہوا تھا۔ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ہر طرف سے بڑے بڑے ایوالانچز آئیں گے اور وہ ان کے نیچے دب جائیں گے۔مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔
” کیا ہوا سر۔ آپ ٹھیک تو ہیں؟ ” ان کے گائیڈر کی آواز نے اس بلندی پر آنے والے زلزلے کو روکا تھا۔
ایوالانچز رکے تھے۔ زمین ٹھہر گئی تھی۔ شاید سنبھل گئی تھی۔
” ہاں ۔ آپ سفر جاری رکھیں ۔ ” بوجھل ہوتے دل کے ساتھ انہوں نے اسے سفر جاری رکھنے کی ہدایت دی۔
وہ پھنس چکے تھے شاید۔۔۔
دوستی اور ملک کے درمیان۔۔۔
دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔۔۔۔پندرہ ہزار فٹ کی اس بلندی پر۔
اور ۔۔
اور۔۔۔
اور وطن جیت گیا تھا۔۔۔ وہ اپنے دوست کے لیے پیچھے نہیں جاسکتے تھے۔
کیونکہ دوست بعد میں آتا تھا۔ درجوں میں سب سے پہلا درجہ وطن کو دیا جاتا ہے۔
باقی سب بعد میں آتا ہے۔۔۔
چاہے وہ ماں باپ ہوں یا بہن بھائی۔ یا پھر بھائیوں سے بڑھ کر دوست۔۔۔
یہ سب دوسرے اور تیسرے درجے میں آتے ہیں۔۔۔ پہلا درجہ صرف وطن کا ہی ہوتا ہے۔۔
کیونکہ یہی درجہ سب سے مقدم ہوتا ہے۔۔۔
اور یہ ملک اسی درجے کا اہل ہے۔۔۔
اور تو پھر جیت گیا بلال۔۔۔۔ تمہارے پاس ہوتا تو گلے سے لگا کر تجھےمبارکباد دیتا اور تجھے اپنے ہاتھوں سے رخصت کرتا۔ بالکل دلہا بنا کر۔۔۔۔جنت کی حوروں کے لیے۔ ۔۔۔ مگر میری قسمت میں تو تجھے مبارکباد کہنا بھی نہیں لکھا شاید۔۔۔۔ میرے دوست میرے آنے کی بھی دعا کرنا۔۔۔ اللہ کرے جنتی تمہارے مقدر پر رشک کریں اور تم سر خرو ٹھہرو۔ آمین۔ ”
سیاچن کے ان بلند پہاڑوں پر سے ایک دعا بلند ہوتی اوپر آسمانوں تک پہنچ رہی تھی۔
کو ن تھا دعا مانگنے والا؟
ایک دوست ۔۔۔۔
اور اس سے آگے وضاحت ہی ختم
کہ دوستی خود ایک بہت بڑی وضاحت ہوتی ہے۔۔۔ اوروہ بھی برسہا برس کی دوستی۔۔۔
کہ جس کی مثالیں دنیا آنے والے وقتوں میں دیا کرے گی۔۔
جب جب بھی لازوال دوستی کی داستانوں کا ذکر ہوگا تو میجر بلال اور میجر ارتضی کی دوستی کو ان میں پہلا درجہ دیا جائے گا۔
کہ امر ہوئی داستانیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
” ماریہ ؟ ” وہ رولز ریسٹورنٹ سے باہر نکل رہی تھی تبھی اسے اپنے پیچھے سے ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی۔اس نے پیچھے مڑکردیکھا تو پیچھے اس کا سب سے اچھا دوست آسٹن کھڑا تھا۔
رات کا ایک بج رہا تھا۔ رولز ریسٹورنٹ خود پرکلوزڈ کا بورڈ لگا چکا تھا۔
نومبر کے دن تھے۔ سردی لندن کی اس میڈن روڈ پر بڑے راج سے اتر رہی تھی۔
” کیسی ہو؟ ” وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے قریب آگیا۔
” جیسی تم چھوڑ کر گئے تھے۔ ” تلخ لہجےمیں کہتے ہوئے وہ اپنی سائیکل کو آگے کی طرف دھکیلتے ہوئے اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔
” کیا میں گیا تھا تمہیں چھوڑ کر؟ ” وہ بھی اس کے بائیں طرف چلنے لگا۔
اسٹریٹ لائٹس رات کی تاریکی کو مات دے رہی تھیں۔
میڈن روڈ کی تمام شاپس تقریبا بند ہوچکی تھی۔لوگ اپنی اپنی دکانیں بند کرکے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے۔
” مجھے تو شاید سبھی چھوڑ کرچلے گئے ہیں۔ ” پھیکی سی مسکراہٹ سے کہتے ہوئے اس نے ایک سرد سی آہ بھری۔
” یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ ” آسٹن نے اسے اس کی اس غلط فہمی کی نشاندہی کروانا چاہی۔وہ ہمیشہ ایسی باتوں کے جال میں جلدی پھنس جایا کرتی تھی اور اس میں سے نکلنے کی کوشش بھی نہیں کیا کرتی تھی۔
” کبھی خوش فہمی تو کبھی غلط فہمی۔ عجیب سا مذاق ہورہا ہے میرے ساتھ۔۔۔نہیں؟ ” اس کے اندر ایک دفعہ پھر کچھ ٹوٹا تھا۔
شاید اس کے سینے میں دھڑکتا اس کا دل۔۔۔
”اگر دنیا کو دل کی نظروں سے دیکھنا شروع کردیا جائے تو قسمت ایسے ہی مذاق کرتی ہے۔ ۔۔ ” اس کی پی کیپ اس کے چہرے پر سایہ سی کررہی تھی ۔
” تم کیوں دنیا کو صرف ایک سوارخ سے ہی دیکھتی ہوجہاں سے تصویر کا ایک چھوٹا سا ہی حصہ نظر آتا ہے جو شاید بدصورت ہوتاہے؟ کیوں نہیں اس کھلی کھڑکی سے دیکھتی جس کے پار تصویر واضح نظر آتی ہے۔۔۔۔بہت ہی خوبصورت؟ ” اسے ماریہ کی یہی باتیں جانے انجانے میں دکھ دیتی تھیں۔وہ ہمیشہ دل سے فیصلہ کرکے نقصان اٹھایا کرتی تھی۔
” تمہارا دل سوراخ ہے اور تمہارا دماغ کھڑکی۔جس کی جتنی رسائی وہ تمہیں اتنا ہی فائدہ دے گا ماریہ۔ ” پی کیپ کو اتارتے ہوئے اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ ماریہ نے پہلی بار اسے پی کیپ کے بغیر دیکھا تھا۔
اس کے بال بہت سنہری تھے۔
اسٹریٹ لائٹس میں بھی وہ سنہری دکھائی دے رہے تھے۔
” میں نہ دل سے سوچتی ہوں اور نہ دماغ سے۔ میں تو قسمت کی شطرنج کا ایک مہرہ ہوں جسے چلانے والا اپنی مرضی سے چلا رہا ہے۔اورمیں بس چلتے ہی جارہی ہوں۔ ” چلتے ہوئے وہ رکی تھی۔اسٹریٹ کے کونے میں بوڑھے جانسن اور سارا والی جگہ سنسان پڑی ہوئی تھی۔پچھلے ایک مہینے میں پورا لندن بدل گیا تھا۔
شاید ویران ہوگیا تھا۔
پہلے سرد راتوں میں اس وقت سارا کی آواز پر لوگوں کا ایک ہجوم کھڑا رہتا تھا۔
اور اب۔۔۔۔ وہ کونا بالکل خالی تھا۔
بالکل ماریہ کی طرح۔۔۔
سنسان سا۔۔۔۔
ویران سا۔۔۔۔
” تو اس میں بھی تمہارا قصور ہے ۔تمہاری اپنی زندگی ہے ۔تمہیں اپنی مرضی سے جینی چاہیے۔ ” اس کا لہجہ قدرے دھیما تھا۔
وہ خاموش سی اس خالی کونے کو خالی نظروں سے تکنے لگی۔
” ایک بات کہوں ماریہ؟ ” وہ بھی اس کے ساتھ ہی کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔پی کیپ فولڈ کرکے اس نےبائیں ہاتھ میں پکڑلی تھی۔
” ہاں کہو؟ ” اس کی نظریں ابھی بھی اسی جگہ پر تھیں جہاں کبھی سارا کھڑے ہوکر گانے گایا کرتی تھی اور اس کے پاس ہی بوڑھا جانسن گٹار بجایا کرتا تھا۔
” تمہیں ارتضی سے دوبارہ رابطہ کرنا چاہیے تھا۔ ” یہ کہتے ہوئے ایک درد بھری لہر آسٹن کے جسم سے گزری تھی۔
دکھ تو ہوتا ہے نا اپنی سب سے قیمتی چیز کسی دوسرے کو دیتے وقت۔
وہ حیرت سے اس کی جانب پلٹی۔ وہ بہت پرسکون دکھائی دے رہا تھا۔
” کون ارتضی؟ ” اس نے انجان بننا چاہا۔
” وہی جس کے ہاتھوں میں تم اپنی زندگی کا مہرہ دے آئی ہو۔ ” وہ ایک بار پھر غلظ ثابت ہوئی تھی۔
وہ ہمیشہ دھوکا کھا جاتی تھی۔اب بھی اس نے کھایا تھا آسٹن کو غلط سمجھ کر۔
وہ تو اسے خود سے زیادہ جانتا تھا شاید۔
وہ جان چکی تھی کہ وہ اس سے کبھی بھی جھوٹ نہیں بول پائے گی۔
”بولو ماریہ۔ میں منتظر کھڑا ہوں۔ ” سینے پر بازو باندھے وہ کچھ دیر کے لیے اسے ارتضی جیسا ہی لگا تھا۔
اب اسے ہر انسان میں میجر ارتضی ہی نظر آتے تھے۔ ہر چیز میں وہ انہیں تلاش کرنے لگی تھی۔
ہر انسان کچھ دیر کے لیے اسے میجر ارتضی جیسا لگتا لیکن افسوس وہ میجر ارتضی ہوتا۔
” میں نے اپنے کردار کو اس کہانی سے ہمیشہ کے لیے نکال دیا ہے آسٹن۔وقت کی کتاب کی ورق گرادنی کرنے سے تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ بہتر ہے کہ اس کہانی کو تم بھی یہی چھوڑدو۔ہمیشہ کے لیے۔ ” اسٹریٹ لائٹس میں اس کی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔
وقت کی کہانی سے خود کو نکالنا اتنا آسان ہوتا تو یقینا ہر کردار فرار حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔
”چھوڑ دوں گا۔ اگر تم بھی اسے اپنی کتاب سے نکال دو تو۔ ہوسکتا ہے کہ تمہیں اس سے بہتر کوئی مل جائے۔ جو تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتا ہو۔ جو اس دنیا میں صرف تمہارے لیے زندہ ہو۔ جو تم سے بہت زیادہ محبت کرتا ہو۔ ” اس نے برستی آنکھیں اٹھا کر آسٹن کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ اس کی نیلی آنکھوں میں بھی پانی کی سطح بلند ہورہی تھی جو کہ آنکھوں کا بند توڑ کر باہر نکل چکی تھی۔
اس کی گالوں پر وہ پانی پھسلتا ہی جارہا تھا۔
اس نے آسٹن کو آج سے پہلے کبھی بھی ایسے نہیں دیکھا تھا۔
شکستہ سا۔۔۔۔
وہ آسٹن بھی بدل چکا تھا۔۔۔۔وہ ویسا نہیں تھا جسے اس نے اپنا دوست بنایا تھا۔
آنکھ میں آنسوؤں کی پرواہ کیے بغیر وہ اس کی جانب دھیرے سے پلٹا تھا۔
اظہار کرنے۔۔۔۔
اقرارکرنے۔۔۔۔۔
” میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ماریہ۔ ” میڈن روڈ پر ایک لمحے کے لیے زندگی رکی تھی۔
گھر جاتے لوگ مجسمہ ہوئے تھے۔ ہر چیز پر سکوت اترا تھا۔
پورا لندن شاید غائب ہوگیا تھا۔
اس زمین پر تھے تو صرف ماریہ اور آسٹن۔
” میں ساری زندگی شاید تم سے خاموش محبت کرتا رہتا مگر یہ بوجھ تھا کہ اب بڑھتا ہی جارہا تھا۔ جب تمہاری نظروں میں میں نے ارتضی کے لیے پسندیدگی کی چمک دیکھی تھی تو میں نے یہ وعدہ کرلیا تھا کہ خاموشی سے تم دونوں کی زندگی سے دور چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔۔” آنکھ میں آئے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے اس نے ماریہ کے بھیگتے ہوئے چہرے کودیکھا۔
” مگرارتضی کے چلے جانے کے بعد میں اپنے دل کو اس بات پر قائم نہ رکھ سکا۔ کیونکہ یہ محبت تھی جو مجبور کیے جارہی تھی۔ میں خود کو روک نہیں پایا ماریہ۔ اور آج ہمت کرکے تم سے اپنی زندگی کی بھیک مانگنے آیا ہوں۔ تمہارے بغیر جینے کا میں اب تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اگر تم نہیں تو پھر یہ زندگی بھی نہیں۔ ” وہ گھٹنوں کے بل گرگڑاتے ہوئے اس کے سامنے گرپڑا۔
اپنی زندگی کی بھیک مانگنے کے لیے۔۔۔
جیسے اس نے ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر گر کر بھیک مانگی تھی۔
ماریہ کی زندگی کی بھیک۔۔۔۔
اور اب وہ پہلی بار اپنے لیے گرا تھا میڈن روڈ کے اس ٹھنڈے کنارے پر۔
” آسٹن۔ ” آواز وہیں کہیں گلے میں ہی پھنس گئی تھی۔
وہ ماتھے کے قریب ہاتھ جوڑے سر جھکائے اس سے واقعی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔
” یہ خیانت ہوگی ارتضی کی محبت کے ساتھ۔ ” کپکپاتی آواز میڈن روڈ میں گونجی تھی۔
” تو محبت مانگی بھی کس نے ہے تم سے؟ میں تو اپنی زندگی مانگ رہا ہوں جو صرف تمہارے ساتھ سے ممکن ہے۔ کیا یہ بھی نہیں دے سکتی تم؟ ” کبھی کوئی نیلسن کے سامنے بھی اپنی زندگی کے لیے اتنا گرگڑایا نہیں ہوگا۔
” آسٹن مجھے مزید امتحان میں مت ڈالو۔ ” اس کےہاتھ پکڑتے ہوئے وہ بھی اس سے کچھ فاصلے پر گھٹنوں کے بل گرپڑی۔
”میں کبھی بھی تم سے محبت نہیں مانگوں گا۔ کبھی بھی نہیں۔ ” یہ بے بسی تھی جو محبت نے اسے عطا کردی تھی۔
” بولو ماریہ۔ کیا تمہیں میرا ساتھ قبول ہے؟ ” اس نے اس کے چہرے کو دیکھا جہاں سے وہ کسی جواب کا اندازہ نہیں لگا سکا تھا۔
انداز ایسا تھا کہ جیسے کہہ رہا ہو کہ کیا ماریہ تمہیں میری زندگی قبول ہے؟
یہ اقرار تھا یا بھیک؟
ٹھنڈے پڑتے لندن کے یہ سمجھنا مشکل تھا
میڈن روڈ پر صرف خاموشی ہی خاموشی تھی۔
آواز تھی تو صرف اس ملکہ کی ۔۔۔
یا پھر اس گرگڑاتے ہوئے فقیر کی جو اس ملکہ سے اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔
وہ کچھ سوچنے لگی۔
اس دوران اس کا چہرہ مسلسل بھیگتا رہا۔
کچھ سوچنے کے بعد وہ ہاں میں سر ہلاتے ہوئے آسٹن کے گلے سے لگ گئی۔ اس کے کندھے پر سر لگائے اسے اب لندن کی پروا بھی نہ رہی تھی۔وہ دونوں اسی حالت میں اسٹریٹ کے کنارے پر بیٹھے تھے۔
آہ۔۔۔۔۔ جلد باز لندن کی جلد باز لڑکی۔
” بہت بہت مبارک ہو آسٹن۔ ” کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ انہیں اپنے سر کے اوپر غبارے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے تھے جن سے گلیٹرز نکل کر ان کے اوپر گر رہے تھے۔
ان دونوں نے بیک وقت سر اٹھا کردیکھا تو وہاں ان کے تینوں دوست ٹالی، آرنلڈ اور چارلس کھڑے تھے۔
وہ ان کا پیچھا کرتے ہوئے اس کونے کی دوسری طرف چھپے ہوئے تھے۔ اس طرف اندھیرا تھا شاید اسی وجہ سے انہیں ان کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا۔
آسٹن نے ماریہ کو یونہی ساتھ لگاتے ہوئے اٹھایا۔
یکے بعد دیگرے کئی غبارے پھٹ چکے تھے۔اور چارلس کے ہاتھ میں پکڑی سنو سپرے نے ان کے سر اور چہرے کو سفید جھاگ سے ڈھانپ دیا تھا۔
” نئی زندگی کا آغاز مبارک ہو پیاری ماریہ۔ ” ٹالی نے آگے بڑھ کر اسے محبت سے گلے لگایا۔
‘میڈن روڈ پر زندگی ایک دفعہ پھر چل پڑی تھی۔
پوری اسٹریٹ جشن میں ڈوبی نظر آرہی تھی۔۔۔
ایک اور رومیو کو اس کی جولیٹ مل گئی تھی۔۔۔
اور لندن اسی بات پر خوش تھا۔۔۔
مگر اس کہانی کے انجام سے بے خبر تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
” ڈاکٹر اب کیسی حالت ہے میجر بلال کی؟ ” بریگیڈئر نثار فاروقی آئی سی یو سے نکلتے ایک ڈاکٹر کی طرف لپکے۔
” الحمداللہ ۔وہ اب خطرے سے باہر ہیں۔ گولیاں ہم نے نکال دی ہیں۔ کچھ دیر بعد ہم انہیں کمرے میں منتقل کردیں گے ۔ ” چہرے سے ماسک اتارتے ہوئے اس مسیحا نے خوش خبری سنائی تھی۔
” یا اللہ تیرا شکر ہے۔ ” آنکھوں میں آئے آنسوؤں سے انہوں نے اوپر کی جانب سر اٹھا کر اپنے رب کا شکر ادا کیا۔
برگیڈئر نثار فاروقی کے لیے میجر بلال ان کی اولاد سے بھی بڑھ کر تھے۔اور ان کے دوست کی آخری نشانی بھی۔
کچھ دیر بعد میجر بلال کو کمرے میں منتقل کردیا گیا۔
”جہاں دو گھنٹے کے بعد وہ اپنے ہوش و حواس میں لوٹ چکے تھے۔
” کیسے ہو جوان؟ ” بریگیڈئر نثار ان کے بیڈ کے قریب آکر کھڑے ہوگئے۔
” الحمداللہ سر۔ ” نرم سی مسکراہٹ سے جواب دیتے ہوئے انہوں نے خود کو ہشاش بشاش ظاہر کرنے کی کوشش کی۔
” اور مورال؟ ” وہ بھی مسکرائے تھے۔
” ویری ہائی سر۔ ” وہ موت کو شکست دے چکے تھے۔ ایسے میں ان کا مورال تو آسمانوں سے بھی بلند تھا۔
” تمہارے لیے ایک گڈ نیوز ہے۔ اورکزئی ایجنسی کو بھی دشمن کے قبضے سے چھڑوا لیا گیا ہے۔ ” بریگیڈئر صاحب کے چہرے پرفاتحانہ مسکراہٹ سجی تھی۔
” الحمداللہ۔ ” چہرے پر ابھی بھی وہی مسکراہٹ تھی جو آرمی کا ہرفرد ان کے چہرے پر ہمیشہ سے دیکھتے آیا تھا۔
” کاش شہادت میرا بھی مقدر بن جاتی۔ ”
ایک خلش تھی جو ان کہ دل میں باقی بچی تھی یا پھر ایک خواہش جو ناکام ہوکر حسرت میں بدلی تھی۔
میرے بیٹے اس زمین پر صرف یہی ایک محاز نہیں تھا۔ ابھی تو تم سے قدرت نے اور بھی کام لینے ہیں شاید۔ ” انہوں نے اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے ان کے افسوس کو کم کرنے کی کوشش کی۔
” ان شاءا للہ سر۔ ” وہ پھر پر عزم ہوئے تھے۔ دو عدد گولیاں انہیں کمزور نہیں کرسکتی تھیں۔
” اب آرام کرو۔ جب تک صحت یاب نہیں ہوجاتے اس بستر سے پاؤں نہیں نیچے اتارو گے۔ ” بریگیڈئر صاحب کی طرف سے وارننگ ملی تھی۔
” یہ تو مشکل ہے سر۔ ” ان کا اشارہ ضربِ عضب آپریشن کی طرف تھا۔
” دیکھتے ہیں۔ ” وہ جانے کے لیے مڑے۔
” سوری سر۔ ” انہوں نے انہیں دوبارہ مخاطب کیا۔
” سر میجر ارتضی کی کوئی خبر آئی؟ ” اس حالت میں بھی انہیں صرف اپنے دوست کا خیال آیا تھا۔
” ہاں اب تک وہ پہلی پوسٹ پر پہنچ چکے ہوں گے۔ ‘دعا کرو کہ اللہ ہمیں اس میدان میں بھی کامیابی سے سرخرو کرے۔ ” اب کی بار ان کا لہجہ دھیما پڑا تھا۔
” ان شاءاللہ سر۔ ” میجر بلال بھی کسی احساس کے تحت خاموش ہوئے تھے۔
” اوکے ینگ مین۔ اپنا خیال رکھنا۔اللہ حافظ۔ ” وہ چلے گئے تھے۔
جبکہ میجر بلال مختلف سوچوں کے بھنور میں پھنس گئے۔ سوچتے سوچتے جانے کب ان کی آنکھ لگی تھی۔ شاید یہ ان دوائیوں کا جلد اثر تھا جو نرس کچھ دیر پہلے انہیں دے کر گئی تھی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
” ناظرین یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ سیاچن کے محاز پر ایک بڑے ایوالانچ آنے پر پاکستان آرمی کی زاہد پوسٹ برف کے ملبے تلے دب گئی ہے۔ ”
چائے کے ہوٹلوں سے لیکر گھر کے ڈرائنگ رومز میں پڑے ٹی وی، شاندارعمارتوں میں نصب بڑی بڑی ایل سی ڈیز پر ایک ہی خبر رواں دواں تھی۔
” ایک اطلاع کے مطابق اس پوسٹ پر پاکستان آرمی کے تقریبا چودہ کے قریب جوان اس وقت ڈیوٹی پر موجود تھے۔ ”
چائے کے ہوٹلوں اور دکانوں کے قریب لوگ اس خبر کو سننے کے لیے لمحہ بھر کے لیے رکتے اور پھر افسوس کرکے آگے بڑھ جاتے۔جگہ جگہ چینلز بدلنے جانے لگے لیکن ہرچینل سرخ رنگ کا دکھائی دیتا جس پر موٹے موٹے حروف میں اس واقعے کی اطلاع درج ہوتی۔اور ساتھ میں نیوز اینکرز کے چیخ چیخ کر بولنے کی آوازیں عجب ماحول پیدا کررہی تھیں۔
” نہایت افسوس کے ساتھ بتاتے چلیں کہ پوری پوسٹ مکمل طور پر برف کے تودے تلے دب چکی ہے۔ ”
گھر میں لگے ٹی ویز پر بوڑھے لوگ تبصرہ کرنے لگے ۔ کیچن میں سے نکل کر کوئی خاتون آتی اور کچھ دیر خبر سننے کے بعد دوبارہ اپناکھانا بنانے چلی جاتی۔
زندگی ایک لمحہ رکتی اور پھر چل پڑتی۔
” ایک رپورٹ کے مطابق یہ ایوالانچ رات ساڑھے دس اور گیارہ بجے قریب اس پوسٹ کی طرف آیا تھا۔ ”
” پاکستان آرمی کی ریسکیو کی ٹیمیں باڈیز کی ری کوری کے لیے سیاچن کی طرف چل دی ہیں۔”
بڑے آفس میں بیٹھا کوئی شخص ایک لمحہ کے لیے اپنی فائلز سے سر اٹھا کر اسکرین کو دیکھتا اور دوبارہ اپنے کام میں متوجہ ہوتا۔
آفس کے کیبنز میں کی بورڈز کی ٹک ٹک ایک لمحہ کے لیے رکتی اور دوبارہ وہی آوازیں بلند ہونا شروع ہوجاتیں۔
” افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہےکہ حالیہ سیاچن پر میجر ارتضی حدید کی کمانڈ میں بھیجی جانے والی الفا پارٹی بھی اسی پوسٹ پر موجود تھی۔ ”
دنیا میں اس وقت بڑی ظالم چیزیں موجود تھیں لیکن ان برفیلے پہاڑوں سے زیادہ نہیں۔
کتنے جوان تھے جو اس برفیلے قبرستان میں دفن تھے۔ کوئی نہیں بتا سکتاتھا کہ اس برف نے کتنے ہنستے چہروں کو سرد کیا تھا۔
کتنی جوان لاشوں کو نگلا تھا۔
کتنے ہی اپنے تھے جو ان پہاڑوں پر آئے تھے لیکن کبھی لوٹ کر واپس نہیں گئے تھے۔
یہاں کتنے بیٹوں کا خون اس برف پر بہا تھا۔
لیکن کہیں بھی ایسا نظرنہیں آتا تھا۔
وہ پہاڑ نہیں تھے ۔۔۔۔۔برف کی دلدل تھے۔
جس میں کوئی جوان بیٹا اترتا تو بس اس کے اندر دھنستا ہی چلا جاتا۔
تاریخ نے ایک دفعہ خود کو دہرایا تھا شاید۔
گیاری کا حادثہ اس بلندی پر ایک دفعہ پھر رونما ہوا تھا۔
تب ایک سو چالیس کے قریب اس ملک کے جوان سالہ بیٹے برف کے نیچے ابدی نیند سو گئے تھے۔
یہ کیسا خراج تھا جو اس بلندی پر وصول کیا گیا تھا؟
اب زاہد پوسٹ ایوالانچ کا لقمہ بنی تھی جس میں میجر ارتضی سمیت چودہ شیردل جوان برف تلے دب گئے تھے۔
شاید ہمیشہ کے لیے۔
ریسکیو کی ٹیمیں بڑی دقت کے ساتھ اس جگہ پہنچ چکی تھیں۔ ستر کلو میٹر فی گھنٹا کی رفتار سے چلنے والی ہوائیں ہر بڑھتے قدم کو دو فٹ پیچھے کی جانب دھکیل رہی تھیں۔ اس حالت میں ریسکیو آپریشن کرنا مشکل دکھائی دے رہا تھا۔
مشکل تھا مگر پاک آرمی کے ناممکن نہیں۔
” ناظرین یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان آرمی کی ریسکیو کی ٹیمیں سیاچن پر پہنچ چکی ہیں۔ لیکن یہ بتایا جارہا ہے کہ موسم کی شدت کی وجہ سے آپریشن میں دقت پیش آرہی ہے۔ ”
لمحہ لمحہ سے آگاہی دی جارہی تھی۔
بعض دفعہ یہ آگاہی بھی کتنی جان لیوا ہوتی ہے۔
کاش کوئی اس بات کا اندازہ میجر بلال سے لگاتا ۔ یہ خبریں نہیں تھیں بلکہ بہت بڑے ایوالانچز تھے جو میجر بلال کو اس وقت اپنے اوپر گرتے محسوس ہورہے تھے۔
ہر ایک منٹ بعد ایک ایوالانچ آتا اور میجر بلال اس کے نیچے دب جاتے۔
سردی کی لہر پورے جسم میں دوڑتی اور جسم جمود اختیار کرلیتا۔
پھر یہ جمود ٹوٹتا اور خون گردش کرنے لگتا لیکن دل دھڑکنے سے انکاری ہوجاتا۔
کیسے دھڑکتا وہ اب میجر ارتضی کے بغیر۔
اگر میجر بلال دل تھے تو میجر ارتضی ان کی دھڑکن۔
جب دھڑکن ہی نہ رہے تو پھر دل کا دھڑکنا کیسا؟
خون کا جمنا یا گردش کرنا کیسا؟
سانس کا آنا یا جانا کیسا؟
زندہ رہنا یا نہ رہنا کیسا؟
یہ پہلا واقعہ نہیں تھا جس نے ہر آنکھ کو نم کیا تھا۔ اس سے پہلے بھی یہ حادثات ان بلندیوں پر رونما ہوتے رہتے تھے۔
کوئی بیٹا گھر سے جاتا تھا ان بلندیوں کو اپنے قدموں تلے محسوس کرنے لیکن برف کی دلدل میں دھنس جاتا۔
کوئی بھائی بہن سے جلد لوٹ کر آنے کا وعدہ کرتا لیکن اس ظالم برف کی دراڑوں میں ہمیشہ کے لیے پھنس جاتا۔
کوئی باپ اپنی بیٹی کو واپسی پر گڑیا دلوانے کے بہانے سے ان پہاڑوں پر آتا لیکن ہمیشہ کے لیے برفیلی چادر اوڑھ کر سو جاتا۔
کوئی ماں اپنے بیٹے کے لوٹ کر آنے کی امید میں بوڑھی ہوجاتی لیکن بیٹا لوٹ کر نہیں آتا۔
کوئی باپ بیٹے کے جسدِ خاکی کی تلاش میں آنسو بہا بہا کر اپنی قوتِ بصیرت کمزور کرلیتا۔
ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا۔ یہ تو ان پہاڑوں کا معمول تھا۔
بظاہر یہ سفید دامن والے پہاڑ حقیقت میں بہت سے جوانوں کی شہادتوں کے ذمہ دار تھا۔ ان کا سفید دامن اپنے اندر سرخ رنگ کی ایک بڑی مقدار رکھتا تھا۔
کاش یہ پہاڑ جان سکتے کہ کیسے مائیں اپنے بیٹوں کی واپسی کے لیے بوڑھی ہوتی ہیں؟
کاش یہ جان سکتے کہ بہنیں کیسے اپنے بھائیوں کے لوٹ آنے کی منتظر ہوتی ہیں؟
کاش یہ ظالم پہاڑ جان سکتے کہ بیٹیاں کیسے اپنے باپ کی شفقت سے محروم ہوجاتی ہیں؟
کاش یہ جان سکتے کہ بوڑھے باپ کیسے اپنے بیٹوں کی جوان لاشیں اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں؟
کاش۔۔۔۔۔۔۔!
کاش۔۔۔۔۔۔۔!
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
” اب تک کے پاک آرمی ریسکیو آپریشن میں گیارہ کے قریب جوانوں کی باڈیز کو ری کور کرلیا گیا ہے جبکہ تین باڈیز کی تلاش ابھی بھی جاری ہے۔ جن میں میجر ارتضی حدید، حوالدار گلریز خان اور نائیک صوبیدار سلیم نواز کی باڈیز شامل ہیں۔ پاک آرمی کا کہنا ہے کہ وہ جلد آپریشن کر کے ان تین جوانوں کے جسدِ خاکی بھی تلاش کر لے گی۔ ”
آہ۔۔۔۔
یہ خبریں بھی کتنی قیامت ڈھا دیتی ہیں۔ ہنستے مسکراتے چہروں پر ٹی ویز کی سرخ اسکرینز ماتم کے رنگ سجا دیتی ہیں۔ چلتی پھرتی دنیا کو ایک لمحہ کے لیے وہیں روک دیتی ہیں۔
کاش ایسی خبریں ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔
گولیوں کے زخم بھولے بھی نہ تھے کہ برف ایک اور گہرا زخم دے گئی۔
گولیاں لگنے کے باوجود میجر بلال اس آپریشن کے لیے پاک آرمی کی ہرممکن کوشش کررہے تھے۔
ان کا بس چلتا تو وہ اس برف کی قبر کو اپنے ہاتھوں سے کھود کر اس میں دفن اپنے دوست کو نکالتے۔
ان کا بس چلتا تو شاید وہ اس برفیلے ریگستان کو آگ لگا دیتے۔
لیکن ان کا بس ہی تو نہیں چلا تھا۔ ہاسپیٹل کے کمرے میں بند وہ اس وقت دنیا کے سب سے بے بس انسان ثابت ہوئے تھے۔
بہت ہی لاچار ۔۔۔
جو اڑ کر بھی ان بلندیوں پر نہیں جاسکتے تھے۔
ان کا دل اس بات کو ماننے سے انکاری تھا۔
لیکن اب تک کی پہنچے والی خبروں سے یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ میجر ارتضی حدید اب ان کے ساتھ مزید نہیں رہے۔
وہ پہلے روئے تھے ابرش کے لیے۔۔۔
پھر نائیک عطااللہ شہید کے لیے ۔۔۔
اور اب۔۔۔۔
اب اپنے دوست میجر ارتضی حدید شہید کے لیے۔۔۔۔
یہ آخری لفظ ایسا تھا کہ ان کے جسم سے جیسے روح کھینچ لی گئی ہو۔۔۔
اتنی تکلیف انہیں گولیاں لگنے کے دوران محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اب اپنے دوست کے نام کے ساتھ شہید لگاتے ہوئے ہورہی تھی۔
” کاش میں تمہارے پاس آسکتا ارتضی۔ تمہیں اس ٹھنڈی قبر سے نکال کر اپنے سینےسے لگا کر اپنی ساری حرارت تمہیں دے سکتا۔کاش میں رشک سے تمہارے ماتھے پر ایک بوسہ دےسکتا۔ لیکن میرے دوست میں مجبور ہوں۔ بہت ہی مجبور۔ بار بار اجازت مانگنے کے باوجود مجھے تمہارے پاس آنے کی اجازت نہیں ملی۔ اللہ تمہیں سرخرو کرے آمین۔ ”
یہ لفظ نہیں تھے ۔ دل سے اٹھنے والے جذبات تھے جو زبان کے راستے نکل رہے تھے۔
روتے ہوئے ان کی ہچکی بندھ گئی تھی۔
وہ ابرش کے بعد مسکرا سکتے تھے کیونکہ تب میجر ارتضی تھے۔
لیکن اب وہ کبھی بھی مسکرا نہیں سکتے تھے۔۔۔۔کیونکہ اب میجر ارتضی کے بعد کوئی دوسرا میجر ارتضی نہیں تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
زندہ رہیں ہم تو کیا،جو مرجائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
ہستی ہی کیا ہے اپنی زمانے کے سامنے
اک خواب ہیں جہاں میں بکھر جائیں ہم تو کیا
اب کون منتظر ہے ہمارے لیے وہاں
شام آگئی ہے لوٹ کے گھر جائیں ہم تو کیا
وہ بیڈ کی چادریں درست کررہی تھی کہ جبھی اسے ڈور بیل سنائی دی۔ تکیہ بیڈ کی کراؤن سے لگا کر وہ دروازہ کھولنے چلی گئی۔
اس نے دروازہ کھولا تو سامنے کوئی نہیں تھا۔ اس نے دروازے سے گردن نکال کر دائیں بائیں دیکھا تو فلیٹس کے باہر بنے کوریڈور میں اسے کوئی بھی نظر نہ آیا۔
دروازہ بند کرکے وہ واپسی کے لیے مڑی تو اسے اپنے پاؤں تلے کچھ محسوس ہوا۔ اس نے اپنے قدموں کی طرف دیکھا تو وہاں نیچے ایک بند لفافہ پڑا ہوا تھا۔ اس نے جھکتے ہوئے اس لفافے کو اٹھایاتو اس بند لفافے پر اس کی ماما کے گھر کے پتا لکھا ہوا تھا۔ یعنی وہ خط اس کی ماں نے لکھا تھا۔
وہ حیرت سے اس خط کو لیکر کمرے میں آگئی۔
اس کی ماں نے اسے خط کیوں لکھا تھاحالانکہ وہ اسے کال بھی کرسکتی تھیں۔یہی بات اسے پریشانی میں بھی مبتلا کرگئی تھی۔
آسٹن باہر ایک ضروری کام سے گیا تھا۔ ایک ہفتہ پہلے ہی انہوں نے شادی کی تھی ۔ وہ ماریہ کو اپنے ساتھ اس نئےفلیٹ میں لے آیا تھا۔
لفافہ کھولنےسے پہلے اس نے اپنی ماں کو فون کیا تھا۔
دو تین گھنٹیاں جانے کے بعد اس کی ماں نے فون اٹھا لیا تھا۔
” ماں یہ خط آپ نے بھیجا ہے؟ ” حال چال پوچھنے کے بعد اس نے دریافت کیا۔
” ہاں یہ خط پاکستان سے آیا تھا تمہارے نام پر۔ میں تو اب تمہاری طرف آنہیں سکتی تھی اس لیے تمہارے فلیٹ پر ہی پوسٹ کردیا۔خیریت تو ہے نا بیٹا؟ ” اس کی ماں نے خط کا دریافت کیا۔
” جی۔ ”
ایک دو ادھر ادھر کی باتیں کرکے اس نے فون بند کردیا۔
” پاکستان سے؟ ” دل ایک عجیب سے خیال سے تیزی سے دھڑکا تھا۔
اس نے کانپتے ہاتھوں سے لفافے کو کھولا تو اس کے اندر سے دو صفحے نکلے تھے ۔ ایک صفحہ سادہ تھا جبکہ دوسرا کسی ڈائری کا ایک خوبصورت صفحہ تھا۔
فطرت کے عین مطابق اس نے ڈائری والے صفحے کو پہلے اٹھایا تھا۔
وہ صفحہ کھول کر پڑھنے لگی۔
‘ماریہ۔۔۔۔۔!
سمجھ نہیں آرہا کہ میں اپنی بات کہاں سے شروع کروں۔ مجھے لفظوں کا استعمال نہیں آتا اور نہ ہی میں یہاں ان کا استعمال کروں گا۔
اپنی اصل بات کی طرف آنے سے پہلے میں تم سے معذرت چاہتا ہوں۔ تم نے اس دن مجھ سے بہت بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ایک مجبوری کے تحت میں تمہارے کسی پیغام کا جواب نہ دے سکا۔شاید تم اس بات سے بے خبر ہو کہ میرا تعلق پاکستان آرمی سے ہے۔اس لیے اس دن بھی مجھے ایک ضروری کام کے لیے قریبی شہر میں بنے ایک ہیڈ کوارٹر جانا تھا لیکن تم سے ملاقات بھی ضروری تھی۔ اس لیے مزید تم سے کوئی بات کیے میں وہاں سے چلا گیا۔ اگلے دن صبح ہونے سے پہلے مجھے پھر ہیڈ کوارٹر جانا پڑا۔ہماری تربیت کے دنوں کاآغاز ہونے جارہا تھا بس اس کی بریفنگ کے لیے مجھے جانا پڑا۔
افسوس میرے موبائل کی بیٹری بھی ختم ہوگئی تھی ۔ایسا نہ ہوتا تو میں ضرور تمہارے فون کا جواب دیتا۔ جب دوپہر کے بعد میں واپس گیسٹ ہاؤس آیا تو وہاں ریسپشنسٹ سے تمہارا خط ملا جس میں تم نے اپنے جانے کی اطلاع دی۔ جسے پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ تم بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہوچکی ہو۔ تمہیں لگا کہ میں نے اس ملاقات کو آخری ملاقات اس لیے کہا کہ میں تم سے دوبارہ ملنا نہیں چاہتا تھا تو یہ بات بالکل غلط تھی۔ میں نے شاردہ کا حوالہ دیا تھا کہ شاید یہاں ہماری ملاقات آخری ہو۔ اپنے کام کی حساسیت کی وجہ سے میں تمہیں اس کی وضاحت نہیں دے سکا۔
میں واپسی پر بھی تم سے کوئی رابطہ نہیں کرس
تم جانے سے پہلے مجھ سے اپنی محبت کا اقرار کرنا چاہتی تھی اور میں بھی لیکن قسمت نے واقعی موقع نہیں دیا۔ ”
یہ پڑھتے ہوئے اس کے ہاتھ بری طرح سے کانپے تھے اور بھوری آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔
”تم نے مجھے خواب میں دیکھا تھا لیکن میں نے تمہیں حقیقت میں تم سے بھی پہلے دیکھا تھااور پہلی نظر میں ہی میرا دل تمہاری محبت میں گرفتار ہوا تھا۔ اس پہلی نظر میں محسوس کیے گئے جذبات میں تمہیں لفظوں میں نہیں بتا سکتا۔ مجھے لگا تھا کہ تمہیں خاص طور پر میرے لیے ہی آسمانوں سےاتارا گیا تھا۔ ”
کتنا خوبصورت اقرار ہورہا تھا۔
آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔۔۔
محبت کی بارشیں برس رہی تھیں۔۔۔
تمہیں لگا تھا کہ شاید مجھے تمہارے لیے بنایا گیا تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ تمہیں صرف میرے لیے ہی بنایا گیا ہے۔
ماریہ محبت کبھی بھی کسی ایک دل کو اپنے سحر میں گرفتار نہیں کرتی۔ ایک دوسرے کے لیے نہ سہی لیکن چاہے جانے والے دل کو یہ کسی اور کی محبت میں ضرور گرفتار کرتی ہے۔
میرے دل کو بھی اس نے گرفتار کیا تھا۔ اس لڑکی کی محبت میں جو میرے کسی عکس سے پچھلے کئی سالوں سے محبت کرتے آرہی تھی۔ اس حقیقت کے کھلنے سے پہلے ہی میرے دل کو تمہاری محبت کا مرض لاحق ہوا تھا۔اور اس کااحساس مجھے شاردہ یونیورسٹی میں ہی ہوا تھا جب یہ دل تم پرپڑنے والی پہلی نظر پر دھڑکا تھا۔”
کپکپاتے ہونٹوں سے پڑھتے ہوئے اس نے صفحے کو پلٹا۔
” تو مجھے کہنے دو ماریہ کہ مجھے تم سے محبت ہے۔
میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں ماریہ۔ اتنی کہ تم اس کی پیمائش کبھی بھی نہیں کرسکتی۔۔کبھی نہیں۔
تم بہت جذباتی ہو ماریہ ۔اگر تم اس دن بھی جذبات سے کام نہ لیتی تو شاید آج ہم دونوں ایک ہوتےاور ایک ساتھ ہوتے۔ لیکن خیر ہرکام کا ایک وقت ہوتا ہے ۔شاید تب ہمارا ملنا منظورنہیں تھا لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ یہ دعا قبول ہوجائے گی۔میں ابھی بھی تمہارے لوٹ کر آنے کا منتظر ہوں۔
امید ہے کہ تمہیں میرا تحفہ بہت پسند آیا ہوگا۔ وہ دھن میں نے خاص طور پر تمہارے لیے ریکارڈ کروا کر اس کارڈ میں بھری تھی۔تاکہ میں لندن میں بھی تم سے جدا نہ رہوں۔۔شاید تم نے اسے ابھی تک کھولا نہیں ہے ورنہ تمہیں وہ خط لکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔۔۔۔ایسا ہی ہے نا؟
اپنا خیال رکھنا پیاری ماریہ۔۔۔۔۔۔۔!
تمہارا منتظر!
میجر ارتضی حدید
خط کو گلے لگائے وہ الماری کی طرف بھاگی جہاں اس نے میجر ارتضی کا دیا گیا تحفہ رکھا تھا۔ وہ اس تحفے کو اپنے ساتھ ہی آسٹن کی اجازت سے ادھر لے آئی تھی۔
اس نے بے دردی سے اس سرخ رنگ کے ریپر کو پھاڑا۔اس کےاندر چوکور شکل کا ایک ڈبہ تھا۔ اس نے جلدی سے اس ڈبے کو کھولا۔ اس نے اس تحفے کو باہر نکالا تو اس میں ایک چھوٹاسا کسی آدمی کا بت بنا تھا جس نے ہاتھ میں وائلن کی اسٹک پکڑی ہوئی تھی اور اپنی ٹھوری کو چن ریسٹ سے ٹکائے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ وائلن بجا رہا ہو۔ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اس نے آن کا بٹن دبایا تو اس کا اسٹک والا ہاتھ چلنے لگا۔
وہی دھن اس کمرے میں چاروں طرف پھیلنے لگی ۔
آنکھوں میں آنسوؤں کو رگڑتے ہوئے اس نے ڈبے کے اندر جھانکا تو وہاں ایک چھوٹا سا کارڈ رکھا گیا تھا۔ اس نے اس کارڈ کو نکال کر کھولا تو اس کے اندر لکھے گئے الفاظ کو پڑھ کر اس کا دل چاہا تھا کہ وہ خود کو اسی وقت ختم کرلے۔
”A GIFT FOR MY LOVE ”
لیکن نہ قیامت ٹوٹی اور نہ اسے موت آئی۔
ایک اور پچھتاوا۔۔۔۔۔عمر بھر کے لیے۔۔۔۔
کاش وہ اس تحفے کو پہلے کھول لیتی۔۔۔
کاش۔۔۔۔۔!
وہ اس سارے عمل کے دوران دوسرے صفحے کو بھول چکی تھی جو کہ میجر ارتضی کے خط کے ساتھ ہی تھا۔اس کا خیال آتے ہی اس نے اس صفحے کو کھول کرپڑھنا شروع کیا۔
”امید ہے کہ تم ٹھیک ہوگی ماریہ۔ میں ارتضی کا دوست بلال ہوں۔ یہ خط ارتضی نے تمہیں اپنی زندگی میں لکھا تھا۔مگر مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں سے تمہیں پوسٹ نہ کرسکا۔یہ خط مجھے اس کی ڈائری سے ملا تھا جسے وہ شاید تمہیں جلد پوسٹ کرنا چاہتا تھالیکن ایسا ہو نہ سکا۔
کیونکہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ لیکن اس کی خواہش تھی کہ وہ تم سے اپنے دل کی بات کہہ سکے۔ اسی لیے یہ خط میں تمہیں پوسٹ کررہا ہوں۔
اگر ہوسکے تو اسے معاف کردینا۔
بلال احمد”
اب کی بار اس نے شدت سے چاہا تھا کہ اسے واقعی موت آجائے۔
دھن بجتی جارہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے ری ایکٹ کرے۔
محبت کے اقرار پر اس دھن میں رقص کرے؟
یا پھر۔۔۔
میجر ارتضی کے دنیا چھوڑ جانے پر اسی دھن پر ماتم کرے؟
دوسرا آپشن بہتر تھا۔
پورے کمرے میں اس کی رنج میں ڈوبی چیخیں گونجنے لگیں۔ اور انہیں چیخوں میں بچیوں کے رونے کی آوازیں بلند ہونے لگی تھیں۔ وہ آوازیں کانوں کے پردے پھاڑنے تک کی حد تک بلند ہورہی تھیں۔۔۔۔
” ارتضی اااااااااا۔۔۔۔” وہ اپنا سر دیوار میں دیوانہ وار مارنے لگی۔
وائلن کی دھن گونج رہی تھی اور
ارتضی کے اس دنیا سے چلے جانے کا۔۔۔۔ اس کی کیفیت کو لکھنا مشکل تھا۔۔۔
بہت ہی مشکل۔۔۔
دنیا میں کوئی ایسا لفظ نہیں ایجاد ہواجو کہ اپنے کسی بہت ہی پیارے کے اس دنیا سے چلے جانے کو بیان کرسکے۔
” کاش تمہاری جگہ مجھے موت آجاتی ارتضی۔۔۔کاش۔ ”
زندگی ماتم بننا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔
خواب کا دوسرا حصہ سچ ہونے لگا تھا۔۔۔۔۔
ارتضی کی دعائیں قبول ہونے لگی تھیں۔۔۔۔
وہی ماتم میں ڈوبی دھن ۔۔۔
وہی بین کرتیں بچیوں کی آوازیں۔۔۔۔
اور وہی پاگل ہوتی ماریہ۔۔۔۔۔۔
جلد بازی ہمیشہ خسارے کے سمندر کی لہروں کے حوالے کرتی ہے۔ جن کے بھنوروں سے نکلنا بعض دفعہ مشکل ہوجاتا ہے۔ اور پھر یہ کشتی اس سمندر میں اترتے ہی چلی جاتی ہے۔
کاش اس غم کو بیان کیا جاسکتا جو ماریہ نے اس وقت محسوس کیا تھا۔۔۔۔کاش۔۔۔!
ساری زندگی وہ اسی پچھتاوے میں مبتلا ہونے جارہی تھی کہ کاش وہ پاکستان نہ جاتی۔۔
کاش وہ ارتضی سے نہ ملتی۔۔۔۔
کاش وہ ارتضی کی محبت میں گرفتار نہ ہوتی۔۔۔
کاش وہ اسے اس دن بچانے نہ آتا۔۔۔۔
کاش وہ اس کا تحفے میں رکھا گیا کارڈ پہلے پڑھ لیتی۔۔۔۔
اور غموں میں سب سے بڑا غم۔۔۔۔
کاش ارتضی اس دنیا سے نہ جاتا۔۔۔۔
مگراب گزرے وقت کو واپس نہیں بلایا جاسکتا تھا۔۔۔۔۔۔
کبھی بھی نہیں۔۔۔۔
کہ لندن کی لڑکی کی یہ داستان ایسی ہی تھی۔۔۔۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
جہاں میں ہوں۔۔۔۔۔!
وہاں پر ذی نفس کوئی نہیں رہتا
سوائے کاروانِ سخت جاں کے رہ نوردوں کے
جو اپنی سرزمین میں دشمن کے قدموں سے بچانے کو
ان اونچے کوہ ساروں ، برف زاروں پر اتر آیا
جہاں میں ہوں۔۔۔۔!
وہاں پر برف اندر برف اگتی ہے
جہاں اتنی بلندی ہے کہ سانسیں ڈگمگا اٹھیں
ہوائیں بے حیات اتنی کہ موسم تھرتھرا اٹھیں
جہاں پر زندگی ہونے کے امکاں ٹوٹ جاتے ہیں
جہاں موسم ،مزاجِ یار کی صورت
گھڑی پل میں بدلتا ہے
عدو کے تنگ سینے کی طرح یہ تنگ رستے ہیں
شبوں کے بے کرم لمحوں میں ان راہوں پہ چلتا ہوں
کہ جن پر برف کی چادر رگوں کو سرد کرتی ہے
جہاں میں ہوں۔۔۔۔۔!
وہاں سورج نظر آتا ہے مشکل سے
جہاں پر دھوپ میں بس روشنی کا نام ہوتا ہے
جہاں گرمی کے موسم پر جاڑے کا گماں ہوتا ہے
جہاں پارہ نہیں اٹھتا
جہاں سبزہ نہیں اگتا
جہاں رنگوں کی پریوں کا کوئی میلہ نہیں لگتا
جہاں خوشبو گلابوں کی
پرندے تتلیاں اور جگنو
اسی صورت پہنچتے ہیں
کہ جب اپنوں کے خط آئیں
عدو کی بے حسی ایسی
کہ اس اندھی بلندی پر
نہ جانے کتنے سالوں سے
فقط بارود کی صورت ہمارا رزق آتا ہے
جہاں میں ہوں۔۔۔۔!
وہاں تصویر کا چہرہ سوالی ہے
نمودِ فن سے خالی ہے
وجودِ زن سے خالی ہے
جہاں بچوں کی باتوں کا کوئی جھرنا نہیں بہتا
جہاں بوڑھوں کی لاٹھی کی ٹک ٹک کوئی نہیں سنتا
جہاں میلوں مسافت تک
کوئی ہستی نہیں بستی
جہاں میں ہوں۔۔۔۔!
وہاں پر لذتِ کام و دہن کیسی
جہاں مخصوص کھانا ہے
جو باسی ہے، پرانا ہے
میرے یہ نوجوان ساتھی
کہ جن کے عزم کا پرچم ہمالیہ سے بھی اونچا ہے
یہ برفانی فضاؤں میں
مخالف سمت آتی ہواؤں سے بھی لڑتے ہیں
دلوں میں یہ ارادہ ہے
وطن کا نام اونچا ہو۔۔۔!
ہمارا مان اونچا ہو۔۔۔!
(میجر شہزاد نیر)
برفیلے ریگستان پر چلتے ہوئے وہ بالآخر زاہد پوسٹ پر پہنچ چکے تھے۔ اسی دوران موسم کے تیور بدلے تھے ۔
ستر اسی کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے ہوائیں پھر ان بلندیوں پر چلنے لگی تھیں۔ جو کہ ہر قدم کو دو فٹ پیچھے دھکیل رہی تھیں۔
برف کے ٹکڑے چہرے پر پوری قوت سے ٹکرا رہے تھے۔ انہیں اگلے گھنٹے میں زاہد پوسٹ پر پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن اس برفیلے طوفان کے باعث یہ منصوبہ ناکام ہوتے دکھائی دے رہا تھا۔
اس جان لیوا طوفان میں بھی یہ شیردل جوان ڈٹے رہے ۔ یہ برفیلی اور یخ بستہ ہوائیں ان کے عزم کے ساتھ ساتھ ان کے قدموں کو ڈگمگانے میں بھی ناکام ہورہی تھیں۔
ہر قدم کے ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ فضا میں بلند ہوتا اور دل میں جوش مزید ابھر آتا۔
” جوانو بس تھوڑی سی اور ہمت چاہیے۔ ہم اللہ کے کرم و فضل سے زاہد پوسٹ پر پہنچنے والے ہیں۔ ” پھولتے ہوئے سانس کے ساتھ میجر ارتضی کی آواز پارٹی کے آخری جوان تک پہنچی تھی۔
ان کی حالت بگڑ رہی تھی ۔
طوفان بہت شدید تھا۔ ایسے میں اگر کوئی بھی دوسرا ہوتا تو وہ اس سفر کو یہیں ختم کردیتا۔
لیکن وہاں کوئی دوسرا ہوتا بھی کیسے؟
سیاچن کی ان بلند پہاڑیوں کو زندگی کا یہ اعزاز صرف پاک آرمی نے بخشا تھا۔
رات ساڑھے نو بجے کے قریب وہ لوگ اس پوسٹ پر اپنے قدم جما چکے تھے۔
ایگلو میں پہنچ کر انہوں نے اپنی کمروں کے ساتھ بندھے ضروریات زندگی کے سامان کو اتارا۔ جس میں چنوں اور تیل کے کینز کی تعداد زیادہ تھی۔
یہ تیل یہاں چولہا جلانے کے کام آتا تھا جو اس ایگلو میں ہر وقت چلتا رہتا تھا۔
یہ چولہا جلتا تھا تو ہی وہاں زندگی ممکن تھی۔ اسی لیے ایگلو والے اس چولہے کو ” زندگی” کہتے تھے۔
” شکر ہے سر آپ یہاں پہنچ گئے ورنہ راشن تو صبح کا ختم ہوچکا ہے۔ بس اس چولہے میں تیل برائے نام ہی رہ گیا تھا۔ ” صوبیدار رفیق بہت ممنون دکھائی دیے۔
” بس یہ طوفان کی وجہ سے دیر ہوگئی ورنہ ہم شاید اس سے بھی پہلے پہنچ جاتے۔ ” میجر ارتضی نے شوز اتارتے ہوئے ایگلو کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی۔
ان کے ساتھیوں کی کمریں رسی پھرنے سے زخمی ہوچکی تھیں جن سے خون رس رہا تھا۔ میجر عامر ان کی کمروں پر مرہم لگانے لگے۔
” صوبیدار رفیق؟ ” آنکھیں بند کیے ہی انہوں نے صوبیدار رفیق کو آواز دی۔
” یس سر۔ ” صوبیدار رفیق باہر سے برف اٹھا کر لائے تھے اور اسے پینے کے لیے چولہا جلا کر پگھلانے لگے۔ یہاں برف کو پگھلا کر ہی پانی کو استعمال میں لایا جاتا تھا۔ اور اس برف کو پگھلانے کے لیے کئی گھنٹے درکار ہوتے تھے۔
یہ جوان اسی پانی کو پیتے تھے۔
” آپ کا قائد پوسٹ سے رابطہ ہوا؟ ” اتنی تھکن میں بھی انہیں قائد پوسٹ پر تعینات اپنے فوجی بھائیوں کا خیال تھا جن کا رابطہ اس طوفان کے باعث کئی دنوں سے زمین والوں سے کٹ گیا تھا اور اوپر سے دشمن کی حرکت کی وجہ سے وہ جوان اس پوسٹ سے کہیں جا بھی نہیں سکتے تھے۔ میجر ارتضی اپنی پارٹی کے ہمراہ ان کے لیے ضرورت کا سامان لیکر آئے تھے جبکہ باقی کا سامان اور اسلحہ براوو پارٹی ایک دن کے فرق سے لیکر آرہی تھی۔
” نہیں سر۔ تین دن سے ہم ان سے کوئی رابطہ نہیں کرپارہے۔ ” وہ برف پتیلے میں رکھ کر چولہے کے پاس ہی بیٹھ گئے۔
” اوپر جانے والا راستہ ابھی موجود ہے ؟ ” کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے صوبیدار صاحب سے دریافت کیا۔
” نہیں سر۔ طوفان کی وجہ سے راستہ برف تلے دب گیا ہے۔ ” وہ برف کو ہاتھ کی مدد سے وقفے وقفے سے ہلاتے جارہے تھے۔
” پتا نہیں وہ کس حالت میں ہوں گے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں کچھ سامان لیکر ادھر چلے جانا چاہیے۔ کیا پتا وہاں بھی تیل ختم ہوگیا ہو۔ ” میجر ارتضی اپنے بھاری جوتوں کے تسمے باندھنے لگے۔
” سر آپ کا اس طوفان میں وہاں جانا کسی خطرے سے کم نہیں ہے ۔ ” وہ پریشان دکھائی دیے۔
” اور میرا یہاں رکنا قائد پوسٹ کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ہے ۔ ”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...