” میں تم لوگوں سے معذرت چاہتی ہوں۔ آج جو کچھ بھی ہوا وہ سب لاشعوری تھا۔ ‘مجھے احساس ہے کہ میں نے اپنی اس بے خبری میں تم سب کا بہت دل دکھایا ہے ۔خاص طور پر آسٹن کا۔ ” وہ سب آسٹن لوگوں کے کمرے میں بیٹھے وڈیو کی ایڈیٹنگ کررہے تھے تبھی ماریہ ادھر آئی تھی اور سرجھکائے اپنے رویے کی معافی مانگنے لگی۔
” کوئی بات نہیں۔ہم سمجھ سکتے ہیں۔ ” چارلس نے اسکرپٹ کی فائلز سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔
” آسٹن خدا کے لیے مجھے معاف کردو۔ میں اپنے رویے کے حوالے سے بہت شرمندہ ہوں۔ ” اب کی بار وہ آسٹن کی جانب متوجہ تھی جو نجانے موبائل پر کیا ڈھونڈ رہا تھا۔
” میں تم سے ناراض نہیں ہوں ماریہ۔ دوستوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ ” مسکراتے ہوئے اس نے ایک نظر اسکرین سے ہٹا کر اسے دیکھا تھا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
” تم لوگوں نے واقعی مجھے معاف کردیا ہے نا؟ ” اسے ابھی بھی اپنے دوستوں کی فراخدلی پر یقین نہیں آیا تھا۔
” ہاں جی مادام۔ کوئی تحریری ثبوت چاہیے کیا؟ ” آرنلڈ نے چیونگم کا غبارہ پھلاتے ہوئے کہا ۔ غبارہ پھس کی آواز سے اس کے ہونٹوں پر ہی بیٹھ گیا۔
” شکریہ دوست۔ ” دل سے ایک بوجھ ہٹا تھا۔
” چلو چھوڑو ان باتوں کو ۔ایویں فضول سوچتی رہتی ہو۔ یہ بتاؤ کہ تمہارا تھیسس کہاں تک پہنچا؟ ” ٹالی اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے قریب آئی تھی۔اور اس کاگالوں پہ پیار کرتے ہوئے وہ واقعی بہت اچھی دوست لگی تھی۔
” کچھ چیزیں رہ گئی ہیں باقی تقریبا ہوچکا ہے۔ ” وہ مسکراتے ہوئے اس سے گویا ہوئی۔
” واپسی کا پروگرام ہے تمہارا؟ ” آسٹن موبائل چھوڑ کر پاس پڑے نوٹ پیڈ پر کچھ تحریر کرنے لگا۔
” فی الحال تو کوئی ارادہ نہیں ہے۔ ” وہ چہکی تھی۔
اس کے اس جواب نے سب کو اپنا اپنا کام چھوڑ کر اپنے چہرے کی جانب متوجہ کرلیا تھا۔
” کیا ہوا؟ ” سب کے حیرت سے کھلے ہوئے منہ دیکھ کر وہ بھی حیرت زدہ ہوئی۔
” کیوں مادام واپس جانے کو دل نہیں کررہا ؟ ” آرنلڈ ابھی بھی چیونگم کو بے دردی سے چبا رہا تھا۔
” اور اگر میں کہوں کہ نہیں۔ تو؟ ” اس نے جواب کے لیے اپنا سوال ادھورا چھوڑا۔
آسٹن کے ہاتھ سے پنسل نیچے گری تھی۔
” وجہ پوچھ سکتے ہیں ہم؟ ” چارلس فائلز ایک طرف رکھ کر پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔
” افف۔۔۔۔وجہ ہی تو نہیں بتا سکتی۔ ” اس نے ٹالی کو ہاتھ سے پکڑ کر گول گول گھمایا تھا۔
چہرے پر خوشی کے رنگ ہرسو بکھرے تھے۔۔۔لہجہ چہکا تھا۔
جیسےکوئی بہت بڑی بات لفظوں میں بیان ہی نہ کی جا سکے۔
ایسی کیا وجہ ہوسکتی تھی کہ لندن کی وہ لڑکی جو لندن کو چھوڑنے پر سہم سی جاتی تھی آج وہی واپس جانے سے انکار کر رہی تھی؟
یہ سوال سب کے ذہنوں میں ابھرا تھا لیکن کچھ غلط ہونے کی گھنٹی صرف آسٹن کے دل میں بجی تھی۔
” آہم آہم۔۔۔کیا بات ہے جناب ؟ آج اس چہرے پر بہار کدھر سے آئی ہے؟ ” ٹالی نے اس کے گال پر نرمی سے چٹکی کاٹی تھی۔
” بس آہی گئی کہیں سے۔ ” یہ بات کہتے ہوئے وہ شرمائی تھی۔
” اوہو۔۔۔۔ہماری دوست تو شرما بھی رہی ہے۔ ” اب کی بار آرنلڈ نے اسے ہاتھ سے پکڑ کر زور سے گھمایا تھا۔
اور وہ گھومی تھی۔
خوشی سے۔۔۔
ایک عجب سے احساس سے۔۔۔
” میرا خیال ہے ٹالی کہ تمہاری راپنزل کے لیے کوئی شہزادہ اس لینڈ میں اتر آیا ہے۔ ” چارلس کا لہجہ ذومعنی تھا۔
جس نے آسٹن کے دل کی دھڑکن کو تیز کیا تھا
دل مچل ہی تو گیا تھا ایسی بات سن کر کہ جسے نہ سننے کی وہ ہمیشہ دعا مانگا کرتا تھا۔
” اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔ ” اس نے اپنی خوشی سمیٹی ۔
” اس کا مطلب ہے کہ ایسی ہی بات ہے۔ ” ٹالی واقعی ایک سی آئی ڈی آفیسر تھی۔
” کہاں ملا تمہیں وہ شہزادہ ؟ ” آرنلڈ سدا کا پرتجسس انسان۔
” کیسے ملا تمہیں؟ ” ٹالی نے سوال سے سوال جوڑا۔
” اور کب ملاتمہیں ؟ ” اس کی انکوائری لگ چکی تھی۔
وہ سب آسٹن سےبے خبر ہوچکے تھے سوائے چارلس کے جو کہ آسٹن کے دل کا حال بخوبی جانتا تھا مگر وہ ماریہ پہ ابھی کچھ بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔
” کیا ہوا گیا ہے یار۔۔۔ میں نے کہا ناں کہ فی الحال ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ واپس نہ جانے کی کوئی اور بھی وجہ ہوسکتی ہے ۔ ” اپنی چوری کیسے چھپائی جاسکتی ہے یہ ماریہ ابھی سیکھ رہی تھی۔
” اچھا تو پھر وہی وجہ بتا دو۔ ” آرنلڈ نے برا سا منہ بنایا۔
” بس میں نےاب سوچ لیا ہے کہ میں تم لوگوں کے ساتھ ہی واپس جاؤں گی۔ ماما سے میں نے بات کرلی ہے۔ میں نہیں رہ پاؤں گی تم لوگوں کے بغیر۔ ویسے بھی اگلے ہفتے تو تم لوگ جارہے ہو واپس۔ تو تم لوگوں کے لیے میں اتنا تو صبر کرہی سکتی ہوں۔ ”
وہ ماریہ نہیں تھی جسے وہ لندن میں ملے تھے۔۔۔
جسے وہ اپنے ساتھ لندن سے لیکر یہاں آئے تھے۔۔۔۔
یہ تو کوئی اور ہی چیز تھی جو ماریہ کے اندر آکر بس رہی تھی۔۔۔
لندن کا گہرا رنگ پھیکا پڑا تھا۔۔۔
اور شاردا نے اپنا مستقل رنگ ماریہ کو سونپا تھا۔۔۔
” افف۔۔۔۔سارا مزا خراب کردیا ۔اچھابھلا موڈ ہورہا تھا اس نئی فئیری ٹیل کو سننے کا۔ ” ٹالی کے تاثرات بھی آرنلڈ سے کچھ مختلف نہیں تھے۔
” بھئی میں تو کہہ بھی رہی تھی کہ ایسی بات نہیں ہے مگر تم لوگ ہو کہ اپنی ہی پسند کی بات نکالے جارہے تھے۔ ” وہ ان کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے مسکرائی تھی۔
آسٹن کو اس کی مسکراہٹ میں آدھا جھوٹ دکھائی دیا تھا۔
لیکن دل کو تسلی دینے کے لیے اس نے آدھے سچ کو ہی غنیمت جانا۔۔۔
دل کو ذرا سا سکون نصیب ہوا تھا۔۔۔
یہ بے نام جذبے بھی کیا کیا عطا کردیتے ہیں جو کہ انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔
” ہم بھی کہیں کہ ہماری اس چڑیل کو کوئی شہزادہ کیسے پسند آگیا ۔ ” آرنلڈ نے دائیں ہاتھ سے ایک ہلکی سی چپت ماریہ کے سر پر لگائی۔
” اگر کبھی کوئی اچھا لگا تو سب سے پہلے تمہیں ہی بتاؤں گی۔۔۔فکر نہ کرو۔ ” اس کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔
اس سے پہلے وہ مجبورا ہی مسکرایا کرتی تھی۔
مگر تب وہ لندن میں تھی۔
انسانی مشینوں کی دنیا میں۔۔۔۔
اور اب وہ پاکستان میں تھی۔۔
زندہ دل لوگوں میں۔۔۔
” آسٹن تم کیوں چپ سے ہوگئے ہو؟ ” چارلس نے اسے دانستہ مخاطب کیا تھا۔
” بھئی میں تو تم لوگوں کی باتیں سن رہا تھا۔ ” وہ بھی مسکراتے ہوئے ان کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔
ماریہ سے کچھ فاصلے پر۔۔۔
جیسے وہ پہلے دن کھڑا تھا۔۔۔
جانے یہ فاصلہ کب ختم ہونا تھا۔۔۔
یا پھر اسے سدا یونہی برقرار رہنا تھا۔۔۔۔
” آج ایسے لگ رہا ہے کہ دوستی کی یہ عمارت مکمل ہوگئی ہے۔ ” چارلس نےہاتھ آگے بڑھایا۔
جس پہ سب نے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
ایک کے اوپر ایک۔۔۔ ہاتھوں نے دوستی کا ایک مضبوط مینار قائم کیا تھا۔
” خدا ہماری اس دوستی کو ہمیشہ یونہی رکھے۔ ” ٹالی نے دعا کی تھی۔
جس کے قبول ہونے کی دعا ان سب نے اپنے اپنے دلوں میں کی تھی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔)
جو مشتاقِ شہادت ہے،اجل سے ڈر نہیں سکتا
جو مرتا ہے وطن کے نام پر وہ مر نہیں سکتا
ضرب عضب کی پہلی کاروائی میں میجر بلال نے اپنی بٹالین کی دونوں کمپنیوں الفا اور براوو کے ساتھ مل کر اس پہاڑی کو دشمن کے چنگل سے آزاد کرا لیا تھا۔ ان کی اس کاروائی کے دوران مزید ایک سو پچیس کے قریب ملکی و غیر ملکی دشمن مارے گئے تھے۔ اور پاک فوج کے تین جوانوں نے شہادت کا آبِ حیات نوش فرمایا تھا ۔جبکہ پانچ سے سات کے قریب جوان زخمی ہوئے تھے۔
اب ان کے قدم میران شاہ کی طرف بڑھے تھے۔
جہاں پر پاک فوج کی بیس کے گرد دہشت گردوں کے کئی ٹھکانے تھے۔ اس علاقے پر دشمنوں کا سو فیصد قبضہ موجود تھا۔
اور دشمن کی کمر توڑنے کے لیے سب سے پہلے اس جگہ کو ان کے قبضے سے رہائی دلانا ضروری تھا۔آئی ایس پی آر کی ایک ایک رپورٹ کے مطابق دشمن کے سربراہ اسی جگہ پہ رہائش پذیر تھے۔ یہ جگہ ان کے نیٹ ورک کی ہیڈ تھی۔یہاں پہ خود کش حملہ آور تیار کرنے کے لیے تربیتی کمپاؤنڈز موجود تھے۔جہاں پہ بڑی تعداد میں معصوم لوگ اغواہ کر کے لائے جاتے اور پھر ان کی تربیت کرکے ان سے دھماکے کروائے جاتے۔
اس کے علاوہ ان کا سارا اسلحہ اسی جگہ ذخیرہ کیا گیا تھا۔
چھوٹے ہتھیاروں سے لیکر بڑے ہتھیاروں تک ہر قسم کا اسلحہ یہاں رکھا گیا تھا۔
یہ پورا علاقہ تمام دہشت گردی کی جڑ تھا۔ اس لیے دہشت گردی کے تناور درخت کو ختم کرنے کے لیے پہلے اس کی جڑیں کاٹنا لازمی تھیں۔ اور یہ کام پاک فوج کے جوان میجر بلال کی قیادت میں کرنے اس علاقے میں پہنچ چکے تھے۔
اس آپریشن کے لیے پاک فوج کے تیس ہزار بیٹے اپنے ملک کی خاطر قربانی دینے کے لیے نکلے تھے۔
ان کی کئی کمپنیاں بنائی گئی تھیں ۔ ہر کمپنی اپنے اپنےمیجر یا کیپٹن کے انڈر کام کررہی تھی۔
ان کے آنےسے پہلے یہاں بھی ایک دفعہ ہوائی سٹرائک کی گئی تھی۔
جس کے نتیجے میں دشمن کو بہت بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔۔۔۔۔دشمن کے سربراہ کو پکڑنے کے لیے اس اسٹرائک کو ایک خاص حکمت عملی کے تحت سرانجام دیا گیا۔
جس راہ سے آئے گا اس راہ پہ ماریں گے
پانی بھی نہ مانگے گا یوں نشہ اتاریں گے
ہم موت کی وادی سے یوں تجھ کو گذاریں گے
اس قوم سے لڑنے کی ہمت نہ ہو دوبارہ
اے دشمنِ دیں تو نے کس قوم کو للکارا
اور ایسا ہی ہوا تھا۔ پاک فوج نے دشمن کو ایسے ہی سبق سکھایا تھا۔ اگر اس کاروائی کے دوران کوئی زندہ بچ بھی جاتا تو اس کی دوبارہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ اس ملک کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔
پاک فوج کے شیردل جوانوں نے دشمنوں کی آنکھوں میں ان کے ہی علاقے کی مٹی بھر دی تھی۔ ان کے ہی ٹھکانوں کو ان کےلیے قبرستان بنا دیا تھا۔
دشمن سے غلطی ہوئی تھی۔
اور اس کا بھرپور احساس پاکستان کے شیروں نے کروایا تھا۔
بھیڑیے تعداد میں جتنے مرضی نکل آئیں جنگل میں حکمرانی و دہشت صرف شیروں کی ہی رہتی ہے۔
دنیا کی آنکھ نے یہی دیکھا تھا۔
اور تاریخ نے بھی کچھ ایسا ہی لکھا تھا۔
میرن شاہ میں پہلی کاروائی کے دوران بہت سے دشمن اپنے انجام کو پہنچے تھے۔
جنت ڈھونڈنے نکلے تھے لیکن نہیں جانتے تھے کہ بے گناہوں کو مارنے سے جنت نہیں ملتی۔
شہر کے شہر جلانے سے جنت کی ٹھنڈک حاصل نہیں ہوتی۔
یتیم ہوتے بچوں ،بیوہ ہوتی عورتوں،گھر میں بچھی لاشوں پر ماتم ہونے والی آوزوں میں جنت کےلیے مانگی جانے والی دعائیں کبھی قبول نہیں ہوتیں۔
خلقِ خدا کا خون بہانے سے جنت کی ندیاں مقدر نہیں بنتیں۔
بہنوں سے بھائی، بیویوں سے ان کے سہاگ،بوڑھے والدین سے ان کے جوان بیٹے اور بیٹیوں سے ان کے باپ چھین لینے سے حوریں نہیں ملتیں۔
کا ش کوئی انہیں بتا سکتاکہ غلط راستوں کی منزلیں بھی غلط ہوا کرتی ہیں ۔جہنم کی سیڑھی چڑھنے والے کبھی بھی جنت کے آکاش کو نہیں چھو سکتے۔
کاش۔۔۔۔۔اسلام کے یہ دعوےدار سمجھ جائیں کہ دنیا میں دہشت پھیلانے سے آخرت میں امن نصیب نہیں ہوا کرتا۔
لیکن ہر فرعون کے لیے ایک موسی اس دنیا میں ضرور آتا ہے۔
اور ان دشمنوں کے لیے بھی آیا تھا ۔پاک فوج کی صورت میں ۔ جس نے وقت کے ان فرعونوں کو ان کے ٹھکانے پر پہنچانے کے لیے ہرممکن کوشش کی تھی۔ اور یہ جوان اس کوشش میں کامیاب بھی رہے تھے۔
اور سلام ہے اس کوشش پر۔۔۔
سلام ہے ان شیروں پر۔۔۔
سلام ہے پاک افواج پر۔۔۔
سلام سلام سلام
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
وہ اپنے بستر پر گرم کمبل اوڑھے سر کے نیچے بایاں بازو رکھے کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔
ضرب عضب آپریشن کی وجہ سے وہ بہت پریشان تھے۔
” اس آپریشن کے لیے مجھے کیوں نہیں بلوایا گیا؟ ” یہی بات انہیں بے چین کیے ہوئے تھی۔
وہ کیسے چاہ سکتے تھے کہ مشکل کی اس گھڑی میں انہیں پکارا نہ جائے۔
وہ اپنی انہیں سوچوں میں غرق تھے کہ تبھی انہیں اپنے موبائل پر بانسری پر بجتی یہ وطن تمہارا ہے نغمے کی دھن سنائی دی تھی۔
انہوں نے بنا دیکھے ہی کال ریسیو کرلی۔
” ہیلو۔ ارتضی اسپیکنگ۔ ” فون کو کان سے لگائے وہ اپنے مخصوص لہجے میںبولے۔
دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔
”ہیلو۔۔۔” وہ دوبارہ بولے لیکن اب کی بار پھر کوئی جواب نہیں آیا تھا۔
فون بند ہوچکا تھا۔میجر ارتضی نے ایک نظر موبائل کی اسکرین کی طرف دیکھا جو کہ اب سیاہ ہوچکی تھی۔اور اسے واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
ایک لمبا سانس لیتے ہوئے وہ دوبارہ پہلی حالت میں لیٹ گئے۔
دوبارہ گھنٹی بجی۔
اب کی بار انہوں نے نمبر دیکھا تھا۔ نمبر پاکستانی ہی تھا۔
انہوں نےنظراٹھا کر وال کلا ک کو دیکھا تو وہاں رات کا ایک بج رہا تھا۔
” ہیلو۔۔۔”
” میں ماریہ بات کررہی ہوں۔ ”
”ماریہ؟ ”
” اتنی جلدی بھول بھی گئے ؟ ” اسے مایوسی ہوئی تھی۔
” اگر دنیا میں ایک ماریہ ہوتی تو شاید مجھے یاد بھی رہتی ۔ ” ان کے چہرے پر ناگواریت سی ابھری تھی۔ کسی کا یوں پرتکلف ہوجانا انہیں کبھی پسند نہیں آیا تھا۔
” ہم آج دوپہر میں ملے تھے۔ ” اس کا لہجہ بجھ سا گیا تھا۔
” اچھا وہ پاگل سی ماریہ۔ یوں کہو نا پھر۔ ” چہرے پر آئی ناگواریت لمحوں میں کمرے کی ہوا میں تحلیل ہوئی تھی۔
” ہاہاہاہاہا۔۔۔ اب میں اتنی بھی پاگل نہیں کہ یہ چیز میرا تعارف بن جائے۔ ” اسپیکر سے ایک قہقہہ آیا تھا جو ٹکرانے کے بعد میجر ارتضی کی سماعتوں کو بھلا لگا تھا۔
” ٹھیک ہے۔ ۔۔کیا کررہی تھی؟ ” وہ بیڈ کی کراؤن کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔
” کسی کو یاد ۔ ”
” اس وقت؟ ” انہوں نے دوبارہ وال کلاک پر نظر ڈالی۔
” یاد کرنے کا اگر کوئی وقت ہوتا تو بندہ اس وقت میں مصروف رہ کر ان یادوں سے کنارہ کشی کرلیتا۔ ” ایک گہری بات ایک گہرے لہجے میں کہی گئی تھی۔
” ہمم ۔۔۔یہ تو ہے۔کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ رات کے اس وقت کس کو یاد کیا جارہا تھا؟ ” کراؤن سے ٹیک لگائے وہ پرتجسس نظر آئے تھے۔
” جس سے اس وقت بات کررہی ہوں۔ ” مسکراتے ہوئے جواب دیا گیا تھا۔
” کیوں جناب ؟ ” سردی بڑھ رہی تھی ۔ انہوں نے کمبل کندھوں تک لے لیا۔ صرف دایاں ہاتھ باہر تھا جس کے ساتھ انہوں نے موبائل پکڑ رکھا تھا۔
” بس ویسے ہی ۔ ” اس سے کوئی وجہ نہیں بن پائی تھی۔
” امید ہے کہ میری پچھلے کئی سالوں والی باتیں ہی یاد آرہی ہوں گی۔ ” انہوں نے اسے شرارت سے چھیڑا۔
” کیا ہے یار۔ ” وہ جھنپ سی گئی۔
” تو پھر میرے حوالے سے تمہیں کیا یاد آرہا تھا؟ ” آرمی والوں کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے۔ جب تک کوئی بات پوری جان نہ لیں پیچھا نہیں چھوڑتے۔
” تمہارے ڈمپلز۔ ” وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔
” میرے ڈمپلز؟ ” انہیں حیرت ہوئی تھی۔
”ہاں تمہارے ڈمپلز ۔۔۔۔بہت پیارے ہیں۔ کسی خوبصورت راج کمار کے گالوں میں پڑنے والے بھنوروں کی طرح کہ جس میں شہزادیِ وقت کا دل ڈوب جائے۔ ” کیا وہ بھی ایسی باتیں کرلیتی تھی یا یہ اس رات کا خمار تھا جوکہ ستاروں سے سجے اپنے پر پھیلائے شاردا کی وادیوں میں اتر رہی تھی۔
” شکریہ ۔ ” ایک ہلکی سی مسکراہٹ نے ان کے لبوں کو چھوا تھا۔
”مجھے نہیں پتا تھا کہ تم ان اجنبی گزرگاہوں میں یوں میرے سامنے آؤ گے کہ نہ حقیقت پر یقین آئے اور نہ ہی اس خواب کو جھٹلایا جاسکے کہ جسے پچھلے کئی سالوں سے میری یہ آنکھیں دیکھتی آئی ہیں۔ کہ جس کے پیدا کردہ سوالوں کے انبار مجھے ہمیشہ پریشان کیے رکھتے تھے۔کہ جس کی تعبیر اس جگہ پر سامنے آئی ہے جس کا میں نے کبھی نام بھی نہیں سنا تھا۔ اور وائلن کی دھن ان جگہوں پر وہ شخص چھیڑے گا کہ جس کے حقیقت میں ہونے کا تصور کبھی میرے دل کی آنکھ نے بھی نہیں کیا تھا۔ ” وہ خاموشی سے بیڈ سے ٹکائے اسپیکر کے دوسری طرف سے آتی اس آواز کو سن رہے تھے۔ جو کچھ پریشان سی تھی کہ جس میں حیرت کا عنصر بھی محسوس کیا جاسکتا تھا۔
” میں تم سے دوبارہ ملنا چاہتی ہوں۔ اور تمہیں اپنے اس خواب کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں جو دھیرے دھیرے حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔ ” وہ اگر کچھ دیر اور بولتی تو شاید پھر سے رو دیتی۔
” ہاں کیوں نہیں۔تم جب کہو گی میں حاضر ہوجاؤں گا ۔ ” انہیں اب کی بار معاملہ کافی سنجیدہ نظر آیا تھا۔
” شکریہ ارتضی۔ ” وہ رو دی تھی شاید۔ مگراب کی بار اس رونے میں خوشی کو محسوس کیا جاسکتا تھا۔
” خوش آمدید پیاری ماریہ۔ ” انہوں نے فراخدلی سے اسے خوش آمدید کہا تھا۔ ان کا یہ ولولہ وہ فون سے بھی محسوس کرسکتی تھی۔
” اب تمہیں سو جانا چاہیے۔ شب بخیر۔ ” انہوں نے دوبارہ ایک نظر کلاک پر ڈالی جہاں رات کے پونے دو ہورہے تھے۔
” شب بخیر۔ ” اس کے ساتھ ہی دوسری طرف سے رابطہ ختم کردیا گیا تھا۔
کسی خیال کے تحت وہ مسکرائے تھے۔
اور اس کے ساتھ ہی نیند کی دیوی انہیں اپنی آغوش میں لینے کے لیے اس بستر پر اتری تھی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔)
”کہیں جا رہی ہو ماریہ؟ ” وہ کوریڈور سے نکل کر باہر کے گیٹ کی جانب جارہی تھی جبھی اسے اپنے بائیں پہلو سے آسٹن کی آواز سنائی دی۔
” ہاں میں بس باہر تازہ ہوا کے لیے جارہی تھی۔ ” موبائل سے کسی کو پیغام ارسال کرکے وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
” اس حلیے میں؟ ” اس نے ماریہ کا تنقیدی جائزہ لیا۔جو کہ پہلی بار اتنا سنور کر کہیں جارہی تھی۔آسٹن نے اسے کبھی بھی اس حلیے میں نہیں دیکھا تھا۔
بلیو جینز کے اوپر سرخ رنگ کی شارٹ شرٹ پہنے سرمئی رنگ کی گرم چادر لیے وہ آسٹن کو حیران ہی تو کرگئی تھی۔ چہرے پر میک اپ بھی معمول سے ہٹ کر تھا۔ لمبے بال بائیں شانے پر گرائے وہ بہت ہی حسین لگ رہی تھی۔
” کیوں کیا ہوا اس حلیے کو؟ ” اس نے خود کو ایک نظر دیکھتے ہوئے اس سے استفسار کیا۔
” کچھ نہیں۔ ” اس نے اپنی حیرت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔
” اچھی نہیں لگ رہی کیا؟ ”اسے اپنی تیاری پر شک سا ہوا۔ وہ پہلی بار اتنی محنت سے تیار ہوئی تھی۔
” بہت پیاری لگ رہی ہو۔ بالکل کسی فیری ٹیل کی پرنسز کی طرح۔ ” اس نے ماریہ کو اپنی نظر میں سمونا چاہا۔
” شکریہ۔ ‘۔۔ اب میں جاؤں؟ ” وہ مزید وہاں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔
” ہاں۔۔۔کیوں نہیں ۔” ایک شک سے بھری نظر اس پر ڈالتے ہوئے اس نے اسے جانے کا راستہ دے دیا۔
‘وہ چلی گئی جبکہ آسٹن سر جھٹک کر اپنے کمرے میں آگیا جہاں آرنلڈ لوگ ناران کاغان جانے کے لیے پیکنگ کر رہے تھے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔)
اپنے وعدے کے مطابق وہ ماریہ کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ گئے جہاں وہ پہلے سے ہی موجود ان کے آنے کا انتظار کررہی تھی۔
” ہیلو۔۔۔۔” اس پر نظر پڑتے ہی میجر ارتضی نے دور سے ہی ہاتھ ہلایا۔
” ہیلو۔۔۔۔ ” ان پر نظر پڑتے ہی وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی۔
” کیسی ہو؟ ” قریب آتے ہی انہوں نے اسےایک تحفہ پیش کیا۔
” ٹھیک۔۔۔۔ یہ کیا ہے؟ ” اس نے شاپر کو کھول کردیکھا تو اس کے اندر کچھ پیک کیا ہوا پڑا تھا۔
” ایک اچھی لڑکی کے لیے ایک اچھا سا تحفہ۔ ”
” شکریہ۔ ” اس نے تحفے کو سنگی بنچ پر رکھ دیا ۔ جوکہ سنگِ مرمر کی ایک محراب نما شیلٹر کے نیچے بنایا گیا تھا۔
” بیٹھو۔ ” اس نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھ گئی۔
” میں زیادہ لیٹ تو نہیں ہوگیا ؟ ” انہوں نے اپنی گھڑی کو دیکھا جو انہیں پانچ منٹ لیٹ ہونے کا بتا رہی تھی۔
” نہیں ۔۔۔بس میں جلدی آگئی تھی۔ ” اس نے چادر کو شانوں پر ٹھیک سے پھیلایا تھا۔
مغرب پر مشرق نے خوبصورت رنگ چڑھایا تھا۔
” تمہارے دوست کیسے ہیں؟ ” میجر ارتضی نے بازو بنچ کی ٹیک سے ٹکاتے ہوئے سامنے والے منظر کو دیکھا تھا۔ جہاں دور دور تک سبزہ ہی سبزہ تھا اور سبزے کے اس سمندر کے پیچھے اونچے اونچے پہاڑوں کی ایک باڑ تھی ۔جو مغرب سے شروع ہوکر مشرق کی طرف جا رہی تھی۔
بالکل لندن کی ماریہ کی طرح۔
” اچھے ہیں۔ ” اس کی نظریں بھی میجر ارتضی کی نظروں کے تعاقب میں گئی تھیں۔وہ منظر واقعی مسحور کردینے والا تھا۔
لیکن ان ڈمپلز سے زیادہ نہیں جن سے ماریہ نے اس وقت بڑی دقت سے نظریں چرائی تھیں۔
” تم مجھے سے کوئی بات کرنا چاہ رہی تھی؟ ” وہ وقت ضائع کیے بنا اصل موضوع کی طرف آئے تھے۔ یہ ان کی عادت تھی کہ جس کام کے لیے جاتے تھے پہلے اسے ہی سرانجام دیتے تھے۔
” میں پچھلے کچھ سالوں سے ایک خواب دیکھتی آرہی ہوں۔ ” وہ سنگی بنچ سے اٹھ کر کچھ فاصلے پر جا کر کھڑی ہوگئی ۔
” ایک بہت ہی عجیب سا خواب۔۔۔۔بہت ہی مبہم سا ۔۔۔۔کہ جس کی تعبیر اتنی واضح نظر آرہی ہے لیکن پھر بھی آنکھیں یقین کرنے سے انکاری ہیں۔ ” میجر ارتضی اسی حالت میں بیٹھے اس کے بے ترتیب سے جملوں کو سننے لگے۔
” ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جس کے ایک طرف اونچے اونچے پہاڑ ہوتے ہیں۔دوسری طرف ایک دریا بہہ رہا ہوتا ہے۔ اور اسی دریا کے کنارے سے کچھ فاصلے پر ایک لڑکا کھڑا وائلن بجا رہا ہوتا ہے۔ اور اس وائلن کی دھن پر آٹھ سے نو سال کی بچیاں رقص کررہی ہوتی ہیں۔وہ دھن بہت ہی خوبصورت ہوتی ہے ۔بالکل ویسی ہی جیسی اس دن تم بجا رہے تھے۔ ” وہ کچھ دیر کے لیے رکی تھی۔
”میں اس دھن سے کھنچی چلی آتی ہوں۔ پھر پتا نہیں کیا ہوتا ہے کہ وائلن کی دھن ماتم میں بدلنا شروع ہوجاتی ہے۔ اسی دوران ان پہاڑوں کے پیچھے سے ایک سرخ گھٹا آگے بڑھنا شروع ہوتی ہے۔ وہ بچیاں رونا شروع کردیتی ہیں۔ میں انہیں چلا چلا کر کہتی ہوں کہ رونا بند کرو مگر وہ رونا جاری رکھتی ہیں۔ وہ گھٹا لڑکے کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے۔ میں اسے پکار
اب کی بار میجر ارتضی نے اس کی جانب دیکھا تھا۔ اس کی چادر وہیں سنگی بنچ کے قریب گرگئی تھی۔ انہوں نے وہ چادر اٹھا کر اسے اوڑھائی تھی جیسے کہ مشرق کےیہ باشندے کسی بھی عورت کو عزت سے اوڑھاتے ہیں۔ عورت کسی بھی ملک کی ہو اس کی عزت سب کو مقدم ہوتی ہے۔اور چادر تو مشرق میں عزت کا دوسرا نام ہے۔
وہ خاموشی سے اس کا چہرہ تکنے لگے جو کہ جواب کا منتظر نظر آرہا تھا۔
” دعا کرنا کہ اس خواب کا دوسرا حصہ جلد سچ ہوجائے۔ ” ایک ہلکی سی مسکراہٹ ان کے سنجیدہ لبوں پر رینگی تھی۔
ماریہ کا ہاتھ یکدم اٹھا تھا اور میجر ارتضی کو اپنے بائیں گال پہ پوری شدت سے محسوس ہوا تھا۔
ایک زناٹے دار تھپڑ کی آواز شاردا کے ان بلند پہاڑوں میں گونجی تھی۔جس نے فیری ٹیل کے ان کرداروں کو ایک ساتھ حیرت میں ڈالا تھا۔
ہاتھ اٹھانے والے نے ہاتھ کے اٹھنے پر حیرت کا اظہار کیا تھا۔
جبکہ مقابل اس ہاتھ کے خود پر اٹھنے پر حیران ہوا تھا۔
” بس اتنی ہی وقعت تھی تمہارے لیے میری ان باتوں کی ؟ تمہارے لیے جذبے کوئی معنے نہیں رکھتے؟ سچائیوں کی کوئی اہمیت نہیں؟ ہاں؟ ” وہ چلا رہی تھی ان پر۔
” کسی کے آنسو تمہارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے؟ میں جانتی ہوں کہ تمہیں یہ بات بھی مذاق لگی لیکن کیسے تم کسی کے آنسوؤں میں ڈوبے لفظوں کا مذاق اڑا لیتے ہو؟ ” اس کے سر سے چادر سرک چکی تھی۔ جو کہ دھیرے دھیرے کندھوں کی طرف پھسل رہی تھی۔
میجر ارتضی بائیں گال پر ہاتھ رکھے اس لڑکی کو دیکھ رہے تھے جو کل تک انہیں دنیا کی سب سے مظلوم لڑکی نظر آئی تھی ۔
” تم نیلسن کے مجسمے سے بھی زیادہ برے ہو۔ بہت ہی برے۔ ” وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
” بس ۔۔۔یا کچھ اور بھی کہنا ہے؟” وہ بازو سینے پر باندھ کر کھڑے ہوگئے۔
” میں اپنے احساسات کا مزید مذاق نہیں اڑوا سکتی۔ ” گالوں کو بے دردی سے رگڑتے ہوئے وہ کسی نتیجے پر پہنچی تھی۔
” تم سچ میں پاگل ہو۔ ” اتنا کچھ ہونے کے باوجود وہ اپنی ٹس سے مس نہیں ہوئے تھے۔
” تمہیں ایسے لگا کہ میں نے تمہارا احساسات کا مذاق اڑایا ہے؟ ” ان کا لہجہ بہت ہی دھیما تھا۔ اس لہجے نے اسے چوکنے پر مجبور کیا تھا ۔اگر ان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو تھپڑ کے جواب میں تھپڑ ملتا ۔
لیکن یہی تو بات تھی کہ وہ کوئی اور نہیں تھے۔ میجر ارتضی تھے۔
” میں نے تمہیں بس یہی کہا تھا کہ دعا کرنا کہ تمہارے اس خواب کا دوسرا حصہ جلد پورا ہوجائے۔ کیا یہ کوئی مذاق تھا؟ ” وہ اسی لہجے میں پوچھ رہے تھے۔
” میرے لیے تمہاری باتیں بھی اہمیت رکھتی ہیں۔تمہارے آنسو بھی مجھے عزیز ہیں۔ تمہارے الفاظ بھی میرے لیے بہت قیمتی ہیں۔تمہارے احساسات و جذبات میرے لیے بہت معنے رکھتے ہیں۔ ” وہ ان بھوری آنکھیں میں براہِ راست ڈوب رہے تھے جن کے کٹورے کسی ساگر کی مانند جل تھل ہورہے تھے۔
” تمہاری باتوں کو میں نے کب جھٹلایا۔۔۔ یہ سچ ہے کہ مجھے ایسی باتوں پر یقین نہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تمہاری ان باتوں کو میرے دل نے سچا جانا ہے۔ اور انہیں سچ جانتےہوئے ہی میں نے کہاکہ اس کے دوسرے حصے کے سچ ہونے کی بھی دعا کرو۔کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ میں نے اس بات کو مانا ہے کہ تمہارے خواب کا پہلا حصہ واقعی سچا تھا؟ ” انہوں نے اس کے لیے اب ایک سوال چھوڑا تھا۔
” بولو ماریہ۔۔۔میں منتظر کھڑا ہوں۔ ” وہ سینے پر بازو باندھے اس کے جوابات کا انتظار کررہے تھے۔
‘اس نے دوبارہ آنکھوں میں چمکتے آنسوؤں کو صاف کیا تھا اور پلکیں اٹھا کر ان کے چہرے کی طرف دیکھا تھا جہاں صرف سکون ہی سکون تھا۔
ان کا بایاں گال تھپڑ کی شدت سے سرخ ہوچکا تھا۔
وہ سرجھکا کرکھڑی ہوگئی۔
کسی ایسی شہزادی کی طرح کہ جس سے بادشاہ کے دربار میں کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہو اور پھر اسے سزا کا حقدار ٹھہرا دیا گیا ہو۔
’’تم بہت برے ہو ارتضی۔بہت ہی برے۔‘‘ وہ ان سے دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔
’’ہاں۔۔۔ وہ تو میں ہوں۔لیکن یہ میرے سوال کا جواب نہیں۔‘‘ وہ اپنے جوگرز کی ایڑیوں کے ساتھ سخت پہاڑی کو کھڑچنے کی اداکاری کرنے لگے۔
’’میں کیا جواب دوں اب۔‘‘ وہ ہاتھوں کو ایک دوسرے سے مسل رہی تھی۔
’’اب یہ بھی میں بتاؤں؟‘‘ انہوں نے سچ میں سر پیٹا تھا۔
’’مرضی ہے تمہاری۔‘‘ سوں سوں کرتی ناک اس وقت شاردا کے ہرخوبصورت منظر کو مات دے رہی تھی۔
’’ میری مرضی پر پھر تم نے تھپڑ ہی مارنا ہے۔‘‘ وہ لاڈ سے خفا ہوئے تھے۔
’’ تو تم سیدھی طرح بات کیا کرو۔مجھے اتنی مشکل باتیں سمجھ نہیں آتیں۔‘‘ اس نے چادر کو اسی طریقے سے لے لیا جس طرح میجر ارتضی نے اسے اوڑھایا تھا۔
’’اللہ۔۔۔۔اب اس میں کیا مشکل تھا؟‘‘ اب کی بار واقعی ان کا دل چاہا تھا کہ وہ اس پہاڑی سے چھلانگ لگا دیں۔اس سے زیادہ آسان زبان میں وہ صرف اسے اے بی سی ہی سناسکتے تھے۔
’’اتنی گھما پھرا کر بات کرو گے تو پھر اگلے بندے کا دماغ بھی تو گھومے گا نا؟‘‘ وہ رونا بھول چکی تھی۔
’’ تو ت
درمیان میں آئے فاصلے کو ختم کرنے کے لیے۔ ۔
”تم اس تھپڑ کی بجائےاگر میرا سر بھی قلم کردیتی تو خدا کی قسم سی تک نہ کرتا۔ ” کیا تھا اس لہجے میں کہ جس نے ماریہ کو رونا بھلا دیا تھا۔
لندن کی وہ لڑکی پل بھر کے لیے چونکی تھی۔
شاردا کی سردی میں بھی لہجے کی گرمی محسوس ہوئی تھی ۔
تو یہ فرق تھا آسٹن اور میجر ارتضی میں۔ جو بات کا غلط رخ دیکھ کر پل بھر میں ناراض ہوکر چلا گیا تھا۔
اور مشرق کا یہ شہزادہ مغرب کی اس شہزادی کے ہاتھوں اپنا سر بھی قلم کروانے کو تیار تھا ۔
اس محراب کے نیچے سکوت طاری ہوچکا تھا۔
دور دور تک صرف خاموشی ہی خاموشی۔
بھوری اور سیاہ آنکھیں ایک دوسرے میں کھو کر ہر آواز ہر منظر کو بھول چکی تھیں۔
کتنے ہی لمحے بیتے تھے اس منظر کو ۔۔۔۔
” ایک بات تو بتاؤ ۔ ” اور پھر اس خاموشی کو ہمیشہ کی طرح میجر ارتضی نے ہی توڑا۔
” ہاں پوچھو۔ ” وہ ابھی بھی ان سیاہ آنکھوں کے طلسم میں جکڑی ہوئی تھی۔
” اتنا رونے سے تمہیں ڈی ہائیڈریشن نہیں ہوتی ؟ ” اتنے رومان پرور ماحول میں بھی انہیں مذاق سوجھا تھا۔
” او خدایا۔۔۔۔” وہ مسکراہٹ چھپاتے ہوئے واپس بنچ کے قریب آگئی۔
” مجھے امید ہے کہ تم ہنستی اچھی ہی لگتی ہوگی۔ ” وہ بھی اپنی جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اس محراب کے نیچے آگئے۔
”شاید۔۔۔۔۔ اس تحفے کے لیے ایک بار پھر شکریہ ۔ ” اس نے ان کا دیا ہوا تحفہ دائیں ہاتھ میں اٹھا لیا۔
” یہ تحفہ تمہیں ہمیشہ میری یاد دلایا کرے گا ۔ اس لیے اسے سنبھال کر رکھنا۔ ” محراب کے ستون سے ٹیک لگا کر انہوں نے ایک خوبصورت مسکراہٹ سے اسے اس تحفے کو سنبھال کررکھنے کی نصیحت کی تھی۔
اور یہی چیز ماریہ کے دل کو ایک دفعہ پھر بری طرح سے دھڑکا گئی تھی۔
” مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے۔شاید یہ ہماری آخری ملاقات ہو کیونکہ مجھے کل شام یہاں سے واپس جانا ہے۔ بعد میں شاید میں تمہارے ہوتے ہوئے یہاں نہ آپاؤں۔ تم سے مل کر بہت اچھا لگا۔ اپنا خیال رکھنا۔ ” ایک مسکراہٹ ان کے لبوں پر اپنا تخت لگا کر بیٹھنے آئی تھی۔
” الوداع۔ ”یہ کہہ کر وہ ستون کی ٹیک چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔
اسے وہیں چھوڑ کر۔۔۔
بالکل اکیلے۔۔۔۔۔
مشرقی شہزادہ مغربی شہزادی کو الوداع بول کر جاچکا تھا۔
وہیں۔۔۔ جہاں سے سفر ابھی شروع بھی نہیں ہوا تھا۔
جہاں پہلے قدم پر وہ ابھی تنہا ہی کھڑی تھی۔۔۔
آگے بڑھنے نہ بڑھنے کی کشمکش میں۔۔۔۔
وہ انہیں جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
جیسے وہ شروع دن سے انہیں دیکھ رہی تھی۔۔۔
وہ آج بھی انہیں نہیں روک پائی تھی۔۔۔۔
ایک تیز ہوا کا سرد جھونکا اس کے جسم سے ٹکرایا تھا۔ لمبی گرم چادر اڑکر اس کے چہرے پھیل گئی تھی۔ آنکھوں کے آگے سرمئی رنگ کا اندھیرا چھایا تھا۔
اس نے سرعت سے چادر کو ہٹایا تو سامنے منظر سے وہ غائب ہوچکے تھے۔
ایک گھٹا آئی تھی اور انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر غائب ہوگئی تھی۔۔۔۔
کچھ کچھ تو ایسا ہی ہوا تھا۔
وہاں اب کچھ بھی نہیں تھا سوائے اس بلدار راستےکے ، جس پر چلتے ہوئے وہ پہاڑی سے نیچے اتر رہے تھے۔
وہ جیسے آئے تھے بالکل ویسے ہی چلے گئے تھے۔
لندن کی اس شہزادی کو ایک آخری تحفہ دے کر۔۔۔۔جو اسے ہمیشہ ان کی یاد دلایا کرے گا۔
سامنے کا منظر دھندلا ہوا تھا۔۔۔۔بالکل اسی طرح جس طرح لندن کی دھند ہر منظر کو دھندلا دیتی تھی۔
کہ جس کے پار کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔۔۔
سوائے کچھ مبہم سی چیزوں کے۔۔۔
جو دھند کے رحم و کرم پر اپنی شناخت کو ختم کرنے پر مجبور ہوجاتی تھیں۔
کہ۔۔۔۔۔
پہاڑوں پر لکھی گئی داستانوں میں جدائیاں یوں ہی تو رقم ہوتی ہیں۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
میری سرحدوں کی جانب کبھی بھول کر نہ آنا
بڑی پاک سرزمیں ہے یہاں سنتری کھڑے ہیں
کوئی دشمنوں سے کہہ دے یہاں غزنوی ؒ کھڑے ہیں
یہاں بدر کا ہے عالَم یہاں حیدریؓ کھڑے ہیں
کبھی بھول کر نہ آنا میری سرحدوں کی جانب
میری سرحدوں کی جانب کبھی بھول کر نہ آنا
اپریل دوہزار نو میں کیے گئے سوات میں فوجی آپریشن میں پاکستان آرمی نے ہزاروں کے قریب شرپسندوں کو ٹھکانے لگایا تھا۔ ‘دس ہزار کے قریب شرپسند یہاں پناہ گزیں تھے۔جنہیں چن چن کر ان کے انجام تک پہنچایا گیا۔باقی بچ جانے والے شرپسند اپنے سربراہ کے ساتھ یہاں سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
ان شرپسندوں نے بعد میں شمالی وزیرستان پر اپنا قبضہ جمانا شروع کردیا۔ اور بہت سے علاقوں میں اپنی دہشت قائم کرکے اپنا قبضہ جما لیا۔اور شمالی وزیرستان کی کئی ایجینسیوں میں اپنی اپنی تنظیمیں قائم کرکے عسکریت پسندوں کی ایک مضبوط تنظیم تشکیل دے دی۔ جس کی جڑیں دن بدن پھیلنے لگی ۔ ان میں زیادہ طاقت ور تنظیمیں اورکزئی ،مہمنداور باجوڑ میں قائم کی گئیں۔
عسکریت پسندوں کے ان ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے پہلا آپریشن ”شیردل ”دوہزار آٹھ میں شروع کیا گیا۔جس میں بھی پاکستان کے ان شیردل بیٹوں نے شاندار کارکردگی دکھائی۔اس آپریشن میں بہت سی ایجنسیوں کو شرپسندوں سے خالی کرا لیا گیا ۔اس کے بعد مہمند ایجنسی کی طرف پیش قدمی کی گئی۔جس کے سربراہ کو اس ملک کے بیٹوں نے مہمند ایجنسی چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا۔
شرپسندوں کے ایک بڑے ٹھکانے اورکزئی میں دوسرا آپریشن مارچ دوہزار دس میں شروع کیا گیا۔ جس میں اللہ کے کرم و فضل سے مادرِ گیتی کے یہ بیٹے ہمیشہ کی طرح سرخرو ٹھہرے۔
مری سرحدوں کے اندر نہ قدم جماسکو گے
مری سرحدوں تک آئے تو نہ بچ کے جاسکوگے
مری ضربِ حیدریؓ ہے کہاں تاب لا سکوگے
کبھی بھول کر نہ آنا میری سرحدوں کی جانب
میری سرحدوں کی جانب کبھی بھول کر نہ آنا
اس ساری کاروائی کے دوران خیبر ایجنسی کو بھی نظر انداز نہ کیا گیا۔پاکستان آرمی نے شرپسندوں کو یہاں بھی ڈیرے جمانے نہ دیئے اور مجبورا ان عسکریت پسندوں کو فرار ہوکر وادیِ تیرہ میں پناہ حاصل کرنا پڑی۔ تمام علاقوں سے فرار ہوئے شرپسند اپنے کمانڈروں سمیت اس علاقے میں آکر اکٹھے ہوگئے۔ پاک فورسز نے ادھر بھی ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔اور یہاں بھی ایک آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔
اس دوران پاکستان آرمی اور حکومتِ پاکستان کی طرف سے ان شرپسندوں کو کئی بار مذاکرات کی دعوت دی جاتی رہی لیکن عسکریت پسندوں کی طرف سے کوئی پیش قدمی نہ کی گئی بلکہ پہلے سے موجود معاہدات کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔
ان سب پہلوؤں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان آرمی نے آپریشن راہِ نجات شروع کیا۔
ان چار سالوں میں ان شرپسندوں نے قبائلی علاقہ جات میں موجود پاک آرمی کی پوسٹوں کو متعدد بار نشانہ بنایا۔
بات امن سے مذاکرات سے بہت آگے نکل چکی تھی۔گلی گلی میں خون کی ہولی کو دیکھنا برداشت سے باہر ہوتا گیا۔ اس لیے جون دوہزار چودہ میں پاکستان آرمی نے اللہ کا نام لیکر جنرل راحیل شریف جیسے عظیم سپہ سالار کی قیادت میں ضربِ عضب آپریشن کا آغاز کیا۔
جس کی دوسری کاروائی میں پاکستان آرمی اور دیگر فورسز نے مل کر میران شاہ کا چالیس فیصد حصہ شرپسندوں سے پاک کروا لیاتھا۔
اور کامیابی کی طرف قدم ابھی جاری تھے کہ کیپٹن احمرسمیت پاک آرمی کے دو جوانوں نے شہادت کے تمغے اپنے سینوں پر سجا لیے۔
کیپٹن احمر کی شادی کو ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا۔
ان کی دلہن کے ہاتھوں سے ابھی مہندی اتری بھی نہیں تھی کہ ان کی شہادت نے اس کے ماتھے پر شہید کی بیوہ کا جھومر سجا دیا تھا۔
فقط اک خدا کو سجدہ ہے نشانِ سرفرازی
مرا نام ہے مجاہد مری آن ہے نمازی
گئی جان تو شہادت ، ہوئے سرخرو تو غازی
کبھی بھول کر نہ آنا میری سرحدوں کی جانب
میری سرحدوں کی جانب کبھی بھول کر نہ آنا
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
یہی گر ضد تمہاری ہے
چلو ہم بھول جاتے ہیں
سبھی وعدے، سبھی قسمیں
محبت کی سبھی رسمیں
نہیں منظور جو تم کو
کریں رنجور جو تم کو
تمہاری شادمانی ہی، عزیز از جان ہے جب تو
تمہیں پھر ٹوکنا کیسا؟
زیاں، سود کی بابت، بھلا پھر سوچنا کیسا
چلو ہم بھول جاتے ہیں
محبت کی ریاضت میں
وفاؤں کی مسافت میں
قدم کس کے کہاں بہکے، ہوئی کس سے کہاں لرزش
بسا دی جس نے اک پل میں، ہماری آنکھوں میں بارش
کہ جس کی تیز بوندوں سے
کسی تیزاب کی صورت
نشانِ منزلِ دل ہی، جلا ڈالا مٹا ڈالا
مگر جاناں
کہاں آسان ہوتا ہےِ؟
جگر کا خون اشکوں میں، بدلنا اور بہا دینا
خس و خاشاک چن چن کر
گھروندہ اک بنانا اور اسی کو پھر جلا دینا
جواں سپنوں کی لاشوں کو
درونِ جاں چھپا کر مسکرا دینا
خزائیں پالنا خود میں، بہاریں بانٹے پھرنا
کہاں آسان ہوتا ہے؟
بہت ممکن ہے ہم بھی ہار ہی جائیں
جواں ہے ضبط جو اب تک
مقابل غم کے آئیں۔۔۔۔ اور ڈھئے جائیں
اور اس میں بھی تعجب کیا؟
تمہارے لوٹ آنے کی بچی ہو آس جوکوئی
نوائے بےزباں بن کر
سسک کر پھر سے اٹھے اور تم تک بھی پہنچ جائے
سو تم سے یہ گزارش ہے
تب اک احسان تم کرنا
پلٹ کر دیکھنا یوں سرد نظروں سے
کہ جو بھی آس
اور بارش برساتی آنکھوں سے باہر آگئی۔ اسے آج ہی آسٹن لوگوں کے ساتھ یہاں سے جانا تھا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ اور جانے سے پہلے وہ ایک بار میجر ارتضی سے اپنے دل کی بات کہنا چاہتی تھی اور ان کے لبوں سے اپنی محبت کا اقرار سننا چاہتی تھی۔
لیکن آہ۔۔۔۔۔
یہ وقت بھی کب کسی کو من چاہے موقع دیتا ہے۔
بھاری ہوتے قدموں کے ساتھ وہ اپنے کمرے میں آگئی۔ جہاں ٹالی اپنی پیکنگ کر رہی تھی۔ ماریہ بھی اپنے آنسو چھپاتے ہوئے اپنی چیزیں بیگ میں رکھنے لگی۔
’’ماریہ سب ٹھیک ہے؟‘‘ ٹالی کا بیگ میں کپڑے رکھتا ہاتھ رکا تھا۔ اس نے جانچتی نظروں سے ماریہ کی سرخ ہوتی آنکھوں اور ناک کو دیکھا تھا۔
’’ہاں۔۔۔ سب ٹھیک ہی ہے۔‘‘ آنکھ میں آئے آنسوؤں کو اس نے بے دردی سے صاف کیا تھا۔
وہ چیزوں کو پھینکنے کے سے انداز میں بیگ میں رکھ رہی تھی۔
ٹالی نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔
بے ترتیبی سے چیزیں رکھ کر اس نے بیگ کی زپ کو بند کیا اور اسے بیڈ کے ایک کنارے پر رکھ دیا۔
’’یہ تحفہ تو رہ گیا تمہارا۔‘‘ ٹالی کی نظر سامنے دیوار کے قریب پڑی میز پر رکھے ہوئے ایک تحفے پر پڑی جسے بہت نفاست سے پیک کیا گیا تھا۔
ماریہ کی نظروں نے بھی اس کی نظروں کا تعاقب کیا تھا۔
اور اس کے ساتھ ہی میجر ارتضی کے آخری الفاظ اس کے کانوں میں گونجے تھے۔
’’یہ تحفہ تمہیں ہمیشہ میری یاد دلایا کرے گا۔ اسے سنبھال کررکھنا۔‘‘ تھمے ہوئے آنسو پھر جاری ہوچکے تھے۔
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے وہ اس تحفے کے قریب پہنچی تھی۔ مرے ہوئے ہاتھوں سے اس نے اس تحفے کو اٹھایا تھا۔
’’کس نے دیا یہ تحفہ ماریہ؟‘‘ ٹالی کو اس کی یہ حرکتیں مشکوک لگ رہی تھیں۔
’’بس دے ہی دیا کسی نے۔۔۔۔۔۔ عمر بھر کے لیے۔‘‘
وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ اسے یہ تحفہ عمر بھر کے لیے دے کر جارہے تھے یا محبت کی پہلی ہی سیڑھی سے گرنے کا روگ۔
کاش وہ جان پاتے کہ ماریہ کے قدم کس منزل کی طرف اٹھ چکے تھے۔
وہ کیا سوچنے لگی تھی ان کے بارے میں۔
کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ٹالی خاموش نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ تحفے کو گلے سے لگاتے ہوئے وہ اپنے بیڈ پر آگئی۔
اس نے اسے ابھی تک نہیں کھولا تھا۔
’’جلدی کرو ٹالی اور ماریہ۔‘‘ باہر سے آسٹن کی آواز آئی تھی۔
اور اس کے ساتھ ہی آنسوؤں کا سیلاب تھما تھا۔
وہ سامان لیے اس تحفے کو گلے سے لگائے ٹالی کے پیچھے پیچھے باہر آگئی۔ اس کے چہرے پر نظر ڈالے بغیرآسٹن نے اس کا بیگ اٹھایا تھا۔
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے وہ ان دونوں کے پیچھے چل دی۔
’’شاردا میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔‘‘ پہاڑی سے اترتے ہوئے اس کی نظر میجر ارتضی کے گیسٹ ہاؤس پرپڑی۔ آنسو پیتے ہوئے اس نے خودکلامی کی۔
وہ کچھ دیر کے لیے وہاں رکی تھی۔
اسے اب بھی ان کے لوٹ کر آنے کی امید تھی۔وہ آخری بار ہی سہی پر ان سے ملنا ضرور چاہتی تھی۔
’’اور تمہیں بھی ارتضی۔‘‘ جب وہاں سے ان کے آنے کی امید مدھم ہوئی تو وہ روتے ہوئے پہاڑی سے اتر آئی۔
’’کاش تم اب بھی لوٹ آؤ ارتضی۔۔۔۔کاش۔‘‘ جیپ میں بیٹھتے ہوئے اس نے چاروں اطراف میں نظریں گھمائی تھیں کہ شاید کہیں سے ہی ان کا چہرہ نظر آجائے۔
مگر ایسا ہوا نہیں تھا۔
آسٹن نے اسے یوں دیوانہ وار نظریں گھماتے ہوئے دیکھا تھا۔مگر خاموش رہا۔
اب کہہ بھی کیا سکتا تھا۔
یہی چیز تھی جو اس کے دل کو ہمیشہ پاکستان آنے سے ڈراتی تھی۔
وہ میجر ارتضی اورماریہ کے بارے میں جان چکا تھا۔ اس دن اس نے ماریہ کا پیچھا کرکے اس راز کی حقیقت کو جان لیا تھا۔
آخری نظر گیسٹ ہاؤس پرڈال کر وہ پچھلی سیٹوں پر آرنلڈ اور ٹالی کے ساتھ بیٹھ گئی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر چارلس جبکہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر آسٹن بجھے ہوئے دل کے ساتھ بیٹھ گیا۔
انہوں نے یہ جیپ شہر سے باہر تک جانے کے لیے کرایے پرلی تھی۔
تحفے کو گلے سے لگا کر بانہوں میں بھینچے اس نے ایک بار پھر ان کے لوٹ کر آنے کی دعا کی تھی۔
دعا قبول ہوچکی تھی لیکن تب تک ان کی جیپ شہر سے دور جاچکی تھی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
وہ دوپہر کے بعد گیسٹ ہاؤس میں واپس آچکے تھے۔جہاں ریسپشنسٹ سے ماریہ کا خط لیکر وہ سیدھا اپنے کمرے میں آگئے۔
اوور کوٹ کو دیوار کے ساتھ لگی کھونٹی سے لٹکاتے ہوئے انہوں نے اس خط کے لفافے کو الٹ پلٹ کردیکھا پچھلی سائیڈ پر سیدھی لکھائی میں بڑے بڑے حروف سے ماریہ لکھا ہوا تھا۔
خط ایک طرف رکھ کر انہوں نے سب سے پہلے موبائل کو چارجنگ پہ لگایا جو کہ بیٹری ختم ہونے کی وجہ سے بند ہوگیا تھا۔
موبائل کے آن ہوتے ہی ماریہ کی کالز اور کئی ٹیکسٹس کے ساتھ انہیں دیگر اہم پیغامات بھی موصول ہوئے تھے۔
” افف۔۔ اتنی کالز۔ ” چھبیس ستائیس کے قریب کالز ان کے موبائل پر ماریہ کے نمبر سے آچکی تھیں۔ انہوں نے چارجنگ پہ لگے موبائل سے ہی اس کے ٹیکسٹ کو سرسری انداز میں دیکھا تھا جہاں پر زیادہ تر پیغامات کال اٹھانے کے متعلق تھے۔
ایک خیال نے ان کے اندر بجلی کی سی لہر پیدا کی تھی۔وہ اس خط کے قریب آئے اور سرعت سے اس لفافے کے منہ کو پھاڑ کر اس میں سے ایک صفحہ نکالا تھا جسے چار تہوں میں لپیٹ کر اس لفافے میں بند کیا تھا۔انہوں نے اس صفحے کو کھولا تو اندر انگریزی کے سیدھے حروف میں ان کے لیے کوئی پیغام لکھا تھا۔وہ خط کھول کر بیڈ پر آگئے اور خط پڑھنے لگے۔
”ارتضی۔۔۔۔!
جب تک تمہیں یہ خط ملے گا میں تب تک یہاں سے جاچکی ہوں گی۔ میں نے تمہیں کئی کالز کیں ۔۔۔کئی پیغامات بھیجے مگر تم نے شاید اپنا موبائل بند کر رکھا تھا۔ میں جانے سے پہلے تم سے ملنا چاہ رہی تھی۔لیکن شاید قسمت کو ہمارا دوبارہ ملن منظور نہیں تھا۔میں تم سے مل کر بہت کچھ کہنا چاہتی تھی۔ وہ سب باتیں جو میں کئی سالوں سے محسوس کرتی آرہی تھی۔ اور وہ سب باتیں بھی جو تم سے ملنے کے بعد میرے دل نے محسوس کی تھیں۔
شاید وہ اقرار تھیں۔۔۔۔
تم سے محبت کا۔۔۔
میں نہیں جانتی کہ میں اس رہ گزر پر کب قدم رکھ بیٹھی۔ شاید تب سے جب میں نے پہلی بار اپنے خواب میں اس دھن کو سنا تھا۔ اس دھن کے بعد مجھے دنیا کی کوئی دھن کبھی بھی اچھی نہیں لگی تھی۔اور شاید یہی محبت کا پہلا قدم تھا جو میں تمہاری طرف اٹھا چکی تھی۔ اور پھر میرے قدم تمہارے سحر سے تمہاری طرف مسلسل اٹھنے لگے۔ ان پر سے میری طاقت اٹھ چکی تھی۔ میرا دل تمہاری طرف مکمل طور پر جھک چکا تھا۔ واپسی کی راہیں میں کھو بیٹھی تھی۔اس وقت میں جس مقام پر کھڑی ہوں وہاں سے واپسی ناممکن ہوگئی ہے۔ اور یہاں سے آگے کا سفر صرف تمہارے ساتھ ہی ممکن ہے۔
پہلے مجھے لگا تھا کہ شاید قدرت نے تمہیں میرے لیے ہی بنایا تھا اور پھر تم سے ملوانے کے لیے وہ اتنی دوری سے ادھر لیکر آئی تھی۔ یہ سب اتفاق نہیں ہوسکتا۔۔۔۔کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔!
مگر مجھے ہمیشہ کی طرح غلط لگا۔ تم میرے بارے میں وہ نہیں سوچتے تھے جو میں تمہارے بارے میں سوچتی تھی۔ میں بھول گئی تھی کہ وہ خواب تو صرف مجھے نظر آتا تھا ،تمہیں نہیں۔ تو پھر اس کی تعبیر میں محبت بھی صرف مجھے ہی ہونی چاہیے تھی ،تمہیں نہیں۔
محبت کو صرف میری ہی زندگی کو ماتم بنانا چاہیے ،تمہاری زندگی کو نہیں۔
لو دیکھ لو۔۔۔۔۔۔!
محبت نے صرف مجھے ہی چنا بربادی کے لیے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بڑی سی بڑی بربادیوں میں سے ایک بربادی محبت کی بربادی ہوتی ہے اور میں ہمیشہ اس بربادی سے پناہ مانگا کرتی تھی۔ لیکن یہ بلا کہاں دعاؤں سے ٹلنے والی ہے۔
کاش۔۔۔! یہ محبت دودولوں میں ایک جیسی ہی تڑپ پیدا کیا کرتی۔ دونوں کی منزل ایک ہی مقرر کرتی۔
لیکن افسوس۔۔۔۔ یہ ظالم یہی تو ظلم کرتی ہے۔ ایک ہی نفس کو مشکل میں ڈالتی ہے۔ ایک ہی دل کو تڑپ کے لیے مختص کرتی ہے۔
دو میں سے ایک کی آنکھیں ہی برسنے کے لیے چنی جاتی ہیں اور مجھے چن لیا گیا ہے ارتضی۔
تمہاری محبت نے مجھے چن لیا ہے۔ اس بربادی کے لیے۔
اب ہر دھن ماتم لگا کرے گی۔۔۔۔
ہردھن ماتم اور ہر ماتم صرف موت ۔۔۔
مجھے معاف کرنا۔ میں ان دنوں میں خود سے بہت آگے بڑھ گئی تھی۔ لندن کی سادہ سی ماریہ کو بہت پیچھے چھوڑ کر۔
میں خوش فہمیاں نہیں پالتی لیکن افسوس تم سے ملنے کے بعد اس دل نے ایک خوش پال لی تھی کہ شاید تم بھی مجھ سے۔۔۔۔۔۔۔
خیر۔ میں ہمیشہ تمہاری خیریت کے لیے دعا کیا کروں گی۔ تم ہر مشکل وقت میں میری دعاؤں کو اپنے پاس پایا کرو گے۔ اگر کبھی میں بھی تمہیں یاد آیا کروں تو میرے قرار کے لیے دعا کردیا کرنا جو اس محبت نے مجھ سے چھین لیا ہے۔
میں لندن میں اپنے گھر کا پتہ اس خط کے آخر میں لکھ رہی ہوں اگر کبھی لندن آؤ تو خدا کے لیے مجھ سے ضرور ملنا۔ وعدہ کرتی ہوں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گی۔ گزرے وقت کو تمہارے سامنے نہیں دہراؤں گی۔
ارتضی میں تم سے اور بھی بہت کچھ کہنا چاہتی تھی کاش کہ تم اپنی وعدے پر قائم رہتے اور اپنی سماعتوں کو میرے لیے منتظر رکھتے۔
کاش۔۔۔۔!
اور ہاں۔۔۔۔!
ماریہ تمہیں کبھی بھی نہیں بھولے گی۔۔۔
کبھی بھی نہیں۔۔۔!
اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔
ماریہ ”
اور آخری لائنز پر اس کےگھر کا پتہ درج تھا۔
کافی دیر وہ ساکت سے اس خط کو دیکھتے رہے۔آنکھیں پتھرا سی گئی ہوں جیسے۔
یقین کا سفر بے یقین میں تبدیل ہوا تھا۔
وہ چلی گئی تھی۔۔۔۔
ہمیشہ کے لیے ۔۔۔۔واپس۔
اپنے دیس۔۔۔۔
ایک ننھا سا نمکین پانی کا قطرہ ان کی آنکھ سے نکلا تھا اور گال سے پھسلتے ہوئے دائیں گال کے بھنور میں پھنسا تھا اور پھر راہ بناتے ہوئے ان کی شرٹ کے کالر میں جذب ہوگیا۔
” کاش تم اب بھی سمجھنے میں غلطی نہ کرتی ماریہ۔ ” خط کو مٹھی میں بھینچ کر وہ بیڈ پر پیچھے کی جانب گر سے پڑے۔
” کاش۔۔۔ ” آنکھیں بند کرتے ہوئے انہیں اس کے جانے کا افسوس ہوا تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)