میرے وطن کے شیر دل جوانو
کیا تم پہ لکھوں
تمہیں کیسے سراہوں
کیسے اپنے جذبات بتاؤں
کہ تمہاری عظمت کے سامنے
الفاظ سارے چھوٹے ہیں لگتے
کہ تم جرأتوں کے وہ نشاں ہو
ارض پاک کی سرحدوں کے
فولادی ستون اور سائباں ہو
کہ قوم کی امیدِوفا ہوتم
کہ تمہاری آنکھوں میں روشن
جانثاری کے جگنو چمکتے
بجھ سکے نہ اغیار کی ہوا سے
بہادری کی ایسی کہکشاں ہو
۱۹ جون ۲۰۰۹ کی صبح مادرِگیتی کے شیردل بیٹوں نے دشمنوں سے اپنے علاقے واپس لینے کیلیے آپریشن راہ نجات شروع کیا۔جس کا بنیادی مقصد وہاں پر موجود دشمنوں کے بڑے لیڈروں کو ختم کرکے علاقے کو دشمنوں کے چنگل سے آزاد کرانا تھا۔اس آپریشن کو شمالی وزیرستان اور پشاور کے علاقوں میں شروع کیا گیا۔
مادرِگیتی کے بہادر جوان اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے پہلے سے ہی تیار تھے۔ان کی رگوں میں وطن سے عشق دوڑ رہا تھا۔تو پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ اس پاک دھرتی کے بیٹے سر پر کفن باندھ کر نہ نکلیں۔
ہراول دستے میں کیپٹن عمار اور کیپٹن خاور پاک فورسز کے دیگر جوانوں کے ساتھ آگ اور پانی کی اس جنگ میں شریک ہوئے تھے۔
کیپٹن عمار کی شادی انہیں دنوں میں طے پائی تھی لیکن پھر بھی وہ اپنے فرض سے پھرے نہیں تھے۔جانے سے پہلے ان کی والدہ نے انہیں جلد لوٹ کر آنے کو کہا تھا کیونکہ وہ جلد از جلد اپنے بیٹے کو دلہا بننا دیکھنا چاہتی تھیں۔
’’امی میں اسی دن لوٹ کو آؤں گا۔آ پ فکر نہ کریں۔آپ مجھے جلد دلہا بنے دیکھیں گی۔ان شاءاللہ۔‘‘ وہ شرارتی سا جوان کس دل کے ساتھ اپنی ماں کو حوصلہ دے گیا تھا۔
آپریشن پر جانے سے پہلے ان سجیلے جوانوں نے رب کائنات کے آگے سجدے کیے۔پھر ان سب نے مل کر آپریشن کی کامیابی اور دھرتی ماں کی حفاظت کے لیے خصوصی دعائیں کیں۔
(ـــــــــــــــــــــ)
آپریشن کامیابی سے چلتا رہا۔اس آپریشن میں آرمڈ فورسز ،ائیرفورسز اوراسپیشل سروس گروپ نے خود کو وطن کی حفاظت کے لیے پیش کیا۔کچھ ہی دنوں میں بہترین حکمت عملی کے تحت کی جانے والی کاروائی کے نتیجے میں بہت سے علاقہ دشمن کے چنگل سے آزاد کروا لیا گیا۔
اس مقصد کے لیے دودستے بنائے گئے۔جن میں سے ایک دستہ کیپٹن عمار کو سونپ دیا گیا اور دوسرا دستہ کیپٹن خاور کی قیادت میں دے دیا گیا۔
شمالی وزیرستان میں دشمنوں کے ٹھکانوں کی صفائی کے دوران پاک فورسز کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔بہت سے دشمن اپنے انجام کو پہنچ گئے تھے جبکہ باقی ابھی اپنی بلوں میں موت کے منتظر تھے۔
اس آپریشن کے دوران بہت سے جوان اپنی دھرتی ماں کہ عصمت پر قربان ہوگئے تھے۔لیکن جانوں کی پرواہ کسے تھی۔وہ تو بس آگے بڑھتے جارہے تھے،دشمنوں کو اپنے بھاری بوٹوں تلے روندتے۔ایک کشش تھی جو ان کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور وہ سب کسی ڈور سے بندھے کھنچتے چلے جارہے تھے۔
’’کیپٹن عمار آپ کا اکیلے آگے جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔‘‘ کیپٹن عمار کو اپنے وائرلیس سے کیپٹن خاور کے الفاظ سنائی دیے۔
’’لیکن میں کامیابی کے قریب پہنچ کر اب واپس نہیں جاسکتا۔میری غیرت یہ گوارہ نہیں کرتی کہ دشمن کے سر پرپہنچ کر میں جان بچانے کے لالچ میں واپس آجاؤں۔میرے ہیرو میجر ارتضی نے کہا تھا کہ دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے مرجانا اس سے بہتر ہے کہ آپ دشمن سے بنا مقابلہ کیے ہی بھاگ آئیں۔‘‘پھولتے ہوئے سانس سے انہوں نے یہ الفاظ وائرلیس کے سپرد کیے۔وہ میجر ارتضی کو اپنا ہیرو مانتے تھے۔پاکستان آرمی کا ہرجوان محبِ وطن تھا لیکن جو جذبہ انہوں نے میجر ارتضی میں دیکھا تھا وہی انہیں میجر ارتضی حدید کا گرویدہ کرگیا تھا۔
’’لیکن کیپٹن عمار۔۔۔۔۔۔‘‘ کیپٹن خاور انہیں منصوبہ بندی کے تحت لڑنے کا کہہ رہے تھے۔
’’نہیں کیپٹن خاور، میں اب منزل کے بہت قریب آگیا ہوں۔اگر لوٹ گیا تو کبھی فخر سے جی نہیں پاؤں گا۔‘‘
گولیوں کی گھن گرج جاری تھی۔
بم سروں پر وقفے وقفے سے پھوٹ رہے تھے۔
’’میرے لیے دعا کرنا کہ میرا نذرانہ قبول ہوجائے۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔اللہ اکبر۔‘‘ یہ آخری الفاظ تھے جو کیپٹن خاور کو سنائی دیے تھے۔اس کے بعد رابطہ منقطع ہوگیا۔
(ــــــــــــــــــــــــ)
کیپٹن عمار بہت آگے نکل آئے تھے۔مورچوں کے قریب پہنچ کر انہوں نے دشمن کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا اور دشمن کے کئی ٹھکانے کچھ ہی لمحوں میں نیست و نابود کردیے۔
پھر بھی آگے بڑھنے کی چاہ ختم نہیں ہورہی تھی۔
کشش تھی کہ بڑھتی جارہی تھی۔
عشق کا یہ راہی اپنی منزل کی جانب گامزن تھا کہ موت نے پیچھے سے آکر بانہوں میں لے لیے۔
آہ۔۔۔۔۔ بزدل موت کے بزدل وار۔
کیپٹن عمار کو اپنے سینے میں کچھ چبھتا محسوس ہوا۔وہ جس کی تکلیف سے ان کی رگیں پھول گئی تھیں۔اس کے بعد ایک اور چیز آئی جو ان کے کندھے میں پیوست ہوئی تھی۔
وہ گولی تھی شاید۔
ہاں وہ گولیاں ہی تھیں جویکے بعد دیگرے ان کے چٹان جیسے مضبوط جسم میں گھس رہی تھیں۔لیکن وہ پہاڑ گرا نہیں تھا۔
انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے رخ موڑا تو پیچھے بزدلوں کا سردار کھڑا تھا۔
’’پیچھے سے وار۔۔۔۔۔ تف ہے تم پر‘‘ یہ کہتے ہی کیپٹن عمار نے مشین گن کا ٹریگر دبا دیا اور ساری گولیاں اس درندہ صفت انسان کے اندر اتار دیں۔
وہ بزدل انسان کب جانتا تھا کہ پاکستان آرمی پیچھے سے وار کو معیوب سمجھتی ہے۔مومن ہمیشہ آگے سے وار کرتا ہے۔آگے سے گولی کھانے کو ہی فخر سمجھتا ہے۔
اس درندے نے کیپٹن عمار پر پیچھے کی جانب سے وار کیا تھا۔لیکن کیپٹن عمار نے سامنے آکر اس کے سینے میں گولیاں اتاری تھیں جن کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ کیپٹن عمار کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا تھا۔اور پھر منہ کے بل گر کر دھرتی ماں کے بیٹے کے آگے زندگی ہار گیا تھا۔
انہوں نے اپنے کندھے پر لگے پاکستان کے سبز وسفید پرچم کو کپکپاتے ہونٹوں سے چوما اور حق کا کلمہ کہتے ہوئے جان حق کو لٹا دی۔
آسمان نے کیا دیکھا تھا؟
دھرتی نے کیا محسوس کیا تھا؟
’’فخر۔‘‘
کائنات کی ہرچیز نے اس بیٹے پر فخر محسوس کیا تھا۔یہ فخر ہی تو ہیں اس زمین کے۔
ہاں، یہ فخر ہی ہیں۔
(ـــــــــــــــــــــ)
تیری محبت میں موت آئے
تو اس سے بڑھ کر
نہیں ہے خواہش
یہ ایک جان کیا
ہزار ہوں تو
ہزار تجھ پہ نثار کروں
میرے وطن یہ عقیدتیں
اور پیار تجھ پہ نثار کروں
محبتوں کہ یہ سلسلے
بے شمار تجھ پہ نثار کروں
میرے وطن،
میرے وطن
دھرتی ماں کہ پرچم میں لپٹا وہ جسم اپنی محبتیں، چاہتیں، عقیدتیں حتی کہ اپنی جان بھی اپنے وطن پر قربان کر آیا تھا۔
آج ان کی شادی کا دن تھا۔ہرطرف چراغاں کیا گیا تھا۔پورے گھر کو گلابوں کی خوشبو سے مہکایا گیا تھا۔ساری تیاریاں مکمل تھیں۔انتظار تھا تو صرف دلہے کا آنے کا۔جو آنے میں نجانے کہوں تاخیر کررہا تھا۔
دوپہر تک دلہا آگیا تھا۔اپنے وعدے کے مطابق وہ لوٹ آیا تھا۔
لیکن یہ کیا اسے تو پیروں پر چل کر آنا چاہیے تھا۔
لیکن یہ تو۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ تو تابوت میں لپٹا،چار کندھوں کے آسرے پر چلا آرہا تھا۔
اس کے لیے تو کار کو سجایا گیا تھا۔مگر یہ کیسا دلہا تھا جو خوبصورت سجی کار کو چھوڑ کر بند تابوت میں سفر کرتا آرہا تھا۔
اس دلہے نے تو آکر پاؤں زمین پر مار کر اپنی ماں کو فوجی انداز میں سلام کرنا تھا۔جیسے یہ سلام کرتے اچھے لگتے ہیں۔
اپنی چھوٹی بہن کی پونی کھینچنی تھی۔چھوٹے بھائی کو پیار سے ڈانٹنا تھا کہ وہ ان کی گڑیا کق تنگ کیوں کرتا ہے۔دروازے پر ان کے گھر والے کھڑے ان شرارتوں کے منتظر تھے۔لیکن ایسا تو وہاں کچھ نہیں تھا۔
منظر میں تو ایسا کچھ نہیں ابھرا تھا۔
اس کی جگہ ان جوانوں نے پاؤں زمین پر مار کر سیلوٹ کیا تھا،جو اس دلہے کے بھاری تابوت کا اٹھا کر لائے تھے۔
ان تابوتوں کو اٹھانا بھی کتنا مشکل ہوجاتا ہے۔یہ کتنے بھاری ہوجاتے ہیں کہ ساری توانائی و طاقت ہمت ہار جاتی ہے۔
اس دلہے کی ماں نے کتنا سوچا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ایسے دلہا بنائے گی۔اس کی شادی پر اپنے سارے ارمان پورا کرے گی۔اپنے بیٹے کا سہرا خود اپنے ہاتھوں سے سجائے گی۔لیکن وہ سارے ارمان ہوا میں تحلیل ہوگئے تھے۔کیپٹن عمار کو پہلے ہی دلہا بنا دیا گیا تھا۔ان کا سہرا پہلے ہی سجا دیا گیا تھا۔
تابوت کو زمین پر رکھا گیا اور عظیم بیٹے کے عظیم والدین کو بیٹے کی شہادت پر۔مبارک باد دی گئی۔
سلام ہو ان والدین پر جنہوں نے سارے ارمان دل میں دفنا کر صرف ’’الحمداللہ‘‘ کہا۔
سلام ہے ان حوصلوں پر۔
سلام ہے ان والدین پر۔
اور سلام ہے ایسے بیٹوں پر۔
فوجی دستے کی سلامی میں اس مٹی کے بیٹے کو مٹی کی آغوش کی سپرد کردیا گیا۔
(ـــــــــــــــــــــــ)
اس آپریشن کو میجر بلال لیڈ کررہے تھے۔اور اس آپریشن کے دوران انہیں کئی بار دھمکی بھرے پیغامات مل چکے تھے۔
آج بھی جب وہ ڈیوٹی سے واپس اپنے فلیٹ میں جارہے تھے تو انہیں دہشت گردوں کے سردار کی جانب سے ایک کال موصول ہوئی۔
’’ہیلومیجر۔‘‘ آواز شناسا نہیں تھی۔
’’کون؟‘‘ راہداریبسے گزرتے ہوئے وہ پل بھر کو رکے تھے۔
’’تمہارا باپ۔‘‘ آواز نخوت بھری تھی۔
’’ہاہاہاہاہا۔۔۔۔مذاق اچھا کرلیتے ہو۔‘‘ کیپ کو اتار کر انہوں نے ہاتھ میں پکڑ لیا۔
’’مذاق تو تم بھی اچھا کرلیتا ہے میجر۔لیکن تمہیں اس مذاق کا بہت بڑا قیمت چکانا پڑے گا۔‘‘ فون سے دھمکی بھری آواز سنائی دی۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارے دھمکی دینے سے میں ڈر جاؤں گا؟‘‘وہ حیرت زدہ دکھائی دیے۔
’’نہیں میجر،اس دفعہ ہم دھمکی نہیں دے گا۔مگر ہاں ایک تحفہ ضرور دے گا۔امید ہے کہ پسندآئے گا۔‘‘؛ایک بھیانک سا قہقہہ میجر بلال کی سماعتوں سے ٹکرایا۔
’’یہ تحفہ کس خوشی میں؟‘‘ میجر بلال ٹھٹھکے۔
’’ہمارا بات نہ ماننے کا خوشی میں۔‘‘ وہ جو کوئی بھی تھا،پشتو لہجہ رکھتا تھا۔
’’کیسی بات؟‘‘ راہداری عبور کرکے وہ اپنی گاڑی کے پاس آگئے۔
’’میجر تم نے ہمارے علاقے میں اپنے ان ناپاک ساتھیوں کو بھیج کر بہت بڑا غلطی کیا ہے۔‘‘ خباثت سےمدعا بیان کیا گیا تھا۔
’’اچھااااا۔۔۔۔سمجھ گیاکہ کون ہوتم۔وہی ناں جنہیں دنیا دہشت گرد کے نام سے جانتی ہے؟‘‘ انہوں نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر استفسار کیا۔
’’تم جیسا کافر ہم جیسا مسلمان کو یہی کہتا ہے۔‘‘ رگ پر ہاتھ پڑتے ہی وہ بھنا اٹھا تھا۔
’’ہم نہیں کہتے، بلکہ یہ تم لوگوں کی درندگی ہی ہے جو تم لوگوں کو یہ نام بخشتی ہے۔‘‘ لہجے کی تلخی باتوں سے چھلکنے لگی تھی۔
’’تم جیسے بزدل سوائے دھمکیوں کے اور ہتھیاروں سے دہشت پھیلانے کے اور کر بھی کیا سکتے ہو۔
اور ہاں،میری ایک بات یاد رکھنا مومن کے قدم کبھی بھی کافروں کی خالی دھمکیوں سے لڑکھڑاتے نہیں ہیں۔
ہم نے اس دھرتی ماں کی حفاظت کی قسم اٹھائی ہے۔سرکٹالیں گے لیکن تمہارے جیسے گھٹیا انسانوں کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ ہمارے قدم اٹھ چکے ہیں۔ہمارا جذبہ پرواز بھر چکا ہے،بادِ مخالف بھی چلا لو تو بھی ہمیں گرا نہیں پاؤ گے۔
ہم اس ملک کے بیٹے ہیں اور اس ملک کی حفاظت کے لیے ہی پیدا کیے گئے ہیں۔دہشت کے خلاف جنگ امن کا فرض ہوتی ہے۔اور ہم امن کے رکھوالے اس جنگ کو جیت کر دکھائیں گے ان شاءاللہ۔
تم جیسے لوگ تو آرمی کا نام سن کر ہی کانپ جاتے ہو،لڑائی کیا خاک لڑو گے؟‘‘ وہ لحظہ بھر رکے۔
’’ ملا صاحب شیر کی کچھار میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے شیر جیس طاقت چاہیے ہوتی ہے۔بلی اگر شیر کا مقابلہ کرنے نکل پڑے تو نتیجہ صاف نظر آتا ہے کہ موت بلی کی ہی ہوگی۔فون رکھتا ہوں۔‘‘ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ چہرے پر حق جتانے آئی تھی۔
’’میجر صاحب یہ بات تمہیں بہت بھاری پڑے گا۔‘‘ یہ آخری الفاظ تھے جو میجر صاحب کو اپنے آئی فون سے سنائی دیے تھے۔
ایک نظر آئی فون کی سیاہ سکرین پر ڈال کر انہوں نے ایک لمبا سانس ہوا میں چھوڑا۔فون کو ڈیش بورڈ پر رکھ کر انہوں نے گاڑی ریورس کرتے ہوئے پارکنگ ایریا سے نکالی۔
’’بچے ہیں۔لیکن خود کو ہمارا باپ سمجھتے ہیں۔لو بھئی یہ کیسے باپ ہوئے پھر جو بچوں کا نام سن کر ہی کانپ جاتے ہیں۔‘‘ گہری ہوتی مسکراہٹ نے ان کے لبوں کو چھوا تھا۔
(ـــــــــــــــــــــــ)
’’اچھا دوست، اب کیا ارادے ہیں تم لوگوں کے؟‘‘ ناشتہ کرنے کے بعد وہ لوگ اسلام آباد کا نظارہ کرنے نکلے تھے جب ٹالی نے یہ سوال کیا۔
’’کل کا دن ادھر ہی رکیں گے۔پھر پرسوں ہم ہڑپہ کے روٹ میں آنے والے تمام تاریخی مقامات کو وزٹ کریں گے۔ہم یہاں سے کسی گائیڈر کو ہائر کرلیں گے۔اور ہاں، ڈرون کیمرے کا میں نے انتظام کرلیا ہے۔ہم ساری ریکارڈنگ اس کے ذریعے کریں گےماریہ۔کیونکہ یہاں اسلام آباد کے قریب علاقوں میں تو موسم ٹھیک ہے لیکن باقی علاقوں میں گرم ہے۔ہم وہاں سے ریکارڈنگ کرکے کسی پہاڑی علاقے میں ہی قیام کریں گے۔ تم وہاں پھر آرام سے اپنا تھیسس مکمل کرلینا۔‘‘ آرنلڈ نے اب تک کے تمام پلانز ان کے سامنے رکھے۔
’’ہممم۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔‘‘ ماریہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’واؤ۔ کتنا خوبصورت منظر ہے۔‘‘ ایک پہاڑ پر چڑھتے ہوئے قدرت اپنے شاہکار سے حیران کرگئی۔
’’ہاں، شکر ہے کہ ہم نے صحیح انتخاب کیا ہے۔‘‘ پہاڑ پر چڑھنے سے چارلس کا سانس بھی پھولنے لگا۔
’’اتنا خوبصورت شہر ہے۔ یہاں ہی پہلے شوٹنگ کرلیتے ہیں۔‘‘ ماریہ جس دن سے آئی تھی اس دن سے ہی اس شہر کی خوبصورتی سے متاثر تھی۔
’’نہیں، اسے ہم واپسی پر شوٹ کریں گے۔‘‘ بیگ میں سے پانی کی بوتل نکال کر منہ کو لگاتے ہوئے اس دفعہ جواب آسٹن نے دیا تھا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ وہ مایوس ہوئی تھی۔
’’ویسے یہ ملک اجنبی نہیں لگ رہا۔ہے ناں؟‘‘ خوشی سے چلاتے ہوئے اس نے تائید چاہی تھی۔
وہ سب حیرت سے اس کی جانب متوجہ ہوئے۔کیونکہ وہ ایسی لڑکی تھی جو اپنے گھر کے سوا ہر جگہ کو اجنبی مانتی تھی۔
’’ہاہاہاہا۔۔۔۔دیکھ لینا کہیں تم برسوں سے ادھر ہی تو نہیں رہتی آرہی۔‘‘ چارلس نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔
’’ہاں شاید۔‘‘ وہ اپنے داہنے شوز کے ڈھیلے پڑتے تسمے باندھنے کے لیے جھکی۔
’’لیں جی، ہمیں کسی گائیڈر کی کیا ضرورت ہے ہمارے ساتھ تو اس ملک کی دیوی موجود ہیں۔‘‘ آرنلڈ بھی مذاق کے موڈ میں آرہا تھا۔
’’ہاہاہاہاہا۔۔۔۔‘‘ اب کی بار آسٹن نے بھی قہقہہ لگایا۔
’’مگر میں تو خود اس قطعے کی تلاش میں ہوں جس سے میرا برسوں سے تعلق ہے۔‘‘ وہ پہیلیاں بجھانے لگی تھی۔ آسٹن نے ابرو سکیڑے۔
’’کیسی باتیں کررہی ہو ماریہ، تم یہاں پہلی دفعہ آئی ہو۔‘‘ ٹالی کو اس کی دماغی حالت پر شک ہوا۔
’’ہاں شاید۔لیکن میری روح انہیں فضاؤں میں گھومتی رہی ہے۔‘‘ وہ کھونے لگی۔لندن کی وہ لڑکی اسلام آباد کی ہواؤں میں تحلیل ہونے لگی۔
’’میرا خیال ہے کہ تمہیں مزید آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ آسٹن نے اس کا ہاتھ پکڑ کر واپسی کی راہ لی۔جواباً اس نے کوئی احتجاج نہ کیا۔
(ــــــــــــــــ)
’’جناب اس دفعہ کب آنے کے ارادے ہیں؟‘‘ وہ کیچن میں مصروف تھی جب میجر بلال کا فون آیا۔ لہجہ بہت خوشگوار تھا۔
’’ابھی تین ہفتے پہلے تو آیا ہوں۔‘‘ لاڈلی بیوی کی بات سن کر وہ شاکڈ ہی تو رہ گئے۔
’’تو اب کیا تین ہفتے بعد آنے کا ارادہ ہے؟‘‘ ساری خوشگواریت فضا میں تحلیل ہوگئی۔
’’شاید تین ماہ بعد۔تمہیں تو پتا ہے کہ آپریشن چل رہا ہے۔حالات بہت سنگین ہیں۔اب تم ہی بتاؤ کہ ان حالات میں،میں آسکتا ہوں؟‘‘ انہوں نے اسے پیار سے سمجھانے کی ناکام کوشش کی۔
’’بیوی کا ذرا خیال نہیں۔‘‘ وہ بھنائی۔
’’ ارے بیوی کا تو ہی خیال رہتا ہے ہر وقت۔‘‘ وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔
’’کاش اس وقت آپ میرے سامنے ہوتے۔‘‘ اس نے ساس پین کو مارنے کے خیال سے اٹھایا لیکن دوری ہونے کی وجہ سے ارادہ ترک کرنا پڑا۔
’’مجھے یقین ہے کہ تم نے کچھ نہ کچھ مجھے دے مارنا تھا۔‘‘ وہ ساس پین کے پٹخنے کی آواز سن چکے تھے۔ابرش خاموش رہی۔
’’ویسے سنا ہے کہ ہٹلر صاحب مر چکے ہیں۔لیکن مجھے تو ایسا نہیں لگتا۔میرے گھر میں تو ایک عدد ہٹلر صاحب اب بھی موجود ہیں،میری بیوی کے روپ میں۔‘‘ وہ جانتے تھے کہ ابرش کی کیا حالت ہورہی ہوگی اور وہ ہمیشہ کی طرح اس کی اس حالت سے محظوظ ہورہے تھے۔لبوں تلے مسکراہٹ شرارت سے رینگ رہی تھی۔
’’ہٹلر ہوتی تو آپ اب تک میرے ہاتھوں مر چکے ہوتے۔‘‘ وہ برتنوں کو پٹخنے کے انداز میں شیلف پررکھ رہی تھی۔میجر بلال کا غصہ وہ بے چارے برتنوں پر نکال رہی تھی۔
’’ظالم بیوی۔۔۔۔ اگر مجھے اسی دن پتا چل جاتا جس دن تم نے میری ناک کی ہڈی توڑی تھی کہ میرا واسطہ اس قدر ظالم لڑکی سے پڑنے والا ہے تو۔۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے دانستہ فقرہ ادھورا چھوڑا۔
’’تو۔۔۔۔؟‘‘ دوسری جانب سے ایک سوالیہ نشان ابھرا۔
’’تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ انہوں نے سوچتے ہوئے ’’تو‘‘ کو لمبا کھینچا۔کوئی جواب نہیں بن پارہا تھا۔
’’ہاں تو؟‘‘ وہ سچ اگلوانا چاہ رہی تھی۔
’’تو۔۔۔۔۔تو میں اسی دن تمہیں پرپوز کردیتا۔‘‘ فی الحال یہی بات ان کے دماغ میں آئی تھی۔
’’ہاہاہاہاہا۔۔۔اچھا؟‘‘ وہ استہزائیہ ہنسی۔
’’اب دوبارہ اس نمبر پر کال مت کیجیے گا۔اللہ حافظ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔
’’سنو تو۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہنا چاہتے تھے لیکن رابطہ منقطع ہوگیا۔
انہوں نے دوبارہ کال ملائی لیکن ایک دو بیل جانے کے بعد نمبر بند ہوگیا۔
’’اف۔۔۔میں کیا کروں اس لڑکی کا۔‘‘ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔
(ـــــــــــــــــــــ)
’’کیا ہورہا ہے؟‘‘ وہ ہوٹل کے ٹیرس پہ کھڑی تھی جب اسے اپنے عقب سے آسٹن کی آواز سنائی دی۔
’’کچھ نہیں۔‘‘ جواباً وہ مسکرائی تھی۔
’’قدرت کے شاہکار دیکھ رہی ہو؟‘‘ وہ جانتا تھا کہ ماریہ قدرت کی کتنی دلدادہ تھی۔ماریہ نے بس ’’ہاں‘‘ میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
’’بہت خوبصورت شہر ہے یہ۔‘‘ حقیقت میں وہ اس سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔
’’ہاں۔‘‘ پھر مختصر جواب۔
’’تمہیں یہاں سب سے اچھا کیا لگا؟‘‘ وہ بےترتیب باتوں کی کڑیاں ملانے لگا۔
’’سب کچھ۔‘‘ انداز وہی کھویا ساتھا۔
’’کہیں یہیں رہنے کے ارادے تو نہیں ہیں؟‘‘ وہ شرارت سے بولا۔
’’نہیں، بالکل بھی نہیں۔‘‘ اس نے سرعت سے سر دائیں بائیں ہلایا کہ کہیں ارادہ عیاں نہ ہوجائے۔آسٹن کی نیلی آنکھیں سکڑی تھیں۔
’’میرا مطلب ہے کہ اب میں اپنے لندن کو تو نہیں چھوڑ سکتی ناں۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔
’’ماریہ تمہیں کس چیز کی تلاش ہے؟‘‘ اس کے چہرے پر نظریں گاڑے اس نے عجیب سا سوال کیا تھا۔
’’مطلب؟‘‘ وہ اس کے سوال کو سمجھی نہیں تھی۔
’’مطلب وہ کونسی چیز ہے جس کی چاہ میں تمہاری روح ان فضاؤں میں پرواز بھرتی رہی ہے؟‘‘ تو کیا اس دن اس نے ماریہ کی بات کو مذاق میں نہیں لیا تھا۔اس کے دوسرے دوستوں کی طرح۔ آسٹن واقعی اس کے دوسرے دوستوں کی طرح نہیں تھا۔بالکل بھی نہیں۔
’’وہ۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ اسے بتانا چاہتی تھی لیکن پھر ارادہ ترک کر دیا۔ وہ ڈرتی تھی شاید ایک اچھے دوست کے کھوجانے سے۔
وہ اس کے بولنے کا منتظر ہوا۔
’’وہ شاید تھکن کی وجہ سے۔پتا نہیں کیا عجیب عجیب سا دماغ میں آرہا تھا۔‘‘ مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے اس نے آسٹن کا مطمئن کرنا چاہا۔
’’اچھا۔یہ ہی بات ہے؟‘‘ اس نے سوالیہ انداز میں ابرو اچکائے۔
’’ہاں یہ ہی بات ہے۔‘‘ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرائی تھی۔لیکن چہرے کے تاثرات اقر مسکراہٹ ایک دوسرے کا ساتھ دینے میں ناکام تھے۔
’’یہ تم نے جھوٹ بولنا کب سے شروع کردیا؟‘‘ وہ اسے پرسکون رکھنے کے لیے اب اس کی جانب نہیں دیکھ رہا تھا۔
’’میں جھوٹ نہیں بول رہی آسٹن۔‘‘ اس نے آسٹن کو یقین دلانا چاہا۔
’’جھوٹ بھی اپنی ایک پہچان رکھتا ہے ماریہ۔‘‘ وہ اس کی بات پر یقین کرنے مائل نظر نہیں آرہا تھا۔
’’یہ تمہارا وہم ہے آسٹن۔‘ً وہ اس کی جانب پلٹی۔
’’کاش یہ میرا وہم ہی ہو۔‘‘ وہ۔مزید گفتگو کے نہیں رکا اور اس کئلے سرخ ہوتے چہرے پر ایک نظر ڈال کر چلا گیا۔
’’کاش آسٹن میں تمہیں اپنے اندر کا خوف سنا پاتی۔‘‘ ایک لمبا سانس لیتے ہوئے وہ دوبارہ سامنے کے منظر کی جانب متوجہ ہوگئی۔
(ــــــــــــــــــــ)
وہ اپنے کمرے کی صفائی کرکے سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے نیچے ہال کی جانب آرہی تھی کہ ’’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو‘‘ کا مدھم مدھم میوزک سن کر ٹھٹک گئی۔آواز نیچے سے آرہی تھی۔وہ سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے نیچے ہال میں آگئی۔وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔
’’یہ آواز کدھر سے آرہی ہے؟‘‘ آواز کی سمت کا تعین کرتے ہوئے وہ آگے بڑھی۔
ہال میں صوفوں کے سامنے پڑی شیشیے کی میز پر کیک کی شکل کر ایک ڈیکوریشن پیس گھوم رہا تھا۔جس کے گھومنے سے رنگ برنگی لائیٹیں نکل رہی تھیں۔میوزک کی آواز بھی اسی میں سے آرہی تھی۔
اس نے رک کر ادھر ادھر دیکھا۔وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔اس کے قریب ہی ٹیبل پر ایک گفٹ باکس پڑا تھا۔وہ گفٹ باکس اٹھانے کے لیے آگے بڑھی تبھی اسے اپنے عقب سے ایک آواز سنائی دی۔
خوبصورت آوازوں میں سے ایک آواز۔
’’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو‘‘
’’ہیپی برتھ ڈے ٹو یو‘‘
’’ہیپی برتھ ڈے ڈئیر ابرش‘‘
میوزک کے ہم آہنگ آواز کسی اور کی نہیں تھی بلکہ میجر بلال کی تھی۔اس نے سرعت سے پلٹ کر دیکھا تو وہاں عقبی دروازے میں میجر بلال چہرے پرخوبصورت مسکراہٹوں میں سے ایک مسکراہٹ سجائے،بازو سینے پر باندھے دیوار کے ساتھ کندھے کو ٹکائے کھڑے تھے۔اس کے یوں مڑ کر دیکھنے پر وہ اس کے قریب آگئے۔
’’کیسا لگا سرپرائز؟‘‘ انہوں نے اس کی ناک کو چٹکی میں لیکر دائیں بائیں ہلایا۔جیسے وہ ہمیشہ کرتے تھے۔
’’اب یاد آرہا ہے آپ کو وش کرنے کا۔‘‘ یہ سچ تھا کہ وہ رات سے ان کے میسج کا انتظار کررہی تھی۔
’’میں نے تمہیں وش کرنے کے لیے کال کی تھی لیکن تمہارا نمبر بند جارہا تھا۔‘‘ وہ سمجھے تھے کہ پچھلے ایک ماہ سے اس کا نمبر بند ہی تھا۔
’’میرا نمبر آن تھا۔‘‘ اس نے ان کے جھوٹ کی نشاندہی کی۔
’’سوری۔۔۔۔میں نے تمہیں اس لیے وش نہیں کیا تھا کہ اگر میں تمہیں رات میں وش کردیتا تو اب تمہارے چہرے پر خوشی سے بکھرے اس اناری رنگ کو کیسے دیکھ پاتا۔‘‘ ایسی باتوں کے لیے ان کے پاس ایک سو ایک بہانے تھے۔
’’مجھے کوئی خوشی نہیں ہے۔‘‘ وہ صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی۔چہرے پر خفگی کے اثرات نمایاں تھے۔
’’ابرش بی بی،مجھے پتا ہے کہ آپ دل ہی دل میں کتنی خوش ہورہی ہیں۔‘‘ انہوں نے ابرش کے تپتے چہرے پر نظر ڈالتے ہوئے ایک مسکراہٹ اچھالی۔جواب میں وہ خاموش رہی۔
’’اوکے۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔‘‘ ناک پر شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے انہوں نے معافی کا ایک نیا انداز اپنایا تھا۔خوبصورت اندازوں میں سے ایک انداز۔
لیکن ابرش کو وہ انداز متاثر نہ کر سکا۔
’’ملکہ عالیہ۔۔۔۔بندہ ناچیز اپنی اس گستاخی کیلیے معافی طلب کرتے ہوئے رحم کی درخواست کرتا ہے۔‘‘ میجر بلال اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔ان کی گردن جھکی ہوئی تھی اور ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے۔جیسے ملکہ عالیہ کے کسی دربان نے انہیں باندھ کر ملکہ عالیہ کے قدموں میں ڈال دیا ہو۔لیکن ملکہ عالیہ کو اس بات سے بھی فرق نہیں پڑا۔
وہ سینے پر بازو باندھے ان سے رخ موڑے بے نیاز بیٹھی رہی۔وہ دربار سے مایوس لوٹے تھے۔
’’اگر میں مرغا بنوں تو کیا تب بھی تم مجھے معاف نہیں کرو گی؟‘‘ چہرے پر زمانے بھر کی معصومیت تھی اور ہونٹوں تلے شرارت سے مچلتی مسکراہٹ جو لبوں سے چھلکنے کے لیے بے تاب تھی۔
’’پھر شاید کچھ سوچا جاسکے۔‘‘ اپنی ہنسی کو قابو میں رکھتے ہوئے اس نے رحم کی درخواست پر عمل کرنے کا سوچا۔
میجر بلال مرغا بننے کے لیے جھکے۔
’’بس اب رہنے دیں۔‘‘ کتنا بڑا احسان کیا تھا اس نے۔
’’تو تم نے مجھے معاف کردیا؟‘‘ وہ بے یقینی سے سیدھے ہوئے۔
’’ہممم۔۔۔مگر آخری بار۔‘‘ انہیں لاسٹ وارننگ ملی۔
’’شکریہ۔۔۔۔‘‘ بے تاب مسکراہٹ ابھر ہی آئی تھی۔
’’لیکن ایک بات بتاؤں، میں مرغا بننے کےلیے نہیں جھکا تھا بلکہ اپنے اس شوز کا تسمہ باندھنے کے جھکا تھا۔‘‘ انہوں نے شوخ مسکراہٹ کو پھر لبوں تلے دھکیلا اور ابرش کے چہرے کے تاثرات کو دیکھے بنا تسمہ باندھنے کے لیے جھک گئے۔
’’اوئی۔‘‘ کمر پر زور سے لگنے والے کشن نے ابرش کے تاثرات بتا دیے تھے۔وہ فوراً سیدھے ہوئے۔
’’حساب برابر۔‘‘ ابرش نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکائے۔
’’ظالم لڑکی،اتنی مشکل سے چھٹی لیکر آیا ہوں۔پچھلے ایک ماہ سے کوشش کررہا تھا چھٹی لینے کی۔اگر تم نے ایسے ہی خاطر تواضع کرنی ہے تو میں اپنی چھٹی برخاست کرکے واپس چلا جاتا ہوں۔‘‘ کمر کو سہلاتے ہوئے انہوں نے باہر کے دروازے کی جانب قدم موڑے۔
’’اس احسان عظیم کےلیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں بادشاہ سلامت۔‘‘وہ کھڑی ہوئی تھی۔ایک ہاتھ کو سینے پر رکھ کر تھوڑا سا جھکتے ہوئے وہ واقعی کسی شاہی خاندان کی شہزادی لگی تھی۔
’’ارے نہیں نہیں، شکرگزار تو ہمیں آپ کا ہونا چاہیے جو آپ اتنے احترام سے ہمارے لیے کھڑی ہوئی ہی۔‘‘ میجر بلال نے واپسی کا ارادہ ترک کیا۔
’’اب اس بات پر آپ کیا کھائیں گے۔مکا یا یہ کشن؟‘‘ اس نے کشن ان کو دکھاتے ہوئے آفر کی۔
’’اگر محبت و پیار کا کوئی پکوان آپ کے باورچی خانے میں بنتا ہے تو وہ زیادہ بہتر رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے آن کی آن میں اس سے کشن چھین لیا۔
’’معاف کیجیے گا۔ہمارے ہاں ایسے کسی بھی پکوان کے لیے راشن ختم ہے۔‘‘ وہ گفٹ باکس اٹھانے کے لیے آگے بڑھی جسے وہ اب تک کی لڑائی میں بھول چکی تھی۔
’’آہاں۔۔۔ رکیں۔ یہ تحفہ جادونگری سے آیا ہے اور ایک خاص طلسم سے پیک کیا گیا ہے۔اگر آپ اسے ایسے ہی کھولنے کی کوشش کریں گی تو یہ ضائع ہوجائے گا۔‘‘ انہوں نے اس کے ہاتھ سے گفٹ باکس لے لیا۔
’’تو کیسے کھلے گا یہ؟‘‘ وہ ایک پریشان شہزادی کے انداز میں ایک قدم آگے بڑھی۔
’’ہممم۔۔۔۔۔راج کماری آپ پریشان نہ ہوں۔میں اپنے جادو سے پتا لگاتا ہوں کہ یہ تحفہ جسے آپ کے راج کمار نے بھیجا ہے، کیسے کھلے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ آنکھیں بند کر کے کھڑے ہوگئے۔انہوں نے باکس کو بائیں ہاتھ پہ رکھا اور دائیں ہاتھ کو باکس کے اوپر رکھ کر منہ میں کچھ منتر کی طرح بڑبڑانے لگے۔
’’راج کماری یہ نہیں کھلے گا۔‘‘ وہ کچھ پریشان دکھائی دیے جیسے جادو نے سب کچھ واضح کر دیا ہو۔
’’اوہ۔۔۔۔‘‘ وہ سر جھکا کر کھڑی ہوگئی۔
’’لیکن یہ کیوں نہیں کھلے گا شاہی جادوگر؟‘‘ اس بے شاہی جادوگر سے وجہ جاننی چاہی۔
’’منتر سے یہ نظر آیا ہے کہ کسی راج کمار کے تحفے کو یوں نہیں کھولتے بلکہ ایک پیاری سی مسکراہٹ کے ساتھ کھولتے ہیں۔‘‘ ایک گھٹنہ زمین پر ٹیک کر اور ہوا میں کھڑا کر کے انہوں نے باکس راج کماری کی جانب بڑھایا۔
جسے راج کماری نے خوبصورت انداز کے ساتھ تھام لیا۔
ایک دلکش مسکراہٹ ابرش کے چہرے پر ابھری تھی جس کے ابھرتے ہی تحفہ کھل گیا۔
گفٹ باکس کے اندر ایک خوبصورت نیکلس تھا۔
’’واؤ۔۔۔۔۔۔‘‘ راج کماری کو تحفہ پسند آیا تھا۔
’’تھینک یو سو مچ بلال۔‘‘ نیکلس کو گلے سے لگاتے ہوئے اس کی آنکھ میں ایک ننھا قطرہ ابھرا تھا۔
’’خوش آمدید پیاری لڑکی۔‘‘ نیکلس کو اس کی گردن کے پیچھے بند کر کے وہ اس کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔
’’بہت پیاری لگ رہی ہو۔‘‘ نیکلس کی تعریف کی بجائے انہوں نے ابرش کو سراہا تھا کیونکہ اس کی قیمت ابرش سے ہی تھی۔
’’ویسے آپ کو لڑکا تو نہیں کہنا چاہیے لیکن پھر بھی،شکریہ پیارے لڑکے۔‘‘ گالوں پر وہی گلابی رنگ بکھرا تھا جو میجر بلال کو بہت پسند تھا۔
’’ہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔‘‘ ایک خوبصورت قہقہے نے فضا میں گھنٹیاں بجائیں۔
’’اچھا۔۔۔۔ماما کہاں ہیں؟‘‘ ایک ابرش بھی ناں انہیں باتوں میں الجھا دیتی تھی۔
’’وہ خالہ رضیہ کے گھر گئی ہیں۔‘‘ گفٹ ریپر کو باکس میں رکھنے کے بعد وہ ڈیکوریشن پیس کی جانب متوجہ ہوئی جو ابھی تک چل رہا تھا۔
’’کیوں خیریت؟‘‘ وہ اس کے سامنے ہی صوفے براجمان ہوگئے۔
’’جی، وہ خالہ رضیہ کی طبیعت کل سے کچھ خراب ہے تو بس ان کی خیریت دریافت کرنے گئی ہیں۔‘‘ ابرش نے پیس کا بٹن آف کر دیا۔میوزک بجنا بند ہوگیا۔
’’اچھا کب تک آجائیں گی؟‘‘ وہ اس کے ہاتھوں کی حرکات دیکھ رہے تھے جو بڑے پیار سے اس تحفے کے ایک ایک نقش چھو رہےتھے۔
’’شام تک آجائیں گی ان شاءاللہ۔عمر بھائی چھوڑ جائیں گے۔‘‘ اس نے بٹن پھر آن کردیا۔
’’ہممم۔۔۔ٹھیک ہے۔میں بازار جا رہا ہوں،دروازہ لگا لو۔‘‘ وہ باہر جانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔
’’کیا لینے جارہے ہیں؟‘‘ وہ بھی ان کے ساتھ ہی کھڑی ہوگئی۔
’’کچھ چیزیں لینی تھیں۔‘‘ انہوں نے باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
’’کھانے میں کیا بناؤں؟‘‘ شانوں پر دوپٹہ پھیلاتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ چلنے لگی۔
’’کچھ نہ بنانا۔ آج ہم باہر کھانا کھائیں گے۔تمہاری سالگرہ کی ٹریٹ میری طرف سے۔‘‘ ایک خوبصورت مسکراہٹ نے اسے اللہ حافظ کہا۔
’’جلدی آئیے گا۔‘‘ اس نے دروازے کی اوٹ سے سر نکالا جہاں سامنے وہ اپنی گاڑی کی جانب بڑھ رہے تھے۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ اللہ حافظ بول کر وہ گاڑی کو آگے بڑھا کر لے گئے۔
دروازہ بند کرکے وہ واپس اس ڈیکوریشن پیس کے پاس آگئی۔جوکہ بہت خوبصورت تھا شاید اس لیے کہ یہ اسے اس کے راج کمار نے دیا تھا۔وہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے اس تحفے کو بڑی محبت سے تکنے لگی۔
(ــــــــــــــــــــ)
ڈور بیل مسلسل بج رہی تھی۔وہ جو تھوڑی دیر پہلے آکر گفٹ کے پاس بیٹھی تھی، حیرت سے مین گیٹ پر آئی۔
’’اتنی جلدی آبھی گئے۔لگتا ہے بھول گئے ہیں کچھ۔ بھلکڑ کہیں کے۔‘‘ خود سے ہمکلام ہوتے ہوئے اس نے بنا پوچھےدروازہ کھول دیا۔
مگر سامنے وہ تو نہیں تھے جننکے لیے اس نے دروازہ کھولا تھا۔سامنے تو شاید موت کھڑی تھی دو آدمیوں کی صورت میں۔جن کے ہاتھوں میں بڑی بڑی بندوقیں تھیں۔سروں پر ٹوپی،بڑھی ہوئی داڑھی،وحشی ابلی ہوئی آنکھیں، شلوار قمیض میں ملبوس وہ بہت دہشت ناک نظر آرہے تھے۔ وہ بہت زیادہ گھبرا گئی۔
اس نے جلدی سے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی۔مگر۔۔۔۔آہ۔۔۔۔ موت کے آگے یہ تدبیریں کہاں کام آتی ہیں۔
ان میں سے ایک نےدروازے کو زور سے اندر کی جانب دھکا لگایا۔دروازے کا سرا اس کے سر پر لگا اور لڑکھڑاتے ہوئے گرگئی۔
’’کون ہوتم لوگ؟ اور یوں منہ اٹھائے کہاں چلے آرہے ہو؟‘‘ وہ ہمت کرکے کھڑی ہوئی۔آواز رندھنے لگی۔
’’ہم ملا صاحب کا طرف سے میجر صاحب کو ایک تحفہ دینے آیا ہے۔‘‘ ان میں سے ایک درندہ وحشت سے مسکرایا۔
وہ ان کی اگلی بات سننے سے پہلے ہی ہال کی جانب بھاگ آئی۔اسے اپنے پیچھے موت کے بھاگنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔اس سے پہلے کہ وہ ہال کا دروازہ بند کرتی ان میں سے ایک نے اسے عقب سے بالوں سے پکڑا اور زمین پر پٹخ دیا۔
’’وہ کیا ہے ناں میجر صاحب کو پیار کا زبان سمجھ نہیں آتا۔اس لیے ہم ان کا عقل ٹھکانے لگانے آیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کراس نے بندوق کی نالی اس کی جانب کر دی۔
’’تف ہے تم پر اور تمہارے ملا صاحب پر۔شیطان ہو تم لوگ شیطان ۔۔۔ کمزور عورت کو دیکھ کر لڑنے چلے آئے ہو۔تم جیسے لوگ تو۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کی بات ابھی اسکے منہ میں ہی تھی کہ اسے بندوق کی نالی سے ایک آگ سی نکلتی ہوئی محسوس ہوئی جو پلک جھپکنے میں اس کے سینےمیں گھس گئی۔اس کی چیخ وہیں ہال میں ہی دب کر رہ گئی۔
’’ہم یہاں تمہارا یہ بکواس سننے نہیں آیا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پھر بندوق کا ٹریگر دبا۔ دوسری گولی پہلی گولی کے قریب سے گزری تھی۔ ایک سسکی اس کے روح چھوڑتے جسم سے نکلی تھی۔ ایک جھٹکا اس کے پورے جسم کو لگا تھا۔
گولیوں کی آواز سے چیلوں کے چلانے کی آواز سنائی دی جو دور آکاش پر دائرے میں چکر کاٹ رہی تھیں۔ان کی رفتار بڑھ گئی تھی۔موت کے آنے سے اردگرد کے درختوں پر بیٹھے پھڑپھڑا کر اڑگئے۔ جیسے اس کی روح اڑی تھی۔
’’بلال۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ آخری لفظ تھا جو اس کی زبان سے نکلا تھا۔اس کے بعد اندھیرا چھا گیا تھا۔دور دور تک۔
گھپ اندھیرا۔۔۔۔۔۔
ایسا اندھیرا جس کے پار روشنی کی کوئی امید نہیں تھی۔
اس کی گردن موت کے وار سے داخلی دروازے کے جانب لڑھک گئی۔آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔اور منتؓر تھیں،شاید اس کے لوٹ کر آنے کی جو اسے سرپرائز دینے کے لیے گیا۔
ایک سرپرائز انہوں نے اسے دیا تھا اور ایک سرپرائز وہ دینے جارہی تھی۔لیکن اس کا سرپرائز ان کی جان نکال سکتا تھا۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جان تو نکل گئی تھی ان کی۔
اب کیا بچا تھا ۔
بس سانسوں کے نام کی زندگی۔
وہ درندہ صفت انسان جاتے ہوئے اس ڈیکوریشن پیس کو آن کرگئے۔ سالگرہ کی موسیقی پر موت رقص کرنے لگی۔ہال میں پڑی ہر چیز موت کی اس سنگدلی پر بین کرنے لگی۔
ابھی تو ابرش نے اس تحفے کو جی بھر کر دیکھنا تھا۔لیکن یہ سنگدل موت کہاں کسی کی خواہشوں کو دیکھتی ہے۔یہ تو بس مرقد بنانا جانتی ہے۔کبھی زندہ لاشوں کے تو کبھی مردہ خواہشوں کے۔
(ــــــــــــــــــــــ)
گاڑی مین گیٹ کے پاس روک کر انہوں نے پچھلی سیٹوں پر سے کچھ شاپر اٹھائے،جن میں وہ ابرش۔کے لیے کیک لائے تھے، غبارے تھے،موم بتیاں تھیں اور سالگرہ کے دیگر لوازمات۔
’’ابرش کو اچھا لگے گا۔‘‘ سن گلاسز اتارتے ہوئے وہ مین گیٹ کے قریب آئے جو کہ کھلا ہوا تھا۔
’’اف، پاگل لڑکی کو کہا بھی تھا کہ دروازہ لگا لے لیکن یہ ہٹلر صاحبہ میری بات مانتی ہی کب ہیں۔‘‘
راہداری عبور کرتے ہوئے ان کا دل ایک دفعہ زور سے دھڑکا تھا۔ انہوں نے لحظہ بھر رک کر ادھر دیکھا اور پھر کسی خیال کے تحت چل دیے۔
راہداری عبور کر کے وہ کیچن میں آگئے۔
’’ابرش۔‘‘ انہوں نے کیچن میں آکر اسے آوازیں دیں مگر وہ وہاں نہیں تھی۔
’’ابرش۔‘‘ اب کی بار پکارتے ہوئے ان کا دل پھر کسی احساس کے تحت زور سے دھڑکا تھا۔ایسا کیوں ہورہا تھا وہ نہیں جانتے تھے۔
کیچن سے سیدھا وہ ہال کی جانب آئے۔
آگے کامنظر دیکھ کر ان کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔انہیں پورا ہال تیزی سے گھومتا ہوا۔محسوس ہوا۔زلزلہ سا آنے سے ہال میں لگی تمام پینٹگز زمین پر گر کر چکنا چور ہوگئیں۔ شیشے کی میز ایک چھناکے دار آواز سے ٹوٹ گئی اور پھر یہ تمام کرچیاں ہوا کے کسی بھنور کی طرح گھومتے ہوئے میجر بلال کی آنکھوں اور چہرے میں گھس گئیں۔قریب ہی تھا کہ ان کے چہرے سے خون بہنے لگتا لیکن خون تو فرش پر بہا تھا۔ان کی ابرش کے جسم سے بہا تھا۔
ان کے ہاتھ سے شاپر زمین پر گرگئے۔قدم زمین نے مضبوطی سے اپنی لپیٹ میں لے لیے۔
انہیں لگا تھا کہ وہ اب کبھی بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں پائیں گے۔وہ کبھی حرکت نہیں کر پائیں گے۔ساری طاقت،ساری توانائی فضا میں کہیں تحلیل ہوگئی تھی۔
’’ابرش۔‘‘ کرچیاں چہرے کی کھال چیڑتے ہوئے ان کی زبان اور حلق میں دھنسنے لگیں۔وہ اس تکلیف کی شدت سے مزید کچھ نہ کہہ سکے۔وہ شاید سکتے میں آرہے تھے۔ان کی خون آلود آنکھیں پتھرانے لگیں۔جسم مفلوج ہونے لگا۔اگر موت کچھبدیر اور اس گھر میں رکتی تو یقیناً وہ بھی مر چکے ہوتے۔
نہیں نہیں،موت تم اتنی بے رحم کیسے ہوسکتی ہو۔تم کیسے میجر بلال سے ان کی ابرش چھین سکتی ہو؟ ابھی تو ان دونوں نے محبت کی نگری کی سیر کرنی تھی۔عشق کی فضاؤں میں سانس لینا تھی۔محبت کے رنگوں کو دیکھنا تھا۔چاہت کے مدھر گیت ایک دوسرے کو سنانے تھے۔ خلوص کی تھاپ پر رقص کرنا تھا۔تو تم اتنی جلدی کیسے آسکتی ہو؟ کیسے؟
زمین کے خلاف ساری وقت لگاتے ہوئے وہ بمشکل دو قدم آگے بڑھے۔ ایک زندہ لاش سے بے جان وجود تک کا فاصلہ پھیلنے لگا۔
بھاری ہوتے قدموں کے ساتھ وہ صدیوں پر محیط مسافت طے کرکے اس کے وجود کے قریب پہنچ گئے تھے۔
وقت نے انہیں ابرش کے جسم کے قریب گرتے دیکھا تھا۔ہاں وہ گر گئے تھے۔ وہ اگر کھڑے رہتے تو مجسمہ بن جاتے۔کبھی نہ حرکت کرنے والا مجسمہ۔
وہ بے یقینی سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگے۔یقین آتا بھی تو کیسے۔ابھی تو تھوڑی دیر پہلے وہ اس گھر میں ہنستا مسکراتا چھوڑ کر گئے تھے۔ابھی تو وہ بڑے حق سے ان کے ساتھ لڑ رہی تھی۔تو پھر کچھ ہی لمحوں میں یہ سب کیسے ہوسکتا تھا۔ اتنی بڑی قیامت آن کی آن۔میں کیسے ٹوٹ سکتی تھی۔
مگر وقت نے یہ ستم بھی کردیا تھا۔
میجر بلال نے ہمت کرکے اس کا چہرہ اپنی گود میں رکھا اور منتظر آنکھوں کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔کبھی نہ دیکھنے کے لیے۔کبھی نہ انتظار کرنے کے لیے۔
وہ کچھ نہیں کر پارہے تھے۔انہیں اپنے جسم سے جان نکلتی محسوس ہورہی تھی۔کرچیاں حلق سے ہوتے ہوئے جسم میں جانے لگی تھیں۔
پتھرائی آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب بہہ نکلا تھا جو ماتم کی بانسری پر مدہوش بہتا ہوا میجر بلال کے گالوں سے ہوتا ہوا ابرش کے رخساروں پر گر رہا تھا۔وہ رخسار جن پر میجر بلال کچھ دیر پہلے اپنی محبت کے اناری رنگ بکھیر کرگئے تھے۔لیکن وہ تو اب زرد پڑ چکے تھے۔موت سفاکی انہیں زرد کرکے جاچکی تھی۔
آنسو روانی سے بہنے لگے۔وہ ان کے چہرے کو تکتے جارہے تھے۔وہ نرمی سے اس کے رخسار چھو رہے تھے۔
ہال میں وہ سامان جو وہ اسے سرپرائز دینے کے لیے آئے تھے،شاپروں سے باہر نکل کر ادھر ادھر بکھر گیا تھا۔ایک موم بتی لڑھکتی ہوئی باقی سامان سے جدا ہوگئی تھی۔جسے وہ اس کی سالگرہ پر جلانے کے لیے لائے تھے۔لیکن یہ کیا، یہ تو جلنے سے پہلے ہی بجھ چکی تھی۔اسے تو ابرش نے مسکراتے ہوئے بجھانا تھا لیکن اسے تو موت کی آندھی وقت سے پہلے ہی بجھا گئی تھی۔
’’ابرش، کوئی یوں بھی روٹھتا ہے؟ کوئی یوں بھی ناراض ہو کر اتنی دور چلا جاتا ہے؟ میں ابھی تو تمہیں مناکرگیا تھا تو پھر اب یہ ناراضگی کیسی؟ تمہیں پتا ہے کہ میں تمہیں یوں خاموش نہیں دیکھ سکتا۔تم خاموش تو مجھے بالکل بھی اچھی نہیں لگتی۔بولو ابرش، تم چپ کیوں ہوگئی ہو؟ تم بولتی کیوں نہیں ابرش؟‘‘وہ اس کے بے جان جسم کو جھنجھوڑنے لگے۔
’’تم تو مجھے لڑتے اچھی لگتی ہو۔ اس گھر میں ادھر سے ادھر بھاگتے اچھی لگتی ہو۔‘‘ حلق کےکرچیوں سے زخمی ہونے کی وجہ سے وہ بے آواز باتیں کررہے تھے۔
’’ابرش میں پنچ اور کشن دونوں کھانے کو تیار ہوں۔تم مارو مجھے۔تم مجھے مارتے اچھے لگتی ہع۔میں جانتا ہوں کہ تم مجھ سے اپنی محبت کا اظہار اسی طرح کرتی ہو۔تو اب بھی کروں ناں۔ میں منتظر ہوں۔دیکھو،ابرش میں منتظر ہوں۔‘‘
’’ابرش۔‘‘
’’ابرش ضد چھوڑ دو۔‘‘ وہ اس کے چہرے کو تھپتھپانے لگے جو زندگی کی رمق سے مرحوم ہوچکا تھا۔
’’ابرش میں نے ہمیشہ تمہاری بات مانی ہے۔تم نے جو کہا وہ میں نے کیا۔تو تم بھی آج میری بات مان لو۔اٹھ جاؤ ابرش ۔یہ ناراضگی چھوڑ دو۔‘‘ ان پر دیوانگی طاری ہورہی تھی۔
آہ۔۔۔۔ موت تمہاری آنکھوں میں رخم کیوں نہیں ہے۔ یہ دیکھو، وہ جن کے لبوں سے مسکراہٹ کبھی جدا نہیں ہوئی تھی وہ آج کیسے رو رہے ہیں ، زاروقطار۔بلک بلک کر۔کاش کہ تمہیں رحم آجائے۔
کاش۔۔۔۔۔۔
(ـــــــــــــــــــــــ)
میں بھی چپ ہوجاؤں گا
بجھتی ہوئی شمعوں کے ساتھ
اور کچھ لمحے ٹھہر،
اے زندگی،اے زندگی
جب تلک روشن ہیں
آنکھوں کے فسردہ طاقچے
نیلگوں ہونٹوں سے پھوٹے گی
صدا کی روشنی
جسم کی گرتی ہوئی
دیوار کو تھامے ہوئے
موم کے بت آتشیں
چہرے سلگتی مورتیں
میری بینائی کی یہ مخلوق
زندہ ہے ابھی
اور کچھ لمحے ٹھہر،
اے زندگی،اے زندگی
ہوتو جانے دے
میرے لفظوں کی معنی سے تہی
میری تحریریں،
دھوئیں کی رینگتی پرچھائیاں
جن کے پیکر اپنی
آوازوں سے خالی بے لہو
محو ہوجانے تو دے
یادوں سے خوابوں کی طرح
رک تو جائیں آخری سانسوں کی
وحشی آندھیاں
پھر ہٹا لینا میرے ماتھے سے
تو کبھی اپنا ہاتھ
میں بھی چپ ہوجاؤں گا
بجھتی ہوئی شمعوں کے ساتھ
اور کچھ لمحے ٹھہر،
اے زندگی، اے زندگی
ان کی والدہ کے گھر آتے ہی گھر میں صف ماتم بچھ گیا۔بین کی آواز سے محلے والے اکٹھے ہونے لگے۔خدا ترسی سب غم میں شریک ہونے کے لیے آنے لگے۔ دور دور کے عزیزواقارب کو فون کیا جانے لگا۔ہو کوئی جوان موت پر افسوس کا اظہار کرنے لگا۔
جبکہ میجر بلال اسی طرح ابرش کے وجود کو اپنی بانہوں میں لیے بیٹھے تھے۔
وہ لوگوں کی آمدورفت سے بیگانہ بیٹھے۔دماغ میں بس گذشتہ دنوں کے واقعات بے ترتیبی سے چلنے لگے۔
’’ہم اس دفعہ تم کو دھمکی نہیں،تحفہ دے گا۔‘‘
’’جناب اس دفعہ کب آنے کے ارادے ہیں۔‘‘
’’ہٹلر ہوتی تو اب تک آپ میرے ہاتھوں مر چکے ہوتے۔‘‘
’’امید ہے کہ تم کو ہمارا تحفہ پسند آئے گا۔‘‘
’’ تب میرا بھی دل کرتا تھا کہ میں بھی تارا بن کر چمکوں۔‘‘
’’ میجر تم کو یہ بات بہت بھاری پڑے گا۔‘‘
’’جب میں تارا بن کر چمکوں گی ناں تو اس چھت سے سب سے واضح نظر آنے والا تارا آپ کی ابرش ہوگی۔‘‘
’’ یہ تحفہ ہمارا بات نہ ماننے کی خوشی میں۔‘‘
ایک جھماکے سے دماغ کی سکرین سیاہ ہوئی تھی۔
پھر دماغ میں گذشتہ دن ان کی ایک تقریب میں پڑھی جانے سعدی شیرازی کی نظم کے الفاظ بازگشت کرنے لگے۔
در رفتنِ جان از بدن گویند ھر نوعی سخن
من خود بہ چشم خویشن،دیدم کہ جانم می رود
(بدن سے جان نکلنے کے بارے میں طرح طرح کے سخن کہے جاتے ہیں۔
لیکن میں نے خود اپنی چشم سے اپنی جان کو نکلتے دیکھا ہے۔
تو بدن سے جان کو نکلتے ایسے دیکھا جاتا ہے۔یہ تو اپنی جان نکلنے کی تکلیف سے بھی زیادہ تکلیف تھی جو سہے نہ سہی جارہی تھی۔
وہ پتھرائے ہوئے بیٹھے تھے۔ابرش کو ان کی بانہوں کے حصار سے دور لے جایا جانے لگا۔
ای ساربان آھستہ ران،کارام جانم می رود
وان دل کہ باخود داشتم، بادلستانم می رود
(اے ساربان آہستہ چلا کہ میری جان کا آرام جارہا ہے۔
اور وہ دل جو میرے پاس تھا،میرے دلبر کے ساتھ جارہا تھا۔)
وہ اپنی جگہ سے اٹھنا نہیں چاہ رہے تھے۔وہ کوئی حرکت نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔وہ چپ بیٹھے اپنی موت کا انتظار کررہے تھے لیکن وہ نہیں آئی۔
بہت سے لوگ انہیں رلانے کی کوشش کرنے لگے۔انہیں کیا پتا تھا کہ وہ کتنا رو چکے تھے۔اب تو آنکھیں ساتھ دینے سے انکاری ہوچکی تھیں۔
گھر میں کی جانے والی آخری رسومات کے اس کا جنازہ اٹھایا جانے لگا۔
آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو انہیں ڈولی میں بٹھا کر بڑے چاؤ، بڑے مان کے ساتھ اس گھر میں لائے تھے، آج اسے کس حالت میں جدا کرنے جارہے تھے۔
تا جان نکلنا کسے کہتے ہیں؟
گفتم بہ نیرنگ و فسوں پنھان کنم ریشم درون
پنھان نمی ماند کہ خون، برآستانم می رود
(میں نے سوچا کہ سحر اور فسون سے اندر کا زخم چھپاؤں گا۔
لیکن چھپا کر رکھا نہیں جاسکتا کہ خون میرے آساں پر رواں ہے۔)
اس کی چارپائی کو کندھا دینے کے لیے میجر بلال کو آگے کیا گیا۔چارپائی اٹھانے کے بعد ان کے قدم آگے بڑھنے سے انکاری تھے۔
کلمہ شہادت کی صدا بلند ہوئی اور قافلہ راج کماری کو اس کی آخری آرام گاہ تک پہنچانے کے لیے چل پڑا۔
محمل بداری ساربان،تندی مکن باکاروان
کزعشقِ آنِ سروِ روان، گویی روانم می رود
(اے ساربان! محمل کو روک دو اور کاروان کے ساتھ جلدی مت کرو۔
کہ اس محبوب کے عشق کے سبب گویا بدن سے میری جان نکلتی جارہی ہے۔)
کندھے بدلے جارہے تھے۔زمین تنگ پڑنے لگی۔آسمان کی وسعتیں ختم ہونے لگیں۔ہر چیز سر جھکا کر ماتم کناں نظر آنے لگی۔
اومی رود دامن کشان،من زھر تنھایی چشان
دیگر میرس ازمن نشان، کز دل نشانم می رود
(وہ دامن کھینچنے والا جارہا ہے اور میں ہوں تنہائی کا زہر چکھنے والا۔
اس کے بعد مجھ سے میرا نشان مت پوچھنا کہ دل سے میرا نشان جارہا ہے۔)
قافلہ مرقد گاہ پر پڑاؤ ڈال چکا تھا۔ابرش کی آخری آرام گاہ تیار کی جاچکی تھی۔میجر بلال نے خود اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور اپنے بے جان ہاتھوں سے اسے مٹی تلے ہمیشہ کے لیے دفنا دیا۔
باز آی و برچشم نشین، ای دل ستانِ نازنین
کآشوب و فریاد از زمین پر آسمانم می رود
(اے دلبر نازنین،واپس آجاؤ اور میری چشم پر بیٹھ جاؤ۔
کہ تمہاری جدائی میں میری بانگ و فریاد زمین سے آسمان تک بلند ہورہی ہے۔)
سب اس کی لحد پر۔مٹھی مٹھی بھر مٹی ڈال کر میجر بلال سے دو بول تسلی کے کہہ کر جاچکے تھے۔اور وہ دو قبروں کے درمیان سر کی جانب بیٹھے تھے۔ان میں سے ایک قبر ان کے والد کی تھی۔
ان کی آنکھوں سے آنسو پھر جاری ہوچکے تھے۔جو شاید اب ساری زندگی کے لیے ان کی آنکھوں کا حصہ بننے والے تھے
من ماندہ ام مھجورازاو، بیچارہ ورنجور ازو
گویی کہ نیشی دورازو، دراستخوانم می رود
(میں اس سے دور ہوگیا ہوں،بے چارہ اور غم زدہ ہوگیا ہوں۔
گویا اس اے دور ہونےپر ایک ڈنگ میرے ڈھانچے میں جارہا ہے۔)
وہ ساری رات اس کی قبر کے سرہانے بیٹھے رہے۔نالہ و فغاں کرتے کرتے ان کے آنسو ختم ہوگئے لیکن دل کا بوجھ تھا کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
(ـــــــــــــــــــ)