کافی بزی شیڈول کے بعد وہ سب آج فری ہوئے تھے۔وقت ساتھ گزارنے کے لیے ان سب ٹریفلگر اسکوائر جانے کا پروگرام بنایا۔کیونکہ ماریہ کے سوا باقی سب کا مووی دیکھنے کا پلان تھا ۔ماریہ کو سینما ہال متاثر نہیں کرتے تھے اس لیے اس نے وہاں موجود نیشنل گیلری کا انتخاب کیا اور آسٹن کو بھی اپنے ساتھ زبردستی لے گئی۔بیچارے آسٹن کا دور دور تک آرٹ سے کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں تھا۔
ٹالی،آرنلڈ اور چارلس مووی دیکھنے کے لیے چلے گئے جبکہ ماریہ اور آسٹن گیلری کے اندر چلے گئے ۔وہاں ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی کیونکہ وہاں مشہور تصاویر کی نمائش لگی ہوئی تھی۔
اندر کا ماحول سحر طاری کردینے والا تھا۔یہاں ہر قسم کی پیٹنگز ،پورٹریٹس،اور مجسمے رکھے گئے تھے ۔سبز و سرخ دیواروں پر بڑی بڑی تصاویر آویزاں تھیں ،جو ہر دور کی عظیم یادگار تھیں۔
ماریہ ان تصاویر کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ فطرت کے زیادہ قریب تھیں۔
جیسے کہ ایک کونے میں لگی تصویر جس میں سمندر کا ساحل ایک خوبصورت منظر پیش کر رہا تھا۔اور سمندر میں دور سے آتی ،شور مچاتی لہریں ساحل سے نکلنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔دور کہیں افق کے پار آفتاب غروب ہونے کا پیغام دے رہا تھا۔نیلا آسمان سرخی مائل نظر آرہا تھا۔
ساتھ ہی لگی ایک تصویر ایک خوبصورت جزیرے کے منظر کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھی۔جس کے ایک طرف اونچے درخت فلک سے سرگوشیاں کرتے نظر آرہے تھے ۔ایک کم عمر لڑکی گلابی پوشاک پہنے نرم نرم گھاس پر چادر بچھائے گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی۔پاس بہتی ندی کا نیلا رنگ آسمان سے ندی کے نکلنے کا عکس پیش کر رہا تھا۔
کچھ ہی فاصلے پہ لگی ایک بہت بڑی تصویر ایک فیری لینڈ کا حصہ لگ رہی تھی جس میں رات اپنے پر پھیلائے کھڑی تھی۔دور فلک پر چاند پورے جوبن سے چمک رہا تھا۔لمبی لمبی گھاس کے اوپر سنہری روشنیاں اپنی دموں میں سموئے جگنو ادھر سے ادھر اڑ رہے تھے۔
ایک لمبے گھنے جنگل والی تصویر جس کے درمیان میں ایک جھونپڑا تھا۔اور قریب ہی ایک بوڑھی عورت لکڑیوں سے آگے جلائے اس پر دیگچی رکھے کچھ پکا رہی تھی۔جس دھواں اٹھ رہا تھا اور اوپر فضا میں جا کر کہیں غائب ہورہا تھا۔ساتھ ایک ٹوکری میں طرح طرح کے پھل پڑے ہوئے تھے ۔شاید وہ انہیں جنگل سے توڑ کر لائی تھی۔
آسٹن شدید اکتاہٹ کا شکار ہورہا تھا۔
یار مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنی بورنگ ہوگی۔” آسٹن نے بیزاریت سے کہا۔کیونکہ اسے یہاں کسی” تصویر کی کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی اور ایک ماریہ تھی جو ان تصاویر میں اتنی مگن تھی کہ آسٹن کے ہلانے سے واپس حقیقت کی دنیا میں آئی تھی۔وہ تو خود کو ہر تصویر کا ایک حسہ محسوس کر ر ہی تھی ۔کہیں وہ گہرے سمندر میں غوطہ زن تھی تو کہیں نیلے آسمان پر اڑتے ہلکے پرندوں کی مانند بلندیوں کو چھورہی تھی۔
اف۔کیا ہوگیا ہے بھئی؟ ” وہ یکدم پلٹی۔”
پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں ان تصاویر میں کیا نظر آرہا ہے؟” آسٹن نے اپنی آواز کو قدرے پست” رکھتے ہوئے کہا۔
وہی جو تمہیں نظر نہیں آرہا۔ ” وہ مسکراتے ہوئے بولی۔”
کیا نظر نہیں آرہا مجھے؟ وہ اندھا تھوڑی تھا۔
لیکن یہ سچ ہے کہ اصل بینائی تو دل کی ہوتی ہے۔جس کے دل کی آنکھ کھلی ہوتی ہے اسے گہرائیوں میں چھپے خزانے بھی نظر آنے لگتے ہیں۔اور آسٹن کے دل کی آنکھ اس معاملے میں بند تھی۔
یہ دیکھو !اس تصویر کو۔ ” ماریہ نے اسی تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا”
جسے وہ کافی دیر سے دیکھ رہی تھی۔
یہ بڑھیا دیکھنے میں کتنی تنہا لگ رہی ہے۔” ماریہ نے افسردگی سے کہا۔”
” تو اکیلی بیٹھی ہے ادھر اتنے بڑے جنگل میں۔تنہا ہی ہوگی ناں پھر۔ ”
اسے ماریہ سے اس قدر بے وقوفی کی امید نہیں تھی۔
اف۔ ” ماریہ نے ماتھے پر ہاتھ مارا ۔کس قسم کے انسان سے پالا پڑا تھا۔”
یہ اکیلی کہاں ہے؟ اس کے قریب جو اتنے بڑے بڑے درخت ہیں۔”
جو اسی کی طرح بوڑھے ہوچکے ہیں ۔اس کے پرانے دوستوں کی مانند ہیں۔یہ ان سے ہی اپنے دل کی باتیں کرتی ہے۔یہ دیکھو! یہ اس کے جھونپڑے کی جانب کس قدر جھکے ہوئے ہیں،جیسے یہ اس کی باتوں کو سننے کے لیے بے تاب ہوں۔اور اس بڑھیا کے چہرے پر لمبی مسافت کی تھکن کے آثار نظر آرہے ہیں لیکن اس کے غمزدہ ہونے کی گواہی نہیں دے سکتے۔
”اس کے تنہا ہونے کی چغلی نہیں کھا سکتے۔
وہ اس تصویر کو دیکھتے ہوئے اپنی ہی رو میں بولے جارہی تھی اور وہ حیرت سے بس اس کے چہرے کو تکے جارہا تھا۔
” واہ۔ماننا پڑے گا کہ آپ کو ان بے زبان تصویروں کی باتیں بھی سنائی دیتی ہیں۔”
وہ اس کے اندر کی بینائی کا دل سے قائل ہوگیا تھا۔اور وہ کسی فاتح کی طرح خوش ہورہی تھی۔
چلو ۔بس کرو۔میں تھک گیا ہوں یہاں کھڑے ہوکر۔ اس کے چہرے پر پھیلی معصومیت کو دیکھ کر ماریہ کو ہنسی آگئی۔
”ہاہاہاہا۔ٹھیک ہے ۔چلو! ”
اس کا وہاں سے جانے کو دل نہیں کررہا تھا۔وہاں ایک انبار تھا ایسی تصاویر کا مگر اسے آسٹن کی بات ماننا ہی پڑی کیونکہ وہ پہلے ہی اس کے صبر کا امتحان لے چکی تھی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
گیلری کے باہر سامنے والا منظر لندن کا خوبصورت ترین منظر تھا۔
ٹریفلگر اسکوائر۔
یادگاروں کی یاد گار۔
فتح کا نشان۔
کتنے تاریخی واقعات تھے جو ٹریفلگر اسکوائر میں وقوع مذیر ہوئے تھے۔
ان کا چشم دید گواہ۔
مربع نما چوک کے درمیان تعمیر کیا گیا اکاون میٹر اونچا ایک کالم۔جس پر نیلسن کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔
نیلسن،ایک عظیم فاتح۔
ایک کامیاب جنگجو۔
ایک ایسا جنگجو جس کے مجسمے سے بھی رعب و دبدبہ دکھائی دیتا تھا۔اس کے چہرے سے جیت کی خوشی نمایاں نظر آتی تھی۔
اس کے ہاتھ میں پکڑی تلوار کئی جنگوں کی داستان سناتی تھی۔
فخر سے کھڑا اس کا مجسمہ اس کے کبھی نہ جھکنے کا قصہ سیاحوں کی سماعتوں کے نذر کرتا تھا۔
کالم کے نیچے چاروں جانب بہادری کے نشان ،شیروں کے مجسمے نصب کیے گیے تھے۔
ہر کونے میں ایک شیر۔
ہر شیر بہادری کی علامت۔
ان کی خون سے بھری آنکھیں کسی پر بھی رعب جمانے کے لیے کافی تھیں۔ایک بہادر کے تلوؤں میں بیٹھے وہ شیر حقیقت میں کس قدر خوفناک ہوسکتے تھے۔
سامنے دونوں جانب دو فوارے اور ان کے ارد گرد نیلے پانیوں کے حوض ۔اور ان نیلے پانیوں سے نکلتے ڈولفن اور جل پریوں کے خوبصورت مجسمے۔دونوں فواروں کے درمیان پزل کی طرح کا ایک خووبصورت باغ۔وہ منظر ہر لحاظ سے حسین تھا۔نیلسن کے سینکڑوں مداح کبوتر اس منظر کو اور بھی حسین بناتے تھے۔وہ کبوتر اتنی تعداد تھے کہ ایسا لگتا تھا کہ وہ سلطنت کبوتروں کی تھی۔ اور جب کوئی ان کے درمیان سے گزرتا تو وہ چاروں طرف پھیل کر اڑ جاتے۔
ان دونوں نے وہاں ایک چھوٹی سی شاپ سے پاپ کارن خریدے ۔وہاں یہ کاروبار خوب چلتا تھا۔کیونکہ لوگ جب بھی کوئی پکچر یا پھر گیلری میں لگی کسی نمائش کو دیکھنے جاتے تو ساتھ میں پاپ کارن ضرور لیکر جاتے۔لیکن یہ آسٹن اور ماریہ ہی تھے جنہوں نے واپسی پر لیے تھے۔یہ سب دوست ساری دنیا کے الٹ ہی چلتے تھے۔
وہ دونوں ایک منڈیر پر بیٹھ گئے۔انہوں نے کچھ پاپ کارن نیچے زمین پر پھینک دیے اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے کبوتر ان کے قدموں کے قریب آگئے۔وہاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہروقت موجود رہتی تھی۔وہ سب نیلسن سے اس کے یادگار واقعے سننے آتے تھے۔
” چارلس،آرنلڈاور ٹالی کچھ دنوں تک پاکستان جارہے ہیں۔ ”
آسٹن نے پاپ کارن اپنی جانب کے کبوتروں کی جانب پھینکے۔
پاکستان؟ ” ماریہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔”
ہاں ۔پاکستان۔ ” سارے کبوتر آسٹن کی جاب آگئے۔”
اچھا ! لیکن کیوں؟ ” ناجانے کیوں اسے حیرت ہوئی تھی۔”
انہوں نے خوبصورت وادیوں پر ایک ڈاکومنٹری بنانی ہے۔”
اسی سلسلے کے لیے انہوں نے پاکستان کاانتخاب کیا ہے۔ ” وہ وقفے وقفے پاپ کارن کبوتروں کی جانب پھینک رہا تھا۔
انہیں وہاں کونسی خوبصورتی نظر آگئی؟” وہ استہزائیہ بولی۔”
سنا ہے کہ وہاں بہت سی خوبصورت وادیاں ہیں۔ ” وہ ان کبوتروں کی ہرحرکت کو دیکھ رہا تھا۔”
” لیکن میں نے تو پاکستان کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے کہ وہاں کے حالات بالکل اچھے نہیں۔”
اسے یہی خدشہ لاحق تھا۔جس کا باعث ہمارا آزاد میڈیا تھا
حالات تو کہیں بھی اچھے نہیں۔انہوں نے بہت سی جگہوں پر ریسرچ کی ہے”
اور انہیں ڈاکومینٹری بنانےکے لیے پاکستان ہی بیسٹ لگا ہے۔ ” پاپ کارن ختم ہو رہے تھے لیکن ان کبوتروں کی بھوک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
ہممم۔ ویسے مجھے بھی ایک پراجیکٹ ملا ہے ”
۔تاریخی مقامات پر تھیسس بنانے کا۔شائد میں نے تم لوگوں کو اس دن بتایا تھا۔ ” ماریہ اب اپنے پاپ کارن کبوتروں کی جانب پھینکنے لگی۔
” ہاں۔بتایا تھا۔ ”
آسٹن اب اس عظیم الشان نیلسن کے مجسمے کی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔اس کی دلچسپی اب ان کبوتروں سے ختم ہوچکی تھی۔
” تو اگر میں بھی ان کے ساتھ چلی جاؤں تو میرا پراجیکٹ کامیاب ہوسکتا ہے۔”
اسے کامیابی کی ایک کرن نظر آئی۔
اچھا۔وہ کیسے؟ ” آسٹن حیرت سے اس کی جانب گھوما۔”
وہاں بہت قدیم مقامات ہیں۔ٹینا بتا رہی تھی۔”
میں نیٹ سے ریسرچ کر کے اتنا اچھا تھیسس نہیں بنا سکتی جتنا میں انہیں براہ راست دیکھ کر بنا سکتی
ہوں۔ ” خوشی سے اس نے ایک مٹھی بھر کر کبوتروں کی جانب اچھالی۔
آہاں۔یہ تو بہت اچھی بات ہے۔” وہ دوبارہ نیلسن کی جانب متوجہ ہوگیا۔”
لیکن اس کے تم بھی ہمارے ساتھ چلو گے۔ ” وہ خود ہی ہر منصوبہ بنا لینے کی عادی تھی۔”
” ہاہاہاہا۔میرا وہاں کیا کام ہے؟”
” وہ تینوں تو ساتھ ہوں گے ۔تو میں اپنے ساتھ کس کو لیکر جاؤں گی؟ ”
وہ اکیلی کسی کام کی نہیں تھی۔
اچھا۔دیکھتے ہیں۔” وہ شاید پاکستان نہیں جانا چاہتا تھا۔”
دیکھنا نہیں۔جانا ہے۔ وہ حکم دیتے ہوئے بولی۔
”ہاہاہاہاہا۔ ٹھیک ہے ملکہ الزبتھ۔جو آپ کا حکم۔”
اس نے جھکتے ہوئے فرمانبرداری سے کہا۔
اتنی ہی دیر میں وہ تینوں بھی آگئے۔
ہیلو فرینڈز۔ کیا ہورہا ہے؟” ٹالی ماریہ کے قریب بیٹھ گئی۔اور وہ دونوں کھڑے ہی رہے۔”
پاکستان جانے کی پلاننگ۔ ” ماریہ نے انہیں گڈ نیوز سنائی۔”
او۔رئیلی؟” ان سب کو حیرت ہوئی۔”
”ہاں ناں۔ میں اور آسٹن بھی جارہے ہیں تم لوگوں کے ساتھ۔”
وہ بہت خوش دکھائی دے رہی تھی اس لیے انہیں یہ بات تسلیم کرنا ہی پڑی۔
واؤ۔یہ تو بہت اچھی خبر دی ہے تم دونوں نے۔” ٹالی بہت خوش ہوئی تھی۔”
کتنا مزا آئے گا ہم سب کو۔ ”چارلس وہیں کھڑا اپنا مستقبل دیکھ رہا تھا۔”
ایک منٹ۔” آرنلڈ کے یوں کہنے پر وہ سب اس کی جانب متوجہ ہوئے۔”
ہم نے تو آسٹن کو اس دن اتنا کہا تھا کہ ہمارے ساتھ چلے مگر یہ نہیں مانا۔”
تو اب یہ کیسے راضی ہوگیا؟ ” ذہین آرنلڈ کے دماغ نے دال میں کچھ کالا ہونے کی گھنٹی بجائی۔
ماریہ جو ہے آسٹن کو راضی کرنے کے لیے۔” ماریہ نے کوٹ کے کالر کھڑے کرتے ہوئے کہا۔”
اب ان سب کو بات سمجھ آئی تھی کہ آسٹن اپنی بات سے ٹلا کیسے تھا۔
اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ اب اگر آسٹن سے کوئی بات منوانی”
ہوتو مقدمہ ماریہ کی عدالت میں لیکر جانا پڑے گا۔”چارلس کی آنکھوں میں اس وقت کچھ تو تھا جسے سب نے محسوس کیا تھا سوائے ماریہ کے۔
” ہاں ۔بالکل۔”
فخر سے اس کا سر بلند ہوگیا۔ اور آسٹن اس کے چہرے کی خوشی دیکھ کر ہی خوش تھا۔
اچھا چلو۔مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ ” ٹالی سب کچھ برداشت کرسکتی تھی سوائے بھوک کے۔”
اس بات کا علم سب کو تھا ۔وہ سب قریب ہی ایک ریسٹورنٹ جانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔جاتے ہوئے ماریہ نے سارے پاپ کارن کبوتروں کی طرف پھینک دیے۔ آسٹن نے بھی پیچھے مڑ کر دیکھا تھا لیکن کبوتروں کو نہیں بلکہ بلندی پر نصب اس مجسمے کو جس کے چہرے سے فتح کا غرور چھلک رہا تھا۔جیسے وہ کہہ رہا ہو آسٹن تم ناکام ہوجاؤ گے۔آسٹن تم ایک دن ہار جاؤ گے۔اس وقت آسٹن کا دل چاہا تھا کہ وہ اس فاتح کو نیست و نابود کردے لیکن وہ ایسا نہ کرسکا وہ شکست کھا چکا تھا۔وہ نیلسن پہ رشک کیا کرتا تھا لیکن آج اسے اس کا مجسمہ زہر دکھائی دے رہا تھا۔اس سے پہلے کہ اسے کچھ ہوجاتا وہ وہاں سے چلا گیا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
صبح کی پہلی کرن کے نکلتے ہی انہوں نے اس مورچے پہ حملہ کردیا اور اس میں چھپے دو شرپسندوں کو ان کے انجام تک پہنچا دیا۔وہاں صورتحال ایسی نہیں تھی کہ بس دیکھ کر ہی واپس جایا جاسکے۔کرنل فیض کی جانب سے حکم ملتے ہی انہوں نے مشن کا باقاعدہ آغاز کردیا۔کیپٹن عابد،کیپٹن عاطف اور دیگر اہلکار بھی وہاں پہنچ گئے۔فائرنگ شروع ہوچکی تھی ۔دشمن اس حملے کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے بوکھلا گیا لیکن اگلے ہی لمحے سنبھل گیا۔ان کی طرف سے بھی بھرپور فائرنگ شروع ہوچکی تھی۔
چڑھائی کی جانب دشمن پر حملہ کرنے میں دقت پیش آرہی تھی۔وہ مورچہ ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ دشمن یہ بات جان چکا تھا وہاں پر موجود ان کے ساتھی ختم ہوچکے تھے اسی لیے تو پاک آرمی وہاں پہنچ چکی تھی۔
وہ ثابت قدمی سے آگئے بڑھ رہے ۔یہ صورتحال دشمنوں کے زیادہ پریشان کن تھی۔وہ پاکستان آرمی کو اچھی طرح سے جانتے تھے کہ جب تک یہ کامیاب نہ ہوجائیں واپس نہیں جانے والے۔
دشمن یکے بعد دیگرے دستی بم پھینک رہا تھا۔جس کی وجہ سے نوجوانوں کی پیش قدمی رک چکی تھی جو کہ پریشانی کا باعث بن سکتی تھی اس لیے راستہ بدلنے کا فیصلہ کیا گیا۔
کیپٹن عابد ہم ایک ساتھ ہی دشمن پر یوں حملہ نہیں کرسکتے۔”
ہمیں دوحصوں میں بٹ جانا چاہیے۔میں ان کو لیکر دائیں جانب سے جاؤں گا جبکہ تم باقی ان سب کو لیکر بائیں جانب سے جاؤ گے۔ ” میجر بلال نے فوری ایک لائحہ عمل تیار کیا۔
”موو”
حکم ملتے ہی وہ سب دوحصوں میں بٹ گئے۔اور الگ الگ راستے حملہ کرنے کے لیے آگے جانب بڑھ گئے۔
ؑعطاءاللہ عمر کے اس حصے میں لڑنے کے قابل نہیں تھے لیکن وطن سے عشق نے انہیں وہ طاقت عطا کی تھی کہ وہ فوج کے شانہ بشانہ دشمن سے لڑ رہے تھے۔وطن سے عشق عمر کہاں دیکھتا ہے۔یہ تو بس دل میں موجود جذبے کو دیکھتا ہے۔
دشمن کے لیے ان ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی تھی ،دونوں طرف سے اب خطرہ لاحق ہوچکا تھا۔لیکن وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے۔حق کے لیے مخالف کی نفری کا زیادہ ہونا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔جیت ہمیشہ حق کی ہی ہوتی ہے ۔
بار بار پھسلنے سےسب کو ہی چوٹیں آئی تھیں۔دشمن کے لوگ ایک کے بعد ایک اپنے اصل انجام کو پہنچ رہے تھے۔
سب کچھ کامیابی سے چل رہا تھا کہ اچانک سامنے سے گولی چلی اور میجر بلال کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔یکے بعد دیگرے تین گولیاں اور چلیں اور سینے کے پار گزر گئیں۔سامنے کا منظر سانس روک دینے کے لیے کافی تھا۔عطاءاللہ غازی اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے نیچے کی جانب لڑھک رہے تھے۔ان کے سینے سے خون کی بوندیں نکل رہی تھیں۔
میجر بلال برق سی تیزی کے ساتھ ان کی جانب لپکے اور سہارا دیتے ہوئے انہیں نیچے کی جانب ایک مح ظ مقام پر لے گئے۔انہوں نے عطاءاللہ غازی کا سر اپنی گود میں رکھا۔
صوبیدار زاہد۔” میجر بلال نے صوبیدار زاہد کو آواز دی۔”
یس سر۔ ”صوبیدار زاہد ان کی جانب آئے۔”
”عطاءاللہ کا جلدی سے نیچے لے جاؤ اور نہیں جلد از جلد فرسٹ ایڈ دو۔”
میجر بلال کا سانس پھول رہا تھا۔
اتنی گولیاں لگنے کے باوجود بھی میجر بلال کو ان کے بچ جانے کی امید تھی۔
نہیں صاحب جی۔میں آخری سانس تک یہ میدان نہیں چھوڑوں گا۔”
یہیں جان دے دوں گا لیکن اپنے سے کیے گئے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔برسوں سے دیکھے گئے خواب کی تو تعبیر آج ملنے والی ہے۔
”اور آپ مجھے واپس بھیج رہے ہیں۔
میجر بلال کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔
دیکھیں۔۔۔ میں کیتان خوش قسمت ہوں۔۔۔کہ۔۔۔ میرے سینے پر دشمن کی گولی لگی ہے ”
اور میں شہادت کے۔۔۔۔بہت قریب ۔۔۔پہنچ چکا ہوں۔ درد کی شدت سے الفاظ بمشکل ادا ہورہے تھے۔
اب میں عطاءاللہ غازی سے۔۔۔۔عطاءاللہ شہید ہو۔۔۔چکا ہوں۔۔۔میں بہت خو۔۔۔۔خوش ہوں کہ۔۔۔آج میں نے۔۔۔اپنا فرض پورا کردیا ہے۔۔۔۔ میری ہزار جا۔۔۔جانیں بھی ہوتیں تو میں۔۔۔۔اپنے اس ملک۔۔۔پر قربان کر۔۔۔۔دیتا۔۔۔ایک وعدہ کریں کہ۔۔۔۔دشمن کو زندہ واپس ۔۔۔۔۔نہیں جانے دیں گے آپ۔۔
”۔۔۔اللہ آپ سب کا مددگا رہو۔۔۔۔
اس کے ساتھ ہی عطاءاللہ نے میجر بلال کی ہی گود میں کلمہ پڑھتے ہوئے حق کو لٹا دی۔
پروردگار نے اس عظیم انسان کو اپنے بندوں میں چن لیا تھا۔
سلام ہو عطاءاللہ شہید پر۔
سلام ہو ان کی عظمت پر۔
سلام ہو ان کی جرات پر۔
سلام ہو ان کے جذبے پر۔
سلام ہو ان کے سچے عشق پر۔
میجر بلال ان کے بےجان وجود کو گلے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔
کیسے نہ روتے وہ اتنا۔جان سے پیارا جو جدا ہوا تھا۔اور کس شان سے جدا ہوا تھا۔
برسوں کا ساتھی بچھڑ چکا تھا۔
ایک مخلص دوست بہت دور چلا گیا۔
صوبیدار زاہد سے وہ منظر برداشت نہیں ہورہا تھا۔میجر بلال دیوانہ وار عطاءاللہ شہید کے ماتھے کو چوم رہے تھے۔ان کے وجود کو خود سے جدا کرنا میجر بلال کے ایسا ہی تھا جیسے روح کو جسم سے جدا کرنا۔
وہ روح ہی تو تھے میجر بلال کی۔
عطاءاللہ شہید کے ساتھ گزرے پل آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔وہ شرماتا ہوا چہرہ شہادت کا تمغہ جیت کر چین کی نیند سو چکا تھا۔
صوبیدار زاہد کے تسلی دینے سے میجر صاحب نے عطاءاللہ کا وجود ان کے حوالےکردیا۔وہ ان کے جسد خاکی کو نیچے لے گئے۔
میجر بلال اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنی پوزیشن کی جانب بڑھ گئے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
مدتوں پہلے دیکھے خواب کی تعبیر آج آئی ہے
سبز ہلالی پرچم میں لپٹی میری لاش آئی ہے
اے آنکھوں! اشکوں کو اب بہانا مت،سلام پیش کرنا
عدو کو سبق سکھا کر میری جسد خاک آئی ہے
عطاءاللہ شہید کے جسد خاکی کو سلامی پیش کرتے ہوئے ان کے آبائی گاؤں میں سپردخاک کردیا گیا۔ہر کوئی ان پر فخر کررہا تھا۔وہ تھے ہی فخر کے قابل۔
پوری قوم عطاءاللہ شہید جیسے بیٹوں کو سلام پیش کرتی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...