امی ناشتہ بنا دے
اور مسز ہمدانی اسفی کو دیکھ کر حیران رہ گئی
کل ندا کے جانے کے بعد وہ اب پورے دو دن بعد اب کمرے سے باہر آ یا تھا اس دوران وہ کئی بار دروازہ بجا چکی تھی پر کوئی جواب نہ آیا پھر جب انہوں نے رو کر منتیں کی تب اندر سے جواب آیا کے اُسے اکیلا چھوڑ دیا جائے اور وہ فکر نہ کریں وہ کوئی الٹی حرکت نہیں کرے گا پر دروازہ اب بھی نہیں کھولا
اور اب اسے سامنے دیکھ کر وہ بھی اتنے نارمل انداز میں حیران رہ گئی آگے بڑھ کر گلے لگایا اور ماتھا چوم کر کہا
اسفی میرے پاس اب تمہارے سوا کچھ نہیں ہے پلیز مجھے کوئی غم نہ دینا
امی آپ فکر نا کریں میں آج سے بوتیک جاؤں گا اور بھائی کی ساری ذمہ داریاں نبھاؤں گا اور ولی کو بھی ہم دونوں دیکھ لیں گے ہمیں کسی کی ضرورت نہیں (آنسوؤں سے بھری آواز سے کہا)
مسز ہمدانی اسفی کے ایک دم اتنے بڑے ہو جانے پر رو دی تو اسفی نے انہیں خود سے لگا لیا
امی ہمیں مل کر ولی کو بڑا کرنا ہے جیسے آپ نے اور بھائی نے مجھے کیا جیسے بھائی نے میرے لیے سب کیا مجھے بھائی نہیں بیٹا بنا کر رکھا میں بھی ولی کو سب دوں گا چاچا نہیں باپ بن کر پالو گا بس آپ اب یہ آنسو پونچھ لیں تبی ولی کے رونے کی آواز پر بولا آپ میرا ناشتہ بنائے میں دیکھتا ولی کو اور اس کے روم کی طرف چل پڑا
_+_+_+_+_
پورا دن گزر گیا پر اشعر نے بیا سے بات نہ کی بلکہ بیا کی طرف دیکھا تک نہیں
اور بیا جو جان نثار کرنے والے محبت کرنے والے اشعر سے واقف تھی اس نئے جان نکالنے والے اشعر کے روپ کو برداشت نہ کر پا رہی تھی اور پکار لیا
اشعر
اشعر نے موڑ کر بھی نہ دیکھا
اشعر میری بات تو سُنے
اشعر آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ آپکو لگتا ہے میں یہ سب جان بوجھ کر کیا
تو اشعر نے وہیل چیئر گھوما کر بیا کو دیکھا( کہ ہاں سب تمہارا قصور تم نے مجھے تنہا کر دیا میرا آخری جگنو بھی جلا دیا میرے ہاتھوں میں سوائے لاچاری اور بے بسی کے کچھ نہیں رہنے دیا) پر منہ سے ایک لفظ نہ بولا
بیا بمشکل بیڈ سے اتری اور آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے ہوئے اشعر کے پاس آئی
ایسے کیا دیکھ رہے ہیں
اشعر نے نظروں کا زاویہ بدل لیا پر بولا اب بھی کچھ نہیں
بیا اشعر کے گھٹنوں پر وزن ڈال کر پنجوں کے بل زمین پر بیٹھ گئی
اشعر میرا بھی اتنا ہی نقصان ہوا جتنا آپ کا بلکہ میرا آپ سے زیادہ ہے آپ کے لیے بچے نے ابھی دنیا میں آنا تھا میرے لیے آ گیا تھا میرے اندر تھا تین ماہ سے
اشعر نے اسکی بیھگی آنکھوں میں دیکھا تو اپنا آپ ڈوبتا محسوس ہوا یہ چہرہ جو کلیوں کی طرح کھلتا تھا آج مرجھایہ تھا اشعر کے دل کو کچھ ہوا بیا کو ایسی حالت میں دیکھ کر اس کا کیاقصور ہے بچہ تو اس کا بھی تھا
بیا تم یہاں کیوں آئی ہو حالت دیکھو اپنی اور ایسے کیوں بیٹھی ہواٹھو یہاں سے بیڈ پہ جاؤ
لیکن – – –
بیا بیڈ پر بیٹھو پھر بات ہو گی چلو اُٹھو
جب تک بیا بیڈ تک گئی تو اشعر نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور کہا
بیا میں مانتا ہوں نقصان ہم دونوں کا ہے بس میں تھوڑا ہائیپر زیادہ ہو گیا تم جانتی ہو تین ماہ سے بیڈ پر ہوں چلنے پھرنے سے معذور بس اتنی بڑی خبر سُن کر آپا کھو بیٹھا سوری رئیلی سوری بیا میں بہت بُرا ہوں معاف کر دو
اشعر کا اتنا کہنا تھا بیا سب بھول کر اشعر کے ہاتھوں میں سر رکھ کر رو دیا اور وہ بھی اسے روکنے کی بجائے بیا کا ساتھ دے رہا تھا دونوں آنسو بہانے میں اتنے مگن تھے کہ اندر آتے اظہر نے باقاعدہ کھانسی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلایا
واہ بھائی ہم لوگ سمجھ رہے ہیں کہ آپ دونوں ابھی بھی منہ پھولا کر بیٹھے ہونے پر اندر تو رومینس چل رہا ہے
بیا آنسوؤں ساتھ ہنسی تو اشعر نے دیکھا بیگھی آنکھوں ساتھ ہنسی کتنا مکمل سین تھا
بھائی بس کرو پہلی بار دیکھ رہے ہو بھابھی کو
اظہر نے اشعر کی محویت پر چوٹ کی تو دونوں جھیبپی سی ہنسی ہنس دیے
_+_+_+_+_
امی امی کہاں ہیں آپ
اسفی کچن میں ہوں مسز ہمدانی نے حیران ہوتے ہوئے کہااَونچی آواز میں کہا کیونکہ سکندر بعد وہ بولتا بھی بہت کم تھا کجا کہ اتنا اونچا بولنا
اسفی اندر آیا تو ایک ہاتھ میں ولی تھا اور آتے ہی ماں کو گلے لگا لیا
امی میرا اے سی سی اے کلئیر ہو گیا امی بھائی کا خواب پورا ہو گیا میں اڈیٹر بن گیا
سچ اللہ تمہیں اور کامیابیاں عطا فرمائے آمین
یہ وہ لمحہ تھا جس کا سکندر نے بے صبری سے انتظار کیا تھا پر قدرت نے اسکی قسمت میں نہیں لکھا
اسفی کی آنکھوں میں آنسو تھے پھر ماں کے گلے لگ کے رو دیا تو مسز ہمدانی بھی رونے لگی تو ولی نے کسماکا کر بتایا کہ جی میں دونوں کے بیچ پیس رہا ہوں تو دونوں ولی کے منہ بسور ے پر مسکرا دیے
کیا کر رہی ہیں آپ
کھانا بنا رہی ہوں
اسفی نے آگے بڑھ کر چولہے بند کیا آج ہم باہر کھانا کھائے گے
بھائی نہیں ہے تو کیا ہوا ہم اس دن کو اسی ہی سیلیبریٹ کرے گے
مسز ہمدانی کے بنوے اچھکانے پر اسفی نے کہا
آپ جلدی سے تیار ہوں میں ولی کو ریڈی کرتا ہوں
زندگی پھر نارمل ہو رہی تھی اشعر کو جاب مل گئی وہ جاب اور بوتیک اچھے سے مینج کر رہا تھا اور چھٹی کا دن ولی کا ہوتا تھا
لیکن ایک دن سوتے میں ایسا ڈرا کے اٹھنے کے بعد بھی کئی گھنٹے اسی ٹرانس میں رہا تو اسفی نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا
لیکن ڈاکٹر بھی ولی کی حالت میں سدھار نہ لا سکے تبی آج بھی وہ آنکھیں بند کئےکئی کئی گھنٹے چلاتا اور اس ٹرانس سے نکلنے کی کوشش ہی نہ کرتا ڈاکٹر کے کہنے پر اسفی اور مسز ہمدانی اسے پیار سے حقیقی دنیا میں لانے کی کوشش کرتے
_+_+_+_+_
لیکن آج مس خان نے کتنی آسانی سے ولی کو دھیان بٹایا کے وہ پھر سے چہکنے لگا
اسفی کے لیے مس خان کا یہ انداز نئا نہیں تھا پھر بھی وہ زوباریہ کی طرف ایسے دیکھتا رہا جیسے یہ سب پہلی بار دیکھ رہا ہو اسکے زوباریہ کی طرف رجحان کی وجہ ہی یہی تھی اسکا بچوں سے بے انتہا پیار
اسنے زوباریہ کو ہمیشہ ایک امپلائی ہی لیا لیکن وہ خاص ہونا تب شروع ہوئی جب اس نے زوباریہ کو چوکیدار کے بچے سے ساتھ اپنے کیبن میں پایا
اسفند ناک کر کے اندر آیا تو وہ بچے کو گود میں بیٹھائے مگن تھی اسفند کے اندر آنے پر بچے کو لیے ہی اسکی طرف متوجہ ہوئی
کیا کوئی کسی کے بچے ساتھ بھی پیار کر سکتا اپنے روم میں آ کر وہ سوچتا رہا
پھر جب جب اسے ایسے مناظر نظر آتے وہ لاشعوری طور پر زوباریہ اور ندا کا مقابلہ کرنے لگاتا اور ہر بار زوباریہ کا پلرہ بھاری ہوتا
لیکن زوباریہ کے شادی سے انکار زوباریہ نے آخری بازی بھی ندا سے جیت لی کیونکہ جاب بعد ندا نے خود اسے شادی کی آفر کی لیکن زوباریہ نے تو اسکے عہدے کا بھی لحاظ نہیں کیا اور ایک منٹ سے پہلے انکار کر دیا جس سے زوباریہ کی عزت اور بڑھ گئی
اس نے سوچ لیا تھا وہ اب امی کو اسکے گھر بھیج کر تھرو پراپر چینل کا م کرے گا بس اسے اپنے ساتھ پھر ریلیکس ہو نے کا وقت دے رہا تھا کہ ولی کے حادثے نے اسے نئی راہ سجھائی اور اس نے زوباریہ کے گریز کو محسوس کرتے ہوئے بھی اسے گھر بلایا حالانکہ وہ خود بھی آفس جا سکتا تھا
سب صحیح تھا پر آخر میں ایسا کیا ہوا جو زوباریہ کی آنکھوں میں آنسو مچلتے رہے
اور سوچ سوچ کر بھی کوئی سرا ہاتھ نہ آیا
_+_+_+_
بیا بیا
میری فائل کہا ہے
بیا نے اطہر کے آگے پراٹھا رکھا انعم اظہر کا ناشتہ تم بنا دواور روم کی طرف بھاگی (پچھلے ماہ اطہر کی شادی ہو گئی تھی)
بھابھی میں آپ کے ہاتھ کا پراٹھا لو گا پیچھے سے اظہر نے ہانک لگائی
ج جی اشعر
یار میری فائل کہاں ہے جو میں کل آفس سے لایا تھا
آپ نے ہی رکھی تھی اور دراز سے نکال کر اشعر کی طرف بڑھائی
بیا میں تھوڑا لیٹ آؤں گا آج
پر اشعر آج ڈاکٹرنازیہ سے ہماری اپوائنمینٹ ہے
اشعر کے چہرے پر تاریک سا سایہ لہرایا تو رُخ بدلتے ہوئے جلدی سے خود کو نارمل کرتے ہوئے بولا
بیا تم ماما ساتھ چلی جانا نہ میری میٹنگ ہے
پر اشعر پچھلی بار بھی ڈاکٹر نے کہا تھا آپ کے ساتھ آؤں
بیا تم کہاں ڈاکٹروں کے چکر میں پڑ گئی ہو ابھی ہماری شادی کو ٹائم ہی کتنا ہوا ہے تم فکر نہ کیا کرو
2سال ہو گئے ہیں اور ہر ڈاکٹر کہتی ہے میں نارمل ہوں اللہ کی طرف سے دیر ہے بیا نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا
اشعر کے دل پر گھونسا پڑا پر بیا کو تسلی دینے کو بولا
تو بس ٹھیک ہے نہ جب اللہ چاہے گا ہمیں اولاد کی نعمت سے نواز دے گا تم ٹینشن نہ لیا کروبیا کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا
پر اشعر – – –
بیا میں لیٹ ہو رہا ہوں واپسی میں بات ہو گی اور باہر نکل گیا
اشعر ناشتہ تو کر لیں
آفس سے کچھ کھا لوں گا ابھی ٹائم نہیں ہے
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی اشعر بیا کے مطلق سوچتا رہا جس کی فکر اور پریشانی بڑھتی جا رہی تھی اسے ڈر تھا کہیں وہ ڈیپریشن کا شکار نہ ہو جائے اب تو جب وہ اشعر سے بات کرتی تو وہ نئے سرے سے شرمندگی محسوس کرتا اسے سمجھ نہیں آتا وہ کی جھولی خوشیوں سے کیسے بھرے کے وہ اس بات کو بھول جائیں پر وقت کے ساتھ ساتھ بیا کی ماں بننے کی خواہش شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی تھی
اشعر جتنا بیا کا دل بہلانے کی کوشش کرتا اینڈ پر بیا کی تان پھر اسی بات پر ٹوٹتی تو اشعر کی تھکاوٹ سوا ہو جاتی اور آج تو بیا نے صبح صبح ہی یہی ٹاپک چھیڑ کر اشعر کو اضطراب کا شکار کر دیا تھا
_+_+_+_+_
مس خان میں فائل دیکھ چکا ہوں کچھ جگہ پر تھوڑی گڑبڑ ہے آپ گھر آ جائے میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں آپ وہ کر لے پھر آگے میرا کام ہیں
زوباریہ آفس آئی تودن سکون سے گزر جانے پر سکھ کا سانس لیا
اگلےدن آفس آئی ہی تھی کہ اسفند کی کال آ گئی
سر سر وہ
کوئی پرابلم ہے کیا
نا نہیں سر میں آتی ہوں
شکریہ اینڈ سوری آپ کو زحمت دے رہا ہوں
زوباریہ جب ہمدانی لاج پہنچی تو ولی یاد آیا وہ پیارا سا بچہ جیسےوہ اپنے غم میں آنسو بہاتے ہوئے بھولی تھی جبکہ اس نے تو انجانے میں زوباریہ کے دکھ چھیڑے تھے اسے تو پتا بھی نہیں تھا کہ اس کے بیا کہنے پر وہ اندر سے ادھڑ گئی تھی
اسفند کے ساتھ کام کرتے ہوئے وہ بار بار اوپر دیکھتی
اسفند اسکی بے چینی محسوس کر چکا تھا تبی بولاخیریت مس خان آپ ٹھیک تو ہیں
سر جب تک آپ اسے روسیٹ کر رہے ہیں میں ولی سے مل لوں آنکھیں جھکائے مدعا بیان کیا گیا
یس شیور آپ چلی جائے وہ بھی کل سے کافی بے صبری سے آپ کا ویٹ کر رہا ہے
شکریہ سر
کیوں آئی ہیں آپ ولی نے اسے دیکھتے ہی منہ ٹیڈھا کیا
ولی دیکھو تم میرے دوست ہو ہو نہ
بیڈ تک آتے ہوئے بولی ولی نے ہاں میں سر ہلا کر خواب دیا
تو دوست تو ایک دوسرے کی پرابلم سمجھتے ہیں میں روز روز تھوڑی آپ کے گھر آ سکتی
کیوں
کیونکہ روز کسی کے گھر جانا اچھی عادت نہیں اور سر مائنڈ بھی کر سکتے ہیں
اسکا مطلب میں بھی روز آپ کے گھر نہیں آ سکتا استفائیہ انداز میں پوچھا
نہیں آپ تو روز آ سکتے ہو کیونکہ آپ تو بچے ہو نہ اور ویسے بھی میرے گھر میں کوئی ہے ہی نہیں جو مائنڈ کرے
آپ کی پیرنٹس کہاں
نہیں ہیں
میری طرح
جی
بیا – – – – – – –
ولی میری ایک بات مانو گے اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور پوچھتا زوباریہ نے اسے ٹوک دیا
جی مانو گا کیونکہ کہ چاچو کہتے میں اچھا بچہ ہوں
وہ تو آپ ہو اور اسے بانہوں میں بھر لیا ولی مجھے بیا نہیں کہا کرو
کیوں ولی نے پیچھے ہوتے ہوئے کندھےاچکائے
کیوں کہ میرا نام زوباریہ ہے اور مجھے اچھا نہیں لگتا کوئی مجھے بیا کہے
اچھا تو تو کنپٹی پر انگلی مارتے ہوئے سوچنے لگا
زوبی کہوں
ہاں ٹھیک ہے
اوکے تو زوبی آپ کے اور کتنے دوست ہیں
دو ہیں ایک آپ اور ایک سارا
بس جی بھر کر حیرانی سے کہا
جی بس
اچھا تو چاچو آپ کے فرینڈ نہیں
نہیں وہ میرے باس ہیں
تودوست بنا لے یقین مانے اچھا دوست ثابت ہوں گا
اسفند نے آخری بات سنی اور اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے اندر آیا
آپ نے جواب نہیں دیا مس زوباریہ
اسفند نے زوباریہ کو سر جھکاتے دیکھا تو بولنے پر اکسایا اور خود زوباریہ کے سامنے بیڈ کے دوسرے کنارے پر بیٹھ گیا
ولی نے بھی پرجوش ہوکر چاچو کا آ گئے کا نعرہ لگایا
سر فائل پر کام ہو گیا اس نے بات بدلی
اسفند نے زوباریہ کو گھورا اور بولا
جی ہو گیا لیکن آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا
ہاں زوبی بتائیں نہ آپ میرے چاچو سے فرینڈشیپ کرے گی
اُْس نے سر اُٹھا کر اسفند کی طرف دیکھا جو آنکھوں میں جذبے لیے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا
زوباریہ جو گھورنے کی نیت سے دیکھ رہی تھی زیادہ دیر جذبے لُٹاتی آنکھوں کی تاب نہ لا سکی اور نظریں جھکا گئی
زوباریہ نے محسوس کیا کہ آج بھی اسکی آنکھوں میں وہی چمک تھی جو اُس دن تھی اور بلا شبہ یہ چمک انہی آنکھوں کے لیے بنی ہے
اور اسفند جو اسی کی طرف متوجہ تھا اسکے نگاہیں اٹھانا اور جھکانے کے بیچ جو حیا کی لالی تھی اس نے اسفند کو مسکرانے پر مجبور کر دیا کیونکہ ایسی کوئی بھی شرم و حیا اس دن بھی اسکی آنکھوں میں نہیں آئی تھی اس دن تو چہرے پر کوئی احساس تک نہیں تھا سپاٹ چہرے ساتھ انکار منہ پر مارا تھا
ولی جو دونوں کی خاموشی سے اکتا گیا تھا بول اٹھا
چاچو آپ زوبی کو دیکھ کر مسکرا کیوں رہے ہیں
کیونکہ یہ شرماتے ہوئے بہت اچھی لگ رہی ہیں
زوباریہ نے سر اٹھایا
اسفند کے کہنے پر ولی نے زوباریہ کی طرف دیکھا
تو زوباریہ کے چہرے پر حیرانی کے ابھرتے تاثرات دیکھ کر دونوں کا بیک وقت قہقہہ کمرے میں گونجا
جہاں زوباریہ شرمندہ ہوتے ہوئے کھڑی ہوئی وہاں ہی کمرے میں آتی مسز ہمدانی اسفند کے قہقہے پر جم کر رہ گئی کیونکہ سکندر بعد وہ ہنستا مسکراتا ضرور تھا پر ایسے قہقہے جو اسکی ذات کا حصہ کھو گئے تھے لیکن آج پانچ سال بعد اس قہقہے پر نہال ہی ہو گئی
_+_+_+_+
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...