May I coming Miss Khan
میراخیال ھے آپ اندر آ چکےھیں سکندر صاحب
جواب دے کےزوباریہ دوبارہ فاعل پہ جھک گی
ohh sorry
مس خان آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا-کرسی کھنچ کے بٹھتے ھوےکہا-
آپ کو نہیں لگتامیں آپکو کل ہی انکار کر چکی تھی سر اٹھاےبغیرکہا-
جی بالکل اور اگر آپ کو یاد ہوتو میں نے آپ کوسوچنےکاوقت دیاتھا-
تو—ابرو اچکا تے ھوے کہا-
تو یہ کے مس خان آپ کا جواب سننے آیا ہوں
دیکھے اسفند – – – – – –
مس زوباریہ میری بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوےکہا-
انکارتوکردیاآپ نےپرمیں انکار کی وجہ جاننے حاضرھواہوں جو آ پ نے کل نہیں بتائی تھی
اورآج بھی نہیں بتاؤں گی
پر کیوں
کیونکہ میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی-
توآپ نےطےکرلیاکہ آپ میرےبارے میں ایک بار بھی نہی سوچے گی
جواب دینے کی بجائے اسفند کے چہرے پہ نظر گارڈ دی-
اسفند زوباریہ کی آنکھوں میں سختی دیکھ کرنرم پڑا-اور کہا
I’m always here and waiting for you
تھوڑی دیر زوباریہ کی آنکھوں میں دیکھتا رہا اور چلا گیا –
_+_+_+_+_+_+_+_+_+_+_+_+_
بیا–
وہ جیسے ہی کالج کے گیٹ سے باہرنکلی اشعر نے اسے آوازدےکے متوجہ کیا
آوازکیطرف متوجہ ہوتے ہی بیا کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گی
آپ یہاں کیسے کب آئے سب ٹھک نہ بھاگ کے اشعر کی طرف آتے ہوئے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ بولی-
باپ رے باپ اتنے سوال وہ بھی ایک ساتھ-
بتائیں نہ اشعر خیریت سےلاہور آےآپ-
کیوں میں نہیں آسکتا کیا-
نہیں میرا مطلب میراخیال کیسے آ گیا-
تمہارا خیال توہرگھڑی ہوتابس تمہیں یقین نہیں آتا –
رات کو تو آپ نے بتایا نہیں کہ کوئی پلان ھےآنےکا
چلتے چلتے گاڑی تک آے
اشعر نے فرنٹ ڈور کھول کتھک کے بیٹھنےکااشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سرپرائز
بھی کوئی چیز ہوتی میڈم
شکریہ اور بیٹھ گئی
اشعر گھوم کے دوسری سائیڈ پہ آ کے بیٹھااوراگاڑی سٹارٹ کی.
اورکون کون آیاھے بیا اشعر کی طرف گھومتے ہوئے بولی
گھر چل کے خودی دیکھ لینا
وہ تو میں دیکھ ہی لوں گی پر آپ بتائیں نہ اشعر، اشعر کے بازو پر دائیں ہاتھ کا زور ڈالتے ہوئے پوچھا –
ا شعر اپنے بازوپر بیا کے ہاتھ کو دیکھ کر آنکھوں میں شرارت لئے مسکرا کے بیا کی طرف جھک کے بولا-
میں اکیلا کافی نہیں کیا
بیا جیجک کے پیچھے ہوئی اور دایاں ہاتھ اشعر کے کندھے پر مارا-دھیان سے گاڑی چلائے- اشعر قہقہہ لگا کے ہنسا اور بیا کا ہاتھ پکڑ کے گئیر پہ اپنے ہاتھ کے نیچے رکھ لیا
_+_+_+_+_+_+_+_+_+_+_
اسلام و علیکم بوا–زوباریہ نے فلیٹ میں آتے ہی بوا کو سلام کیا اور بیگ میز پر پی کھا اور صوفے پہ گر کے لیٹ گئی-بوا کچن سے آئی
وعلیکم السلام! اورہاتھ میں پکڑا پانی کا گلاس زوباریہ کے سامنے میز پر رکھا – بیٹیا چائے لاؤ-
نہیں بوا شکریہ آگے ہو کے گلاس پکڑ ا اور کہنیوں کے بل بیٹھ کے پیا اور پھر لیٹ گئی – وہ بیٹیا———–
جی بوا کہیے کیا بات ھے زوباریہ نے اٹھ کے نےبٹھتے ہوئے پوچھا – وہ بیٹیا کچھ پیسے – – – – – –
بوا آپ کو کتنی بار کہا ھے آپ کو جتنے پیسوں کی ضرورت ہو الماری سے لے لیا کرے یوں پیسے مانگ کے مجھے شرمندہ نہ کیا کریں جائیں لے لئے-زوباریہ نے بوا کی بات بیچ میں کاٹتے ہوئے کہا_
وہ صرف دو – – – – بوا پلیز
اللہ خوش رکھے – اور کچن کی طرف چلی گئی –
_+_+_+_+_+_
اسلام و علیکم؛ بیا نےگھر داخل ہوتےہی سلام کیا اورایک ہی چھلانگ پہ بھاگ کے خالہ کے گلے لگ گئی – خالہ جو سلام کی آواز پہ موڑیں ہی تھی کہ بیا کے اچانک گلے لگنے پہ بھونچلا گئی سمجھ آنے پر اپنے بازو بھی بیا کے گرد پھیلا لئے-
کیسی ہے میری چندا-
ارے ارے لڑکی کچھ تو ہو ش کے ناخن لو اس نومبر 22 کی ہو جائو گی پر مجال ہے کوئی کام ڈنگ کا ہو-آپا بس بھی کریں کیوں میری بچی کو ڈانٹ رہی ہے – بیا نے گردن اکڑا کے اماں کو دیکھا جیسے کہہ رہی ہو اب ڈانٹے—اماں سر پہ ہاتھ مار کے رہ گئی
باہر سے آتے اشعر نے یہ سب د یکھا تو بیا کے بچپنے پہ مسکرا دیا-
نواز منزل میں نواز حبیب خان کا خاندان آباد ہیں جن میں اُن کی بیوی سفینہ نواز اور تین اُلادیں ہیں- جو کے کپڑے کا کاروبار کرتے تھے-بڑے بیٹے زاور نواز جو کے میٹرک کے بعد نواز صاحب کا کاروبار سنبھالتے ہیں اُن سے چھوٹے زمان نواز ایم بی اے کرنے کے بعد بینک میں جاب کرتے ہیں سب سے چھوٹی اور سب کی لاڈلی بیا ہے جو والد کی وفات کے بعد بھائیوں کی جان ھے- جہاں بھائی جان چھڑکتے وہیں بڑی بھابھی عائشہ اور چھوٹی شزا دونوں چھڑتی تھیں بیا کے بچپنے سےاور بیا بھی جان بوجھ کر تنگ کرتی تھی ۔
اسلام وعلیکم اینڈ Good Morning-
اپنی گاڑی سے نکل کے چابی چوکیدار کو دی اور آگےبڑھی ہی تھی کہ کوئی برابر میں چلتے ہوئے بولا –
واعلیکم سلام بنا دیکھے جواب دیا- کیسی ہیں اسفند نے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا- اللہ کا شکر ہے ٹھیک ہوں اور لیفٹ میں داخل ہو گئ – میں بھی ٹھیک ہی ہوں – اسفند نے بھی لیفٹ میں داخل ہو کے کہا زوباریہ نے اُبُر اُچکا کے دیکھا-وہ میں سوچا آپ نے تو حال چال پوچھنا نہیں میں خودی بتا دوں اور مطلوبہ فلور کا بٹن دبایا-
آفس میں دونوں آگے پیچھے داخل ہو کے اپنے اپنے کیبن کی طرف بڑھے تو کئی نظروں نے دونوں کاپیچھا کیا – زوباریہ اپنے کیبن میں آ کے بیٹھی تھی جب–
تم کیا آج اسفند سر کے ساتھ آئی ہو تم دونوں کی بڑی دوستی نہیں ہو گئی – سا را نے کیبن میں پاؤں رکھتے ہی بولنا شروع کر دیا اور زوباریہ کو دیکھا جو اُسی کو گھور رہی تھی – آنکھیں اُچکا کے پوچھا کہ ایسے کیوں گھور رہی ہو بتاؤ بھی-نہیں میں سوچ رہی ہوں تمہارے سلام کا جواب دوں پہلے یا سوالوں کا-اگر تو مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہو تو میں بتا دوں وہ میں ہوں گی نہیں اب بتاؤ-ویسے میں نے کوشش نہیں سچ میں شرمندہ کرنا چاہا تھا خیر میں اپنی گاڑی میں آئی ہوں بس آفس آنے کی ٹائمنگ سیم ہو گئیں زوباریہ نے مسکرا کے کہا اور کمپیوٹر آن کرنے لگی-اب کیا ھے سارا جو ابھی تک ٹیبل پر چڑھ کر بیٹھی تھی سے کہا-زوبی میں سوچ رہی ہوں اسفند سر نے ابھی شادی کیوں نہیں کی34 33 کے تو ہوں گے- زوباریہ کی بات کا نوٹس لئے بغیر کہا- زوباریہ اپنی کرسی سے اُٹھی دروازے تک گئی دروازا کھولا اور کہا وہ سامنے سر اسفند کا کیبن ہے جاؤاور جا کے پوچھ لو- تم مجھے اپنے کیبن سے نکل جانے کا کہہ رہی ہو سارا غصے سے بولی -زوباریہ نے کوئی نوٹس لئے بغیرہاں میں سر ہلایا-ٹیھک ہے اب کبھی نہیں آؤ گی غصے سے پاؤں پھٹکتے ہوئے کہا-مہربانی ہوگی زوباریہ نے اور چڑاتے ہوئے کہا تو سارا واک آوٹ کر گی زوباریہ نے دروازہ بند کیا اور اپنی کرسی پر آ کے کام میں لگ گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ابھی تھوڑی دیر بعد سارا اُس کے کیبن میں ہو گی
– +-+-+-+-+-+-
اشعر عظیم، عظیم صاحب اور روبینہ عظیم کی سب سے بڑی آولاد ہے جو کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز ہیں اُن سے چھوٹے اطہرعظیم جو کہ ایم بی بی ایس کے فائنل ائیر کے سٹوڈنٹس ہے؛ پھرارم عظیم جو بیا کی ہم عمر ہےاور عظیم صاحب کے دوست کے بیٹے ساتھ منسوب ہے اورسب سے چھوٹے اظہر عظیم جو ایف ایس سی پارٹ ٹو کے سٹوڈنٹس ہیں – یہ خاندان اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں آباد ہیں
یار یہ امی کب آئے گی اطہر نے کپڑے استری کرتے ہوئے کہا – بھائی صبح سے پانچویں دفعہ پوچھ چکے ہوں اظہر نے سکون سے جواب دیا –
مجھے سمجھ نہیں آ رہی کےتمہے امی اتنی یاد کیوں آ رہیں ہیں جبکہ امی صبح ہی تو گئی ہیں ارم ڈائنگ ٹیبل پر کھانے کے برتن لگاتی ہوئی بولی- ارے اپیا سمجھا کرو کالج سے آتے ہی کپڑے استری ہو رہے ہیں – اووو تو موصوف کی پاکٹ منی ختم ہو گئی ہےاور دوستوں ساتھ پلان ہوگااظہر کے دھیان دلانے پر ارم بھی سمجھ گئی -ارے واہ جب سے منگنی ہوئی ہے تم تو عقل مند ہو گئی ہوارم عالم -اطہر نے ارم کو چڑایااور ارم چڑ بھی گئی اور پاؤں پٹکھا کے رہ گئی – جب سے اُس کی منگنی عالم سے ہوئی تھی اطہر ارم کو ارم عالم کہہ کے ہی چھیڑتا تھا.
زہر لگ رہے ہو اس شرٹ میں- اطہر جو کے میرون ٹی شرٹ ساتھ بلو جینز میں شہزادوں سی چھب لئےریڈی ہو کے باہر آیا تو ارم نے جلے دل کے پھپھولےپھولے-
مجھے نہ تم پر اب ترس آ رہا ہے – اطہر بُرا مانے بنا آیا اپنی کہنی ارم کے کندھے پر رکھ کے کہا-ارم نے بازو جھٹکا اور بولی وجہ – وہ کیا ہے نہ کے عالم بھائی کی بے ڈھنگی پرسنیلٹی دیکھ دیکھ کر مجھ جیسے پرسنیلٹڈ لوگ زہر ہی لگے گے-اظہر کے قہقہے نےارم کو شاک سے نکالا اور غصے سے اظہر کو گھور کےبولی خبردار
جو کسی نے عالم کو کچھ کہا ورنہ——
ورنہ کیا کر لو گی بولو
میں – – – – – – – – – – غصے سے بات پوری نہیں کر پا رہی تھی کہ پیچھے سے اظہر بولا اپیا آپ کو عالِم بالا پہنچا دے گی جیسے آپ اپنے مریضوں کوپہنچائے گے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا-
اچھا اچھا پھر تو بچنا ہو گا اور داخلی دروازے کی طرف بڑھ گیا. اور عین دروازے کے پاس موڑ کے بولا ویسے ارم تم عالم بھائی کو سمجھاتی کیوں نہیں – کیا سمجھاؤارم نے آبرو اُچکا کے پوچھا
یہی کے وہ جیم جائن کر لے-کیوں
اس سے کیا ہوگا – عالم بھائی کی بھی دو ماہ میں تھوڑی پرسنیلٹی نکل ہی جائے گی اورباہر کی طرف دوڈ لگا دی – ارم کو جب تک سمجھ آئی اطہر غائب ہو چکا تھا اور غصے سے اظہر کے کندھے پر ہاتھ مارا جو سر جھکائے ہنس رہا تھا –
– +-+-+-+-+-+-+-+-
خالہ سچ میں دو ماہ بعد ارم کی شادی ہیں کتنا مزا آئے گاپر خالہ میں ابھی میں ساری شاپنگ کرنی ہے اور اگلے ماہ میرے فائنل سمسٹر بھی ہے میں شاپنگ کروں یا امتحان کی تیاری کروں – ارے کیا ہو گیا میری بیا کا منہ کیوں پُھلا ہوا-زاور بھائی نے لاؤنج میں داخل ہوتے بیا کو منہ پُھلاتے ہوئے دیکھ کر کہا. پھر خالہ پر نظر پڑی تو سلام کے خالہ سے پیار لے کے واپس بیا پاس آئے – کیا ہوا-بھائی ارم کی شادی ہے اور میرے فائنل امتحان بھی دونوں کی تیاری کرنی کیا کروں -اندر آتی عائشہ بھابھی نے سُنا تو بولی مشکل کیاہے بیا پہلے امتخان دو پھر جو دس پندرہ دن بچ جائے گے اُن میں ساری شاپنگ کر لینا – لیکن بھا بھی اتنی شاپنگ اتنے سے دنوں میں کیسے ہو گی-سب ہو جائے گا تم جا کے کھانہ لگواؤ-جیسےہی بیا باہر نکلی خالہ بولی زاور بچے مجھے کچھ بات کرنی-جی خالہ کہیے-وہ بیٹا ہم چاہتے ہیں کہ ارم کی مہندی پر اشعر اور بیا کی باقاعدہ منگنی کر دی جائےآپا نے تو سب تم پر چھوڑ دیا ہے تم کیا کہتے ہو-خالہ یہ تو اچھی بات ہے مجھے کیا اعتراض ہو سکتا.اشعر فریش ہو کے آیا تو زاور کو دیکھ کراُس سے بغلگیر ہوا؛i
لو اشعر شاعر کو تو کوئی اعتراض نہیں تم دونوں کی منگنی پہ-شکریہ شاعر بھائی اور پھر گلے لگ گیا. پھر کھا نا لگنے کی اطلاع پر سب ڈائریئنگ روم کی طرف چل دیئے
– +-+-+–
آ جائیں؛ دستک کی آواز پر سر اُٹھائے بنا کہا- اسفند سر یہ فائل زوباریہ نے میز پر فائل رکھ کر جانے لگی کے پیچھے سے آواز آئی مس خان بیٹھے مجھے کچھ انفارمیشن چاہیے – ویسے تو اس فائل میں سب موجود ہے پھر بھی کہے- اُس کے بیٹھتے ہی اسفند کھڑا ہوا اور زوباریہ سے دو قدم کے دوری پر میز پر بیٹھ کر فائل کھولی اور پینسل سے دو چار جگہ انڈرلائن کیا اور کچھ لکھ کر فائل زوباریہ کی طرف بڑھائی – فائل کو دیکھ کر اُس کا رنگ اُڑ گیا ایزی ایزی میرا مقصد آپ کو پریشان کرنا نہیں بلکہ آپ کی مِسٹیک کو پوئنٹ آوٹ کرنا تھا بس اسفند جو کے بغور اُسی کو دیکھ رہا تھا زوباریہ کی اُڑتی ہوئی رنگت دیکھ کر بول پڑا – لیکن سر یہ کیسے ہو سکتا ہے مس خان آپ نے لاسٹ منتھ دو چھٹیاں کی تھی اور اُن دو دنوں میں جو ٹرانزیکشن ہوئی کیا آپ نے اُن کو بیلنس شیٹ میں اِیڈ کیا-جی سر نجمی صاحب نے میری غیر موجودگی میں ہوئی ٹرانزیکشن کی رپورٹ دی تھی اور میں خود ایڈ کیایہ دیکھے اور فائل پر ہاتھ رکھ کر بتایا، اسفند نے فائل کو دیکھا اور بولا مس خان کیا یہ اچھا نہیں کے آپ ایک بار پھر فا ئل کو ریچیک کر لے کیونکہ مجھے بار بار ایک ہی بات کو دوہرانا پسند نہیں – زوباریہ نےفائل اُٹھائی اور غصے سے دروازہ بند کر کے سیدھا سارا پاس آئی اور فائل ٹیبل پر دے ماری – سارا نے سر سے پاؤں تک زوباریہ کو دیکھا اور بولی کیا زیادہ عزت افزائی ہوئی ہیں- زوباریہ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی آفس بوئے دستک دے کر آیا زوباریہ میڈم اسفند سر کہہ رہے ہیں یہ فائل بھی آج ہی ریچیک کر کے دیں- لو جی ایک اور سیاپا آ گیا زوباریہ سر پکڑ کے کرسی پر بیٹھ گئی-جب تم اُنہیں لیفٹ نہیں کراؤ گی تو وہ اپنا غصہ تو نکالے گئے تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے اور اپنے کیبن کی طرف چل پڑی میڈم فائل تو لے جائے سارا نے آواز لگائی زوباریہ موڑیں فائل اُٹھائی اور سارا کے سر پر مار کے باہر نکل گئی –
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...